اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا سلسلہ
خطبہ جمعہ 14؍ ستمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
جماعت احمدیہ یوکے کے جلسہ سالانہ کا دنیا کو بڑا انتظار رہتا ہے۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ یہاں خلافت کی وجہ سے اس کی مرکزی حیثیت ہے۔ اور پھر جغرافیائی صورت کی وجہ سے دنیا کی اکثریت یہاں کے جلسے کے پروگراموں سے زیادہ فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ یوں تو جرمنی اور یورپ کے بعض ممالک بھی وقت کی لائن کے لحاظ سے اس کے قریب ترین ہیں لیکن لندن کے وقت کا اندازہ دنیا کو زیادہ ہے یا آسان سمجھا جاتا ہے کیونکہ ایک لمبا عرصہ انگریزوں نے دنیا کے بہت سارے ممالک میں حکومت بھی کی ہے۔ پھر لندن ایک ایسی جگہ ہے جہاں لوگوں کا آنا بھی آسان ہے۔ اور وہ نسبتاً آسانی سے آ جاتے ہیں۔ اور پھر یہاں کی یہ بھی اہمیت ہے کہ اس آسانی سے آنے کی وجہ سے بین الاقوامی نمائندگی بھی یہاں زیادہ ہوتی ہے۔
بہر حال یوکے کے جلسہ سالانہ کی اہمیت اپنی جگہ واضح ہے اور ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دنوں اتوار کو یہ جلسہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر و خوبی اپنے اختتام کو پہنچا۔ الحمد للہ۔ جلسہ کے بعدکے خطبہ میں مَیں عموماً دو مضامین کا ذکر کرتا ہوں۔ ایک تو شکرگزاری کا مضمون ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری بھی ہوتی ہے اور کارکنوں کے لئے بھی شکریہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ دوسرے بعض کمیوں اور کمزوریوں کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے۔ جن کے بارے میں جلسہ کے دوران پتہ لگتا ہے تا کہ آئندہ کے لئے بہتر صورتحال پیدا ہو سکے اور ان کمزوریوں کو دور کیا جا سکے۔
جہاں تک خدا تعالیٰ کی شکرگزاری کا سوال ہے، اس سال میں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر جگہ جماعت کو ایسے مواقع مہیا فرمائے جن سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں اور ایسے طبقے میں جہاں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچانا مشکل نظر آتا ہے، وہاں بھی احمدیت کا پیغام پہنچانے کی جماعت کو توفیق ملی۔ اور میرے مختلف ممالک کے دوروں کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل کے نظارے ہم نے دیکھے جن کا ذکر میں دوروں کے دوران اور اس کے بعد کے خطبات میں کر چکا ہوں۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا یہ سلسلہ اس سال ایک نئی شان سے یورپ میں بھی اور افریقہ میں بھی، امریکہ میں بھی اور ہندوستان میں بھی ہمیں نظر آیا۔ اور جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ میں بھی ہر ایک نے مشاہدہ کیا اور محسوس کیا اور ان فضلوں کو حاصل کرنے والے بھی بنے۔ ہر دن اور ہر موقع شکرگزاری کی نئی راہیں ہمیں دکھاتا ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ شکرگزاری کی ان راہوں پر چلنے والا بنیں۔ ہر انعام و فضل اور اللہ تعالیٰ کی جماعت کے لئے تائید و نصرت ہمیشہ ہمیں شکرگزاری کی نئی منزلیں دکھانے والا بھی ہو۔ اور ہم اُس شکرگزاری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے مزید انعاموں اور فضلوں کے وارث بننے والے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ اگر شکر گزار بنو گے تو اور انعامات ملیں گے۔ فرمایا لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ (ابراہیم: 8)۔ اللہ تعالیٰ تو نوازتا ہے اور نوازنے کے موقعے عطا فرماتا ہے۔ یہ انسان ہے جو ناشکری کی وجہ سے بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کے انعامات سے محروم رہ جاتا ہے۔ پس یہ شکرگزاری بھی انسان کو ہی فائدہ دیتی ہے جو ایک مومن اللہ تعالیٰ کی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، بے احتیاج ہے، نہ ہی اُسے کسی کی مدد کی ضرورت ہے، نہ ہی کسی انعام کی ضرورت ہے، نہ ہی بندوں کے شکریہ کی ضرورت ہے۔ وہ تمام تر دولتوں اور طاقتوں کا مالک ہے۔ پس ایسی ہستی کو ہماری شکر گزاری یا ہمارے شکرگزار ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن اللہ تعالیٰ جب انسانوں پر اپنا فضل نازل فرماتا ہے تو یہ بھی دیکھتا ہے کہ وہ شکرگزار بھی ہوتے ہیں یا نہیں۔ اگر شکرگزار ہو جائیں تو فضل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں مثلاً حضرت سلیمان کے حوالے سے بھی اس کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کو دیکھ کر کہا کہ
لِیَبْلُوَنِیْ ءَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ۔ وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ (النمل: 41) تاکہ کہ وہ مجھے آزمائے مَیں شکر کرتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوں۔ اور جو شکر کرے وہ اپنی جان کے فائدے کے لئے ایسا کرتا ہے اور جو نا شکری کرے تو یقینا میرا ربّ بے نیاز ہے اور صاحبِ اکرام ہے۔ وہی ہے جو فضل فرمانے والا ہے۔ پس یہ شکرگزاری انعامات لینے اور اعلیٰ خُلق کے اظہار سکھانے کے لئے ہے۔ شکر کرو گے تو اَور انعامات ملیں گے۔ تمہارے اخلاق بہتر ہوں گے۔ لیکن ایک دنیا دار انسان کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو خوشی اور انعامات کے وقت بھول جاتا ہے۔ پہلے اللہ یاد رہتا ہے اور جب مل جائے تو بھول جاتا ہے۔ بعض دفعہ نفس کہتا ہے کہ یہ سب کامیابی تمہاری محنت کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تمہاری اچھی پلاننگ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ تمہارے کام کرنے والوں کی ٹیم کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ(سبا: 14) کہ میرے بندوں میں سے بہت کم شکرگزار ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقی مومن یقینا اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوتا ہے۔ ہم احمدی جنہوں نے زمانے کے امام کو مانا ہے، ہم تو اللہ تعالیٰ کے اُن بندوں میں ہیں جو خدا تعالیٰ کے شکرگزار ہیں اور ہونا چاہئے۔ ہر فضل پر اَلحَمْدُ لِلّٰہ پڑھتے ہیں اور اُس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے افسران سے لے کر عام کارکن تک کئی ایسے مخلص دیکھے ہیں جو بڑے جذباتی انداز میں آنکھوں سے آنسو بہاتے ہوئے اپنی کامیابی کو، کام کی بہتری کو اللہ تعالیٰ کے فضل کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ پس جب تک ہم میں ایسے عبدِ شکور پیدا ہوتے رہیں گے اور ہم عبدِ شکور بنے رہیں گے تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو برستا دیکھتے رہیں گے۔ ہماری زبانیں جب تک اَلحَمْدُ لِلّٰہ کے الفاظ سے تَر رہیں گی اور ہمارے دل اُس کے فضلوں پر اُس کے حضور سجدہ ریز رہیں گے، ہم اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔
پس ہر کارکن، ہر افسر اور جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی اور ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں جلسہ میں شامل ہونے والا ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ترانے گائے، اللہ تعالیٰ کی شکرگزاری کرتے ہوئے سجدہ ریز ہو جائے۔ جس خلوص سے ہمارے سجدے ہوں گے اور ہم سجدے کرنے والے بنیں گے اور شکرگزار ہوں گے تو اُسی قدر شدت سے اللہ تعالیٰ کے انعامات کی ہم پر بارش ہو گی، اُسی تیزی سے ہمارے قدم ترقی کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی صفات کاہمیں ادراک ہو گا۔ اُن کا فیض ہم پر جاری ہو گا اور یوں اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شکر کرنے والے نئے سے نئے نشانات دیکھتے ہیں۔ آج ہم کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش اور نشانات کا سلسلہ جماعت احمدیہ ہی دیکھ رہی ہے۔ ورنہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کی جو انسانی کوششیں ہیں اور جو عددی برتری ہمارے مخالفین ہم پر رکھتے ہیں، جو دولت کے ذخائر ہمارے مخالفین کے پاس ہیں، جو مالی وسائل، مادی وسائل اُن کے ہیں۔ جس طرح حکومتیں ہمیں ختم کرنے پر کمربستہ ہیں اور کوششیں کر رہی ہیں، جس طرح اللہ اور رسول کے نام پر بے علم عوام کو ہمارے خلاف بھڑکایا جاتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں تو یہ انتہا ہوئی ہوئی ہے، گویا کہ اس وقت مخالفینِ احمدیت کوئی بھی دقیقہ احمدیت کو ختم کرنے کا نہیں چھوڑ رہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کا مسلسل فضل اور نشانات کا سلسلہ نہ ہوتا تو یہ دنیاوی کوششیں کب کی جماعت کو ختم کر چکی ہوتیں۔ یہ کم عقل نہیں سمجھتے کہ اس زمانے میں شکرگزاروں کی یہی ایک جماعت ہے جو جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو دیکھتے ہوئے شکرگزاری کے جذبات سے سجدہ ریز ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو مزید کھینچ لاتی ہے اور جب سجدے سے سر اُٹھا کران فضلوں کو دیکھتی ہے تو دوبارہ حمد و شکر کے جذبے سے سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔ یہی اُسوہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے کہ اس طرح شکر گزاری کرو۔ اور پھر اللہ تعالیٰ جو نہ ختم ہونے والے خزانوں کا مالک ہے، وہ اپنے انعاموں کو بھی اتارتا چلا جاتا ہے۔ پس یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری ہے۔ کاش ہمارے مخالفین اس حقیقت کو سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کرنا چھوڑ دیں۔ اس سال اللہ تعالیٰ نے انعامات کی جو بارش کی ہے، ان میں سے کس کس کا ذکر کیا جائے۔ کہاں سے وہ زبانیں لائیں جو خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا حق ادا کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فقرہ ہے کہ:
وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار
پس اللہ تعالیٰ کے لئے شکر گزاری کا یہ حق تو ہم ادا نہیں کر سکتے لیکن کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کرتے چلے جانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کو ہم حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔ اللہ کرے کہ نسلاً بعدنسلٍ یہ اہم مضمون ہمارے ذہنوں میں رہے اور ہمارے عمل اس کا اظہار کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر ایک سرسری سی نظر بھی ہم ڈالیں توہمیں ایک لمبی فہرست شکریہ وصول کرنے کے لئے تیار کھڑی نظر آتی ہے، یا ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم شکریہ ادا کریں۔ کہیں رپورٹس سن کر اور پڑھ کر ہمیں جماعت کے تحت چلنے والے سکولوں اور ہسپتالوں کی ترقی شکرگزاری پر مجبور کرتی ہے۔ کہیں ہمیں ہسپتالوں سے شفا پانے والے غریبوں کے پُرسکون چہرے اور جماعت کے لئے دعائیہ الفاظ شکرگزاری کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ کہیں خدمتِ انسانیت کے تحت غریبوں کو پینے کا پانی مہیا ہونے پر غریب بچوں کے چہروں کی خوشی اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف لے جاتی ہے۔ سات آٹھ سال کے ان بچوں کی خوشی جو اپنے گھروں کے استعمال کے لئے دو تین میل سے پانی لاتے تھے لیکن اب اُن کو اُن کے گھروں کے دروازوں پر پانی مہیا ہو گیا ہے اور اس پر وہ جماعت کا شکرگزار ہوتے ہیں تو پھر جماعت اس بات پر اللہ تعالیٰ کی شکرگزار ہوتی ہے۔ جب ہم کہیں جماعتی ترقی کی رپورٹ سنتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو عطا ہونے والے مشن ہاؤسز اور مساجد پر اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ کہیں ہم ایمان میں ترقی کے حیرت انگیز واقعات سن کر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ کبھی ہم تکمیلِ اشاعتِ دین کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہیا کردہ نظام اور اُس سے بھر پور فائدہ اُٹھانے پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوتے ہیں کہ اس زمانے میں اُس نے جماعت کو کیسی کیسی سہولتیں مہیا فرما دی ہیں جن کا تصور بھی آج سے بیس تیس سال پہلے ممکن نہیں تھا۔ کبھی ہم اس بات پر اللہ تعالیٰ کی حمد وتعریف کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہرسال کوئی نہ کوئی نیا ملک عطا فرما رہا ہے جہاں احمدیت کا پودا لگ رہا ہے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام کے پورا ہونے کو دیکھ رہے ہیں اور اس کے مصداق بن رہے ہیں کہ مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ کبھی ہم لاکھوں کی تعداد میں سعیدروحوں کے احمدیت قبول کرنے پر سجدہ شکر بجا لا رہے ہوتے ہیں کہ ایک طرف تو مخالف نے طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے، لیکن اُنہی میں سے ایسے لوگ بھی پیدا ہو رہے ہیں جن میں سے قطراتِ محبت ٹپک رہے ہیں اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے عاشقِ صادق پر بھی درود بھیج رہے ہیں اور کوئی ظلم اور مخالفت اُنہیں حق قبول کر سکنے سے نہیں روک سکی۔
پھر اس سال جلسہ کی حاضری کا خوف تھا کہ شاید گزشتہ سالوں کی نسبت نصف حاضری ہو گی کیونکہ سکول کھل گئے تھے، والدین کی مصروفیت ہو گئی تھی، وہ نہیں آ سکتے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا اور ہمیں شرمندہ کیا کہ تم جماعت کے افراد کے اخلاص و وفا کو انڈر ایسٹیمیٹ (Under Estimate) کر رہے ہو۔
پس کس کس طرح اللہ تعالیٰ کا ہم شکر کریں۔ ہر کارکن اور ہر شامل ہونے والا اس بات پر بھی اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہے کہ جلسہ ہر لحاظ سے کامیاب رہا بلکہ بعض تو ہمیں لکھتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ گزشتہ سالوں کی نسبت زیادہ بہتر لگا ہے اور ہر لحاظ سے زیادہ بہتر لگا ہے۔
پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ دیکھ کر ہم عبدِ شکور نہ بنیں۔ اور پھر اس بات پر بھی ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار ہیں کہ عمومی طور پر ہر شاملِ جلسہ صحت کی حالت میں رہا اور خیریت سے اپنے اپنے گھروں کو واپس پہنچا۔ یہ تو چند باتیں میں نے بیان کی ہیں، ان کی تفصیلات میں جاؤں تو کافی وقت چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے ہم پر جو فضل ہو رہے ہیں اس کے لئے صفحات کے صفحات بھر سکتے ہیں۔ غرض کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک سلسلہ ہے جو ہمیں شکرگزاری پر مجبور کرتا ہے، ہمیں شکر گزاری کا ادراک عطا کرتا ہے۔ یہ تو شکرگزاری کا وہ مضمون ہے جو انتظامیہ کے لئے بھی ہے، کارکنوں کے لئے بھی ہے اور ہر شاملِ جلسہ کے لئے بھی ہے کہ اگر اُس کا حقیقی عبد اور اُس کا حقیقی بندہ بننا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بنیں۔ جلسہ کے دنوں میں ایک ایسا سلسلہ بھی چلتا ہے جو بندوں کو بندوں کا شکرگزار بنانے والا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے اور اس میں کارکنان اور کارکنات جو جلسہ کے کام کر رہے ہوتے ہیں وہ شامل ہیں۔ جن میں مختلف شعبہ جات کے کارکنان ہیں جو ہمارے مہمانوں کے لئے رہائشی سہولتیں مہیا کرتے ہیں، نہانے دھونے کی سہولت مہیا کرتے ہیں، ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں، کھانے پکانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں، کھانا کھلانے کی سہولت بھی مہیا کرتے ہیں۔ پھر کھانے کے بعد کی صفائی کا انتظام ہے اُس کی سہولت مہیا کرتے ہیں۔ حفاظت کے انتظام کرتے ہیں۔ اس کے لئے خدام الاحمدیہ ہر وقت مستعد رہتی ہے۔ اس مرتبہ مجھے نئے آنے والے مہمانوں، جن میں غیر از جماعت اور بعض ملکوں کی بڑی شخصیات بھی تھیں، کے علاوہ ہر سال آنے والے بعض مہمانوں نے بھی بتایا کہ عمومی طور پرجلسہ سالانہ کا انتظام گزشتہ سال کی نسبت بہت بہتر تھا۔ اس پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکرگزار بھی ہیں اور اُن کارکنوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے اس کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ کافی بہتری مختلف شعبہ جات میں اس سال آئی ہے۔
پس یہی چیز ہے جو ہمارا خاص نشان ہونی چاہئے کہ ہمارے انتظام میں ہر سال بہتری ہو۔ انسانی کاموں میں کبھی یہ ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ اس میں سو فیصد پرفیکشن (Perfection) آ جائے گی، درستگی آ جائے گی، سو فیصد بہترین ہو سکتے ہیں۔ اور کوئی انسان بھی سو فیصد کامل نہیں ہو سکتا سوائے ایک انسان کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، کوئی ایسا انسان پیدا نہیں ہوا جو انسانِ کامل ہو۔ لیکن آپؐ بھی فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دینی معاملات میں تو کامل بنایا ہے، اُن دنیاوی معاملات میں نہیں جن میں اُس نے میری رہنمائی نہیں فرمائی۔
پس ایک انسان ہونے کی وجہ سے ہمارے کاموں میں کمیاں اور کمزوریاں تو ہوں گی لیکن اگر ہم ان کمزوریوں اور کمیوں کی اصلاح کے لئے تیار رہیں تو پھر ہمیشہ بہتری کی طرف ہمارے قدم بڑھتے رہیں گے۔ دنیا کو تو ہماری کوششیں یا ہمارے کام بہت اعلیٰ معیار کے لگتے ہیں لیکن ہمیں احساس ہونا چاہئے کہ بہتری کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے۔
نائیجیریا سے آئے ہوئے ایک چیف نے مجھے کہا کہ ان حالات میں جس طرح جلسہ کا ایک عارضی انتظام ہوا ہے، ایک پورا شہر بسایا جاتا ہے، اس سے زیادہ بہتری اور ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ ہم اس بات پر اُس مہمان کے شکرگزار تو ضرور ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ محض اور محض اُس کے فضل سے مہمان ہم سے خوش گیا ہے۔ لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ہماری انتہا تھی جو ہم نے حاصل کر لی۔ ہماری کوشش تو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔
اس مرتبہ غیر ملکی مہمانوں کو جن میں ایک کثیر تعداد غیر از جماعت مہمانوں کی بھی تھی، بجائے کرائے پر جگہ لینے یا ہوٹل کا انتظام کرنے کے جامعہ احمدیہ یوکے کی نئی عمارت میں ٹھہرایا گیا تھا۔ جامعہ احمدیہ یوکے کی نئی عمارت بھی چندماہ قبل ہی خریدی گئی ہے۔ یہ عمارت وسیع رہائشی انتظام کے علاوہ جگہ کے لحاظ سے بھی بہت خوبصورت مقام میں ہے۔ پہاڑیوں کے اوپر اور جنگل میں گھری ہوئی ہے لیکن آبادی کے بھی قریب ہے۔ پھر باہر سے آنے والوں کو عموماً مَیں کہا کرتا ہوں کہ اسے جا کر دیکھو۔ یہ جماعت کی ایک اچھی پراپرٹی بنی ہے۔ جو بھی یہ جگہ دیکھتا ہے تعریف کئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ بھی اللہ کے انعاموں میں سے ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس سال جماعت پر فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ جگہ ہمیں غیر معمولی طور پر کم قیمت پر مل گئی۔ یہ جگہ ہوٹل کے طور پر بھی اور اسی طرح مختلف کانفرنسوں کے لئے بھی استعمال ہوتی تھی۔ اس لئے ہمارے رہائش کے مقصد کو بھی اس نے احسن طریق پر پورا کیا۔ بہر حال ہمارے تمام غیر از جماعت معزز مہمان جن میں بعض ملکوں کے وزیر بھی شامل تھے، یہاں ٹھہرے اور انتظام اور جگہ کی بہت تعریف کی۔ ان معزز مہمانوں نے اپنے تاثرات میں مجھے یہ بھی کہا کہ ایک بچے سے لے کر جو جلسہ گاہ میں پانی پلا رہا تھا، بڑے تک ہر ایک کو میں نے یا ہم نے خدمت پر کمربستہ اور خوش مزاج دیکھا۔ تو یہ ان لوگوں کے تاثرات ہیں۔ کارکنان کو بھی ان مہمانوں کا شکرگزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے اُن کی صرف اچھائیاں دیکھی ہیں۔ ہر ایک میں کچھ نہ کچھ کمزوریاں تو ہوتی ہیں لیکن یہ بھی مہمانوں کی وسعتِ حوصلہ ہے کہ انہوں نے اپنے میزبانوں کا شکریہ احسن رنگ میں ادا کیا ہے۔ اور شکریہ کے انتہائی جذبات کے ساتھ اظہار کیا ہے۔ ہمیشہ کی طرح اس سال بھی غیر از جماعت مہمان ہمارے نظام، جلسہ کے ماحول، لوگوں کے حسن سلوک سے بہت متأثرہوئے ہیں۔ اس کے لئے بھی جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے، مَیں بھی کرتا ہوں اور ہر احمدی کو کرنا چاہئے، وہاں کارکنان کا بھی ہر شاملِ جلسہ کو شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ مَیں بھی اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے رات دن ایک کر کے اس جلسہ کے نظام کو خوب چلایا اور نبھایا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو بہترین جزا دے۔
اسی طرح عمومی طور پرانتظامیہ کو ہر شامل جلسہ کا بھی شکر گزار ہونا چاہئے کہ انہوں نے جلسہ کے مقصد کو سمجھا اور کارکنان اور انتظامیہ سے تعاون کیا تا کہ یہ سارا نظام خوبصورتی سے اور بغیر کسی بڑے مسئلہ کے چلتا رہے۔
عام مہمانوں نے اس مرتبہ جن باتوں کی عمومی تعریف کی ہے وہ غسل خانوں وغیرہ کا صفائی کا بہترین نظام تھا۔ مجھے اکثر نے لکھا کہ غسل خانوں میں گرم پانی کی سہولت بھی بہت اچھی تھی۔ اس سے پہلے وہ گرمی میں بھی ٹھنڈے پانی سے نہاتے تھے تو سردی لگتی تھی لیکن اس دفعہ ٹھنڈ کے باوجود گرم پانی کی وجہ سے اچھی طرح نہا سکے۔ اس مرتبہ اس پر خاص توجہ افسر جلسہ سالانہ نے دی تھی کہ صفائی کے نظام کے لئے ایک علیحدہ اور بہتر نظامت قائم کی جائے۔ الحمدللہ کہ یہ تجربہ جو انہوں نے کیا تھا وہ کامیاب رہا۔ دوسرے جلسہ گاہ میں آواز کی بھی عمومی طور پر لوگوں نے تعریف کی ہے۔ آواز پہنچانے کا نظام ایسا ہے جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ صحیح نہ ہو تو جلسہ پر آنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اللہ اور رسول کی باتیں سننے کے لئے لوگ آتے ہیں، اگر وہ نہ ہو تو پھر شور شرابہ ہی ہو گا، ایک میلہ ہی ہو گا۔ مردوں کی طرف مارکی کے مین حصہ میں سے تو عمومی طور پر اس نظام کے تسلی بخش ہونے کی ہی اطلاع ہے۔ گو عورتوں کی طرف سے مجھے ابھی تک کوئی شکایت تو نہیں پہنچی لیکن عورتوں کے سیشن میں جب مَیں خود وہاں گیا ہوں تو سٹیج پر آواز پہنچنے کا نظام بہت خراب تھا۔ مجھے تو بالکل تلاوت یا نظم کی صحیح طرح سمجھ نہیں آئی۔ اس طرف آئندہ انتظامیہ کو توجہ دینی چاہئے۔ اسی طرح مردوں کے سٹیج پر بیٹھے ہوؤں میں سے ایک شکایت مجھے آئی ہے کہ سٹیج پربعض تقاریر کی آواز صحیح نہیں آ رہی تھی، ، گو شکایت کرنے والے نے یہ بھی لکھ دیا کہ شاید میرے کانوں کا قصور ہو۔ لیکن میرا خیال ہے کانوں کا قصور نہیں تھا، سٹیج پر بہر حال انتظام صحیح نہیں ہوتا۔ جس طرح مارکی کے باقی حصوں میں اچھی آواز پہنچانے یا مارکی سے باہر اچھی آواز پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے سٹیج پر بھی اچھی آواز کا انتظام ہونا چاہئے۔ اگر یہ انتظام نہیں کر سکتے تو پھر لوگوں کو، مرکزی نمائندوں کو بھی جو قریباً اڑھائی تین سو لوگوں کو سٹیج پر بٹھایا جاتا ہے یہ نہ بٹھایا کریں۔ وہ پھر سامنے بیٹھ کر اچھی طرح سنیں۔ اسی طرح بچوں کی مارکی میں ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ کم از کم ایک حصہ میں تو ایسی اچھی آواز ہو کہ بچوں کی جو مائیں جلسہ سننا چاہتی ہوں وہ سن سکیں۔ عموماً یہ شکایت آتی ہے کہ بعض دفعہ شورکی وجہ سے بالکل آواز سمجھ نہیں آتی، حالانکہ لاؤڈ سپیکر کی آواز بہتر اور اونچی کی جا سکتی ہے۔ اس کے لئے اگر ٹیکنیکل مدد لینے کے لئے ضرورت ہے تو کسی پروفیشنل سے لینی چاہئے۔
ضمناً یہ بھی ذکر کر دوں کہ کینیڈا کے جلسہ پر آواز کے نظام کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی تو عید کے موقع پر انہوں نے اُنہی ہالوں میں جن میں جلسہ منعقد ہوتا ہے عید کا بھی انتظام کیا ہوا تھا اور اب مجھے لوگوں کی طرف سے اور انتظامیہ کی طرف سے بھی وہاں سے اطلاع آئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن کے اس نظام میں بہت بہتری پیدا ہوئی ہے، تقریباً نوّے پچانوے فیصد اس کی اصلاح ہو چکی ہے۔ صرف اس لئے کہ میرے کہنے کی وجہ سے انتظامیہ کی اس طرف توجہ پیدا ہوئی ہے جو پہلے پیدا نہیں ہو رہی تھی۔ انہوں نے بہتر پروفیشنلز کے ذریعہ سے اس دفعہ کام کروایا اور اس کا فائدہ ہوا۔ پس آواز کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ آواز کی کوالٹی پر بھی ہمیں بہت زور دینا چاہئے اور کبھی بھی اس پر کمپرومائز نہیں ہونا چاہئے۔ معمولی سی کمی کو بھی دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
مَیں نے کینیڈا کا اس لئے ذکر کر دیا کہ پہلے دو دفعہ اُن کا ذکر خطبوں میں آ چکا تھا جس کی وجہ سے انتظامیہ کافی پریشان تھی۔ اچھا کام کیا تو تھوڑی سی اُن کی تعریف بھی ہو جانی چاہئے۔
کھانے کا نظام بھی عموماً بہت اچھا رہا لیکن بعض دفعہ کھانا لیٹ ہو جاتا رہا ہے۔ میری اطلاع یہ ہے کہ ایک کھیپ نے کھانا کھا لیا تو دوسرے لوگوں کے آنے کے بعد کھانا آنے میں دیر ہو گئی، تقسیم میں دیر ہو گئی یا تیار نہیں تھے جو بھی وجہ تھی۔ افسر جلسہ سالانہ کو اس بارے میں تحقیق بھی کرنی چاہئے کہ کیوں ایسا ہوا اور اس کی طرف توجہ بھی دینی چاہئے۔ کھانا کھلانے والے تو اُسی وقت ہی کھانا کھلا سکتے ہیں اور مہمان نوازی کا حق ادا کر سکتے ہیں جب اُن کے پاس کھلانے کو بھی کچھ ہو۔ بیچارے نوجوان کارکن بعض دفعہ اس کمی کی وجہ سے خود بھی مہمانوں کے سامنے شرمندہ ہو رہے ہوتے تھے۔ اسی طرح کھانا کھلانے کی مارکی کی شکایت تو نہیں آئی لیکن ایک دن ایک کھانے کے وقت میں مَیں خود چیک کرنے چلا گیا تھا اور وہاں مَیں نے دیکھا کہ رَش کے وقت بمشکل لوگ کھڑے ہو کر کھانا کھا رہے تھے، ایک دوسرے میں بالکل پھنسے ہوئے تھے۔ جگہ تنگ تھی اور اس تنگ جگہ کی وجہ سے بعض دفعہ سالن وغیرہ بھی دوسروں کے کپڑوں پر گرنے کا احتمال ہوتا ہے جو ایک فریق کے لئے جہاں شرمندگی کا باعث بنتا ہے، وہاں بعض دفعہ بدمزگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لئے انتظامیہ اس کو نوٹ کرے اور آئندہ کے لئے کھانے کی مارکی بڑی ہونی چاہئے۔ میزوں کا فاصلہ ذرا زیادہ ہونا چاہئے۔ ایسی بچت جس سے مہمان کو تکلیف ہو اس کا ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہے، نہ ایسی بچت کرنی چاہئے۔
لجنہ کی طرف سے عمومی طور پر تو بڑی اچھی رپورٹ ملی ہے لیکن لجنہ کی مہمان نوازی کا ایک شعبہ خاص طور پر وہ جو تبشیر کے زیرِ انتظام تھا اور ایک لحاظ سے یہ مرکزی تھا، اسے لوکل مقامی لجنہ کا نہیں کہا جا سکتا، اس کے متعلق مجھے رپورٹ ملی ہے کہ یہاں غلط قسم کی سختی کی گئی اور بدتمیزی کی گئی ہے جو غیر ملکی مہمانوں سے، خاص طور پر عربوں سے کی گئی۔ یہ شکایت ملی ہے کہ کھانا ڈالنے کے لئے آنے والیوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔ دعوت والے دن بھی جب تبشیر کی دعوت ہوتی ہے سنگاپور سے ایک مہمان آئی تھیں۔ اُسی وقت پہنچی تھیں یا کسی اور وجہ سے اُن کے ہاتھ میں بیگ تھا، وِیلر تھا تو اُن سے بدسلوکی کی گئی۔ آرام سے بھی سمجھایا جا سکتا تھا۔ اگر روکنا تھا تو شریفانہ طریقے سے کہا جا سکتا تھا کہ (وِیلر) اندر نہ لائیں یا ایک جگہ رکھ دیں۔ اُن سے لے کے رکھا جا سکتا تھا۔ بہرحال اس میں جلسہ سالانہ کی انتظامیہ سے زیادہ تبشیر کی انتظامیہ کا قصور ہے۔ اس لئے اُن کو بھی اس بارے میں اُن لوگوں سے معافی مانگنی چاہئے اور استغفار کرنی چاہئے۔
عربوں میں خاص طورپر زبان کا مسئلہ ہوتا ہے، دوسروں میں بھی، سنگا پور، انڈونیشیا وغیرہ سے یا دوسرے ملکوں سے بھی مہمان مرد عورتیں آتی ہیں، ہر جگہ جہاں زبان کا مسئلہ ہے، وہاں بڑی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک یہ شکایت جو پہلے بہت زیادہ ہوتی تھی، اس دفعہ تو اِکاّ دُکاّ ہی ہے کہ جب بعض مائیں اپنے بچوں کو مین مارکی میں لے آتی ہیں تو بجائے اس کے کہ ماؤں کو روکا جائے، ڈسپلن قائم کرنے والی عورتیں بچوں کو پکڑ کر گھسیٹ کر باہر لے جاتی ہیں۔ یہ نہایت غلط طریق ہے۔ تمام عمر کے لئے اس طرح بچے کو دہشت زدہ کرنے والی بات ہے۔ اور پھر اسی طرح جلسوں سے متنفر کرنے والی بات ہے۔ پانچ چھ سال کے بچے اگر مین مارکی میں آ بھی جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ عموماً اس عمر کے بچے شور نہیں کرتے یا ماں باپ کے کہنے پر، اِکاّ دُکاّ ہوں تو قابو میں آ جاتے ہیں، خاص طور پر لڑکیاں تو کافی شرافت دکھاتی ہیں۔ بہرحال اگر پھر بھی ان سے شور سنیں تو آرام سے ماؤں کو کہیں کہ بچے کو لے کر باہر چلی جائیں لیکن بچے پر ڈیوٹی والیوں کو کسی قسم کی سختی نہیں کرنی چاہئے۔ ہر حال میں ہر جگہ ہمارے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہونا چاہئے۔ تمام متعلقہ شعبہ جات ان کمزوریوں کا پتہ کروائیں جو اُن کے شعبوں سے متعلق تھیں اور پھر اُن کو نوٹ کریں، ریڈ بُک (Red Book) میں نوٹ کریں اور آئندہ کے لئے جب جلسہ سالانہ کے انتظامات کریں تو ان چیزوں کو سامنے رکھیں کیونکہ یہ جو ذرا ذرا سی بے احتیاطی ہے، اچھے بھلے کاموں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اگر ترقی کرنی ہے تو سنجیدگی سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور ہم نے یقینا ترقی کرنی ہے۔ پس انتظامیہ کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا سے جلسے کی مبارکباد کے جو خطوط مجھے آ رہے ہیں، ان میں ایم ٹی اے کے کارکنوں کے دنیا میں رہنے والے تمام احمدی بہت زیادہ شکرگزار ہیں کہ اُن کی وجہ سے انہوں نے جلسہ میں شمولیت کی اور باقی پروگرام دیکھے اور اُن کو موقع ملا کہ وہ دیکھ سکیں۔ اس مرتبہ جلسے کی کارروائی کے علاوہ جلسے کے وقفے کے دوران میں جو پروگرام ہوئے ہیں، اُن کے معیار اور نفسِ مضمون کی بھی لوگوں نے بہت تعریف کی ہے۔ میں نے تو نہیں دیکھے لیکن میرا خیال ہے ریکارڈنگ دیکھوں گا کیونکہ کہتے ہیں بڑے متنوع قسم کے پروگرام تھے اور معیار بھی بہت اچھا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان تمام پروگرام بنانے والوں اور پروگرام میں شامل ہونے والوں کو جزا عطا فرمائے جنہوں نے ان دنوں میں دنیائے احمدیت کو ایم ٹی اے کے ساتھ چمٹائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔
ایم ٹی اے العربیہ بھی اپنے لائیو پروگرام دیتا رہا ہے، اس کا بھی بڑا اچھا اثر رہا۔ اس مرتبہ جیسا کہ مَیں نے بتایا تھا کہ ایم ٹی اے کو انٹرنیٹ کے ذریعہ سے بھی وسعت دی گئی ہے اور رپورٹس کے مطابق تین لاکھ افراد سے زیادہ نے انٹرنیٹ کے ذریعہ سے جلسہ کا پروگرام دیکھا ہے۔
بہر حال مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل اور احسانات ہوئے ہیں، جلسہ کی برکات کو یہاں شامل ہونے والوں نے محسوس کیا جیسا کہ میں نے کہا اور دنیا میں ایم ٹی اے یا انٹرنیٹ کے ذریعہ شامل ہونے والوں نے بھی محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ ان برکات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کے حقیقی شکر گزار ہوتے ہیں۔ یہ برکات ہمیشہ رہنے والی ہوں اور آئندہ سال کا جلسہ سالانہ اس سے بھی زیادہ بڑھ کر برکات لانے والا ہو۔
آجکل دنیائے اسلام کے لئے بھی بہت دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک اور امتِ مسلمہ کو بہت دعاؤں میں یاد رکھیں۔ یہ ایسے جال میں پھنس رہے ہیں اور پھنستے چلے جار ہے ہیں جو اپنے لالچوں کی وجہ سے بھی، خود غرضانہ مفادات کی وجہ سے بھی اور اسلام مخالف قوتوں کی وجہ سے بھی مسلمان اُمّہ کو ہر لحاظ سے بے دست و پا کر رہا ہے اور ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ جان بوجھ کر فسادات کے مواقع پیدا کئے جاتے ہیں جس سے مسلمان بجائے ایک صحیح ردّ عمل دکھانے کے غلط ردّ عمل دکھا کر اپنے اوپر اور مصائب سہیڑ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہر طرح سے محفوظ رکھے۔ بہت زیادہ دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ مسلم اُمّۃ کو بھی عقل دے کہ یہ بھی اُس تعلیم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں جو اللہ اور اُس کے رسول نے ہمیں بتائی ہے۔
نمازوں کے بعد مَیں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک تو جنازہ حاضر ہے جو مکرم ماسٹر ملک محمد اعظم صاحب کا ہے جو تعلیم الاسلام سکول کے ریٹائرڈ ٹیچر تھے۔ آجکل شیفیلڈ میں تھے۔ تہتر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اپنے رشتے کے چچا کی تبلیغ کی وجہ سے بڑی تحقیق کر کے انہوں نے 1960ء میں احمدیت قبول کی اور پھر بجائے سرکاری نوکری کرنے کے کوشش کر کے ربوہ میں شفٹ ہوئے تا کہ جماعت کے سکول میں ملازمت کریں۔ پہلے جماعت کے پرائمری سکول میں رہے پھر ہائی سکول میں بطور استاد رہے۔ بہت نیک، دعا گو، تہجد گزار، مخلص فدائی احمدی تھے۔ مختلف جماعتی عہدوں پر انہوں نے خدمت کی توفیق پائی ہے اور اس وقت بھی چند سالوں سے شیفیلڈ میں آئے ہوئے تھے اور وہاں سیکرٹری وصایا تھے۔ تبلیغ کا بھی شوق تھا۔ ان کی والدہ اور بھائی بھی انہی کی تبلیغ سے احمدی ہوئے تھے۔ ربوہ کے ارد گرد بھی تبلیغ کے لئے جاتے تھے اور اللہ کے فضل سے کئی پھل انہوں نے حاصل کئے۔ تبلیغ کی وجہ سے ان کو مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن اللہ تعالیٰ نے بری فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا بھی گہرا مطالعہ تھا۔ کہتے ہیں کہ جو ضرورت کے حوالے ہوتے تھے وہ زبانی یاد تھے۔ خلافت کے ساتھ محبت و عقیدت کا تعلق تھا۔ تین بیٹے اور دو بیٹیاں ان کی یادگار ہیں۔ ان کے ایک بھائی مکرم ملک محمد اکرم صاحب مانچسٹر میں ہمارے مبلغ سلسلہ ہیں۔
دوسرا جنازہ مکرم محمدنواز صاحب ابن مکرم احمد علی صاحب کا ہے۔ نواز صاحب کے والد احمد علی صاحب نے 1950ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ اَن پڑھ تھے لیکن بڑے فدائی تھے اور بڑے مخلص تھے۔ محمدنواز صاحب پولیس میں بطور کانسٹیبل ڈیوٹی دیا کرتے تھے اور جماعت سے بھی ان کا اور بچوں کا کافی تعلق ہے۔ گزشتہ روز یہ کراچی میں اپنی ڈیوٹی پر تھے اور موٹر سائیکل پر ڈیوٹی سے جار ہے تھے کہ نامعلوم دو موٹرسائیکل سواروں نے آپ پر فائرنگ کر دی۔ سر میں گولیاں لگیں جس سے موقع پر شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ غالب خیال یہی ہے کہ جماعت کی مخالفت کی وجہ سے یہ ہوا ہے۔ اللہ ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ محکمہ کے ساتھی بھی ان کے کام کی تعریف کیا کرتے تھے۔ ان کے دو بیٹے، اہلیہ اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے اور درجات بلند کرے۔
تیسرا جنازہ غائب مکرمہ وے مریم کوریاباہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ گیمبیا کا ہے۔ یہ جماعت احمدیہ گیمبیا کی بڑے عرصے سے صدر تھیں۔ 7 اور 8؍اگست کی درمیانی رات ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ایک ہفتہ قبل یہ شدید بیمار ہوئیں۔ ہسپتال میں داخل تھیں لیکن جانبر نہ ہو سکیں۔ مرحومہ علیوایمبا صاحب مرحوم سابق نائب امیر جماعت گیمبیا کی اہلیہ تھیں۔ وہاں کے حالات کی وجہ سے ان کو بڑا لمبا عرصہ اجازت ملی تھی کہ صدر کے طور پر کام کرتی رہیں، اس لئے تیرہ سال کا لمبا عرصہ ان کو صدارت کی توفیق ملی۔ ہر لحاظ سے لجنہ کو انہوں نے مضبوط کیا۔ اجتماعات کا آغاز کیا۔ انہوں نے لجنہ کو بڑا آرگنائز کیا۔ جماعت کی ہر خدمت پرلبیک کہنے والی تھیں۔ بڑی سادہ اور منکسرالمزاج اور محنت کرنے والی خاتون تھیں۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ لجنہ اماء اللہ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور خود بھی بہت قربانی کرنے والی تھیں۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا ان سب کی نمازِ جنازہ ابھی ادا کی جائے گی۔ ایک جنازہ حاضر ہے۔ نمازوں کے بعد مَیں نماز جنازہ کے لئے نیچے جاؤں گا۔ احباب یہیں مسجد میں رہیں اور میرے ساتھ جنازہ ادا کریں۔
اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کا سلسلہ اس سال ایک نئی شان سے یورپ میں بھی اور افریقہ میں بھی، امریکہ میں بھی اور ہندوستان میں بھی ہمیں نظر آیا۔ اور جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ میں بھی ہر ایک نے مشاہدہ کیا۔
اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش جو جماعت احمدیہ پر ہو رہی ہے یہ ہمیں یہ حوصلہ دلاتی ہے، تسلی دلاتی ہے کہ ہم من حیث الجماعت اللہ تعالیٰ کے اُن بندوں میں شامل ہیں۔
جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر اُس کے شکرگزار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے لئے شکر گزاری کا حق تو ہم ادا نہیں کر سکتے لیکن کوشش ضرور کر سکتے ہیں اور ہمیشہ کرتے چلے جانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور انعاموں کو ہم حاصل کرنے والے بنتے چلے جائیں۔
مجموعی طور پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل اور احسانات ہوئے ہیں، جلسہ کی برکات کو یہاں شامل ہونے والوں نے محسوس کیا جیسا کہ میں نے کہا اور دنیا میں ایم ٹی اے یا انٹرنیٹ کے ذریعہ شامل ہونے والوں نے بھی محسوس کیا۔ اللہ تعالیٰ ان برکات کو ہمیشہ بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں اُن لوگوں میں شامل فرمائے جو اُس کے حقیقی شکر گزار ہوتے ہیں۔
جلسہ سالانہ برطانیہ کے نہایت کامیاب و بابرکت انعقاد پر شکرگزاری کے مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بعض کمیوں کو دور کرنے اور انتظامات کو مزید بہتر بناتے چلے جانے کے لئے اہم نصائح۔
مکرم ماسٹر ملک محمد اعظم صاحب مرحوم اور مکرم محمدنواز صاحب ابن مکرم احمد علی صاحب اور مکرمہ وے مریم کوریاباہ کی وفات پر ان کا ذکرخیر اور ملک محمد اعظم صاحب کی نماز جنازہ حاضر اور دیگر دونوں مرحومین کی نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 14؍ستمبر 2012ء بمطابق 14؍تبوک 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔