اطاعتِ رسول اللہ ﷺ
خطبہ جمعہ 17؍ اگست 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُواللّٰہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللّٰہَ کَثِیْرًا (سورۃ الاحزاب: 22)
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (آل عمران: 32)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے۔ پہلی آیت سورۃ احزاب کی ہے کہ یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔
دوسری آیت آل عمران کی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تُو کہہ دے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں، احسانوں اور انعاموں کا وارث بننے کے لئے ہمیں بتایا کہ میرا عبد بنو۔ میرے وہ بندے بنو جو میرے حکموں پر چلتے ہیں۔ گزشتہ خطبہ میں یہی ذکر ہو رہا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ایک انسان کو حقیقی عبدیت کے زمرہ میں شامل کرتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیشمار احکام اتارے ہیں جن پر چلنے کی انسان کو کوشش کرنی چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم فَلْیَسْتَجِیْبُوْالِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ (البقرۃ: 187) (کہ پس چاہئے کہ وہ میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں) کا مصداق بن کر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ایک مومن بن سکے۔ اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بنے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے والا ہو۔ دعاؤں کی قبولیت کے نظارے دیکھنے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ کے ارشادات، احکامات تو قرآنِ کریم میں ہیں جن کو پڑھتے ہیں، سنتے ہیں لیکن انسان کی فطرت اللہ تعالیٰ نے ایسی رکھی ہے کہ وہ عملی نمونوں سے عموماً پڑھنے اور سننے کی نسبت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔ ایک شوق اور لگن اُس میں پیدا ہوتی ہے۔ اور جب کسی سے محبت کا دعویٰ ہو تو محبوب کی ہر ادا اور ہر عمل کو ایک انسان خود بھی اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور عمل کا رنگ پھر کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ لیکن جب محبت کا اظہار اور اس محبت کی وجہ سے محبوب کو اپنے لئے نمونہ بنانا ایمان بھی شمار ہونے لگ جائے تو پھر ایک مومن کی اس سے بڑھ کر کوئی خواہش نہیں ہوتی اور نہیں ہونی چاہئے کہ وہ محبوب کی خوشی کے ساتھ اپنے ایمان کو بھی سلامت رکھے اور اس میں ترقی کرے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے بنایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن تمام احکامات کا جو قرآنِ کریم کی صورت میں آپ پر اترے ہیں ایک عملی نمونہ بنا دیا، ایک ایسا عملی نمونہ جو کامل تھا، جس نے آپ کو عبدِ کامل بنا دیا۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اسی بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک مسلمان کا، ایک ایمان لانے کا، دعویٰ کرنے والے کا ایمان اُس وقت مکمل ہو گا، وہ تب خدا تعالیٰ کا قرب پاسکے گا جب میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلے گا۔ اس کے بغیر ایمان ادھورا ہے۔ اُس اُسوہ پر چلے بغیر آخرت کی نعماء کی امید فضول ہے۔ اُس اُسوہ پر چلے بغیر نیکی، نیکی نہیں کہلا سکتی۔ اس اسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی عبادت، عبادت نہیں ہے۔ اس اُسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی یاد اور اُس کا ذکر وہ مقام نہیں دلا سکتا جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلائے۔ اس اُسوہ پر چلے بغیر گناہوں سے نجات ممکن نہیں ہے۔ اس اُسوہ پر چلے بغیر تم اللہ تعالیٰ کی رحیمیت سے وہ حصہ نہیں پا سکتے جس کے لئے تم اللہ تعالیٰ کو پکار رہے ہو۔ اُس اُسوہ پر چلے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرنے والے نہیں بن سکتے کہ یہ خدا تعالیٰ کا محبوب ترین بندہ ہے۔ اگر اُس کی پیروی نہیں کی تو اللہ تعالیٰ کی محبت بھی نہیں ملے گی۔
پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں لیکن آپ کی اُمّت میں سے ہونے اور مسلمان ہونے کے فیض ہم تبھی اُٹھا سکتے ہیں جب ہم آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ جب ہم اُن احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اس طرح بجا لانے کی کوشش کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کر کے دکھایا۔ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ (صحیح البخاری کتاب الجہاد والسیر باب یقاتل من وراء الامام و یتقی بہ حدیث 2957)
کہہ کر ہمیں اس آیت کی یاددہانی کروا دی کہ میرے نمونے تمہیں شیطان سے بچا کر حقیقی عبد بنا سکتے ہیں نہ کہ تمہاری کوششیں۔ میری ڈھال کے پیچھے رہو تو شیطان سے بچے رہو گے۔ عبادت کا سوال ہے تو یہ نہ سمجھو کہ ایسے عمل کر کے جو مَیں نے نہیں کئے تم عبادت کا حق ادا کر سکو گے یا اللہ تعالیٰ کا پیار حاصل کر سکو گے۔ نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اس زمانے میں ہم پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا احسان ہے جو آپؐ کے عاشقِ صادق ہیں کہ ہمیں آپؐ کے حقیقی اُسوہ اور اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ عبادتوں کے لئے جو نئے نئے ذکر اور محفلیں منعقد کرنے کی بدعات رواج پا گئی ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت نہیں ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ کا قرب کبھی نہیں دلا سکتیں۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 3صفحہ 162۔ ایڈیشن 2003۔ مطبوعہ ربوہ)
پس قرب کے حصول کے لئے اُسوہ پر عمل کرنا ضروری ہے۔
اس وقت مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی، آپ کے عملی نمونے کی چند مثالیں پیش کروں گا۔ لیکن اس سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات اور دوسرے اخلاق کے نمونے پیش کروں گا جو ہمارے لئے رہنما ہیں جن کے کرنے سے ہم اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بن سکتے ہیں اور اُس کا پیار حاصل کرنے والا بن سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپؐ کے بارے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے، اس حوالے سے آپ کی نظر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے اور جو ہمارے سامنے آپ نے پیش فرمایا ہے وہ مَیں پہلے بیان کروں گا۔
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُالذُّنُوْبَ جَمِیْعًا(الزمر: 54) … یعنی کہہ اے میرے غلامو! جنہوں نے اپنے نفسوں پر زیادتی کی ہے کہ تم رحمتِ الٰہی سے ناامید مت ہو۔ خدا تعالیٰ سارے گناہ بخش دے گا‘‘۔ فرماتے ہیں کہ’’اب اس آیت میں بجائے قُلْ یَا عِبَادَ اللّٰہ کے، جس کے یہ معنے ہیں کہ کہہ اے خدا تعالیٰ کے بندو! یہ فرمایا کہ قُلْ یٰعِبَادِی یعنی کہہ اے میرے غلامو۔ اس طرز کے اختیار کرنے میں بھید یہی ہے کہ یہ آیت اس لئے نازل ہوئی ہے کہ خدا تعالیٰ بے انتہا رحمتوں کی بشارت دیوے اور جو لوگ کثرت گناہوں سے دل شکستہ ہیں اُن کو تسکین بخشے۔ سو اللہ جلّشانہٗ نے اس آیت میں چاہا کہ اپنی رحمتوں کا ایک نمونہ پیش کرے اور بندہ کو دکھلاوے کہ مَیں کہاں تک اپنے وفادار بندوں کو انعامات خاصہ سے مشرّف کرتا ہوں‘‘۔ (وہ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے بالکل مایوس ہو گئے ہیں اُن کو بتائے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر وسیع ہے اور کس طرح انعامات سے نوازتا ہے۔) فرمایا ’’سو اس نے قُلْ یٰعِبَادِی کے لفظ سے یہ ظاہر کیا کہ دیکھو یہ میرا پیارا رسول، دیکھو یہ برگزیدہ بندہ کہ کمال طاعت سے کس درجہ تک پہنچا کہ اب جو کچھ میرا ہے وہ اس کا ہے۔ جو شخص نجات چاہتا ہے وہ اس کا غلام ہوجائے۔ یعنی ایسا اس کی طاعت میں محو ہوجاوے کہ گویا اس کا غلام ہے- تب وہ گو کیسا ہی پہلے گنہگار تھا بخشا جائے گا‘‘۔ فرمایا کہ ’’جاننا چاہئے کہ عَبْد کا لفظ لغتِ عرب میں غلام کے معنوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ جلّشانہ فرماتا ہے وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ (البقرۃ: 222) اور اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص اپنی نجات چاہتا ہے وہ اس نبی سے غلامی کی نسبت پیدا کرے۔ یعنی اس کے حکم سے باہر نہ جائے اور اس کے دامن طاعت سے اپنے تئیں وابستہ جانے جیسا کہ غلام جانتا ہے‘‘۔ (یعنی اس طرح اطاعت کرو اس نبی کی جس طرح ایک غلام اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے)’’تب وہ نجات پائے گا‘‘۔ فرمایا ’’اس مقام میں ان کور باطن نام کے موحّدوں پر افسوس آتا ہے‘‘ (بعض لوگ کہتے ہیں کہ بعض نام نہیں رکھنے چاہئیں) ’’کہ جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یاں تک بغض رکھتے ہیں کہ ان کے نزدیک یہ نام کہ غلام نبی، غلام رسول، غلام مصطفیٰ، غلام احمد، غلام محمد شرک میں داخل ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدار نجات یہی نام ہیں‘‘۔ (یعنی اگر محبت سے اور حقیقت میں ان ناموں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے عمل ٹھیک کئے یا اپنے ناموں کو اُن صفات کا حامل بنایا تو پھر اس سے نجات بھی حاصل ہوتی ہے۔ ورنہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نام رکھنے سے نجات مل جائے گی کہ نام رکھ لیا اور پھر جتنی مرضی برائیاں کرتے رہے تو انسان نجات پا جائے گا۔ یہ نہیں ہے۔ یہ جو فرمایا کہ حکم سے باہر نہ جائے گا۔ جو احکامات ہیں اُس سے باہر نہ جائے، یہ جو فقرہ ہے یہ خاص طور پر بڑا ضروری ہے۔ اس فقرہ پر بھی غور کرنا چاہئے۔)
پھر آپ مزید فرماتے ہیں ’’اور چونکہ عَبْد کے مفہوم میں یہ داخل ہے کہ ہر ایک آزادگی اور خودرَوی سے باہر آجائے‘‘ (یعنی عبدیت اُس وقت ہوتی ہے جب نہ اپنی آزادی رہے، نہ خود اپنے بارے میں فیصلے کرکے خود ہی جو چاہے کرتا رہے، اس سے باہر آئے) ’’اور پورا متبع اپنے مولیٰ کا ہو۔ اس لئے حق کے طالبوں کو یہ رغبت دی گئی کہ اگر نجات چاہتے ہیں تو یہ مفہوم اپنے اندر پیدا کریں۔ اور درحقیقت یہ آیت اور یہ دوسری آیت قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ (آل عمران: 32)۔ ازروئے مفہوم کے ایک ہی ہیں‘‘۔ (جو پہلی آیت پڑھی گئی تھی اور یہ آیت، فرمایا کہ مفہوم دونوں کا ایک ہے) ’’کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے‘‘ (یعنی جو کسی کی پیروی کا اور اتباع کا جو انتہا ہے، وہ مکمل طور پر اطاعت کے لئے لازمی ہے، اطاعت ہو گی تو اتباع ہو گی، پیروی ہو گی) فرمایا کہ’’جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے‘‘۔ (پورا فقرہ یوں بنے گا کہ) ’’کیونکہ کمال اتباع اس محویت اور اطاعت تامہ کو مستلزم ہے جو عبد کے مفہوم میں پائی جاتی ہے۔ یہی سِر ہے کہ جیسے پہلی آیت میں مغفرت کا وعدہ بلکہ محبوبِ الٰہی بننے کی خوشخبری ہے گویا یہ آیت کہ قُلْ یٰعِبَادِی دوسرے لفظوں میں اس طرح پر ہے کہقُلْ یَا مُتَّبِعِی۔ یعنی اے میری پیروی کرنے والو جو بکثرت گناہوں میں مبتلا ہورہے ہو، رحمتِ الٰہی سے نومید مت ہو کہ اللہ جلّشانہٗ بہ برکت میری پیروی کے تمام گناہ بخش دے گا۔ اور اگر عباد سے صرف اللہ تعالیٰ کے بندے ہی مراد لئے جائیں تو معنے خراب ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ ہرگز درست نہیں کہ خدا تعالیٰ بغیر تحقق شرط ایمان اور بغیر تحقق شرط پیروی تمام مشرکوں اور کافروں کو یونہی بخش دیوے‘‘۔ یعنی اگر ایمان میں کامل نہیں ہے اور پیروی اور اتباع میں کامل نہیں ہے تو بخشا نہیں جا سکتا، پھر تو اللہ تعالیٰ مشرکوں کو اور کافروں کو یونہی بخش دے گا۔ فرمایا ’’ایسے معنے تو نصوص بینہ قرآن سے صریح مخالف ہیں‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 189تا193)
پس یہ خوشخبری ہر اُس شخص کے لئے ہے جو کہ کامل اطاعت کرتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے کہ اس کامل پیروی سے شدید ترین گناہ بھی دھل جاتے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اب مَیں اُسوہ کے نمونے پیش کروں گا۔ اس رمضان میں خدا تعالیٰ نے جو ایسا ماحول پیدا فرمایا ہے اور ہر سال جب رمضان آتا ہے تو جو ماحول پیدا ہوتا ہے اور نیکیوں اور عبادتوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور اب بھی ہوئی ہے تو اگر حقیقت میں خدا تعالیٰ کا عبد اور پیارا بننا ہے تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی پیروی کو جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔ یہی نہیں کہ ایک دفعہ عمل کر لیا۔ آپؐ کا عمل یا نمونہ کسی ایک چیز کے بارے میں نہیں تھا، نہ ہی رمضان کے لئے مخصوص تھا بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بقول کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْآن تھا اور تمام زندگی پر حاوی تھا۔ آپ کا خلق قرآن عظیم تھا۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو فرمایا کہ اس سے گناہوں سے دل شکستوں کو امید کی کرن دکھائی دیتی ہے تو وہ تبھی ہے جب اس اُسوہ پر عمل کا مصمّم ارادہ ہو اور پھر نہ صرف ارادہ ہو بلکہ عمل بھی ہو اور پھر باقاعدگی بھی ہو۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’اس جگہ یہ بھی یاد رہے کہ ماحصل اس آیت کا یہ ہے‘‘ (اس آیت کا خلاصہ یہ بنے گا یا اصل مضمون یہ بنے گا، مقصد یہ بنے گا) ’’کہ جو لوگ دل و جان سے تیرے، یارسول اللہ! غلام بن جائیں گے۔ ان کو وہ نور ایمان اور محبت اور عشق بخشا جائے گا کہ جو اُن کو غیر اللہ سے رہائی دے دے گا اور وہ گناہوں سے نجات پا جائیں گے اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی، اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے‘‘۔ (اب رمضان کا ایک مقصد خدا تعالیٰ کی رضا چاہنا، اُس کا بننا، اُس کی عبادت کرنا بھی ہے۔ اور یہی غیر اللہ سے نجات ہے تو اس کو پورا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی پیروی ضروری ہے۔ فرمایا کہ) ’’اور اسی دنیا میں ایک پاک زندگی ان کو عطا کی جائے گی اور نفسانی جذبات کی تنگ و تاریک قبروں سے وہ نکالے جائیں گے‘‘۔ (جو یہ پیروی کریں گے) ’’اسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے۔ اَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ یعنی میں وہ مُردوں کو اٹھانے والا ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جاتے ہیں‘‘۔ (قدموں پر اٹھائے جانے کا یہی مطلب ہے کہ میری پیروی کرنے والے ہیں، میرے نقشِ قدم پر چلنے والے ہیں) فرماتے ہیں ’’واضح ہو کہ قرآن کریم اس محاورہ سے بھرا پڑا ہے کہ دنیا مرچکی تھی اور خدا تعالیٰ نے اپنے اس نبی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج کر نئے سرے دنیا کو زندہ کیا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے اِعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰہَ یُحْیِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا (الحدید: 18) یعنی اس بات کو سن رکھو کہ زمین کو اس کے مرنے کے بعد خدا تعالیٰ زندہ کرتا ہے۔ پھر اسی کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے حق میں فرماتا ہے وَاَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ(سورۃالمجادلہ: 23) یعنی ان کو روح القدس کے ساتھ مدد دی۔ اور روح القدس کی مدد یہ ہے کہ دلوں کو زندہ کرتا ہے اور روحانی موت سے نجات بخشتا ہے اور پاکیزہ قوتیں اور پاکیزہ حواس اور پاک علم عطا فرماتا ہے اور علوم یقینیہ اور براہین قطعیہ سے خدا تعالیٰ کے مقام قرب تک پہنچا دیتا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 193تا 195)
روحانی موت سے نجات کیا ہے؟ یہ دنیاوی خواہشات کو قربان کرنے کا نام ہے۔ یہ اپنے نفس کو قربان کرنے کا نام ہے، جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بار بار توجہ دلائی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کرنے کا نام ہے۔ پس صحابہ رضوان اللہ علیہم نے یہ سب کچھ کیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں کو روحانی زندگی عطا فرمائی۔ اُن کو پاکیزہ قوتیں عطا فرمائیں جن سے انہوں نے شیطان کا مقابلہ کیا۔ اُن کی سوچوں کو پاک کیا۔ اُن کو قرآن کا علم عطا فرمایا جس نے اُن کے یقین اور ایمان کو انتہائی مدارج تک پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر اُن کو عین الیقین ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نظارے اُنہوں نے خود دیکھ لئے جس نے اُنہیں اللہ تعالیٰ کا قرب عطا فرمایا۔ یہ سب کچھ اُنہیں اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کی وجہ سے ملا اور اُنہیں اللہ تعالیٰ کے اس حکم کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاَ (العکبوت: 70) کہ اور جو لوگ ہمیں ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ضرور اُنہیں اپنے راستوں کی طرف رہنمائی کرتے ہیں، اس کا مزید ادراک حاصل ہوا اور یہ سب کچھ جیسا کہ مَیں نے کہا اُن کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ پر چلنے کی کوشش سے ہوا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اور یہ علوم جو مدارِ نجات ہیں یقینی اور قطعی طور پر بجز اُس حیات کے حاصل نہیں ہوسکتے جو بتوسّط روح القدس انسان کو ملتی ہے اور قرآن کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ حیات روحانی صرف متابعت اس رسول کریمؐ سے ملتی ہے‘‘۔ یعنی یہ جو علوم کا ذکر ہوا ہے کہ روحانی عملوں سے نجات ہوتی ہے، پاکیزہ قوتیں عطا ہوتی ہیں، پاکیزہ حواس عطا ہوتے ہیں، پاک علم عطا ہوتا ہے۔ فرمایا یہ جو مدارِ نجات ہیں، نجات کا باعث بننے والے علوم ہیں، یہ صرف اس طرح حاصل نہیں ہو سکتے کہ خود اس زندگی میں انسان کوشش کر لے بلکہ انسان کو یہ روح القدس سے ملتے ہیں۔ اور فرمایا کہ ’’قرآنِ کریم کا بڑے زور شور سے یہ دعویٰ ہے کہ حیاتِ روحانی صرف متابعت اس رسول کریمؐ سے ملتی ہے‘‘۔ (یہ جسمانی زندگی نہیں ہے، روحانی زندگی ہے جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے اور آپ کی پیروی سے ملتی ہے۔) ’’اور تمام وہ لوگ جو اس نبی کریمؐ کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’تمام وہ لوگ جو اس نبی کریمؐ کی متابعت سے سرکش ہیں وہ مُردے ہیں جن میں اس حیات کی‘‘ (یعنی یہ روحانی حیات کی) ’’روح نہیں ہے‘‘۔ پھر فرمایا ’’اور حیاتِ روحانی سے مراد انسان کے وہ علمی اور عملی قویٰ ہیں جو روح القدس کی تائید سے زندہ ہوجاتے ہیں۔ اور قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے کہ جن احکام پر اللہ جلّشانہٗ انسان کو قائم کرنا چاہتا ہے وہ چھ سو ہیں۔ ایسا ہی اس کے مقابل پر جبرائیل علیہ السلام کے پَر بھی چھ سو ہیں۔ اور بیضۂ بشریت جب تک چھ سو حکم کو سر پر رکھ کر جبرائیل کے پروں کے نیچے نہ آوے اس میں فنا فی اللہ ہونے کا بچہ پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ (یعنی مثال دی گئی ہے کہ انسان کا جو خول ہے، پیدائش کا جو انڈہ ہے، جب تک انسان ان چھ سو احکامات کو اپنے اوپر طاری نہ کرے، لاگو نہ کرے اُس وقت تک وہ فنا فی اللہ نہیں ہو سکتا۔ وہ بچہ پیدا نہیں ہو سکتا جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ترین ہو جائے۔ فرمایا ’’اور انسانی حقیقت اپنے اندر چھ سو بیضہ کی استعداد رکھتی ہے‘‘۔ یہ نہیں ہے کہ کوئی مشکل چیز ہے۔ انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی ہے کہ اگر وہ چاہے اور کوشش کرے تو ان احکامات کو اپنے اوپر طاری کرنے کی طاقت رکھتی ہے، استعداد رکھتی ہے۔ فرمایا ’’پس جس شخص کا چھ سو بیضۂ استعداد جبرائیلؑ کے چھ سو پر کے نیچے آگیا وہ انسان کامل اور یہ تولّد اس کا تولّدِ کامل اور یہ حیات حیاتِ کامل ہے‘‘۔ یعنی یہ چیزیں حاصل ہو جائیں تو تبھی حقیقی روحانی پیدائش بھی ہوتی ہے اور حقیقی روحانی زندگی بھی ملتی ہے۔ پس ان چھ سو احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کرو۔ فرمایا کہ ’’اور غور کی نظر سے معلوم ہوتا ہے کہ بیضۂ بشریت کے روحانی بچے جو روح القدس کی معرفت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت کی برکت سے پیدا ہوئے وہ اپنی کمیّت اور کیفیت اور صورت اور نوع اور حالت میں تمام انبیاء کے بچوں سے اتم اور اکمل ہیں‘‘۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے انسان کے اندر جو یہ روحانی بچے پیدا ہوئے ہیں، جو روحانی صفات پیدا ہوئی ہیں وہ اپنی کمیّت کے حساب سے بھی، اپنی کیفیت کے حساب سے بھی، اپنی شکل صورت کے حساب سے بھی، اپنی نوع اور قسم کے حساب سے بھی، ہر حالت میں دوسرے انبیاء کے ذریعے سے جو روحانی انقلاب آیا اُس سے بہت بڑھ کر ہیں۔ اور فرماتے ہیں ’’اسی کی طرف اشارہ ہے جو اَللّٰہ جَلَّ شَانُہٗ فرماتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ(آل عمران: 111) یعنی تم سب اُمّتوں سے بہتر ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لئے پیدا کئے گئے ہو‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 195تا 197)
جب خیرِ اُمّت قرار دیا گیا، جیسا کہ اکثر ہم تقریروں میں ’’خیرِ اُمّت‘‘ سنتے ہیں تو اس خیر اُمّت بننے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر وہ تمام روحانی انقلاب پیداکرنے کی کوششیں کی جائیں، وہ حالتیں طاری کرنے کی کوشش کی جائیں جن کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کا ذکر فرمایا۔ قرآنِ کریم میں جن کا ذکر ہے۔ اور پھر جب اس طرح اپنی اصلاح ہو گی، جب اس مقام پر انسان پہنچے گا تو پھر ہی دوسروں کی اصلاح کا کام کر سکتے ہیں۔ اور یہ اصلاح کا کام پھر بارآور ہوتا ہے۔ تبھی یہ پھل لگاتا ہے جب اس اسوہ رسول پر ہم چلنے کی کوشش کریں گے، اپنی زندگیاں اس کے مطابق ڈھالیں گے، اپنے جائزے ہر وقت لیتے رہیں گے، اپنی روحانی ترقی کی طرف قدم بڑھاتے رہیں گے یا بڑھانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ یہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو احکامات دیئے ہیں ہم کہاں اور کن معاملات میں اور کس طرح اور کس حد تک اُن پر عمل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تو تبھی ہم اپنے اندر بھی انقلاب پیدا کریں گے۔ تبھی ہم اسلام کا حقیقی پیغام بھی دنیا تک پہنچا سکیں گے۔ پس بیشک گنہگار بھی اللہ تعالیٰ کا ایک عبد بن سکتا ہے۔ لیکن اسوہ رسول پر چلنے سے اور اس کے لئے کوشش کرنے سے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اس کی کوشش کرنے سے اس کے تمام گناہ معاف ہو سکتے ہیں۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلو ہیں۔ آپ کا اُسوہ ہے جس کی پیروی کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے اور جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے کہ کس طرح اور کس حد تک انسان حاصل کر سکتا ہے۔ اور اس اُسوہ پر چلنے سے پھر اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ملتی ہے جس سے بندہ اپنے پیار کرنے والے خدا کی آغوش میں آ جاتا ہے۔
سب سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے محبت، اُس کی شکر گزاری اور اس کی عبادت کے کیا نمونے آپؐ نے قائم فرمائے ہیں۔ وہ عظیم نبی جو تمام دن حکومتی معاملات اور اپنے ماننے والوں کی اصلاح اور تربیت اور اُن کو روحانی ترقی کی راہیں دکھانے میں مصروف رہتا تھا۔ عام دنوں میں بھی آپ کی مصروفیت ہوتی تھی اور جنگوں میں اور ہنگامی حالات میں تو دن کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ آپ کی جسمانی مشقت کی بھی انتہا ہو جاتی تھی۔ لیکن ہمیں نہ آپ کی دن کی عبادتوں میں اور نہ ہی رات کی عبادتوں میں کوئی رخنہ نظر آتا ہے۔ رات کو عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو پاؤں سوج جاتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب التفسیر باب قولہ لیغفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک…حدیث 4836)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ رات کو عبادت کرو۔ آپ کی رات کی عبادت نصف رات سے بڑھ کر بھی تھی اور نصف رات کی بھی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ اَشَدُّ وَطْئًا وَّاَقْوَمُ قِیْلًا(المزمل: 7) کہ رات کو جاگنا یقینا نفس کو پاؤں تلے کچلنے کے لئے شدید اور قولی لحاظ سے زیادہ مضبوط ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ایک دفعہ عرض کی کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم۔ آپ تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں۔ آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف میں کیوں ڈالتے ہیں؟ فرمایا اے عائشہ! اَفَلَا اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔ (صحیح مسلم کتاب صفات المنافقین و احکامھم باب اکثار الاعمال… حدیث 7125)
کہ اگر مَیں اللہ تعالیٰ کا مقرب ہوں اور اللہ تعالیٰ نے اتنے فضل فرمائے ہیں تو پھر کیا میرا یہ فرض نہیں بنتا کہ اس کا شکرگزار بندہ بن جاؤں۔ شکر تو احسان کے مقابلے پر ہوا کرتا ہے۔ اور آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کو یاد کرتے تھے اور شکر ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر یہ احسان ہے کہ نہ صرف ہمیں مسلمان بنایا بلکہ آپؐ کے غلامِ صادق کو آپؐ کا سلام پہنچانے کی توفیق بھی عطا فرمائی ہے۔ یہی احسان اتنا بڑا ہے کہ اس کا ہم شکر ادا نہیں کر سکتے۔ ایک احمدی اس کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا۔ جو بھی کوشش ہو تب بھی ہم اس کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔
پس ہر احمدی کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم اپنی اپنی بساط اور استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان میں جو نفلوں کی عادت ڈالی ہے تو یہ عارضی عادت نہ ہو اور ہمارے دنیوی مقاصد کے لئے نہ ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا اکثر حصہ اس میں ہو اور پھر اس عبادت کا اثر ہمارے قول و فعل کی سچائی پر بھی ظاہر ہو۔ ہم خیرِ اُمّت بن کر جب دنیا کی اصلاح کی کوشش کریں گے تو ہماری باتوں میں بھی تبھی اثر ہو گا جب ہماری یہ حالت ہو گی۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ اُسوہ ہے جو نفلوں کے بارے میں بیان ہوا ہے کہ کس طرح رات کو عبادت کرتے تھے۔ فرض نمازوں کی پابندی کا بھی آپ کو کتنا خیال تھا۔ سخت شدید بیماری میں بھی جبکہ نمازیں بیٹھ کر اور لیٹ کر اور گھر میں پڑھنے کی اجازت ہے، آپ سہارے لے کر مسجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے تشریف لاتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الاذان باب انما جعل الامام لیؤتم بہ حدیث 687)
لیکن ان سب باتوں کے باوجود کہ عبادت کے بارے میں اتنی سختی ہے، اتنی شدت ہے، اور آپ نے عبادت کو اتنی اہمیت دی ہے۔ لیکن عبادت کے بارے میں آپ کو تصنع اور بناوٹ پسندنہیں تھی۔ جب آپؐ نے گھر میں رسّی لٹکی ہوئی دیکھی اور اُس کا مقصد پوچھا تو پتہ چلا کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو اس رسّی کے سہارے کھڑی ہو جاتی ہیں تو آپؐ نے یہ ناپسند فرمایا اور فرمایا جتنی دیر خوشی سے، بشاشت سے، آسانی سے عبادت ہو سکے کرو۔ جب تھک جاؤ تو بیٹھ جاؤ۔ (صحیح البخاری کتاب التہجد باب ما یکرہ من التشدید فی العبادۃ حدیث 1150)
آپؐ کو تو خدا تعالیٰ نے اتنی طاقت عطا فرمائی تھی کہ پاؤں متورم ہو جائیں تب بھی کھڑے رہیں لیکن دوسروں کے لئے آپ نے سہولت بھی دی ہے۔ لیکن اس سہولت کا یہ مطلب بھی نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو عادت ہو جاتی ہے کہ صرف بیٹھ کر نمازیں پڑھتے ہیں۔ بعضوں کو عادت ہے کہ صبح فجر کی نماز پر اُٹھے، بغیر وضو کے بستر پر ہی لیٹے لیٹے تیمم کیا اور بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ لی، یہ چیزیں بھی غلط ہیں۔ اس طرح سے ناجائز فائدہ بھی نہیں اُٹھانا چاہئے کیونکہ پھریہ عبادت نہیں ہے۔ اپنی طاقتوں اور استعدادوں کو انتہا تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اپنی طاقتوں کے مطابق ہر بندہ اندازہ لگائے، ہر شخص اندازہ لگائے اور جب یہ ہوگا تو تب ہی ہر شخص کہہ سکتا ہے کہ مَیں اُسوۂ حسنہ پر چلنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ عبادتوں اور شکر گزاری کے معیار ہم نے دیکھے جس کے نمونے آپ نے ہمارے سامنے قائم فرمائے، اور جو مَیں نے بیان کئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ تو حضرت ابوہریرۃؓ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا آپؐ بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے؟ آپؐ تو ساری ساری رات عبادت کرنے والے ہیں۔ ایسی فنا کی حالت ہوتی ہے کہ پاؤں متورم ہو جاتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا۔ ہاں مَیں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہاں خدا تعالیٰ کا فضل اور اُس کی رحمت ہی مجھے جنت میں داخل کرے گی۔
یہ کیا ہی خوف اور خشیت کی حالت ہے۔ وہ لوگ جو ذرا ذرا سی نیکی پر اِتراتے پھرتے ہیں اُن کے لئے کس قدر خوف کا مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مغفرت کی اور فضل کی چادر میں ڈھانپے رکھے اور ہمیں حقیقت میں عبادت کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور عاجزی اور انکساری کی بھی توفیق دے۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو‘‘۔ فرمایا کہ ’’کوئی شخص موت کی خواہش نہ کیا کرے کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو نیکیوں میں بڑھے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو گا اور اگر بد ہے تو توبہ کی توفیق مل جائے گی‘‘۔ (صحیح البخاری کتاب المرضی باب تمنی المریض الموت حدیث5673)
یہ توبہ کی توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملتی ہے۔ اس کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے ورنہ دنیا میں اکثریت تو ایسے لوگوں کی ہے جو برائیوں میں مبتلا ہیں اور اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ یہ جو آپ نے فرمایا یہ مومنوں کے لئے فرمایا اور ان معمولی بدیوں کے بارے میں فرمایا کہ پھر اپنی کمزوریاں دور کرنے کی توفیق ملے گی۔ پس رمضان میں بھی انسان کوشش کرتا ہے کہ اپنی کمزوریاں دور کرے، بدیوں کو دور کرے، تو اس لئے بھی اس کوشش میں بڑھنا چاہئے اور پھر اس کو جاری بھی رکھنا چاہئے۔ آپؐ کا یہ فرمانا اُن لوگوں کے لئے ہے جو توبہ کی طرف توجہ کریں اور پھر توجہ کر کے نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ موت تو مقدر ہے لیکن اُس وقت آئے جب اے اللہ! تو راضی ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا صحیح استعمال نہ کرنا بھی گستاخی ہے۔ اور ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال جو ہے وہ اب عبادت میں ہے۔ یا کہہ سکتے ہیں کہ ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال جو ہے وہ بھی عبادت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو اعضاء دئیے ہیں، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ ان سے نیکی کے کام کرنا بھی عبادت بن جاتا ہے۔ کانوں سے نیکی کی باتیں سننا اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بناتا ہے۔ لیکن لوگوں کی غیبتیں اور چغلیاں سننا گناہ ہے۔ لیکن اگر کوئی اپنے کان اس لئے بند کرلے اور مستقل بند رکھے کہ میں برائی کی باتیں نہ سنوں تو یہ بھی اُن کا صحیح استعمال نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی گستاخی بن جاتی ہے۔ اسی طرح آنکھ ہے، زبان ہے، ہاتھ ہیں اور باقی اعضاء ہیں اُن کے استعمال کا بھی یہی حال ہے۔
آجکل ہم رمضان سے گزر رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ سحری کھاؤ اور افطاری کرو۔ آپ نے اپنے عمل سے ہمیں یہ کر کے دکھایا کہ اگر کوئی سوائے مجبوری کے اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر نہیں چلتا تو یہ بھی گستاخی اور گناہ ہے۔ بعض مجبوریاں ہو جاتی ہیں جب آدمی کو فوری طور پر افطاری بھی نہیں ملتی یا سحری نہیں کھائی جا سکتی۔ اور اگر پھر کوئی صحت کے باوجود روزہ نہیں رکھتا تو یہ بھی گستاخی اور گناہ ہے۔ گویا خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا جو کسی بھی صورت میں مہیا ہیں، خدا تعالیٰ کے حکم سے فائدہ اُٹھانا اور جائز طریق سے فائدہ اُٹھانا نیکی بن جاتی ہے اور اُن کا ناجائز استعمال یا بے وقت استعمال گناہ ہے۔ اور یہی آپؐ نے ہمیں اپنے عمل سے کر کے دکھایا۔
آپؐ کا تحمل بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ شراب کی حرمت سے پہلے ایک صحابی نے نشہ میں آپ کو بہت کچھ کہہ دیا۔ آپ خاموشی سے سنتے رہے۔ اُسے کچھ نہیں کہا۔ (ماخوذ از صحیح البخاری کتاب المساقاۃ باب بیع الحطب والکلأ حدیث2375)
جب آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے بادشاہت بھی عطا فرما دی۔ مدینہ آ گئے، حکومت بھی قائم ہو گئی تو اس وقت بھی اس تحمل کی اعلیٰ مثالیں ہمیں ملتی ہیں۔ دنیا میں تو ہم دیکھتے ہیں کہ کسی کے پاس چار پیسے آ جائیں یا تھوڑا سا عہدہ مل جائے تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتا۔ طبیعت کے خلاف کوئی بات ہو جائے تو ناک منہ چڑھانے لگ جاتا ہے۔ لیکن آپ کا رویہ کیا ہوتا تھا؟ ایک مرتبہ ایک یہودی آیا اور آ کر آپؐ سے بحث شروع کر دی اور دورانِ بحث بار بار اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ کر بات کرتا تھا۔ وہ تو صرف اے محمد ہی کہتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب آپؐ نہ صرف مدینہ کے حاکم تھے بلکہ ارد گرد اور دور تک آپ کی بادشاہت اور حکومت پھیل چکی تھی۔ صحابہ کو یہودی کا یہ طرزِ گفتگو پسندنہیں آیا کیونکہ صحابہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ’یا رسول اللہ‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ اور جو غیرمسلم تھے وہ آپ کو آپ کی کنیت ابوالقاسم سے پکارتے تھے۔ تو یہودی کے اس طرح بار بار ’’اے محمد‘‘ کہنے پر صحابہ نے اُسے غصہ سے ٹوکا کہ اگر رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو آپ کی کنیت سے پکارو اور ابوالقاسم کہو۔ یہودی نے کہا کہ مَیں تو اسی نام سے بلاؤں گا جو آپ کے ماں باپ نے آپ کا رکھا ہے۔ اس پر آپؐ مسکرائے اور فرمایا یہ ٹھیک کہتا ہے میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے۔ اسی طرح اس کو مخاطب کرنے دو اور غصہ نہ کرو۔ (ماخوذ ازصحیح مسلم کتاب الحیض باب بیان صفۃ منی الرجل و المرأۃ…حدیث 716)
بعض دفعہ ایسا ہوتا کہ لوگ آپ کا ہاتھ پکڑ کر کھڑے ہو جاتے۔ بسااوقات آپ کے ضروری کاموں میں روک پیدا ہو رہی ہوتی، آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہوتا لیکن بڑے صبر اور تحمل سے آپؐ اُن کی باتیں سنتے اور اُن کی حاجتیں پوری فرماتے۔ (صحیح مسلم کتاب الفضائل باب قرب النبیﷺ من الناس… حدیث 6044)
انصاف کے معیار کا یہ حال تھا کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو یہ نہیں دیکھنا کہ امیر ہے یا غریب ہے یا اعلیٰ خاندان کا ہے یا عام آدمی ہے۔ جب ایک امیر عورت نے کسی دوسرے کے مال کو ہتھیانے کی کوشش کی اور اُس پر قبضہ کیا تو اُس کو سزا ہوئی۔ تو ان کے جو قبائل تھے اُن میں سے بعضوں میں، خاص طور پر اُن لوگوں میں جو اس کے قریبی تھے، اس سے بڑی بے چینی پیدا ہو گئی کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے، اس کو کیوں سزا ہوئی ہے؟ آپؐ کی خدمت میں اُسامہؓ کو سفارش کے لئے بھیجا گیا کہ اس کی سزا معاف کر دیں۔ آپ نے یہ سنا تو غصہ کا اظہار فرمایا۔ حالانکہ آپ وہ ہستی تھے جو سراپا شفقت اور عفو سے کام لینے والے تھے، خوش اخلاقی سے بات کرنے والے تھے اور آپؐ کو کبھی غصہ نہیں آتا تھا لیکن اس موقع پرآپؐ کو غصہ آیا کہ میرے پاس خدائی حکم کے مخالف سفارش کرنے آئے ہو۔ فرمایا پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں۔ اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا۔ خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی جرم کرتی تو مَیں اُسے سزا دئے بغیر نہ چھوڑتا۔ (صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب 52/54 حدیث 3475)
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ انصاف مسلمانوں میں مفقود ہے اور یہی ان کے زوال کا سبب بن رہا ہے۔ پس ہمیں بھی بہت زیادہ اس بارے میں احتیاط کرنی چاہئے۔ ہمارے عہدیداروں کو بھی انصاف کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں اور ایسے معیار قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے کیونکہ یہ بہت خطرناک چیز ہے جو زوال کا باعث بنتی ہے۔
پھر دشمن سے انصاف کا قرآنی حکم ہے۔ تو اس کا کیا نمونہ دکھایا؟ اس کی بھی ایک مثال دیتا ہوں۔ آپؐ نے صحابہ کو مکّہ کی طرف کسی جگہ خبر رسانی کے لئے بھجوایا۔ جب یہ حرم کی حدود میں پہنچے تو وہاں ان کو کچھ آدمی مل گئے جو ان کو جانتے تھے یا ان کو شک ہوا کہ یہ لوگ مکّہ والوں کو جا کر خبر کر دیں گے۔ چنانچہ اس بنا پر اُن صحابہ نے اُن پر حملہ کر دیا اور اُن میں سے ایک کو قتل کر دیا۔ جب یہ صحابہ مدینہ واپس پہنچے تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آ گیا کہ اس طرح حرم کی حدود میں انہوں نے قتل کیا ہے۔ اُن کو جواب دیا جا سکتا تھا کہ تم نے جو مسلمانوں پر اتنے ظلم کئے ہیں اور حرم کی حدود میں بھی جرم کئے ہیں وہ بھول گئے ہو؟ لیکن آپؐ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے، شاید ان لوگوں نے ان صحابہ کا اس وجہ سے مقابلہ نہ کیا ہوکہ حرم میں پناہ لے لیں گے اور ان کی جان محفوظ ہو جائے گی۔ ہمارے آدمیوں سے زیادتی ہوئی ہے۔ اور آپؐ نے ان کو فرمایا کہ ٹھیک ہے تمہیں اس کا خون بہا دیا جائے گا۔ چنانچہ عرب کے رواج کے مطابق اُن کا خون بہا ادا کیا گیا۔ (ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد3صفحہ 217تا 221باب سرایاہﷺ و بعوثہ، سریۃ عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ…دارالکتب العلمیہ بیروت 2002ء)
پس یہ وہ انصاف کے معیار تھے جو مُنصفِ اعظم نے ہر جگہ قائم فرمائے۔
دوسروں کے جذبات کے احترام کی بھی انتہا دیکھیں۔ ایک یہودی آپ کے پاس شکایت کرتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرا دل دکھایا ہے اور کہا ہے کہ میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت موسیٰ سے افضل بنایا ہے۔ اس بات کو سن کر یہودی نے کہا مجھے تکلیف پہنچی ہے۔ اب یہ حقیقت بھی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ قرآنِ کریم اس کی گواہی دیتا ہے۔ لیکن آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو بلا کر جب پوچھا اور انہوں نے بتایا کہ ابتدا اس شخص نے کی تھی اور کہا تھا کہ مَیں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے تمام دنیاپر فضیلت دی ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ پھر بھی ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے۔ (ماخوذ ازشرح العلامۃ الزرقانی علیٰ المواھب اللدنیۃجزئ8صفحہ287-288النوع الأول فی ذکرآیات…مطبوعہ دارالکتب العلمیۃبیروت1996ء)
پس یہ تھا دوسروں کے جذبات کا احترام۔
بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والوں کا کس طرح آپ احترام فرماتے تھے، روایات میں آتا ہے جب طئی قبیلے کے لوگوں نے مسلمانوں سے لڑائی کی اور ان میں سے کچھ لوگ گرفتار ہوئے تو اُن میں حاتم جو مشہور سخی عرب گزرا ہے اُس کی بیٹی بھی تھی۔ آپ کو جب علم ہوا تو اس سے حسنِ معاملہ کیا اور اس کی سفارش پر اُس کی قوم کی سزاؤں کو بھی معاف کر دیا۔
پس یہ تھا محسنِ انسانیت کا انسانیت کی خدمت کرنے والوں کے ساتھ عزت و احترام کا سلوک۔
آپ نے عورتوں کی عزت و احترام کس طرح قائم فرمائی؟ عرب اپنے رواج کے مطابق عورتوں کو مار پیٹ دیا کرتے تھے، آپؐ کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا۔ عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں، تمہاری لونڈیاں نہیں۔ (سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی الضرب النساء حدیث 2145)
ایک صحابی نے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بیویوں کے ہم پر کیا حق ہیں؟ تو آپؐ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے اُسے کھلاؤ اور جو تمہیں پہننے کے لئے دے، اُسے پہناؤ۔ اور اُس کو تھپڑ نہ مارو اور اُسے گالیاں نہ دو اور اُسے گھر سے نہ نکالو۔ (ماخوذ از سنن ابی داؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجہا حدیث2142)
آجکل بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں بعض شکایتیں آتی ہیں، ایسے لوگوں کو غور کرنا چاہئے۔ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے ہیں۔ دوسری طرف ان حکموں کی خلاف ورزی بھی کر رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک میں سب سے بہتر ہے۔ اور مَیں تم سب سے بڑھ کر یہ حسنِ سلوک کرنے والا ہوں۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النبیؐ حدیث 3895)
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا ہے کہ آپ حکومتی اور تربیتی مصروفیات کی وجہ سے انتہائی معمور الاوقات تھے۔ عبادات کی مصروفیت تھی لیکن اس کے باوجود گھر کے کام کاج اور ذمہ داریوں کو باحسن انجام فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ جتنا وقت آپ گھر میں ہوتے، گھر والوں کی مدد اور خدمت میں مصروف رہتے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب من کان فی حاجۃ اھلہ حدیث 676)
آپ کی دوسری ذمہ داریاں گھریلو کاموں میں حارج نہیں ہوتی تھیں۔ کپڑوں کو پیوندلگا لیتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ313 مسند عائشۃؓ حدیث 25855)
بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے۔ (مسند احمد بن حنبل جلد 8صفحہ797 مسند ابوبصرۃ الغفاریؓ حدیث 27768)
اگر دیر سے گھر تشریف لاتے تو کھانا یا دودھ خود ہی تناول فرما لیتے تھے اور گھر والوں کو نہیں جگاتے تھے۔ (صحیح مسلم کتاب الاشربۃ باب اکرام الضیف و فضل ایثارہ حدیث 5362)
پس یہ اُن لوگوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم گھر کا کام کر لیں گے تو گناہ ہو جائے گا۔ اگر لیٹ گھر آئے ہیں تو بیوی کا فرض ہے کہ ضرور اُٹھ کے ہمیں کھانا گرم کر کے دے۔ اگر نہیں کریں گے تو گھر والوں پر ہمارا رعب جاتا رہے گا۔ جب تک ایسے لوگ بیویوں پر چیخم دھاڑ نہ کر لیں اُن کو چین نہیں آتا۔
بعض لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں شکایات آتی ہیں کہ باہرجماعتی کام بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا باہر تو بڑا اچھا سلوک ہوتا ہے لیکن گھروں میں بیویوں پر ایسی سختیاں ہیں کہ جن کا سُن کے بھی انسان حیران رہ جاتا ہے کہ یہ انسان باہر کیا ہے اور اندر کیا ہے؟ یہ دو عملی ہے۔ پھر بعض مردوں کو اُن کے قریبی، بہنیں ہیں، مائیں ہیں، خراب کرنے والی ہوتی ہیں۔ اگر کسی مہمان کے لئے کوئی مرد چائے بنا کر لے آیا ہے تو کہا جاتا ہے کہ بیوی کا غلام ہو گیا یا یہ کیا ہو گیا؟ اس کی بیوی کیسی ہے کہ ہمارے بھائی سے یا بیٹے سے کام کروا رہی ہے۔ ’بیچارہ بھائی‘، ’بیچارہ بیٹا‘ گھر کے کام کر رہا ہے اور یوں خاوندوں کا، لڑکوں کا دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ ایسے لوگ پھر بیویوں پر سختیاں شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ یہ کام کر کے ’بیچارے‘ نہیں ہیں۔ یہ تو اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس پر عمل کر کے وہ ثواب کما رہے ہیں، اپنی عاقبت سنوار رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’بیچارے‘ تو یہ اُس وقت ہوں گے جب بیویوں پر ظلم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ جب اُن سے پوچھا جائے گا کہ کیا یہ اعلیٰ اخلاق تم نے ایمان کا دعویٰ کر کے اپنائے ہیں؟ یہ اظہار کیا ہے تم نے؟ ایک طرف یہ دعویٰ اور ایک طرف یہ اظہار؟پس ایسے مردوں کو بھی اپنی فکر کرنی چاہئے۔
آپؐ کا بچوں سے محبت اور شفقت کا کیا نمونہ ہے؟ اس بارہ میں ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ اپنے بچوں اور ساتھ رہنے والے بچوں کے لئے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تُوبھی ان سے محبت کر۔ (صحیح البخاری کتاب فضائل اصحاب النبیؐ باب ذکر اسامۃ بن زید حدیث 3735)
بچوں کو کبھی سزا نہیں دی، ہمیشہ محبت اور دعا کے ذریعہ سے تربیت کی۔ حضرت ابوہریرۃؓ روایت کرتے ہیں کہ جب بھی کوئی پہلا پھل آتا تو پھلوں میں برکت کی دعا کرتے اور پھر پہلے وہ پھل مجلس میں موجود سب سے چھوٹے بچے کو عنایت فرماتے۔ (صحیح مسلم کتاب الحج باب فضل المدینۃ و دعاء النبیؐ …حدیث 3334)
بچوں سے کھیلنے کا ذکر بھی روایات میں ملتا ہے۔ اکثر ماں باپ اپنے بچوں سے تو پیار کرتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہیں جو بچوں کو بلا وجہ سزا دیتے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی مجھے ایک نوجوان ملا جس نے کہا کہ مَیں ہر وقت خوفزدہ رہتا ہوں اور ڈپریشن کا مریض ہوں، (وہ نفسیاتی مریض بن گیا تھا۔ ) اس لئے کہ میرا باپ مجھے ہر وقت مارتا رہتا تھا۔ اور جب اُسے کسی نے پوچھا کہ کیوں بعض دفعہ بلا وجہ مارتے ہو تو کہتا ہے کہ بچوں پر رعب ڈالنے کے لئے ضروری ہے۔ تو یہ بھی بعض والدین کا حال ہے۔ ایسے بھی ظالم باپ ہوتے ہیں۔ بلکہ یہاں تو ہم دیکھتے ہیں کہ آجکل خبروں میں کچھ زیادہ ہی ایسے واقعات آنے لگ گئے ہیں کہ ایسے ماں باپ بھی ہیں جو اپنی ذاتی عیاشیوں کے لئے اپنے بچوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تو پیار کر لیتے ہیں لیکن دوسروں کے بچے اُن کو برداشت نہیں ہوتے، اُن کو پیار نہیں کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہر بچہ کے ساتھ پیار اور شفقت کا تھا۔
ہمسایوں سے حسنِ سلوک کا اگر قرآنِ کریم میں حکم ہے تو اس کے بھی اعلیٰ نمونے آپ نے قائم فرمائے اور بار بار اپنے ماننے والوں کو اس کی نصیحت فرمائی ہے۔ ایک دفعہ آپ تشریف فرما تھے۔ فرمایا خدا کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں، وہ ہرگز مومن نہیں ہے، وہ ہرگز مومن نہیں ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کون مومن نہیں ہے؟ فرمایا وہ جس کا ہمسایہ اُس کے ضرر اور بدسلوکی سے محفوظ نہیں ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب اثم من لا یأمن جارہ بوائقہ حدیث 6016)
پس یہ چند باتوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے۔ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک ہو یا تعاونِ باہمی کا معاملہ ہویا چشم پوشی کا معاملہ ہو یا تجسس سے بچنے کا معاملہ ہو۔ نیک ظنی کا معاملہ ہو یا کسی بھی اعلیٰ اخلاق کا، آپؐ کے نمونے اور آپ کی نصائح ہمیں ہر جگہ ملتی ہیں۔ پس یہ عبدِ کامل تھا جس نے ہر معاملہ میں کامل نمونہ دکھا کر ایک انقلاب اُس زمانے کے جاہل لوگوں میں پیدا کر دیا اور اُنہیں باخدا انسان بنا دیا۔ پس آج بھی اگر ہم نے ان برکات سے فائدہ اُٹھانا ہے جو آپ کی امت میں آنے سے وابستہ ہیں اور عبد بننے کا حق ادا کرنا ہے تو اپنے آپ کو اس اسوہ پر چلانا ہو گا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن کر ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔ اس لئے آج بھی اور رمضان کے جو بقیہ دو تین دن ہیں اُن میں بھی دعائیں کریں کہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے اور زندگی بھر دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی مومن بنائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر ہم چلنے والے ہوں۔ آخر میں مَیں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات رکھتا ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’خداوند تعالیٰ مسلمانوں کو حکم کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے پر چلیں اور آپ کے ہر قول اور فعل کی پیروی کریں۔ چنانچہ فرماتا ہے لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 22)۔ پھر فرماتا ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال عیب سے خالی نہ تھے تو کیوں ہم پر واجب کیا کہ ہم آپؐ کے نمونے پر چلیں‘‘۔ (ریویو آف ریلیجنزجلد2نمبر6صفحہ245-246 بابت ماہ جون 1903ء)
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرزِ عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بناوے۔ چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا ہے قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32)۔ یعنی محبوبِ الٰہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جاوے۔ سچی اتباع آپؐ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ 62۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
فرمایا: ’’نجات اپنی کوشش سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوا کرتی ہے۔ اس فضل کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے جو اپنا قانون ٹھہرایا ہوا ہے وہ اُسے کبھی باطل نہیں کرتا۔ وہ قانون یہ ہے اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ (آل عمران: 32) اور وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ(آل عمران: 86)‘‘۔ (ملفوظات جلد2صفحہ 518۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)
یعنی پہلے یہ اعلان کروایا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت چاہتے ہو تو میری پیروی کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا۔ اور دوسری آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی اسلام کے سوا کسی دین کو اختیار کرنا چاہتا ہے پس وہ کبھی اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسلام ہی ایک دین ہے جس پر چلنا چاہئے۔ اور اسلام کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول و فعل۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ رمضان ہمیں اس بات کا صحیح ادراک دلا کر رخصت ہو اور آئندہ آنے والے رمضان تک ہم اس اُسوہ پر چلتے ہوئے نئی منزلیں طے کرنے والے بن جائیں۔
خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنا ایک انسان کو حقیقی عبدیت کے زمرہ میں شامل کرتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے بیشمار احکام اتارے ہیں جن پر چلنے کی انسان کو کوشش کرنی چاہئے۔
ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں سے بنایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن تمام احکامات کا جو قرآنِ کریم کی صورت میں آپ پر اترے ہیں ایک عملی نمونہ بنا دیا، ایک ایسا عملی نمونہ جو کامل تھا، جس نے آپ کو عبدِ کامل بنا دیا۔
لیکن آپ کی اُمّت میں سے ہونے اور مسلمان ہونے کے فیض ہم تبھی اُٹھا سکتے ہیں جب ہم آپؐ کے نقشِ قدم پر چلنے کی کوشش کریں۔ جب ہم اُن احکامات کو اپنے اوپر لاگو کرتے ہوئے اس طرح بجا لانے کی کوشش کریں جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کر کے دکھایا۔
یہ عبدِ کامل تھا جس نے ہر معاملہ میں کامل نمونہ دکھا کر ایک انقلاب اُس زمانے کے جاہل لوگوں میں پیدا کر دیا اور اُنہیں باخدا انسان بنا دیا۔ پس آج بھی اگر ہم نے ان برکات سے فائدہ اُٹھانا ہے جو آپ کی اُمّت میں آنے سے وابستہ ہیں اور عبد بننے کا حق ادا کرنا ہے تو اپنے آپ کو اس اسوہ پر چلانا ہو گا تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بن کر ہم اپنی دنیا و عاقبت سنوار سکیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے مختلف مثالوں کا تذکرہ اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو نہایت اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ 17؍اگست 2012ء بمطابق 17؍ظہور 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔