جلسہ سالانہ کا مقصد تقویٰ میں ترقی
خطبہ جمعہ 29؍ جون 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
الحمد للہ کہ آج جماعت احمدیہ امریکہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے اور مجھے آج دوسری مرتبہ اس میں شامل ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ جلسے جو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں وہاں کی جماعتیں منعقد کرتی ہیں اُس جلسے کی تتبع میں ہیں جن کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ جس کا مقصد افرادِ جماعت کو اُن حقیقی برکات کا وارث بنانا تھا جو افرادِ جماعت کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا باعث بنیں اور جن کو وہ اپنی زندگیوں کا مستقل حصہ بنا کر ان برکات کے وارث بنتے چلے جائیں اور یہ برکات حقیقی تقویٰ اختیار کرنے سے حاصل ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ میں شامل ہونے والے ہر احمدی سے اس معیار کے حاصل کرنے کی توقع کی ہے اور ان معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ نہ دینے والوں سے سخت بیزاری کا اظہار فرمایا ہے۔
پس یہ جلسہ جہاں برکتوں کا سامان لے کر آتا ہے وہاں ایک سچے احمدی کے لئے بڑے خوف کا مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے سال میں ایک مرتبہ ایک خاص ماحول میں رہ کر اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیا، اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کا موقع دیا، نئے سرے سے اپنے ایمان و ایقان اور روحانیت کو صیقل اور مضبوط کرنے کا موقع دیا، لیکن ان کے حصول کا حق ادا کرتے ہوئے کوشش نہیں کی گئی۔ اگر کوشش کی بھی تو آئندہ اُس کو اُس مقام تک قائم نہ رکھ سکے جس پر رکھنا چاہئے تھا۔ اگر جلسہ کی برکات اور فیض کاصحیح اِدراک ایک احمدی کو ہو جائے اور اُس کے حصول کی کوشش بھی کرے اور پھر ہر سال جلسہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ان برکات اور پاک تبدیلیوں کو جمع کرتا چلا جائے تو ہر سال تقویٰ میں ترقی کی نئی منزلیں ہم ہر احمدی میں دیکھیں گے اور ترقی کی یہ منزلیں ہیں جو ہمیں اُس مقام تک پہنچائیں گی جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اُس دلی خواہش کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کی حالت کے بارے میں آپ کے دل میں تھی، اُس مقصد کے حصول کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے جو جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے کا آپ کے دل میں تھا اور جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں بھی کیا ہے کہ ’’اس دنیا سے زیادہ آخرت کی طرف توجہ ہو‘‘ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)
اور توجہ کا اپنی ترجیحات کا یہ معیار حاصل کرنے کے لئے آپؑ نے اس بات پر شدت سے زور دیا کہ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرو۔ اور تقویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی اُس کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے ادا کرو اور بندوں کے حقوق بھی اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے ادا کرو۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے سب سے بڑا حق عبادت کا ہے اور عبادت میں سب سے اہم چیز نماز ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ عبادت کا مغز ہے۔ ایک حقیقی مومن کے اس اہم فرض اور اللہ تعالیٰ کے اس حق کے بارے میں میں نے گزشتہ خطبہ میں کچھ روشنی ڈالی تھی۔ پس جنہوں نے وہ نہیں سنا وہ اُس کو سنیں اور اپنی عبادت کے کم از کم یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اس جلسہ میں جب آپ کو نمازوں کی طرف توجہ رہے گی یا ماحول کی وجہ سے بہر حال باجماعت نمازیں پڑھنی پڑیں گی تو پھر ان کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ جلسہ کے دنوں میں خاص طور پر یہ دعا کریں اور اس کے لئے کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ سب کو اپنے اس فرض اور اللہ تعالیٰ کے اس حق کو حقیقی رنگ میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہاں ایک وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں جلسہ کے پروگراموں اور دور سے آئے ہوئے مسافروں کے لئے نمازیں جمع کر کے پڑھائی جاتی ہیں اور شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ لیکن اپنے گھروں میں اور بغیر مجبوری کے نمازیں جمع کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بعض گھروں میں لگتا ہے کہ مستقل نمازیں جمع کی جاتی ہیں۔ کیونکہ بچوں سے جب پوچھو کہ ایک دن میں کتنی نمازیں ہیں تو بعض کا جواب یہ ہوتا ہے کہ تین نمازیں ہیں۔ جس سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ان گھروں میں نمازوں کا اہتمام نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت سے ہمیں پانچ نمازوں کے اوقات بھی بتائے اور اُنہیں کس طرح پڑھنا ہے یہ بھی کر کے دکھایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار اس طرف توجہ دلائی ہے۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے اس کی تفصیل بھی کچھ حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی روشنی میں بیان کی تھی۔
پس اس اہم فریضے کی طرف بہت توجہ دیں اور پھر تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے صرف نمازوں پر ہی اکتفا نہ ہو بلکہ بعض دوسری عبادتیں بھی فرض ہیں وہ بھی اداکرنا ضروری ہیں۔ پھر نوافل ہیں وہ ادا کرنے بھی ضروری ہیں۔ اپنی نمازوں کو نوافل سے بھی سجائیں۔ تہجد اور دوسرے نوافل کی طرف توجہ دیں۔ ان تین دنوں میں بہت سوں کی تہجد کی طرف توجہ ہو گی۔ جب توجہ ہو تو پھر اسے زندگی کا حصہ بنائیں کیونکہ فرائض کی کمیاں نوافل سے پوری ہوتی ہیں اور نوافل میں تہجد کی بڑی اہمیت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرف جماعت کو بہت توجہ دلائی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کر لیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے کیونکہ اُس کو دعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا۔ اُس وقت کی دعاؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے کیونکہ وہ سچے جوش اور درد سے نکلتی ہیں‘‘۔ فرمایا کہ’’جب تک ایک خاص سوز اور درد دل میں نہ ہو اُس وقت تک ایک شخص خواب راحت سے بیدار نہیں ہو سکتا‘‘ نیند سے اُٹھنا یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے انسان اپنی نیند کی یہ قربانی کر رہا ہے۔ فرمایا’’پس اس وقت کا اُٹھنا ہی ایک درد دل میں پیدا کر دیتا ہے جس سے دعا میں رقّت اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبولیت دعا کا موجب ہو جاتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ182۔ ایڈیشن 2003۔ مطبوعہ ربوہ)
پس تہجد کی یہ اہمیت ہے کہ اس کے لئے اُٹھنا ہی انسان میں ایک انقلابی تبدیلی پیدا کر دیتا ہے۔ آجکل کی دنیا میں مختلف ترجیحات ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ رات دیر سے سوتے ہیں۔ تہجد کا مجاہدہ یقینا ان حالات میں تقویٰ میں ترقی اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ پس یہ عبادت کے حق کی ادائیگی انسان کو جہاں اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے وہاں انسان کے اپنے فائدے کا بھی بڑا زبردست ہتھیار ہے۔
حقیقی مومن پراللہ تعالیٰ کے حق کے بعد ایک بہت بڑا حق اُس کے بھائیوں کا حق ہے یا کہنا چاہئے کہ انسانیت کا حق ہے اور قطع نظر اس کے کہ کون کس قوم کا ہے اور کس مذہب کا ہے، انسانیت کے ناطے ایک دوسرے کے حق ادا کرنے کی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار تلقین کی اور جومومن ہے اُس کا دوسرے مومن پر تو اَور بھی بہت زیادہ حق ہے۔ اس کے بارے میں خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت سے تلقین فرمائی ہے جس کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے۔
اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے۔ فرمایا کہ دوسروں کے لئے اپنے دل میں رِفق اور نرمی پیدا کرو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 69۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
ہمدردی پیدا کرو اور صرف یہ جلسوں تک ہی محدودنہ ہو بلکہ پھر عام زندگی میں بھی اُس کا اظہار ہو۔ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھائی بھائی ایک دوسرے سے ناراض ہو جاتے ہیں اور مَیں نے دیکھا ہے کئی کئی سال ناراض رہتے ہیں اور یہ ناراضگیاں پھر دوسرے رشتوں میں بھی آگے ٹرانسفر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ پھر یہ رفق، نرمی اور ہمدردی اور ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال رکھنے میں جو کمی ہے اس سے پھر بعض دفعہ گھروں میں جب ہمدردی کی کمی ہو جاتی ہے، پیار اور محبت کی کمی ہو جاتی ہے تو اس سے گھر بھی ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ہم کہا کرتے تھے کہ مغربی دنیا میں آزادی کی وجہ سے گھروں میں بے سکونی ہے اور طلاقوں کی شرح یہاں بہت زیادہ ہے۔ خاوند اور بیوی ایک دوسرے کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں رکھتے۔ نرمی اور پیار و محبت سے ایک دوسرے سے بات کرنا گوارا نہیں کرتے۔ شروع میں جو محبتیں ہوتی ہیں ایک سٹیج کے بعد آخر میں وہ دشمنیوں پر منتج ہو رہی ہوتی ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ اس ماحول کی وجہ سے ایک دوسرے پر اعتمادنہیں رہتا، اعتماد میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر اس کا آخری نتیجہ گھر ٹوٹنے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اب ہمارے لئے بھی یہ لمحہ فکریہ ہے کہ احمدی گھروں میں بھی بے سکونی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور نتیجتاً گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ جہاں سے بھی مجھے قضاء کی رپورٹیں آتی ہیں یا جماعت کی اصلاحی کمیٹیوں کی رپورٹیں آتی ہیں اُن اکثر جگہوں پر طلاقوں اور خلع کی شرح بہت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
پس ایک احمدی کو رِفق، نرمی اور ہمدردی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے، اپنے دائرے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے تبھی ہم حقیقی احمدی بن سکتے ہیں۔ پس اس جلسہ میں اس پہلو کی طرف بھی توجہ دیں اور اس کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کریں اور پھر اس پر قائم رہنے کا عہد بھی کریں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر کامل اطاعت کا عہد کیا ہے۔ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے اور تقویٰ پر قائم رہنے کا تجدیدِ عہد کیا ہے۔ اسے ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے، ورنہ نہ ہم عہدِ بیعت نبھانے والے ہیں اور نہ ہی ہم جلسہ کی برکات سے فیض اُٹھانے والے ہیں۔ جلسے ہوتے ہیں تو آپ ترانے اور نظمیں پڑھتے ہیں، ایم ٹی اے پر اس کو دکھانے کی وجہ سے اس میں رنگینیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بڑے زور شور سے برکتوں کے دن آنے کے ترانے گائے جاتے ہیں۔ پس برکتوں کے دن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے تقویٰ کا حصول ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی تعلیم کی کامل پیروی کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عہدِ بیعت نبھانا ضروری ہے ورنہ دن بیشک برکتوں کے ہوں ہم ان برکتوں سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے جہاں تم آئے ہو جو دنیاوی فائدہ اُٹھانا تھا تم نے اُٹھا لیا اور چلے گئے۔ بلکہ اس کی حقیقی برکات سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرو۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395)
اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے کیا چاہتے ہیں، اس بارے میں مَیں آپؑ کی چند باتیں آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہر بات بلکہ ہر ہر بات وہ ہے جس پر عمل کرنے والے باخدا انسان بن سکتے ہیں اور یہی آپ کی بعثت کا مقصد تھا کہ اپنے آقاو مطاع حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے انسانوں کو باخدا انسان بنائیں۔ پس سب سے پہلے تو میں آپؑ کے الفاظ میں آپ کا مقام اور اُس کی اہمیت اور آپ کی کامل اطاعت کے بارے میں بیان کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حَکَم عَدَل مانا ہے تو اس ما ننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یافعل پر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تواپنے ایمان کی فکر کرو۔ وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھر اہو اہے کوئی نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح مو عو د واقعی حَکَم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سا منے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگا ہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے۔ وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہو گا۔ وہ حَکَم عَدَل ہوگا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ52۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس آپؑ کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے ہم تبھی ٹھہر سکتے ہیں جب آپ کی ہر بات کی ہم کامل پیروی کرنے کی کوشش کریں۔ آپ نے واضح فرما دیا کہ آپ کی باتوں اور فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے والے اور اُن پر عمل کرنے والے صرف آپ کی باتوں کی عزت کرنے والے نہیں ہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو عزت و عظمت سے دیکھنے والے ہیں۔ پس یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم نے اُس امام کو مان لیا جس نے ہر بات کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی تھی تا کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہمیں سمجھنے میں غلطی لگی ہے۔ پس ایک احمدی جب بیعت کرتا ہے تو اپنی ذمہ داریوں پر ہمیشہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ دنیاوی خواہشات اور دنیاوی ترجیحات اُسے عہدِ بیعت سے دور لے جاتی ہیں اور حقیقت میں ایسے شخص کا عہدِ بیعت، عہدِ بیعت نہیں رہتا۔ پس اس جلسے کے دنوں میں اس پہلو سے بھی ہر احمدی کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔
جماعت کو نصائح کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا کہ: ’’خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اُس نے ظاہر کئے ہیں۔ اس سے اُس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہ کی جماعت ہو اور پھر خیرالقرون کا زمانہ آجاوے‘‘۔ یعنی پہلی صدیوں کا وہ زمانہ آ جائے جو بہترین زمانہ تھا۔ ’’جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ(الجمعۃ: 4) میں داخل ہوتے ہیں اس لئے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اتار دیں اور اپنی ساری توجہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ67۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس جب ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ خوشخبری دی ہے کہ مسیح موعودکے بعد دائمی خلافت کا سلسلہ بھی قائم رہنا ہے تو ہمیں اس سے فیض اُٹھانے کے لئے خیرالقرون کے زمانے کو بھی قائم رکھنے کی کوشش کرتے چلے جانا چاہئے۔ ایک نسل کے بعد دوسری نسل میں وہ روح پھونکنی ہو گی اور پھونکتے رہنا چاہئے کہ ہم نے اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنا ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گا پھر ہم اُس عمدہ زمانے کی خواہش رکھنے والے نہیں ہوں گے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے، بلکہ اندھیرے دور میں پھر ڈوبتے چلے جائیں گے۔ پس اس کے لئے کوشش کرنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ جہاں میرے ماننے والوں میں ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو وہاں آپس کے محبت و پیار میں بھی خاص رنگ ہو۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 67۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
صرف ذکرِ الٰہی کا خاص رنگ نہیں ہے بلکہ آپس کے رشتوں میں، آپس کے تعلقات میں جماعت کے اندر ایک محبت اور پیار کا بھی خاص رنگ ہونا چاہئے۔ یہ آپ نے اپنے ماننے والوں سے توقع کی۔ اور جب یہ رنگ پیدا ہو گا تو پھر ہی ہم وہ جماعت بن سکتے ہیں جو آخرین کی جماعت ہے۔ پھر اس محبت کو مزید وسعت دیتے ہوئے آپ نے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی۔ جس طرح آپ نے توجہ دلائی ہے اگر ہم میں سے ہر ایک اس طرح حقوق کی ادائیگی شروع کر دے تو ہم چند سالوں میں ایک انقلاب پیدا کر سکتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طورپر سینہ صاف نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ68۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس دیکھیں ہم میں سے کتنے ہیں جو اس سوچ کے ساتھ اپنی دعاؤں کو وسعت دیتے ہیں؟ جماعت میں جو بعض مسائل پیدا ہوتے ہیں اگر یہ سوچ ہو تو کبھی مسائل پیدا ہو ہی نہیں سکتے۔ جب ایک مومن اپنے مخالف اور دشمن اور غیر مومن کے لئے دعائیں کر رہا ہو گا تو اپنوں کے لئے تو ان دعاؤں میں ایک مزید اضافہ ہو گا۔ ایک شدت پیدا ہو رہی ہوگی۔ اور جب ایسی دعائیں ہوتی ہیں تو خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر بھی ایسے پیار کرنے والوں اور دوسروں کے جذبات کا اور احساسات کا خیال رکھنے والوں پر پڑتی ہے اور جس پر خدا تعالیٰ کے پیار کی نظر پڑ جائے، اُس کی دین و دنیا دونوں سنور جاتے ہیں۔ آپؑ کی اس اہم نصیحت کو بھی ہمیشہ ہمیں سامنے رکھنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا ’’تم پریہ خدا تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اُس نے تمہیں یہ قوت عطا کی اور شناخت کی آنکھ دی‘‘۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا، آپ کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ فرمایا’’اگر وہ یہ فضل نہ کرتا تو جیسے اَور لوگ… گالیاں دیتے ہیں تم بھی اُن میں ہی ہوتے‘‘۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جس طرح لوگ گالیاں دیتے ہیں تم لوگ بھی اُن میں ہوتے اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل تم پر نہ ہوتا۔ فرمایا ’’جس چیز نے تم کو کھینچا وہ محض خدا کا فضل ہے‘‘۔ فرمایا ’’یہ خیال مت کرو کہ ہم مسلمان ہیں۔ اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو‘‘۔ پس نام کا مسلمان ہونا اور احمدی ہوناکوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز جو فضل اللہ تعالیٰ کا اسلام اور احمدیت کے قبول کرنے کی صورت میں ہوا ہے، اُس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور قدر کس طرح ہو سکتی ہے؟ فرمایا کہ ’’اس کے اندر فلاسفی ہے جو زبان کے کہہ دینے سے حاصل نہیں ہوتی۔ اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصرفات کے نیچے آ جانے کا نام ہے‘‘۔ یعنی اسلام نام ہے اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی احکامات ہیں اُن کے نیچے آنے کا۔ ’’اور اس کا خلاصہ خدا کی سچی اور کامل اطاعت ہے۔ مسلمان وہ ہے جو اپنا سارا وجود خدا تعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ133۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اور جب اس حالت پر ایک مومن پہنچ جاتا ہے تو پھر قرآنِ کریم کی یہ آیت آپ نے پیش فرمائی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (البقرۃ: 113) کیوں نہیں، جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
پس اللہ تعالیٰ یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو بھی اپنی تمام تر توجہ اللہ تعالیٰ پر رکھے، اللہ تعالیٰ کی رضا ہر دوسری چیز پر مقدم کر لے، اُن کے خوف اور غم کی حالت کو اللہ تعالیٰ دور فرما دیتا ہے۔
احسان کا مطلب ہے کہ دوسروں سے نیک سلوک کرنا، ایسا سلوک جس میں کوئی ذاتی مفادنہ ہو۔ اور پھر یہ بھی مطلب ہے کہ اپنے علم اور عمل میں نیکی مدّنظر ہو۔ ایک انسان کا اپنا ہر عمل اور علم جو ہے اُس کا استعمال نیک باتوں کے لئے ہو اور کسی بھی صورت میں اُس میں بدی داخل نہ ہو اور یہی حالت حقیقت میں وہ حالت ہے جس کو کہہ سکتے ہیں کہ توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ پس یہ مقام ہے جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ حالت ہی ہمیں حقیقی مسلمان بناتی ہے۔ پس ہمیں اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرنے کے بعد اسی پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے، اسی پر اکتفا نہیں کر لینا چاہئے کہ ہم احمدی ہو گئے بلکہ اپنے معیار بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔
بیعت کرنے والوں کی خوش قسمتی کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’مَیں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادتمندوں کے لئے پیدا کر دی ہے‘‘۔ یعنی وہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہو گئے۔ ’’مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم اِن منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو‘‘۔ یعنی تم اُن انکار کرنے والوں کی نسبت سعادت کے قریب تر ہو۔ ’’جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لئے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدُوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ جب تک خدا تعالیٰ نہیں چاہے گا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تم پانی نہیں پی سکتے، احمدیت میں داخل ہو کر اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ فرمایا’’مَیں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ135۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ حالت ہے اور وہ مقام ہے جس کو ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اندر پیدا کرنے اور اپنانے کی ضرورت ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ بھی ہم پر بہت بڑا احسان ہے کہ حقوق کے معیاروں کے حصول کے لئے جلسہ کی صورت میں ایک تقریب پیدا کر دی جہاں ہم نیک باتیں سُن کر اور ایک دوسرے کے نیک اثرات کو جذب کر کے اُن معیاروں کو حاصل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں جو آپ ہم میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ پھر ایک بہت ہی اہم بات کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے اور ہر احمدی کو اس طرف بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور وہ ہے اپنی علمی حالت کو بہتر کرنا۔ آج کل کے معاشرے میں دنیاوی علم کی طرف بہت توجہ ہے اور دین سیکھنے کی طرف کم۔ آپ فرماتے ہیں کہ سچی تبدیلی تقویٰ اور طہارت پیدا کرنے کے لئے اپنے دینی علم کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد دوم صفحہ 141-142۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اور یہ دینی علم آج ہمیں صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ہی مل سکتا ہے۔ آپ نے اپنی کتابوں کا بے شمار خزانہ ہمارے لئے چھوڑا ہے جو علم و عرفان کے موتیوں سے بھری پڑی ہیں۔ پس انہیں پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جو جو کتب انگلش میں ترجمہ ہو چکی ہیں، اُنہیں اردو نہ جاننے والے انگلش میں پڑھنے کی کوشش کریں۔ کچھ اقتباسات ہیں اُن کی طرف توجہ دیں۔ وہ چار پانچ volumes کی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔ جو اُردو پڑھنا جانتے ہیں وہ اُردو میں پڑھیں کہ یہ باتیں ہیں جوہمارے علم و عرفان کو بڑھانے کا بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ کیونکہ جو کچھ آپ نے بیان فرمایا ہے، وہ قرآنِ کریم کی تفسیر ہے۔ اس زمانے میں سب سے زیادہ قرآنِ کریم کا اِدراک خدا تعالیٰ نے آپؑ کو عطا فرمایا۔
قرآنِ کریم کے بکثرت پڑھنے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ: ’’خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآنِ شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے‘‘۔ فرمایا ’’مَیں بار بار اس امر کی طرف اُن لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلے کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا‘‘۔ حقائق اُسی وقت کھلتے ہیں جب قرآنِ کریم کا علم ہو۔ اس کے بغیر زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا، دینی علم حاصل نہیں ہو سکتا۔ فرمایا ’’مَیں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعے اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لئے قرآنِ شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ113۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ماموریت کے اس اہم کام کے ساتھ اپنے ماننے والوں کو بھی اس طرف توجہ دلائی ہے تو اس کے لئے ہمارا بھی کام ہے کہ ہم بھی قرآنِ کریم کو سمجھیں، پڑھیں اور اس کے حسن و خوبی کو ان لوگوں پر ظاہر کریں، ان تک پہنچائیں۔ اس وقت تبلیغ کا سب سے بڑاہتھیار ہمارے پاس قرآنِ کریم ہے۔ اور نہ نوجوانوں کو اور نہ کسی اور کو کسی بھی قسم کے احساسِ کمتری میں، complex میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے کہ شاید مسلمانوں کے خلاف یا قرآنِ کریم کے خلاف باتیں ہوتی ہیں تو ہم یہ ہتھیار کس طرح استعمال کریں۔ یہی ہتھیار ہے جو تمام دینوں پر غالب آنے کا ہتھیار ہے۔ پس اس کو ہمیں سیکھنا چاہئے اور آگے پہنچانا چاہئے۔ اس کو پڑھنا اور سمجھنا اور اس کے ذریعے سے معترضین کے منہ بند کروانا آج ہماری ذمہ داری ہے۔ یہاں آئے دن جو قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلیظ اعتراضات کئے جاتے ہیں، اُنہیں دور کرنا آج ہماری ذمہ داری ہے۔ اور یہ صرف چند لوگوں کا ہی کام نہیں ہے کہ خدام الاحمدیہ کے ذریعے سے یا کچھ اور چند لوگوں کے ذریعے سے مجلس انصار سلطان القلم قائم ہو گئی تو ہم کافی سمجھ لیں۔ بلکہ ہر احمدی، بچے بڑے، مرد، عورت کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ ہم میں سے ہر ایک اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے والوں میں شامل ہو سکے۔
آپؑ فرماتے ہیں۔ ’’اس سلسلے میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ نہیں۔ خدا کا دامن پکڑنے والا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ اُس پر کبھی برے دن نہیں آ سکتے۔ خدا جس کا دوست اور مددگار ہو، اگر تمام دنیا اُس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پرواہ نہیں۔ مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہرگز تکلیف میں نہیں ہوتا‘‘۔ یعنی مشکلات اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر آتی ہیں تووہ اُس کو محسوس ہی نہیں کرتا ’’بلکہ وہ دن اُس کے لئے بہشت کے دن ہوتے ہیں۔ خدا کے فرشتے ماں کی طرح اُسے گود میں لے لیتے ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ195۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اُن تکلیف کے دنوں میں اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور اس تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ ایسے شخصوں کو اپنی گود میں لے لو۔
پس یہ چندباتیں اُن نصائح میں سے مَیں نے بیان کی ہیں جو وقتاً فوقتاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں فرمائی ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں، اپنی زندگیوں میں ایک ایسی تبدیلی پیدا کریں۔ جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ جلسہ ہماری عملی، روحانی، دینی اور علمی حالتوں میں تبدیلی پیدا کرنے کے لئے منعقد ہوتا ہے۔ پس جلسے کے دنوں میں جلسے کے ماحول اور یہاں کی جانے والی تقریروں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کریں اور ہر ایک اپنی حالتوں کے جائزے لے کہ کیا ہم وہ معیار حاصل کر رہے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں؟ تبھی ہم جلسہ میں شامل ہونے کا صحیح فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور اس کی برکات سے فیضیاب ہو سکتے ہیں ورنہ یہ بھی دنیاوی میلوں کی طرح کا ایک میلہ ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مقصد کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔
ایک بات انتظامی لحاظ سے بھی میں کہنا چاہتا ہوں کہ ہر شامل ہونے والے کو اپنے ارد گرد ماحول میں بھی نظر رکھنی چاہئے۔ یہ جلسہ کے ماحول کی حفاظت کے لئے بھی ضروری ہے اور آپ کی حفاظت کے لئے بھی ضروری ہے۔ کارکنان کے لئے خاص طور پر یہ ہدایت یاد رکھیں کہ ڈیوٹیوں کے دوران بعض نمازوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ نمازوں کی ادائیگی کی طرف باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے اور جو ان کے نگران ہیں وہ اس طرف توجہ دیں اور اسی طرح جلسے کے دوران تمام احباب ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ دیں۔ یہی جلسے کا ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔
اگر جلسہ کی برکات اور فیض کاصحیح اِدراک ایک احمدی کو ہو جائے اور اُس کے حصول کی کوشش بھی کرے اور پھر ہر سال جلسہ میں شامل ہونے کی وجہ سے ان برکات اور پاک تبدیلیوں کو جمع کرتا چلا جائے تو ہر سال تقویٰ میں ترقی کی نئی منزلیں ہم ہر احمدی میں دیکھیں گے۔
تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے صرف نمازوں پر ہی اکتفا نہ ہو۔ اپنی نمازوں کو پھر نوافل سے بھی سجائیں۔ تہجد اور دوسرے نوافل کی طرف توجہ دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جلسہ کے مقاصد بیان کرتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے۔
آپس کے رشتوں میں، آپس کے تعلقات میں جماعت کے اندر ایک محبت اور پیار کا بھی خاص رنگ ہونا چاہئے۔
سچی تبدیلی تقویٰ اور طہارت پیدا کرنے کے لئے اپنے دینی علم کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالہ سے احباب جماعت کو اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ 29؍ جون 2012ء بمطابق 29؍ا حسان 1391 ہجری شمسی، بمقام ہیرس برگ (Harrisburg) پنسلوینیا (Pennsylvania) امریکہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔