رمضان سے فیضیاب ہونے کیلئے اعمالِ صالحہ

خطبہ جمعہ 27؍ جولائی 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم آجکل رمضان کے مبارک مہینہ سے گزر رہے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس بابرکت مہینہ سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ اور یہ برکتیں روزے کی حقیقت کو جاننے اور اس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے سے ملتی ہیں۔ بیشک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد برحق ہے کہ رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں اور شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الصیام باب فضل شہر رمضان حدیث نمبر 2495)

لیکن کیا ہر ایک کے لئے یہ دروازے کھول دئیے جاتے ہیں؟ کیا ہر ایک کے شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے؟ کیا ہر ایک کے لئے دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں؟ یقینا ہر ایک کے لئے تو ایسا نہیں ہو سکتا بلکہ یہاں مومنین کو مخاطب کیا۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف ظاہری ایمان لانے سے، مسلمان ہونے سے اور روزہ رکھنے سے یہ فیض انسان حاصل کر لے گا اور کیاصرف اتنا ہی ہے۔ اگر صرف اتنا ہی ہے تو اللہ تعالیٰ نے بار بار ایمان لانے کے ساتھ اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف بہت زیادہ توجہ دلائی ہے، بہت زیادہ تلقین کی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو کسی بھی انسان کے لئے چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو، اگر وہ نیک اعمال بجا لانے والا ہے تو نیک جزا کا بتایا ہے۔

پس یقینا صرف روزے رکھنا یا رمضان کے مہینہ میں سے گزرنا انسان کو جنت کا وارث نہیں بنا دیتا بلکہ اس کے ساتھ کچھ لوازمات بھی ہیں جن کو پورا کرنا ضروری ہے۔ کچھ شرائط بھی ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اعمالِ صالحہ کی طرف بھی توجہ ضروری ہے جنہیں بجا لانا ایک مومن کا فرض بھی ہے۔ ورنہ صبح کھانا کھا کر پھر شام تک کچھ نہ کھانا، ایسے لوگ تو بہت سارے دنیا میں ہیں جو صبح کھاتے ہیں اور شام کو کھاتے ہیں، بلکہ بعض نام نہاد فقیر جو ہیں وہ اپنے آپ کوایسی عادت ڈالتے ہیں، مجاہدہ کرتے ہیں کہ کئی کئی دن کا فاقہ کر لیتے ہیں لیکن عبادت اور نیکی اُن میں کوئی نہیں ہوتی۔ کچھ ایسے بھی دنیا میں ہیں جو بعض دفعہ مجبوری کی وجہ سے نہیں کھا سکتے۔ بعض کے حالات ایسے ہیں اُنہیں مشکل سے ایک دفعہ کی روٹی ملتی ہے۔ کچھ کو ڈاکٹر بعض خاص قسم کے پرہیز کی ہدایت کرتے ہیں اور سارا دن تقریباً نہ کھانے والی حالت ہی ہوتی ہے۔ اور بعض لوگ، خاص طور پر عورتیں، ڈائٹنگ کے شوق میں بھی سارا سارا دن نہیں کھاتیں۔ ابھی دو دن پہلے میرے پاس ایک ماں آئی کہ میری بیٹی نے جوانی میں قدم رکھا ہے تو یہ دماغ میں آ گیا ہے، اس کو Craze ہو گیا ہے کہ مَیں نے دُبلا ہونا ہے اور وزن کم کرنا ہے کیونکہ آج کل یہ بہت رَو چلی ہوئی ہے اس لئے اُس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے اور مجھے پریشان کیا ہوا ہے اور ایک وقت کھاتی ہے اور وہ بھی بہت تھوڑا سا، اور مہینہ میں یا کم و بیش ایک ڈیڑھ مہینہ میں چودہ پندرہ پاؤنڈ اُس نے وزن کم کر لیا ہے۔ تو یہ ماں کی فکر تھی اور شاید وہ لڑکی اب سمجھے کہ رمضان کا مہینہ آ گیا ہے، اگر میں اَٹھ پہرے روزے رکھ لوں تو نیکی بھی ہو جائے گی اور رمضان کا مہینہ ہے، شیطان تو جکڑا ہوا ہے، ثواب بھی مل جائے گا اور دونوں کام میرے بھگت جائیں گے۔ بعض ایسے بھی میرے علم میں ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور پھر سارا دن اور کوئی کام نہیں ہے۔ سوئے رہتے ہیں کہ روزہ نہ لگے اور سمجھ لیا کہ نیکی کا ثواب مل گیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فرمایا کہ روزہ رکھو، رمضان آیا، شیطان جکڑا گیا، جنت کے دروازے کھول دئیے گئے، دوزخ کے دروازے بند کر دئیے گئے تو یہ بھی ہے کہ تم نے نیک اعمال بھی کرنے ہیں۔ بیشک تمہارا یہ عمل ہے کہ تم صبح سحری کھاتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کھاؤ اور شام کو افطاری کر لیتے ہو۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ بعض اَٹھ پہرے روزے بھی رکھ لیتے ہیں۔ اگر مجبوری ہو تو بعض اٹھ پہرے روزے بھی رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ نہ سمجھو کہ تمہیں روزے کا ثواب مل گیا یا تمہارا شیطان جکڑا گیا یا جنت کے دروازے تم پر کھول دئیے گئے اور دوزخ حرام ہوگئی۔ روزے کے مہینے میں اس سے وہی فیضیاب ہو گا جو اعمالِ صالحہ بھی بجا لائے گا۔ جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے روزے رکھے اور اس کے ساتھ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایاکہ جو ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے روزے رکھے گا اُس کا روزہ قبول ہو گا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ایمانا واحتسابا ونیۃ حدیث 1901)

اُس کے لئے جنت قریب کی جائے گی، اُس کا شیطان جکڑا جائے گا۔

پس یہ چیزیں یا روزہ رکھنا جہاں نیکیوں کے کرنے کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دلانے والا ہو گا۔ وہاں اپنی برائیاں ترک کرنے کے لئے بھی ایک مومن کو توجہ دلائے گا اور اس کے لئے وہ مجاہدہ کرے گا۔ ایک مومن اپنی عبادات کے معیار بھی بلند کرنے کی کوشش کرے گا۔ صرف فرائض کی طرف توجہ نہیں دے گا، اُن کے ادا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ نوافل کی طرف بھی توجہ ہو گی اور ایک مومن پھراُن کی ادائیگی کا بھی بھرپور حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔ بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ مالی قربانیوں کی طرف بھی توجہ ہو گی۔ غریبوں کا حق ادا کرنے کی طرف بھی بھرپور کوشش ہو گی تو تبھی ماہِ صیام سے صحیح فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔

مالی قربانی کے ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں آتا ہے کہ آپ تو رمضان کے علاوہ بھی سارا سال بے انتہا صدقہ اور خیرات کرتے تھے، قربانی دیتے تھے۔ اور یہ قربانی اور دوسروں کی یہ مدد آپ اس طرح فرماتے تھے کہ جس کی کوئی انتہا نہیں، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ لیکن رمضان کے مہینہ میں تو لگتا تھا کہ اس طرح صدقہ و خیرات ہو رہا ہے جس طرح تیز آندھی چل رہی ہو۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب اجود ما کان النبیﷺ یکون فی رمضان حدیث نمبر 1902)

عبادات کے معیار اپنی انتہاؤں سے بھی اوپر نکل جاتے تھے۔ ایک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کی کوئی انتہا نہیں لیکن رمضان میں وہ اُن انتہاؤں سے بھی اوپر چلے جاتے تھے۔ پس آپ نے ہمیں یہ فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ رمضان آیا اور بغیر کچھ کئے صرف اس بات پر کہ تم نے روزہ رکھ لیا، سب کچھ مل گیا۔

آپؐ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تم اس سے حقیقی فیض کس طرح اُٹھا سکتے ہو؟ ایک بات تو مَیں نے پہلے بتائی ہے کہ ایمان کی حالت میں ہو اور اپنا محاسبہ کرنے والا ہو، اور اس بات کی طرف بھی خاص طور پر مَیں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ پھرایک روایت میں آتا ہے کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے نہیں رُکتا، اللہ تعالیٰ کو اُس کا بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یعنی ایسا روزہ پھر بے کار ہے۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم حدیث نمبر 1903)

پس ہمیں اس بات پر خوش نہیں ہو جانا چاہئے کہ شیطان جکڑا گیا بلکہ روزوں کے معیار بلند کرنیکی بھی ضرورت ہے۔ روزوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ جھوٹ بولنے سے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے جو نہیں رُکتا اُس کا روزہ نہیں۔ ان الفاظ میں چھوٹی سے چھوٹی برائی سے لے کر بڑی سے بڑی برائی تک کی طرف توجہ دلا دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہر حالت میں سچائی پر قائم رہنے کا کہہ کر اُسے اُس کی تمام کمزوریوں، غلطیوں اور گناہوں سے پاک کروا دیا۔ یہ بھی مثالیں ملتی ہیں کہ جس کو یہ کہا کہ تم نے سچائی پر قائم رہنا ہے اس شخص کی تمام اخلاقی اور روحانی کمزوریاں  سچائی پر قائم رہنے کے عہد سے دورہو گئیں۔ (التفسیر الکبیر لامام رازیؒ جلد8جزو 16 صفحہ 176 تفسیر سورۃ التوبۃ زیر آیت نمبر 119 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اور پھر یہ بھی دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو شرک کے برابر قرار دیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31) اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’یعنی بتوں کی پلیدی اور جھوٹ کی پلیدی سے پرہیز کرو‘‘۔ (نور القرآن نمبر2روحانی خزائن جلد9 صفحہ403)

یہ اس کا ایک بامحاورہ ترجمہ ہے۔

پھر آپ فرماتے ہیں ’’بتوں کی پرستش اور جھوٹ بولنے سے پرہیز کرو‘‘۔ یعنی جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر بھروسہ کرنے والا خدا پر بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ361)

پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے والے کا روزہ نہیں تواس لئے کہ ایک طرف تو روزہ رکھنے والے کا دعویٰ ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے حکم سے روزہ رکھ رہا ہوں۔ اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ قرآنِ کریم میں آتا ہے جہاں روزوں کے فرائض کا حکم آیا ہے۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ (البقرہ: 186) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزوں کا رکھنا فرض کیا گیا ہے، اس لئے تم روزے رکھو۔ تو ایک طرف تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے رکھ رہا ہوں لیکن دوسری طرف یہ کہ جس کے حکم سے روزہ رکھا جا رہا ہے اُس کے مقابلے پر جھوٹ کو خدا بنا کر کھڑا کیا جا رہا ہے۔ پس یہ دو عملی نہیں ہو سکتی۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسان کے سب کام اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور مَیں خود اس کی جزا بنوں گا۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)

پس یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ ایک کام خدا تعالیٰ کے حکم سے بھی کیا جا رہا ہو پھر خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے بھی کیا جا رہا ہو اور یہ بھی امید رکھی جا رہی ہو کہ میرے اس روزے کی جزا بھی خدا تعالیٰ خود ہے۔ یعنی اس جزا کی کوئی حدودنہیں۔ جب خدا تعالیٰ خود جزا بن جاتا ہے تو پھر اس کی حدود بھی کوئی نہیں رہتیں۔ اور پھر عام زندگی میں اپنی باتوں میں جھوٹ بھی شامل ہو جائے، عمل میں جھوٹ شامل ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ زبان سے جھوٹ نہیں بولنا، بلکہ عمل کے جھوٹ کو بھی ساتھ رکھا ہے اور عمل کا جھوٹ یہ ہے کہ انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں۔ روزے میں عبادتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ نوافل کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ لیکن اُس کے لئے اگر ایک انسان کوشش نہیں کر رہا، عام زندگی جیسے پہلے گزر رہی تھی اُسی طرح گزر رہی ہے تو یہ بے عملی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار سے اگرکوئی لڑائی کرتا ہے تو وہ اُسے کہہ دے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)

اور جواب نہ دے تو یہ روزے کا حق ہے جو ادا کیا گیا ہے۔ لیکن اگر آگے سے بڑھ کر لڑائی کرنے والے کا جواب لڑائی سے دیا جائے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ اپنے کاموں میں اگر حق ادا نہیں کیا جا رہا تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ دوسروں کے حق ادا نہیں کئے جا رہے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ خاوند کی اور بیوی کی لڑائیاں جاری ہیں اور اپنی طبیعتوں میں رمضان میں اس نیت سے تبدیلی پیدا نہیں کی جا رہی کہ ہم نے اب اس مہینہ کی وجہ سے اپنے تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانا ہے اور آپس کے محبت پیار کے تعلق کو قائم کرنا ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ خود ہماری جزا بن جائے تو بیشک منہ سے یہ دعویٰ ہے کہ ہمارا روزہ ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہے لیکن عمل اسے جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ اور پھر عملی جھوٹ کی اَور بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ انتہا اُس کی یہ بھی ہے کہ کاروباروں کو، اپنے دنیاوی مقاصد کو، اپنے دنیاوی مفادات کو روزے کے باوجود اپنی عبادات اور ذکرِ الٰہی اور نوافل کی ادائیگی اور قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف توجہ پر فوقیت دی جائے۔ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض لوگ اپنے منافع کے لئے، دنیاوی فائدے کے لئے کاروباروں میں جھوٹ بولتے ہیں، گویا کہ خدا کے مقابلے پر جھوٹ کی اہمیت ہے۔ پس یہ عملی اور قولی جھوٹ شرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے روزے دار کا روزہ درحقیقت فاقہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس یقینا رمضان انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے۔ شیطان بھی اس میں جکڑا جاتا ہے۔ جنت بھی قریب کر دی جاتی ہے لیکن اُس کے لئے جو اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیداکرنے کی کوشش کرے۔ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کو اپنے پر قائم کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور بخشش جو عام حالات کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائے اور اپنے نفس کے بتوں اور جھوٹے خداؤں کو جو لامحسوس طریق پر یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اُن کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اُڑا دے، جب یہ کوشش ہو تو پھر ایک انقلاب طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کے لئے جہاں روزوں کے ساتھ عبادتوں کے معیار حاصل کرنا ضروری ہے، قرآنِ کریم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا، اُس کی تلاوت کرنا، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہاں ان عبادتوں کا اثر، قرآنِ کریم کے پڑھنے کا اثر، اپنی ظاہری حالتوں اور اخلاق پر ہونا بھی ضروری ہے تا کہ عملی سچائی ظاہر ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجُز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ ناانصافی پر ضد کر کے سچائی کا خون نہ کرو۔ حق کو قبو ل کرلو اگرچہ ایک بچہ سے۔ اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤتو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو‘‘۔ (یہ نہیں ہے کہ میرا کوئی مخالف ہے، وہ سچی بات بھی کہہ رہا ہے تو مَیں نے ضد میں آ کر قبول نہیں کرنا۔ پھر دلیلیں نہ دو، بحثیں نہ کرو بلکہ اس کو چھوڑ دو اور سچائی کو قبول کرو۔) پھر فرمایا ’’سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو۔ جیساکہ اللہ جلّشانہ‘ فرماتا ہے فَاجْتَنِبُواالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّوْرِ(الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بُت سے کم نہیں‘‘۔ فرمایا ’’جو چیز قبلہ حق سے تمہارا مُنہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بُت ہے۔ سچی گواہی دو۔ اگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یادوستوں پر ہو۔ چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو‘‘۔ کسی بھی قسم کی دشمنی ہو، تمہارے سچ پر روک نہ ڈالے۔ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3صفحہ 550)

پھر آپ فرماتے ہیں:

’’زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 281۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

پس تقویٰ یہ ہے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی، اس پر چلنے کی اس رمضان میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے تا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں۔ تا کہ اُن جنتوں میں جن کے دروازے کھولے گئے ہیں، ہمارے داخل ہونے میں آسانیاں ہوں۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے تو خود ہی احساس ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس درد بھرے پیغام اور نصیحت پر کتنے عمل کر رہے ہیں۔ یہ ازالہ اوہام میں اپنے ماننے والوں کو اور خاص طور پر اپنی جماعت والوں کو یہ نصیحت کی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف پر قائم ہوتے ہوئے سچائی کا خون ہونے سے بچائے تو ہمارے گھروں کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔ ہمارے ہاں جو بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں پیدا ہوتی ہیں اور وقتاً فوقتاً قضا میں مقدمے آتے رہتے ہیں، وہ بھی دور ہو جائیں۔ کم از کم ہمارے اپنے اندر، ایک احمدی معاشرے میں لین دین کے جو بہت سارے مسائل چلتے رہتے ہیں، وہ ختم ہو جائیں۔ یہ سب مسائل سچ پر عمل نہ کرنے سے اور اپنی اَناؤں کو فوقیت دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر اپنے حق کے معیار اتنے بلند کر لو کہ اگر کوئی بچہ بھی کہہ رہا ہے تو اُسے قبول کرنا ہے تو تم بہت سی برائیوں سے بچ جاؤ گے۔ پھر اَنا کی ناک اونچی نہیں ہو گی کہ یہ چھوٹا بچہ مجھے نصیحت کر رہا ہے۔ یہ رُتبہ میں کم تر مجھے حق کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ غریب آدمی مجھے سچی بات بتا رہا ہے۔

پس سچائی اختیار کرنے کے لئے بھی عاجزی چاہئے اور یہ عاجزی پھر ایک ایسی نیکی ہے جو خدا تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ پس دیکھیں سچائی کی نیکی کے ساتھ اور کتنی نیکیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی بچے دیتی چلی جاتی ہے اور یہی چیز جو ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔

بعض جزئیات کے ساتھ جو اقتباس میں بیان ہوئی ہیں، سب سے اہم بات جوحضرت مسیح موعود  علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ’جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہ تمہاری راہ میں بُت ہے‘۔ پس اگر ہم نے رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے، اگر ہم نے شیطان کے جکڑے جانے، دوزخ کے دروازے بند ہونے اور جنت کے دروازے کھلنے سے بھرپور استفادہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے حق بات کے قبلوں کو بھی درست کرنا ہو گا۔ ہمارا قبلہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو گا تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ میں نے تمہارے لئے جنت کے دروازے رمضان کی برکات کی وجہ سے کھول دئیے ہیں۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر غور کر کے اور عمل کر کے ہی جنت کے دروازے ملیں گے کہ اپنے قول و عمل کی سچائی کے معیار اونچے کرو ورنہ اگر اس طرف توجہ نہیں تو خدا تعالیٰ کو تمہارے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ تو خدا تعالیٰ کی اپنے بندے پر کمال مہربانی اور شفقت ہے کہ عبادتوں اور مختلف قسم کی نیکیوں کے راستے بتا کر ان پر چلنے والے کے لئے انعام مقرر کئے ہیں اور رمضان کے مہینے میں تو ان عبادتوں اور نیکیوں کے ذریعے ان انعاموں کو حاصل کرنے کی تمام حدود کو ہی ختم کر دیا ہے۔ بے انتہا انعاموں کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ اور فرمایا ہے کہ آؤ اور میری رضا کی جنتوں میں داخل ہو جاؤ۔ لیکن یاد رکھو کہ اس میں داخل ہونے کے لئے قولی اور عملی سچائی کاراستہ اپنانا ہو گا۔ اگر اس قبلے کی پیروی کرو گے تو جس طرح آج کل ہر گاڑی میں نیوی گیشن (Navigation) لگا ہوتا ہے اور اس نیوی گیشن (Navigation) کے ذریعے سے تم صحیح مقام پر پہنچ جاتے ہو، اس طرح صحیح جگہ پر پہنچو گے ورنہ رمضان کے باوجود بھٹکتے پھرو گے۔ بلکہ دنیاوی نیوی گیشن جو ہیں اس میں تو بعض دفعہ غلطی بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ صحیح فیڈ (Feed)نہیں ہوتا، نئی سڑکیں بن جاتی ہیں، نظر بھی نہیں آ رہی ہوتیں۔ بعض دفعہ دو راستوں میں سے ایک راستے کی طرف رہنمائی ہوتی ہے، لمبا چکر پڑ جاتا ہے یا چھوٹے رستے کی تلاش میں انسان گلیوں میں گھومتا پھرتا ہے، ٹریفک مل جاتا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کی طرف اگر قبلہ درست ہو گا تو سیدھے جنت کے دروازوں کی طرف انسان پہنچتا ہے۔ پس اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے قبلے درست کرے۔ اپنی قولی اور عملی سچائیوں کے معیار بلند کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں جانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

اس مضمون کو مَیں نے تھوڑا سا مختصر کیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہو سکتا ہے باقی اگلے جمعہ میں بیان کر دوں۔ مختصر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت میں سلسلے کے ایک دیرینہ بزرگ کا کچھ ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ یہ بزرگ مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب ہیں۔ پاکستان میں تو ہر احمدی اگر نہیں تو ہر جماعت کی اکثریت اُنہیں جانتی ہے یا جانتی ہو گی اور پرانے لوگ تو بہر حال جانتے ہیں۔ ایک لمبا عرصہ بطور وکیل المال اوّل اُنہیں خدماتِ سلسلہ بجا لانے کی توفیق ملی۔ یہ وہ بزرگ ہیں جنہوں نے جماعتی نظام میں، موجودہ نظام جو جماعتی ہے، اس میں اگر بنیادی اینٹیں نہیں تو کم از کم درمیانی اینٹوں کا ضرور کردار ادا کیا ہے جنہیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تربیت سے فیض پانے کی توفیق عطا ہوئی ہے اور ان لوگوں نے بے نفس ہو کر جماعت کی خدمت کی توفیق پائی ہے۔ آج جو ہم پھل کھا رہے ہیں اس میں ان پرانے لوگوں کی خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے، بے نفس خدمات کا بہت بڑا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ وفات یافتگان ہیں اُن کا بھی ذکر ہو گا۔

مختصراً کچھ پہلو مَیں مکرم و محترم چوہدری شبیر احمد صاحب کے بیان کر دیتا ہوں۔ 22؍جولائی 2012ء کو 95سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کے والد حضرت حافظ عبدالعزیز صاحب اور والدہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ دونوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے تھے۔ لیکن ان کے دادا نے خلافتِ ثانیہ میں بیعت کی تھی۔ ان کے دادا چوہدری نبی بخش صاحب ریاست جموں کے باوقار زمیندار تھے اور مسلمانوں پر بعض پابندیوں کے باعث ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں یہ ہجرت کر کے سیالکوٹ آ گئے۔ چوہدری شبیر صاحب کے والد جو تھے وہ بھی بلند اخلاقِ فاضلہ والی شخصیت تھے۔ حافظِ قرآن ہونے کی وجہ سے اپنے علاقے میں بڑے نمایاں تھے۔ اس لئے اپنے بچوں کی تربیت بھی انہوں نے بڑے دینی ماحول میں کی ہے۔ چوہدری شبیر صاحب نے ابتدائی تعلیم سکاچ مشن مڈل سکول سیالکوٹ سے حاصل کی اور 1931ء میں آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تو والد صاحب نے تربیت کی خاطر ان کو قادیان بھیج دیا۔ میٹرک انہوں نے تعلیم الاسلام سکول قادیان سے کیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی صحبت میں رہے، فائدہ اُٹھایا، نظمیں پڑھنے کا بھی خوب شوق تھا، بڑا موقع ان کو ملتا رہا۔ علاوہ اور نظموں کے پہلی دفعہ انہوں نے قادیان میں سیرت النبیؐ کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقریر سے پہلے نظم پڑھی۔ پھر جب انہوں نے میٹرک کر لیا تو چونکہ قادیان میں کالج نہیں تھا مرے کالج سیالکوٹ سے بی اے کا امتحان پاس کیا۔ کچھ دیر آپ قادیان میں رہے۔ اُس کے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ دفتر میں کام کیا۔ جبکہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ترجمہ قرآن انگریزی میں مصروف تھے تو آپ ٹائپنگ کا کام اُن کے ساتھ کرتے رہے۔ پھر ملازمت کی تلاش میں لاہور آئے۔ کچھ صحافت میں بھی وقت گزارا۔ اچھے معروف شاعر بھی تھے اور آواز بھی اچھی، نظمیں اپنی لَے میں پڑھا کرتے تھے۔ گفتگو میں بڑی شائستگی، محنت کے عادی۔ بہرحال نیکیوں کا ایک مجموعہ تھے۔ 1940ء میں ملٹری اکاؤنٹس کا امتحان پاس کیا اور یہ منتخب ہو گئے اور وہاں گیارہ سال کام کیا۔ لیکن 1944ء میں اس عرصے کے دوران ہی انہوں نے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا تھا۔ لیکن حضرت مصلح موعودنے ان کو 1950ء میں بلایا اور ان کا خود انٹرویو لیا اور یہ اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر پھر ربوہ آ گئے اور پہلے نائب وکیل کے طور پر، اُس کے بعد 1960ء میں وکیل المال اول کے طور پر وفات تک خدمات سرانجام دیں۔ باون سال وکیل المال اوّل رہے اور اس سے پہلے بھی انہوں نے دس سال کام کیا۔ خلافتِ ثانیہ سے لے کر اب تک ان کو اللہ تعالیٰ نے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ذیلی تنظیموں میں بھی بھرپور خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ربوہ میں پہلے معتمد مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ بنے۔ اس کے علاوہ بھی خدام الاحمدیہ کے مختلف کاموں میں خدمات پر مامور رہے۔ نائب صدر صفِ دوم انصاراللہ بھی رہے۔ پھر رکن خصوصی تو لمبا عرصہ رہے۔ مجلس کارپرداز کے ممبر بھی تھے۔ قاضی بھی تھے۔ 1960ء میں ان کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیگم کی طرف سے حج بدل کی توفیق بھی ملی۔ مختلف ممالک میں دوروں پر جاتے رہے۔ ان کے کئی شعری مجموعے ہیں۔ 1965ء سے 1983ء تک جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ان کو درّثمین سے نظمیں پڑھنے کا موقع ملا۔ اور یہاں یوکے کے جلسہ میں بھی دو دفعہ چھیاسی (1986ء) اور اٹھانوے (1998ء) میں ان کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے وقت میں نظم پڑھنے کا موقع ملا۔ بلکہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ان کی نظم سننے کے بعد کہا تھا کہ آپ نے پرانے جلسوں کی یاد تازہ کر دی جو ربوہ اور قادیان کے ہوتے تھے۔ ان میں ایک خوبی یہ تھی کہ جب دورے پر جاتے تھے تو پروجیکٹر اور تصویروں کی سلائڈز جو ہیں وہ لے جایا کرتے تھے جو مختلف بیرونی ممالک کے مشن کی ہوتی تھیں اور بجائے اس کے کہ لمبی چوڑی تقریریں کریں یہ دکھایا کرتے تھے کہ دنیا میں یہ ہمارے مشن قائم ہو رہے ہیں، یہ سکول بن رہے ہیں، یہ ہسپتال بن رہے ہیں، مساجد بن رہی ہیں اور یہ سلائڈز دکھاتے تھے۔ ایک تبلیغی موقع بھی میسر آ جاتا تھا جواپنوں کے لئے تربیت کا باعث بنتا تھا۔ یہ بات جہاں ان کو قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی تھی وہاں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں غیر احمدی بھی آ جاتے تھے اور یہ دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ اس طرح اسلام کی خدمت کر رہی ہے۔ گویا بجائے اس کے کہ بحث و تمحیص اور دلائل ہوں، پروجیکٹر کے ذریعہ سے انہوں نے تبلیغی بھی اور تربیتی بھی بہت کام کیا۔ جب تک ان میں ہمت رہی، ہمیشہ یہی کرتے رہے۔ یہاں 2009ء کے جلسہ میں آئے تھے اور خلافت جوبلی کے اظہارِ تشکر کی جو رپورٹ تھی وہ ان کو پیش کرنے کی توفیق ملی۔ جماعت کی طرف سے مجھے، خلیفہ وقت کو، جو ایک رقم جوبلی کی دی گئی تھی کہ مختلف جماعتی مقصد پر خرچ لیں، وہ بھی ان کو پیش کرنے کی توفیق ملی۔ ان کے ایک بیٹے امریکہ میں مبلغ سلسلہ ہیں، واقفِ زندگی ہیں، دوسرے واقفِ زندگی بیٹے ربوہ میں ہیں۔ رشتہ ناطہ کے نائب ناظر ہیں۔ تیسرے نے بھی کچھ عرصہ وقف کیا تھا۔ ان کا عارضی وقف تھا، افریقہ میں کیا پھر یہاں آگئے۔ فضل احمد طاہر یہیں یوکے جماعت کے سیکرٹری تعلیم ہیں۔ تو یہ ان کے تین بیٹے ہیں۔ بیٹیاں بھی ہیں ان کے خاوند بھی سارے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے جماعتی نظام سے منسلک ہیں۔ پھر ان میں یہ خوبی بھی تھی کہ اپنے غیر احمدی رشتہ داروں کو اس طرح تبلیغ کرتے تھے کہ جو بھی رسالے ان کے آتے تھے یا اختلافی مسائل کے بارے میں جو بھی لٹریچرہوتا تھا، وہ سیالکوٹ یا جہاں بھی وہ ہوتے تھے پوسٹ کرتے رہتے تھے۔ اور سب رشتہ داروں کے ایڈریسز ان کو یاد تھے۔ اس طرح الفضل یا کوئی رسالے بھیجتے رہتے تھے۔ دفتر والوں کے ساتھ بڑا حسنِ سلوک تھا۔ ان کے ایک کارکن لکھتے ہیں کہ اوّل تو سائیکل پر دفتر آیا کرتے تھے لیکن جب بہت بیمار ہو گئے تو مَیں نے ہی کہا تھا کہ ان کے لئے گاڑی جانی چاہئے، اس سے پہلے بھی شاید استعمال ہوتی تھی۔ بہر حال ایک دفعہ دفتر کے کارکن نے ان کو لینے کے لئے گاڑی بھجوانے میں دیر کر دی تو بجائے اس کے کہ کچھ کہتے، انداز ان کا اپنا ہی تھا، بڑی نرم گفتاری سے نصیحت کیا کرتے تھے۔ کارکن کہتے ہیں کہ مجھے بجائے کچھ کہنے کے کہ گاڑی لیٹ کیوں آئی، ایک لفافے میں تھوڑے سے بادام ڈال کر بھیج دئیے کہ آپ کی یادداشت کے لئے ہیں۔ اسی طرح ان کی بیٹی بھی کہتی ہیں، گھر میں بھی بجائے اس کے کہ بہت زیادہ وعظ و نصیحت کریں، ڈانٹ ڈپٹ کریں، اپنا عملی نمونہ پیش کیا کرتے تھے جسے دیکھ کے ہم خود ہی اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے تھے یا پھر بعض دفعہ ایسے رنگ میں کوئی کہانی سنا دیتے تھے جس سے اصلاح کی توجہ پیدا ہو جاتی تھی۔ ان کی ایک بیٹی کہتی ہیں کہ آخری بیماری میں ابھی چند دن پہلے کہتے ہیں کہ شعر نازل ہو رہے ہیں لکھو۔ اور اللہ تعالیٰ کے مناجات وہ شعریہ تھے۔ یہ ان کے تقریباً آخری، بسترمرگ کے شعر کہہ لیں۔ ؎

پھر یہ خوبی تھی کہ ہمیشہ شکر کے جذبات کے ساتھ حمد و ثنا کیا کرتے تھے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان کا وقف قبول کیا تو انہیں یہ نصیحت فرمائی تھی اور ہر واقفِ زندگی کو یہ نصیحت یاد رکھنی چاہئے کہ جماعت کے کاموں کی اس طرح فکر کرنا جیسے ایک ماں اپنے بچے کی فکر کرتی ہے۔ اور پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نصیحت کو ہمیشہ پلے باندھے رکھا اور ہمیشہ باوجود اس کے کہ کوئی بیماری ہواس میں خوب نبھایا۔ ان کے گھر کے تعلقات اچھے تھے، بیوی کا بڑا خیال رکھنا، لیکن جہاں دین کا سوال آ جاتا تھا، دورے وغیرہ پر جانا ہوتا تھا، کئی دفعہ ایسے موا قع آئے کہ ان کی اہلیہ بیمار ہیں یا بچے کی پیدائش ہونے والی ہے، تشویش ہے، تو وہاں یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ مَیں خدا کے دین کے کاموں سے جاتا ہوں، خدا تعالیٰ میرے باقی کام سنوار دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ سنوار بھی دیا کرتا تھا۔ اب یہ بھی بعض بظاہر معمولی معمولی باتیں ہیں لیکن پرانے لوگوں کی ان باتوں سے آجکل کے ہر واقفِ زندگی کو بھی اور کارکن کو بھی سبق سیکھنا چاہئے بلکہ ہر جماعتی عہدیدار کو بھی۔ ان کے ایک انسپکٹر کہتے ہیں کہ کچھ کتابیں دیکھ رہے تھے جو دفتر کی طرف سے جلد کرائی گئی تھیں، اُن میں ایک درّثمین نکل آئی تو اس درّثمین کو لے کر اکاؤنٹنٹ صاحب کو بلایا اور فرمانے لگے کہ یہ تو میری ذاتی درّثمین ہے اس کو بھی آپ نے جلد کروا دیا ہے۔ اس پر بتائیں کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ اکاؤنٹنٹ نے یہ کہا کہ سب کتابیں اکٹھی جلد ہو گئی ہیں لیکن آپ نے کہا نہیں پتہ کرو۔ آخر پتہ کروایا۔ غالباً آٹھ دس روپے جو خرچ ہوئے تھے، وہ جب تک اکاؤنٹنٹ کے حوالے نہیں کر دئیے، سکون نہیں آیا۔ اور اسی طرح کارکن بھی یہی کہتے ہیں کہ بڑے دلنشین انداز میں نصیحت کرتے جو ہمیں گراں نہ گزرتی۔ ہماری تربیت فرماتے۔ اکثر نصیحت فرماتے اور یہ بڑی نصیحت ہے جوہر ایک کو یاد رکھنی چاہئے کہ خدمتِ دین کو شوق اور محبت سے کرنا چاہئے اور اس کے بدلے میں کسی طرح بھی طالبِ انعام نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیشہ خیال رکھیں کہ آپ کو خدا نے خدمت کا موقع دیا ہے اور آپ نے اپنے ربّ کو راضی کرنا ہے۔ اسی طرح آنے والے مہمانوں کو دفتر میں بڑے عزت سے، احترام سے ان کو ملتے، کھڑے ہو کر ملتے اور اکثر کہا کرتے تھے کہ مرکز میں آنے والے مہمان جو ہیں وہ کچھ توقعات لے کر آتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھی طرح ملنا چاہئے۔ پانی پوچھنا چاہئے، اپنا کام چھوڑ کے اُن کی طرف توجہ کیا کرتے تھے اور جتنا وقت مرضی لگ جائے یا دفتر بند بھی ہو جائے تو جب تک اُن کا کام نہ کر لیتے گھر نہ جاتے۔ اگر ہو سکتا تھا تو بتا دیا کرتے تھے۔ اگر نہیں تو کہہ دیا کرتے تھے آپ کو بعد میں اطلاع ہوجائے گی۔ دفتر میں چندوں کا معاملہ ہے، یہاں بھی سیکرٹریان مال کو تجربہ ہو گاکہ بعض دفعہ اگر چندے کا حساب صحیح نہ ہو یا اندراج صحیح نہ ہو تو لوگ غصہ میں آ جاتے ہیں، تو ان کے ساتھ بھی اگر کوئی غصہ میں آ جاتا تھا تو خاموشی سے سنتے تھے اور آخر وہ خود ہی شرمندہ ہو کر معافی مانگ لیتا تھا۔ اسی طرح کارکنوں کو بھی، اپنے بچوں کو بھی صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے جو بلاؤں کو ٹالنے کا ذریعہ ہے اور پھر ایک خوبی یہ تھی کہ خلیفہ وقت کو دعا کے لئے لکھو۔ اپنے انسپکٹران کو بھی کہا کرتے تھے کہ جب باہر دوروں میں جاؤ تو جماعتوں میں خلیفۂ وقت کا پیغام پہنچاؤ بجائے اس کے کہ اپنی زبان میں کچھ کہو۔ پھر یہ بھی تھا کہ جب باہر جاتے، یا جب اپنے نائبین کو یا انسپکٹران کو دورے پر بھیجتے تھے تو یہ کہتے کہ آپ مرکز کے نمائندہ ہیں اس لئے اپنے ہر قول و فعل کا خیال رکھیں۔ بعض دفعہ دفتر میں زائد وقت گزارنا ہوتا تو خیال کرتے کہ دفتر بند ہو گیاہے اور کارکن برا نہ سمجھیں تو ان کو بڑے اچھے انداز میں کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھا کریں کہ دفتر والے باقی تو آرام سے گھر چلے گئے ہیں اور ہم دفتر میں کام کر رہے ہیں بلکہ یہ خیال کریں کہ وہ تو اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، چلے گئے ہیں اور خدا تعالیٰ ہمیں اضافی خدمت کا موقع دے رہا ہے۔ تو یہ خدمتِ دین کو فضلِ الٰہی جاننے کا ایک عملی ثبوت تھا۔ ان کے ایک کارکن کہتے ہیں کہ وفات سے چار پانچ دن پہلے ان کی تیمارداری کے لئے خاکسار گیا تو مجھے کہنے لگے کہ کوئی ناصر احمدنام کارکن تیمار داری کے لئے آیا تھا آپ اُسے جانتے ہیں؟ کہتے ہیں مَیں نے اُنہیں کہا کہ تحریکِ جدید میں ناصر نام کے تین چار کارکن ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ کل جو ناصر احمدملنے مجھے آیا تھا اور بچے نے کہہ دیا کہ مَیں سو رہا ہوں اور اُن کو واپس جانا پڑا۔ آپ اُن کا پتہ کریں کہ وہ کون ہے اور میری طرف سے معذرت کر دیں کہ بچے کو غلطی لگی تھی۔ شاید آنکھیں بند دیکھ کے اُس نے کہہ دیا کہ مَیں سو رہا ہوں، مَیں سو نہیں رہا تھا۔ تو اس حد تک باریکی سے خیال رکھا کرتے تھے۔ باقاعدگی سے صدقہ دینے والے تھے۔

پس مَیں نے ان کا کچھ مختصر ذکر کیا ہے۔ مَیں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے اور یہ بہت کم خصوصیات ہیں جو ابھی لکھی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی خصوصیات کے حامل تھے اور کام انتھک اور خوش مزاجی سے کیا کرتے تھے۔ خلافت سے بھی بے انتہا وفا کاتعلق تھا۔ بہر حال یہ بزرگ تھے جو وفا کے ساتھ جہاں اپنے کام میں مگن تھے وہاں خلیفۂ وقت کے بھی سلطانِ نصیر تھے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی خلیفۂ وقت کے لئے دعائیں بھی بے انتہا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے کام کرنے والے کارکن ہمیشہ جماعت کو مہیا فرماتا رہے۔

اس کے علاوہ کچھ اور بھی وفات یافتگان ہیں جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ چوہدری شبیر صاحب کا جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد اور باقی جن کا میں ذکرکرنے لگا ہوں ان کا بھی جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے بعد ہی مَیں پڑھاؤں گا۔ ان میں سے ایک ہمارے مربی سلسلہ مقبول احمد ظفر صاحب ہیں جو آجکل نظارت اصلاح و ارشاد میں تھے۔ ان کو پرانی انتڑیوں کی تکلیف تھی جو بگڑ گئی اور آخر ان کی25؍ جولائی کو وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ کوٹ محمد یار چنیوٹ کے قریب رہنے والے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے 1997ء سے 2001ء تک عربی میں تخصص کیا اور پھر نظارتِ اشاعت میں کام کیا۔ جامعہ احمدیہ میں عربی کے استاد رہے۔ پھر یہ 2007ء میں شام چلے گئے، وہاں عربی زبان میں ڈپلومہ کیا۔ اسی طرح ہومیو پیتھک میں بھی ان کو کچھ درک تھا۔ پھر واپس آئے ہیں تو اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں تعینات ہوئے۔ بڑے علم دوست آدمی تھے، نہ صرف علم دوست تھے بلکہ ایک مربی کی جو خصوصیات ہیں وہ بھی ان میں تھیں۔ وقفِ زندگی کی خصوصیات بھی ان میں تھیں۔ اور پھر اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا ہومیو پیتھک میں بھی انہوں نے ڈپلومہ کیا ہوا تھا۔ غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے اور بے وقت بھی اگر کوئی آ جا تا تھا تو ہمیشہ اُس کو آپ نے دوائیاں دیں، خوش مزاجی سے اس سے ملے۔ اپنے ساتھیوں سے کارکنوں سے بڑا اچھا سلوک تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے جو بچے ہیں اُن کو بھی اللہ تعالیٰ صبر اور حوصلہ دے۔

تیسرا جنازہ معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم بدرالدین صاحب عامل درویش قادیان کا ہے۔ ان کی چھیاسی سال کی عمر میں 19؍ جولائی کو وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ نہایت خلوص اور وفا کے ساتھ انہوں نے بھی درویشی کا زمانہ گزارا۔ سکول ٹیچر بھی تھیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہیں پڑھاتی رہیں۔ بڑی نیک دل، صابر شاکر اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ لجنہ اماء اللہ قادیان کی جنرل سیکرٹری رہی ہیں اور بھی مختلف خدمات پر مامور رہیں۔ غریب بچوں کو اپنے گھر میں رکھ کر تعلیم دلواتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔

اسی طرح چوتھا جنازہ مریم سلطانہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب شہید کا ہے۔ ان کے خاوند محمد احمد خان صاحب ٹل ضلع کوہاٹ میں شہید ہوئے تھے۔ مریم سلطانہ صاحبہ کی وفات 18؍جولائی 2012ء کو ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بڑی محنت کرنے والی خاتون تھیں۔ دعوتِ الی اللہ کا بڑا شوق تھا۔ قربانی کرنے والی تھیں اور بڑے مضبوط ارادے کی مالک تھیں۔ ان کے ہمت اور مضبوط ارادے کا اس طرح پتہ لگتا ہے کہ ان کے خاوند ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب کو 1957ء میں کوہاٹ میں شہید کر دیا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانے کی بات ہے۔ مریم سلطانہ صاحبہ کے والد کا نام عنایت اللہ افغانی تھا اور ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد عنایت اللہ افغانی صاحب کی بیعت سے ہوا جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ عنایت اللہ افغانی صاحب کا تعلق افغانستان کے علاقہ خوست سے تھا اور آپ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے مریدوں میں سے تھے۔ پھر ان کا جوخاندان ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد افغانستان سے قادیان شفٹ ہو گیا اور یہیں انہوں نے حضرت خلیفہ اوّلؓ کی بیعت کی۔ مریم سلطانہ صاحبہ پیدائشی احمدی تھیں اور 1949ء میں ان کی ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب سے شادی ہوئی تھی، جو خان میر خان صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے باڈی گارڈ تھے اُن کے بیٹے تھے۔ پھر یہ لوگ کوہاٹ چلے گئے۔ وہاں ایک دفعہ ایک معاند مولوی ان کے پاس آیا کہ ایک مریض بیمار ہے اور بلایا اور لے گیا۔ وہاں جا کے ان کو گولی مار کے شہید کر دیا اور پھر جب ان کی لاش آئی تواَور کوئی احمدی نہیں تھا۔ احمدیوں کا یہ ایک اکیلا گھر تھا، چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان کے خاوند موصی بھی تھے۔ اب لاش گھر میں پڑی ہے، چھوٹے بچے بلک رہے ہیں کہ کیا کریں۔ اور دلاسا دینے والا بھی کوئی نہیں۔ مشورہ دینے والا بھی کوئی نہیں۔ کمیونیکیشن کا نظام کوئی نہیں تھا۔ فون وون بھی کوئی نہیں تھا۔ پھر ان کو یہ بھی تھاکہ میرا خاوند موصی ہے۔ ان کو ربوہ لے کر جانا ہے۔ بہرحال انہوں نے بڑی ہمت کی اور کسی طرح ایک ٹرک کرائے پر لیا اور اس میں نعش بھی رکھی، بچے بھی بٹھائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ان دنوں نخلہ میں تھے تو وہاں پر لے آئیں۔ وہاں اُن کا جنازہ پڑھا گیا۔ پھر ربوہ لے کر آئیں اور پھر بڑی محنت سے اپنے بچوں کی تربیت کی۔ کوشش کی کہ ان کو پڑھائیں لکھائیں اور ان کی صحیح تربیت ہو جائے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں وہ سرخرو ہوئیں۔ ان کی جو خواہش تھی کہ بچے بھی نیکیوں پر قائم رہیں اور اس وجہ سے وہ ان کو اُس ماحول سے بچا کر لائیں تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد در اولاد اور نسلوں میں احمدیت کے خادم پیدا کرتا رہے اور حقیقی وفا کے ساتھ احمدیت کے ساتھ جڑے رہنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے۔ جیسا کہ میں نے کہا ابھی نماز جمعہ کے بعد ان سب کی نمازِ جنازہ غائب ادا کروں گا۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 27؍ جولائی 2012ء شہ سرخیاں

    روزے کے مہینے میں اس سے وہی فیضیاب ہوگا جو اعمالِ صالحہ بھی بجا لائے گا،  جو اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت دل میں رکھتے ہوئے روزے رکھے اور اس کے ساتھ اپنے ہر عمل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔

    اگر ہم نے رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے، اگر ہم نے شیطان کے جکڑے جانے،  دوزخ کے دروازے بند ہونے اور جنت کے دروازے کھلنے سے بھرپور استفادہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے حق بات کے قبلوں کو بھی درست کرنا ہوگا۔

    اس رمضان میں ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے قبلے درست کرے، اپنی قولی اور عملی سچائیوں کے معیار بلند کرے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتوں میں جانے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔

    مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب (وکیل المال اول تحریک جدید ربوہ)، مکرم مقبول احمد ظفر صاحب (مربی سلسلہ۔ ربوہ)، مکرمہ معراج سلطانہ صاحبہ اہلیہ حکیم بدرالدین عامل صاحب (قادیان) اور مکرمہ مریم سلطانہ صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر محمد احمد خان صاحب شہید کی وفات اور مرحومین کی خوبیوں کا تذکرہ۔ نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 27؍ جولائی 2012ء بمطابق 27؍وفا 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور