جلسہ سالانہ کے قیام کا بنیادی مقصد

خطبہ جمعہ 7؍ ستمبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ برطانیہ کا جلسہ سالانہ شروع ہو رہا ہے۔ گو رسماً یہ شام کو شروع ہو گا لیکن حقیقت میں تو یہ جمعہ جلسہ کا ہی حصہ ہے اور یہی افتتاح ہوتا ہے۔ پس اس حوالے سے ہی میں چند باتیں کہوں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسی جماعت تیار ہو جو خدا تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنے والی ہو۔ خدا تعالیٰ کا خوف اُن میں پیدا ہو۔ زُہد اور تقویٰ اُن میں پیدا ہو۔ خدا ترسی کی عادت اُن میں پیدا ہو۔ آپس کا محبت اور پیار اُن میں پیدا ہو۔ وہ نرم دلی اور باہم محبت کا اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں۔ بھائی چارے کی مثال بن کر رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا نمونہ بن جائیں۔ انکسار، عاجزی اُن کا شیوہ ہو۔ سچائی کے ایسے اعلیٰ معیار قائم ہوں جس کی مثال نہ مل سکے۔ اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے اُن کے دل میں ایک تڑپ ہو جس کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 394)

پس ہم جو آج یہاں جمع ہوئے ہیں۔ ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ سفر کی مشکلات برداشت کر کے ہم یہاں جمع ہوئے ہیں۔ بیشک آج اس زمانے میں سفر کی سہولتیں مہیا ہیں لیکن مزاج بھی ویسے ہی بن چکے ہیں۔ اس لئے راستے کی مشکلات، سفر کی مشکلات بہرحال سفر کا ایک احساس دلاتی ہیں۔ سفر کی مشکلات کی نوعیت گو بدل گئی ہے لیکن سفر بہر حال سفر ہی ہے۔ پس جو لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے ہیں، اُنہیں ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جلسہ کے اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں؟ جلسہ کی کارروائی اور ان تین دنوں کے دوران جب ہر شاملِ جلسہ یہ باتیں اپنے پیشِ نظر رکھے گا تو تبھی اس طرف توجہ پیدا ہو گی کہ ہمارا جلسہ میں شامل ہونے کا مقصد کیا ہے؟ تبھی وہ جماعت قائم ہو گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بنانا چاہتے ہیں، تبھی طبیعتوں میں وہ انقلاب پیدا ہو گا جو دنیا میں ایک روحانی انقلاب لانے کا باعث بنے گا۔ اگر اس نہج پر ہم اپنی سوچوں کو، اپنے عملوں کو نہیں لے جائیں گے تو جلسہ میں شمولیت بے فائدہ اور بے مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ کوئی دنیاوی میلہ نہیں ہے (ماخوذ از شہادۃ القرآن روحانی خزائن جلد 6صفحہ 395) جس میں آئے، بیٹھے، دوستوں کے ساتھ خوش گپیوں میں کچھ وقت گزارا، بازار میں جا کر فالودہ اور پکوڑے وغیرہ کھا لئے یا چائے اور جوس اور کافی پی لی، یا پاکستانی اور انڈین سامان کی خریداری کر لی۔ کیونکہ یہ سب چیزیں جلسہ کے دنوں میں ایک جگہ مہیا ہو جاتی ہیں اس لئے فائدہ اُٹھا لو۔ یا بعض کہتے ہیں کہ ہم تو سال کا خشک راشن دالیں، چاول وغیرہ بھی جلسہ میں خرید کر لے کر جاتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں یہاں اچھی اور نسبتاً سستی قیمت میں مل جاتی ہیں، یا زیادہ تردّدنہیں کرنا پڑتا۔ اگر یہ مقصد ہے تو پھر تو جلسہ میں شامل ہونے کا ثواب ضائع کر دیا۔ یہ چیزیں تو کم و بیش قیمت میں بازار سے بھی مل جاتی ہیں۔ یہاں آنے والے اس دنیاوی مائدہ کے حاصل کرنے کے لئے نہیں آتے اور نہ انہیں آنا چاہئے، بلکہ اُس روحانی مائدہ کے لئے آتے ہیں اور آنا چاہئے جو کسی اور بازار سے نہیں ملتا، جو آج ایک بیش بہا خزانہ ہے، جو صرف روحانی بھوک پیاس نہیں مٹاتا بلکہ حقیقی رنگ میں اس سے فیض پانے والے ہر شخص کو غریب سے امیر ترین بنا دیتا ہے اور پھر یہ خزانے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عطا فرمائے اور جن کی تقسیم جلسہ کے دنوں میں مختلف پروگراموں کے دوران ہو گی یا کی جاتی ہے، ایک حقیقی احمدی کو ان کے حاصل کرنے کے بعد دوسروں کی بھوک پیاس اور غربت مٹانے کا باعث بھی بنا دیتے ہیں۔ پس ہر احمدی کا فرض ہے، ہر شامل ہونے والے کا فرض ہے کہ اگر اُس کی سوچ میں کوئی کمی تھی، جلسہ کی حقیقت کا صحیح فہم اور اِدراک نہیں تھا تو اب اپنی سوچ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کے مطابق ڈھال کر جلسہ سے بھرپور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلسہ میں شامل ہونے والوں اور جماعت کے متعلق آپ کی خواہش کے متعلق کچھ کہوں گا کہ کیسے احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام چاہتے ہیں اور جماعت کے معیار کیا ہوں اور کیا ہونے چاہئیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کو سامنے رکھتے ہوئے گو مکمل الفاظ تو آپ کے نہیں ہوں گے لیکن بہرحال خلاصۃً کچھ پیش کروں گا۔ وہ ارشادات جو جلسہ میں شامل ہونے والوں کو آپ نے فرمائے۔ آپ نے ایک ایسا لائحہ عمل دیا تھا جو انسانی زندگی کی دنیا و عاقبت سنوارنے کے لئے ضمانت بن سکتا ہے۔ آپؑ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْن، کہ اللہ یقینا اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ نیکیاں بجا لانے والے ہوں، کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’بجز تقویٰ کے اور کسی بات سے خدا تعالیٰ راضی نہیں ہوتا‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 7 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس جب ایک مومن کا مقصود یہ ہو کہ خدا تعالیٰ کو راضی کرنا ہے تو پھر اُس کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ تقویٰ پر چلے۔ اور تقویٰ کیا چیز ہے؟ اور کن کن راستوں پر انسان تقویٰ حاصل کر سکتا ہے؟ اور ایک احمدی مسلمان کو تقویٰ پر چلنے کی کیوں ضرورت ہے؟ کیوں اس کے لئے ضروری ہے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ جماعت کے افراد کے لئے تقویٰ پر چلنا اس لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلہ بیعت میں شامل ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے اور اس مامور کی بیعت میں شامل ہونے کا فائدہ تبھی ہو گا جب شامل ہونے والے جو کہ شامل ہونے سے پہلے رُو بہ دنیا تھے، ہر قسم کی برائیوں میں مبتلا تھے، ہر قسم کی برائیوں سے نجات پائیں۔ اور برائیوں سے نجات بجز تقویٰ پر قدم مارنے کے پائی نہیں جاسکتی۔ آپؑ ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جائے خواہ بیماری چھوٹی ہو یا بڑی، اگر اُس کا علاج نہ کیا جائے اور بعض دفعہ علاج بذاتِ خود ایک تکلیف دِہ امر ہوتا ہے لیکن کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس کے بغیر تکلیف بڑھتی چلی جاتی ہے اور صحت نہیں ہو سکتی۔ فرمایا کہ مثلاً اگر چہرہ پر سیاہ داغ بن جائے تو فکر پیدا ہوتی ہے کہ کہیں یہ بڑھتا بڑھتا پورے چہرہ کو سیاہ نہ کر دے۔ اور کئی دفعہ ایسا ہوا ہے میرے پاس بھی کئی لوگ آتے ہیں اُن کے ایسے داغ پڑتے ہیں جس سے ان کو بڑی فکر ہو تی ہے۔ فرمایا کہ اسی طرح تم کسی چھوٹی سے چھوٹی برائی کو بھی معمولی نہ سمجھو کہ یہ تقویٰ سے دور لے جاتی ہے اور پھر یہ چھوٹی برائی بڑا گناہ بن جاتی ہے اور دل کو سیاہ کر دیتی ہے۔ اس لئے فکر کرو اور بہت فکر کرو۔ آپ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جیسے رحیم و کریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے۔ ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ اُن کا دعویٰ اور لاف گزاف تو بہت کچھ ہے اور اُس کی عملی حالت ایسی نہیں تو اُس کا غیظ و غضب بڑھ جاتا ہے۔ پس اپنی عملی حالتوں کو ٹھیک کرنے کی ہر احمدی کوشش کرے اور اسے کرنی چاہئے۔ یہ بہت بڑا اِنذار ہے جو آپ نے فرمایا ہے۔ ان دنوں میں بہت دعائیں کریں دعاؤں کا موقع بھی اللہ تعالیٰ نے میسر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقت میں وہ بنائے جو وہ چاہتا ہے۔ آج ہم مسلمانوں کی حالت دیکھتے ہیں تو اور بھی زیادہ خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ کہیں ہماری کسی نااہلی اور بد عملی سے ناراض ہو کر خدا تعالیٰ ہمیں اپنے غضب کے نیچے نہ لے آئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مثال دی ہے کہ جب بدعملیاں شروع ہو جائیں، قول و فعل میں تضاد شروع ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ مومن کہلانے والوں کو کافروں کے ذریعہ سے سزا دلواتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے۔ جیسے چنگیز خان اور ہلاکو خان نے مسلمانوں کو تباہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ زبان تو لٓا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ پکارتی ہے لیکن دل کسی اور طرف ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 7 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ عمل دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ پس ہمارے لئے بڑے خوف کا مقام ہے۔ ہمیں بھی ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے احسان کرتے ہوئے اس زمانے کے ہادی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو زمانے کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور پھر ہم پر مزید احسان کرتے ہوئے اس مامور زمانہ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اگر ہم نے اپنی توجہ خدا تعالیٰ کی طرف نہ رکھی تو خدانخواستہ خدانخواستہ، ہم بھی اُس قانونِ قدرت کی چکّی میں نہ پِس جائیں جو قول و فعل میں تضاد رکھنے والوں کے لئے چلتا ہے۔ آپ نے فرمایا اپنے یہ جائزے خود لو، دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کس حد تک ہے۔ دیکھو کہ کہاں تک قول و فعل ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ اگر دیکھو کہ قول و فعل برابر نہیں تو فکر کرو۔ آپ نے فرمایا کہ جو دل ناپاک ہے، خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا تعالیٰ کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا، بلکہ خدا تعالیٰ کا غضب مشتعل ہو گا۔ آپ نے فرمایا پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس اس لئے آئے ہیں کہ تخم ریزی کی جاوے جس سے وہ پھل دار درخت ہو جاویں۔ پس ہر ایک اپنے اندر خود غور کرے کہ اُس کا اندرونہ کیسا ہے؟ اور اُس کی باطنی حالت کیسی ہے؟ فرمایا اگر ہماری جماعت بھی خدانخواستہ ایسی ہے کہ اُس کی زبان کچھ اور ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے۔ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے، تو پھر وہ غنی ہے اور وہ پرواہ نہیں کرتا۔ فرمایا کہ تاریخ پر نظر ڈالو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جاؤ۔ بدر کی جنگ کا نقشہ اپنے سامنے لاؤ۔ بدر کی فتح کی پیشگوئی ہو چکی تھی، ہر طرح سے فتح کی امیدتھی لیکن پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رورو کر گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورتِ الحاح کیا ہے؟ اس قدر درد اور تڑپ کے ساتھ دعائیں مانگنے کی ضرورت کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ ذات غنی ہے۔ ممکن ہے وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ تقویٰ کا مقام ہے جس کا اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا اور اگر اسی خوف اور تقویٰ کو ہم سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کی کوشش کرتے رہیں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ کامیابی ہماری ہے۔ یا وہ لوگ کامیابی دیکھنے والے ہوں گے جن کے قول و فعل ایک ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کی حالت کا ہلاکو خان اور چنگیز خان کی مثال دے کر جو نقشہ کھینچا ہے تو آج بھی اگر ہم نظر دوڑائیں تو یہی کچھ نظر آتا ہے۔ مسلمانوں کی طاقت کوئی نہیں رہی۔ غیروں کے لائحہ عمل پر عمل کر رہے ہیں۔ قرآنی تعلیم کو بھلا بیٹھے ہیں۔ اپنے ہی ملکوں میں اپنے تخت اور کرسیاں بچانے کے لئے مسلمان کہلانے والوں پر بے انتہا ظلم ہو رہا ہے۔ عوام الناس کا بے دریغ قتل ہو رہا ہے۔ سمجھتے ہیں کہ ان کے تخت محفوظ ہو جائیں گے، یہ ان کی خوش فہمی ہے۔ ظلم کی سزا بھی ان لوگوں کو ملے گی اور تخت بھی ان کے جاتے رہیں گے۔ جن ملکوں میں حکومتیں الٹی ہیں اور عوام کے نام پر نئی حکومتیں آئی ہیں، اُن کا بھی یہی حال ہے کہ وہ بھی ظلم کی پالیسی پر ہی عمل کر رہے ہیں اور نتیجۃً اپنی طاقت کمزور کر رہے ہیں اور شعوری طور پر یا لا شعوری طور پر غیروں کی، دشمنوں کی خواہش پوری کر رہے ہیں کہ مسلمان کمزور ہوں اور کمزور رہیں اور مسلمانوں کے جو وسائل ہیں ان پر جو غیر ہیں وہ قبضہ کئے رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو مسلم اُمَّہ کو عقل دے۔ اس کے لئے بھی دعا کریں۔ بہر حال مَیں یہ بات کر رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ماننے والوں کا کیا مقام دیکھنا چاہتے ہیں؟ اور اس کے لئے کیا کیا ارشادات فرمائے ہیں اور جیسا کہ بیان ہوا کہ اس معیار کو حاصل کرنے کی اصل بنیاد تقویٰ ہی ہے۔ اس مضمون کو مزید آگے بیان کرتا ہوں۔ فرمایا کہ ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے؟ فرمایا کہ اس کا معیار قرآن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں سے ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اُس کے کاموں کا خود متکفل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبْ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اُس کے لئے مخلصی کا راستہ نکال دیتا ہے اور اُس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اُس کے علم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

فرمایا یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔ مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی یا جھوٹ کے سوا اُس کا کام نہیں چل سکتا۔ اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کی مجبوری ظاہر کرتا ہے۔ لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ اللہ تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اُسے ایسے مواقع سے بچا لیتا ہے جو خلافِ حق پر مجبور کرنے والے ہوں۔ فرمایا کہ یاد رکھو، جب اللہ تعالیٰ کوکسی نے چھوڑا تو خدا نے اُسے چھوڑ دیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 8 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس ایک احمدی کو ہر سطح پر اور ہر جگہ پر اپنے سچائی کے معیار بھی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مثلاً آجکل بہت سے احمدی اسائلم کے لئے یورپین ملکوں میں آ رہے ہیں اور بعض دفعہ بعض لوگ غلط بیانی بھی کرتے ہیں۔ حالانکہ اگر سچی بات بتائی جائے، پاکستان میں احمدیوں کے حالات بتا کر پھر اپیل کی جائے تو تب بھی اثر پیدا ہوتا ہے۔ میں نے تو جنہیں بھی سچ بات کہنے کے لئے کہا ہے اور مشورہ دیا ہے کہ وکیلوں کو کہانیاں نہ بنانے دینا بلکہ سچی بات اور جو تمہارے جذبات اور احساسات، اور جو حالات ہیں وہ بتانا۔ تو اُن لوگوں کے کیس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاس ہوئے ہیں۔ پاکستانی احمدیوں پر ظلم ہو رہے ہیں اور یقینا ہو رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں اور ظلموں کی اب تو انتہا ہوئی ہوئی ہے۔ لیکن ان ظلموں کی کہانی اگر سچ کی شکل میں بھی سنائی جائے اور غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے اور پھر اللہ تعالیٰ پر توکّل کیا جائے تو تب بھی مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔ اس قوم میں اکثریت میں ہمدردی کا جذبہ بہرحال ہے جس کے تحت یہ مدد کرتے ہیں۔ پس ہر موقع پر ہمیں اپنے سچ کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر آپ نے جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ انسان کی نیکیوں کے دو حصے ہیں ایک حصہ فرائض کا ہے اور دوسرا حصہ نوافل کا ہے۔ وہ فرائض جو حقوق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کے علاوہ آپ نے اُن کی بھی مثال دی ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں بھی فرائض اور نوافل ہیں۔ اور ان فرائض میں فرمایا کہ ایسے فرائض جو انسان پر فرض کئے گئے ہیں، مثلاً قرض کا اتارنا۔ کسی نے قرض لیا ہے تو اُس کا اتارنا اُس پر فرض ہے۔ یا نیکی کے مقابل پر نیکی کرنا، یہ ایک مسلمان پر اور احمدی مسلمان پر فرض ہے۔ فرمایا ان فرائض کے علاوہ ہر نیکی کے ساتھ نوافل بھی ہوتے ہیں۔ یعنی ایسی نیکی جو کسی کے حق سے فاضل اور زائد ہو۔ نیکی کا بدلہ اتارا۔ قرض لیا قرض کا بدلہ اتارا، اپنا قرض ادا کیا یہ تو بہرحال فرض ہے۔ لیکن اس کے نفل یہ ہیں کہ اُن سے زائد بھی کچھ ادا ہو اور انبیاء ہمیشہ اس سنت پر عمل کرتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے جو سب سے بڑھ کر اس پر عمل کرنے والے تھے۔ جیسے کہ فرمایا احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اَور احسان کرنا یہ نفل ہے۔ اب اگر کوئی کسی پر احسان کرے تو احسان کا بدلہ تو احسان کر کے اتارا ہی جا سکتا ہے اور اتارنا چاہئے۔ یہ تو فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔ لیکن اس فرض پر نفل تب ہو گا جب احسان سے بڑھ کر احسان کیا جائے۔ فرمایا اگر یہ ہو گا تو یہ وہ عمل ہے جو فرائض کو مکمل کرتا ہے اور زائد ثواب کا مورد بناتا ہے۔ فرمایا کہ حدیث کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں جو اتنا مقام حاصل کر لیتے ہیں کہ جن کے ہاتھ پاؤں اللہ تعالیٰ ہو جاتا ہے۔ حتی کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں اُن کی زبان ہو جاتاہوں جس سے وہ بولتے ہیں۔ یعنی اُن کا ہر قول و فعل خدا تعالیٰ کی رضا کی تڑپ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے لئے اور خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے۔ ایسا کام اُن سے سرزد ہی نہیں ہوتا جو خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث بنے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 9مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ٹارگٹ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں اپنی بیعت میں آنے کے بعد دیا ہے۔ اور بیعت کا حق ہم تبھی ادا کر سکیں گے جب اس ٹارگٹ کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ آپ نے فرمایا کہ اس کے حصول کے لئے مجاہدہ کرنا پڑتا ہے۔ ایک رات میں یہ مقام حاصل نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے جذباتِ نفس سے پاک ہونا ہوگا۔ نفسانیت کو چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے ارادہ کے مطابق چلنا ہو گا۔ کوشش کرنی ہو گی کہ میرا کوئی فعل ناجائز نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے تابع ہو۔ جب یہ ہو گا تو روز مرہ کی بہت سی مشکلات سے انسان بچ رہے گا۔ آپ نے واضح فرمایا کہ لوگ مشکلات میں پڑتے ہی اُس وقت ہیں جب اللہ تعالیٰ کی رضا کے برخلاف کوئی کام کرتے ہیں۔ اُس وقت یہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے نیچے نہیں آتے بلکہ اپنے جذبات کے نیچے آ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں۔ مثلاً غصہ میں آکر کوئی ایسا فعل سرزد ہو جائے جس سے مقدمات بن جائیں، کوٹ کچہری کے چکر لگانے پڑ جائیں، جیل جانا پڑ جائے۔ لیکن اگر کوئی یہ ارادہ کر لے کہ کتاب اللہ کی مرضی کے بغیر، اُس کے استصواب کے بغیر کوئی حرکت و سکون نہیں کرنا، کوئی عمل نہیں کرنا اور ہر بات پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو دیکھنا ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی کتاب بدعملیوں سے بچنے کا مشورہ دے گی۔ ورنہ اگر اللہ تعالیٰ کی کتاب کو چھوڑ کر اپنے جذبات کا تابع ہونے کی کوشش کرو گے تو نقصان اُٹھاؤ گے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 9-10مطبوعہ ربوہ)

پس مامور من اللہ کی بیعت کر کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہر معاملے میں ہم کتاب اللہ سے مشورہ لیتے ہیں یا اپنے نفس سے۔ اگر ہمارا نفس ہمیں کتاب اللہ کے مشورے پر عمل کرنے سے روکتا ہے تو ہمیں اپنی فکر کرنی چاہئے۔ ان دنوں میں خاص طور پر یہ جو جلسہ کے دن ہیں ہمیں درود، استغفار پر زور دینا چاہئے تا کہ ہم اپنی اصلاح کی طرف زیادہ سے زیادہ مائل ہوں۔ اپنی خواہشات اور جذبات کو خدا تعالیٰ کی خواہشات اور احکامات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش اور دعائیں کریں تا کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بن سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت کے اعلیٰ معیاروں کے حصول کے لئے جو ارشادات فرمائے ہیں اُن سب کا احاطہ تو اس وقت ممکن نہیں، ایک اہم بات جو مَیں اس وقت آپؑ کے حوالے سے یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ ایسی ہے کہ اگر ہم اس کو اپنا لیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہمارے قدم بڑھتے چلے جائیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’راتوں کو اُٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھلائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔ وہ پہلے کیا تھے؟ ایک کسان کی تخمریزی کی طرح تھے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آبپاشی کی۔ آپ نے اُن کے لیے دعائیں کیں۔ بیج صحیح تھا اور زمین عمدہ تو اس آبپاشی سے پھل عمدہ نکلا۔ جس طرح حضور علیہ السلام چلتے اسی طرح وہ چلتے۔ وہ دن کا یارات کا انتظار نہ کرتے تھے۔ تم لوگ سچے دل سے توبہ کرو۔ تہجدمیں اٹھو۔ دعا کرو۔ دل کو درست کرو۔ کمزوریوں کوچھوڑ دو اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق اپنے قول و فعل کوبناؤ۔ یقین رکھو کہ جو اس نصیحت کو وِرد بنائے گا اور عملی طور سے دعا کرے گا اور عملی طور پر التجا خدا کے سامنے لائے گا، اللہ تعالیٰ اس پر فضل کرے گا اور اس کے دل میں تبدیلی ہو گی۔ خدا تعالیٰ سے ناامیدمت ہو۔ ع

بر کریماں کا رہا دشوار نیست‘‘

(ملفوظات جلدنمبر 1 صفحہ 28 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایاکہ ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم کو کیا کوئی ولی بننا ہے؟ افسوس انہوں نے کچھ قدرنہ کی۔ بیشک انسان نے (خدا تعالیٰ کا) ولی بننا ہے۔ اگر وہ صراط مستقیم پر چلے گا تو خدا بھی اس کی طرف چلے گا اور پھر ایک جگہ پر اس کی ملاقات ہو گی۔ اس کی اُس طرف حرکت خواہ آہستہ ہو گی، لیکن اس کے مقابل خدا تعالیٰ کی حرکت بہت جلد ہو گی۔ چنانچہ یہ آیت اسی طرف اشارہ کرتی ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (کہ جن لوگوں نے ہمارے بارے میں کوشش کی ہم اُنہیں ضرور اپنے راستوں کی طرف ہدایت دیں گے، رہنمائی کریں گے۔ فرمایا) سو جو جو باتیں مَیں نے آج وصیت کی ہیں، ان کو یادرکھو کہ ان ہی پر مدارِنجات ہے۔ تمہارے معاملات خدا اور خَلق کے ساتھ ایسے ہونے چاہئیں جن میں رضائے الٰہی مطلق ہی ہو۔ پس اس سے تم نے وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ کے مصداق بننا ہے۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 28-29 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ جلسہ کے دن ہمیں میسر آئے ہیں اور اس سے چند دن پہلے رمضان گزرا ہے جس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جلسہ کے دنوں میں ہم علمی اور تربیتی طور پر قرآن، حدیث اور سنت کی روشنی میں باتیں بھی سنیں گے۔ خدا تعالیٰ کی ذات کا اِدراک، اُس سے تعلق جوڑنے کی طرف بہت سوں کو مزید توجہ پیدا ہو گی۔ اس علم کے ساتھ ہمیں اپنے عمل کو بھی صیقل کرتے چلے جانے کی اور ملانے کی ضرورت ہے۔ جو کچھ حاصل کیا، اُس کو سنبھالنے اور اُس سے فیض اُٹھاتے چلے جانے کی ضرورت ہے۔ اپنے ہر عمل میں دوام اور باقاعدگی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان برکات کو سمیٹنے کے لئے اس جلسہ کو بھی فضلِ الٰہی سمجھنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

انتظامی لحاظ سے بھی بعض باتیں کہنی چاہتا ہوں۔ یہ خیال رکھیں کہ جلسہ سالانہ میں آتے وقت بھی اور یہاں سے واپسی پر بھی جو لوگ کاروں پر آ رہے ہیں، کاروں کی پارکنگ کی جگہوں پر اور نہ ہی پارکنگ سے جلسہ گاہ آتے ہوئے کیونکہ جو دور پارکنگ ہے، وہاں سے بعض پارکنگ کر کے اب بسوں کے ذریعے سے آئیں گے اور پھر یہاں سے بسوں کے ذریعہ سے ہی جائیں گے تو آتے ہوئے اور جاتے ہوئے اور پارکنگ کے وقت جب پارکنگ کر رہے ہوں، کسی قسم کا رَش نہیں ہونا چاہئے۔ باقاعدہ ایک انتظام کے تحت، ایک لائن کے تحت، ایک تنظیم کے تحت ہمیں چلنا چاہئے۔

اسی طرح جلسہ گاہ میں داخل ہوتے ہوئے جہاں چیکنگ اور سکینرز وغیرہ لگے ہوئے ہیں وہاں بھی یہ احتیاط کریں کہ لائنوں میں اور ترتیب سے آئیں۔ کیونکہ جہاں بھی لائنیں توڑیں گے، بدانتظامی پیدا ہوتی ہے اور پھر دیر بھی لگتی ہے، پھر شکوے بھی بڑھتے ہیں۔ آپ کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔ انتظامیہ کے لئے پریشانی کا باعث بھی بنتا ہے۔ اسی طرح سامان کی چیکنگ بھی جب کی جاتی ہے توبعض شکایتیں مجھ تک پہنچی ہیں کہ بعضوں کو شکوہ ہوجاتا ہے۔ اُن کو چیکنگ کروا لینی چاہئے۔ یہ آپ کے فائدہ کے لئے ہی ہے۔

اور جیسا کہ میں ہمیشہ ہر جلسہ پر اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہر شاملِ جلسہ کو جلسہ میں بیٹھے ہوئے یہاں ہر مرد اور عورت کو اپنے ماحول پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم محتاط ہو کر ہر طرف نظر رکھنے والے ہوں گے تو یہ سب سے بڑا سیکیورٹی کا نظام ہے جو اس وقت جماعت احمدیہ میں ہے اور جو دنیا میں کہیں اور نہیں مل سکتا۔ یہ جماعت احمدیہ کا ہی خاصہ ہے۔ پس اس میں بھی کبھی ڈھیلے نہ ہوں۔ لاپرواہی نہ کریں۔ کسی کی بھی مشکوک حرکت پر انتظامیہ کو اطلاع کریں۔ کسی جگہ کوئی تھیلا وغیرہ یا کوئی بیگ پڑا ہوا دیکھیں تو ڈیوٹی والوں کو آگاہ کریں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس دفعہ کیونکہ جلسہ کی تاریخیں مختلف ہیں، رات کے و قت جو یہاں ٹینٹ لگاکر یا اجتماعی قیامگاہ میں رہنے والے ہیں، اُن کو رات کو سردی کا احساس ہو گا کیونکہ ٹھنڈ زیادہ ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی طبیعت نازک بھی ہوتی ہے۔ اس لئے ایک تو گرم کپڑے پہن کر سوئیں اور رضائیوں کا، quilt وغیرہ کا انتظام تو یہاں ہے جو نہیں لے کر آئے وہ بھی نیچے لے لیں۔ ایک دو سال ہی یہ مجبوری ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر اپنے وقت میں جلسہ آجائے گا۔

کارکنان کو میں پہلے ہی توجہ دلا چکا ہوں کہ اُن کے فرائض کیا ہیں؟ مہمان کی مہمان نوازی کا حق ادا کریں۔ ہر شعبہ ہمیشہ کی طرح بے لوث ہو کر خدمت کرے۔

پھر صفائی کے بارے میں بھی اور خاص طور پر ٹائلٹس کے بارے میں شکایتیں بہت زیادہ آتی ہیں۔ اگر عمومی طور پر نہیں تو بعض نفیس طبائع ایسی ہوتی ہیں جو ذرا سی بھی گندگی برداشت نہیں کر سکتے۔ اس لئے جہاں ان کی صفائی کا انتظام رکھنا انتظامیہ کا کام ہے، وہاں لوگوں کو بھی چاہئے کہ استعمال کے بعد اپنی جگہ صاف کر کے باہر نکلیں۔ گو اس دفعہ اس انتظام کے لئے ایک علیحدہ ٹیم بھی بنا دی گئی ہے، اب امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ بہتر انتظام ہوگا لیکن پھر بھی صفائی کا انتظام ہونا چاہئے۔ کیونکہ صفائی بھی یاد رکھیں کہ معمولی چیز نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے یہ ایمان کا حصہ ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث نمبر 534)

پس ایک مومن کو ہر طرح سے اپنے ایمان کے معیار اونچے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اور افرادِ جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ نمازوں اور نوافل اور دعاؤں پر زور دیں۔ ان دنوں میں خاص طور پر درود، دعائیں، نوافل وغیرہ کی ادائیگی کی طرف بہت توجہ دیں۔ اجتماعی تہجد کا یہاں انتظام ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ یہاں آئیں جو گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ اپنے گھروں میں تہجد کی باقاعدگی اختیار کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے غیر معمولی نظارے ہمیں دکھائے۔

پاکستانی احمدیوں کو بھی خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اُن پر ظلموں کی اب انتہا ہو رہی ہے جیسا کہ مَیں نے کہا۔ اب کل بھی وہاں ایک شہادت ہوئی ہے اور ایک اَور شخص پر بھی فائر ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ بچ گئے۔ باقی دنیا کے احمدیوں کو بھی جہاں جہاں بھی اُن پر ظلم ہو رہا ہے اُن کو دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ان ظالموں کی پکڑ کے سامان پیدا فرمائے اور دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کی پہچان کرنے والی بن جائے۔

اس وقت جیسا کہ مَیں نے کہا ایک شہادت ہوئی ہے۔ ان شہید کا جنازہ غائب بھی ہم پڑھیں گے اور اس کے ساتھ ہی بعض اور جنازے بھی ہیں۔ یہ شہید مکرم راؤ عبدالغفار صاحب ابن مکرم محمد تحسین صاحب ہیں جن کو کل 6؍ ستمبر 2012ء کو شہید کردیا گیا۔ یہ چاکیواڑہ میں اپنے ایک سکول میں کام کرتے تھے جہاں پڑھانے کے بعد شام کو پانچ بجے گھر واپس آنے کے لئے وہاں سے نکلے ہیں اور بس میں سوار ہونے لگے ہیں تو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے آپ پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں دو فائر آپ کو لگے۔ ایک گولی کندھے میں لگی اور دوسری گردن سے پیچھے سے لگ کر سر سے نکل گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر بیالیس سال تھی۔ شہید مرحوم نے جنوری 2012ء سے وصیت کی ہوئی تھی۔ گو وصیت منظور نہیں تھی تاہم اپنی وصیت کا چندہ دے رہے تھے۔ جماعتی خدمات تھیں۔ زعیم انصاراللہ حلقہ تھے۔ سیکرٹری خصوصی تحریکات تھے۔ نہایت مخلص احمدی تھے۔ نہایت نیک سیرت اور آپ کو دعوت الی اللہ کا بے حد شوق تھا، اسی طرح آپ کا اور آپ کی فیملی کا جماعت سے بہت پختہ تعلق تھا۔ انتہائی خوش اخلاق، ملنسار، دعا گو شخص تھے۔ خلافت سے گہری محبت رکھتے۔ کسی بھی تحریک میں جو خلیفۂ وقت کی طرف سے ہوتی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ 1995ء میں آپ کی شادی شازیہ کلثوم صاحبہ بنت رانا عبدالغفار صاحب کے ساتھ ہوئی تھی۔ ان سے آپ کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ انہوں نے بھی اور ان کی ہمشیرہ نے بھی 1988ء میں مباہلے کا نتیجہ دیکھ کر، ضیاء الحق کا انجام دیکھ کر اُس وقت بیعت کی تھی۔ ان کی والدہ ان سے پہلے احمدی ہو چکی تھیں اور ان کے ذریعے سے ان کے خاندان میں پھر احمدیت کا تعارف ہوا اور بڑھتا چلا گیا۔ ان کی بہن کہتی ہیں کہ میں نے آٹھ سال قبل خواب میں دیکھا کہ ان کو گولی لگی ہے اور ختم ہو گئے ہیں لیکن جب قریب گئی تو کیا دیکھتی ہیں کہ زندہ ہیں۔ یقینا یہ شہادت کا درجہ تھا جو ان کو ملنے والا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا ہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں اور نہ تم اس کو مردہ کہو۔ اسی طرح ایک خواب ان کی بیٹی نے اور ان کی اہلیہ نے بھی دیکھی تھی۔ وہ بھی ان کی شہادت سے تعلق رکھتی ہے۔ اہلیہ نے یہ خواب ان کو سنائی تو انہیں تاکید کی کہ اگر مَیں شہید ہو جاؤں تو تم نے رونا دھونا نہیں۔ اسی طرح ان کے واقف بتاتے ہیں کہ اتوار کو احمدیہ ہال کراچی میں میٹنگ تھی، گھر واپس آتے ہوئے راستے میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو کہہ رہے تھے کہ موت تو سب کو ہی آنی ہے لیکن میری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت کی موت دے۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند سے بلند فرماتا چلا جائے۔ اور ان کی نسلوں میں ہمیشہ خلافت سے وفا کاتعلق قائم رہے۔ ان کا ایک بیٹا جامعہ احمدیہ ربوہ میں پڑھ رہا ہے۔ دوسرا میٹرک میں چودہ سال کا ہے۔ پھر دس سال کی اور ایک سات سال کی بچی ہے۔

دوسرا جنازہ غائب جو آج میں پڑھوں گا وہ مکرمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ اور حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ کی بیٹی تھیں۔ جون 1927ء میں پیدا ہوئیں اور یکم ستمبر کو طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں ان کا انتقال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ کا بچپن قادیان میں گزرا اور بڑے دینی ماحول میں گزرا۔ وہیں پرورش پائی۔ وہیں تعلیم حاصل کی۔ پارٹیشن کے وقت جبکہ آپ کی عمر بیس سال کی تھی قادیان سے ہجرت کر کے لاہور آ گئیں۔ قادیان میں بھی کچھ ناصرات میں اور لجنہ میں خدمات کرتی رہیں، یہاں بھی ان کی کچھ خدمات ہیں۔ یہ مرزا غلام قادر شہید کی والدہ تھیں۔ یہ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں جو میں سمجھتا ہوں بیان کرنا ضروری ہے۔ کہتی ہیں کہ غلام قادر شہید کی شہادت کے بعد ایک پرانا مڑا تُڑا کاغذ میرے سامنے ہے جو یادنہیں مگر بارہ پندرہ سال پرانا ہے جس پر ایک دعا لکھی ہے جسے مَیں نے شعروں میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی۔ مگر میں شاعرہ نہیں ہوں۔ جذبات میں بہہ کر کہنے کی کوشش کی تھی مگر کہہ نہ سکی۔ اس دعا کے دو اشعار درج ہیں۔ وہ یہ شعر ہیں کہ

ایک دوسرے سے بڑھ کر ہوں آب و تاب میں

چمکیں یہ آسمان پر جیسے کہ ہوں ستارے

نسلوں میں ان کی پیدا اہل وقار ہوویں

یہ التجا ہے میری کر لے قبول پیارے

کہتی ہیں کہ یہ اشعار شاید وزن اور بحر سے خالی ہوں مگر میرے دل کے جذبات سے پُر ہیں۔ جو کچھ میں نے لکھا وہ نثر میں یوں ہے کہ اے خدا! ہمیشہ میری دعا رہی ہے کہ میری گود کے پالے تجھ پر نثار ہوں۔ اے خدا! جب وقت آئے تو فکرِ فردا اُنہیں سرفروشی سے باز نہ رکھے۔ میرے رب! تیرا اذن نہ ہو تو خواہشیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں۔ تیرے حکم کے بغیر کوئی تہی دامن کا دامن نہیں بھر سکتا۔ میرے خدا! میری دعا سن لے اور میرے بیٹے ایک دوسرے سے بڑھ کر آب و تاب میں ہوں۔ آسمان پر چاند ستاروں کی طرح چمکیں، اُن کی نسلوں سے فخرِ دیار اور اہلِ وفا پیدا ہوں۔ میری تو التجا ہے، قبول کرنے والا تو ہی ہے۔ اے کاتبِ تقدیر! میرے بچوں کے لئے عمر و دولت، ارادت و سعادت لکھ دے۔ کہتی ہیں قادر کی قربانی سے چند دن پہلے میرے پرانے کاغذات سے یہ دعا نکلی۔ خدا جانے کس جذبے سے میں نے کی تھی جو قبول ہو ئی۔ چند لمحوں کے لئے میرا دل کانپا کہ اللہ! میں نے تو اس کے لئے جانی قربانی مانگی ہے۔ اندر سے ایک مامتا بولی کہ یا اللہ! چھوٹی عمر میں ان سے یا مجھ سے قربانی نہ لینا اور میں دعا مانگنے لگی یا اللہ! عمر دراز دینا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ میری دعا قبول ہو چکی ہے اور جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ قربانی لینا چاہتا ہے اور خدا کا یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ جوانی میں میرا بچہ مجھ سے لے لے گا۔ بہرحال جتنی بڑی قربانی ہو گی اُتنا ہی بڑا اجر ہو گا‘‘۔ (کتاب ’’مرزا غلام قادر احمد‘‘ مصنفہ امۃ الباری ناصر صاحبہ صفحہ 223-224شائع کردہ لجنہ اماء اللہ کراچی)

اور بیٹے کی شہادت پر انہوں نے بڑا صبر دکھایا۔ میں خود بھی اس کا گواہ ہوں۔ بڑے صبر اور حوصلے سے یہ صدمہ برداشت کیا۔ جب میں افسوس کرنے ان کے پاس گیا تو بڑے مسکرا کر انہوں نے قادر شہید کی خوبیوں کا ذکر کیا اور بڑا حوصلہ دکھایا۔ مجھ سے خط و کتابت رکھتی تھیں اور جو آخری خط مجھے لکھا اُس میں بھی یہی فقرہ تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور میری اولاد کو بھی تقویٰ عطا فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کی دعاؤں کے وارث ہوں اور آپ کی نسل ہونے کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ یہ دعا ان کی ساری اولاد میں اور سارے خاندان کے بارے میں پوری ہو۔

جیسا کہ مَیں نے کہا آپ قادر شہید کی والدہ تھیں۔ آپ کی خواہش تھی کہ ان کے بیٹے وقف ہوں۔ دو بیٹے ہیں تو قادر شہیدنے زندگی وقف کی اور پھر شہادت کا مقام بھی پایا۔ ان کو قادر شہید سے بڑی محبت تھی۔ ہر جگہ گھر میں مختلف جگہوں پر اس کی تصویریں لگائی ہوئی تھیں۔ صبر اور حوصلے کی مَیں نے بات کی ہے، جب قادر شہید کا جنازہ اُٹھا ہے تو اُس وقت بھی بجائے رونے دھونے کے ان کے یہ الفاظ تھے کہ جزاک اللہ قادر، جزاک اللہ قادر۔ یعنی ان کے بیٹے قادر نے بڑا مقام دلا دیا ہے کہ شہید کی ماں کہلائی ہیں اور ان کی خواہش پوری ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ ان کے خاوند مکرم صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب بھی بیمار ہیں اور بوڑھے بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کی اولاد کو جیسا کہ میں نے کہا ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ایک جنازہ جو اس وقت ادا کیا جائے گا وہ مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب سابق امیر ضلع بہاولپور کا ہے۔ مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب، چوہدری نور محمد صاحب جو ہوشیار پور کے رہنے والے تھے۔ اُن کے بیٹے تھے۔ 1933ء میں پیدا ہوئے اور 28؍اگست کو ان کا انتقال ہوا۔ بی ایس سی سول انجینئرنگ کے بعد یہ محکمہ نہر میں ملازم ہوئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے 65ء سے 67ء تک بطور قائد خدام الاحمدیہ ضلع رحیم یار خان پھر 75ء سے 80ء تک صدر جماعت احمدیہ اور 83ء سے 2004ء تک امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع بہاولپور خدمت کی توفیق پائی۔ 2004ء میں ہجرت کر کے ربوہ آ گئے۔ ان کو وہاں 74ء میں مخالفین کی مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کی ڈائری کا ایک ورق ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 1974ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف سارے پاکستان میں شدید مخالفت شروع ہو گئی۔ ان دنوں مَیں بہاولپور میں چھوٹے بھائی بشیر صاحب کے پٹرول پمپ کی دیکھ بھال کر رہا تھا، کیونکہ بشیر صاحب آپریشن کی وجہ سے بیمار تھے اور 74ء کے فسادات کی وجہ سے مولویوں نے وہاں پکٹنگ (Picting) کر دی تھی اور کسی کو پٹرول پمپ میں آنے نہیں دیتے تھے۔ کفن پوش نوجوانوں کی لائن آگے، پٹرول پمپ کے راستوں پر کھڑی کر دی تھی۔ وہاں ایک احمدی نوجوان پٹرول ڈلوانے کے لئے آیا تو اُس کا موٹر سائیکل لے کر جلا دیا۔ ان پر بڑا ظلم کیا۔ تیل وغیرہ پھینکا، گالیاں دیتے تھے اور ظلم کئے۔ بہر حال اس لحاظ سے بھی ان کو یہ تکالیف برداشت کرنے کی بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔ ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ آخری وقت تک جماعتی خدمات بجا لاتے رہے۔ کیونکہ ان کو قضا میں قاضی مقرر کیا گیا تھا، شدید بیماری کے باوجود قضا کا آخری فیصلہ لکھا اور اس کو دھاگہ سے باندھ کر مجھ کو دیا اور تاکید فرمائی کہ اسے کوئی نہ پڑھے اور دفتر قضا میں بھجوا دینا۔ آخری بیماری میں بہت زیادہ تکلیف تھی اور بولنا بھی مشکل تھا۔ میں نے آپ سے کہاکہ بہت زیادہ بیمار ہیں، حضرت صاحب کو لکھ دیں کہ میں اب بیماری کی وجہ سے کام نہیں کرسکتا۔ تو انہوں نے کہا کہ مجھے انہوں نے مقرر فرمایا ہے۔ جب تک دَ م ہے کرتا رہوں گا۔ اور بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کو بھی نیکیوں میں بڑھائے۔

اور آخری جنازے کا جو اعلان ہے وہ مکرم فراس محمود صاحب آف سیریا کا ہے۔ آجکل وہاں جو فسادات ہو رہے ہیں اُن فسادات کی وجہ سے دمشق کے مضافاتی علاقے میں ان کی شہادت ہوئی ہے۔ ان کی لاش کا پہلے پتہ نہیں لگ رہا تھا۔ ان کی لاش 30 اگست کو ملی اور جب دفنانے کی کوشش کی گئی تو زمین پتھریلی تھی اس لئے دفنا نہیں سکے۔ قبر نہیں کھود سکے تھے۔ پھراگلے دن وہاں کے رہائشیوں نے اس فساد میں جو باقی مرنے والے تھے، شہید ہونے والے تھے اُن کوجب دفنایا تو اِن کو بھی وہاں دفنا دیا گیا۔ انہوں نے آٹھ مہینے پہلے بیعت کی تھی۔ پینتیس سال ان کی عمر تھی۔ مزدوری کرتے تھے اور آٹھ مہینے میں انہوں نے بڑی وفا سے احمدیت کے ساتھ تعلق اور بیعت کے ساتھ تعلق کو نبھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بھی بلند فرمائے اور مغفرت کا سلوک فرمائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ان سب کی نمازِ جنازہ، نمازِ جمعہ کے بعد ہو گی۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ ستمبر 2012ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جلسہ کے قیام کا بنیادی مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ ایسی جماعت تیار ہو جو خدا تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنے والی ہو۔ خدا تعالیٰ کا خوف اُن میں پیدا ہو۔ زُہد اور تقویٰ اُن میں پیدا ہو۔ خدا ترسی کی عادت اُن میں پیدا ہو۔ آپس کا محبت اور پیار اُن میں پیدا ہو۔ وہ نرم دلی اور باہم محبت کا اعلیٰ معیار حاصل کرنے والے ہوں۔ بھائی چارے کی مثال بن کر رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا نمونہ بن جائیں۔ انکسار، عاجزی اُن کا شیوہ ہو۔ سچائی کے ایسے اعلیٰ معیار قائم ہوں جس کی مثال نہ مل سکے۔ اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کے لئے اُن کے دل میں ایک تڑپ ہو جس کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کی قربانی کے لئے ہر وقت تیار ہوں۔ پس جو لوگ جلسہ میں شمولیت کے لئے آئے ہیں، اُنہیں ان باتوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے جلسہ کے اس مقصد کو پورا کر رہے ہیں؟

    (جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ میں شامل ہونے والے تمام افراد کو اور انتظامیہ کو نہایت اہم ہدایات)

    مکرم راؤ عبدالغفار صاحب ابن مکرم محمد تحسین صاحب (کراچی) کی شہادت، مکرمہ صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ بنت حضرت سیدہ نواب امۃ الحفیظ بیگم صاحبہؓ و حضرت نواب عبداللہ خان صاحبؓ، مکرم چوہدری نذیر احمد صاحب سابق امیر ضلع بہاولپور اور مکرم فراس محمود صاحب آف سیریا کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 7؍ستمبر 2012ء بمطابق 7؍تبوک 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور