عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت
خطبہ جمعہ 10؍ اگست 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ (البقرۃ: 187)
اس آیت کا ترجمہ ہے اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقینا میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہیے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پائیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ آیا اور دو عشرے گزر بھی گئے اور احساس بھی نہیں ہوا کہ کس تیزی سے یہ بیس دن گزرے ہیں، یوں لگتا ہے دوڑتے ہوئے گزر گئے۔ اب آخری عشرہ شروع ہو رہا ہے بہت سے خطوط مجھے آتے ہیں جن میں رمضان کے حوالے سے فیض پانے کے لئے دعا کا ذکر ہوتا ہے۔ لوگ ملتے ہیں تو وہ ذکر کرتے ہیں۔ ایک مومن کو یقینا یہ فکر ہونی چاہئے کہ ہم رمضان سے زیادہ سے زیادہ فیض پانے والے بن سکیں۔ ایک احمدی کو اگر یہ فکر نہ ہو تو مسیح موعود اور مہدی معہود کو ماننے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ایک انقلاب ہی ہے جو ہمارے اندر پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے تھے۔ ایک ایسا انقلاب جو بندے کو خدا سے ملانے والا ہو۔ جو ہماری سوچوں اور فکروں کو اس طرف لے جانے والا ہو کہ ہم نے خدا تعالیٰ سے ایک تعلق پیدا کرنا ہے۔ جو ہمیں اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہوئے اُس کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ جو ہمیں اس طرف توجہ دلانے والا ہو کہ ہم نے اپنی روحانی حالتوں میں بہتری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دینی ہے۔ جو ہماری توجہ ہر وقت اس طرف مبذول کروانے والا ہو کہ ہم نے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے ہر وقت اپنے جائزے لینے ہیں۔ جو اس طرف توجہ دلائے کہ ان باتوں کے حصول کے لئے جو بیان کی گئی ہیں، ہم نے کیا طریق اور ذرائع اختیار کرنے ہیں۔ جب یہ باتیں ہوں گی تبھی ہم حقیقت میں اس زمانے کے امام کو ماننے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے کہلا سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کایہ احسان ہے کہ ہمیں وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے اُن نیکیوں کے حصول کی طرف توجہ دلانے کے مواقع فراہم فرماتا رہتا ہے جو اُس نے بیان فرمائی ہیں یا چند ایک کا میں نے ذکر کیا ہے۔ اور رمضان المبارک ان مواقع میں سے ایک انتہائی اہم، عظیم اور بابرکت موقع ہے۔
پس یہ یقینا ہماری خوش قسمتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی ایک خواہش ہمارے اندر پیدا ہو اور پھر اس کے لئے ہم کوشش بھی کریں۔ لیکن ہماری کوشش اُس وقت بارآور ہو سکتی ہے، اُس وقت ہمیں فائدہ دے سکتی ہے جب اُس کے حصول کے لئے ہم وہی طریق بھی اختیار کریں جو خداتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے اپنے بنائے ہوئے طریق سے رمضان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ جیسا کہ مَیں نے پہلے بھی ایک خطبہ میں کہا تھا کہ روزے رکھ کر یا صرف ظاہری نمازوں پر انحصار کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ گو بیشک یہ ظاہری عمل بھی ضروری ہیں، یہ حرکات و سکنات بھی ضروری ہیں، سحری اور افطاری کھانا بھی ضروری ہے۔ بیشک ان کے بغیر خدا تعالیٰ تک پہنچا نہیں جا سکتا کیونکہ ان کے کرنے اور اس طرح کرنے کا حکم بھی خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے۔ بیشک یہ تمام چیزیں، ظاہری حرکات اور عمل فرائض میں داخل ہیں اور جو ان کو نہیں بجا لاتا وہ خدا تعالیٰ کے حکم کی نفی کرتا ہے۔ یقینا وہ لوگ غلط ہیں جو کہتے ہیں کہ ذکر اذکار کی محفلیں لگا کر یا چند وِرد کر کے خدا تعالیٰ مل جاتا ہے یا بندگی کا حق ادا ہو جاتا ہے یا عبادت کا مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ نہیں یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ عمل بہر حال کرنے ضروری ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت سے قائم فرمائے ہیں اور جن کی اُمّت کو تلقین فرمائی کہ اس طرح کرو۔ لیکن ان ظاہری اعمال اور حرکات کے ساتھ اپنے دلوں کی حالت میں پاک تبدیلیاں پیدا کرتے ہوئے ان کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس کا بھی حکم ہے اور انتہائی ضروری حکم ہے۔ پس اس کے حصول کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے حصول کے لئے ہمیں اپنے اندر ایک لگن پیدا کرنی چاہئے۔
یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے، اس میں خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے پیار کے حصول کا طریق بتایا ہے۔ اس مقام کی طرف نشاندہی فرمائی ہے جس پر پہنچ کر ایک انسان حقیقی مومن بنتا ہے اور خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے والا بنتا ہے۔ رمضان کے روزوں سے فیض پانے والا بنتا ہے۔ اس آیت پر غور کریں تو اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے لئے پیار جھلکتا ہے اور اُس حدیث کا مزید فہم حاصل ہوتا ہے جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اُس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو مَیں اُس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں۔ اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو مَیں اُس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ: و یحذرکم اللہ نفسہٗ۔ حدیث 7405)
تو خدا تعالیٰ اس طرح پیار کرتا ہے اپنے بندے سے، اپنے اُن بندوں سے جو حقیقت میں بندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اُن لوگوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے بندے کہلانے والے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا جہاں اس آیت سے اور خاص طور پر عِبَادِیْ یعنی ’’میرے بندے‘‘ کے لفظ سے اللہ تعالیٰ کے جس پیار کا اظہار ہو رہا ہے، وہاں اس بات کا بھی پتہ چل رہاہے کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کے سوال پر یہ جواب نہیں دے رہا کہ مَیں قریب ہوں۔ خدا تعالیٰ کی طرف چل کر جانا تو دور کی بات ہے جو ایک بالشت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھنا نہیں چاہتا، وہ لوگ عِبَادِیْ کے زمرہ میں نہیں آتے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہا یا بشر کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ اُس عبد کو مخاطب کیاہے جو عبد بننے کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ رکھتا ہے اور اس کے لئے کوشش کر رہا ہے۔ اور عبد بننے کا حق کس طرح ادا ہوتا ہے؟ اُس کے لئے ہمیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی طرف توجہ کرنی ہو گی جس میں ہمیں اپنے مقصدِ پیدائش کو سامنے رکھنے کی اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے وہ ہیں جو اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچاننے والے ہیں اور پھر صرف پہچاننے والے ہی نہیں بلکہ اُس کے حصول کے لئے دن رات کوشش کرنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے وہ ہیں جو اس طرف توجہ کریں جس کے بارے میں ارشاد ہے کہ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57) اور مَیں نے جنّوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔ پس اللہ تعالیٰ کا عباد بننے کا معیار اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرتے چلے جانے کو رکھا ہے۔ اور یہ نہیں فرمایا کہ اب سے مقصدِ پیدائش کو صرف رمضان میں یاد رکھنا اور عام دنوں میں بیشک اس طرف توجہ نہ ہو۔ فرمایا یہ مقصدِ پیدائش تو اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد کو ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے یا اُس شخص کو سامنے رکھنا چاہئے جو حقیقی عبد بننا چاہتا ہے۔ روزوں کی برکات سے جب روحانیت میں مزید ترقی ہو رہی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے قرب کی تلاش پہلے سے بڑھ کرکرنے کی کوشش ہو رہی ہے تو پھر میرے بارے میں پوچھنے والوں کو بتا دو کہ مَیں رمضان میں اور بھی قریب آ گیا ہوں جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے حدیث کا ذکر کیا تھاکہ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان … حدیث 1898)
اور اللہ فرماتا ہے کہ جو لوگ پہلے توجہ کرنے والے ہیں کہ میرا عبد بنیں اُن کو بتا دو کہ ان دنوں میں خاص طور پر میں بندوں کے قریب ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے قریب ہے بلکہ ہمیشہ ہی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، عام دنوں میں بھی حق بندگی ادا کرنے کی کوشش کرنے والوں کیلئے اُن کے لئے جو رات کو تہجد کی نمازوں کے لئے جاگتے ہیں، اللہ تعالیٰ نچلے آسمان پر آ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری کتاب التجھد باب الدعاء و الصلاۃ من اٰخر اللیل حدیث 1145)
رمضان میں تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور شفقت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
پس خوش قسمت ہوں گے وہ جو اس سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور یہ عہد کریں کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کا عبد بننے کی جو کوشش کی ہے یا کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کی قربت کے نظارے دیکھنے کے لئے اپنی کوشش کی ہے یاان دنوں میں دیکھے ہیں، روزوں کی وجہ سے ان میں صبح کے نوافل کی طرف بھی توجہ پیدا ہوئی ہے، تہجد پڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، نمازوں میں جو باقاعدگی کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے، قرآنِ کریم پڑھنے اور سمجھنے کی طرف جو توجہ پیدا ہوئی ہے، درسوں میں بیٹھنے اور درس سننے کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے اُسے جاری رکھیں تو اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کے دلوں کا حال جانتا ہے، اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ میرے ان بندوں سے کہہ دو کہ اس عہد کے ساتھ مانگو کہ حق بندگی ادا کرنے کی اس کوشش کو جاری رکھو گے تو میں نہ صرف رمضان میں بلکہ ہمیشہ تمہارے قریب ہوں اور رہوں گا۔ ا گر تم صرف عارضی طور پر اس مقصد کی طرف توجہ کر رہے ہو تو تمہاری زندگی بے فائدہ ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ نے انسان کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اس کی معرفت اور قرب حاصل کرے۔ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 57)‘‘ فرماتے ہیں کہ’’جو اس اصل غرض کو مدنظر نہیں رکھتا اور رات دن دنیا کے حصول کی فکر میں ڈوبا ہوا ہے کہ فلاں زمین خرید لوں، فلاں مکان بنالوں، فلاں جائیداد پر قبضہ ہو جاوے۔ تو ایسے شخص سے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کچھ دن مہلت دے کر واپس بلالے اور کیا سلوک کیا جاوے‘‘۔
فرماتے ہیں: ’’انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کے قرب کے حصول کا ایک درد ہونا چاہیے جس کی وجہ سے اس کے نزدیک وہ ایک قابل قدر شئے ہو جاوے گا۔ اگر یہ درد اس کے دل میں نہیں ہے اور صرف دنیا اور اس کے مافیہا کاہی درد ہے تو آخر تھوڑی سی مہلت پاکر وہ ہلاک ہو جائے گا‘‘۔ (ملفوظات جلد 4 صفحہ 222۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ دنیا کے کام نہیں کرنے چاہئیں۔ ایک جگہ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جس کی زمین ہے، اُس پر وہ محنت نہیں کرتا، جس کا کاروبار ہے اس پر وہ محنت نہیں کرتاتو وہ بھی اُس کا حق ادا نہیں کر رہا۔ اس لئے جو دنیاوی کاروبار ہیں، دنیاوی کام ہیں وہ بھی ساتھ ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ بھی رہے اور اُس مقصدِ پیدائش کو کبھی نہ بھولے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے رکھا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 550۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کیلئے ایک درد ہونا چاہئے۔
پس جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اپنے مقصدِ پیدائش کو جاننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب حاصل کرنا ضروری ہے اور اس طرف کوشش کرنی چاہئے لیکن یہ قرب اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب اُس کے حصول کا درد انسان میں پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! جو اس درد کے حصول کی کوشش رکھتے ہو، تمہاری خواہش تب خواہش سے نکل کر عمل کا روپ دھارے گی جب تمہارا ایمان ترقی کی منازل طے کرتا چلا جائے گا۔ اس میں ترقی ہوتی چلی جائے گی۔ جب تم میری ہر بات پر لبیک کہنے والے بنو گے یا کم از کم نیک نیتی سے اس کے لئے کوشش کرو گے۔
عبد بننے کے لئے عبادات کے ساتھ باقی احکامات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ انسان کمزور ہے، بشری تقاضے کے تحت اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لیکن اس اونچ نیچ کا احساس فوری طور پر پیدا بھی ہونا چاہئے۔ کسی ایک عمل میں کمزوری کا احساس ہوتے ہوئے اُس کے مداوے کی پھر کوشش بھی کرنی چاہئے۔ توبہ استغفار کی طرف توجہ کرتے ہوئے فوری اُن کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش بھی ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ ٹھیک ہے اس رمضان میں نیکیوں کے کرنے کی طرف توجہ کر لو پھر سارا سال دنیا کے حصول کی ہی فکر رہے۔ انسان دنیاوی کاموں میں پڑا رہے اور اپنے مقصدِ پیدائش کو بھول جائے اور سمجھے کہ آئندہ رمضان آئے گا تو پھر عبد بننے کی کوشش کر لیں گے۔ پھر حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے روزوں کے ساتھ اس حکم کو رکھا ہے کہ میری باتوں پر لبیک کہو اور اپنے ایمانوں کو مضبوط کرو تو ٹھیک ہے۔ یہ نہیں کہ جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر ہم کوشش کر لیں گے۔ اگر اس بات پر توجہ رکھو گے کہ اگلے رمضان کے آنے تک ہم نے اس رمضان کی نیکیوں کو جاری رکھنا ہے تو تبھی فائدہ ہو گا۔ ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں کہ اس رمضان میں نیکیاں کر لیں اور بس۔ پھر جب اگلا رمضان آئے گا تو پھر کر لیں گے۔ اگر یہ ہماری سوچ ہو گی تو ہم نے اپنے مقصد کو پانے کی کوشش نہیں کی، اُن نیک لوگوں کے زمرہ میں شامل نہیں ہوئے جنہیں اللہ تعالیٰ نے عِبَادِیْ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
پس عبد بننے کا عمل چند دن یا ایک مہینے کا عمل نہیں ہے۔ عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے اور رمضان میں کیونکہ ایک مومن بندے کی اس طرف زیادہ توجہ ہوتی ہے اس لئے خاص طور پرروزوں کے ساتھ اس طرف توجہ دلائی کہ جب اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوئی ہے تو اس میں ترقی ہوتی رہنی چاہئے۔ اور یہ ترقی کس طرح ہو گی، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد انسان کس طرح بنے گا؟ اپنے مقصدِ پیدائش کوکس کس طرح حاصل کرنے کی کوشش کرے گا؟ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃً۔ وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْن (البقرۃ: 139)کہ اللہ کا رنگ پکڑو اور رنگ میں اللہ سے بہتر اور کون ہو سکتا ہے اور ہم اُسی کی عبادت کرنے والے ہیں۔ پس مقصدِپیدائش کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کا رنگ پکڑنے، اُس کی صفات اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے تبھی انسان حقیقی عبد بن سکتا ہے۔ دنیاوی رشتوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ پیار کایہ رشتہ تو ایک طرف رہا، خونی رشتے تو ایک طرف رہے، آقا اور غلام کے رشتوں میں بھی غلام اپنے آقا کی پسند اور ناپسند کو اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے۔ ان رشتوں میں تو بعض دفعہ دکھاوا اور جھوٹ بھی شامل ہو جاتا ہے اور فائدہ بھی یقینی نہیں ہوتا۔ جیسا کہ مختلف قصے آتے ہیں ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ کا درباری تھا، بادشاہ کو کہیں سے بینگن تحفہ آئے اور اُس کی بڑی تعریف ہوئی تو اس نے روزانہ وہی کھانے شروع کر دئیے۔ درباری نے بے تحاشہ اُس کی تعریفیں کیں، اتنی زیادہ مبالغہ آمیز تعریفیں کہ حد کر دی۔ آخر بادشاہ نے ہر کھانے پر جب اُسے کھانا شروع کیا تو بیمار ہو گیا۔ اُس بادشاہ نے جب اس کی بدتعریفی کی تو اُسی درباری نے اُس کی بدتعریفیں شروع کر دیں۔ تو بادشاہ نے پوچھا پہلے تم تعریف کر رہے تھے اب تم بدتعریفیں کر رہے ہو۔ اس نے کہا جی حضور میں تو آپ کا غلام ہوں، ان بینگنوں کا غلام تو نہیں۔ تو یہ رنگ نہیں چڑھتا۔ اُس نے تو اپنے پروہ رنگ چڑھانے کی کوشش کی تھی کہ جو مالک کہہ رہا ہے مَیں بھی وہ کہتا جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ کا رنگ ایسا ہے جو انسان جب چڑھاتا ہے تو اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیتا ہے۔ خدا تعالیٰ جو زمین و آسمان کا مالک ہے، اُس کے رنگ میں رنگین ہونے والا تو اپنی دنیا و عاقبت سنوار رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنا کر ایک بندہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔ یہی رنگ ہے جو مومن اپنے اوپر چڑھاتا ہے تو اپنی پیدائش کے حقیقی مقصد کو حاصل کر لیتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر بننے کی بھی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ اُن چیزوں کو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، وہ اعمال بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں۔ اُن باتوں سے رُکنا چاہئے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ تبھی صحیح رنگ میں انسان اللہ تعالیٰ کا عبد بن سکتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرنے کی کوشش کرو، اُس کی صفات کا مظہر بننے کی کوشش کرو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ صلاحیت انسان کو عطا فرمائی ہے کہ وہ یہ صفات اپنا سکے۔ اور پھر اپنے دائرہ کے اندر اُن صفات کا اظہار بھی کر سکے۔ انسان اپنے دائرہ میں مالکیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، رحمانیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، رحیمیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، ربوبیت کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، ستار ہونے کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے، وہاب ہونے کا رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے بلکہ ایک عام انسان کی زندگی میں بسا اوقات ان باتوں کے اظہار ہو بھی رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو ان صفات کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں لیکن اس نیت سے نہیں کہ خدا کے رنگ میں رنگین ہوں۔ لیکن ایک حقیقی مومن جو ہے، وہ مومن جو خدا تعالیٰ کی رضا اور اُس کے پیار کو چاہتا ہے، اُس کی نشانی یہ ہے کہ ان صفات کا اظہاراس لئے ہوکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے۔ انسانیت کو برائیوں سے بچانے کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے۔ اپنے مقصدِ پیدائش کے حصول کے لئے ان صفات کا اظہار ضروری ہے۔ تو یہ رنگ اپنانا اور ان کا اظہارکرنا پھر ثواب بن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بن جاتا ہے۔
یہ حکم دینے کے بعد کہ اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیارکرو، فرمایا کہ اے مومنو! اے میرے بندو! یہ اعلان بھی کرو کہ وَنَحْنُ لَہٗ عٰبِدُوْنَ(البقرۃ: 139) کہ ہم اُس کی عبادت کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اختیار کرنا اور اُس کا رنگ پکڑنا اس لئے ہے کہ ہم اُس کے عبد ہیں اور ہمیں اُس کی رضا چاہئے۔ ، ہمیں اُس کی بندگی سب سے زیادہ قیمتی ہے اور اُس کی عبادت کرنے والے ہیں۔ اُس کے حکموں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہیں اور گزارنا چاہتے ہیں۔ پس ہم نے یہ زندگی صرف ایک ماہ اُس کے حکم کے مطابق نہیں گزارنی بلکہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ اُس کے حکموں کے مطابق گزرے گا۔ پس اس بات پر ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اپنے اندر پاک تبدیلیاں لاتے ہوئے ہم نے اس رمضان سے گزرنا ہے انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات پر غور کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنی زندگیوں پر لاگو کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم نے اس رمضان میں سے گزرنا ہے اور پھر اس سارے عمل کو اگلے رمضان سے ملانے کا عہد کرتے ہوئے اُس کی کوشش کرنی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو گا تو فَاِنِّیْ قَرِیْب(البقرۃ: 187) کی خوشخبری بھی ہم سننے والے بن سکیں گے۔ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَان (البقرۃ: 187)کہ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں کو بھی ہم مشاہدہ کر سکیں گے۔
پس اس مقام کے حصول کے لئے ہمیں کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔ ہماری دعاؤں کا محور صرف ہماری اپنی دنیاوی خواہشات نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ ہو، اُن نیکیوں کے کرنے کی طرف بھی توجہ ہو جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِی(البقرۃ: 187) کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں، ایک مومن کی توجہ اپنے احکامات کی طرف بھی مبذول کروائی ہے۔ اس بات کی تاکید فرمائی کہ ایک مومن کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے تبھی وہ کامل مؤمن ہو سکتا ہے۔
اس وقت مَیں اس حوالے سے بھی کچھ کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبّیک کہنے والوں پراللہ تعالیٰ نے جو اخلاقی ذمہ داریاں اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی ذمہ داریاں ڈالی ہیں، وہ کیا ہیں؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مثلاً کہ جو مومن ہیں تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ(آل عمران: 111)کہ اللہ تعالیٰ کے حقیقی بندے وہ ہیں جو نیکیوں کا حکم دینے والے ہیں اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اور ظاہر ہے اس پر حقیقی رنگ میں عمل کرنے والے وہی لوگ ہوں گے اور ہونے چاہئیں جو خود بھی نیکیوں پر عمل کرنے والے اور برائیوں سے بچنے والے ہوں۔ پس جب ایک حقیقی مومن بننے کی کوشش ہو گی تو اپنے محاسبہ کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی اور حقیقت یہی ہے کہ اپنے محاسبے کی طرف نظر ہی خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنانے اور اُس کے اظہار کی طرف متوجہ بھی رکھتی ہے۔
پس ایک بہت بڑی ذمہ داری مومنوں پر ڈالی گئی ہے کہ تم نے یہ کام کرنے ہیں۔ ر مضان میں جب دلوں میں عام دنوں کی نسبت زیادہ خشیت ہوتی ہے اور انسان بعض اوقات اپنے جائزے بھی لیتا ہے تو جب وہ اس طرف توجہ کرے کہ خدا تعالیٰ نے ایک مسلمان کا، ایک حقیقی مومن کا، اُس شخص کا جو اللہ تعالیٰ سے اُس کا عبد بننے کی دعا مانگتا ہے، کیا معیار مقرر کیا ہے تو پھر پاک تبدیلی پیدا کرنے کی طرف توجہ رہے گی۔ اُسے ہمیشہ خدا تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ(الصف: 4) کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک اس بات کا دعویٰ کرنا اور ایسی بات کہنا جو تم کرتے نہیں، بہت بڑا گنا ہ ہے۔
پس ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہر سطح کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی عہدیداروں کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں۔ واقفینِ زندگی کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عمومی طور پر ہر احمدی کو تو ہے ہی کہ جب ہم نصیحت کرتے ہیں تو خود ہماری اپنی زندگیوں پر بھی اُن کے اثرات ظاہر ہوں۔ اگر ایک عام مسلمان کا یہ فرض ہے، ایک عام مومن کا یہ فرض ہے اور وہ اس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ نیکیوں کو پھیلائے اور برائیوں کو روکے تو جو لوگ اس کام کے لئے مقرر ہیں اُن کا تو سب سے زیادہ فرض بنتا ہے اور یہ فرض پورا بھی اُس وقت ہو گا جب ہماری اپنی نیتیں بھی صاف اور پاک ہوں گی۔ جب خود ہر حکم پر عمل کرنے کی بھرپور کوشش ہو گی۔ اگر عہدیداروں کے عبادتوں کے معیار بھی صرف رمضان میں بہتر ہوئے ہیں اور عام دنوں میں نہیں تو وہ بھی قول و فعل میں تضاد رکھتے ہیں اور یہ چیز اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ میں اکثر مختلف میٹنگوں میں عہدیداران کو یہ توجہ دلاتا ہوں کہ اگر ہر سطح پر اور ہر تنظیم کے عہدیدار اپنی عبادتوں کے معیار کو ہی بہتر کر لیں اور مسجدوں کو آباد کرنا شروع کر دیں تو مسجدوں کی جو آبادی ہے وہ موجودہ حاضری سے دو تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے باقی احکامات ہیں۔ اُن کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تو اس سے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جاتے ہیں۔ پھر اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا دوسرے احکام ہیں ان پر عمل ضروری ہے۔ قرآنِ کریم کا ایک حکم یہ بھی ہے کہ انصاف کو اس طرح قائم کرو کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا اپنے پیاروں والدین اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔ اگر جائزے لیں تو ہم میں عموماً وہ معیار نظر نہیں آتے۔ پس ایک طرف تو ہم دعاؤں کی قبولیت کے نشان مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے بندوں میں شامل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں اور پھر گواہی کے وقت راستے تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کس طرح اپنے قریبیوں کو مجرم ہونے سے بچا لیں۔ بلکہ بعض دفعہ کوشش ہوتی ہے کہ ہم اور ہمارے قریبی بچ جائیں اور دوسرے کو کسی طرح ملزم بنا دیا جائے۔ بعض دفعہ عہدیداروں کے متعلق یہ شکایات بھی آ جاتی ہیں، مجھے لکھنے والے لکھتے ہیں کہ آپ نے توجہ دلائی ہے کہ جماعت میں فلاں فلاں عہدیدار کے متعلق یہ شکایت ہے یا بعض دفعہ جلسوں وغیرہ میں بعض کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے تو بجائے اس کے کہ وہ عہدیدار یا متعلقہ شعبہ جو ہے یا مجموعی طور پر جس کو بھی کہا جائے اپنی اصلاح کرے، اس بات کی تحقیق شروع کردیتے ہیں کہ یہ شکایت کس نے کی ہے؟ حالانکہ اُن کایہ کوئی مقصدنہیں ہے۔ تمہیں تو چاہئے تھا کہ اس پر غور نہ کرو کہ شکایت کس نے کی ہے؟ تمہارا اس سے کوئی کام نہیں۔ اگر یہ کمزوری ہے تو دور کرو اور اگر نہیں ہے تو پھر بھی استغفار کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ناکردہ گناہوں کی سزا سے بھی بچائے اور پھر جو صحیح رپورٹ ہے وہ دے دی جائے کہ اصل حقیقت اس طرح ہے۔ باقی یہ میرا کام ہے کہ شکایت کرنے والے کو کس طرح جواب دینا ہے یا جواب دوں کہ نہ دوں؟ اگر بغیر نام کے کوئی شکایت کرتا ہے تو وہ تو ویسے بھی قابل توجہ نہیں ہوتی۔ اُس کی جماعت میں کوئی پذیرائی نہیں ہوتی۔ بہر حال یہ بات عہدیداروں سے اپنے عہدوں اور اپنی امانتوں کے پورا کرنے کا تقاضا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے سپرد جویہ کام کیا ہے اُس کو صحیح طرح نبھائیں اور اسی طرح سچی گواہی کا تقاضا ہے کہ وہ اصلاح کی طرف توجہ دیا کرے، نہ کہ شکایت کنندہ کی تلاش کرنے کی طرف۔ اگر شکایت کرنے والے کا نام میں نے بتانا ہو گا تو خود ہی بتا دوں گا اور اکثر بتا بھی دیا کرتا ہوں۔ لیکن یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اس صورت میں پھر بعض دفعہ شکایت کرنے والے پر زمین تنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بھی تقویٰ سے دور بات ہے۔ یہ پھر امانتوں اور عہدوں کی صحیح ادائیگی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایات پر، احکامات پر صحیح عمل نہیں ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے تو ہرمعاملے میں، ہر سطح پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف عہدیداروں تک ہی میری بات محدودنہیں ہے ہر احمدی کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا عبدبننے کے لئے ہم تمام احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے ایمان کو کامل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنے اندر عاجزی پیدا کریں۔ اپنے اندر کے فخر اور تکبر کے بتوں کو توڑ دیں۔ سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کریں۔ عفو اور درگزر کی عادت ڈالیں۔ غیبت اور چغلی سے بچیں۔ امانتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ عدل کو قائم کریں اور نہ صرف عدل کو قائم کریں بلکہ اُس سے بڑھ کر احسان کریں اور پھر اِیْتَاءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل: 91) کا سلوک کریں۔ بغیر کسی انعام کے خدمت کا جذبہ ہو۔ اپنے ماحول میں اپنے ملنے والوں سے، اپنے ہمسایوں سے حسنِ سلوک کریں کہ یہ بھی اسلام کی ایک بہت اہم تعلیم ہے۔ قرآنِ کریم کی بہت اہم تعلیم ہے۔ ہمسایوں کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور جس طرح ہمسائیگی کے حق کو آپ نے وسعت دی ہے اگر ہم اُس طرح اس کو وسعت دیں تو ہماری آپس کی رنجشیں جو ہیں بالکل ختم ہو جائیں۔ ایک گھر نہیں، سو گھر نہیں اگلے شہر تک، ملک تک یہ وسعت پھیلتی چلی جاتی ہے اور اس سے پھر ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ پیدا ہو جائے گی۔ عیب چینی سے بچنے لگ جائیں گے۔ غیبت کی عادت ختم ہو جائے گی کیونکہ یہ بھی اتنی بڑی برائی ہے کہ اس کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے اللہ تعالیٰ نے تشبیہ دی ہے۔ پس یہ غیبت کس قدر کراہت والی چیز ہے۔ لیکن ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو بغیر سوچے سمجھے غیبت کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر توجہ دلانے پر کہتے ہیں کہ یہ چیزیں تو اس میں پائی جاتی ہیں۔ بعض مجلسوں میں گھروں میں بیٹھ کر عہدیداروں کے بارے میں باتیں کی جاتی ہیں، اُن کی برائیاں ظاہر کی جاتی ہیں۔ یہ چیزیں بھی غلط ہیں۔ یہ غیبت شمار ہوتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے یہ برائیاں اُن میں موجود ہیں۔ ہم جھوٹ تو نہیں کہہ رہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تمہارے بھائی میں اگر یہ برائیاں ہیں اور تم اُس کی پیٹھ پیچھے اُن کا ذکر کرتے ہو تو یہی غیبت ہے۔ اگر برائیاں نہیں ہیں اور پھربھی تم ذکر کر رہے ہو تو پھر تو یہ بہتان ہے۔ (سنن ترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی الغیبۃ۔ حدیث 1934)
پس ان برائیوں سے بچنا بھی ہمارا فرض ہے۔ نیکیوں کو اختیار کرنا ہمارا فرض ہے۔ تبھی ہم اُن لوگوں میں شمار ہو سکتے ہیں جو نیکیوں کی تلقین کرنے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی باتوں پر لبیک کہنا اُس وقت حقیقی ہو گا جب ہم تمام قسم کے احکامات کو اپنے اوپر لاگو کریں گے۔ سب سے پہلے اپنی اصلاح کریں گے اور پھر دنیا کی اصلاح کریں گے جو ہمارا کام ہے تبھی ہم وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ کہ’مجھ پر ایمان لاؤ‘کے مصداق بنیں گے، ورنہ ہمارا ایمان کامل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ کے بعدیُؤْمِنُوْا بِیْ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرو اور ہر قسم کے اعلیٰ اخلاق ہی ایمان میں کامل کریں گے۔ اور عبدیت میں طاق کریں گے۔ پس ہمیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی بھی پوری کوشش کریں۔ اس رمضان کے ان آخری دنوں میں یہ عہد کریں کہ ہم نے اپنی روحانی اور اخلاقی حالتوں کو اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی کوشش کرنی ہے اور پھر اس پر قائم بھی رہنا ہے، انشاء اللہ۔ جن برکتوں کو اس رمضان میں ہم نے مشاہدہ کیا ہے اُن کو ہمیشہ قائم رکھنے کے لئے کوشش کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کرتے چلے جانا ہے۔ اس بابرکت مہینے میں اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق حقیقی عبد بننے کی کوشش کرنی ہے۔ جو چند دن بقایا رہ گئے ہیں اُس میں بھرپور کوشش کی جائے اور پھرقربِ الٰہی کی اس کوشش کو رمضان کے بعد بھی انشاء اللہ تعالیٰ جاری رکھنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ یقینا ہماری خوش قسمتی ہے کہ رمضان کے مہینے میں اپنے اندر ایک انقلاب پیدا کرنے کی ہمارے اندر ایک خواہش پیدا ہو اور پھر اس کے لئے ہم کوشش بھی کریں۔ لیکن ہماری کوشش اُس وقت بارآور ہو سکتی ہے، اُس وقت ہمیں فائدہ دے سکتی ہے جب اُس کے حصول کے لئے بھی ہم وہی طریق اختیار کریں جو خداتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے۔ ہم اپنی مرضی سے اپنے بنائے ہوئے طریق سے رمضان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
پس عبد بننے کا عمل چند دن یا ایک مہینے کا عمل نہیں ہے۔ عبد بننے کے لئے مسلسل کوشش کی ضرورت ہے۔ ان دنوں میں ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر ہر سطح کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور مرکزی عہدیداروں کو بھی مَیں کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیں۔ واقفینِ زندگی کو بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور عمومی طور پر ہر احمدی کو تو ہے ہی کہ ہم جب نصیحت کرتے ہیں تو خود اپنی زندگیوں پر بھی اُن کے اثرات ظاہر ہوں۔ اگر ہر سطح پر اور ہر تنظیم کے عہدیدار اپنی عبادتوں کے معیار کو ہی بہتر کر لیں اور مسجدوں کو آباد کرنا شروع کر دیں تو مسجدوں کی آبادی جو ہے موجودہ حاضری سے دو تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ پس اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
قرآنِ کریم کا ایک یہ حکم بھی ہے کہ انصاف کو اس طرح قائم کرو کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینی پڑے یا اپنے پیاروں والدین اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو دو۔
اگر جائزے لیں تو ہم میں عموماً وہ معیار نظر نہیں آتے۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا ہے تو ہرمعاملے میں، ہر سطح پر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق چلانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف عہدیداروں تک ہی میری بات محدودنہیں ہے ہر احمدی کو اس بات کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا بننے کے لئے ہم تمام احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں۔
فرمودہ مورخہ 10؍اگست 2012ء بمطابق 10؍ظہور 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔