صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کا اخلاص و وفا
خطبہ جمعہ 25؍ مئی 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’مَیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے مَیں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے۔ میری طرف سے کسی امر کا ارشاد ہوتا ہے اور وہ تعمیل کے لئے تیار‘‘۔
فرمایا: ’’حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو‘‘۔ فرمایا کہ ’’حضرت مسیحؑ کو جو مشکلات اور مصائب اٹھانے پڑے، ان کے عوارض اور اسباب میں سے جماعت کی کمزوری اور بیدلی بھی تھی‘‘ (یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا)۔ فرماتے ہیں کہ ……’’اس کے برخلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے وہ صدق و وفا کا نمونہ دکھایا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی۔ انہوں نے آپ کی خاطر ہر قسم کا دکھ اٹھانا سہل سمجھا۔ یہاں تک کہ عزیز وطن چھوڑ دیا۔ اپنے املاک و اسباب اور احباب سے الگ ہو گئے اور بالآخر آپ کی خاطر جان تک دینے سے تأمل اور افسوس نہیں کیا۔ یہی صدق اور وفا تھی جس نے ان کو آخر کا ر بامرا د کیا۔ اسی طرح مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری جماعت کوبھی اس کی قدر اور مرتبے کے موافق ایک جوش بخشا ہے اور وہ وفا داری اور صدق کا نمونہ دکھاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ نمبر223-224۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں اپنے لئے خدا تعالیٰ کے نشانات کا ذکر فرماتے ہوئے چھہترویں نشان میں فرماتے ہیں کہ:
’’براہین احمدیہ میں میری نسبت خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی ہے اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِنِّیْ وَلِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ۔ یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا۔ اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا۔ یہ اُس وقت کا الہام ہے جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا۔ پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی۔ بعض نے میرے لئے جان دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دئیے گئے اور ستائے گئے اور ہزارہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ239-240) (یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ایک مخلص صحابی حضرت سیدناصر شاہ صاحب اوور سیئر کے ایک خط کا ذکر فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ جنہوں نے لکھا ہے کہ) ’’میری بڑی تمنا یہ ہے کہ قیامت میں حضور والا کے زیر سایہ جماعت بابرکت میں شامل ہوں جیسا کہ اب ہوں۔ آمین۔ حضور عالی! اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ خاکسار کو اس قدر محبت ذات والا صفات کی ہے کہ میرا تمام مال وجان آپ پر قربان ہے اور مَیں ہزار جان سے آپ پر قربان ہوں۔ میرے بھائی اور والدین آپ پر نثار ہوں۔ خدا میرا خاتمہ آپ کی محبت اور اطاعت میں کرے۔ آمین۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ240حاشیہ)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’جب مَیں اس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا! درحقیقت ذرّہ ذرّہ پر تیرا تصرف ہے۔ توُنے ان دلوں کو ایسے پُر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی، یہ تیری قدرت کا نشانِ عظیم الشان ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ240)
اس وقت مَیں بعض ایسے مخلصین کی اپنی روایات پیش کروں گا جو وفا اور عقیدت اور محبت اور اطاعت کے جذبے سے پُر ہیں۔ بعض باتیں بظاہر معمولی لگتی ہیں، بہت چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں۔ انسان سمجھتا ہے کہ یہ کونسی اطاعت ہے، ذرا سی معمولی بات ہے۔ لیکن ہر اطاعت کا جو واقعہ ہے اس میں ایک گہرا سبق ہے۔ اس عشق و وفا کی وجہ سے جو ان صحابہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھا، کس طرح خوش دلی سے وہ آپ کی کامل اطاعت کیاکرتے تھے۔ یہ سب باتیں جو ہیں ہم سب کے لئے نمونہ بھی ہیں۔ حقیقت میں یہی سچی فرمانبرداری اور تعلق ہے جو پھر تقویٰ میں بھی ترقی کا باعث بنتا ہے اور جماعت کی اکائی اور ترقی کا بھی باعث بنتا ہے۔
حضرت فضل الٰہی صاحبؓ ریٹائرڈ پوسٹ مَین فرماتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے میری ترقی کا حکم صادر ہوا تو مَیں نے حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ حضور میری ترقی ہو گئی ہے اور مَیں یہاں سے (اب) جا رہا ہوں، اب ٹرانسفر بھی ہو جائے گی۔ حضور نے فرمایا کہ دیکھو فضل الٰہی! یہاں لوگ ہزاروں روپیہ خرچ کر کے آ رہے ہیں (یعنی قادیان میں ) اور تم ترقی کی خاطر یہاں سے جا رہے ہو۔ یہیں رہو، ہم تمہاری کمی پوری کر دیں گے۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ حضور کے حسبِ ارشاد میں نے جانے سے انکار کر دیا۔ اور پھروہیں رہا اور مالی منفعت جو تھی اُس کو قربان کر دیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ315 روایات حضرت فضل الٰہی صاحبؓ)
حضرت مفتی فضل الرحمن صاحب فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام گورداسپور مقدمے کی تاریخوں پر تشریف لے جاتے تھے تو مجھ کو ضرور اردل میں رکھا کرتے تھے، اُس زمانے میں یکّے ہوتے تھے۔ جب آپ صبح کو روانگی کے لئے تشریف لاتے تو فرماتے، میاں فضل الرحمن کہاں ہیں؟ اگر مَیں حاضر ہوتا تو بولتا ورنہ آدمی بھیج کر مجھے گھر سے طلب فرماتے کہ جلدی آؤ۔ حضور کا یکّہ ہمیشہ مَیں ہی چلاتا۔ یکّہ بان کو حکم نہ تھا کہ چلائے۔ مَیں یکّہ بان کی جگہ بیٹھ جاتا اور میاں شادی خان صاحب مرحوم میرے آگے ساتھ بیٹھ جاتے اور یکّہ کے اندر اکیلے حضور ہی تشریف رکھتے۔ مقدمے کے دوران جب یہ سفر ہوا کرتا تھاا س دوران میں میرا دوسرا بچہ بیمار ہو گیا اور اُس کو ٹائیفائیڈ ہو گیا۔ حضور اکثر اُس کو دیکھنے کے لئے تشریف لاتے تھے۔ تاریخ مقدمہ سے ایک دن قبل میری بیوی نے کہا کہ حضور کو دعا کے لئے لکھو۔ مَیں نے کہا جبکہ آپ ہر روز دیکھنے کو تشریف لاتے ہیں تو لکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ مگر اُس نے اصرار کیا تو مَیں نے عریضہ لکھ دیا، خط لکھ کے ڈال دیا۔ حضرت نے اس پر تحریر فرمایا کہ مَیں تو دعا کروں گا پر اگر تقدیرِ مبرم ہے تو ٹل نہیں سکتی۔ یہ الفاظ پڑھ کر میرے آنسو نکل آئے۔ بیوی نے پوچھا: کیوں؟ مَیں نے کہا اب یہ بچہ ہمارے پاس نہیں رہ سکتا۔ اگر اس نے اچھا ہونا ہوتا تو آپ یہ نہ لکھتے۔ خیر دوسرے دن صبح کو روانگی تھی، سب لوگ چوک میں کھڑے تھے منتظر تھے کہ حضور برآمد ہوئے اور کسی سے کوئی بات چیت نہیں کی اور سیدھے میرے گھر تشریف لے آئے۔ بچے کو دیکھا، دَم کیا اور مجھے فرمایا کہ آج تم یہیں رہو۔ مَیں کل آ جاؤں گا۔ بچے کی حالت تشویشناک ہے۔ چنانچہ مَیں رہ گیا۔ حضور کے سارے سفروں میں صرف یہ ایک دن تھا کہ مَیں معیت میں نہ جا سکا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 446-447روایات حضرت مفتی فضل الرحمان صاحبؓ)
بچے کا جو افسوس تھا وہ تو ہے لیکن ایک دن نہ جانے کا، سفر میں معیت نہ ہونے کا بھی بڑا واضح افسوس نظر آتا ہے۔
حضرت حافظ عبدالعلی صاحب ولد مولوی نظام الدین صاحب فرماتے ہیں کہ’’زبانی حضرت میر محمد اسمٰعیل ریٹائرڈ (جو اُس وقت طالبعلم تھے) سول سرجن معلوم ہوا کہ آپ جب لاہور میڈیکل کالج میں پڑھنے تشریف لائے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ آپ لاہور میں مکان میں اکیلے نہ رہیں بلکہ اپنے ساتھ کسی کو ضرور رکھیں۔ اس ارشاد کے ماتحت حضرت میر صاحب اکیلے کبھی کسی شہر میں (جہاں تک میں دیکھتا رہا) نہ رہے، اُس وقت بورڈنگ میڈیکل کالج کوئی نہ تھا۔ میر صاحب کرایہ کا مکان لے کر رہتے تھے‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ217روایات حضرت حافظ عبد العلی صاحبؓ)
اور پھر صرف ایک دفعہ حکم نہیں سمجھا بلکہ کہتے ہیں زندگی میں ہمیشہ جب بھی مَیں نے دیکھا، جہاں بھی رہنا پڑا، کسی نہ کسی کو ضرور ساتھ رکھا کرتے تھے۔
حضرت ملک شادی خان صاحبؓ ولد امیر بخش صاحب فرماتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ میاں جمال دین صاحب مرحوم کے ساتھ قادیان میں آیا اور مسجد مبارک میں جب ہم آئے تو ظہر کا وقت تھا۔ حضرت صاحب نماز کے لئے جو تشریف لائے تو میں نے حضرت صاحب سے مصافحہ کیا۔ میرے کانوں میں مُرکیاں پڑی ہوئی تھیں (چھوٹے چھوٹے چھلے تھے) تو حضور نے فرمایا کہ ’’یہ مُرکیاں کیسی ہیں‘‘، مسلمان تو نہیں ڈالتے‘‘۔ میاں جمال دین صاحب نے کہا: حضور! دیہاتی لوگ ایسے ہوتے ہیں کیونکہ ایسے مسائل سے کچھ خبر نہیں ہوتی۔ فرمایا ان کو کانوں سے اُتار دو۔ تو میر ناصر نواب صاحب مرحوم نے بھی کہا کہ جلدی اُتار دو کیونکہ حضرت صاحب نے حکم فرمایا ہے۔ میں نے اُسی وقت اُتار دیں۔ جب نماز عصر کے وقت نماز پڑھنے کے لئے آیا تو حضور نے فرمایا کہ’’اب مسلمان معلوم ہوتا ہے‘‘۔ اُس کے بعد مَیں نے بیعت کر لی‘‘ (اُس وقت بیعت نہیں کی تھی)۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 169 روایات حضرت ملک شادی خاں صاحبؓ)
آجکل بھی بعض لڑکے فیشن میں بعض اُوٹ پٹانگ چیزیں ڈال لیتے ہیں۔ بعضوں نے گلے میں سونے کی چینیں ڈالی ہوتی ہیں۔ یہ ساری چیزیں منع ہیں۔ سونا پہننا تو ویسے ہی مردوں کے لئے منع ہے۔ یہاں کے ماحول کا بعض دفعہ اثر ہو جاتا ہے۔ مَیں نے دیکھا ہے بعض احمدی لڑکے بھی اس قسم کے فیشن کر لیتے ہیں۔ جناب والدہ بشیر احمد صاحب بھٹی ولد عبدالرحیم صاحب بھٹی فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام نے گھر میں تھوڑے سے چاول پکوائے (یعنی پلاؤ) اور حضرت کے حکم سے حضرت امّ المومنین نے اُن دنوں یہاں قادیان میں جتنے احمدی گھر تھے سب گھروں میں تھوڑے تھوڑے بھیجے۔ وہ چاول برکت کے چاول کہلاتے ہیں اور حضور کا حکم تھا کہ گھر میں جتنے افراد ہیں اُن سب کو کھلائیں۔ (یعنی کہ جس جس گھر میں بھیجے تھے اُن کو کہا کہ ہر گھر والا چاول کھائے) چنانچہ کہتے ہیں۔ بڑے قاضی صاحب نے اپنے بڑے لڑکے بشیر احمد کے والد عبدالرحیم صاحب کو جو ان دنوں جمّوں میں ملازم تھے لفافے میں چند دانے کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دئیے‘‘۔ اب گھر کے افراد کے لئے حکم تھاکہ اُن کو یہ چاول کھلاؤ اور اس حکم کی اتنی حد تک تعمیل کی کہ کیونکہ میرا بیٹا ہے اور وہ وہاں موجودنہیں تھا تو اُس کو ایک لفافے میں کاغذ کے ساتھ چپکا کر بھیج دئیے ’’اور خط میں لکھ دیا کہ اتنا کونہ جس میں چاول چپکائے ہوئے ہیں، کھا لینا‘‘۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 350 روایات جناب والدہ بشیر احمد صاحب بھٹی)
یہ تھی اطاعت اور محبت۔
حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور آخری بار لاہور تشریف لے گئے تو میرے والد صاحب کو خط لکھ کر منگوا لیا۔ والد صاحب جب لاہور پہنچے تو خواجہ کمال الدین صاحب نے اُن کو کہا کہ میاں غلام رسول! تم ہمارا یہاں کیا سنوار رہے ہو، (یعنی کیوں آئے ہو تم) والد صاحب نے حضرت صاحب کا خط نکال کر دکھایا اور فرمایا کہ اس شخص سے پوچھو جس نے خط لکھ کر مجھے بلایا ہے۔ پھر حضور سے ملاقات کی اور حضور کی حجامت بھی بنائی، مہندی بھی لگائی نیز خواجہ صاحب کی بات کا بھی ذکر فرما دیا۔ حضرت صاحب نے ایک پرچہ لکھ کر دیا جس پر وہ پرچہ والد صاحب نے نیچے جا کر دکھایا اور تمام لوگ خاموش ہو گئے پھر کسی نے ذکر نہیں کیا۔ پھر حضور نے یہ بھی پیار کا اظہار کیا کہ میرے والد صاحب کو پانچ روپے بھی دئیے اور فرمایا کہ آپ کو تو مَیں نے بلایا ہے، آپ ان کی باتوں کی پرواہ نہ کریں۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ41-42۔ روایات حضرت میاں عبدالغفار صاحب جراحؓ)
یعنی یہ محبت کا جذبہ صحابہ کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اُس سے بڑھ کر سلوک فرمایا کرتے تھے۔
حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حافظ صاحب جب قادیان آئے تو حقہ بہت پیا کرتے تھے اور چوری چوری میاں نظام الدین صاحب کے مکان پر جا کر پیا کرتے تھے۔ یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رشتہ دار تھے لیکن بڑے سخت مخالف تھے۔ حضرت صاحب کو بھی پتہ لگ گیا۔ فرمایا میاں حامد علی! یہ پیسے لو اور بازار سے ایک حقہ خرید لاؤ اور تمباکو بھی لے آؤ اور جب ضرورت ہو، گھر میں پی لیا کرو۔ ان لوگوں کے پاس نہ جایا کرو۔ (کیونکہ یہ لوگ تو اسلام کے بھی منکر تھے)۔ چنانچہ وہ حقہ لائے اور پیتے رہے۔ مہمان بھی وہی حقہ پیتے تھے۔ چھ سات ماہ کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا میاں حامد علی! یہ حقہ اگر چھوڑ دو تو کیا اچھی بات ہے۔ حافظ صاحب نے کہا کہ بہت اچھا حضور، چنانچہ انہوں نے حقہ چھوڑ دیا فوراً۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ72-73۔ روایات حضرت شیخ زین العابدین برادر حافظ حامد علی صاحبؓ)
پہلے بری صحبت سے بچانے کے لئے ایک عارضی ترکیب یہ کی کہ عارضی انتظام کر دیا کہ جاؤ، اپنا حقہ لے آؤ اور گھر میں پی لیا کرو۔ اور جب ایک وقت گزر گیا پھر فرمایا کہ کیونکہ یہ ایسی چیز ہے جو صحت کے لئے بھی مضر ہے اور بد عادات میں مبتلا کر دیتی ہے اس لئے اس کو چھوڑ دو تو بہتر ہے۔ اس سے کوئی یہ مطلب نہ لے لے کہ کیونکہ ایک دفعہ انتظام کر دیا تھا اس لئے بات جائز ہو گئی۔ سگریٹ نوشی اور یہ چیزیں جو ہیں عموماً ایسی بُری عادتیں ہیں جن کو چھوڑنا بہتر ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ تمباکو وغیرہ ہوتا تو یقینا اس سے آپ منع فرماتے۔
حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک سیٹھ صاحب تھے، اُن کا ذکر کرتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ تشریف لائے تو حضرت اقدس نے مجھے بلا کر فرمایا کہ میاں غلام حسین! سیٹھ صاحب کی خدمت کے لئے پیرا اور میاں کرمداد کو تو مَیں نے لگایا ہوا ہے مگر وہ سیدھے سادے آدمی ہیں، اس لئے آپ بھی خیال رکھا کریں۔ پیرا کے سپرد یہ خدمت تھی کہ وہ بازار سے اُن کے لئے اشیاء خرید لایا کرے اور چونکہ وہ تمباکو پیتے تھے کرمداد اُن کو حقہ تازہ کر دیا کرتا تھا۔ مجھے حضور نے ان دونوں کی نگرانی کے لئے مقرر فرمایا اور فرمایا کہ آپ بھی ان کا بہت خیال رکھا کریں۔ بڑے معزز آدمی ہیں اور دور سے بڑی تکلیف اُٹھا کر آتے ہیں۔ سیٹھ صاحب مجھے فرمایا کرتے تھے کہ میاں غلام حسین! ٹھنڈا پانی چاہئے۔ مَیں دوڑ کر بڑی مسجد سے اُن کے لئے تازہ پانی نکال کر لے آتا۔ اُن کا کھانا بھی اندرسے پک کر آیا کرتا تھا۔ مَیں ہی اُنہیں کھلایا کرتا تھا۔ وہ قریباً ایک ماہ سے لے کر ڈیڑھ ماہ تک رہا کرتے تھے۔ حضرت صاحب وقتاً فوقتاً خاکسار سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ سیٹھ صاحب کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مسجد میں مسکرا کر سیٹھ صاحب سے دریافت کیا کہ سیٹھ صاحب! آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ حضور! کوئی تکلیف نہیں۔ میاں غلام حسین تو پانی بھی مسجد سے لا کر دیا کرتے ہیں۔ حضرت صاحب سیٹھ صاحب کو رخصت کرنے کے لئے دارالصحت تک تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب حضرت صاحب واپس لوٹتے تو مجھے، پیراں دتہ اور کرمد اد کو بلا کر دو دو روپے ان دونوں کو اور مجھے پانچ روپیہ دیا کرتے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ89-90۔ بقیہ روایات ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ)
خدمت اور اِکرامِ ضیف مہمان کی خدمت جو ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کی تعمیل میں تو سب کرتے ہی تھے۔ ایک تو ویسے بھی حکم ہے کہ مہمان کی مہمان داری کرنی چاہئے لیکن یہاں خدمت کا ثواب کمانے کے لئے اور دوسرے محبت اور اطاعت کا اظہار کرنے کے لئے ایک اور فرض بھی بن گیا تھا۔ حضرت مولوی عزیز دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے مفتی محمد صادق صاحب نے جو اُس وقت لاہور میں ملازم تھے، صبح کے وقت جانے کی اجازت مانگی۔ حضرت صاحب نے فرمایا: آپ نہ جائیں، آج یہیں رہیں۔ پھر مفتی صاحب نے دوپہر کے وقت عرض کی کہ حضور! نوکری کا کام ہے۔ آج پہنچنا ضروری تھا۔ اب تو وقت بھی گزر گیا ہے۔ حضرت صاحب نے فرمایا: وقت کی کوئی فکر نہ کریں، آپ ابھی چلے جائیں انشاء اللہ ضرور پہنچ جائیں گے۔ مفتی صاحب بٹالہ کی طرف روانہ ہو گئے اور میں بھی ان کے ساتھ بٹالہ چلا۔ وقت چار بجے کا ہو گیا۔ ان ایام میں بٹالہ سے لاہور کو دو بجے گاڑی جایا کرتی تھی۔ مایوس تو سبھی تھے مگر جب اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ گاڑی دو گھنٹے لیٹ ہے۔ چنانچہ وہ گاڑی آئی اور ہم سوار ہو کر لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہ جلسہ کے ایام کی بات نہیں، بلکہ کوئی اور وقت تھا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ215-216۔ روایات مولوی عزیز دین صاحبؓ)
حضرت میاں عبدالعزیز صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میاں چراغ دین صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ اتوار کے دن مَیں نے حضرت صاحب سے اجازت مانگی کہ حضور! مجھے دفتر حاضر ہونا ہے۔ حضرت صاحب اکثر اجازت دے دیا کرتے تھے مگر اُس دن اجازت نہ دی۔ پیر کے دن صبح اجازت دی۔ یہاں سے گیارہ بجے گاڑی پر سوار ہو کر تین بجے لاہور پہنچے اور سیدھے ٹم ٹم میں بیٹھ کر ساڑھے تین بجے دفتر پہنچے۔ کرسی پر بیٹھے ہی تھے۔ (اب یہاں دیکھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم اور اطاعت کی وجہ سے رُکے تھے، اللہ تعالیٰ نے کس طرح یہ سلوک کیا اور عجیب معجزانہ واقعہ ہوا ہے) کُرسی پر بیٹھے ہی تھے کہ دفتر کا کوئی کلرک آیا اور کہنے لگا کہ بارہ بجے آپ کو کاغذ دئیے تھے، وہ کام آپ نے کیا ہے یا نہیں۔ (حالانکہ یہ پہنچے ہی تین بجے تھے) پھر ایک افسر آیا۔ اُس نے کہا چراغ دین! گیارہ بجے جو آپ نے چھٹی دی تھی یہ اُس کا جواب ہے۔ (یعنی اُس افسر کے پاس ایسا انتظام اللہ تعالیٰ نے کیا، کوئی بھی چھٹی لے کر گیا تھا وہ سمجھے کہ چراغ دین لے کے آئے، یا بہر حال اللہ تعالیٰ کے فرشتوں نے کام کیا)۔ فرمانے لگے کہ دفتر کا ہر شخص یہی سمجھتا تھا کہ مَیں دفتر میں ہی ہوں، چنانچہ چار بجے شام میں دفتر سے گھر چلا گیا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ234۔ روایات میاں عبدالعزیز صاحب آف لاہور)
یہ بھی اطاعت اور فرمانبرداری اور پھر صحابہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا جو سلوک تھا، اُس کی ایک مثال ہے۔
حضرت میر مہدی حسین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ ہمارے لنگر میں ایندھن نہیں ہے۔ تم دیہات سے اوپلے خرید کر لاؤ اور آج شام تک پہنچ جائیں۔ کیونکہ کل کے لئے لنگر خانے میں ایندھن نہیں ہے۔ اور چار روپے مجھے خریدنے کے لئے دئیے۔ میں وہ روپیہ لے کر سیدھا مسجد مبارک کی چھت پر چڑھ گیا اور موجودہ منار جو علیحدہ مسجد سے کھڑا ہے اُس کے قریب کھڑے ہو کر دعا کی کہ الٰہی! تیرے مسیح نے مجھے ایک کام کے لئے فرمایا ہے اور مَیں اس سے بالکل ناواقف ہوں۔ مجھے ایسی سمت بتلائی جائے جہاں سے مَیں شام تک اوپلے لے کر یہاں پہنچ جاؤں۔ مجھے منارے کے تھوڑی بلندی کے اوپر سے ایک آواز آئی، آواز سنائی دی کہ’’ریگستان ہے‘‘۔ مَیں نے سمجھا کہ میرے پاؤں میں زخم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے جانے سے روکا ہے۔ مَیں نے دوبارہ عرض کی کہ حضور! (یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کی کہ) مَیں لنگڑا ہی چلا جاؤں گا لیکن تیرے مسیح کا حکم شام تک پورا ہو جائے۔ دوبارہ جواب آیا کہ یہیں آ جائے گا، کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے سجدہ شکر ادا کیا اور کہا کہ اسی طرح مسیح کے کام ہوں گے تو دنیا فتح ہو سکے گی۔ مَیں اسی جگہ بیٹھ گیا اور دعا کرتا رہاکہ الٰہی! ایسا نہ ہو کہ مجھے شام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شرمندہ ہونا پڑے۔ پھر دل میں خیال آیا کہ میں نبی نہیں ہوں، کوئی ولی نہیں ہوں جس کے الہامات ایسے جلدی سچے نکلیں۔ مجھے کہیں جانا چاہئے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ اگر کوئی شخص کسی کی دعوت کرے کہ شام کو ہمارے گھر کھانا کھا لو تو وہ ترددنہیں کرتا۔ مجھے خدا تعالیٰ کے وعدے پر یقین ہونا چاہئے۔ وہ ضرور یہاں ایندھن پہنچا دے گا۔ اس پر میں مطمئن ہو کر مسجد کی چھت پر ہی بیٹھ رہا۔ ظہر کا وقت قریب ہوا، نیچے اُترتے ہی خادمہ نے جس کے سامنے مجھے حضور نے روپیہ دیا تھا، دیکھ لیا اور کہنے لگی کہ تو ابھی تک ’’بالن‘‘ (یعنی ایندھن) لینے نہیں گیا۔ مَیں نے جی میں سوچا کہ یہ حضور کے پاس ہے، اُسے پتہ ہوگا کہ حضور کو الہامات ہوتے ہیں اور پورے بھی ہو جاتے ہیں، اُسے کہا کہ فکرکی بات نہیں، مجھے خدا تعالیٰ نے الہام کیا ہے کہ بالن (یعنی ایندھن) یہیں پہنچ جائے گا۔ اس پر وہ برہم ہو کر کہنے لگی کہ تو یہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہو گا مَیں کہیں نہیں جاؤں گا؟ دیکھو مَیں ابھی جا کے حضرت صاحب سے کہتی ہوں۔ (اس بات کو اُس نے اور رنگ میں لے لیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہاں پہنچ جائے گا۔ اُس نے کہا کہ نہیں جب تک الہام نہیں ہو گا نہیں جاؤں گا)۔ خیر باوجود میرے روکنے کے اُس نے جا کے حضور کو سنا دیا کہ وہ کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہ ہو گا مَیں کہیں نہیں جاؤں گا۔ مجھے یہ فکر ہوئی کہ حضور اب ضرور مجھ سے بلا کر دریافت کریں گے تو مجھے اپنے الہام کا ذکر کرنا پڑے گا۔ ایک فقیر عاجز، بادشاہ کے سامنے کہاں کہہ سکتا ہے کہ مَیں بھی مالدار ہوں (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو الہام ہوتے ہیں، مَیں کس طرح کہہ سکتا ہوں کہ مجھے الہام ہوا ہے) اس لئے میں مسجد کی سیڑھیوں سے اُتر کر بٹالے والے دروازے کی طرف بھاگا اور پیچھے مُڑ کر دیکھا کہ کوئی مجھے بلانے والا تو نہیں آیا۔ بٹالے والے دروازے پر پہنچ کر مَیں نے قصد کیا کہ سیکھواں جا کر ایندھن کی تلاش کروں اور مولوی امام الدین اور خیر الدین صاحبان سے امداد لے کر یہ کام کروں۔ تھوڑی دور چل کر مجھے پھر خیال پیدا ہوا کہ خدا تعالیٰ کا تو حکم ہے کہ یہاں آ جائے گا، مگر میں تو اگر باہر چلا گیا تو روپیہ بھی میرے پاس ہے تو یہ کام کس طرح ہو گا؟ اس لئے میں واپس آ کر مسجد کی چھت پر پھر بیٹھ گیا اور دعا کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ اپنا وعدہ پورا کرے۔ پِیراں دِتہ ایک ملازم حضرت اقدس کا جو پہاڑیہ کہلاتا تھا مجھے دیکھ کر آواز دینے لگا کہ بالن کے(یعنی ایندھن کے) گڈے پہاڑی دروازے پر آئے ہیں، چل کر خرید لو۔ مَیں نے سجدہ شکر ادا کیا اور اُس کے ساتھ جا کر دیکھا تو ایک گڈا اوپلوں کا تھا، باقی لکڑی تھی اور اس گڈے کے لئے بارہ شخص گاہک موجود تھے۔ اور وہ ایک دوسرے سے دو دو آنے بڑھ کر بولی دے رہے تھے اور ایک روپیہ بارہ آنے تک بولی ہو چکی تھی۔ میاں نجم الدین صاحب نے دو آنے بڑھا کر لینا چاہا، مَیں نے ایک آواز دی کہ میں دیکھ لوں کہ اس میں کتنا ایندھن ہے اور گڈے کے گرد پھر کر کہا کہ ایک روپیہ بارہ آنے سے زیادہ اس میں ایک پیسے کا ایندھن نہیں ہے(یا لکڑی اوپلے نہیں ہیں ) جس کی مرضی ہو وہ خرید لے۔ یہ کہہ کر مَیں چلا آیا اور جی میں کہتا تھا کہ الٰہی! بغیر تیرے فضل کے یہ مجھے نہیں مل سکتا۔ میرے چلے آنے پر سب گاہک منتشر ہو گئے اور پیراں دتہ وہاں کھڑا رہا، جب گڈے والا حیران ہوا کہ کوئی لینے والا نہیں تو پیراں دتہ نے کہا کہ میرے ساتھ گڈا لے چلومَیں تم کو ایک روپیہ بارہ آنے دلواؤں گا۔ گڈے والا اُس کے ساتھ ہو لیا۔ مَیں اُس وقت مسجد مبارک پر دعا کر رہا تھا۔ جو مَیں نے سنا کہ پِیراں دِتہّ کہتا ہے کہ گڈا آ گیا، اس کو سنبھال لیں۔ گڈا لنگر خانے میں پہنچا کر مَیں نے سوچا کہ حضرت صاحب کو اطلاع کر دی جائے کہ حکم کی تعمیل ہو گئی ہے۔ مگر دل میں پھر خیال آیا کہ یہ کیا کام ہے جس کی اطلاع دینی واجب ہو گی۔ خود خدا تعالیٰ حضرت اقدس کو بتلا دے گا۔ میرے اطلاع دینے کی ضرورت نہیں۔ صبح کو حضرت اقدس سیر کے لئے تشریف لے گئے۔ جب ڈھاب کی طرف سے ایک سڑک کا معائنہ کر کے جو میر صاحب نے بنوائی تھی، واپس تشریف لائے تو بطور لطیفے کے حضور نے فرمایا کہ یہاں ایک مہدی حسین آیا ہوا ہے، ہم نے اُس کو ایندھن لانے کے لئے کہا تھا مگر وہ شخص کہتا ہے کہ جب تک مجھے الہام نہیں ہو گا(جس طرح اُس عورت نے سنایا جا کے) مَیں یہ کام نہیں کروں گا۔ اس پر سب لوگ ہنس پڑے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ282تا 287۔ روایات میر مہدی حسین صاحبؓ خادم المسیح)
لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھیں، کچھ اُن کی مجبوریاں تھیں اور اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی ذات کا ثبوت دینا تھا۔ کس طرح ان کی دعا کی بھی قبولیت ہوئی اور سارا انتظام بھی ہو گیا۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں دارالامان میں ہی تھا۔ یہ غالباً 1905ء کا واقعہ ہے کہ میاں عبدالحمید خان صاحب کپور تھلوی جو خان صاحب میاں محمد خان صاحب کے فرزند اکبر ہیں۔ وہ میاں محمد خان صاحب جن کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ازالہ اوہام میں خاص الفاظ میں تعریف فرمائی ہے۔ خان صاحب عبدالحمید خان نے مجھے کہا کہ آپ کپور تھلے میں چلیں اور وہاں کچھ روز ہمارے پاس بغرض درس و تدریس اور تبلیغ قیام کریں۔ میں نے عرض کیا کہ میں درالامان میں ہی قیام رکھوں گا اور جانا پڑا تو واپس وطن کو جاؤں گا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اگر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں عریضہ لکھ کر آپ کے نام حکم لکھا دوں تو کیا آپ پھر بھی نہ جائیں گے۔ مَیں نے کہا پھرمَیں کیسے نہیں جاؤں گا۔ پھر تو مجھے ضرور جانا ہو گا۔ چنانچہ انہوں نے ایک رقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لکھا کہ مولوی غلام رسول راجیکی کو ارشاد فرمایا جائے کہ وہ میرے ساتھ کپور تھلہ جائیں اور وہاں درس و تدریس اور تبلیغ کے لئے کچھ روز قیام کریں۔ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رقعہ کے جواب میں زبانی ہی کہلا بھیجا کہ ہاں وہ جا سکتے ہیں۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ پھر مَیں اُن کے ساتھ کپور تھلہ گیا اور وہاں چھ مہینہ کے قریب درس و تدریس اور تبلیغ کا کام کرتا رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت اور حضور کے ارشاد سے یہ پہلا موقع تھا جو مجھے میسر آیا جس میں مَیں نے محض اسلام کی خدمت کے لئے سفر کیا۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ18تا19 روایات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ)
حضرت میاں خیر الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ کرم دین والے مقدمہ کے دوران میں گورداسپور تھا۔ مغرب کا وقت تھا۔ حضور نے فرمایا کہ فیروز الدین صاحب ڈسکوی نہیں آئے۔ (کیونکہ اُن کی صبح شہادت تھی، وہ احمدی نہیں تھے مگر اخلاص رکھتے تھے)۔ پھر حضور نے مولوی صاحب سے فرمایا کہ کوئی ایسا شخص بلاؤ جو مولوی نور احمد لودھی ننگل والے کو جانتا ہو۔ میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور! مَیں جانتا ہوں۔ فرمایا ابھی جاؤ اور کل نو بجے سے پہلے اُن کو ساتھ لاؤ۔ مَیں رات رات پہنچا اور کچھ دیر ایک کھالی پر (پانی کا نالہ جو تھا۔ یہ زمینوں پر پانی لگانے کے لئے ہوتے ہیں ) آرام کیا۔ علی الصبح گاؤں میں پہنچا۔ مولوی صاحب نماز کے بعد طالبعلم کو سبق پڑھا رہے تھے۔ مجھے دیکھ کر دور سے ہی خیریت پوچھی اور فرمایا کیسے آئے؟ مَیں نے کہا گورداسپور سے آیا ہوں۔ حضور نے بلایا ہے۔ مولوی صاحب نے فوراً کتاب بند کر دی اور یہ آیت پڑھی۔ یٰٓا َیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْااسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَا کُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ(انفال: 25) یعنی اے مومنو! اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی بات سنو، جب وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے پکارے۔ کہتے ہیں گھر بھی نہیں گئے۔ سیدھے میرے ساتھ چل پڑے اور نو بجے کے قریب ہم پہنچ گئے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ23روایات میاں محمد خیر الدین صاحب ولد میاں جھنڈا خاں)
حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں شہر کی گشت کی ملازمت پر تھا تو جہاں جاتا، قبور کے متعلق وہاں کے لوگوں اور مجاوروں سے سوال کرتا اور حالات معلوم کرتا اور بعض اوقات اُن کا ذکر حضرت مولانا نورالدین صاحب (یعنی حضرت خلیفہ اوّل) سے بھی کرتا۔ ایک دفعہ مَیں محلہ خانیار (سرینگر) سے گزر رہا تھا کہ ایک قبر پر مَیں نے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو بیٹھے دیکھا۔ مَیں نے اُن سے پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ’’نبی صاحب‘‘ کی ہے۔ اور یہ قبر یوز آسف شہزادہ نبی اور پیغمبر صاحب کی قبر مشہور تھی۔ میں نے کہا یہاں نبی کہاں سے آیا۔ تو انہوں نے کہایہ نبی بہت دور سے آیا تھا اور کئی سو سال قبل آیا تھا۔ نیز انہوں نے بتلایا کہ اصل قبر نیچے ہے۔ اس میں ایک سوراخ تھا جس سے خوشبو آیا کرتی تھی لیکن ایک سیلاب کا پانی آنے کے بعد یہ خوشبو آنی بند ہو گئی۔ میں نے یہ تذکرہ بھی حضرت مولوی صاحب سے کیا (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الاول سے) اس واقعہ کو ایک عرصہ گزر گیا اور جب مولوی صاحب ملازمت چھوڑ کر قادیان تشریف لے گئے تو ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں جس میں حضرت مولوی صاحب بھی موجود تھے، حضرت مسیح موعودنے فرمایا کہ مجھے وَ اٰوَیْنٰھُمَآاِلٰی رَبْوَۃٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ (مومنون: 51) سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ صلیب کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام کسی ایسے مقام کی طرف گئے جیسے کہ کشمیر ہے۔ اس پر حضرت خلیفہ اوّل نے خانیار کی قبر والے واقعہ کے متعلق میری روایت بیان کی۔ حضور نے مجھے بلایا اور اس کے متعلق مجھے مزید تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ میں نے مزید تحقیق کر کے اور کشمیر میں پھر کر پانچ سو ساٹھ علماء سے اس قبر کے متعلق دستخط کروا کر حضور کی خدمت میں پیش کئے، جسے حضور نے پسند فرمایا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ70، 71روایات حضرت خلیفہ نورالدین صاحب سکنہ جموں)
حضرت سید تاج حسین بخاری صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت اقدس سیالکوٹ میر حامد شاہ صاحب کے مکان پر فروکش تھے تو میں حضور کی خدمت میں بوساطت اپنے نانا جان حضرت سید امیر علی شاہ صاحب حاضر ہوا۔ حضور نے اپنی بیعت میں لیا اور فرمایا: قادیان آ کر تعلیم حاصل کرو، تم ولایت کا تاج ہو گے۔ چنانچہ میں 1906ء میں قادیان تعلیم الاسلام ہائی سکول میں داخل ہو گیا اور اکثر حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور کئی بار سیر میں بھی شامل ہوا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ126روایات سید تاج حسین صاحب بخاری بی اے، بی ٹی)
حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ کمترین 1899ء میں ریاست پٹیالہ میں محکمہ بندوبست میں ملازم ہوا اور کام پیمائش کا کرتا رہا۔ شیخ ہاشم علی سنوری گرداور قانون گو تھے۔ ہماری پڑتال کو آیا اور کام دیکھ کر بہت راضی ہوا۔ انہوں نے بیان کیا کہ تمہارے سے قادیان کتنی دور ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تیس کوس ہے۔ شیخ صاحب موصوف نے فرمایا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم ہوں۔ مَیں نے جواب دیا (یعنی اُس وقت یہ احمدی نہیں تھے ناں تو ان کا لہجہ کیا تھا) کہ ایک مرزا صاحب چوہڑوں کا پیر ہے۔ ایک عیسیٰ بن گیا۔ (نعوذ باللہ) اور دولت اکٹھی کر رہے ہیں۔ چند روز گزرے تو موضع ہٹ میں ایک بزرگ ولی اللہ کی مزار دیرینہ ہے (پرانا مزار ہے) جس کانام فتح علی شاہ ہے۔ میری خواب میں اس بزرگ کی مزار میں جنابِ مسیح موعود آئے۔ مَیں نے مسیح موعود کو لوئی بچھا دی۔ حضرت صاحب اوپر بیٹھ گئے۔ مَیں اُن کی خدمت میں حاضر رہا (یہ اپنی خواب کا ذکر کر رہے ہیں ) اور خدمت کرتا رہا۔ ایک ماہ لگاتار یہی حالت رہی۔ اس کے بعد میری خواب میں شاہ فتح علی صاحب مزار والے آئے اور فرمایا کہ امامِ وقت پیدا ہو گیا قادیان میں۔ میں نے عرض کیا کہ مرزا غلام احمد! اس بزرگ نے فرمایا۔ مرزا غلام احمد صاحب۔ میں ایسا خواب خیال سمجھ کر چُپ رہا۔ تھوڑے دنوں کے بعد میری خواب والے بزرگ آئے اور فرمایا کہ تم کیوں نہیں قادیان گئے اور کیوں نہیں بیعت کی۔ جلدی جا کر بیعت کرو۔ میں ارادہ مستقل کر کے رخصت لے کر گھر آیا۔ کچھ خانگی معاملات کی وجہ سے مجھے دیر ہو گئی کہ وہی ولی اللہ پھر خواب میں ملے کہ ہم نے تم کو گھر بیٹھنے کے لئے نہیں کہا تھا۔ تم جلد ہی قادیان جا کر بیعت کر لو۔ اس دن کمترین گھر سے روانہ ہو کر موضع راسگو میں رات جارہا۔ (وہاں ٹھہرے) اُس جگہ میرے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے کہا: ماہ پوہ کے بعد چلیں گے۔ مَیں نے اُن کی بات کو مان لیا۔ رات کو مجھے خواب میں شاہ فتح علی صاحب ملے اور فرمایا۔ پندرہ کوس آ گئے ہو اور سترہ کوس باقی ہے۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ کونسا تم کو خوف ہے۔ پھر صبح کو روانہ ہوا۔ قادیان میں پہنچ گیا۔ جناب مسیح موعود علیہ السلام صاحب جنوب کی طرف بہت سے آدمیوں کے درمیان سیر کو گئے تھے۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ لوگ جنگل میں کیوں جمع ہو گئے۔ لوگوں نے بتلایا کہ مرزا صاحب سیر کو جا رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ جاتے ہیں۔ مَیں اُن لوگوں کے ساتھ ہو کر جا ملا اور جا کر حضرت صاحب کے ساتھ السلام علیکم کہا اور مصافحہ کیا۔ مرزا صاحب نے مجھے فرمایا کہ کس جگہ سے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا ضلع ہوشیار پور اور موضع میٹیانہ سے آیا ہوں۔ فرمایا تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: سوہنے خان۔ فرمایا تم وہی سوہنے خان ہو، خوابوں والے۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بتا دیا تھا)۔ مَیں نے عرض کیا کہ مَیں وہی آپ کا غلام ہوں۔ فرمایا تین دن تک رہو۔ تین دن کے بعد بیعت لے لیں گے۔ تین دن کے بعد بیعت لی۔ فرمایا کہ پہلے مسیح ناصری کے بھی بیعت غریب لوگ ہوئے تھے۔ (انہوں نے کہا تھا ناں کہ بہت سے غریب لوگ اور چوہڑے چمار بیعت کر رہے ہیں، مسیح بن گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے اس جواب میں فرمایا جو انہوں نے خود تو نہیں کہا ہو گا، یا ہو سکتا ہے خبر پہنچی ہو کہ پہلے مسیح ناصری کی بیعت بھی غریب لوگوں نے کی تھی)۔ میرے بھی پہلے غریب لوگ ہوئے ہیں۔ بعد ازاں فرمایا: مجھے سچا جانو۔ (جو نصائح فرمائیں ایک یہ کہ کامل یقین ہو میری سچائی پر) دوسرے پنج وقت نماز ادا کرو اور تیسری بات کبھی جھوٹ نہیں بولنا۔ اور یہ فرما کر مجھے اجازت دے دی۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ193تا195روایات میاں سوہنے خاں صاحب سکنہ میٹیانہ)
تو یہ تین نصیحتیں ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنی چاہئیں۔ حضرت فضل الٰہی صاحبؓ ولد محمد بخش صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور اماں جان سیر کرتے ہوئے ہمارے گاؤں آئے۔ جب واپس جانے لگے تو حکم کیا کہ پانی پلاؤ۔ (حضرت اماں جان کو پیاس لگی۔ اُن کی بھی اطاعت کاچھوٹا سا واقعہ ہے)۔ میری والدہ صاحبہ نے مجھے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور کہا کہ لے جاؤ۔ میں جلدی سے اُن کے پاس پانی لے گیا اور اماں جان اور حضرت صاحب راستے میں کھڑے تھے۔ اماں جان کو مَیں نے پانی دیا۔ انہوں نے پکڑ کر پینا شروع کیا۔ حضرت صاحب نے صرف اتنا لفظ کہا کہ پانی بیٹھ کر پینا چاہئے۔ اماں جان نے صرف ایک گھونٹ پانی پیا تھا۔ یہ بات سن کر فوراً بیٹھ گئے اور باقی پانی بیٹھ کر پیا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 353روایات حضرت فضل الٰہی صاحبؓ)
حضرت نظام الدین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ اُس زمانے میں دستور تھا کہ پہلے سب مہمان گول گمرہ میں جمع ہو جایا کرتے تھے۔ حضرت اقدس فداہ اَبی واُمّی کو اطلاع پہنچائی جاتی کہ حضور تمام خادم حاضر ہیں۔ ایک دن حضرت اقدس پہلے ہی تشریف فرما ہو گئے تو حضرت خلیفہ اول حضرت مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی تشریف نہ لائے تھے۔ اس غلام کو حضور نے فرمایا کہ جاؤ مولوی صاحب کو بلا لاؤ۔ بندہ دوڑتا ہوا مطب میں گیا اور حضرت اقدس کا ارشاد عرض کیا۔ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے (سوال کیا) کہ حضرت صاحب تشریف لے آئے ہیں؟ بندے نے کہا: ہاں اور کہا کہ جناب کو یاد فرمایا ہے۔ اس پر حضرت خلیفہ اول مطب سے دوڑ پڑے اور گول کمرہ تک دوڑتے ہوئے حاضر ہوئے۔ مجلس میں حضرت خلیفہ اوّل عموماً سرنگوں رہتے تھے (نیچا سر کئے بیٹھے رہتے تھے) سوائے اس صورت کے کہ حضرت اقدس خود مخاطب فرمائیں ورنہ دیر تک سر نگوں رہتے تھے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ 106تتمہ روایات نظام الدین صاحب)
حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ بیان کیا مجھ سے مولوی غلام محمد صاحب مرحوم نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کی طرف سے رات کے گیارہ بارہ بجے کوئی حضرت خلیفہ اول کے گھر دودھ مانگنے آیا۔ مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ ہمارے گھر میں تو دودھ نہیں، مگر جس طرح بھی ہو کہیں سے جلد دودھ مہیا کرو، چاہے کتنا ہی خرچ ہو۔ میں نہیں چاہتا کہ حضرت صاحب کا آدمی خالی ہاتھ جائے۔ (وہاں ہو سکتا ہے کوئی مہمان آیا ہو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس کے لئے منگوایا ہو) مَیں دوڑا اور مہمان خانے کے سامنے جو گھر ہیں اُن میں سے ایک کو جگایا۔ اُس نے بھینس سے دودھ نکالنے کی کوشش کی اور خدا نے کیا دودھ نکل آیا (عموماً لوگ شام کو بھینسیں دوہ لیتے ہیں، لیکن رات کو پھر دوبارہ دوہا تو دودھ نکل آیا) اور مولوی صاحب بہت خوش ہوئے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 385 روایات حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ)
حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مولوی غلام محمد صاحب مرحوم نے بیان کیا کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک صاحب (میں اُن کا نام بھول گیا ہوں )۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اجازت سے حضرت خلیفہ اول کو اپنا ایک بیمار دکھانے کے لئے بٹالہ لے گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! شام تک تو آپ واپس آ جائیں گے۔ مولوی صاحب نے فرمایا جی حضور! آ جاؤں گا۔ خدا کی شان بٹالہ پہنچ کر ایسی بارش ہوئی کہ ہر طرف پانی ہی پانی ہو گیا۔ اسی ہی حالت میں شام کو مولوی صاحب قادیان پہنچ گئے۔ گھٹنے گھٹنے پانی چلنا پڑا۔ پاؤں میں کانٹے بھی چبھ گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو علم ہوا تو افسوس کیا اور فرمایا: مولوی صاحب! میرا منشاء یہ تو نہ تھا۔ آپ نے اتنی تکلیف کیوں اُٹھائی۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 386 روایات حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ)
حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مولوی نور الدین صاحب اپنے مطب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ قریباً بارہ ایک بجے کا وقت تھا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ حضرت ام المومنین نے اندر سے ایک خادم بھیجا اور اُس نے آ کر کہا کہ مولوی صاحب ! حضرت ام المومنین فرماتی ہیں کہ آ کر میرا فصد کھول دو۔ فرمایا کہ امّاں کو جا کر کہہ دو کہ اس بیماری میں اس وقت فصد کھولنا طب کی رو سے سخت منع ہے۔ پھر وہ کچھ دیر کے بعد اندر سے آئی۔ پھر اُس نے یہی کہا۔ حضرت مولوی صاحب نے پھر بھی یہی جواب دیا۔ پھر کچھ دیر کے بعد حضرت میاں محمود احمد صاحب تشریف لے آئے۔ اُن کو حضرت مولوی صاحب نے گود میں لے لیا اور پوچھا میاں صاحب! کس طرح تشریف لائے؟ فرمایا کہ ابّا کہتے ہیں کہ آ کر فصد کھول دو۔ تو مولوی صاحب اُسی وقت چلے گئے اور آ کر فصد کھول دیا۔ جب جانے لگے تو ایک شخص غلام محمد صاحب نے کہا کہ آپ تو فرماتے تھے منع ہے۔ فرمایا: اب طب نہیں اب تو حکم ہے۔ (رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ45تا46 روایات میاں عبدالعزیز صاحبؓ)
میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ مرحوم کے حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے والد صاحب کی بہت عقیدت تھی اور حضور بھی اُن پر خاص نظر شفقت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت مولوی صاحب کی والدہ صاحبہ اعوان قوم سے تھیں، اور مولوی صاحب بھی اس قوم سے تھے۔ (مولوی جلال الدین صاحب بھی اعوان قوم سے تھے) اس لئے حضرت مولوی صاحب ان سے محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے۔ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی طرف سے یہ حکم تھا کہ جب قادیان آؤ تو یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھو، اور اُس کے بعد میرے پاس بیٹھو۔ اس کے سوا کسی اور جگہ جانے کی تم کو اجازت نہیں ہے۔ والد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ میں ایسا ہی کیا کرتا تھا۔ والد صاحب بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ مَیں نے رمضان شریف بھی قادیان میں گزارا۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 12صفحہ277حالات مولوی جلال الدین صاحب مرحوم)
حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ ولد چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن دنوں علاوہ مطب کے کام کے اس کمرے میں جہاں اب حکیم قطب الدین صاحب کا مطب ہے مثنوی مولانا روم کا درس دیا کرتے تھے۔ مجھے اپنے والد صاحب کے ہمراہ آپ کی صحبت کا بھی اُن ایام میں موقع ملتا رہا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ بعض دفعہ اس درس کے دوران میں کوئی آدمی آ کر کہہ دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام باہر تشریف لے آئے ہیں تو یہ سنتے ہی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ درس بند کر دیتے اور اُٹھ کھڑے ہوتے اور چلتے چلتے پگڑی باندھتے جاتے اور جوتا پہننے کی کوشش کرتے، اور اس کوشش کے نتیجے میں اکثر آپ کے جوتے کی ایڑیاں دَب جایا کرتی تھیں۔ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں تشریف فرما ہوتے تو جب تک حضور آپ کو مخاطب نہ کرتے آپ کبھی نظر اُٹھا کر حضور کے چہرہ مبارک کی طرف نہ دیکھتے۔ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 248-249 روایات حضرت سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ)
حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ فرماتے ہیں (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد روایت لکھنے والے نے لکھا ہے) کہ سب نے مولوی نور الدین صاحب کی بیعت کر لی اور مولوی صاحب نے فرمایا۔ ’’کل مَیں تمہارا بھائی تھا۔ آج مَیں تمہارا باپ بن گیا ہوں۔ تم کو میری اطاعت کرنی ہو گی۔ امۃ الحفیظ سب سے چھوٹی تھی، حضور کی اولاد میں سے، (یعنی حضرت خلیفہ اولؓ امۃ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر کر کے فرماتے ہیں کہ امۃ الحفیظ حضور کی اولاد میں سے سب سے چھوٹی تھی) فرمایا کہ اگر امۃ الحفیظ کی بیعت کی جاتی تو مَیں اُس کی ایسی ہی اطاعت کرتا جیسی کہ مسیح موعود علیہ السلام کی۔‘‘ (رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 283 روایات حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ)
اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے اور جس طرح ان کی خواہش تھی کہ یہ اگلے جہان میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ہوں، یہ خواہشات بھی پوری فرمائے۔ ان کی نسلوں کوبھی وفا اور اطاعت کے طریق پر قائم رکھے۔ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ اس زمانے کے امام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے والے ہوں۔ آپ نے اپنے مخلصین کے لئے جو دعائیں کی ہیں، اُن کے بھی ہم وارث بنیں۔ اور آپ کے بعد آپ کے ذریعے سے قائم ہونے والی قدرت ثانیہ کے ساتھ بھی وفا، محبت اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح اول کا ارشاد مَیں نے پڑھ کر سنایا کہ کامل اطاعت کرنی ہو گی۔ اور خلافت کے ساتھ جُڑ کر اُس جماعت کا حصہ بنیں جس نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے کیونکہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
ابھی مَیں جمعہ کی نماز اور نمازِ عصر کے بعد دو جنازے پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ تو ایک شہید مکرم طارق احمد صاحب ابن مبارک احمد صاحب کاہے۔ ان کی پیدائش لیّہ کے ایک گاؤں کی ہے۔ طارق صاحب کی پیدائش سے دو مہینے پہلے ان کے والد مبارک صاحب وفات پا گئے تھے۔ مکرم طارق صاحب کی عمر اکیالیس (41) سال تھی۔ بڑے ذہین اور قابل انسان تھے۔ 17؍مئی 2012ء کو طارق صاحب سودا سلف لینے کے لئے کہروڑ ضلع لیہ میں گئے اور کچھ جو کاروباری لوگ تھے اُن کے پیسے بھی واپس کرنے تھے۔ واپسی پر تقریباً چار بجے فون کیا کہ سبزی وغیرہ لے لی ہے کوئی اور چیز تونہیں لینی؟ اُس کے بعد ان سے پھر کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ شام تک رات تک گھر نہیں پہنچے۔ فون پر رابطہ کرنے کی کوشش کی، کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ بہر حال بعد میں یہ پتہ لگا کہ اُن کو واپسی پر آتے ہوئے کچھ نامعلوم افرادنے اغواء کر لیا اور کسی نامعلوم جگہ پر لے گئے اور ہاتھ پاؤں باندھے ہوئے تھے اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تشدد کے دوران مرحوم کا ایک پاؤں بھی توڑ دیا۔ ایک کندھا اور پسلیاں بھی توڑی ہوئی تھیں۔ دونوں گھٹنوں پر کیلوں کے نشان تھے۔ آنکھ پر بھی بڑی کاری ضرب تھی۔ سر پر بھی بے انتہا تشدد تھا اور تشدد کے بعد پھر سر پر انہوں نے فائر کیا اور ان کو شہید کر دیا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ پھر ظلم کی اور بربریت کی انتہا یہ ہے، وہ تو خیر پہلے بھی انتہا ہی ہے، کہ پھر اس کے بعد ایک ڈرم میں ڈال کر راجن شاہ میں نہر میں پھینک دیا۔ اتفاق سے نہر بند تھی، ورنہ تو نہر میں نعش کا پتہ ہی نہیں لگنا تھا۔ اگلے روز پولیس نے بتایا کہ نعش ملی ہے اور پھر لواحقین چہرہ سے تو پہچان نہیں سکے تھے۔ اتنی زیادہ بری حالت کی ہوئی تھی کہ مسخ کیا ہوا تھا۔ اُن کے کپڑوں سے اور اَور نشانیوں سے لواحقین نے پہچانا۔ امیر صاحب کی رپورٹ کے مطابق کہتے ہیں کہ جماعتی مخالفت، نہیں ہے لیکن میرا خیال ہے کہ جماعتی مخالفت ہی تھی کیونکہ شریف النفس تھے۔ کسی سے کوئی ایسا واسطہ نہیں تھا اور اس سے پہلے ان کے کسی رشتہ دار کو بھی فائر کر کے اسی طرح زخمی کیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان دشمنوں کو بھی جلد عبرت کا نشان بنائے اور احمدیت کے حق میں بڑے واضح نشانات ظاہر فرمائے اور جلد ظاہر فرمائے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ایسی حالت میں جب تک دعاؤں کی طرف توجہ نہیں کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے نشان نہیں مانگیں گے اُس وقت تک وہ کامیابیاں ہمیں نظر نہیں آئیں گی جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ عموماً جو کامیابیاں نشانوں کے بعد ملتی ہیں وہی ایک واضح اور ایسی کامیابیاں ہوتی ہیں جو دشمن کو بھی نظر آ رہی ہوں تو پھر ہی دشمن حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ایک خارق عادت قسم کی کامیابیاں تب ملتی ہیں جب ہم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور انتہائی عاجزی سے جھکنے والے ہوں گے، دعائیں مانگنے والے ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ مرحوم کے برادرنسبتی عارف احمد گِل صاحب مربی سلسلہ ہیں، انہوں نے بھی ان کی بڑی خوبیاں بیان کی ہیں اور بڑی محبت کرنے والے تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کے علاوہ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بڑے بیٹے کی عمر اٹھارہ سال ہے اور چھوٹے بچے کی عمر دو سال ہے۔ اس کے درمیان باقی بچوں کی عمر یں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنی حفاظت میں رکھے۔
دوسرا جنازہ امۃ القیوم صاحبہ کا ہو گا جو ربوہ کی رہنے والی تھیں اور شیخ عبدالسلام صاحب کی اہلیہ تھیں۔ جو 3؍مئی کو وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ یہ ربوہ میں آباد ابتدائی خاندانوں میں سے ایک تھیں۔ موصیہ تھیں۔ ان کے پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اُن کے ایک بیٹے عبدالحفیظ صاحب یہاں ہیں اور اسی طرح ہالینڈ میں بھی ہیں، ربوہ میں بھی ہیں۔ ان کے دو نواسے جامعہ احمدیہ یوکے میں پڑھ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مَیں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے مَیں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں۔ ……
کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک کہ اس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو‘‘۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے صحابہ کے حضور علیہ السلام سے وفا اور عقیدت اور محبت و اطاعت کے جذبہ سے پُر ایمان افروز واقعات کا تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ ان کی نسلوں کوبھی وفا اور اطاعت کے طریق پر قائم رکھے۔ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم کامل اطاعت کے ساتھ اس زمانے کے امام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے والے ہوں۔ اور آپ کے بعد آپ کے ذریعہ سے قائم ہونے والی قدرت ثانیہ کے ساتھ بھی وفا، محبت اور اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والے ہوں۔ اور خلافت کے ساتھ جُڑ کر اُس جماعت کا حصہ بنیں جس نے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بننا ہے۔
فرمودہ مورخہ 25؍مئی 2012ء بمطابق 25؍ہجرت 1391 ہجری شمسی، بمقام فرینکفرٹ۔ جرمنی
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔