نماز کی اہمیت
خطبہ جمعہ 22؍ جون 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے اس زمانے میں جس شخص کو دنیا کی اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے بھیجا، ہم اُس کے ماننے والے ہیں۔ لیکن اس ایمان لانے کے باوجود ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ افرادِ جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے قول اور فعل ویسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ بیشک اُن کی گھٹی میں احمدیت رچی ہوئی ہے۔ یعنی اگر اُن سے پوچھو کہ تم احمدی ہو تو بتائیں گے کہ ماشاء اللہ ہمارے دادا پڑدادا احمدی ہوئے تھے، صحابی تھے اور فلاں واقعات اُن کے ایمان اور ایقان کے تاریخ احمدیت اور صحابہ میں درج ہیں۔ بلکہ بعض مجھے بھی بتائیں گے کہ فلاں صحابی کا جو واقعہ آپ نے بیان کیا (گزشتہ کئی خطبوں میں مَیں صحابہ کے واقعات بیان کرتا رہا ہوں) وہ میرے نانا تھے یا پڑنانا تھے یا دادا تھے یا پڑدادا تھے۔ احمدیت پر اُن کا ایمان ایسا ہے کہ دشمن کے حملے اور وار اُن کو احمدیت سے دور نہیں کر سکے۔ جان، مال کی قربانی بھی انہوں نے دی اور اُن کے باپ دادا نے بھی دی۔ اُن میں سے بہت سے آپ میں بھی یہاں بیٹھے ہوں گے، لیکن اس سے بھی ہم انکار نہیں کر سکتے کہ قوموں کی ترقی کبھی نہیں ہو سکتی جب تک ہم اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھیں، جب تک ہم خود اپنے جائزے نہ لیتے رہیں۔ پس اس بات سے ہم انکار نہیں کر سکتے کہ احمدیت میں شامل انہی لوگوں میں بعض عملی کمزوریاں بھی ہیں۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کمزوریاں ہیں، حقوق العباد کی ادائیگی میں کمزوریاں ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا مقصد تو طبیعتوں میں ایک انقلاب پیدا کر کے چودہ سو سال کے عرصے میں جن اندھیروں نے دلوں پر قبضہ کر لیا تھا، اُنہیں روشنیوں میں بدلنا تھا۔ یہ مقصد تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کا۔ اور ہمارے آباؤ اجدادنے یہ انقلاب اپنے اندر پیدا کیا۔ اندھیروں سے روشنیوں میں آئے۔ ایک انقلابی تبدیلی اپنے اندر پیدا کی، اپنی اعتقادی اور عملی حالتوں میں ہم آہنگی پیدا کی۔ لیکن اگلی نسلوں کے وہ معیار نہیں ہیں۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی عملی حالتوں کے معیار اونچے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ جو ہمارے بڑوں نے کئے، چاہے وہ صحابہ تھے یا اُن کے بعد ہونے والے احمدی تھے۔
یہاں امریکہ میں ایک بہت بڑی تعداد ایفرو امیریکن (Afro-American) کی بھی ہے۔ ان کے بڑوں نے بھی جب احمدیت قبول کی تو بڑی قربانیاں کیں اور اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ لیکن آگے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیا وہ حالتیں قائم ہیں؟ یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے عمل اور اعتقاد میں کوئی تضاد تو نہیں؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد اور نعرے صرف وقتی جذبات تو نہیں؟جن شرائط پر ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی ہے اُن کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لئے ہم عملی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ نہیں؟
پس یہ جائزے ہیں جو ہمیں اپنے ایمان میں ترقی کی طرف لے جانے اور ہمارے اعتقاد اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہوں گے۔ اس وقت میں انہی جائزوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے شرائطِ بیعت میں سے ایک اہم امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کے بنیادی ارکان میں سے بھی دوسرا اہم رُکن ہے۔ قرآنِ کریم میں بھی اس کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی اہمیت کی طرف بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ اہم چیز ہے ’’نماز‘‘۔
شرائط بیعت کی تیسری شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے سب سے پہلے اس بنیادی رُکن کو لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ میری بیعت میں آنے والے یہ عہد کریں کہ’’بلا ناغہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا اور رسول ادا کرتا رہے گا‘‘۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ564)
یہاں صرف یہی نہیں فرمایا کہ عہد کرو کہ نمازیں ادا کرو گے، بلکہ پنجوقتہ نماز اور ان کی ادائیگی موافق حکم خدا اور رسول ہے۔ اس کی ادائیگی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق ہونی چاہئے۔ نماز کے بارے میں خدا تعالیٰ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا وَاَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ (البقرۃ: 44) اور نمازوں کو قائم کرو۔ نماز کے قیام کا حکم قرآنِ کریم میں بہت سی جگہوں پر ہے، بلکہ سورۃ بقرہ کی ابتدا میں ہی ایمان بالغیب کے بعد اس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کبھی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرتا جب تک کہ اقام الصلوۃ نہ کرے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 346۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اور اس زمانے میں قیامِ نماز کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب خدا تعالیٰ نے خلافت کے وعدے کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی ہے کہ خلافت کے انعامات اُن لوگوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں جو نماز کے قیام کی طرف نظر رکھیں گے۔ قیامِ نماز کیا ہے؟نماز کی باجماعت ادائیگی، باقاعدہ ادائیگی اور وقت پر ادائیگی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَاَقِیْمُوالصَّلٰوۃَ وَاٰتُو الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ (البقرۃ: 44) اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حضور اکٹھے ہو کر جھکنے والوں کے ساتھ جھکو۔ پس نماز قائم کرنے والوں اور مالی قربانیاں کرنے والوں کی یہ خصوصیت بیان فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ خصوصیت اُن میں ہونی چاہئے کہ وہ ایک جماعتی رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں، اور یہی اُنہیں حکم ہے کہ جماعت بنا کر عبادت کرو اور جماعتی طور پر مالی قربانیوں کا بھی ذکر ہے کہ وہ کرو تا کہ اُس کام میں اُس عمل میں جو ایک جماعت پیدا ہونے کی وجہ سے ہو گا، برکت پڑے۔
نمازوں کے باجماعت ثواب کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ باجماعت نماز پڑھنے والے کو ستائیس گنا ثواب ملتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب فضل صلاۃ الجماعۃ حدیث: 645)
ہم درسوں میں سنتے ہیں، تقریروں میں سنتے ہیں، بچوں کو بھی تقریریں تیار کرواتے ہیں اُس میں بیان کرتے ہیں، لیکن جب عمل کا وقت آتا ہے تو اُس پر پوری توجہ نہیں دی جا رہی ہوتی۔ پس سوائے اشد مجبوری کے اپنی نمازوں کو باجماعت ادا کرنا چاہئے۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر جائزے لیں تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ نماز باجماعت کی طرف وہ توجہ نہیں جو ہونی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مساجد بنانے کی طرف بہت توجہ پیدا ہوئی ہے، لیکن مساجد بنانے کا فائدہ تو تبھی ہے جب اُن کے حق بھی ادا ہوں۔ اور مساجد کے حق اُن کو آباد کرنا ہے۔ اور آبادی کے لئے خدا تعالیٰ نے جو معیار رکھا ہے وہ پانچ وقت مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ہے۔ بہت سے لوگ بیشک ایسے ہیں جن کو کام کے اوقات کی وجہ سے پانچ وقت مسجد میں آنا مشکل ہے۔ لیکن فجر، مغرب اور عشاء میں تو یہ عذر نہیں چلتا، اُس پر تو حاضر ہو سکتے ہیں۔ میں جانتا ہوں دنیائے احمدیت میں بہت سے ایسے لوگ ہیں جو اِن مغربی ممالک میں رہتے ہیں اور مسجد سے پندرہ بیس میل کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ لیکن نمازوں کے لئے مسجد میں آتے ہیں۔ اگر ظہر، عصر کی نمازیں نہ پڑھ سکیں، تو جیسا کہ میں نے کہا، یہ لوگ فجر، مغرب اور عشاء پر ضرور شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تو تقریباً ہر ایک کے پاس سواری ہے، اپنے دنیاوی کاموں کے لئے سواریاں استعمال کرتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اور اُس کی عبادت کے لئے یہ سواریاں استعمال کریں گے تو ان سواریوں کا مقصد دین کی خدمت بھی بن جائے گا اور آپ کے بھی دین و دنیا دونوں سنور جائیں گے۔ جہاں بہت زیادہ مجبوری ہے وہاں اگر قریب احمدی گھر ہیں تو کسی گھر میں جمع ہو کے گھروں میں باجماعت نماز کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ جہاں اکیلے گھر ہیں وہاں اپنے گھر میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ باجماعت نماز کی ادائیگی کی کوشش ہونی چاہئے تا کہ بچوں کو بھی نماز باجماعت کی اہمیت کا پتہ چلے۔ بچوں کو ماں باپ اگر فجر کی نماز کے لئے اُٹھائیں گے تواُن کو جہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ ہو گا وہاں بہت سی لغویات سے بھی وہ بچ جائیں گے۔ جن کو شوق ہے، بعضوں کو رات دیر تک ٹی وی دیکھنے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہنے کی عادت ہوتی ہے، خاص طور پر ویک اینڈ (Weekend) پر تو نماز کے لئے جلدی اُٹھنے کی وجہ سے جلدی سونے کی عادت پڑے گی اور بلا وجہ وقت ضائع نہیں ہو گا۔ خاص طور پر وہ بچے جو جوانی میں قدم رکھ رہے ہیں، اُن کو صبح اُٹھنے کی وجہ سے ان دنیاوی مصروفیات کو اعتدال سے کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ بعض مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، اچھی دیکھنے والی چیزیں بھی ہوتی ہیں، معلوماتی باتیں بھی ہوتی ہیں، اُن سے مَیں نہیں روکتا، لیکن ہر چیز میں ایک اعتدال ہونا چاہئے۔ نمازوں کی ادائیگی کی قیمت پر ان دنیاوی چیزوں کو حاصل کرنا انتہائی بے وقوفی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ چھٹی کے دن بعض مجبوریاں ہوتی ہیں، بعض فیملی کے اپنے پروگرام ہوتے ہیں، چھٹی کے دن اگر فیملی کا کہیں باہر جانے کا پروگرام ہے تو اور بات ہے، لیکن اگر نہیں ہے تو پھر مسجد میں زیادہ سے زیادہ نمازوں کے لئے آنا چاہئے اور بچوں کو ساتھ لانا چاہئے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں جی بچوں کو مسجد میں آنے کی عادت نہیں ہے، بعض بچے بگڑ رہے ہیں۔ اُن کا علاج تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ بچپن سے اُن کو اس بات کی عادت ڈالیں کہ وہ خدا کا حق ادا کریں اور وہ حق نمازوں سے ادا ہوتا ہے۔ بچوں کو بچپن سے اگر یہ احساس ہو کہ نماز ایک بنیادی چیز ہے جس کے بغیر مسلمان مسلمان کہلا ہی نہیں سکتا تو پھر جوانی میں یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور پھر یہ شکوے بھی نہیں رہیں گے کہ بچے بگڑ گئے۔ تفریح کے لئے بھی اگر جائیں، اگر کوئی پروگرام ایسا ہے تو جہاں دنیاوی دلچسپی کے سامان کر رہے ہیں، وہاں خدا کی رضا کے حصول کے لئے، جہاں بھی ہوں، پوری فیملی وہاں پر باجماعت نماز ادا کرے۔ میرا تو یہ تجربہ ہے اور بہت سے لوگوں کے یہ تجربے ہیں جو مجھے بتاتے ہیں کہ تفریح کی جگہوں پر جب اس طرح میاں بیوی اور بچوں نے نماز کے وقت نماز باجماعت ادا کی تو ارد گرد کے لوگوں میں دلچسپی پیدا ہوئی اور اُن کو دیکھنے لگے اور پھر تبلیغ کے راستے کھلتے ہیں، تعارف حاصل ہوتا ہے۔
عموماً عام دنیا دار کو مسلمانوں کے بارے میں یہی تصور ہے کہ مسلمانوں میں نماز وہی پڑھتے ہیں جو شدت پسند ہیں۔ جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ تفریح کرنے والے بچے اور بڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور لباس بھی اُن کے یہاں کے لوگوں کے لباس کے مطابق پہنے ہوئے ہیں، لیکن عبادت میں انہماک ہے تو ضرور توجہ پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کئی ایسے ہیں جو اپنے تجربات بیان کرتے ہیں کہ کس طرح نماز کی وجہ سے بعض غیروں کی اُن کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور یوں تبلیغ کے راستے کھلے۔ پس کسی قسم کے احساسِ کمتری میں ہمیں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، نہ بچوں کو، نہ بڑوں کو۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا میں دینی اور روحانی انقلاب ہم نے پیدا کرنا ہے، تو یہ دینی اور روحانی انقلاب وہی لوگ پیدا کر سکتے ہیں جو ہر قسم کے احساسِ کمتری سے آزاد ہوں اور اپنے اندر سب سے پہلے دینی اور روحانی انقلاب پیدا کرنے والے ہوں۔ اور یہ دینی اور روحانی انقلاب بغیر عبادت کا حق ادا کئے پیدا نہیں ہو سکتا اور عبادت کے حق کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیز نماز ہے۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے۔ حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ (البقرۃ: 239) اپنی نمازوں کی حفاظت کرو۔ حَفَظَ کے معنی ہیں کہ باقاعدگی اختیار کرنا اور پھر اُس کی نگرانی کرنا۔ اور پھر فرمایا ہر اُس نماز کی خاص طور پر نگرانی کرو اور اُس کی حفاظت کرو جو صلوٰۃ وسطیٰ ہے، یعنی جو نماز تمہاری مصروفیات کے درمیان میں آتی ہے، یا وہ نماز جو کسی بھی وجہ سے، دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے، وقت پر اور اہتمام کے ساتھ ادا نہ کی جا سکے اُس کی بہر حال خاص طور پر حفاظت کرنی ہے۔ کیونکہ نمازوں کی سستی تمہیں فرمانبرداروں کی فہرست سے باہر نکال دیتی ہے۔ اس لئے نمازوں کی حفاظت کی طرف خدا تعالیٰ توجہ دلاتا ہے اور پھر خاص طور پر اُن نمازوں کی حفاظت اور ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے جو تمہارے نفس کی سستی اور دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے ادا نہیں ہو رہیں یا اُن کا حق ادا کرتے ہوئے ادا نہیں ہو رہی۔ بعض جلدی جلدی نماز پڑھ لیتے ہیں یہ نماز کا حق ادا کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْن (البقرۃ: 239) اور اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔ یعنی مکمل توجہ نماز پر ہو۔ پھر دنیاوی خیالات اور خواہشات ذہن پر قبضہ نہ کریں۔ ذہن میں یہ ہو کہ جس خدا کے سامنے میں کھڑا ہوں اُس کے احکامات کی کامل اطاعت کرنی ہے۔ پس جب یہ حالت ہوتی ہے تو پھر ایسے نمازیوں کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نمازیں بھی تمہاری حفاظت کرنے والی ہوں گی اور تمہاری نگران بن جائیں گی، تمہیں برائیوں سے روکیں گی، تمہارے گھروں کو برکتوں سے بھر دیں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں نے اپنی جماعت کو یہی نصیحت کی ہے کہ وہ بے ذوقی اور بے حضوری پیدا کرنے والی نمازیں نہ پڑھیں بلکہ حضورِ قلب کی کوشش کریں جس سے اُن کو سرور اور ذوق حاصل ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ345-346۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت: 46) کہ یقینا نماز ناپسندیدہ اور بری باتوں سے روکتی ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ نماز لغویات اور بری باتوں سے روکتی ہے لیکن ہر نماز نہیں اور ہر نمازی کو نہیں۔ ہر نمازی برائیوں سے نہیں رُک سکتا، صرف وہ نمازی اپنی اصلاح کر سکتا ہے یا نماز اُس نمازی کی اصلاح کرتی ہے جو کامل فرمانبرداری سے ادا کی جائے۔ یہ سمجھ کر ادا کی جائے کہ خدا تعالیٰ میری ہر حرکت و سکون کو دیکھنے والا ہے اور اُس خدا کے سامنے مَیں کھڑا ہوں جو میری ہر حرکت و سکون کو دیکھ رہا ہے۔ یہ کامل فرمانبرداری والی نمازیں ہیں جو انسان کی حفاظت کرتی ہیں اور نگرانی کرتی ہیں، اور جن گھروں میں پڑھی جاتی ہیں، اُن گھروں کے رنگ ہی کچھ اَور ہو جاتے ہیں۔ پس ایسی نمازوں کی تلاش ہمیں کرنی چاہئے، تبھی ہم اپنے عہدِ بیعت کو حقیقی طور پر نبھا سکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ نماز کے لئے کھڑے ہوئے تو توجہ اپنے دنیاوی کاموں اور خواہشات کی طرف ہو۔ یا کبھی نماز پڑھ لی، کبھی نہ پڑھی۔ پس مَیں پھرکہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ان ملکوں میں رہنے والے دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ گو اب تیسری دنیا میں بھی شہروں میں رہنے والوں کا یہی حال ہے۔ لیکن بہر حال پھر بھی کچھ نہ کچھ ایک ایسی تعداد ہے جو مسجدوں میں جانے والی ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلام کے اس اہم دینی فریضہ کی طرف مَیں بار بار توجہ دلاتا ہوں، میرے سے پہلے خلفاء بھی اس طرف بہت توجہ دلاتے رہے۔ اب تو اس زمانے میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے کی نعمت سے نواز دیا ہے۔ پہلے اگر خلیفۂ وقت کی آواز دنیا کے ہر خطے میں فوری طور پر نہیں پہنچ رہی تھی تو اب تو فوری طور پر یہ آواز اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا پیغام ہر جگہ فوری طور پر پہنچ رہا ہے۔ اگر ہم میں سے بعض لوگ یا خطبات اور تقاریر نہیں سنتے یا سنتے ہیں اور بے دلی سے سنتے ہیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا تو اُس عہدِ بیعت کو پورا کرنے والے نہیں ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اُس کی پابندی کروں گا، اُس کی کامل اطاعت کروں گا۔ یہ اطاعت سے نکلنے والے عمل ہیں کہ ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا۔ یہ کامل فرمانبرداری سے دور لے جانے والے عمل ہیں۔ ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ نے بڑا انذار فرمایا ہے۔ فرماتا ہے فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (الماعون: 5) پس اُن نمازیوں کے لئے ہلاکت ہے جو اپنی نمازوں سے غافل رہتے ہیں۔ یہ غفلت نماز باجماعت کی طرف توجہ نہ دینے سے بھی ہے، باقاعدگی سے نماز نہ پڑھنے کی وجہ سے بھی ہے۔ پوری توجہ نماز میں رکھنے کی کوشش نہ کرنے کی وجہ سے بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز میں بعض دفعہ توجہ قائم نہیں رہتی لیکن بار بار اپنی توجہ کو نماز کی طرف لانا ضروری ہے اور یہ بھی ایک مطلب ہے اقامت الصلوۃ نماز کے کھڑی کرنے کا، نماز کے قیام کا۔ پس بڑے خوف کا مقام ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں اس طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص جس نے مجھے نہیں مانا، غلطیاں کرتا ہے تو بیشک وہ گناہگار ہے۔ لیکن مجھے ماننے والے جو ایک عہدِ بیعت کرتے ہیں اور پھر اُس کی تعمیل نہیں کرتے، زیادہ پوچھے جائیں گے۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 182۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس ہر احمدی پر بہت بڑی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ادا نہیں ہو سکتی جب تک یہ خیال نہ رہے کہ مَیں نے جو خدا تعالیٰ کو گواہ ٹھہرا کر ایک عہدِ بیعت باندھا ہے اس کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے آگے جواب دہ ہوں۔ پس یہ خیال رہے تبھی ذمہ داری ادا ہو سکتی ہے۔ پس بڑے بھی اپنی ذمہ داریاں سمجھیں اور چھوٹے بھی، مرد بھی اور عورتیں بھی۔
یہاں بہت سے گھروں میں بے سکونی کے جو حالات ہیں وہ اس لئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ نہیں ہے، جس طرح توجہ ہونی چاہئے۔ بعض لوگ میرے سے جب ملاقات کرتے ہیں اور دعا کے لئے کہتے ہیں تو میں عموماً کہا کرتا ہوں کہ اپنے لئے خود بھی دعا کرو اور نمازوں کی طرف توجہ دو۔ اور جب پوچھو کہ باقاعدگی سے نمازیں پڑھتے ہیں؟ تو بعض لوگوں کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے مَیں عموماً یہ کہا کرتا ہوں کہ دین کے ساتھ مذاق نہ کریں۔ دین کو مذاق نہ سمجھیں کہ خود تو نمازوں اور دعاؤں کی عادت نہیں ہے، اُس طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور اپنے مسائل اور دنیاوی معاملات کے لئے دعا کے لئے کہہ رہے ہیں۔ پہلے خود تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں، پھر کہیں۔ جب تک خود اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے، یا تبدیلی پیدا کرنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش نہیں کریں گے، دوسرے کی دعائیں بھی پھر اثر نہیں کریں گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو جماعت قائم کرنے آئے تھے وہ ایسے لوگوں کی جماعت تھی جو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے والے ہیں اور اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اس لئے آپ نے فرمایا کہ میں پیر پرستی کو ختم کرنے آیا ہوں۔ فرمایا کہ تم پیر بنو، پیر پرست نہ بنو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2صفحہ139۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ) لیکن جس قسم کے پیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ماننے والوں کو بنانا چاہتے ہیں وہ آجکل کے نام نہادنیا پرست پیر نہیں ہیں جو ہاتھ میں تسبیح لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہماری عبادتوں اور دوسرے حقوق کی ادائیگی کا حق ادا ہو گیا۔ نہ نمازوں کی ضرورت ہے، نہ عبادتوں کی ضرورت ہے۔ نمازوں سے یہ لوگ کوسوں دور ہوتے ہیں۔ خودنمازیں نہیں پڑھتے اور اپنے مریدوں کو بھی نمازوں کے لئے یہی کہتے ہیں کہ کوئی ضرورت نہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں۔ ایسے پیر اور ایسے سیّد ہدایت کی طرف لے جانے والے نہیں، بلکہ گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کیا ہے، اُن کی ایک ہمشیرہ تھیں، رشتہ دار، کسی پیر صاحب کی مرید تھیں، پیرصاحب نے ان کی ہمشیرہ کے دماغ میں یہ بٹھا دیا تھا کہ میرے مریدوں کو نمازوں اور عبادتوں کی ضرورت نہیں۔ پس میری مریدی اختیار کر لو۔ کچھ وظائف میں نے بتا دئیے ہیں وہ کر لو، یہ کافی ہیں، بخشے جاؤ گے۔ تو حضرت خلیفہ اوّلؓ نے اُنہیں ایک دن کہا کہ پیر صاحب سے پوچھو کہ حساب کتاب والے دن جب خدا تعالیٰ نیکیوں اور عبادتوں کے بارے میں پوچھے گا تو کیا جواب دوں؟ جب فرشتے میرا جنت کا راستہ روکیں گے، میری نیکیوں کے بارے میں سوال ہو گا تو کیا جواب دوں؟ خیر انہوں نے اپنے پیر صاحب سے پوچھا تو کہنے لگے کہ فرشتے تمہارا راستہ روکیں تو کہہ دینا کہ میں فلاں پیر اور سید زادے کی ماننے والی ہوں تو وہ تمہارا راستہ صاف کر دیں گے۔ اور رہا میرا سوال (پیر صاحب کا) تو جب مجھ سے پوچھیں گے تو مَیں کہوں گا کہ کربلا کے میدان میں میرے بڑوں نے جو قربانیاں دی ہیں، اُن کو بھول گئے ہو؟ نواسۂ رسول نے جس کی نسل سے مَیں ہوں، جو قربانی دی ہے، اُس کو بھول گئے ہو؟ تو فرشتے اس بات پر شرمندہ ہو جائیں گے اور راستہ چھوڑ دیں گے اور مَیں اکڑتا ہوا جنت میں چلا جاؤں گا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ208)
تو یہ ہے ان لوگوں کے پیروں کا حال۔ ہم نے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں نے ایسا پیر نہیں بننا۔ ہم نے تو اپنے اندر وہ انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں جو ہماری حالتوں میں انقلاب لانے والی ہوں، ہمارے بچوں اور ہماری نسلوں کی حالتوں میں انقلاب لانے والی ہوں اور اس معاشرے میں روحانی انقلاب لانے والی ہوں۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ صرف ہمارا اعتقاد ہمیں نہیں بچائے گا، نہ ہمارا اعتقاد انقلابی تبدیلیاں لائے گا بلکہ ہمارے عمل ہیں جو انقلاب لائیں گے انشاء اللہ۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری دعائیں ہیں جو جب اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا تو دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گا اور دعائیں کرنے کا بہترین ذریعہ نمازیں ہی ہیں۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے اور جب مجموعی طور پر تمام دنیا کے رہنے والے احمدیوں کا رُخ ایک طرف ہو گا تو یہ دعاؤں کے دھارے ایک انقلاب لانے کا باعث بنیں گے۔
پس خلافت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تا کہ وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کی اکثریت نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے، وہ جو دعاؤں کے ذریعے سے عمل میں آنا ہے، وہ عمل میں آئے۔ پس ہر احمدی اس بات کو ہمیشہ یاد رکھے اور اپنی نمازوں کی حفاطت، اپنی اولاد کی نمازوں کی حفاظت کی طرف توجہ دے تا کہ ہم جلد تمام دنیا پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا لہراتا ہوا دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کو ہم بھی اور ہماری نسلیں بھی جذب کرنے والی ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا رحم بھی نمازوں کا حق ادا کرتے ہوئے اور نماز پڑھنے والوں کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، اُن پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰـوۃَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن (النور: 57) اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو اور رسول کی اطاعت کروتاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
پس ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے رحم حاصل کرنے والا بننا ہے تو اپنی نمازوں کی حفاظت اور اُس کے قیام کی بھی کوشش کرنی ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار مختلف رنگ میں اپنے ماننے والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائی ہے تا کہ جہاں ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں، خدا تعالیٰ کا قرب پانے والے ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے رحم سے حصہ لے کر اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بھی ہوں۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’ا ے وے تمام لوگو ! جو اپنے تئیں میری جماعت میں شمار کرتے ہو، آسمان پر تم اُس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤگے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے۔ سو اپنی پنج وقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو‘‘۔ فرمایا: ’’یقینا یاد رکھو کہ کوئی عمل خدا تک نہیں پہنچ سکتا جو تقویٰ سے خالی ہے۔ ہر ایک نیکی کی جڑ تقویٰ ہے۔ جس عمل میں یہ جڑ ضائع نہیں ہو گی وہ عمل بھی ضائع نہیں ہوگا‘‘۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ15)
پھر آپ فرماتے ہیں: ’’نماز کیا چیز ہے؟ وہ دُعا ہے جو تسبیح، تمحید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرّع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابندنہ رہو۔ کیونکہ اُن کی نماز اور اُن کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں۔ لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے او ربجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے، باقی اپنی تمام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کیا کرو تا کہ تمہارے دلوں پر اس عجز ونیاز کا کچھ اثر ہو۔ (کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19صفحہ68-69)
پس یہ کیفیت ہے جو نمازوں میں ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور یہ عجز و نیاز پھر خدا تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے کا باعث بنتا ہے۔ پھر ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے ہو جاتے ہیں۔ اور ایسی ہی نمازیں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہماری دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’نماز ایسی شئے ہے کہ اس کے ذریعہ سے آسمان انسان پر جھک پڑتا ہے‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ پھرقبولیتِ دعا کے نظارے دکھاتا ہے) فرمایا ’’نماز کا حق ادا کر نے والا یہ خیال کرتا ہے کہ مَیں مر گیا اور اس کی روح گداز ہو کر خدا کے آستانہ پر گرِپڑی ہے۔ ……جس گھر میں اس قسم کی نماز ہو گی وہ گھر کبھی تبا ہ نہ ہو گا۔ حدیث شریف میں ہے کہ اگر نوحؑ کے وقت میں یہ نماز ہو تی تو وہ قوم کبھی تبا ہ نہ ہو تی‘‘۔ فرمایا ’’حج بھی انسان کے لیے مشروط ہے، روزہ بھی مشروط ہے، زکوۃ بھی مشروط ہے مگر نماز مشروط نہیں‘‘۔ (یعنی باقی سب عبادتیں جو ہیں اُن کی بعض شرائط ہیں۔ وہ شرائط پوری ہوتی ہوں تو ادائیگی ہو گی، ورنہ فرض نہیں ہیں۔ لیکن نماز ہر صورت میں لازمی ہے۔ انسان مسافر ہے، مریض ہے، کیسی بھی حالت ہے، اگر ہوش و حواس میں ہے تو نماز فرض ہے) فرمایا ’’سب ایک سال میں ایک ایک دفعہ ہیں‘‘ (یہ مشروط بھی ہیں اور ایک سال میں ایک دفعہ ہیں )’’مگر اس کا حکم (یعنی نماز کا حکم) ہر روز پا نچ دفعہ ادا کر نے کا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ627۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اس لئے جب تک پوری پوری نماز نہ ہو گی تو وہ بر کات بھی نہ ہو ں گی جو اس سے حاصل ہو تی ہیں اور نہ اس بیعت کا کچھ فائدہ حاصل ہو گا۔ پس یہ قیامِ نماز اور حفاظت نماز کے اُس الٰہی ارشاد کی کچھ وضاحت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور جس کی آپ نے ہر احمدی سے توقع رکھی ہے۔ فرمایا کہ، ورنہ بیعت کرنے کاکچھ فائدہ نہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا، اس کی اہمیت کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے تا کہ ہم اپنے عمل سے ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جس نے ہمیں خدا سے ملایا ہے۔ اب بہت سارے نئی بیعت کرنے والے میں نے دیکھے ہیں، اُن کے خطوط آتے ہیں، اُن میں ان نمازوں کی وجہ سے ایک انقلاب اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دیا ہے۔ پس ہر احمدی کو خاص طور پر پرانے احمدیوں کی اولادوں کو اس کو یاد رکھنا چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نمازوں کے ایسے ذوق اور حضور کی کیفیت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے، اس لئے تم سب سے پہلے یہی دعا خدا تعالیٰ سے کرو کہ: ’’اے اللہ! مجھ میں قرب کی یہ حالت پیدا ہو جائے۔ اس کے لئے آپ نے ہمیں ایک دعا سکھائی۔ فرماتے ہیں کہ یہ دعا کیا کرو کہ ’’اے اﷲ تو مجھے دیکھتا ہے کہ مَیں کیسا اندھا اور نابینا ہوں اور مَیں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں۔ مَیں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو مَیں تیری طرف آجاؤں گا‘‘۔ (یعنی اس دنیا سے رخصت ہونے کا بلاوا آ جائے گا) ’’اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا۔ لیکن میرا دل اندھا اور ناشناسا ہے۔ تُو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا اُنس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے۔ تُو ایسا فضل کر کہ مَیں نابینا نہ اٹھوں اور اندھوں میں نہ جا ملوں‘‘۔ فرمایا ’’جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا‘‘ (باقاعدگی اختیار کرے گا) تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقّت پیدا کردے گی‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ616۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی نمازیں نصیب فرمائے۔
جمعہ کے بعد مَیں دو جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ایک ہمارے مربی سلسلہ جو انڈونیشیا کے رہنے والے تھے، اُن کا ہے، جن کا نام امر معروف عزیز صاحب تھا۔ 16؍جون کو بقضائے الٰہی وفات پا گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ 6؍دسمبر 1962ء کو پیدا ہوئے تھے۔ پیدائشی احمدی تھے۔ 1979ء میں جامعہ میں داخل ہوئے اور 1987ء میں مبشر کا کورس کر کے جامعہ ربوہ سے فارغ ہوئے اور انڈونیشیا گئے۔ مختلف جگہوں پر ان کو اللہ تعالیٰ نے خدمت کی توفیق دی۔ 2011ء تک جامعہ انڈونیشیا میں تھے۔ اُس کے بعد ایسٹ کلمنتان کے ریجنل مبلغ تھے، اور علمی آدمی تھے ماشاء اللہ۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب ’’توضیح مرام‘‘کا انڈونیشین ترجمہ کرنے کی انہوں نے سعادت پائی۔ اس کے علاوہ یہ میرے خطبات کا باقاعدگی سے ترجمہ کیا کرتے تھے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی اہلیہ اور ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔
دوسرا جنازہ ہماری لندن کی رہنے والی ایک پرانی خدمتگار خاتون مکرمہ طاہرہ ونڈرمین صاحبہ اہلیہ مکرم نواب محمود ونڈرمین صاحب مرحوم کا ہے۔ ان کی بھی 18؍جون 2012ء کو 84سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مکرم غلام یٰسین صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ آپ کے نانا حضرت غلام دستگیر صاحب اور اُن کے بھائی بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے۔ ان کے والد انڈین حکومت کے سرونٹ تھے۔ بچوں کی اچھی تربیت کی۔ قادیان میں مرحومہ نے تعلیم پائی اور پھر 1947ء سے کراچی میں رہائش پذیر تھیں۔ 1949ء میں ان کی شادی ہوئی محمود ونڈرمین صاحب سے، انگلستان آ گئیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی لندن ہجرت کے بعد پرائیویٹ سیکرٹری کے دفتر میں انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں اور انگلش ڈاک ٹیم میں ایک لمبا عرصہ خدمت سرانجام دی اور جلسہ سالانہ میں خلیفہ رابعؒ نے ان کا نام لے کے ان کے کام کی تعریف بھی کی تھی۔ بڑی مستعدی سے خدمت کرتی تھیں۔ کبھی کام کو بوجھ نہ سمجھتی تھیں، جتنا بھی دیا جاتا وہ کر کے لے آتیں۔ وفات سے چندروز پہلے بھی اپنے عزیز کو دفتر بھجوایا کہ کام بھجوائیں۔ ہمیشہ یہ مطالبہ ان کا ہوتا تھا کام زیادہ دیا جائے۔ باوجود بیماری اور کمزوری کے بڑی محنت سے کام کرتی تھیں اور کسی وجہ سے اگر کام کم دیا جاتا تو بے چین ہو جایا کرتی تھیں۔ اور میری ڈاک کا بھی انہوں نے لمبا عرصہ کام کیا ہے، یعنی گزشتہ بیس بائیس سال سے یہ کام کر رہی تھیں۔ نو سال میں مَیں نے ان کو دیکھا ہے، اِن کے ڈاک کے خلاصے ایک تو بڑے اچھی طرح بناتی تھیں جو اہم پوائنٹ ہوتے تھے اُن کو ہائی لائٹ کر دیتی تھیں اور ان کا خلاصہ پڑھتے ہوئے دقت نہیں ہوتی تھی اور نفسِ مضمون جو تھا خط لکھنے والے کا وہ بھی پہنچ جاتا تھا۔ یہ ان کی بڑی خوبی تھی کہ خلاصہ بناتے ہوئے جہاں ضروری سمجھتی تھیں کہ اس پر ضرور نظر پڑنی چاہئے، اُس کو ضرور ہائی لائٹ کرتی تھیں۔ اور ان کے خلاصے مجھے اس لحاظ سے سب سے زیادہ اچھے لگتے تھے اور اُن کا جواب دینا بھی آسان ہوتاتھا۔ اسی طرح ان کو اللہ تعالیٰ نے بیس سال تک بچوں کو قرآنِ کریم پڑھانے کی توفیق بھی عطا فرمائی۔ اخبار احمدیہ کے لئے اردو مضامین کو انگریزی میں ترجمہ بھی کیا کرتی تھیں۔ ان کے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور دو بیٹے اور پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی خلافت اور جماعت سے جڑا رکھے اور خدمت کی توفیق دیتا رہے۔ ان کے بیٹے ندیم ونڈرمین صاحب اخبار احمدیہ کے انگلش سیکشن میں ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہاان دونوں کی نمازِ جنازہ غائب نمازوں کے بعد ادا کروں گا۔
اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اُس نے اس زمانے میں جس شخص کو دنیا کی اعتقادی اور عملی اصلاح کے لئے بھیجا، ہم اُس کے ماننے والے ہیں۔ لیکن اس ایمان لانے کے باوجود ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ افرادِ جماعت کی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جن کے قول اور فعل ویسے نہیں جیسے ہونے چاہئیں۔ پس ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنی عملی حالتوں کے معیار اونچے رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمارے بڑوں نے کئے، چاہے وہ صحابہ تھے یا اُن کے بعد ہونے والے احمدی تھے۔ یہ جائزے ہیں جو ہمیں اپنے ایمان میں ترقی کی طرف لے جانے اور ہمارے اعتقاد اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنے والے ہوں گے۔
خلافت کے انعامات اُن لوگوں کے ساتھ ہی وابستہ ہیں جو نماز کے قیام کی طرف نظر رکھیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مساجد بنانے کی طرف بہت توجہ پیدا ہوئی ہے، لیکن مساجد بنانے کا فائدہ تو تبھی ہے جب اُن کے حق بھی ادا ہوں۔ اور مساجد کے حق اُن کو آباد کرنا ہے۔
اور آبادی کے لئے خدا تعالیٰ نے جو معیار رکھا ہے وہ پانچ وقت مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ہے۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ دنیا میں دینی اور روحانی انقلاب ہم نے پیدا کرنا ہے اور یہ دینی اور روحانی انقلاب بغیر عبادت کا حق ادا کئے پیدا نہیں ہو سکتا اور عبادت کے حق کے لئے سب سے اہم اور ضروری چیز نماز ہے۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔ اگر ہم میں سے بعض لوگ یا خطبات اور تقاریر نہیں سنتے یا سنتے ہیں اور بے دلی سے سنتے ہیں، ایک کان سے سنا اور دوسرے سے نکال دیا تو اُس عہدِ بیعت کو پورا کرنے والے نہیں ہیں کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے، اُ س کی پابندی کروں گا۔
دین کو مذاق نہ سمجھیں کہ خود تو نمازوں اور دعاؤں کی عادت نہیں ہے، اُس طرف کوئی توجہ نہیں ہے اور اپنے مسائل اور دنیاوی معاملات کے لئے دعا کے لئے کہہ رہے ہیں۔ پہلے خود تو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں، پھر کہیں۔ جب تک خود اپنی حالتوں میں تبدیلی پیدا نہیں کریں گے، یا تبدیلی پیدا کرنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش نہیں کریں گے، دوسرے کی دعائیں بھی پھر اثر نہیں کریں گی۔
ہمیشہ یاد رکھیں کہ صرف ہمارا اعتقاد ہمیں نہیں بچائے گا، نہ ہمارا اعتقاد انقلابی تبدیلیاں لائے گا بلکہ ہمارے عمل ہیں جو انقلاب لائیں گے انشاء اللہ۔ اور سب سے بڑھ کر ہماری دعائیں ہیں جو جب اللہ تعالیٰ قبول فرمائے گا تو دنیا میں ایک انقلاب برپا ہو گا اور دعائیں کرنے کا بہترین ذریعہ نمازیں ہی ہیں۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت ہر احمدی کا فرض ہے اور جب مجموعی طور پر تمام دنیا کے رہنے والے احمدیوں کا رُخ ایک طرف ہو گا تو یہ دعاؤں کے دھارے ایک انقلاب لانے کا باعث بنیں گے۔
خلافت کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ہر احمدی کا فرض بنتا ہے کہ اپنی نمازوں کی طرف توجہ دے تا کہ وہ انقلاب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے، جس کے نتیجے میں دنیا کی اکثریت نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہونا ہے، وہ جو دعاؤں کے ذریعے سے عمل میں آنا ہے، وہ عمل میں آئے۔
اپنے عمل سے ثابت کریں اور دنیا کو بتائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت میں آ کر ہم میں وہ پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں جس نے ہمیں خدا سے ملایا ہے۔
مکرم امر معروف عزیز صاحب مبلغ انڈونیشیا اور مکرمہ طاہرہ ونڈرمین صاحبہ اہلیہ مکرم نواب محمود ونڈرمین صاحب مرحوم آف لندن کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 22؍ جون 2012ء بمطابق 22؍ا حسان 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الرحمن۔ واشنگٹن۔ امریکہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔