تقویٰ کے معیار بلند کرنے کی ضرورت

خطبہ جمعہ 6؍ جولائی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ! آج جماعت احمدیہ کینیڈا کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ یہ جلسے ایک احمدی کے لئے برکات کا موجب بنتے ہیں اور بننے چاہئیں کیونکہ ایک خاص ماحول میں اور صرف دینی اغراض کے لئے جمع ہونا، اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع ہونا، اُس کی رضا کے حصول کے لئے جمع ہونا یقینا اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو کھینچتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بڑا کھول کر بیان فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے منعقدہ مجالس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بناتی ہیں، اُس کی جنتوں کی طرف لے جاتی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اے لوگو! جنت کے باغوں میں چرنے کی کوشش کرو۔ جب صحابہ نے اس بارے میں وضاحت چاہی کہ جنت کے باغ کیا ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا: ذکر کی مجالس جنت کے باغ ہیں۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 86حدیث 3510)

پس جن مجلسوں سے جنت کے باغوں کے راستے ملیں وہ یقینا برکتوں والی مجالس ہوتی ہیں۔ اور ہمارے جلسوں کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھنے کی باتیں سنیں، دعاؤں اور عبادات کی طرف توجہ ہو اور اس کے حصول کے طریقے بھی سیکھیں۔ اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ پیدا کریں۔ اور پھر یہ نیکیوں کی طرف توجہ، حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ خدا تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے ہماری زبانوں کو اُس کے ذکر سے تَر کرتے ہوئے جنت کے باغوں کی طرف رہنمائی کرتی ہے بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی وجہ سے جس کا حق ادا کیا جا رہا ہو، وہ جب دیکھتا ہے کہ ادائیگی حقوق کی توجہ اس مجلس کی وجہ سے ہو رہی ہے تو جس کا حق ادا کیاجا رہا ہو، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کرتا ہے اور یہی مومنین کی مجالس اور آپس کے تعلقات اور خدا تعالیٰ کی شکر کی ادائیگی کا حال ہونا چاہئے۔

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس روح کے ساتھ یہاں آتے ہیں، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں اور نتیجتاً نہ صرف اپنے لئے جنت کے باغوں کے دروازے کھولتے ہیں بلکہ حقوق العباد کی ادائیگی کی وجہ سے دوسروں کے لئے بھی جنت کے باغوں میں چَرنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور پھر مزید برکتوں کے سامان ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا ایک مومن بنتا ہے کیونکہ دوسروں کو نیکی کا راستہ دکھانے والا یا کسی پر نیکی کر کے اُسے اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کی طرف توجہ دلانے والا بھی اُسی قدر نیکی کے ثواب کا مستحق بن جاتا ہے جتنا نیکی کرنے والا۔ گویا ایک نیکی نیک نتائج کی وجہ سے کئی گنا نیکیوں کا ثواب دلوا کر پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا وارث بناتی چلی جاتی ہے۔

پس یہ ہے ہمارا پیارا خدا جو نیکیوں کو سینکڑوں گنا، ہزاروں گنا پھل لگاتا ہے اور اپنے بندے کی معمولی کوشش کو بھی اس قدر بڑھا دیتا ہے کہ جو انسانی تصور سے بھی باہر ہے۔ پس اس پیارے خدا کے پیار کی تلاش ہر ایک کو کرنی چاہئے۔ اور جیسا کہ مَیں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسوں کا انعقاد کر کے ہمارے لئے برکات کے راستے کھولے ہیں، جنت کے باغوں کی سیر کے لئے ایک وسیع اور بہترین انتظام فرما دیا ہے۔ پس خوش قسمت ہوں گے ہم میں سے وہ جو اس مجلس اور اس ماحول سے فائدہ اُٹھا کر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ پس اس رضا کے حصول کے لئے جلسے میں شامل ہونے والے ہر مرد، عورت، جوان، بوڑھے اور بچے کو کوشش کرنی چاہئے۔ افرادِ جماعت کو یہ مقام حاصل کرنے والا بنانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں کتنا درد تھا اور آپ کس تڑپ کے ساتھ اس کے لئے دعا کرتے تھے، اس کا اندازہ آپؑ کے ان الفاظ سے ہوتا ہے۔ فرمایا:

’’دعا کرتا ہوں اور جب تک مجھ میں دم زندگی ہے کئے جاؤں گا اور دعا یہی ہے کہ خدا تعالیٰ میری اس جماعت کے دلوں کو پاک کرے اور اپنی رحمت کا ہاتھ لمبا کرکے اُن کے دل اپنی طرف پھیر دے اور تمام شرارتیں اور کینے اُن کے دلوں سے اٹھا دے اور باہمی سچی محبت عطا کردے اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ یہ دعا کسی وقت قبول ہو گی اور خدا میری دعاؤں کو ضائع نہیں کرے گا۔ ہاں مَیں یہ بھی دعا کرتا ہوں کہ اگر کوئی شخص میری جماعت میں خدا تعالیٰ کے علم اور ارادہ میں بدبخت ازلی ہے جس کے لئے یہ مقدر ہی نہیں کہ سچی پاکیزگی اور خدا ترسی اس کو حاصل ہو تو اس کو اے قادر خدا میری طرف سے بھی منحرف کردے جیسا کہ وہ تیری طرف سے منحرف ہے اور اس کی جگہ کوئی اور لا جس کا دل نرم اور جس کی جان میں تیری طلب ہو‘‘۔ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 398)

پس یہ الفاظ آپ کے دلی درد کا ایسا اظہار ہے جو دل کو ہلا دیتا ہے۔ رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے، توبہ اور استغفار کی طرف مائل کرنے والا ہے۔ اور حقیقی رنگ میں خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش کا طلبگار بنانے والا ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانے والا ہے۔ پس ان دنوں میں ہم میں سے ہر ایک کو توبہ اور استغفار، درُود اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ صرف ہمارے ایمانوں کو سلامت رکھے بلکہ ایمان و ایقان اور تقویٰ میں ترقی کرنے والا بناتا چلا جائے۔ ہمارے استغفار خالص استغفار بن جائیں۔ ہماری نمازیں اور عبادتیں حقیقی نمازیں اور عبادتیں بن جائیں۔ ہماری حقوق العباد کی ادائیگی خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس ارشاد کو بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔ :

’’جب تک دل فروتنی کا سجدہ نہ کرے صرف ظاہری سجدوں پر امید رکھنا طمع خام ہے‘‘۔ یونہی جھوٹی خواہش ہے کہ ہم بڑے سجدے کر رہے ہیں اور ہماری دعائیں اللہ تعالیٰ قبول کر لے۔ فرمایا: ’’جیسا کہ قربانیوں کا خون اور گوشت خدا تک نہیں پہنچتا صرف تقویٰ پہنچتی ہے، ایسا ہی جسمانی رکوع و سجود بھی ہیچ ہے جب تک دل کا رکوع و سجود و قیام نہ ہو‘‘۔ فرمایا ’’دل کا قیام یہ ہے کہ اس کے حکموں پر قائم ہو اور رکوع یہ کہ اس کی طرف جھکے اور سجود یہ کہ اس کیلئے اپنے وجود سے دست بردار ہو‘‘۔ (شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 398)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہم سے، اپنے ماننے والوں سے، اپنی جماعت سے یہ خواہش ہے کہ تقویٰ کا مقام حاصل ہو اور اس کے لئے بڑے درد سے آپ نے یہ دعا فرمائی۔ اللہ کرے ہم اس مقام کو حاصل کرنے والے بنیں۔ ہمارے دنیا کے دھندوں میں بہت زیادہ پڑ جانے اور تقویٰ سے دور ہونے کی وجہ سے ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے انقلابی مشن میں روک پیدا کرنے والے نہ بن جائیں۔ ہم حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پامالی کرنے والے نہ بن جائیں۔ ہم آپ کی روح کے لئے تکلیف کا باعث نہ بن جائیں۔ پس اس جلسے کی برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ہر احمدی کو ایک نئے عزم کے ساتھ یہ عہد کرنا چاہئے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے معیارِ تقویٰ کو بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔

تقویٰ کے راستوں کی تلاش کے لئے قرآنِ کریم نے جو ہمیں تعلیم دی ہے اور ایک حقیقی مومن کا جو معیار بیان فرمایا ہے اُس کی تلاش کر کے اور اُس پر عمل کر کے ہی ہم یہ معیار حاصل کر سکتے ہیں جس کی توقع حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم سے کی ہے۔ قرآنِ کریم میں تقویٰ پر چلنے کے بارے میں مختلف حوالوں سے، مختلف نہج سے بیشمار جگہ ذکر ہے جن میں سے بعض کا میں یہاں ذکر کروں گا تا کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَنَّہٗ لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاتَّقُوْنِ (النحل: 3) میرے سوا کوئی معبودنہیں، پس میرا تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ کا مطلب ہے بچاؤ کے لئے ڈھال کے پیچھے آنا، گناہوں سے بچاؤ کے سامان کرنا، مشکلات سے بچنے کے سامان کرنا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری عبادت اگر اُس کا حق ادا کرتے ہوئے کرو گے تو یہی تقویٰ ہے جو تمہاری ہر طرح سے حفاظت کرے گا، تمہیں گناہوں سے بچائے گا، تمہیں مشکلات سے نکالے گا۔ واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت جب اُس کے حق کے ساتھ کی جائے تو یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت پیدا ہوتی ہے لیکن یہ خوف اُس پیار کی وجہ سے ہے جو ایک حقیقی عابد اور ایک حقیقی مؤمن کو خدا تعالیٰ سے ہے اور اس کو دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں۔ پس ان عبادتوں کا حق ادا کرنے کی کوشش ایک حقیقی احمدی کو کرنی چاہئے تا کہ تقویٰ پر چلنے والا اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا کہلا سکے اور یہی انسانی پیدائش کا بہت بڑا مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) اور مَیں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اگرچہ مختلف الطبائع انسان اپنی کوتاہ فہمی یا پست ہمتی سے مختلف طور کے مدّعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں‘‘۔ اور ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل بلکہ ہمیشہ سے ہی یہ اصول رہا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد خود بناتا ہے یا سمجھتا ہے کہ میں نے یہ مقصد بنائے ہیں اور یہی میری کامیابی کا راز ہیں۔ اور اُس اصل مقصد کو بھول جاتا ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا انسان کو بتایا ہے۔ فرماتے ہیں ’’پست ہمتی سے مختلف طور کے مدّعا اپنی زندگی کے لئے ٹھہراتے ہیں۔ اور فقط دنیا کے مقاصد اور آرزوؤں تک چل کر آگے ٹھہر جاتے ہیں۔ مگر وہ مدّعا جو خدائے تعالیٰ اپنے پاک کلام میں بیان فرماتا ہے، یہ ہے۔ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (الذاریات: 57) یعنی مَیں نے جنّ اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں۔ پس اس آیت کی رُو سے اصل مدّعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 414)

یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قویٰ اس کو عنایت کئے، اُس نے اس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے، خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مدعا بلا شبہ خدا کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہی ہے۔

پس یہ وہ مقام اور معیار ہے جسے ہر احمدی نے حاصل کرنا ہے اور کرنا چاہئے، اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ انسان خود جتنا چاہے اپنا مقصد بنا لے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرے، اُس کی زندگی بے معنی ہے۔ آجکل اپنے سکون کے لئے انہی اغراض کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں اور خاص طور پر مغربی ممالک میں تو بیشمار طریقے ایجاد کرنے کی انسان نے کوشش کی جن کا ماحصل صرف بے حیائی ہے۔ انسانی قدریں بھی اس قدر گر گئی ہیں کہ انسان ہر قسم کے ننگ اور بیہودگی کو لوگوں کے سامنے کرتا ہے بلکہ ٹی وی پر دکھانے پر بھی کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ بعض حرکات جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور اسی کو فن اور سکون کا نام دیا جاتا ہے۔ انہی کی حالت کا اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ یوں نقشہ بھی کھینچا ہے۔ فرمایا وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِِنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لَّا یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِہَا اُوْلٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ اُوْلٰـئِکَ ہُمُ الْغَافِلُوْنَ (الاعراف: 180) اور یقینا ہم نے جنّوں اور انسانوں میں سے ایک بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے، اُن کے دل تو ہیں مگر ان کے ذریعہ سے وہ سمجھتے نہیں، یعنی روحانی باتیں سمجھنے کے قائل ہی نہیں، اُن کی آنکھیں تو ہیں مگر اُن کے ذریعہ سے وہ دیکھتے نہیں، اُن کے کان تو ہیں مگر ان کے ذریعے سے وہ سنتے نہیں، نہ ان کے دلوں میں روحانیت بیٹھتی ہے، نہ اُن کے کان روحانیت کی باتیں، دینی باتیں سننے کے قائل ہیں نہ نیک چیزیں اور وہ چیزیں دیکھنے کی طرف توجہ دیتے ہیں جس کی طرف خدا تعالیٰ نے دیکھنے کا کہا ہے اور نہ اُن سے دیکھنے سے رُکتے ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے رکنے کا کہا ہے۔ گویا مکمل طور پر دنیاوی خواہشات نے اُن پر غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ فرمایا کہ وہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی بد تر، اور بھٹکے ہوئے ہیں، یہی لوگ ہیں جو غافل ہیں۔ پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَرَءَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہٗ ھَوٰہُ (الفرقان: 44) کیا توُنے اُسے دیکھا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا لیا۔ یہ لوگ صرف اپنی خواہشات کی ہی عبادت کرنے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے۔ اَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ۔ اِنْ ھُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلًا (الفرقان: 45) کیا تو گمان کرتا ہے کہ ان میں سے اکثر سنتے ہیں یا عقل رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ بدتر۔

ان آیات میں ان لوگوں کا نقشہ ہے جو اپنے مقصد پیدائش کو نہیں سمجھتے اور اپنی خواہشات کے پیچھے چل پڑے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جس نے پیدا کر کے پھر اُس پیدائش کا مقصد بتایا ہے، اُسے تو بھول گئے ہیں اور اپنے مقاصد خود تلاش کر رہے ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ جانوروں کے تو اعمال کا حساب نہیں ہے، ان بھٹکے ہوؤں کے اعمال کا حساب جو ہے یقینا انہیں جہنم میں لے جائے گا۔

یہاں یہ بات واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ کہا کہ ہم نے بڑی تعداد کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے تو اس سے غلط فہمی نہ ہو کہ خدا نخواستہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں اختلاف ہے۔ ایک طرف تو کہہ رہا ہے کہ مَیں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے بنایا دوسری طرف فرماتا ہے کہ جہنم کے لئے پیدا کیا۔ اس کامطلب یہ ہے کہ باوجود خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کے سامانوں کے، باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کی رحمت وسیع تر ہے اکثریت اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کر کے اپنی دنیا و آخرت کے سنوارنے کے سامان نہیں کرتی اور اس کی بجائے اپنی خواہشات کی پیروی کر کے جہنم کے راستوں کی طرف چل رہی ہے۔

اہل لغت اس کی وضاحت اس طرح بھی کرتے ہیں کہ جہنم کے لفظ سے پہلے لام کا اضافہ ہوا ہے ’’لِجَھَنَّم‘‘ استعمال ہوا ہے۔ یہ اضافہ اُن کے انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے نہ کہ مقصد کی طرف۔ (تفسیر البحر المحیط جلد 4صفحہ 425 تفسیر سورۃ الاعراف زیر آیت180 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2010ء)

پس اپنے بد انجام کو انسان خدا تعالیٰ سے دوری اختیار کر کے، اُس کی عبادت کا حق ادا نہ کر کے پہنچتا ہے، اُس کے حکموں پر عمل نہ کر کے پہنچتا ہے۔ آجکل جیسا کہ مَیں نے کہا، اپنی بیہودہ خواہشات نے انسان کا یہ انجام بنا دیا ہے کہ انسان جانوروں سے بھی بدتر حرکتیں کرنے لگ گیا ہے اور کھلے عام بیہودہ حرکتیں ہوتی ہیں۔ گندی اور ننگی حرکات دیکھی جاتی ہیں، کی جاتی ہیں۔ پورنوگرافی کی ویڈیو اور فلمیں کھلے عام مہیا ہو جاتی ہیں، اُنہیں دیکھ کر یہ لوگ، ایسی حرکتیں کرنے والے جانوروں سے بھی بدتر ہو گئے ہیں۔ اور مَیں افسوس کے ساتھ کہوں گا، بعض شکایتیں مجھے بھی آ جاتی ہیں کہ ہمارے احمدی نوجوان بلکہ درمیانی عمر کے لوگ بھی اس قسم کی لغو یا اس سے ذرا کم لغو فلمیں دیکھنے کے شوق میں مبتلا ہیں اور اسی وجہ سے بعض گھر بھی ٹوٹ رہے ہیں۔ پس ہر ایک کو خدا کا خوف کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی واضح فرمایا ہے کہ اگر میرے ساتھ رہنا ہے تو ان لغویات اور ذاتی خواہشات کو چھوڑو ورنہ مجھ سے علیحدہ ہو جاؤ۔ ایسے لوگ عموماً جلسوں پر تو نہیں آتے، جماعت سے بھی بڑے ہٹے ہوئے ہوتے ہیں، دور ہوئے ہوتے ہیں لیکن اگر آئیں یا اُن کے کان میں یہ باتیں پڑ جائیں، یا اُن کے عزیز اُن تک پہنچا دیں تو ایسے لوگوں کو اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ یا پھر اس سے پہلے کہ نظامِ جماعت کوئی قدم اُٹھائے خود ہی جماعت سے علیحدہ ہو جائیں۔ اسی طرح نوجوانوں کو بھی جو نوجوانی میں قدم رکھتے ہیں، اچھے اور برے کی صحیح طرح تمیز نہیں ہوتی۔ گھر والوں نے بھی نہیں بتایا ہوتا۔ جماعت کے نظام سے بھی اتنا زیادہ منسلک نہیں ہوتے، اُن کو بھی میں کہوں گا کہ بیہودہ چیزیں دیکھنا، فلمیں دیکھنا وغیرہ یہ بھی ایک قسم کاایک نشہ ہے۔ اس لئے اپنی دوستی ایسے لوگوں سے نہ رکھیں جو ان بیہودگیوں میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ آپ پر بھی اثر ڈالیں گی۔ ایک مرتبہ بھی اگرکسی بھی قسم کی غلاظت میں پڑ گئے تو پھر نکلنا مشکل ہو جائے گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ان آیات کی وضاحت میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے جہنّم کے لئے اکثر انسانوں، جنّوں کو پیدا کیا ہے اور پھر فرمایا کہ وہ جہنّم انہوں نے خود ہی بنا لیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے وہ جہنم نہیں بنا کر دیا بلکہ جہنم انہوں نے خود بنا لیا ہے۔ ’’ان کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے‘‘۔ فرماتے ہیں: ’’اُن کو جنت کی طرف بلایا جاتا ہے۔ پاک دل پاکیزگی سے باتیں سنتا ہے اور ناپاک خیال انسان اپنی کورانہ عقل پر عمل کر لیتا ہے‘‘۔ بلایا جاتا ہے اُن کو جنت کی طرف لیکن وہ سنتے نہیں۔ جو پاک دل ہیں اُن پر تو پاکیزہ باتوں کا اثر ہوتا ہے لیکن جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ اس دنیاکی روشنی سے فائدہ اُٹھانا چاہئے وہ اپنی عقل پر انحصار کرتے ہیں۔ اُن کا نتیجہ پھر جہنّم ہوتا ہے۔ فرمایا ایسے لوگوں کے لئے ’’پس آخرت کا جہنّم بھی ہو گا اور دنیا کے جہنم سے بھی مخلصی اور رہائی نہ ہو گی کیونکہ دنیا کا جہنّم تو اُس جہنّم کے لئے بطور دلیل اور ثبوت کے ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 372۔ ا یڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

ایسے لوگوں کو پھر بعض بیماریوں کی وجہ سے، بعض اور چیزوں کی وجہ سے اس دنیا میں بھی ایک جہنم نظر آتی ہے۔

پھر دنیاوی جہنّم کا نقشہ کھینچتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ خیال مت کرو کہ کوئی ظاہر دولت یا حکومت، مال و عزّت، اولاد کی کثرت کسی شخص کے لئے کوئی راحت یا اطمینان، سکینت کا موجب ہو جاتی ہے اور وہ دمِ نقد بہشت ہی ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ وہ اطمینان اور وہ تسلّی اور وہ تسکین جو بہشت کے انعامات میں سے ہے ان باتوں سے نہیں ملتی۔ وہ خدا ہی میں زندہ رہنے اور مرنے سے مل سکتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’لذّات دنیا تو ایک قسم کی ناپاک حرص پیدا کر کے طلب اور پیاس کو بڑھا دیتی ہیں۔ استسقاء کے مریض کی طرح پیاس نہیں بجھتی‘‘۔ جس کو پانی پینے کا مرض ہوتا ہے اُس مریض کی طرح، اُس کی پیاس نہیں بجھتی۔ ’’یہاں تک کہ وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پس یہ بے جا آرزؤوں اور حسرتوں کی آگ بھی منجملہ اس جہنم کی آگ کے ہے جو انسان کے دل کو راحت اور قرار نہیں لینے دیتی بلکہ اس کو ایک تذبذب اور اضطراب میں غلطاں و پیچاں رکھتی ہے۔ اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ فرمایا: ’’اس لئے میرے دوستوں کی نظر سے یہ امر ہرگز پوشیدہ نہ رہے‘‘۔ یعنی ان باتوں کا خیال رکھیں جو آپ فرماتے ہیں۔ ’’… پس یہ آگ جو انسانی دل کو جلا کر کباب کر دیتی ہے اور ایک جلے ہوئے کوئلے سے بھی سیاہ اور تاریک بنا دیتی ہے، یہ وہی غیر اللہ کی محبت ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 371۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس ایک حقیقی مومن کو، تقویٰ پر چلنے والے اور تقویٰ کی تلاش کرنے والے کو اپنے ہر عمل کو خالصتاً للہ کرنا ہوگا۔ دل میں سے خواہشات اور نام نہاد تسکین کے دنیاوی بتوں کو نکال کر باہر پھینکنا ہو گا تبھی ایک مومن حقیقی مومن بن سکتا ہے۔ پس ان دنوں میں اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا جو موقع میسر فرمایا ہے اس میں ہر ایک کو اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ضروری نہیں ہے کہ انتہائی برائیوں میں ہی انسان مبتلا ہو، چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چھوٹی برائیاں ہی بعض دفعہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں۔ ذکرِ الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر رکھیں، استغفار اور درود سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ اپنے دلوں کو غیر اللہ کی محبت سے پاک کریں۔ اللہ تعالیٰ کے شکر گزار بندے بنیں کہ یہ شکر گزاری پھر خدا تعالیٰ کی محبت کو جذب کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیاوی لحاظ سے جو دروازے کھلے ہیں اُنہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنائیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا۔ اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمایا ہے کہ تمہارا تقویٰ تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا پیسہ، تمہاری دولت تمہارے لئے عزت کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14) کہ اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں، اکثر ہماری تقریروں میں ذکر کیا جاتا ہے، مقررین اس کا ذکر کرتے ہیں لیکن جس طرح اُس پر عمل ہونا چاہئے وہ عمل نہیں ہوتا۔ اگر صحیح طرح عمل ہو تو بہت سارے مسائل، بہت ساری جھگڑے جوجماعت کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں وہ خود بخود حل ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14) یعنی جس قدر کوئی تقویٰ کی دقیق راہیں اختیار کرے اُسی قدر خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کا زیادہ مرتبہ ہوتا ہے۔ پس بلاشبہ یہ نہایت اعلیٰ مرتبہ تقویٰ کا ہے کہ قبل از خطرات، خطرات سے محفوظ رہنے کی تدبیر بطورِ حفظ ما تقدم کی جائے‘‘۔ (نور القرآن نمبر 2 روحانی خزائن جلد 9صفحہ 446)

خطرہ آنے سے پہلے ہی خطرات سے بچنے کا طریقہ کیا جائے۔

پھر فرمایا۔ ’’مکرّم و معظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے‘‘۔ (تحفۂ سالانہ یا رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ صفحہ 50)

پھر آپ فرماتے ہیں ’’دینی غریب بھائیوں کو کبھی حقارت کی نگاہ سے نہ دیکھو۔ مال و دولت یا نسبی بزرگی پر بے جا فخر کر کے دوسروں کو ذلیل اور حقیر نہ سمجھو۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک مکرّم وہی ہے جو متّقی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 135۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پھر آپ نے فرمایا کہ’’نجات نہ قوم پر منحصر ہے نہ مال پر، بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل پر موقوف ہے‘‘ اور فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کیلئے کیا کرنا ہے ’’اور اس کو اعمالِ صالحہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 445۔ ا یڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

یعنی خدا تعالیٰ کا فضل جو ہے اس کو اعمالِ صالحہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی اور اتباع اور دعائیں جذب کرتی ہیں۔ پھر ایک جگہ آپ نے بڑی سختی سے تنبیہ فرمائی ہے اور الفاظ بڑے سخت ہیں۔ فرمایا:

’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزّز و مکرّم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اُس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہو سکتے کہ متقی بھی وہیں رہے اور شریر اور ناپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے۔ اور چونکہ اس کا علم خدا کو ہے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو لعنت کے نیچے آیا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 177۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس یہ تمام ارشادات جو مَیں نے پڑھے ہیں ایک حقیقی احمدی کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہیں۔ آپ نے فرمایا خطرات سے پہلے اُن خطرات سے بچنے کی کوشش کرو اور خطرات سے بچنا یہی ہے کہ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنایا جائے تا کہ پھر انسان نجات یافتوں کی فہرست میں بھی شامل ہو جائے۔ اس فہرست میں شامل ہونے کے تین طریقے آپ علیہ السلام نے بتائے ہیں۔ ایک یہ کہ نیک اعمال بجا لاؤ۔ نیک اعمال کی وضاحت یہی ہے کہ ہر قدم جو ہے وہ نیکیوں کے حصول کے لئے ہو۔ اور پھر ان نیک اعمال کی نشاندہی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ہو سکتی ہے اُس کو دیکھو، وہاں سے ملے گی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ کے بارے میں حضرت عائشہؓ نے فرمایا تھا کہ آپ کے اخلاق قرآنِ کریم ہے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 144مسند عائشۃؓ حدیث 25108 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

پس قرآنِ کریم کی طرف توجہ کرنی ہو گی۔

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرو تو پھر حاصل ہو گا۔ پھر اپنے اعمال اور سنتِ نبوی پر چلنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اور دعاؤں سے مزید خوبصورت بناؤ۔ فرمایا یہی جماعت ہے جس کے مقدر میں کامیابی مقدر ہے۔ یہی تقویٰ پر چلنے والے لوگ ہیں جنہوں نے دنیا پر غالب آنا ہے۔

پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اس اصل کو سمجھ جائیں، اس بات کو سمجھ جائیں، اس بنیادی چیز کو سمجھ جائیں اور اپنی ترجیحات دنیاوی دولت کو نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول اور تقویٰ کے لئے کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی ایک بڑی تعداد اس کے لئے کوشش کرتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں جس کا اظہار افرادِ جماعت کے رویّوں اور قربانیوں سے ہوتا ہے۔ لیکن ابھی بہت کچھ اس میدان میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس اہم بات کو سمجھنے والے ہوں۔ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایک متقی سے جو وعدے فرمائے ہیں، اُن سے حصہ پانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے وعدوں کے ساتھ متقیوں سے یہ وعدہ بھی فرمایا ہے کہ والعاقبۃ للمتقین کہ انجام متقیوں کا ہی ہے، یعنی کامیابی اور اچھا انجام متقیوں کا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’ہر قسم کے حسد، کینہ، بغض، غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق وفجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفلت سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کا ر ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ (الاعراف: 129) اس لیے متقی بننے کی فکر کرو‘‘۔ (ملفوظات جلد دوم صفحہ 212۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ماحول جو جلسے کا ہمیں مل رہا ہے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی برائیوں پر نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی برائیوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہر قسم کی نیکیوں کو اختیار کرنے کی طرف بھرپور توجہ دینی چاہئے تا کہ ہم اُس انجام کو حاصل کرنے والے ہوں جو ہمیں کامیابی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنا دے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ نے صرف انفرادی انجام پر ہی بس نہیں کی بلکہ افرادِ جماعت کی جتنی بڑی تعداد ایک کوشش کے ساتھ نیکیوں کو اختیار کرنے اور تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرے گی من حیث الجماعت بھی جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش میں اضافہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل بڑھتے چلے جائیں گے۔ اور وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمائے ہیں اُنہیں اپنی زندگیوں میں ہم پورا ہوتا دیکھیں گے۔ یقینا یہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی یہ وعدہ ہے جیسا کہ اپنی سنت کے مطابق خدا تعالیٰ تمام انبیاء سے وعدہ فرماتا ہے کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلہ: 22) اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ پس غلبۂ احمدیت اور غلبۂ اسلام تو ہونا ہی ہے لیکن اگر ہم تقویٰ پر ترقی کرنے والے ہوئے تو ہم اپنی زندگیوں میں انشاء اللہ تعالیٰ ان ترقیات اور غلبہ کو دیکھنے والے ہوں گے۔ یہ انجام جو جماعت کا مقدر ہے اس کی شان انشاء اللہ ہم خود دیکھیں گے۔

پس اس شان کو دیکھنے کے لئے، اس غلبے کو دیکھنے کے لئے اپنے تقویٰ کو، تقویٰ کے معیار کو بلند تر کرتے چلے جانے کی کوشش ہر احمدی کو کرتے رہنا چاہئے۔

جماعتی ترقی اور انجام کے بارے میں اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’یہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حکم خواتیم پر ہے‘‘۔ یعنی جو انجام ہے۔ ’’خداتعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اَلْعَاقِبَۃُلِلْمُتَّقِیْن (الاعراف: 129)‘‘۔ فرمایا کہ ’’سنت اللہ اسی طور پر جاری ہے کہ صادق لوگ اپنے انجام سے شناخت کئے جاتے ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں۔ ’’اوائل میں نبیوں پر ایسے سخت زلازل آئے کہ مدّتوں تک کوئی صورت کامیابی کی دکھلائی نہ دی اور پھر انجام کار نسیم نصرتِ الٰہی کا چلنا شروع ہوا‘‘۔ اپنی جماعت کی ترقی کے بارے میں آپ نے اس انجام اور الٰہی بشارتوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ’’مواعیدِ صادقہ حضرت احدیت سے بشارتیں پاتا ہوں‘‘۔ یعنی کہ مَیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے سچے وعدوں کی خوشخبریاں پا رہا ہوں۔ ’’تو میرا غم و درد بالکل دور ہو جاتا ہے اور اس بات پر تازہ ایمان آتا ہے‘‘۔ (مکتوبات احمد جلد دوم صفحہ 62-63 مکتوب بنام حضرت حکیم مولوی نور الدین صاحبؓ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

یعنی جماعت کی ترقی کے انجام پر آپ کو خبریں اللہ تعالیٰ دیتا ہے تو فرماتے ہیں میرا ایمان تازہ ہوتا ہے۔ پھر آپ فرماتے ہیں: ’’مجھے تو خوشبو آتی ہے کہ آخر کار فتح ہماری ہے‘‘۔ (انشاء اللہ) (البدر جلد1 نمبر 3 مؤرخہ 14 نومبر 1902ء صفحہ 20)

پس یہ ترقی اور فتح تو جماعت احمدیہ کا مقدر ہے۔ ہمیں اس ترقی کا حصہ بننے کے لئے اپنے تقویٰ کے معیار اونچے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان جلسے کے دنوں میں اور پھر انشاء اللہ کچھ دنوں بعد رمضان بھی شروع ہو رہا ہے، اس سے بھی بھر پور فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنے تقویٰ کے معیار ہر احمدی کو بلند تر کرتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے حصول کی توفیق عطا فرمائے۔ ہر ایک کو جلسے کے ان دنوں سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ وہ تمام برکات ہم میں سے ہر ایک سمیٹنے والا ہو جو اس جلسے سے وابستہ ہیں۔ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُن دعاؤں کے وارث بنیں جو آپ نے جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے کی ہیں اور جو آپ نے اپنی جماعت کے افراد کے لئے کیں۔ بعض انتظامی باتیں بھی ہیں۔ جلسے کے تمام پروگراموں کو خاموشی سے تمام لوگوں کو سننا چاہئے اور حاضری بھی صحیح رہنی چاہئے اور جو بھی علمی، روحانی، تربیتی مضامین ہوں، اُنہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

پھر انتظامی لحاظ سے ہی یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہر لحاظ سے، ہر شامل ہونے والے کو جو یہاں انتظامیہ ہے، اُس سے تعاون کرنا چاہئے۔ اور انتظامیہ کو بھی، ڈیوٹی دینے والوں کو بھی اپنی مہمان نوازی کا پورا پورا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اسی طرح ڈیوٹی دینے والے بھی اور ہر شامل ہونے والا بھی اپنے ماحول پر بھی نظر رکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ہر شر سے محفوظ رکھے اور اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس جلسے کو بابرکت فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ جولائی 2012ء شہ سرخیاں

    جلسے کی برکات سے بھر پور فائدہ اُٹھانے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات اور دعاؤں کا وارث بننے کے لئے ہر احمدی کو ایک نئے عزم کے ساتھ یہ عہد کرنا چاہئے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ ہم اپنے معیارِ تقویٰ کو بڑھاتے چلے جانے کی کوشش کرتے چلے جائیں گے۔

    ضروری نہیں ہے کہ انتہائی برائیوں میں ہی انسان مبتلا ہو، چھوٹی چھوٹی برائیوں کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ چھوٹی برائیاں ہی بعض دفعہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہیں اور برائیوں میں مبتلا کرتی چلی جاتی ہیں، اس ملک میں آ کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے دنیاوی لحاظ سے جو دروازے کھلے ہیں اُنہیں  اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصول کا ذریعہ بنائیں نہ کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا۔

    غلبۂ احمدیت اور غلبۂ اسلام تو ہونا ہی ہے لیکن اگر ہم تقویٰ پر ترقی کرنے والے ہوئے تو ہم اپنی زندگیوں میں انشاء اللہ تعالیٰ ان ترقیات اور غلبہ کو دیکھنے والے ہوں گے۔

    فرمودہ مورخہ 06؍ جولائی 2012ء بمطابق 06؍وفا 1391 ہجری شمسی،  بمقام انٹرنیشنل سینٹر۔ مسس ساگا (کینیڈا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور