حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کی مہمان نوازی

خطبہ جمعہ 31؍ اگست 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے جلسہ سالانہ کی آمد آمد ہے اور انشاء اللہ اگلے جمعہ سے جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے، انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف شعبہ جات کے کارکنان حسبِ سابق بڑا وقت دے رہے ہیں اور جلسہ سالانہ کی تیاری کے لئے بڑی محنت اور قربانی کر رہے ہیں۔ یہاں آنے والے، جلسہ میں شامل ہونے والے غیر از جماعت مہمان جو اکثر آتے ہیں اور ہر سال آتے ہیں وہ حیران ہوتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا شہر ہی عارضی طور پر آباد کر دیا جاتا ہے جس میں تمام سہولتیں موجود ہوتی ہیں اور یہ کام صرف دس پندرہ دن میں ہو جاتا ہے۔ بعض غیر سمجھتے ہیں کہ شاید بعض کاموں کی پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والوں سے یہ کام لیا جاتا ہے اور وہ یہ کام کرتے ہیں اور شاید اس پر کثیر رقم خرچ ہوتی ہو گی۔ لیکن جب اُنہیں یہ بتاؤ کہ یہ سب کچھ احمدی والنٹیئرز کرتے ہیں اور ایسے لوگ کرتے ہیں جن کا اپنی عملی زندگی میں ان کاموں سے کوئی تعلق نہیں تو یہ بات جیسا کہ میں نے کہا، اُن کے لئے بہت بڑی حیرانی کا باعث بنتی ہے۔ بیشک کچھ خرچ کر کے کچھ کام جو ہے غیروں سے بھی کروایا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستّر پچہتّر فیصد کام اُن کارکنوں کے ذریعہ انجام پاتا ہے جن میں بڑی عمر کے مرد بھی ہیں، نوجوان بھی ہیں، بچے بھی ہیں، عورتیں بھی ہیں۔ اور پھر جلسہ کے دنوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی کارکن پورے نظام کو، یہ جو جلسہ کا نظام ہے، اُسے سنبھالتے ہیں اور ایک جوش اور جذبہ کے تحت سنبھالتے ہیں، ان کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ وہ اس لئے سنبھالتے ہیں اور ہر قسم کا کام بغیر کسی عار کے کر لیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی جائے۔ پس یہ اُن لوگوں کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے جو یہ سب کام کرتے ہیں اور سالہا سال سے کرتے چلے جا رہے ہیں اور احسن رنگ میں کرتے ہیں۔ حسبِ روایت جلسہ سے ایک ہفتہ پہلے میں کیونکہ کارکنان کو اُن کے کام کی اہمیت اور مہمان نوازی کی اہمیت کے بارے میں بتاتا ہوں، اس طرف توجہ دلاتا ہوں، اس لئے آج اس بارے میں کچھ کہوں گا۔ اس لئے کہ یاد دہانی سے مزید توجہ پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ بعض واقعات اور نصیحت نیا جوش اور جذبہ بھی پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ خصوصیت بھی اِس وقت صرف یوکے کے جلسہ سالانہ میں کام کرنے والے کارکنان کو حاصل ہے کہ مہمانوں کی خدمت کرنے والوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کی اہمیت کے بارے میں خاص طور پر کچھ کہا جاتا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ یوکے میں کام کرنے والے کارکنان کے جوش و جذبے میں کوئی کمی ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے کارکنان زیادہ جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں۔ نہیں، بلکہ اس لئے کہ یوکے کے جلسہ کی اہمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے جلسہ سالانہ کی اہمیت سے اس وقت زیادہ ہے۔ یعنی فی الحال گزشتہ ستائیس اٹھائیس سال سے یہ اہمیت زیادہ ہے کیونکہ یہ جلسہ اب عالمی جلسہ کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک کے جلسہ سالانہ میں خلیفۂ وقت کی شمولیت ضروری نہیں ہوتی لیکن جب سے پاکستان میں جلسوں پر پابندی لگائی گئی ہے، اس وجہ سے یہاں جلسے منعقد ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جلسہ پر پابندی کی وجہ سے احمدیوں پر، پاکستانی احمدیوں پر زمین تنگ کی جانے کی وجہ سے، خلیفۂ وقت کے یہاں آنے اور یوکے کو فی الحال یا لندن میں فی الحال مرکز بنانے کی وجہ سے، جیسا کہ میں نے کہا، گزشتہ تقریباً اٹھائیس سال سے خلیفۂ وقت کی جلسہ سالانہ میں یہ شمولیت ایک لازمی حصہ بن چکی ہے۔ اور اسی وجہ سے دنیا کے کونے کونے سے جلسہ میں شمولیت کے لئے احمدی بھی اور غیر از جماعت بھی مہمان آتے ہیں۔ دنیا کے احمدیوں کے نزدیک اور ہمارے غیر از جماعت مہمانوں کے نزدیک یوکے کا جلسہ سالانہ اب صرف یوکے کا جلسہ سالانہ نہیں رہا بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا مرکزی جلسہ سالانہ ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ خلیفۂ وقت کی یہاں رہائش ہے۔

پس اس لحاظ سے یہاں کے انتظامات کی وسعت بھی زیادہ ہو چکی ہے اور یہاں آنے والے مہمانوں کی توقعات بھی کچھ زیادہ ہوتی ہیں اور اس وجہ سے مجھے بھی اور یہاں کی انتظامیہ کو بھی زیادہ فکر ہوتی ہے کہ مہمانوں کی صحیح طرح مہمان نوازی کی جا سکے۔ جلسہ کے انتظامات ہر لحاظ سے صحیح ہوں اور اس کے لئے کوشش بھی ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انتظامات میں جس حد تک بہتری کی جا سکتی ہے، کی جائے۔ اسی وجہ سے بعض دفعہ اخراجات بھی زیادہ ہو جاتے ہیں اور یوکے جماعت کا بجٹ اس کا متحمل نہیں ہوتا یا نہیں ہو سکتا۔ گو کہ اکثر حصہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کا یوکے جماعت ہی برداشت کرتی ہے لیکن بہر حال مرکز کو بھی اخراجات میں تیس پینتیس فیصد حصہ یا بعض دفعہ زیادہ ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ اخراجات کچھ مرکز کو بھی برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ مَیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض طبائع بعض دفعہ یہ اظہار کر دیتی ہیں کہ یوکے جماعت پر مرکز بہت بوجھ ڈال دیتا ہے۔ گو کہ یہاں کی جماعت کی اکثریت قربانی کرنے والوں کی ہے اور جلسہ کی برکات کی وجہ سے یہی چاہتی ہے یا چاہے گی اور مَیں امید رکھتا ہوں یہی چاہتے ہوں گے کہ وہی سب خرچ برداشت کریں لیکن چند بے چینیاں پیدا کرنے والے بے چینی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور پھر جیسا کہ مَیں نے کہا کیونکہ مرکزی جلسہ کی حیثیت ہے اس لئے مرکز بھی اپنا فرض سمجھتاہے کہ کچھ حصہ اس میں ڈالا جائے۔

بہرحال مَیں یہ ذکر کر رہا تھا کہ یوکے کا جلسہ سالانہ دنیا کی نظر میں ایک مرکزی جلسہ ہے اس لئے یہاں کے کارکنوں اور انتظامیہ کی ذمہ داری بھی بہت بڑھ جاتی ہے اور مجھے بھی اس کی فکر ہوتی ہے۔ اس لئے جلسہ سے پہلے اس طرف توجہ دلائی جاتی ہے کہ کارکنان ہمیشہ یاد رکھیں کہ تمام دنیا کے احمدیوں کی نظر اور اس حوالے سے اُن احمدیوں سے تعلق رکھنے والوں کی نظر، یعنی غیر از جماعت کی نظر بھی جو مختلف ممالک سے بطور مہمان آئے ہوتے ہیں، بعض سرکردہ لیڈر اور معززین ہوتے ہیں، اُن کی نظر جلسہ کے انتظامات اور کارکنان پر ہوتی ہے۔ اس لئے کارکنان کے رویے، اُن کے کام کے طریق، اُن کے اخلاق، اُن کی مہمان نوازی کے معیار انسانی استعدادوں کے مطابق بہتر سے بہتر ہونے چاہئیں جس کے لئے ہر کارکن کو، مرد کو، عورت کو، بچے کو جو مختلف ڈیوٹیوں پر مقرر کئے گئے ہیں، اپنی بھر پور کوشش کرنی چاہئے اور ہمیشہ جلسہ کے بعد جس طرح خاص طور پر باہر سے آنے والے غیر مہمان یہاں کے کارکنان کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے رہے ہیں۔ اس سال بھی اور ہمیشہ یہی کوشش ہونی چاہئے کہ یہ معیار کبھی گرنے نہ پائیں بلکہ ہر سال معیار بلند ہونا چاہئے۔ مومن کا قدم پیچھے نہیں ہٹتا بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ ہمیشہ ترقی کی طرف جانا چاہئے۔

مہمان نوازی کوئی معمولی وصف یا عمل نہیں ہے بلکہ ایسی نیکی ہے جس کا قرآنِ کریم میں بھی ذکر ہے اور مومنوں کو یہ حکم ہے کہ نیکیوں میں آگے بڑھو۔ ایک مہمان نوازی ہوتی ہے جو عام دنیا دار بھی کرتے ہیں۔ ہر اچھے اخلاق والا ایسی مہمان نوازی کر رہا ہوتا ہے۔ اُس کی بھی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اللہ کی مخلوق کی خدمت کی وجہ سے یقینا ایسا شخص ثواب کا بھی مستحق ہوتا ہو گا۔ لیکن جب ایک عمل خالصتاً للہ کیا جائے، اپنے ذاتی مہمان نہ ہوں، کوئی عزیز رشتہ دار نہ ہوں، کوئی دنیاوی غرض نہ ہو بلکہ بے نفس ہو کر خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مہمان نوازی ہو تو پھر یقینا ایسی مہمان نوازی اللہ تعالیٰ کے ہاں دوہرا اجر پانے والی ہوتی ہے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بھی مہمان نوازی کی طرف توجہ دلائی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ بھی بیان ہوا ہے۔ اُن کی مہمان نوازی کی خصوصیت کوبھی اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر بیان فرمایا ہے کہ مہمان کے آتے ہی پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ یہ تھا کہ جو بھی وہاں کا انتظام تھا اُس کے مطابق ایک پُر تکلف کھانا اُن کے سامنے چُن دیا گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب پہلی وحی ہوئی اور آپ کو اس سے خوف پیدا ہوا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کی بات سن کر فوری طور پر اور بے ساختہ آپ کی جن خوبیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ایسی خوبیوں والے کو خدا تعالیٰ کس طرح ضائع کر سکتا ہے یا اُس سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہے، اُن میں سے ایک اعلیٰ وصف اور خوبی حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہمان نوازی بتائی تھی۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی الیٰ رسول اللہؐ حدیث 3)

پس مہمان نوازی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ انبیاء کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو خاص طور پر جو کام دئیے گئے ہیں اُن میں سے ایک اہم کام مہمان نوازی کا بھی ہے۔ فرمایا تھا مہمان آئیں گے تو نہ پریشان ہونا ہے، نہ تھکنا ہے۔ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ535 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

پس جماعت بھی من حیث الجماعت اور جماعت کا ہر فرد بھی اس اہم فریضہ کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مہمان کی کس طرح عزت افزائی فرمایا کرتے تھے، کس طرح اُس کا خیال رکھا کرتے تھے؟ اس کا اظہار ایک واقعہ سے ہی بخوبی ہو سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ بیمار تھے، طبیعت بہت ناساز تھی۔ آپ کومہمان کے آنے کی خبر ہوئی تو فوری طور پر باہر تشریف لے آئے اور فرمایا کہ آج میں باہر آنے کے قابل نہ تھا لیکن مہمان کا کیونکہ حق ہوتا ہے، وہ تکلیف اُٹھا کر آتا ہے اس لئے میں اس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد پنجم صفحہ 163۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

وہ مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو تے تھے، آپ کی صحبت سے فیض پانے کے لئے حاضر ہوتے تھے اور آپ کے حکم سے آتے تھے کیونکہ آپ بار بار تلقین فرمایا کرتے تھے کہ میرے پاس آؤ۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 479-480۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

آج جو ہمارے مہمان آ رہے ہیں یا آئیں گے وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم سے آپ کے قائم کردہ تربیتی نظام سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہی آ رہے ہیں اور آئیں گے۔ اُس جلسہ میں شمولیت کے لئے آ رہے ہیں جس کا اجراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اور احبابِ جماعت کو جو وسائل رکھتے ہیں، اس میں شامل ہونے کی نصیحت فرمائی۔ پس یہ آنے والے مہمان اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمان ہیں اور ہمارے لئے یہ اعزاز ہے، ہر کارکن کے لئے یہ اعزاز ہے کہ ان مہمانوں کی بھر پور خدمت کریں، اُنہیں کسی قسم کی تکلیف نہ ہونے دیں۔ جن توقعات کو لے کر وہ یہاں آتے ہیں اُنہیں پورا کرنے کی کوشش کریں۔ جلسہ پر آنے والے مہمان تو عموماً آتے ہی جلسہ کے لئے ہیں اور چند دن کے لئے اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ آجکل جیسا کہ مَیں نے کہا مرکزی جلسہ ہونے کی حیثیت سے دنیا کے کونے کونے سے آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے مہمان کا اُس کو جائز حق دو اور آپؐ نے فرمایا کہ یہ جائز حق تین دن کی مہمان نوازی ہے یا چند دنوں کی مہمان نوازی ہے۔ (ماخوذ از صحیح بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف و خدمتہ ایاہ بنفسہ حدیث: 6135)

لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان نوازی کے اپنے معیار کیا تھے؟ چند دن کی مہمان نوازی نہیں تھی بلکہ مستقل مہمان نوازی ہوتی تھی۔ روایات میں آتا ہے کہ وہ لوگ جو دین سیکھنے کی غرض سے ہر وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر پر پڑے رہتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لحاظ سے مستقل مہمان ہوتے تھے، اُن کی ضروریات کا کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خیال رکھا کرتے تھے اور آپؐ کس طرح اُن کی مہمان نوازی فرماتے تھے۔

مالک بن ابی عامر کی ایک لمبی روایت ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص طلحہ بن عبیداللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اے ابو محمد! تم اس یمانی شخص یعنی ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھتے کہ تم سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو جاننے والا ہے۔ ہمیں اس سے ایسی ایسی احادیث سننے کو ملتی ہیں جو ہم تم سے نہیں سنتے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ باتیں سنی ہیں جو ہم نے نہیں سنیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسکین تھے۔ ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان بن کر پڑے رہتے تھے۔ اُن کا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کے ساتھ ہوتا تھا۔ ہم لوگ کئی کئی گھر والے اور امیر لوگ تھے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دن میں کبھی صبح کو اور کبھی شام کو جایا کرتے تھے۔ (سنن الترمذی کتاب المناقب باب مناقب ابی ہریرۃ حدیث3837)

پس یہ لوگ تھے جنہوں نے دین کو دنیا پر اس طرح مقدم کر لیا کہ سب کچھ بھول گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مستقل مہمان بن گئے۔

اس مہمان نوازی کے بارے میں بھی روایات ملتی ہیں کہ ان کا کس طرح اور کیا حال ہوتا تھا۔ یہ نہیں کہ مہمانوں کی بھی کوئی ڈیمانڈ ہوتی تھی، بلکہ وہ تو پڑے ہوئے تھے۔ مہمان نوازی کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادا فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے، ان کے بارے میں ایک روایت ہے کہ ایک موقع پر کئی دن کے فاقے سے بھوک کی شدت سے بے تاب تھے۔ لمبی روایت ہے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ حالت دیکھی تو گھر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوہریرۃؓ ساتھ تھے۔ وہاں گھر میں گئے۔ ایک دودھ کا پیالہ کہیں سے تحفہ آیا ہوا تھا، تو آپؐ نے حضرت ابوہریرۃ کو فرمایا کہ جاؤ جتنے بھی اصحابِ صفہ بیٹھے ہیں اُن سب کو بلا لاؤ۔ ان کی بھوک سے بُری حالت تھی۔ کہتے ہیں مَیں گیا اور ایک دائرہ کی صورت میں سب بیٹھ گئے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا کہ دائیں طرف سے ان کو یہ دودھ پلانا شروع کرو۔ یہ خود بیان فرماتے ہیں کہ میری بھوک کی ایسی حالت تھی کہ مَیں سمجھتا تھا کہ سب سے زیادہ پہلا حق میرا ہے۔ اور جس طرح میں دودھ دیتا جاتا تھا، ہر اگلے شخص کو دودھ دیتے ہوئے میرے دل کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ اب یہ ختم ہو جائے گا اور میں بھوکا رہ جاؤں گا۔ اتنی بے چینی تھی بھوک کی۔ لیکن بہر حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیونکہ اس سے ایک دو گھونٹ لئے ہوئے تھے، برکت پڑی ہوئی تھی، دعا تھی، اس برکت سے اُن سب نے دودھ پی لیا۔ (صحیح بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبیﷺ و اصحابہ وتخلیہم عن الدنیا حدیث 6452)

تو یہ تھے مہمان اور اس طرح مہمان نوازی ہوتی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنا بھی خیال نہیں فرماتے تھے بلکہ ان لوگوں کا پہلے خیال فرمایا کرتے تھے۔ پس یہ وہ لوگ تھے جو دین کا علم سیکھنے کی خواہش کی وجہ سے اپنا سب کچھ قربان کر چکے تھے اور مستقل مہمان تھے۔ آج ہمارے پاس اس طرح کے مستقل مہمان تو نہیں ہیں ہمارے پاس لیکن دینی اغراض کے لئے، دین سیکھنے کے لئے آنے والے مہمان ہمارے سپرد ہوئے ہیں اس لئے ان کی بھر پور مہمان نوازی بھی ہمارا فرض ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ میں شمولیت کو بھی دینی غرض ہی بیان فرمایا ہے تا کہ دین سیکھ کر، دین حاصل کر کے یہ حقیقی مومن اور مسلمان بننے والے ہوں۔ (ماخوذ از آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 606)

پس یہ مہمان جو ہیں ان کی خدمت کرنا ہمارا فرض ہے اور اس لئے بھی فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور سنت پر عمل کرنے کا بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کا ہی حکم ہے۔ اس زمانے میں جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سپرد بھی یہ بڑا اہم کام کیا گیا ہے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کرو۔

پس اس لحاظ سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کاموں کی سر انجام دہی کے لئے، آپ کے ہر طرح سے مددگار بننے کے لئے ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ مہمان نوازی کا جو کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے اُس کو بھی احسن رنگ میں بجا لائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی مہمان نوازی کے بھی ایک دو واقعات پیش کرتا ہوں۔ بیشک پہلے سنے بھی ہوں لیکن ہر مرتبہ ان کو پڑھنے کے بعد یا سننے کے بعد کوئی نہ کوئی خوبصورت اور ایک نیا پہلو اُبھر کے سامنے آتا ہے۔ کارکنان کے لئے بعض واقعات میں سبق بھی ہوتا ہے۔

بعض دفعہ وقت کی قلّت کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کام کرنے والے کارکنان کو جلدی ہوتی ہے۔ خاص طور پر جب مہمان کھانا کھا رہے ہوں تو ان کے سامنے ایسا اظہار ہو جاتا ہے جو مہمان کو یا برا لگتا ہے یا اُس کے سامنے بہر حال مناسب نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ جلسہ کے پروگرام شروع ہونے کی وجہ سے بھی کارکن کو جلدی ہوتی ہے کہ جلسہ کا پروگرام شروع ہونے والا ہے اس لئے کھانے کی مارکی میں یا ڈائننگ کی مارکی میں جو کارکن ہیں وہ جلدی کر رہے ہوتے ہیں کہ مہمان جلدی کھانا کھائیں اور جائیں۔ تو جو واقعہ مَیں بیان کرنے لگا ہوں، اُس میں یہ کھانا کھلانے والے کارکنان کی مہمان نوازی کا جو اخلاق ہونا چاہئے، جو معیار ہونا چاہئے اُس کے بارے میں بیان ہوا ہے۔

حضرت میاں خیر دین صاحب سیکھوانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں اپنے گاؤں سیکھواں سے قادیان پہنچا۔ جب میں گول کمرے کے سامنے ہوا تو حضرت صاحب گول کمرے میں مع چند احباب کھانا تناول فرما رہے تھے۔ مَیں نے اندر جا کر سلام کیا تو حضور نے نہایت بشاشت کے ساتھ فرمایا۔ آئیے میاں خیر دین صاحب، آئیں کھانا کھائیں۔ مَیں اس وقت کھانا کھا چکا تھا۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور مَیں کھانا کھا چکا ہوں۔ فرمایا نہیں، کھانا کھاؤ۔ میں بیٹھ گیا۔ کھانا چونکہ ختم تھا، لوگ کھانا کھا چکے تھے خود بھی فارغ ہو چکے تھے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بھی فارغ ہو چکے تھے) لیکن میرے لئے حضور نے کوشش فرما کر روٹی سالن مہیا کر دیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ چھوٹی عمر کے تھے اور حضور کے ساتھ کھانے میں شامل تھے، اُن کا سالن والا برتن بھی میرے سامنے رکھ دیا۔ میں نے کھانا شروع کر دیا۔ ابھی چند لقمے کھائے تھے کہ میاں غلام محی الدین صاحب مرحوم جو حضرت خلیفہ اول کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے دستر خوان سے برتن سالن وغیرہ اُٹھانا شروع کر دیا اور کہتے ہیں کہ جلدی میں جو میرے آگے برتن تھا وہ بھی اُٹھا لیا۔ جب حضور کی اس پر نظر پڑی تو بڑے سخت الفاظ میں میاں غلام محی الدین صاحب کو تنبیہ کی کہ وہ بیچارہ پریشان ہو گیا کہ کیوں تم نے ان کے آگے سے یہ برتن اُٹھائے۔ کہتے ہیں مجھ میں بھی یہ طاقت نہیں تھی کہ میں کہوں کہ حضور کوئی بات نہیں، میرا پیٹ بھر چکا ہے، سیر ہو چکا ہوں۔ کہتے ہیں کہ برتن تو اُس غریب بیچارے نے میرے سامنے رکھ دیا اور پھر مَیں نے بھی کھانا شروع کر دیا۔ لیکن یہ بھی فرمایا کہ جب تک مَیں نہ کہوں، دستر خوان نہیں اُٹھانا۔ کہتے ہیں آخر مَیں نے چند لقمے کھائے اور کہا کہ دستر خوان اُٹھا لو۔ تب وہ اُٹھایا گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ) جلد 13صفحہ454-455روایات حضرت میاں خیر الدین صاحبؓ)

تو یہ ایک واقعہ ہے کہ مہمان اگر کھانا کھا رہا ہے تو اُس کو آرام سے کھانے دینا چاہئے۔ اگر نماز یا جلسہ کا وقت قریب ہے، کارکنوں کو بھی جلدی ہوتی ہے اور تربیتی شعبہ جو ہے وہ بھی کوشش کر رہا ہوتا ہے کہ جلدی جلدی اُن کو وہاں سے نکالا جائے تو کھانے میں پہلے ہی کافی وقت ملنا چاہئے۔ اگر کوئی لیٹ آ بھی گیا ہے تو پھر اُس کو تسلی سے کھانا کھانے دینا چاہئے۔ ہاں یہ بتا دیا جائے کہ نماز میں اتنا وقت رہ گیا ہے یا جلسہ شروع ہونے میں یہ وقت رہ گیا ہے۔ لیکن کسی کے پیچھے پڑ کر یہ نہ کرنا چاہئے کہ جلدی اُٹھو، جاؤ، ہم نے سامان سمیٹنا ہے اور پلیٹیں اُٹھا لی جائیں۔ اس سے مہمان نوازی کا حق ادا نہیں ہوتا۔

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی مہمان نوازی کے معیار کیا تھے؟ یہ تو ہم نے دیکھا، اپنے ماننے والوں سے کیا توقعات وابستہ تھیں جن کا ہمیں آج بھی خیال رکھنا چاہئے۔ اس کا اظہار آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔

فرمایا: ’’میرا ہمیشہ خیال رہتا ہے کہ کسی مہمان کو تکلیف نہ ہو، بلکہ اس کے لئے ہمیشہ تاکید کرتا رہتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جاوے، مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے اور ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس سے پیشتر مَیں نے یہ انتظام کیا ہوا تھا کہ خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ مگر جب سے بیماری نے ترقی کی اور پرہیزی کھانا کھانا پڑا تو پھر وہ التزام نہ رہا۔ ساتھ ہی مہمانوں کی کثرت اس قدر ہو گئی کہ جگہ کافی نہ ہوتی تھی۔ اس لئے بہ مجبوری علیحدگی ہوئی۔ ہماری طرف سے ہر ایک کو اجازت ہے کہ اپنی تکلیف کو پیش کر دیا کرے۔ بعض لوگ بیمار ہوتے ہیں، اُن کے واسطے الگ کھانے کا انتظام ہو سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ292۔ ایڈیشن 2003ء۔ مطبوعہ ربوہ)

اس ارشاد میں جن باتوں کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے، اُن میں سے دو اہم باتیں ہیں اور ہر کارکن کو ان باتوں کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ صرف کھانا کھلانے والے کارکن نہیں بلکہ ہر کارکن جس کا جلسہ کے انتظام کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلق ہے اس کے لئے اس میں نصیحت ہے۔

پہلی بات یہ فرمائی کہ جہاں تک ہو سکے مہمانوں کو آرام دیا جائے، مہمانوں کو آرام دینے کا معاملہ صرف کھانا کھلانے کی حد تک نہیں ہے۔ اس میں آنے والے مہمان کی رہائش کے بارے میں بھی ہدایت ہے۔ ٹریفک کنٹرول اور پارکنگ کے بہتر انتظام کی طرف بھی اشارہ ہے کیونکہ اس سے بھی مہمانوں کو بعض اوقات کوفت اُٹھانی پڑتی ہے اور بعض دفعہ اس طرح کی شکایات آتی رہتی ہیں کہ بڑی دور سے آنا پڑا۔ کاروں کی پارکنگ دور تھی، چل کر آنا پڑا یا وہاں سے جو بس سروس چلائی گئی اُس میں باقاعدگی نہیں تھی، یا ہم اتنے لیٹ ہوگئے۔ اسی طرح غسل خانوں اور ٹائلٹس کا کافی انتظام ہونا چاہئے، اچھا انتظام ہونا چاہئے اور صفائی کی طرف توجہ بھی ہونی چاہئے۔ گزشتہ سال کی کمیوں کو سامنے رکھ کر یہ انتظام دیکھ لینا چاہئے۔ ٹکٹ کی چیکنگ کا انتظام ہے یا راستوں سے گزرنے کا انتظام ہے، خاص طور پر جو غیر مہمان آتے ہیں اور معذور افراد کیلئے تو ایسا انتظام ہو کہ اُنہیں زیادہ دیر انتظار نہ کرنا پڑے۔ اسی طرح چھوٹے بچوں والی ماؤں کے لئے بھی بہتر انتظام ہونا چاہئے تا کہ خاص طور پر بارش یا تیز دھوپ میں وہ جلدی جلدی گزر جائیں۔ پھر ایک یہ بات بھی آپ نے اس میں فرمائی ہے جس کا ہر ایک سے تعلق ہے کہ مہمان کا دل مثل آئینہ کے نازک ہوتا ہے۔ مہمان کا دل شیشہ کی طرح نازک ہوتا ہے۔ پس اس نازک دل کا خیال رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔ اگر خیال رکھا جائے اور باقاعدہ سہولتیں مہیا کی جائیں تو عموماً شکوے پیدا نہیں ہوتے۔ لیکن پھر بھی اگر کوئی مہمان اپنی طبیعت کی وجہ سے شکوہ کرتا ہے اور ایسی بات کرتا ہے جو مناسب نہیں، تو کارکنان کاکام ہے کہ صبر اور حوصلہ سے اسے برداشت کریں، نہ کہ آگے سے جواب دیں۔ خاص طور پر سیکیورٹی کے کارکن جب ڈسپلن کریں تو پیار محبت سے سمجھائیں۔ بیشک جلسہ کی مارکی کے اندر بھی اور باہر بھی ڈسپلن ضروری ہے۔ اسی طرح سیکیورٹی بڑی ضروری ہے اور آجکل کے حالات میں توسیکیورٹی کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ لیکن ایسا انداز اختیار کیا جائے جو کسی کے جذبات کو انگیخت نہ کرے، کوئی اس سے برا نہ منائے۔ خاص طور پر غیرمہمانوں کے ساتھ اگر کوئی معاملہ ایسا سنجیدہ ہو توجو اپنے افسرانِ بالا ہیں اُن تک پہنچایا جائے، بجائے اس کے کہ وہاں تُو تکار ہو جائے اور معاملہ اَور بگڑ جائے۔ عموماً تو غیر مہمانوں کا پتہ ہی ہوتا ہے اور اچھا رویہ ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ بعضوں کو لوگ نہیں بھی جانتے، اُن کے ساتھ بھی بہت ہی مہذب رویہ ہونا چاہئے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب ہر ایک کے ساتھ مہذب رویہ ہو گا۔ کیونکہ جلسہ دیکھنے بہت سے لوگ ایسے بھی آتے ہیں جب وہ آپ کے اخلاق دیکھتے ہیں تو اُس کی وجہ سے ہی وہ متأثر ہو جاتے ہیں۔ پس اچھے اخلاق، اچھی تبلیغ بھی ہے۔ پہلے تو جب تعداد تھوڑی تھی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود مہمانوں کی مہمان نوازی کا اہتمام بھی فرماتے تھے اور اُن کے ساتھ کھانا بھی کھاتے تھے۔ لیکن پھر تعداد کی زیادتی ایک وجہ بنی اور کچھ پرہیزی کھانے اور طبیعت کی وجہ سے علیحدہ کھانا پڑا اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی تعداد بہت وسعت اختیار کر چکی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نمائندگی میں خلیفۂ وقت کے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس طرح ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا جائے یا ہر ایک کا انفرادی طور پر براہِ راست خیال رکھا جائے۔ پھر اس طرح اور بھی زیادہ مصروفیات ہو گئی ہیں۔ مہمانوں سے ملنا، یہ بھی ایک کام ہوتا ہے۔ دوسرے کام بھی ہیں۔ اس لئے یہ نظام قائم کیا گیا ہے کہ ہر شعبہ جو ہے وہ مہمانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ سہولت پیدا کرنے کی کوشش کرے اور اپنی ذمہ واری کو پورے احساس سے ادا کرے۔ خلیفۂ وقت کا کارکنان پر یہ اعتماد ہوتا ہے کہ مہمانوں کے حق کو اچھی طرح ادا کر رہے ہوں گے۔ اور اس اعتماد پر ہر کارکن کو پورا اترنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پس ہر کارکن اپنے اعلیٰ اخلاق کے نمونے دکھانے کی کوشش کرے اور اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آنے والوں کو بہرحال یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ لوگ خلیفہ وقت کے قریب رہنے والے ہیں، اس لئے ان کے ہر قسم کے معیار، عبادتوں کے معیار بھی، نیکی کے معیار بھی، اعلیٰ اخلاق کے معیار بھی، اونچے ہوں گے اور ہونے چاہئیں۔ پس ہر کارکن یہ خیال رکھے کہ صرف اپنی ڈیوٹی ادا کرنا ہی اُس کا فرض نہیں ہے بلکہ خاص طور پر ان دنوں میں نمازوں اور عبادت کی طرف توجہ اور باقاعدگی بھی انتہائی اہم ہے۔ عموماً تو ہے ہی، اور اس کا خاص طور پر اہتمام ہونا چاہئے۔ اسی طرح دوسری نیکیوں کی طرف بھی توجہ ہو۔ اعلیٰ اخلاق ہوں، یہ تو ایک عہدیدار کا، جماعت کے کام کرنے والے کا، ایک مستقل پہلو ہے اور ہونا چاہئے لیکن جلسہ کے دنوں میں مزیدنکھر کر اس کو سامنے آنا چاہئے۔

جب مَیں یہ نصیحت کر رہا ہوں تو ربوہ کے جلسوں کی تصویر بھی سامنے گھوم جاتی ہے۔ جب وہاں یہ جلسے ہوتے تھے اور ایک دو جمعہ پہلے خلیفۂ وقت کی طرف سے اس طرح نصیحت کی جاتی تھی۔ اور ربوہ کا رہنے والا ہر احمدی چاہے اس نے خدمت کے لئے اپنا نام پیش کیا ہے یا نہیں کیا، اِن نصائح پر عمل کرتا تھا اور بھر پور کوششیں ہوتی تھیں اور تیاریاں ہو رہی ہوتی تھیں۔ لیکن بہرحال اب حالات کی وجہ سے وہاں جلسے نہیں ہوتے۔ اُن احمدیوں کو، ربوہ کے احمدیوں کو اور پاکستان کے احمدیوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی کمیاں بھی پوری کرے۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلستان کی جماعت ہر سال جلسہ پر مہمان نوازی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ ہر کارکن اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک وقت تھا جب کہا جاتا تھا کہ یوکے کی جماعت کو جلسہ سالانہ کے انتظامات سنبھالنے کی طاقت اور استطاعت نہیں ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی ہجرت کے شروع کے چند سالوں تک اس نظام کو چلانے کے لئے مرکز سے مدد لی جاتی تھی۔ وہاں سے بعض عہدیداران افسران آتے تھے جو آپ لوگوں کی مدد کرتے تھے۔ لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے افسران بھی اور کارکنان بھی تربیت یافتہ ہیں اور احسن رنگ میں کام سرانجام دینے والے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ جو کمی تھی وہ تو پوری ہو چکی ہے لیکن اس کمی کی دوری کی وجہ سے اور بہتری کی وجہ سے اور مہارت حاصل کرنے کی وجہ سے ہر کارکن میں اور ہر عہدیدار میں مزید عاجزی پیدا ہونی چاہئے۔ پس اس کی طرف ہمیشہ توجہ رکھیں۔ اللہ کے فضل سے افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے انتظامات کی جو روزانہ رپورٹ آتی ہے، اُس سے پتہ لگتا ہے کہ بڑی گہرائی میں جا کر ماشاء اللہ ہر چیز کا خیال رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور کام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کارکنوں کو، مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ وہ احسن رنگ میں اپنی ڈیوٹیاں ادا کرنے والے ہوں۔ ایک بات آج یہاں یہ بھی مَیں کہنا چاہتا ہوں، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ سیکیورٹی کی طرف آجکل حالات کی وجہ سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے اور یہ انتہائی اہم چیز ہے، اس میں کسی قسم کی کمی نہیں ہو سکتی نہ کمپرومائز (Compromise) ہو سکتا ہے، نہ ہونا چاہئے۔ لیکن ساتھ ہی جو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتا ہے اس کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ کارکنوں کو جو سیکیورٹی کارکن ہیں قانون تو بہرحال ہاتھ میں نہیں لینا۔ جب کوئی ایسا معاملہ ہو تو اس کو حکمت سے سنبھالنا ہے۔ اس ضمن میں اُن احمدیوں کو جو اپنے ساتھ مہمان لاتے ہیں یا لانا چاہتے ہیں، یا انتظام کرواتے ہیں، مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن مہمانوں کو لانا ہے اُن کے بارے میں پہلے بتا دینا چاہئے اور انتظامیہ سے معاملات طے کر لینے چاہئیں تا کہ بعد میں نہ مہمان لانے والے احمدیوں کو شکوہ ہو کہ سیکیورٹی چیک بہت زیادہ ہو گیا ہے، شامل ہونے سے روکا گیا یا بلا وجہ دیر لگائی گئی یا بعض وجوہات کی بنا پر انکار کردیا گیا۔ آنے والا جو مہمان ہے اُس کے لئے بھی یہ چیز پریشانی اور embarrassement کا باعث بن جاتی ہے۔ تو اس بات کا خیال رکھیں کیونکہ آپ جس کو نہیں جانتے اُن کے لئے بہرحال پھر ضرورت سے زیادہ تفتیش بھی کرنی پڑتی ہے۔ اس لئے پہلے سے ہی انتظامات مکمل ہونے چاہئیں۔ جس کو بھی ساتھ لانا ہو، اور وہ بھی اس صورت میں جب یہاں باقاعدہ انتظام ہو، اور یا جو بھی پراسیس (Process) ہے اس میں سے پہلے ہر احمدی کو گزرنا چاہئے۔

یہ ہدایت گو کہ کارکنان کے لئے نہیں ہے لیکن یہ ایسی تھی کہ ان ہدایات کے ساتھ دینا ضروری تھی اس لئے کہ یہ کام بہت پہلے ہو جانا چاہئے۔ اب ایک ہفتہ باقی ہے، اگر کسی نے کسی مہمان کو لانا ہے تو اس کا پہلے انتظام کر لیں کیونکہ بعد میں مجھے ایسے بعض خطوط بھی آتے ہیں۔ اور انتظامیہ کسی وجہ سے انکار کرتی ہے تو پھر انتظامیہ کی مجبوری کو بھی لوگوں کو سمجھنا چاہئے اور شکوہ نہیں کرنا چاہئے۔ اور انتظامیہ کو بھی ایسے معاملات کو بڑی حکمت سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ کسی کو شکوہ پیدا نہ ہو، اور یہی اعلیٰ اخلاق ہیں جن کو ہمیں دکھانا چاہئے۔

نیز یہ بھی کھول کر بتانا چاہتا ہوں کہ غیر مہمانوں کو لانے والے احمدیوں کواس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ دنیا کے عمومی حالات بھی اور خاص طور پر جماعت کے بارے میں بعض طبقے کی جو سوچ ہے اور جو حالات ہیں، شرارتی عنصر جو ہے، بڑا ایکٹو (Active) ہوا ہوا ہے۔ نقصان پہنچانے کی بعض دفعہ کوشش ہوتی ہے۔ اس لئے غیرمہمانوں کو لانے والے بھی صرف ابتدائی اور سرسری واقفیت کی بنا پر اُن کو مہمان نہ بنا لیا کریں۔ اس بارے میں بھولے پن کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ ہر طرح سے تسلی کے بعد اور پرانے تعلقات والے جو ہیں، اُن کو ہی اگر مہمان لانا ہو تو جیسا کہ میں نے کہا کہ انتظامیہ سے پہلے رابطہ کر کے اور تمام معاملات طے کر کے پھر لے کر آئیں۔ آخر میں پھر اس بات کی طرف توجہ دلا دوں کہ مہمانوں کی اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کو فضلِ الٰہی سمجھیں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانی کے جذبے کے تحت اپنی خدمات پیش کریں اور بجا لائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں پر بہت زور دیں، اللہ تعالیٰ جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے اور تمام انتظامات بروقت مکمل بھی ہو جائیں۔ اور جو جو انتظامات ہیں، وہ کارکنان اُن کو احسن رنگ میں سرانجام دینے والے بھی ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 31؍ اگست 2012ء شہ سرخیاں

    دنیا کے احمدیوں کے نزدیک اور ہمارے غیر از جماعت مہمانوں کے نزدیک یوکے کا جلسہ سالانہ اب صرف یو۔کے کا جلسہ سالانہ نہیں رہا بلکہ مرکزی جلسہ سالانہ ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ خلیفۂ وقت کی یہاں رہائش ہے۔

    گو کہ اکثر حصہ جلسہ سالانہ کے اخراجات کا یوکے جماعت ہی برداشت کرتی ہے لیکن بہر حال مرکز کو بھی اخراجات میں تیس پینتیس فیصد حصہ یا بعض دفعہ زیادہ ڈالنا پڑتا ہے۔ یہ مَیں اس لئے بتا رہا ہوں کہ بعض طبائع بعض دفعہ یہ اظہار کر دیتی ہیں کہ یوکے جماعت پر مرکز بہت بوجھ ڈال دیتا ہے۔

    مہمان نوازی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ انبیاء کے اوصاف میں سے ایک وصف ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو خاص طور پر جو کام دئیے گئے ہیں اُن میں سے ایک اہم کام مہمان نوازی کا بھی ہے۔

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کاموں کی سر انجام دہی کے لئے آپ کے ہر طرح سے مددگار بننے کے لئے ہمارا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ  جو کام مہمان نوازی کا ہمارے سپرد کیا گیا ہے اُس کو بھی احسن رنگ میں بجا لائیں۔ ہر کارکن یہ خیال رکھے کہ صرف اپنی ڈیوٹی ادا کرنا ہی اُس کا فرض نہیں ہے بلکہ خاص طور پر  ان دنوں میں نمازوں اور عبادت کی طرف توجہ اور باقاعدگی بھی انتہائی اہم ہے۔

    اُن احمدیوں کو جو اپنے ساتھ مہمان لاتے ہیں یا لانا چاہتے ہیں، یا انتظام کرواتے ہیں، مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جن مہمانوں کو لانا ہے اُن کے بارے میں پہلے بتا دینا چاہئے اور انتظامیہ سے معاملات طے کر لینے چاہئیں۔

    جلسہ سالانہ یوکے کی مناسبت سے قرآن مجید، احادیث نبویہ اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے ارشادات وواقعات کی روشنی میں  مہمان نوازی اور انتظامات جلسہ سے متعلق اہم نصائح۔

    مہمانوں کی اور خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی مہمان نوازی کو فضلِ الٰہی سمجھیں اور اس کے لئے پہلے سے بڑھ کر قربانی کے جذبے کے تحت اپنی خدمات پیش کریں اور بجا لائیں۔ اللہ تعالیٰ سب کارکنان کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دعاؤں پر بہت زور دیں، اللہ تعالیٰ جلسے کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔ 

    فرمودہ مورخہ 31؍اگست 2012ء بمطابق 31؍ظہور 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور