حقیقی عالم اور خشیت اللہ کی پُرمعارف تشریح
خطبہ جمعہ 3؍ اگست 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ الَّذِیْنَ ہُم مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُم بِآیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ۔ وَالَّذِیْنَ ہُم بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُونَ۔ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّہُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رَاجِعُوْنَ۔ اُوْلٰٓئِکَ یُسَارِعُونَ فِیْ الْخَیْْرَاتِ وَہُمْ لَہَا سَابِقُوْنََ (المومنون: 58-تا62)
جَزَآ ءُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْا َنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَااَبَدًا۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ۔ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ (البینۃ: 9)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا وہ لوگ جو اپنے رب کے رعب سے ڈرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتے۔ اور وہ لوگ کہ جو بھی وہ دیتے ہیں اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل اس خیال سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ یقینا اپنے رب کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائیوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور وہ ان میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ یہ سورۃالمومنون کی آیات ہیں۔ اگلی آیت سورۃ اَلْبَیّنَۃ کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ ان کی جزا ان کے ربّ کے پاس ہمیشہ کی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ابدالآباد تک ان میں رہنے والے ہوں گے۔ اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوگئے۔ یہ اس کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف ہے۔
گزشتہ خطبہ میں رمضان کے حوالے سے یہ باتیں ہوئیں تھیں کہ رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانے کے لئے اپنے قول اور عمل کی اصلاح ضروری ہے۔ تبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک روزے اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں رکھتے ہوئے جو روزے رکھے جائیں وہی رمضان کے فیض سے فیضیاب بھی کرواتے ہیں۔ کیونکہ رمضان کے حوالے سے بات ہو رہی تھی اس لئے روزوں کو خشیت کے ساتھ جوڑا گیا تھا۔ اس تعلق کا اظہار کیا گیا تھا ورنہ ہر نیکی جو انسان کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ حقیقی نیکی اُس وقت بنتی ہے جب دل میں خشیت بھی ہو۔ اُس وقت مَیں نے کہا تھا کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا ہے اور وہ مَیں خشیت کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ لیکن بہر حال اب اُس مضمون میں تھوڑا سا مزید اضافہ ہو گیا ہے تو اس کو مَیں آج بیان کروں گا۔ یہ خشیت کا لفظ ہم عموماً استعمال کرتے ہیں۔ اگر اس کی روح کا پتہ چل جائے توہمارا نیکیاں بجا لانے کا معیار بھی بڑھ جائے۔ اس لئے اس لفظ کے لغوی معنی بھی مَیں آج بیان کرنا چاہوں گا۔
خشیت کے عام معنی خوف کے کئے جاتے ہیں۔ بیشک یہ معنی بھی ٹھیک ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف جس میں ہو پھر یہ خوف اُسے نیکیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کا خوف کسی عام خوف اور ڈر کی طرح نہیں ہے۔ اس لئے اہل لغت نے اس کی وضاحت بھی کی ہے۔ مثلاً ایک لغت کہتی ہے کہ خشیت میں ڈر کا لفظ خوف کی نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ پھر خشیت اور خوف میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ خشیت میں اُس ڈر کے معنی پائے جاتے ہیں جو اُس ذات کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے جس سے ڈرا جائے۔ اور خوف میں اُس ڈر کا مفہوم پایا جاتا ہے جو ڈرنے والے کی اپنی کمزوری پر دلالت کرتا ہے۔ اس کے بارہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لغات کے حوالے سے بڑی وضاحت فرمائی ہے۔ (اقرب المواردزیر مادہ ’’خشی‘‘ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 1صفحہ525)
پھر امام راغب اپنی لغت مفردات القرآن میں لکھتے ہیں کہ اَلْخَشِیَۃُ اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہو جائے۔ یہ چیز عام طور پر اُس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان عام طور پر ڈرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آیۃ کریمہ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر: 29)۔ اور اللہ تعالیٰ سے اُس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس آیت میں خشیت الٰہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا گیا ہے۔ امام راغب کا طریق یہ ہے کہ قرآنی آیات کے حوالے سے الفاظ کے معنی کی مختلف صورتیں بیان کرتے ہیں تو اس میں انہوں نے اس آیت کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت سے وہ لوگ بھی ڈرتے ہیں جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں آتا ہے کہ مَن خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ (سورۃ ق: 34)۔ جو خدا تعالیٰ سے غیب میں ڈرتے ہیں۔ (معجم مفردات الفاظ القر آن لاما م راغبؒ زیر مادہ ’’خشی‘‘)
یعنی یہ غیب کا ڈرنا اُس وقت ہو سکتا ہے جبکہ دل میں ایسا خوف ہو جو معرفتِ الٰہی کا تقاضا ہے۔
پس یہ خشیت کی وضاحت ہے کہ خشیت اُس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے پیدا ہو اور صرف کسی کی اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ ڈر پیدا نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی خشیت یقینا ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی عظمت کا اظہار بھی ہے اور ایک کمزور بندے کی اپنی کم مائیگی کا اظہار بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کیا ہے؟ یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ سب طاقتوں کا مالک ہے اور اُس نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ ہر چیز اُس کی پیدا کردہ ہے اور اُس کے ذریعہ سے قائم ہے۔ اُسی کی ملکیت ہے اور اُس کے چاہنے سے ہی ملتی ہے۔ پس جب ایسے قادر اور مقتدر خدا پر ایمان ہو اور اُس کی خشیت دل میں پیدا ہو تو پھر ہی انسان اُس کی قدرتوں سے حقیقی فیض پا سکتا ہے۔
یہاں یہ بھی سوال ذہن میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت علماء میں ہی ہوتی ہے تو کیا ہر عالم کہلانے والا یا اپنے زعم میں عالم اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھتا ہے۔ اور یہ بھی کہ شاید جو غیر عالم ہیں وہ اُس معیار تک نہیں پہنچ سکتے جس خشیت کا معیار اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ اگر یہی معیار ہے کہ صرف عالم اُس تک پہنچ سکے تو پھر آجکل تو ہم ایسے ہزاروں لاکھوں علماء دیکھتے ہیں جن کے قول و فعل میں تضاد ہے۔ جو قرآنِ کریم کو بھی صحیح طرح نہیں سمجھتے، جنہوں نے اس زمانے کے امام کو نہ صرف مانا نہیں بلکہ مخالفت میں گھٹیا ترین حرکتوں کی بھی انتہا کی ہوئی ہے اور وہ کہلاتے عالم ہیں۔ پس یقینا یہ باتیں اس بات پر سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ علماء کی تعریف کچھ اور ہے۔ اللہ تعالیٰ جن علماء کا یہاں ذکر فرما رہا ہے اور اللہ تعالیٰ جن کو علماء کہتا ہے وہ کچھ اور لوگ ہیں۔ اگر ہر ایک کو ہی عالم سمجھ لیا جائے جو دینی مدرسہ میں واجبی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوا ہے، جس طرح آجکل عموماً ہمارے ملکوں میں پھرتے ہیں یا جس کو عام دنیادار یا اُس کے ارد گرد کے طبقے کے لوگ عالم سمجھتے ہیں یا جس نے دنیاوی تعلیم حاصل کی ہے، عالم کی ایک اور صورت بھی ہوتی ہے کہ دینی نہ سہی اپنی دنیاوی تعلیم کی بھی انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ بڑے بڑے سائنسدان ہیں، سائنسی تجربات کرنے والے ہیں۔ دنیاوی علوم میں اُن کا کوئی ہم پلہ نہیں ہے۔ تو یہ بات بھی غلط ہو گی کہ صرف دنیاوی عالم کو عالم سمجھا جائے۔ دنیاوی علوم حاصل کرنے والے تو بعض ایسے بھی ہیں کہ خدا تعالیٰ کے وجود کے ہی منکر ہیں کجا یہ کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اُن کے دلوں میں پیدا ہو۔ تو یہاں عالم کی تعریف کی تلاش کرنی ہو گی کہ حقیقی عالم کون ہے؟ نہ نام نہاد دنیا کے لالچوں میں گھرے ہوئے دینی عالم یہاں مراد ہیں اور نہ ہی دنیاوی عالم۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دوں کہ بیشک اسلام دینِ کامل ہے اور یہ دینی علم رکھنے والے دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم نے یہ دین کا علم حاصل کیا ہے۔ بعض لوگ اسلام کا پیغام بھی پہنچاتے ہیں۔ اسلام کا پھیلنا بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے لیکن یہ ایسے علماء کے ہاتھوں سے نہیں ہو گا جن کے دنیاوی مفادات ہیں یا جن کے دنیاوی مفادات زیادہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی خشیت نام کی کوئی چیز اُن میں نہیں ہے۔ شاید میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا، اس دفعہ امریکہ کے دورہ میں جب ٹی وی کے نمائندے نے مجھ سے سوال کیا کہ امریکہ میں اسلام کے پھیلنے کے کیا امکانات ہیں؟ تو اس کو مَیں نے یہی کہا تھا کہ اسلام تو انشاء اللہ نہ صرف امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں پھیلے گا مگر ان نام نہاد اسلام کے ٹھیکیداروں اور ان علماء کے ذریعے سے نہیں پھیلے گا بلکہ جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے پھیلے گا اور دلوں کو فتح کر کے اور امن اور پیار اور محبت کی تعلیم دے کر، نہ کہ دہشت گردی اور شدت پسندی سے جس کی تعلیم آجکل یہ علماء اکثر دیتے رہتے ہیں۔ کیونکہ یہ قرآنِ کریم کی تعلیم کے خلاف ہے۔ حقیقی اسلام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو اس زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہودنے ہمیں کھول کر بتایا ہے اور سکھایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں حاصل کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے اور واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حقیقی خشیت پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ علماء صرف ایک طبقے کا نام نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو محدود ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے تشریف لائے تھے۔ انسانوں کو باخدا انسان بنانے کے لئے تشریف لائے تھے اور انسان باخدا انسان نہیں بن سکتا جب تک کہ اُس میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا نہ ہو۔ اسلام میں آ کر تو بڑے بڑے چور ڈاکو صرف اس لئے ولی بن گئے کہ اُن میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کا فہم و ادراک پیدا ہو گیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ارشادات میں بہت جگہ پر تذکرۃ الاولیاء کے واقعات بھی بیان فرماتے ہیں، کئی جگہ ذکر آتا ہے۔ ایک مثال میں اس وقت تذکرۃ الاولیاء کی لیتا ہوں۔ فضیل بن عیاض کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ’ہرات‘ میں کوئی قافلہ آ کر ٹھہرا اور اس میں ایک شخص یہ آیت تلاوت کر رہا تھا کہ اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِاللّٰہِ (الحدید: 17) یعنی کیا اہل ایمان کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے خوفزدہ ہو جائیں۔ اس آیت کا فضیل کے قلب پر ایسا اثر ہوا جیسے کسی نے تیر مار دیا ہو اور آپ نے اظہار تأسف کرتے ہوئے کہا کہ یہ غارتگری کا کھیل کب تک جاری رہے گا اور وقت آ چکا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں چل پڑیں۔ لکھا ہے کہ یہ کہہ کر وہ زار و قطار رو پڑے اور اس کے بعد سے ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ پھر ایک ایسے صحراء میں جا نکلے جہاں کوئی قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے تھا اور اہل قافلہ میں سے کوئی کہہ رہا تھا کہ اس راستے میں فضیل ڈاکے مارتا ہے۔ لہٰذا ہمیں راستہ تبدیل کر دینا چاہئے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا کہ اب قطعاً بے خوف ہو جاؤ۔ اس لئے کہ مَیں نے راہزنی سے توبہ کر لی ہے۔ پھر ان تمام لوگوں سے جن کو آپ سے اذیتیں پہنچی تھیں، معافی طلب کر لی۔ پھر یہی ڈاکے ڈالنے والے’رحمۃ اللہ علیہ‘ کے لقب سے مشہور ہو گئے۔ (ماخوذ از تذکرۃ الاولیاء از حضرت شیخ فرید الدین عطارؒ صفحہ 75-74مطبوعہ اسلامی کتب خانہ لاہور)
پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کی خشیت کا اعجاز کہ جب احساس ہو جائے تو ایک لمحے میں ایک عام انسان کو بلکہ بدترین انسان کو بھی جو اُس زمانے میں بدترین کہلاتا ہو، جس کو لوگ پسندنہ کرتے ہوں علماء کی صف میں لا کھڑا کر دیتا ہے۔ جبکہ بڑے بڑے نام نہاد اور جبّہ پوش تکبر میں مارے ہوئے نظر آتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ عام دنیا اُن کو بڑا نیک سمجھ رہی ہوتی ہے لیکن اُن میں خشیت نہیں ہوتی۔ اور جو انسانوں سے تکبر کرنے والے ہیں وہ کبھی اللہ تعالیٰ کی خشیت دل میں لئے ہوئے نہیں ہوتے۔
پس یہاں علماء کی خشیت سے مراد کچھ اور ہے۔ علماء کی خشیت کی یا یہ کہ عالم کون ہے اور خشیت کیا ہے؟ اس کی حقیقی تعریف کچھ اور ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے کی وجہ سے اس حقیقی تعریف کا پتہ چلا ہے۔ اس تعریف کو میں آپ کے الفاظ میں پیش کرتا ہوں جو آپ نے مختلف مواقع پر بیان فرمائی ہے۔ پہلے میرا خیال تھا کہ ایک دو حوالے لوں گا۔ لیکن یہاں مَیں نے جو چندحوالے لئے ہیں وہ سارے ہی ایسے ہیں کہ بیان کرنے ضروری ہیں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اَللّٰہ جَلَّ شَانُہٗ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں خشیت اور اسلام درحقیقت اپنے مفہوم کے رُو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے‘‘۔ (یعنی لازمی ہے) ’’پس اس آیتِ کریمہ کے معنوں کا مآل اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کاملہ یہی علم عظمت ذات و صفات باری ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 185)
یعنی اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے کہ جس کو اللہ تعالیٰ کی صفات کا اور ذات کا علم ہو جائے وہی عالم بن جاتا ہے۔ پس ایک حقیقی مسلمان بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اُس کی صفات کا علم ضروری ہے اور یہ بغیر خشیت کے نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے کوئی تخصیص نہیں کہ یہ خاص گروہ حاصل کرے اور باقی نہ کریں۔ اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ہر مومن کے لئے اُس کے حصول کی کوشش ضروری ہے، تبھی ایمان میں ترقی ہوتی ہے، تبھی اللہ تعالیٰ کے تعلق میں ترقی ہوتی ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خشیت اور اسلام کو ایک چیز قرار دے کر ایک حقیقی مسلمان کو عالم کی صف میں کھڑا کر دیا۔ ساتھ ہی ہم پر ذمہ داری بھی ڈال دی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرو اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان صفات کا اپنی حالتوں میں اظہار بھی کرو۔ جب یہ صورت ہو گی پھر فضلوں کے مزید دروازے بھی کھلیں گے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’انسان کی خاصیت اکثر اور اغلب طور پر یہی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کامل حاصل کرنے سے ہدایت پا لیتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر: 29)۔ ہاں جو لوگ شیطانی سرشت رکھتے ہیں وہ اس قاعدہ سے باہر ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن۔ جلد 22۔ صفحہ122)
جن کی فطرت میں ہی شیطانیت گھسی ہوئی ہے وہ تو بہر حال اس سے باہر ہیں۔ پس جو علم پانے کا دعویٰ کر کے ہدایت کے راستے پر نہیں چلتا وہ عالم نہیں ہے، اُس کو بظاہر جتنا مرضی ظاہری علم ہو۔ اگر کوئی کہے کہ اُس شخص نے قرآنِ کریم پڑھا ہے تو قرآنِ کریم تو بہر حال غلط نہیں ہے۔ اُس کو سیکھنے والے کا دعویٰ غلط ہے۔ اُس نے اُس روح کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ قرآن یقینا خشیت لئے ہوئے دل کو علم و عرفان عطا فرماتا ہے لیکن متکبر اور خشیت سے خالی دل کو اور ظالموں کو سوائے خسارہ کے قرآنِ کریم کچھ نہیں دیتا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’علم سے مراد منطق یا فلسفہ نہیں ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی معرفت کا ذریعہ ہوتا ہے اور خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ شریف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا (فاطر: 29) اگر علم سے اللہ تعالیٰ کی خشیت میں ترقی نہیں ہوتی تو یاد رکھو کہ وہ علم ترقی معرفت کا ذریعہ نہیں ہے۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ195۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس جن کی زبانوں سے جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا، جن کے عمل دنیاوی لالچوں سے باہر نہیں آتے۔ جن کی زبانیں گند کے علاوہ کچھ نہیں بولتیں۔ آجکل تو پاکستان میں دیکھ لیں بلکہ یہاں بھی اکثر مسجدوں میں خطبات کے دوران میں جماعت کے خلاف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مغلظات کے علاوہ یہ کچھ نہیں بولتے۔ تو کیا یہ وہ علماء ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی خشیت ہے؟ یقینا اس کا جواب نہیں میں ہے۔
پھرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو لغزش ہمیشہ نادان کو آتی ہے۔ شیطان کو جو لغزش آئی وہ علم کی وجہ سے نہیں بلکہ نادانی سے آئی۔ اگر وہ علم میں کمال رکھتا تو لغزش نہ آتی۔ قرآنِ شریف میں علم کی مذمّت نہیں بلکہ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29) ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’اور نیم مُلّاں خطرۂ ایمان مشہور مثل ہے۔ پس میرے مخالفوں کو علم نے ہلاک نہیں کیا بلکہ جہالت نے‘‘ (ہلاک کیا ہے)۔ (ملفوظات جلد 2صفحہ223۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:۔ ’’عالِم ربّانی سے یہ مرادنہیں ہوا کرتی کہ وہ صَرف و نحو یا منطق میں بے مثل ہو بلکہ عالِم ربّانی سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور اُس کی زبان بیہودہ نہ چلے۔ مگر موجودہ زمانہ اس قسم کا آگیا ہے کہ مردہ شو تک بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں‘‘ (یعنی مردے نہلانے والے جو ہیں، وہ بھی اپنے آپ کو علماء کہتے ہیں کیونکہ برصغیر میں بعض جگہ رواج ہے کہ نہلانے کے لئے خاص لوگ تلاش کئے جاتے ہیں۔ ہر ایک مردہ کو نہیں نہلاتا۔ تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو علماء کہنا شروع کر دیا ہے)۔ فرماتے ہیں ’’اور اس لفظ کو اپنی ذات میں داخل کر لیا ہے۔ اس طرح پر اس لفظ کی بڑی تحقیر ہوئی ہے اور خدا تعالیٰ کے منشاء اور مقصد کے خلاف اس کا مفہوم لے لیا گیا ہے۔ ورنہ قرآنِ شریف میں تو علماء کی یہ صفت بیان کی گئی ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29) یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے ہیں جو علماء ہیں۔ اب یہ دیکھنا ضروری ہو گاکہ جن لوگوں میں یہ صفات خوف و خشیت و تقویٰ اللہ کی نہ پائی جائیں وہ ہرگزہرگز اس خطاب سے پکارے جانے کے مستحق نہیں ہیں‘‘۔
پھر فرماتے ہیں: ’’اصل میں علماء عالِم کی جمع ہے اور عِلم اُس چیز کو کہتے ہیں جو یقینی اور قطعی ہو اور سچا علم قرآنِ شریف سے ملتا ہے۔ یہ نہ یونانیوں کے فلسفہ سے ملتا ہے، نہ حال کے انگلستانی فلسفے سے۔ بلکہ یہ سچا ایمانی فلسفہ قرآن کریم کے طفیل سے ملتا ہے۔ مومن کا کمال اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجہ پر پہنچے‘‘۔ (اب یہاں تخصیص نہیں کی۔) ’’مومن کا کمال اور معراج یہی ہے کہ وہ علماء کے درجے تک پہنچے اور اسے حق الیقین کا وہ مقام حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 1صفحہ231۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اب ہر مومن، ہر ایمان لانے والا مسلمان ایمان میں ترقی کرتا ہے تو مومن کہلاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ عالم ہونے کی ڈگری پاس ہو۔ فرمایا وہ علماء کے درجے پر پہنچے۔ وہ حق الیقین کا مقام اُسے حاصل ہو جو علم کا انتہائی درجہ ہے۔ لیکن جو لوگ علوم حقّہ سے بہرہ ور نہیں ہیں اور معرفت اور بصیرت کی راہیں اُن پر کھلی ہوئی نہیں ہیں وہ خود عالم کہلائیں مگر علم کی خوبیوں اور صفات سے بالکل بے بہرہ ہیں اور وہ روشنی اور نور جو حقیقی علم سے ملتا ہے اُن میں پایا نہیں جاتا۔ بلکہ ایسے لوگ سراسر خسارہ اور نقصان میں ہیں۔ یہ اپنی آخرت دخان اور تاریکی سے بھر لیتے ہیں۔ ……جن لوگوں کو سچی معرفت اور بصیرت دی جاتی ہے اور وہ علم جس کا نتیجہ خشیت اللہ ہے عطا کیا جاتاہے وہ وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں انبیاء بنی اسرائیل سے تشبیہ دی گئی ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 1صفحہ231-232۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس اصل عالِم ایسے لوگ ہیں۔ آجکل کے علماء کے بارے میں تو حدیث میں آتا ہے۔ یعنی وہ علماء جو صرف اپنے زعم میں عالم ہیں اور عمل اُن کے کچھ نہیں ہیں۔ حدیث میں آیا ہے، فرمایا۔ عُلَمَآؤُھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اَدِیْمِ السَّمَآءِ۔ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُودُ۔ (الجامع لشعب الایمان جزء3صفحہ317-318 فصل قال وینبغی لطالب علم أن یکون تعلمہ…حدیث: 1763مطبوعہ مکتبۃ الرشد السعودیۃ2004)
یعنی اُن کے علماء (اس زمانے کے جو علماء ہیں) آسمان کے نیچے بسنے والی بدترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ اُن میں سے ہی فتنے اُٹھیں گے اور اُن میں ہی لوٹ جائیں گے۔ اور آجکل آپ یہ دیکھ لیں کہ جتنے جھگڑے فساد ہیں، ان علماء کی وجہ سے ہی پیدا ہوئے ہوئے ہیں جو نام نہاد علماء ہیں۔ پس اس حدیث سے بھی واضح ہو گیا کہ ہر عالِم یا عالِم کہلانے والا، اللہ تعالیٰ کی خشیت رکھنے والا نہیں ہے اور آجکل جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی کہا ہے ہم دیکھ رہے ہیں کہ فتنہ اور فساد کا باعث یہ نام نہاد علماء کی اکثریت ہی ہے جو بن رہی ہے۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29) یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالِم ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خَشْیَۃ اللّٰہ کو پیدا کر دیتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جوشخص پورے طور پر عالم ہو گا اُس میں ضرورخَشْیَۃ اللّٰہ پیدا ہو گی‘‘۔ فرمایا ’’علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے۔ اس سے فلسفہ، سائنس یا اَور علومِ مروّجہ مرادنہیں۔ کیونکہ اُن کے حصول کے لئے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں۔ بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر اُن کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی۔ لیکن علم القرآن بجز متّقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا۔ پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ599۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’علماء کے لفظ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ عالِم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے۔ اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمٰٓؤُا(فاطر: 29) یعنی بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، اُس کے بندوں میں سے وہی عالم ہیں۔ ان میں عبودیت تامہ اور خَشْیَۃ اللّٰہ اس حد تک پیدا ہوتی ہے کہ وہ خود اللہ تعالیٰ سے ایک علم اور معرفت سیکھتے ہیں اور اُسی سے فیض پاتے ہیں اور یہ مقام اور درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اتباع اور آپ سے پوری محبت سے ملتا ہے یہاں تک کہ انسان بالکل آپؐ کے رنگ میں رنگین ہو جاوے‘‘۔ (ملفوظات جلد 4صفحہ433-434۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
پس یہ عالِم کی حقیقت ہے اور یہ ہے علماء کی خشیت اللہ ہونے کا مطلب۔ ان اقتباسات میں جہاں حقیقی اور نام نہاد علماء کا فرق ہمیں معلوم ہو گیا وہاں ہماری توجہ بھی اس طرف پھیری گئی ہے کہ تم حقیقی تقویٰ اختیار کرو اور خشیۃ اللہ پیدا کرو۔ کیونکہ ایک مومن کے لئے یہ ضروری ہے تا کہ حقیقی مومن اور مسلمان بن سکو۔ پس ان (اقتباسات) میں یہ ذمہ داری بھی ہم پر ڈالی گئی۔ پس یہ کسی مخصوص طبقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ تقویٰ پر چلنے کا حکم ہر مومن کو ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر چلنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر خدا کا پیار مل ہی نہیں سکتا۔
پس اس رمضان میں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی قربت کے دروازے کھول دئیے ہیں اور ایسا ماحول بھی پیدا کر دیا ہے جو تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے مددگار اور معاون ہے۔ جو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر چلنے کے لئے ہماری توجہ پھیرنے والا ہے۔ درس وغیرہ بھی ہوتے ہیں۔ حدیث کا درس بھی ہے۔ قرآن کا درس بھی ہوتا ہے۔ ہم سنتے بھی ہیں، تو ہمیں اس سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ قرآنِ کریم پڑھ کر، سن کر علم و معرفت کے اُن راستوں کی تلاش کرنی چاہئے جو تقویٰ میں بڑھاتے ہیں، جوخَشْیَۃ اللّٰہ پیدا کرتے ہیں۔ جو آیات مَیں نے شروع میں تلاوت کی ہیں، ان کے حوالے سے بھی کچھ تھوڑا سا بیان کر دوں۔ پہلی پانچ آیات جیسا کہ مَیں نے کہا سورۃ المومنون کی ہیں جن میں ایک حقیقی مسلمان کی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی آیت میں بتایا کہ حقیقی مومن اپنے رب کے ڈر سے کانپتے ہیں، لرزتے ہیں اور یہ وہ خشیت ہے جو ایک حقیقی مومن میں ہونی چاہئے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت، جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، کا اقرار کرنا اور اللہ تعالیٰ کو تمام طاقتوں کا مالک سمجھ کر اُس سے لرزاں رہنا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لانے والے ہیں۔ وہ حقیقی مومن ہے۔ وہ حقیقی مسلمان ہے۔ اور آیات کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات، تمام نشانات، تمام معجزات جو قرآنِ کریم میں بیان ہوئے ہیں۔ تمام آیات جو قرآنِ کریم کی ہیں۔ ہر حکم جو ہے یہ سب آیات ہیں۔ پس ان پر عمل ایک مومن کے لئے ضروری ہے۔ اور جب ایمان ہو گا تو کامل ایمان اُس وقت ہوتا ہے جب اُس پر عمل بھی ہو۔ اور یہ عمل پھر ایمان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ خشیت اللہ میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ پھر فرمایا کہ حقیقی مسلمان اپنے رب کے ساتھ شریک نہیں ٹھہراتا۔ جس میں خشیت ہو، جس کو آیات پر ایمان ہو وہ شرک تو نہیں کرتا لیکن بعض دفعہ اگر بظاہر ایسا شرک نہ بھی ہو تو مخفی شرک بھی انسان سے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے باریک بینی سے اپنے پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے تب ہی ایک حقیقی مسلمان بن سکتا ہے۔ اپنے قول و فعل کو ہر لمحہ سچائی پر قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس لئے چوتھی بات ان آیات میں یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ خدمتِ دین بھی کرتے ہیں، مال بھی خرچ کرتے ہیں، وقت بھی خرچ کرتے ہیں، احکامات پر عمل کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں پھر بھی جو حقیقی مومن ہیں ان کے دل اس بات سے اس لئے ڈرتے رہتے ہیں کہ سب کچھ تو کیا ہے، اللہ تعالیٰ پتہ نہیں قبول بھی فرماتا ہے یا نہیں۔ کہیں کوئی مخفی غلطی ایسی نہ ہو جائے جو خدا تعالیٰ کی رضا سے دور لے جائے۔ کہیں کوئی مخفی شرک شامتِ اعمال کی وجہ نہ بن جائے۔ کہیں کسی حکم پر عمل نہ کرنا یا کمزوری دکھانا ایمان میں کمی کا باعث نہ بن جائے۔ کہیں اللہ تعالیٰ کی خشیت صرف ظاہری دکھاوا ہی نہ ہو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ! کیا وَالَّذِیْنَ یُؤْتُونَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ (المومنون: 62) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے مگر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ سے بھی ڈرتا رہے۔ (ماخوذ از مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ 296-297مسند عائشہؓ حدیث: 25777مطبوعہ عالم الکتب بیروت 1998ء)
پس ہمیشہ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ بے نیاز بھی ہے۔ کسی نیکی کو قبول کرتا ہے اور کسی کو نہیں۔ یہ اُس کی مرضی ہے کس کو چاہے قبول کرے۔ کس کو چاہے نہ کرے۔ اس لئے ہر وقت خوف رہنا چاہئے کہ جب ہم اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہوں تو ہمارے سے بخشش کا سلوک ہو۔ کسی نیکی پر کسی کو فخر نہیں ہونا چاہئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل فرماتے تھے۔ روایت میں آتا ہے حضرت شَہر بن حَوشَب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے حضرت اُمّ سلمہؓ سے پوچھا کہ اے اُمّ المومنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آپ کے ہاں ہوتے تھے تو زیادہ تر کونسی دعا کرتے تھے۔ اس پر حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بتایا کہ حضور علیہ السلام یہ دعا پڑھتے تھے۔ یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبَّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔ یعنی اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ حضرت ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ مَیں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا پر مداومت کی، باقاعدگی کی وجہ پوچھی تو آپؐ نے فرمایا۔ اے اُمّ سلمہؓ ! ہر انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ جسے چاہتا ہے ثابت قدم رکھتا ہے اور جسے چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتاہے۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب94/89 حدیث: 3522)
پس آپؐ جو ہمیں ہدایت دینے آئے تھے، ان کے اُسوہ پر چل کر حقیقی تقویٰ اور خشیت کا پتہ چلتا ہے، جن کی پیروی اللہ تعالیٰ کا محبوب بناتی ہے اُن کی خشیت کا یہ معیار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے لرزاں ہیں اور ہمیں کس قدر اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو اپنی یہ حالت رکھتے ہیں وہی ہیں جو نیکیوں اور بھلائیوں میں سبقت لے جانے والے ہیں۔ ہر طرف ہر وقت اپنی حالت پر غور ہو گا یا یہ کہ وہ ایسی حالت رکھنے والے ہیں تو پھر ہی نیکیوں اور بھلائیوں کی طرف سب کی توجہ پیدا ہو گی اور انسان کوشش کرتا رہے گا۔ توپھران کے قدم نیکیوں کی طرف آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ وہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ تمام قسم کی نیکیوں کو اپنائیں۔ تقویٰ میں ترقی کریں لیکن اس بات پر بھی فخر نہیں۔ ہر حالت میں ہر وقت اُن کے دل خدا تعالیٰ کی طرف جھکے رہتے ہیں۔ اور یہی حالت ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلواتی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں میں سے ہم پر ایک بہت بڑا احسان یہ بھی ہے کہ دعاؤں کو مانگنے کے طریقے بھی ہمیں سکھائے۔ ایک دعا کا ذکر احادیث میں اس طرح ملتا ہے جو دراصل تو ہمارے لئے ہی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ دعا کرنی چاہئے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَدُعَآءٍ لَا یُسْمَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰؤُلَآءِ الْاَرْبَع۔ کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا۔ اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی۔ اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا۔ اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے۔ مَیں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں۔ (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب 68 حدیث: 3482)
اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم اس دعا کو سمجھنے والے بھی ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اَور دعا بھی پیش کرتا ہوں۔ یہ جو دعا ہے عاجزی اور خَشْیَۃ اللّٰہ کی اُن بلندیوں تک پہنچی ہوئی ہے جو آپؐ کی خشیت کا ایک کامل نمونہ ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر دعا کرتے ہوئے آپؐ نے اپنے مولیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے اللہ! تُو میری باتوں کو سنتا ہے اور میرے حال کو دیکھتا ہے۔ میری پوشیدہ باتوں اور ظاہری امور سے تو خوب واقف ہے۔ میرا کوئی بھی معاملہ تجھ پر کچھ بھی تو مخفی نہیں۔ مَیں ایک بدحال فقیر اور محتاج ہوں۔ تیری مدد اور پناہ کا طالب، سہما اور ڈرا ہوا، اپنے گناہوں کا اقراری ہوں اور معترف ہو کر مَیں تیرے پاس آیا ہوں۔ میں تجھ سے ایک عاجز مسکین کی طرح سوال کرتا ہوں۔ تیرے حضورمَیں ایک ذلیل گنہگار کی طرح زاری کرتا ہوں۔ ایک اندھے نابینا کی طرح خوفزدہ تجھ سے دعا کرتا ہوں۔ میری گردن تیرے آگے جھکی ہوئی ہے۔ میرے آنسو تیرے حضور بہ رہے ہیں۔ میرا جسم تیرا مطیع ہو کر سجدے میں گرا پڑا ہے اور ناک خاک آلودہ ہے۔ اے اللہ! تُو مجھے اپنے حضور دعا کرنے میں بدبخت نہ ٹھہرا دینا۔ میرے ساتھ مہربانی اور رحم کا سلوک فرمانا۔ اے وہ جو سب سے زیادہ التجاؤں کو قبول کرتا ہے اور سب سے بہتر عطا فرمانے والا ہے، میری دعا قبول کر لینا۔ (المعجم الکبیر للطبرانی جلد11صفحہ 140 عطاء عن ابن عباس حدیث: 11405مطبوعہ داراحیاء التراث العربی)
پس یہ وہ عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے خشیۃ اللہ کا عظیم نمونہ ہر آن اپنی اُمّت کے سامنے پیش فرمایا۔ ہر بات دیکھ لیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل دیکھ لیں اس خشیت سے بھرا پڑا ہے۔ خدا تعالیٰ کے خوف سے لرزاں و ترساں ہیں۔ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب ترین آپ ہیں۔ ان کے ساتھ جڑنے والوں نے بھی رَضِیَ اللّٰہ ُعَنْھُمْ کی خوشخبری سنی ہے۔ پس یہ اسوہ حسنہ ہے اور یہ خَشْیَۃ اللّٰہ ہے۔ اگر ہم نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی اور اس چیز کو اپنایا، اپنے اندر پیدا کیا تو ہم بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے مطابق زندگی گزارنے والے ہوں۔ اللہ کرے یہ رمضان ہمارے لئے روحانی انقلاب پیدا کرنے والا بن جائے۔
حقیقی اسلام اب صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے پاس ہے جو اس زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہودنے ہمیں کھول کر بتایا ہے اور سکھایا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کا حقیقی فہم و ادراک ہمیں حاصل کروایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خشیت کی حقیقت کھول کر بیان فرمائی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خشیت اور اسلام کو ایک چیز قرار دے کر ایک حقیقی مسلمان کو عالم کی صف میں کھڑا کر دیا۔ ساتھ ہی ہم پر ذمہ داری بھی ڈال دی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل کرو اور پھر اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ان صفات کا اپنی حالتوں میں اظہار بھی کرو۔
حقیقی علم خشیت اللہ پیدا کرتاہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے حقیقی عالم اور خشیت اللہ کی پُرمعارف تشریح۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض دعاؤں کے حوالہ سے رمضان میں خصوصیت سے اللہ تعالیٰ کی خشیت کی روح کو سمجھتے ہوئے زندگیاں گزارنے کی نصیحت۔
فرمودہ مورخہ 3؍اگست 2012ء بمطابق 3؍ظہور 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔