حقیقی شکرگزاری کا طریق

خطبہ جمعہ 13؍ جولائی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

مَیں عموماً جلسوں کے بعد جلسوں کے بارے میں کچھ کہا کرتا ہوں یا اللہ تعالیٰ کے شکر اور احسان کا مضمون بیان کیا کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ اور کینیڈا کے جلسے ایک ہفتہ کے وقفے سے گزشتہ دو ہفتوں میں منعقد ہوئے اور اختتام کو پہنچے۔ مجھے جہاں ان جلسوں میں شمولیت کی وجہ سے متعلقہ جماعت کو براہِ راست مخاطب ہونے کی توفیق ملتی ہے وہاں احباب جماعت سے ملنے کی وجہ سے بہت سی باتوں کا بھی علم ہو جاتا ہے۔ اُن کے مسائل کا علم ہو جاتا ہے۔ جماعت کی اخلاقی اور دینی حالت کے بارے میں پتہ چل جاتا ہے جس سے جماعت کی رہنمائی کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے، بلکہ رہنمائی مل جاتی ہے۔ پس اس لحاظ سے میرا امریکہ اور کینیڈا کا دورہ میرے لئے مفید رہا اور میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اس دورہ سے جماعت کے احباب و خواتین کو بھی فائدہ ہوا ہو۔

اس کے علاوہ دورہ سے غیر از جماعت یا غیر مسلم اور بعض معروف ملکی شخصیات سے مل کر بھی جماعتی تعارف کی توفیق ملتی ہے اور اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دونوں جگہ یہ موقع ملا اور دونوں جگہ اس لحاظ سے اچھا کام ہو رہا ہے اور دونوں جماعتوں نے اپنے بیرونی رابطوں کو وسعت دی ہے۔

بہرحال پہلے تو مَیں آپ کے سامنے آج اس حوالے سے اس مضمون کو رکھنا چاہتا ہوں جو جلسے کے بعد مَیں عموماً بیان کرتا ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا وہ شکر گزاری کا مضمون ہے اور اس کے لئے مجھے بھی اور آپ سب کو بھی خدا تعالیٰ کا انتہائی شکر گزار ہونا چاہئے کہ اُس نے ہمیں توفیق عطا فرمائی کہ سالانہ جلسے منعقد کریں، اُن میں شامل ہوں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت بھی ڈالی اور ہر طرح خیر و برکت کے ساتھ یہ اپنے اختتام کو پہنچے۔ الحمد للہ۔

لیکن جیسا کہ مَیں امریکہ کے جلسہ میں بھی اور کینیڈا کے جلسہ میں بھی بیان کرتا رہا ہوں کہ جلسوں کا اصل مقصد اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنا ہے۔ یہ خیروبرکت جو جلسے کے ذریعہ سے ملتی ہے حقیقت میں اُس وقت ہے جب ہمارے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہوں۔ اور پھر یہ عارضی تبدیلیاں نہ ہوں بلکہ مستقل کوشش اور ہمت کے ساتھ ان تبدیلیوں کو زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ بار بار مَیں یہ چیز دہراتا رہتا ہوں۔ اور یہ چیزیں پھر خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہونے کے مضمون کو بھی کھولتی ہیں اور جب یہ شکرگزاری کا مضمون واضح ہوتا ہے تو پھر ایک مومن اللہ تعالیٰ کے مزید فضلوں کا وارث بنتا چلا جاتا ہے اور اس طرح ایک فضل کے بعد دوسرا فضل انسان پر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جو سچے وعدوں والا ہے وہ اپنے شکر گزار بندوں سے یہ وعدہ فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اعلان فرمایا کہ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8) کہ اگر تم شکرگزار بنے تو میں تمہیں اور بھی زیادہ دوں گا۔

پس اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں اور احسانات کو اُن لوگوں کے لئے مزید بڑھا دیتا ہے جو اُس کے شکرگزار ہیں۔ اور ایک احمدی مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بڑا انعام اور احسان ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے نیکیوں کے بجا لانے اور پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ پس ہر احمدی کو شکرگزاری کے اس مضمون کو سمجھنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کا حاصل کرنے والا بنے۔ نہ کہ اُن لوگوں میں شامل ہو جو اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرنے والے ہیں اور یوں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنتے ہیں۔ ان ملکوں میں آ کر دنیاوی لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ نے آپ پر بے انتہا فضل فرمایا ہے اور بعض پر یہ فضل بہت زیادہ ہوا ہے۔ اکثریت کے حالات بھی اُن کے پہلے حالات سے بہتر ہوئے ہیں اور جیسا کہ مَیں نے جلسے میں بھی اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بہت سوں کے لئے یہاں لانے کے سامان کئے ہیں اور اُس کے نتیجے میں آپ کے دنیاوی حالات بہتر ہوئے ہیں۔ یہ بھی احمدیت کی برکت ہے۔ وہ لوگ یقینا ناشکرے اور خدا تعالیٰ کی نظر میں گرے ہوئے ہیں جو یہاں آئے، احمدیت کی بنیاد پر یہاں پاؤں ٹکائے، اسائلم لیا اور جب حالات بہتر ہوئے تو جماعت پر اعتراض شروع کر دیا، جماعت سے علیحدہ ہو گئے۔ بہرحال جماعت کو تو ایسے لوگوں کی رَتی بھر بھی پرواہ نہیں ہے۔ یہ جو محاورہ ہے کہ ’’خس کم جہاں پاک‘‘ یہ ایسے ہی لوگوں پر صادق آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو علیحدہ کر کے جماعت پر بھی یہ ایک احسان کیا ہے۔

لیکن ہر احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اُس کی شکر گزاری بھی تبھی ہو گی جب وہ حقیقت میں خدا تعالیٰ کی اس بات کو سامنے رکھے کہ اُس کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ ایک احمدی اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچانے اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے پھر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے۔ اپنے آپ کو اُس اسوہ کے مطابق چلانے کی کوشش کرے جو ہمارے سامنے ہمارے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا۔ روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے دن بھر کے فضلوں کو یاد کرتے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے اور فرماتے کہ تمام حمد اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس نے مجھ پر فضل و احسان کیا، مجھے عطا فرمایا اور مجھے بہت دیا۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 495 مسند عبداللہ بن عمر حدیث 5983 دارالکتب العلمیہ بیروت 1998ء)

بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کی حمد و ثنا ہے۔ اور پھر آپؐ کا عبادتوں کا یہ حال تھا کہ عبادت کرتے کرتے (روایات میں آتا ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سُوج جاتے تھے۔ اور یہ عرض کرنے پر کہ یا رسول اللہ! آپؐ اتنی مشقت کیوں اُٹھاتے ہیں؟ فرماتے: کیا مَیں خدا تعالیٰ کا عبدِ شکور نہ بنوں؟ (صحیح البخاری کتاب التفسیر۔ سورۃ الفتح باب قولہ لیغفرک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر…4837)

پس اس عبدِ شکور کے ماننے والوں کا اور اُس کی امت کا بھی فرض ہے کہ اپنی استعدادوں کے مطابق اس اُسوہ کی پیروی کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کے پیار سے حصہ پانے والے بنیں۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ آپ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ آپ اعلان فرما دیں کہ ’’فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)‘‘ کہ تم میری پیروی کرو، میرا اسوہ حسنہ اپنانے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ کے پیارے ہو گے، اُس کا پیار حاصل کرنے والے بنو گے۔ ا ور اللہ تعالیٰ کا پیار پھر اور نعمتوں اور فضلوں سے حصہ پانے والا بناتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف نعمتوں کے ملنے پر ہی شکر گزاری نہیں فرماتے تھے بلکہ کسی مشکل سے بچنے پر بھی اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے تھے۔ حتی کہ روزمرّہ کے کاموں میں، چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی آپ کی سیرت میں شکرگزاری کی انتہا نظر آتی، اور اس کے علاوہ بھی شکر گزاری ہر وقت اللہ تعالیٰ کی تھی۔ پس یہ وہ حقیقی شکر گزاری ہے جس کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے اور یہ ایسی شکرگزاری ہے جس پر اللہ تعالیٰ مزید فضل فرماتا ہے۔ اپنے انعامات اور احسانات کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ پس یہ شکرگزاری انسان کے اپنے فائدہ کے لئے ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ہماری شکرگزاری کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ہماری شکرگزاری کا حاجتمندنہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَمَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ (لقمان: 13) اور جو بھی شکر کرتا ہے، اُس کے شکر کا فائدہ اُسی کی جان کو پہنچتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے وہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ سب قسم کے شکروں سے بے نیاز ہے۔

پس ایک احمدی اس قسم کا شکرگزار ہونا چاہئے۔

پھر شکر گزاری کے بھی کئی طریقے ہیں۔ اُن طریقوں کو ہمیشہ روزانہ اپنی زندگی میں تلاش کرتا رہے۔ ایک احمدی جو ہے، حقیقی مومن جو ہے وہ شکر گزاری کے ان طریقوں کو تلاش کرتا ہے تو پھر دل میں بھی شکر گزاری کرتا ہے۔ پھر شکرگزاری زبان سے شکریہ ادا کر کے بھی کی جاتی ہے۔ جب انسان اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے یا کسی دوسرے کی شکرگزاری بھی کرتا ہے تو زبان سے شکر گزاری ہے۔ اور پھر اپنے عمل اور حرکت و سکون سے بھی شکرگزاری کی جاتی ہے۔ گویا جب انسان شکرگزاری کرنا چاہے تو اُس کے تمام اعضاء بھی اس شکر گزاری کا اظہار کرتے ہیں یا انسان کے تمام جسم پر اُس شکرگزاری کا اظہار ہونا چاہئے۔ اور اللہ تعالیٰ جب بندوں کا شکر کرتا ہے، یہاں شکرگزاری کا جو لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال ہوا ہے، تو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری، انسان پر انعامات اور احسانات ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری جب انسان کرتاہے تو ان باتوں کا اُسے خیال رکھنا چاہئے کہ انتہائی عاجزی دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکا جائے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ سے پیار کا اظہار کرنا اور اُس کے پیار کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنا، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو علم میں لانا۔ ہر فضل جو انسان پر ہوتا ہے اُس کو یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یہ علم ہونا چاہئے کہ ہر نعمت جو مجھے ملی ہے وہ اللہ کے فضلوں کی وجہ سے ملی ہے۔ یہ احساس پیدا ہونا چاہئے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے۔ پھر اُس کے انعامات اور احسانات کا منہ سے اقرار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اپنی زبان کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے، اُس کے ذکر سے تَر رکھنا۔ پھر یہ بھی کہ اُس کی مہیا کردہ نعمتوں کو اس رنگ میں استعمال کرنا جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حاصل کرنے والی ہوں، جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ان باتوں کے کرنے کے نتیجے میں پھر ایک شکرگزاری حقیقی رنگ میں شکر گزاری بنتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا اس کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنا یہ ہے کہ وہ اپنے ایسے شکرگزار بندوں کو مزید انعامات اور احسانات سے نوازتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم اس طرح شکر گزار ہو گے تو لَاَزِیْدَنَّکُمْ مَیں تمہیں اَور دوں گا، اس کو حاصل کرنے والے بنو گے۔

پس جب لوگ مجھے لکھتے ہیں اور ملاقاتوں میں بتاتے ہیں کہ جلسہ گاہ میں بڑا فائدہ ہوا، بڑا لطف آیا تو یہ لطف اور فائدہ تبھی فائدہ مند ہے جب اس کے نتیجے میں ہر احمدی پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا اور اُس کی عبادت کرنے والا بنتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے پہلے سے زیادہ کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں اور انعاموں کی ایک فہرست بنائے اور اپنے سامنے رکھے۔ جن نیکیوں کے کرنے کی توفیق ملتی ہے، پکّاارادہ کرے کہ اب ان پر مَیں نے قائم رہنا ہے۔ برائیوں کی فہرست بنا کر پھر ان سے بچنے کی کوشش کرے۔ اپنی تمام تر صلاحیتوں اور قوتوں کے ساتھ یہ کوشش ہونی چاہئے۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے ان احسانوں اور انعاموں کو یاد کر کے اللہ تعالیٰ کی حمد سے اپنی زبان کو تر کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اس بات پر قائم رہے کہ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا غلط استعمال نہیں کرنا۔ اللہ تعالیٰ نے اگر اس ملک میں آ کر بہتر حالات کر دئیے ہیں، مالی کشائش دے دی ہے تو اس مالی کشائش کو بجائے غلط کاموں میں استعمال کرنے کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے استعمال کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں تو ایسے لوگ بہت ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا مالی کشائش سے نوازا ہے۔ اُن میں سے بعض ایسے ہیں جو انتہائی فراخ دلی سے جماعتی منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے۔ اُنہیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ صرف مالی قربانی کو ہی اپنی شکرگزاری کی انتہا نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بننے کی بھی بے انتہا کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقی شکرگزار اور عبدِ رحمان بننے کے لئے عبادت گزار ہونا بھی ضروری ہے۔

کینیڈا میں اس حد تک مالی کشائش رکھنے والے لوگ کم ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ مالی کشائش میں اُس حد تک نہیں پہنچے ہوئے جتنے امریکہ میں ہیں یا کم از کم میرے علم میں نہیں، لیکن یہاں مجموعی طور پر مالی قربانیوں کا معیار اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی بلند ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی بعض اور عملی کمزوریاں اور عبادتوں میں کمزوریاں بھی کافی ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا حقیقی شکرگزار بننا ہے تو ان کمزوریوں کو دور کرنا بھی ضروری ہے۔

پس چاہے امریکہ کے رہنے والے احمدی ہیں یا کینیڈا کے رہنے والے احمدی ہیں یا دنیا میں کہیں بھی رہنے والے احمدی ہیں، اُن کی حقیقی شکرگزاری تبھی ہو گی جب مکمل طور پر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ مرد ہوں یا عورتیں، جب تک قرآنِ کریم کی حکومت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے عہدِ بیعت کی شرائط پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکرگزار نہیں بن سکتے۔ اللہ تعالیٰ شکرگزاری کے یہ معیار حاصل کرنے کی ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائے۔

پس اپنے جائزے لیں، اپنے ماحول پر نظر ڈالیں، اپنے گھر پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ یہ شکرگزاری کس حد تک آپ کے ماحول میں، آپ کے گھر میں، آپ کے اندر قائم ہے؟ اگر خاوند بیوی کا حق ادا نہیں کر رہا تو بیشک وہ دوسری نیکیاں کر بھی رہا ہے، وہ حقیقی شکرگزار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اُسے بیوی دی، بچے دئیے ہیں، اُن کا حق ادا کرنا اُس کی ذمہ داری ہے۔ ایسی ذمہ داری ہے جو خدا تعالیٰ نے اُس پر ڈالی ہے۔ یہ کوئی دنیاوی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈالی گئی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اگر بیویاں اپنے خاوند کے حقوق ادا نہیں کر رہیں تو وہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی شکرگزاری کی نفی کر رہی ہیں یا نعمتوں کی نفی کر رہی ہیں اور یہ نفی اُنہیں پھر شکرگزاروں کی فہرست سے نکال رہی ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا، ہر فرد اور ہر گھر کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ پس جس دن ہم نے ہر سطح پر اپنے قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بنا لیا اُس دن حقیقی شکرگزاری کی حقیقی صورت پیدا ہو جائے گی۔ اور پھر ہر انسان پر، دینی طور پر بھی اور دنیاوی طور پر بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ صرف دنیاوی کشائش کو کافی نہ سمجھیں، ایک احمدی کا فرض ہے کہ اُس کو روحانیت میں بھی ترقی کرنی چاہئے۔

مَیں شکرگزاری کے اُس مضمون کا جس کا مجھ سے تعلق ہے، اُس کا بھی اظہار کرتا ہوں، کیونکہ یہ بھی ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو مَیں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جس کا خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق ہے۔ اخلاص و وفا کے جس تعلق کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے براہِ راست فیض پانے والے لوگوں نے شروع کیا تھا اور جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ افرادِ جماعت کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر ہمیں حیرت ہوتی ہے۔ (ملفوظات جلد4صفحہ39۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

یہ الفاظ میرے ہیں۔ کم و بیش انہی الفاظ میں آپ نے فرمایا تھا۔ پس یہ حیرت انگیز اخلاص و وفا کا سلسلہ جو تقریباً سوا سو سال پر پھیلا ہوا ہے، آج بھی اپنی خوبصورتی دکھا رہا ہے۔ پس اس اخلاص و وفا کو کبھی مرنے نہ دیں۔ اپنی نسلوں میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ یہ اخلاص و وفا جہاں مجھے خدا تعالیٰ کا شکر گزار بناتے ہوئے اُس کی حمد کی طرف توجہ دلاتا ہے، اور آئندہ آنے والے خلفاء کو بھی انشاء اللہ تعالیٰ دلاتا رہے گا، وہاں افرادِ جماعت کو بھی شکرگزاری کی طرف متوجہ کرنے والا ہونا چاہئے تا کہ خلافت سے تعلق کا مضبوط اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والا رشتہ نسلاً بعدنسلٍ قائم ہوتا چلا جائے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اُس نے جماعت کے اخلاص و وفا کو قائم رکھا ہوا ہے اور دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں یہ تعلق ہر احمدی میں نظر آتا ہے۔ اس کے نظارے اس دورہ میں مَیں نے امریکہ میں بھی دیکھے اور یہاں بھی۔ بچوں میں بھی اور بڑوں میں بھی، مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی، نوجوانوں میں بھی، بوڑھوں میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ امریکہ کو دنیا سمجھتی ہے کہ وہاں صرف مادی سوچ رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور دین سے اتنا تعلق نہیں ہے۔ لیکن جس اخلاص و وفا کے ساتھ میرے دو ہفتے کے قیام کے دوران وہاں کے احمدیوں نے، جہاں بھی مَیں ہوتا تھا، وہاں پہنچ کر اخلاص و وفا کا اظہار کیا ہے۔ نوجوان ڈیوٹی دینے والوں نے دو ہفتے مستقل میرے ساتھ رہ کر اور سفر میں بھی ساتھ رہ کر اپنے کاروباروں اور نوکریوں کو بھی بعضوں نے داؤ پر لگا دیا یا بالکل پرواہ نہیں کی۔ ایسے بھی تھے جنہوں نے مجھے بتایا کہ ہماری نوکری نئی شروع ہوئی تھی اور جلسے کے لئے اور آپ سے ملاقات کے لئے رخصت نہیں مل رہی تھی تو ہم چھوڑ کر آ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام کے لئے بھی آسانیاں پیدا فرمائے اور ان کے اموال و نفوس اور اخلاص میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

پس یہ اخلاص و وفا اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف لے جاتا ہے اور ساتھ ہی میں ان لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے جلسے کے دوران امریکہ میں بھی، کینیڈا میں بھی، مختلف شعبہ جات میں بڑے اخلاص و وفا کے ساتھ اپنی ڈیوٹیاں دی ہیں اور تمام جلسے میں شامل ہونے والوں کو بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ اور ان کے لئے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان سے ایسا سلوک فرمائے کہ بجائے کسی قسم کی بے چینی پیدا ہونے کے اُن کو ایسا سکون ملے، اُن پر ایسا فضل نازل ہو کہ اُنہیں پہلے سے بڑھ کر خدمتِ دین کی توفیق ملے اور اس کی طرف توجہ پیدا ہو۔

امریکہ کے مختلف شہروں میں مَیں گیا ہوں اور بڑے یقین سے مَیں کہہ سکتا ہوں کہ ان تمام جگہوں پر پرانے مقامی امریکنوں نے بھی اور نئے آنے والوں نے جو باہر سے آ کر آباد ہوئے ہیں، اُنہوں نے بھی اخلاص و وفا دکھایا۔ لیکن ان تمام لوگوں کو مَیں پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو میں نے شروع میں کی تھی کہ آپ کی شکرگزاری اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنا تب صحیح ہوگا، آپ کے اخلاص و وفا کا اظہار تب حقیقی ہو گا جب اس اظہار کو خدا تعالیٰ کے ذکر اور اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے میں ڈھال لیں۔ پس مَیں نے جو اپنی شکرگزاری کا مضمون شروع کیا تھا اُس کی انتہا یہی ہے کہ خلیفۂ وقت اور افرادِ جماعت اللہ تعالیٰ کے حقیقی عابد بن کر اُس کی شکرگزاری کا حق ادا کریں۔ امریکہ میں اس مرتبہ مجھے خاص طور پر نوجوانوں میں جماعت کو مختلف طبقات میں متعارف کروانے اور اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانے کی طرف بھی توجہ نظر آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے تعلقات بنائے ہیں، لیکن ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ تعلقات اس مقصد کے لئے نہ بنائے جائیں کہ ہم نے کوئی دنیاوی مفاد اُن تعلقات سے حاصل کرنا ہے، بلکہ اس لئے ہوں کہ ہم نے تمام دنیا کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے روشناس کروانا ہے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

وہاں میرے سے پریس میں بھی گفتگو ہوئی۔ سی این این (CNN) کے نمائندہ نے سوال کیا تھا کہ امریکہ میں اسلام کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ اس پر مَیں نے یہی کہا تھا کہ حقیقی اسلام جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے اور اُس کے نہ صرف امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں پھیلنے کے امکانات ہیں کیونکہ یہ شدت پسندی سے نہیں بلکہ دلوں کو فتح کرنے سے پھیلنا ہے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بتانے سے پھیلنا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو بھی، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی جو خلافت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتے ہیں اور اس کا اظہار کرتے ہیں، یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے مقاصد دنیاوی نہیں بلکہ ہر تعلق جو دنیاوی ہے اور ہر بات جو ہم کرتے ہیں اُس کا راستہ اسلام کی فتح کی طرف لے جانے کی سوچ رکھنے والا ہونا چاہئے۔ اور یہ اُس وقت ہو گا جب ہم اصل وفا اپنے پیدا کرنے والے واحد و یگانہ خدا سے کریں گے۔ اور مَیں عموماً ہر جگہ چاہے وہ دنیاوی لیڈر ہوں یا کوئی بھی ہو اُن کو یہی بات کہتا ہوں کہ ہمارا اصل مقصد تو یہی ہے۔

بہر حال مجموعی طور پر امریکہ کا دورہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا رہا۔ اللہ تعالیٰ اس کے نیک نتائج بعد میں بھی پیدا فرماتا رہے۔ بعض جگہ نئی مساجد اور نئے سینٹر جو خریدے گئے ہیں، اُن کا بھی افتتاح ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ کی جماعت کو بھی مسجدوں کی تعمیر کی طرف کافی توجہ پیدا ہوئی ہے۔ اُن کواسے جاری رکھنا چاہئے۔

دوسری بات یہ کہ ترقی کرنے والی قومیں صرف یہی نہیں دیکھتیں کہ ہم نے یہ یہ کر لیا ہے بلکہ جو کمیاں رہ جائیں اُن پر بھی نظر رکھتے ہیں اور جو نقائص ہیں اُن پر نظر رکھنا ضروری ہے، تبھی صحیح راستوں کا تعین ہوتا ہے، تبھی صحیح رہنمائی ملتی ہے۔ اور چاہے امریکہ ہے یا کینیڈا ہے، جلسے کے دنوں میں خاص طورپر ایک لال کتاب ہونی چاہئے۔ جہاں جن کے پاس نہیں ہے وہ رکھیں۔ جس میں ہر جگہ جوجو کمیاں اور کمزوریاں رہ جائیں ان کمیوں کا ذکر ہو۔ مثلاًمَیں عرصہ سے دنیا کو ہوشیار کر رہا ہوں کہ بعض سیاسی، جنگی اور معاشی حالات ایسے ہو سکتے ہیں کہ جس میں پریشانی سے بچنے کے لئے گھروں میں بھی اور جماعتی سطح پر بھی بعض انتظامات ہونے چاہئیں۔ امریکہ میں تو اکثر قدرتی آفات اور طوفان اور ہریکین (Haricane) بھی آتے رہتے ہیں۔ وہاں تو جہاں جہاں بھی مسجدیں بن رہی ہیں، سینٹرز ہیں، وہاں کم از کم ایسے انتظام ہونے چاہئیں جہاں پانی اور بجلی کا انتظام باقاعدہ رہے کیونکہ اس کے بغیر آجکل گزارا نہیں ہو رہا۔ اب گزشتہ دنوں جب مَیں وہاں تھا ہم جلسہ پر ہیرس برگ گئے ہوئے تھے، پیچھے سے طوفان آیا اور بیت الرحمن کی مشن ہاؤس کی اُس علاقے کی تمام بجلی بند ہو گئی، پانی بند ہو گیا اور بجلی، پانی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ حالانکہ جماعتی سطح پر جنریٹرز ایسی جگہوں پر ہونے چاہئیں کہ فوری طور پر جماعتی عمارات کو روشن کر سکیں اور پانی وغیرہ کی کمی پوری کر سکیں۔ شاید یہ الٰہی تقدیر بھی ہو۔ بعضوں کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے کیونکہ پہلے وارننگ آ جایا کرتی ہے اور یہ سب کچھ بغیر وارننگ کے ہوا۔ کہیں کسی جگہ کوئی شرارت کا امکان ہو سکتا تھاجس کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح ٹال دیا۔ اللہ بہتر جانتا ہے کیا تھا۔ لیکن ہمیں بہر حال کچھ حد تک، دنیا میں ہر جگہ اپنے انتظامات مکمل رکھنے چاہئیں۔ اب کینیڈا کی طرف آتا ہوں شاید وہ سوچ رہے ہوں کہ خطبہ کینیڈا میں دیا جا رہا ہے اور باتیں امریکہ کی ہو رہی ہیں۔ ساری تعریفیں یا نقائص امریکہ کے بیان ہو گئے، آپ کے بھی بیان کر دیتا ہوں۔ ایک تو مشترک باتیں ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ تمام جماعت کو ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بنیں اور اس سے تعلق جوڑیں۔ نہ صرف کینیڈا یا امریکہ کا بلکہ دنیا کے ہر احمدی کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق جوڑے۔ اس کے لئے بار بار مَیں کہتا رہتا ہوں۔ دوسرے جیسا کہ مَیں نے کہا، اخلاص و وفا کے یہ نظارے کینیڈا میں بھی نظر آتے ہیں اور آ رہے ہیں، ابھی تو میں یہیں ہوں۔ جس دن مَیں یہاں پہنچا تھا، اُس دن پاکستان سے آئی ہوئی ہماری ایک عزیزہ جو امریکہ سے بھی ہو کر آئی تھی، اُن کو امریکہ سے کسی کا فون آیا کہ کیسا استقبال ہوا؟ امریکہ کا اچھا تھا یا یہاں۔ تو انہوں نے اُس کو یہ جواب دیا تھا کہ کینیڈا والوں نے تو امریکہ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ بہر حال یہ تو چھوڑنا ہی تھا۔ آپ کی تعداد زیادہ ہے۔ آپ کا یہاں peace village میں ماحول ایسا ہے۔ یہاں اکثریت احمدی گھرانوں کی ہے۔ مسجد ساتھ ہے۔ لیکن اس کا فائدہ اُٹھانے کے لئے صرف ظاہری استقبال کافی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کے مضمون کو سامنے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ مہیا کی ہے جس میں آپ اکٹھے رہتے ہیں۔ مسجد بھی ساتھ ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اس مسجد کو آباد کریں۔ تبھی اس کی خوبصورتی اور اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کا اظہار ہو گا۔ بوڑھے تو یہاں آ ہی جاتے ہیں اور اکثر بوڑھے ریٹائر ہیں۔ انہیں کوئی کام نہیں تو وہ شاید پانچ وقت نمازوں پر آ جاتے ہوں۔ لیکن اصل مقصد تب پورا ہو گا جب بچے اور نوجوان عبادت کے حقیقی مقصد کو سمجھتے ہوئے یہاں آئیں گے۔ مسجد کو آباد کریں گے۔ جماعتی روایات کو قائم کریں گے۔ لڑکیاں اور عورتیں بھی اس ماحول میں رہتے ہوئے اپنے تقدس کی اور اپنی حیا کی اور اپنی اقدار کی حفاظت کریں گی۔ نوجوان لڑکے بھی اپنی قدروں کو پہچاننے والے ہوں گے۔ اس ماحول میں ڈوب جانے والے نہیں ہوں گے۔ اور جب یہ مقصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی اللہ تعالیٰ کے حقیقی شکرگزار بن سکیں گے۔ ورنہ صرف نعرے لگا دینے سے یا سڑکوں پر استقبال کرنے سے ایک حد تک تو اخلاص و وفا کا اظہار ہو جاتا ہے لیکن اصل مقصد حاصل نہیں ہوتا۔ یہاں کے مقامی لوگ، میئر بھی مجھے ملے اور دوسرے سیاستدان بھی ملے، ہماری جماعت سے عموماً بہت متاثر ہیں اور کئی مجھے کہتے ہیں کہ تمہیں اپنی جماعت پر فخر ہونا چاہئے کہ کیسے کیسے لوگ تمہاری جماعت میں شامل ہیں۔ بڑے قانون کے پابند ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہ سب کچھ ملا ہوا ہے۔ یہ لوگ تو دنیاوی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُنہیں اچھا معیار نظر آتا ہے لیکن ہم نے اُس نظر سے دیکھنا ہے جو قرآنِ کریم ہمیں دکھاتا ہے، جو اس زمانے میں قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں کھول کر بتایا ہے۔ ہماری اعلیٰ اخلاقی قدروں اور دین پر قائم ہونے کے معیار دنیا داروں کے بنائے ہوئے معیار نہیں ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے اور اُس کا شکرگزار ہونے کے لئے ضروری ہے کہ جیسا کہ مَمیں نے پہلے بھی کہا کہ ہمیں قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔ پس آپ زمین کی طرف اور زمینی لوگوں کی طرف نہ دیکھیں بلکہ آسمان کی طرف اور زمین و آسمان کے مالک کی طرف دیکھیں اور جب یہ ہو گا تب ہی ہم حقیقی شکرگزار بن سکیں گے۔ تب ہی آپ کے استقبال اور نعرے اور ہر عمل خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے دورے کے مثبت نتائج بھی یہاں نکلے ہیں۔ امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اور نکل رہے ہیں۔ بعض بچیوں نے امریکہ میں مجھے لکھا جو وہیں پیدا ہوئیں اور پلی بڑھی ہیں اور یہاں کی بچیوں نے بھی لکھا اور خطوط اب بھی آ رہے ہیں کہ آپ کی باتیں سن کر ہمیں عورت کے تقدس کا، لڑکی کے تقدس کا، اُس کی حیا کا احساس ہوا ہے۔ اب ہمیں اپنی اہمیت پتہ لگی ہے۔ پردہ کی اہمیت پتہ لگی ہے۔ ایک احمدی لڑکی کے مقام کا پتہ لگا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں نے یہ بھی لکھا کہ نماز کی اہمیت کا پتہ چلا ہے۔ بعض لڑکیوں نے لکھا کہ ہم سمجھتی تھیں کہ اس ماحول میں رہتے ہوئے برقع اور حجاب کی ہمت ہم میں کبھی پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن آپ کی باتیں سننے کے بعد جب ہم آپ کے سامنے حجاب اور برقعہ اور کوٹ پہن کر آئی ہیں تو اب یہ عہد کرتی ہیں کہ کبھی اپنے برقعہ نہیں اتاریں گی۔ پس یہ سوچ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سوچ کو عملی رنگ میں ہمیشہ قائم رکھے اور وہ اپنے تقدس کی حفاظت کرنے والی ہوں جیسا کہ انہوں نے یہ عہد کیا ہے کہ ہم اپنے تقدس کی حفاظت کریں گی۔

اسی طرح بعض نے ملاقات میں نمازوں کی طرف توجہ کا وعدہ کیا کہ آئندہ ہمارے سے کوئی شکایت نہیں پہنچے گی۔ خطوط میں بھی لکھ کے دیا۔ یہ بات مجھے خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کی طرف لے جاتی ہے کہ وہی ہے جو دلوں پر قبضہ رکھتا ہے۔ وہی ہے جو دلوں کو پھیرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ وہی ہے جو زبان میں اثر قائم کرتا ہے۔ اُس نے کس طرح ان بچیوں اور افراد کو خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف مائل کیا ہے اور ایک عزم کے ساتھ وہ معاشرے میں اپنے مقام کی پہچان کروانے کے لئے اب کھڑی ہو گئی ہیں۔ حالانکہ یہی چند دن پہلے جھجکنے والی اور شرمانے والی تھیں۔ بعض سکولوں میں پریشان ہو جاتی تھیں۔ پس جن میں یہ تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اُنہیں بھی اب اللہ تعالیٰ کے ساتھ شکر گزاری کا اظہار اس عہد کے ساتھ کرنا چاہئے کہ وہ اب اپنی اس پاک تبدیلی کو قائم رکھیں گی اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اُس کے آگے جھکیں گی تا کہ یہ خصوصیت جو اُن میں پیدا ہوئی ہے وہ ہمیشہ قائم رہے۔ اسی طرح جن مردوں اور نوجوانوں میں کوئی تبدیلی پیدا ہوئی ہے، وہ بھی اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگی گزاریں کہ یہ پاک تبدیلی ہمیشہ اپنے اندر قائم رکھنی ہے۔

پہلے بھی مَیں نے مختصراً خاوندوں کو بیویوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائی ہے اور بیویوں کو خاوندوں کے حقوق کی طرف۔ اس کے لئے یہ بھی یاد رکھیں کہ آپس میں اعتماد کی فضا گھروں میں پیدا ہونی چاہئے۔ کیونکہ آجکل گھروں میں جو بدمزگیاں پیدا ہو رہی ہیں، رشتے ٹوٹ رہے ہیں وہ اعتماد کی فضاء میں کمی ہے اور سچائی سے کام نہ لینا ہے۔ پس سچائی سے کام لیتے ہوئے میاں بیوی کو آپس میں ایک دوسرے کو اعتماد میں لینا چاہئے۔ نوجوانوں میں آج کل جو نئے رشتے ہو رہے ہیں، اگر ماں باپ کے کہنے پر وہ شادی کرتے ہیں تو پھر وفا سے نبھائیں اور اگر کہیں اور دلچسپی ہے تو نہ لڑکا، لڑکی کی زندگی برباد کرے اور نہ لڑکی، لڑکے کی زندگی برباد کرے۔ شادی سے پہلے کھل کر اپنے والدین کو بتا دیں کہ ہم یہاں شادی نہیں کرنا چاہتے، کہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اسلام میں شادی کی بنیاد پاکیزگی پر ہے، دنیاوی باتوں پر نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرد کولڑکی سے شادی کرنے کے لئے جو چار خصوصیات بتائی ہیں اُس میں سب سے زیادہ اہمیت آپ نے یہی دی کہ اُس کا دین دیکھو۔ خوبصورتی نہ دیکھو، دولت نہ دیکھو، خاندان نہ دیکھو، دین دیکھو۔ (صحیح البخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین حدیث…5090)

پس جب لڑکے دین دیکھتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ دیندار لڑکی ہو تو لڑکوں کو خود بھی دیندار ہونے کی ضرورت ہے۔ اس کا ذکر مَیں مختلف خطباتِ نکاح میں بھی کرتا رہتا ہوں۔ اگر لڑکے دیندار ہوں گے، لڑکیاں دیندار ہوں گی تو تبھی ہم اُس حقیقی خوشی اور شکرگزاری کو حاصل کرنے والے بنیں گے جو جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہماری بنیاد پاکیزگی پر ہے۔ دنیاوی چیزوں پر، دنیاوی باتوں پر نہیں۔ یہاں کے آزاد ماحول کا اثر لے کر اپنی زندگیوں کو بے چین نہ کریں۔ یہ نہ سمجھیں کہ یہ لوگ بڑے خوش ہیں۔ یہ عارضی طورپر چند سالوں کے لئے تو خوش رہتے ہیں۔ اس کے بعد ان میں بھی بے چینیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ پس آخری نتیجہ بے چینی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس لئے شروع ہی سے اپنی سوچوں کو پاک اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلانے والا بنائیں۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا کہ دنیاوی لحاظ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے خاندانوں میں، گھروں میں بہتری آئی ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو بھی یاد رکھیں۔ دنیا میں اور اس کی چکاچوند میں نہ پڑ جائیں بلکہ ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فضل آپ پر فرمایا ہے۔ اپنی بنیاد کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اپنی اصل کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اپنے ماضی پر ہمیشہ نظر رکھیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو فضل فرمائے ہیں وہ کیا کیا ہیں۔ اور یہ فضل پھر آپ کو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بنانے والے ہونے چاہئیں۔ ایک حقیقی مومن وہی ہے جو ان باتوں کو یاد رکھ کر پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا شکرگزار بنتا ہے۔ اسی طرح اب اگر شکر گزاری کے مضمون پر عمل شروع کیا ہے تو یہ بھی یاد رکھیں کہ بھائیوں بھائیوں، دوستوں، قرابت داروں میں جو رنجشیں ہیں اُن کو بھی دور کریں کہ یہ رنجشیں دور کرنا اور صلح کی طرف قدم بڑھانا یہ چیز بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والی ہے، انسان کو عبدِ شکور بنانے والی ہے۔ پس یہ باتیں ہمیشہ ہر ایک کو یاد رکھنی چاہئیں۔ اس ماحول میں یہاں جب مَیں گھر سے باہر نکلتا ہوں تو بڑی تعداد میں بچے سڑکوں پر کھڑے ہوتے ہیں اور سلام سلام کی آوازیں ہر طرف سے آ رہی ہوتی ہیں۔ نعرہ تکبیر بلند ہو رہے ہوتے ہیں تو یہ ماحول جو سلام اور سلامتی پھیلانے کا ہے یہ تو جنت کے ماحول کی طرف اشارہ ہے۔ پس اس کو صرف ظاہری سلام تک نہ رکھیں بلکہ اس کو حقیقی اور گہری سلامتی کا ذریعہ بنائیں تا کہ یہ دنیا بھی جنت بنے اور آئندہ کی جنتوں کے بھی سامان پیدا ہوں۔ بچے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں، اخلاص و وفا کے کے مختلف اظہار ہو رہے ہوتے ہیں اور بچوں میں عموماً یہ جوش زیادہ نظر آ رہا ہوتا ہے۔ پس اس جوش و خروش کو قائم رکھنے کے لئے بڑے کوشش کریں اور کوشش یہی ہے کہ اُنہیں خود بھی اور بچوں کو بھی اس حقیقی روح کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بچوں کو بھی بتائیں کہ اس کی حقیقی روح کیا ہے؟ سلام کی اور نعروں کی رُوح اور حقیقت اُس وقت واضح ہو گی جب بڑوں کے عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کے لئے اور اپنے بھائیوں بہنوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ پیدا کرنے والے ہوں گے۔ پس اس ذمہ داری کو سب کو سمجھنا چاہئے۔

انتظامیہ کو بھی انتظامی لحاظ سے میں توجہ دلانی چاہتا ہوں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا۔ یہ صرف امریکہ کے لئے نہیں ہے بلکہ آپ کے لئے، کینیڈا کے لئے بھی ہے کہ اپنی کمیوں اور کمزوریوں پر غور کر کے ایک فہرست بنائیں اور اُسے لال کتاب میں درج کریں اور اگلے سال کا پروگرام بناتے ہوئے ان باتوں کو مدنظر رکھیں۔ اس مرتبہ مثلاً بہت سے خطوط مجھے اور بھی مختلف شکایتوں کے آ رہے ہیں کہ فلاں جگہ یہ کمی تھی، عورتوں میں کھانے میں یہ کمی تھی، طریقے میں کمی تھی، اٹیکیٹس (Etiquates) میں کمی اور کمزوریاں تھیں، لیکن ایک چیز جس نے جلسہ کے پروگراموں کو بھی بعض جگہ بہت خراب کیا وہ یہ ہے کہ اس مرتبہ آواز کا تقریباً تینوں دن کہیں نہ کہیں مسئلہ رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنے عرصہ سے آپ لوگ اُس جگہ پر جوجلسے منعقد کر رہے ہیں توپھر یہ مسئلہ کیوں پیدا ہوا ہے؟ صرف آرام سے، بھولے منہ سے یہ کہہ دینا کہ غلطی ہو گئی اور یہ نہیں تھا اور وہ نہیں تھا، یہ کافی نہیں ہے۔ اس کی وجوہات تلاش کریں تا کہ آئندہ یہ غلطیاں نہ ہوں۔ مجھے تو یہ لگتا ہے کہ انتظامیہ کے بعض عہدیداروں کا آپس میں تعاون نہیں ہے اور کوآرڈی نیشن (Coordination) نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ سب صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اگر یہی صورتحال رہے یا تعاون نہ ہو تو پھر کاموں میں کبھی برکت نہیں پڑتی۔ جماعت کے افراد کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن عہدیداروں کو بھی اپنی طرف نظر رکھنی ہو گی اور دیکھیں کہ کس نیت سے وہ کام کر رہے ہیں؟ پس امیر صاحب بھی اس بارے میں نظر رکھیں۔ گہرائی میں جا کر نظر رکھنی چاہئے اور بلا وجہ ہر ایک پر غیر ضروری اعتماد بھی نہیں کرنا چاہئے۔

مَیں نے اُس دن عورتوں کے جلسہ میں ذکر کیا کہ بہتر ہے کہ یہاں جلسہ نہ کیا جائے۔ اگلا فقرہ مَیں نے نہیں کہا تھا کہ مَیں سوچ یہ رہا تھا کہ اگر یہاں انتظامیہ نہیں سنبھال سکتی تو جس سال مَیں نے آنا ہوتو نارتھ امریکہ، کینیڈا اور امریکہ کا جوجلسہ ہے تو وہ امریکہ میں کر لیا جائے۔ آپ لوگوں کے خرچ بھی بچ جائیں گے۔ مسائل بھی کم ہو جائیں گے۔ دونوں ملکوں کو اپنی اصلاح کی طرف بھی توجہ پیدا ہو جائے گی۔ بہر حال جب میں کینیڈا کے افرادِ جماعت کے اخلاص کو دیکھتا ہوں تو پھر مجھے خیال آتا ہے کہ عہدیداروں کو ایک اَور موقع دے دینا چاہئے کہ اپنی اصلاح کر لیں۔ وہ عہدیدار جن کے ذہنوں میں صرف دنیا سمائی ہوئی ہے وہ خاص طور پر اپنی اصلاح کریں۔ اگر چاہتے ہیں کہ اُن کو خدمت کا موقع ملتا رہے تواپنے خود جائزے لیں۔ کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ مردوں میں بھی اور عورتوں میں بھی، دونوں جگہ یہ صورتحال ہے۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیک نیتی ہے جو کاموں میں برکت ڈالے گی۔ خودغرضیاں اور خودپسندیاں اگلی نسلوں کو بھی خراب کریں گی اور آپ کو بھی ناشکرگزار بنائیں گی اور اس کی وجہ سے پھر اللہ تعالیٰ کے انعاموں اور احسانوں کا وارث ہونے کے بجائے خدا نہ کرے، خدا نہ کرے آپ کبھی اُس کی سزا کے باعث بن جائیں۔ لیکن نئی نسل سے مَیں کہتا ہوں کہ وہ بڑوں کی اچھائیاں تو دیکھیں، اُن کی برائیاں نہ دیکھیں۔ یہ نہ سمجھیں کہ جو وہ کر رہے ہیں وہ ہر چیز اچھی کر رہے ہیں۔ پس نوجوانوں کو خاص طور پر ہمیشہ اچھائیوں کو دیکھنا چاہئے اور اُسی طرف نظر رکھنی چاہئے۔

تعلقات اور رابطوں میں کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے بہتری نظر آئی یا وہی تعلقات جو پہلے سے بنے ہوئے تھے اور چلے آ رہے ہیں بلکہ بڑھے ہیں اُن کو انہوں نے قائم رکھا ہے اور اس دفعہ زیادہ سلجھے ہوئے لوگوں سے یہاں میری ملاقات بھی کروائی گئی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس کے بھی مثبت نتائج نکلیں اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہاں بھی اور امریکہ میں بھی نوجوانوں کی محنت کی وجہ سے یہ رابطے ہوئے اور امریکہ میں تو خاص طور پر نوجوانوں نے کافی کام کیا ہے۔ ان تعلقات کو اور اپنے ہر عمل کو ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ اس طرح استعمال کرے اور انجام دے کہ جس کے نتیجے میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کے راستے کھلیں اور یہی ہمارا مقصد ہے جس کے حصول کے لئے ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور تبھی شکرگزاری کے جذبات کا اظہار بھی خدا تعالیٰ کے حضور عملی رنگ میں ہوگا۔ اخلاص و محبت کا ایک عارضی اظہار ہے جو آپ لوگ کر رہے ہیں جیسا کہ گھروں کے چراغاں ہیں، سڑکوں کی رونقیں ہیں، ڈیوٹیوں کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے لیکن مستقل اظہار یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ہر بات پر لبیک کہتے ہوئے اس پر عمل کریں۔ یہ سوال نہ اُٹھائیں کہ ان مغربی ممالک میں یہ مشکل ہے اور وہ مشکل ہے۔ اگر پکا ارادہ ہے تو کوئی مشکل سامنے نہیں آتی اور ترقی کرنے والی قومیں، انقلاب لانے والی قومیں مشکلات کو نہیں دیکھا کرتیں بلکہ اپنے منصوبوں کو اپنے پروگراموں کو دیکھا کرتی ہیں۔ صرف سوچ بدلنے کی بات ہے۔ اور یہی چیز ہے جو ہمیں دنیا میں انقلاب لانے کا باعث بنائے گی۔ اللہ کرے کہ آپ سب اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیوں کو گزارنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے کہ افرادِ جماعت کا جو مجھ پر حق ہے میں اس کو ادا کرتا چلا جاؤں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 13؍ جولائی 2012ء شہ سرخیاں

    ایک احمدی مسلمان کے لئے اس سے بڑھ کر اور کیا بڑا انعام اور احسان ہے کہ اُسے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے جس نے نیکیوں کے بجا لانے اور  پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کی طرف رہنمائی کی ہے۔ پس ہر احمدی کو شکرگزاری کے  اس مضمون کو سمجھنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات کو حاصل کرنے والا بنے۔ جماعت احمدیہ امریکہ اور کینیڈا کے جلسہ ہائے سالانہ کے کامیاب انعقاد پراللہ تعالیٰ کی  شکرگزاری کے جذبات کا اظہار اور حقیقی شکرگزاری کے طریقوں کی طرف رہنمائی۔

    ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد رکھ کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننے کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔

    صرف مالی قربانی کو ہی اپنی شکرگزاری کی انتہا نہ سمجھیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکنے والا بننے کی بھی  بے انتہا کوشش کرنی چاہئے۔ حقیقی شکرگزار اور عبدِ رحمان بننے کے لئے عبادت گزار ہونا بھی ضروری ہے۔

    مَیں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی جماعت عطا فرمائی ہے جس کا خلافت سے انتہائی وفا کا تعلق ہے۔ اس اخلاص و وفا کو کبھی مرنے نہ دیں۔ اپنی نسلوں میں بھی جاری رکھنے کی کوشش کریں۔ آپ کے اخلاص و وفا کا اظہار تب حقیقی ہو گا جب اس اظہار کو خدا تعالیٰ کے ذکر  اور اُس کی عبادت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے میں ڈھال لیں۔

    جلسہ سالانہ کے مختلف انتظامات میں جو کمیاں اور کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو لال کتاب میں  درج کرکے آئندہ سال کے پروگرام بناتے ہوئے انہیں مدنظر رکھنے کی تاکیدی نصیحت۔

    جماعت کے افراد کے اخلاص میں کوئی شبہ نہیں لیکن عہدیداروں کوبھی اپنی طرف نظر رکھنی ہوگی  کہ وہ کس نیت سے کام کر رہے ہیں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ نیک نیتی ہے جو کاموں میں برکت ڈالے گی۔

    جلسہ کے دوران پیداہونے والی پاک تبدیلیوں کو دوام دینے اور انہیں زندگیوں کا مستقل حصّہ بنانے کی نصیحت۔

    فرمودہ مورخہ 13؍ جولائی 2012ء بمطابق 13؍وفا 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الاسلام۔ ٹورانٹو (کینیڈا)

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور