عشق رسول ﷺ کا صحیح طریق
خطبہ جمعہ 21؍ ستمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰ خِرَۃِ وَاَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا(الاحزاب: 58-57)
ان آیات کا یہ ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اُس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو، تم بھی اُس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔ یقینا وہ لوگ جو اللہ اور اُس کے رسول کو اذیت پہنچاتے ہیں، اللہ نے اُن پر دنیا میں بھی لعنت ڈالی ہے اور آخرت میں بھی اور اُس نے اُن کے لئے رُسوا کُن عذاب تیار کیا ہے۔
آجکل مسلم دنیا میں، اسلامی ممالک میں بھی اور دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر شدید غم و غصّہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقینا حق بجانب ہیں۔ مسلمان تو چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی مقام کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دشمنان اسلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ اور لغو فلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصّہ ایک قدرتی بات ہے۔
وہ محسنِ انسانیت، رحمت للعالمین اور اللہ تعالیٰ کا محبوب جس نے اپنی راتوں کو بھی مخلوق کے غم میں جگایا، جس نے اپنی جان کو مخلوق کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے اس درد کا اظہار کیا اور اس طرح غم میں اپنے آپ کو مبتلا کیا کہ عرش کے خدا نے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا تو ان لوگوں کے لئے کہ کیوں یہ اپنے پیدا کرنے والے ربّ کو نہیں پہچانتے، ہلاکت میں ڈال لے گا؟ اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقینا ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔ ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہے کہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کر سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے نبی کریمؐ کی عزت کے لئے جان دیتے ہیں۔ اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخصوں سے دلی صفائی کریں اور اُن کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہاروں میں نہایت توہین سے اُن کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ سے اُن کو یاد کرتے ہیں‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اُن کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں۔ اور مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہے۔ مگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتے جو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بدگوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بدزبانی میں ہی فتح ہے۔ مگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے‘‘۔ فرمایا کہ ’’پاک زبان لوگ اپنی پاک کلام کی برکت سے انجامکار دلوں کو فتح کر لیتے ہیں۔ مگر گندی طبیعت کے لوگ اس سے زیادہ کوئی ہنر نہیں رکھتے کہ ملک میں مفسدانہ رنگ میں تفرقہ اور پھوٹ پیدا کرتے ہیں …‘‘۔ فرمایا کہ ’’تجربہ بھی شہادت دیتا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ خدا کی غیرت اُس کے اُن پیاروں کے لئے آخر کوئی کام دکھلا دیتی ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد23 صفحہ385تا387)
اس زمانے میں اخباروں اور اشتہاروں کے ساتھ میڈیا کے دوسرے ذرائع کو بھی اس بیہودہ چیز میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ پس یہ لوگ جو اپنی ضد کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی پکڑ میں آئیں گے۔ یہ ضد پر قائم ہیں اور ڈھٹائی سے اپنے ظالمانہ فعل کا اظہار کرتے چلے جا رہے ہیں۔ 2006ء میں جب ڈنمارک کے خبیث الطبع لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بیہودہ تصویریں بنائی تھیں تو اُس وقت بھی مَیں نے جہاں جماعت کو صحیح ردّعمل دکھانے کی طرف توجہ دلائی تھی وہاں یہ بھی کہا تھا کہ یہ ظالم لوگ پہلے بھی پیدا ہوتے رہے ہیں اور اس پر بس نہیں ہو گی۔ اس احتجاج وغیرہ سے کوئی فرق نہیں پڑے گا جو اَب مسلمانوں کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ آئندہ بھی یہ لوگ ایسی حرکات کرتے رہیں گے۔ اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ اُس سے بڑھ کر یہ بیہودگی اور ظلم پر اتر آئے ہیں اور اُس وقت سے آہستہ آہستہ اس طرف ان کا یہ طریق بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
پس یہ ان کی اسلام کے مقابل پر ہزیمت اور شکست ہے جو ان کو آزادیٔ خیال کے نام پر بیہودگی پر آمادہ کر رہی ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ یاد رکھیں کہ یہ لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں۔ یہ بات ایک دن ان قوموں کے لوگوں پر بھی کھل جائے گی۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ آج جو کچھ بیہودہ گوئیاں یہ کر رہے ہیں، وہ ان کی قوم کے لئے نقصان دہ ہے کہ یہ لوگ خودغرض اور ظالم ہیں۔ ان کو صرف اپنی خواہشات کی تکمیل کے علاوہ کسی بات سے سروکار نہیں ہے۔
اس وقت تو آزادیٔ اظہار کے نام پر سیاستدان بھی اور دوسرا طبقہ بھی بعض جگہ کھل کر اور اکثر دبے الفاظ میں ان کے حق میں بھی بول رہا ہے اور بعض دفعہ مسلمانوں کے حق میں بھی بول رہا ہے۔ لیکن یاد رکھیں کہ اب دنیا ایک ایسا گلوبل ویلیج بن چکی ہے کہ اگر کھل کر برائی کو برائی نہ کہا گیا تو یہ باتیں ان ملکوں کے امن و سکون کو بھی برباد کر دیں گی اور خدا کی لاٹھی جو چلنی ہے وہ علیحدہ ہے۔
امام الزمان کی یہ بات یاد رکھیں کہ ہر فتح آسمان سے آتی ہے اور آسمان نے یہ فیصلہ کر چھوڑا ہے کہ جس رسول کی تم ہتک کرنے کی کوشش کر رہے ہو اُس نے دنیا پر غالب آنا ہے۔ اور غالب، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا، دلوں کو فتح کر کے آنا ہے۔ کیونکہ پاک کلام کی تاثیر ہوتی ہے۔ پاک کلام کو ضرورت نہیں ہے کہ شدت پسندی کا استعمال کیا جائے یا بیہودہ گوئی کا بیہودہ گوئی سے جواب دیا جائے۔ اور یہ بدکلامی اور بدنوائی جو ان لوگوں نے شروع کی ہوئی ہے، یہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد ختم ہو جائے گی۔ اور پھر اس زندگی کے بعد ایسے لوگوں سے خدا تعالیٰ نبٹے گا۔ یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں، ان میں بھی اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اُن کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی ہے کہ تمہارا کام اس رسول پر درود اور سلام بھیجنا ہے۔ ان لوگوں کی بیہودہ گوئیوں اور ظلموں اور استہزاء سے اُس عظیم نبی کی عزت و ناموس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو ایسا عظیم نبی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں۔ مومنوں کا کام ہے کہ اپنی زبانوں کو اس نبی پر درود سے تر رکھیں۔ اور جب دشمن بیہودہ گوئی میں بڑھے تو پہلے سے بڑھ کر درود و سلام بھیجیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ یہی درود ہے اور یہی نبی ہے جس کا دنیا میں غلبہ مقدر ہو چکا ہے۔
پس جہاں ایک احمدی مسلمان اس بیہودہ گوئی پر کراہت اور غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے وہاں ان لوگوں کو بھی اور اپنے اپنے ملکوں کے ارباب حل و عقد کو بھی ایک احمدی اس بیہودہ گوئی سے باز رہنے اور روکنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانی چاہئے۔ دنیاوی لحاظ سے ایک احمدی اپنی سی کوشش کرتا ہے کہ اس سازش کے خلاف دنیا کو اصل حقیقت سے آشنا کرے اور اصل حقیقت بتائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلو دکھائے۔ اپنے ہر عمل سے آپ کے خوبصورت اُسوہ حسنہ کا اظہار کر کے اور اسلام کی تعلیم اور آپ کے اسوہ حسنہ کی عملی تصویر بن کردنیا کو دکھائے۔ ہاں ساتھ ہی یہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا کہ درود و سلام کی طرف بھی پہلے سے بڑھ کر توجہ دے۔ مرد، عورت، جوان، بوڑھا، بچہ اپنے ماحول کو، اپنی فضاؤں کو درود و سلام سے بھر دے۔ اپنے عمل کو اسلامی تعلیم کا عملی نمونہ بنا دے۔ پس یہ خوبصورت ردّعمل ہے جو ہم نے دکھانا ہے۔
باقی ان ظالموں کے انجام کے بارے میں خدا تعالیٰ نے دوسری آیت میں بتا دیا ہے کہ رسول کو اذیت پہنچانے والے یا اس زمانے میں حقیقی مومنوں کا دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے تکلیف پہنچا کر چھلنی کرنے والوں سے خدا تعالیٰ خودنپٹ لے گا۔ ان لوگوں پر اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس لعنت کی وجہ سے وہ اور زیادہ گندگی میں ڈوبتے چلے جائیں گے۔ اور مرنے کے بعد ایسے لوگوں کے لئے خدا تعالیٰ نے رُسواکُن عذاب مقدر کیا ہوا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ ایسے بدزبان لوگوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ پس یہ لوگ اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لعنت کی صورت میں اور مرنے کے بعد رُسواکُن عذاب کی صورت میں اپنے انجام کو پہنچیں گے۔
جو دوسرے مسلمان ہیں، ان مسلمانوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی تعلیم کے مطابق، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ ردّ عمل دکھانا چاہئے کہ درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں۔ یہ ردّعمل ہے۔
یہ ردّ عمل تو بے فائدہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگائی جائے یا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو مارا جائے یا جلوس نکل رہے ہیں تو پولیس کو مجبوراً اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ کرنی پڑے اور اپنے لوگ ہی مر رہے ہوں۔ اخبارات اور میڈیا کے ذریعے سے جو خبریں باہر آ رہی ہیں، اُن سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر شریف الطبع مغربی لوگوں نے بھی اس حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور کراہت کا اظہار کیا ہے۔ وہ لوگ جو مسلمان نہیں ہیں لیکن جن کی فطرت میں شرافت ہے انہوں نے امریکہ میں بھی اور یہاں بھی اس کو پسندنہیں کیا۔ لیکن جو لیڈرشپ ہے وہ ایک طرف تو یہ کہتی ہے کہ یہ غلط ہے اور دوسری طرف آزادی اظہار و خیال کو آڑ بنا کر اس کی تائید بھی کرتی ہے۔ یہ دو عملی نہیں چل سکتی۔ آزادی کے متعلق قانون کوئی آسمانی صحیفہ نہیں ہے۔ مَیں نے وہاں امریکہ میں سیاستدانوں کو تقریر میں یہ بھی کہا تھا کہ دنیا داروں کے بنائے ہوئے قانون میں سقم ہو سکتا ہے، غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ قانون بناتے ہوئے بعض پہلونظروں سے اوجھل ہو سکتے ہیں کیونکہ انسان غیب کا علم نہیں رکھتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اُس کے بنائے ہوئے قانون جو ہیں اُن میں کوئی سقم نہیں ہوتا۔ پس اپنے قانون کو ایسا مکمل نہ سمجھیں کہ اس میں کوئی ردّوبدل نہیں ہو سکتا، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ آزادیٔ اظہار کا قانون تو ہے لیکن نہ کسی ملک کے قانون میں، نہ یو این او (UNO) کے چارٹر میں یہ قانون ہے کہ کسی شخص کو یہ آزادی نہیں ہو گی کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرو۔ یہ کہیں نہیں لکھا کہ دوسرے مذہب کے بزرگوں کا استہزاء کرنے کی اجازت نہیں ہوگی کہ اس سے دنیا کا امن برباد ہوتا ہے۔ اس سے نفرتوں کے لاوے ابلتے ہیں۔ اس سے قوموں اور مذہبوں کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جاتی ہے۔ پس اگر قانون آزادی بنایا ہے تو ایک شخص کی آزادی کا قانون تو بیشک بنائیں لیکن دوسرے شخص کے جذبات سے کھیلنے کا قانون نہ بنائیں۔ یو این او (UNO) بھی اس لئے ناکام ہو رہی ہے کہ یہ ناکام قانون بنا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے بڑا کام کر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قانون دیکھیں۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دوسروں کے بتوں کو بھی برا نہ کہو کہ اس سے معاشرے کا امن برباد ہوتا ہے۔ تم بتوں کو برا کہو گے تو وہ نہ جانتے ہوئے تمہارے سب طاقتوں والے خدا کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کریں گے جس سے تمہارے دلوں میں رنج پیدا ہو گا۔ دلوں کی کدورتیں بڑھیں گی۔ لڑائیاں اور جھگڑے ہوں گے۔ ملک میں فساد برپا ہوگا۔ پس یہ خوبصورت تعلیم ہے جو اسلام کا خدا دیتا ہے، اس دنیا کا خدا دیتا ہے، اس کائنات کا خدا دیتا ہے۔ وہ خدا یہ تعلیم دیتا ہے جس نے کامل تعلیم کے ساتھ اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کی اصلاح کے لئے اور پیار و محبت قائم کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمت للعالمین کا لقب دے کر تمام مخلوق کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
پس دنیا کے پڑھے لکھے لوگ اور اربابِ حکومت اور سیاستدان سوچیں کہ کیا ان چند بیہودہ لوگوں کو سختی سے نہ دبا کر آپ لوگ بھی اس مفسدہ کا حصہ تو نہیں بن رہے۔ دنیا کے عوام الناس سوچیں کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیل کر اور دنیا کے ان چندکیڑوں اور غلاظت میں ڈوبے ہوئے لوگوں کی ہاں میں ہاں ملا کر آپ بھی دنیا کے امن کی بربادی میں حصہ دار تو نہیں بن رہے؟
ہم احمدی مسلمان دنیا کی خدمت کے لئے کوئی بھی دقیقہ نہیں چھوڑتے۔ امریکہ میں خون کی ضرورت پڑی۔ گزشتہ سال ہم احمدیوں نے بارہ ہزار بوتلیں جمع کر کے دیں۔ اس سال پھر وہ جمع کر رہے ہیں۔ آجکل یہ ڈرائیو (Drive) چل رہی تھی۔ اُن کو میں نے کہا کہ ہم احمدی مسلمان تو زندگی دینے کے لئے اپنا خون دے رہے ہیں اور تم لوگ اپنی ان حرکتوں سے اور اُن حرکت کرنے والوں کی ہاں میں ہاں ملا کر ہمارے دل خون کر رہے ہو۔ پس ایک احمدی مسلمان کا اور حقیقی مسلمان کایہ عمل ہے اور یہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ہم انصاف قائم کرنے والے ہیں اُن کے ایک طبقہ کا یہ عمل ہے۔
مسلمانوں کو تو الزام دیا جاتا ہے کہ وہ غلط کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ بعض ردّعمل غلط ہیں۔ توڑپھوڑ کرنا، جلاؤ گھیراؤ کرنا، معصوم لوگوں کو قتل کرنا، سفارتکاروں کی حفاظت نہ کرنا، اُن کو قتل کرنا یا مارنا یہ سب غلط ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے معصوم نبیوں کا استہزاء اور دریدہ دہنی میں جو بڑھنا ہے، یہ بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ اب دیکھا دیکھی گزشتہ دنوں فرانس کے رسالہ کو بھی دوبارہ اُبال آیا ہے۔ اُس نے بھی پھر بیہودہ کارٹون شائع کئے ہیں جو پہلے سے بھی بڑھ کر بیہودہ ہیں۔ یہ دنیا دار دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہ دنیا ہی اُن کی تباہی کا سامان ہے۔
یہاں مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ دنیا کے ایک بہت بڑے خطّہ پر مسلمان حکومتیں قائم ہیں۔ دنیا کابہت سا علاقہ مسلمان کے زیرِ نگیں ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک کو خدا تعالیٰ نے قدرتی وسائل بھی عطا فرمائے ہیں۔ مسلمان ممالک یو این او (UNO) کا حصہ بھی ہیں۔ قرآنِ کریم جو مکمل ضابطہ حیات ہے اس کے ماننے والے اور اس کو پڑھنے والے بھی ہیں تو پھر کیوں ہر سطح پر اس خوبصورت تعلیم کو دنیا پر ظاہر کرنے کی مسلمان حکومتوں نے کوشش نہیں کی۔ کیوں نہیں یہ کرتے؟ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق کیوں دنیا کے سامنے یہ پیش نہیں کرتے کہ مذہبی جذبات سے کھیلنا اور انبیاء اللہ کی بے حرمتی کرنا یا اُس کی کوشش کرنا یہ بھی جرم ہے اور بہت بڑا جرم اور گناہ ہے۔ اور دنیا کے امن کے لئے ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔ آزادیٔ خیال کے نام پر دنیا کا امن برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن افسوس کہ اتنے عرصہ سے یہ سب کچھ ہو رہا ہے، کبھی مسلمان ملکوں کی مشترکہ ٹھوس کوشش نہیں ہوئی کہ تمام انبیائ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ہر نبی کی عزت و ناموس کے لئے دنیا کو آگاہ کریں اور بین الاقوامی سطح پر اس کو تسلیم کروائیں۔ گو یو این او (UNO) کے باقی فیصلوں کی طرح اس پر بھی عمل نہیں ہو گا، پہلے کونسا امن چارٹر پر عمل ہو رہا ہے لیکن کم از کم ایک چیز ریکارڈ میں تو آجائے گی۔ او آئی سی (OIC)، آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز جو ہے، یہ قائم تو ہے لیکن ان کے ذریعہ سے کبھی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہوئی جس سے دنیا میں مسلمانوں کا وقار قائم ہو۔ مسلمان ملکوں کے سیاستدان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہر کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اگر نہیں خیال تو دین کی عظمت کا خیال نہیں۔ اگر ہمارے لیڈروں کی طرف سے ٹھوس کوششیں ہوتیں تو عوام الناس کا یہ غلط ردّ عمل بھی ظاہر نہ ہوتا جو آج مثلاً پاکستان میں ہو رہا ہے یا دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اُن کو پتہ ہوتا کہ ہمارے لیڈر اس کام کے لئے مقرر ہیں اور وہ اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کریں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے اور تمام انبیاء کی عزت و ناموس قائم کرنے کے لئے دنیا کے فورم پر اس طرح اُٹھیں گے کہ اس دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ جو کہہ رہے ہیں سچ اور حق ہے۔
پھر مغربی ممالک میں اور دنیا کے ہر خطّے میں مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جو رہ رہی ہے۔ مذہب کے لحاظ سے اور تعداد کے لحاظ سے دنیا میں مسلمان دوسری بڑی طاقت ہیں۔ اگریہ خدا تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والے ہوں تو ہر لحاظ سے سب سے بڑی طاقت بن سکتے ہیں اور اس صورت میں کبھی اسلام دشمن طاقتوں کو جرأت ہی نہیں ہوگی کہ ایسی دل آزار حرکتیں کر سکیں یا اس کا خیال بھی لائیں۔ بہرحال علاوہ مسلمان ممالک کے دنیا کے ہر ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یورپ میں ملینز (Millions) کی تعداد میں تو صرف ترک ہی آباد ہیں۔ صرف یورپ میں نہیں بلکہ یورپ کے اکثر ممالک میں ملینز کی تعداد میں مسلمان آباد ہیں۔ اسی طرح دوسری مسلمان قومیں یہاں آباد ہیں۔ ایشیا سے مسلمان یہاں آئے ہوئے ہیں۔ یوکے میں بھی آباد ہیں۔ امریکہ میں بھی آباد ہیں۔ کینیڈا میں آباد ہیں۔ یورپ کے ہر خطے میں آباد ہیں۔ اگر یہ سب فیصلہ کر لیں کہ اپنے ووٹ اُن سیاستدانوں کو دینے ہیں جو مذہبی رواداری کا اظہار کریں۔ اور ان کا اظہا رنہ صرف زبانی ہوبلکہ اُس کا عملی اظہار بھی ہورہا ہو اور وہ ایسے بیہودہ گوؤں کی، یا بیہودہ لغویات بکنے والوں یا فلمیں بنانے والوں کی مذمت کریں گے تو ان دنیاوی حکومتوں میں ہی ایک طبقہ کھل کر اس بیہودگی کے خلاف اظہار خیال کرنے والا مل جائے گا۔
پس مسلمان اگر اپنی اہمیت کو سمجھیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ وہ ملکوں کے اندر مذہبی جذبات کے احترام کے قانون بنوا سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ اس طرف توجہ نہیں ہے۔ جماعت احمدیہ جو توجہ دلاتی ہے اُس کی مخالفت میں کمربستہ ہیں اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمان لیڈروں کو، سیاستدانوں کو اور علماء کو عقل دے کہ اپنی طاقت کو مضبوط کریں۔ اپنی اہمیت کو پہچانیں۔ اپنی تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ یہ لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیہودہ اعتراض کرتے ہیں، الزامات لگاتے ہیں اور جنہوں نے یہ فلم بنائی ہے یا اس میں کام کیا ہے ان کے اخلاقی معیار کا اندازہ تو میڈیامیں ان کے بارے میں جو معلومات ہیں اُن سے ہی ہو سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کردار ایک قبطی عیسائی کا ہے جو امریکہ میں رہتا ہے، نکولا بسیلے (Nakoula Basseley Nakoula) یا اس طرح کا اس کا کوئی نام ہے یا سام بسیلے (Sam Bacile) کہلاتا ہے۔ بہرحال اس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کی criminal background ہے۔ مجرم ہے۔ یہ فراڈ کی وجہ سے 2010ء میں جیل میں بھی رہ چکا ہے۔ دوسرا آدمی جس نے فلم ڈائریکٹ کی ہے، یہ پورنوگرافیز موویز کا ڈائریکٹر ہے۔ اس میں جو اَور ایکٹر شامل ہیں وہ سب پورنو گرافکس موویز کے ایکٹر ہیں۔ تو یہ ان کے اخلاق کے معیار ہیں۔ اور پورنوگرافیز کی جو حدود ہیں وہ تو آدمی سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ لوگ کس گند میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اعتراض اُس ہستی پر کرنے چلے ہیں جس کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزگی کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی۔
پس یہ غلاظت کر کے انہوں نے یقینا خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی طرح اس فلم کے سپانسر کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان میں ایک وہ عیسائی پادری بھی شامل ہے جو مختلف وقتوں میں امریکہ میں اپنی سستی شہرت کیلئے قرآن وغیرہ جلانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ مَزِّ قْھُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیقاً۔
میڈیا میں بعض نے مذمّت کرنے کی بھی کوشش کی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے ردّعمل کی بھی مذمت کی ہے۔ ٹھیک ہے غلط ردّعمل کی مذمّت ہونی چاہئے لیکن یہ بھی دیکھیں کہ پہل کرنے والا کون ہے۔
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ مسلمانوں کی اکائی اور لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ دین سے تو باوجود عشقِ رسول کے دعویٰ کے یہ لوگ دُور ہٹے ہوئے ہیں۔ دعویٰ تو بیشک ہے لیکن دین کا کوئی علم نہیں ہے۔ دنیاوی لحاظ سے بھی کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کسی مسلمان ملک نے کسی ملک کو بھی پُرزور احتجاج نہیں کیا۔ اگر کیا ہے تو اتنا کمزور کہ میڈیا نے اس کی کوئی اہمیت نہیں دی۔ اور اگر مسلمانوں کے احتجاج پر کوئی خبر لگائی بھی ہے تو یہ کہ ایک اعشاریہ آٹھ بلین مسلمان بچوں کی طرح ردّعمل دکھا رہے ہیں۔ جب کوئی سنبھالنے والا نہ ہو تو پھر اِدھر اُدھر پھرنے والے ہی ہوتے ہیں۔ پھر ردّعمل بچوں جیسے ہی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ایک طنز بھی کردیا لیکن حقیقت بھی واضح کر دی۔ اب بھی خدا کرے کہ مسلمانوں کو شرم آ جائے۔
یہ لوگ جن کے دین کی آنکھ تو اندھی ہے، جن کو انبیاء کے مقام کا پتہ ہی نہیں ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقام کو بھی گرا کر خاموش رہتے ہیں، اُن کو تو مسلمانوں کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جذبات کا اظہار بچوں کی طرح کا ردّعمل نظر آئے گا۔ لیکن بہرحال جیسا کہ میں نے کہا کہ 2006ء میں بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ اس طرف توجہ کریں اور ایک ایسا ٹھوس لائحہ عمل بنائیں کہ آئندہ ایسی بیہودگی کی کسی کو جرأت نہ ہو۔ کاش کہ مسلمان ملک یہ سن لیں اور جو اُن تک پہنچ سکتا ہے تو ہر احمدی کو پہنچانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے۔ چار دن کا احتجاج کر کے بیٹھ جانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
پھر یہ تجویز بھی ایک جگہ سے آئی تھی، لوگ بھی مختلف تجویزیں دیتے رہتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان وکلاء جو ہیں یہ اکٹھے ہو کر پٹیشن (Petition) کریں۔ کاش کہ مسلمان وکلاء جو بین الاقوامی مقام رکھتے ہیں اس بارے میں سوچیں، اس کے امکانات پر یا ممکنات پر غور کریں کہ ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں یا کوئی اَورراستہ نکالیں۔ کب تک ایسی بیہودگی کو ہوتا دیکھتے رہیں گے اور اپنے ملکوں میں احتجاج اور توڑ پھوڑ کر کے بیٹھ جائیں گے۔ اس کا اس مغربی دنیا پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا یا اُن بنانے والوں پر تو کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اگر ان ملکوں میں معصوموں پر حملہ کریں گے یا تھریٹ (Threat) دیں گے یا مارنے کی کوشش کریں گے یا ایمبیسیز پر حملہ کریں گے تو یہ تو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام اس کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اس صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر خود اعتراض لگوانے کے مواقع پیدا کر دیں گے۔
پس شدت پسندی اس کا جواب نہیں ہے۔ اس کا جواب وہی ہے جو مَیں بتا آیا ہوں کہ اپنے اعمال کی اصلاح اور اُس نبی پر درُود و سلام جو انسانیت کا نجات دہندہ ہے۔ اور دنیاوی کوششوں کے لئے مسلمان ممالک کا ایک ہونا۔ مغربی ملکوں میں رہنے والے مسلمانوں کو اپنے ووٹ کی طاقت منوانا۔ بہر حال افرادِ جماعت جہاں جہاں بھی ہیں، اس نہج پر کام کریں اور اپنے غیراحمدی دوستوں کو بھی اس طریق پر چلانے کی کوشش کریں کہ اپنی طاقت، ووٹ کی طاقت جو ان ملکوں میں ہے وہ منواؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے پہلوؤں کوبھی دنیا کے سامنے خوبصورت رنگ میں پیش کریں۔ آج یہ لوگ آزادیٔ اظہار کا شور مچاتے ہیں۔ شور مچاتے ہیں کہ اسلام میں تو آزادیٔ رائے اور بولنے کا اختیار ہی نہیں ہے اور مثالیں آجکل کی مسلمان دنیا کی دیتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں وہاں کے لوگوں کو، شہریوں کو آزادی نہیں ملتی۔ اگر نہیں ملتی تو اُن ملکوں کی بدقسمتی ہے کہ اسلامی تعلیم پر عمل نہیں کر رہے۔ اسلامی تعلیم کا تو اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں تو تاریخ میں لوگوں کے بے دھڑک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہونے بلکہ ادب و احترام کو پامال کرنے اور اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صبر اور حوصلے اور برداشت کے ایسے ایسے واقعات ملتے ہیں کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں مل سکتی۔ میں چند مثالیں پیش کرتا ہوں۔ گو اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جُودو سخا کے واقعات میں بیان کیا جاتا ہے لیکن یہی واقعات جو ہیں ان میں بیباکی کی حد کا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوصلہ کا بھی اظہار ہوتاہے۔
حضرت جبیرؓ بن مطعم کی یہ روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک بار وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ کے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ آپ حنین سے آرہے تھے کہ بدوی لوگ آپ سے لپٹ گئے۔ وہ آپ سے مانگتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے آپ کو ببول کے ایک درخت کی طرف ہٹنے کے لئے مجبور کر دیا جس کے کانٹوں میں آپ کی چادر اٹک گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر گئے اور آپ نے فرمایا میری چادر مجھے دے دو۔ اگر میرے پاس ان جنگلی درختوں کی تعداد کے برابر اونٹ ہوتے تو مَیں اُنہیں تم میں بانٹ دیتا اور پھر تم مجھے بخیل نہ پاتے اور نہ جھوٹا اور نہ بزدل۔ (صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب ماکان النبیﷺ یعطی المؤلفۃ قلوبہم و غیرہم … حدیث نمبر3148)
پھر ایک روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھا اور آپ نے ایک موٹے کنارے والی چادر زیب تن کی ہوئی تھی۔ ایک بدّو نے اس چادر کو اتنے زور سے کھینچا کہ اس کے کناروں کے نشان آپ کی گردن پر پڑ گئے۔ پھر اُس نے کہا: اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے اس مال میں سے جو اس نے آپ کو عنایت فرمایا ہے، میرے ان دو اونٹوں پر لاد دیں کیونکہ آپ مجھے نہ تو اپنے مال میں سے اور نہ ہی اپنے والد کے مال میں سے دیں گے۔ پہلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ پھر فرمایا۔ اَلْمَالُ مَالُ اللّٰہِ وَاَنَا عَبْدُہٗ کہ مال تو اللہ ہی کا ہے اور میں اُس کا بندہ ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ مجھے جو تکلیف پہنچائی ہے اس کا بدلہ تم سے لیا جائے گا۔ اُس بدو نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم سے بدلہ کیوں نہیں لیا جائے گا؟ اُس بدو نے کہا اس لئے کہ آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اونٹ پر جَو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دی جائیں۔ (الشفاء لقاضی عیاض جزء اول صفحہ 74 الباب الثانی فی تکمیل اللہ تعالیٰ …الفصل و اما الحلم… دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
تو یہ ہے وہ صبر و برداشت کا مقام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور جو اپنوں سے نہیں دشمنو ں سے بھی تھا۔ یہ ہیں وہ اعلیٰ اخلاق ان میں جودو سخا بھی ہے اور صبر و برداشت بھی اور وسعتِ حوصلہ کا اظہار بھی ہے۔ یہ اعتراض کرنے والے جاہل بغیر علم کے اُٹھتے ہیں اور اُس رحمۃ للعالمین پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ انہوں نے یہ سختی کی تھی اور فلاں تھا اور فلاں تھا۔
پھر قرآن کریم پر اعتراض ہے۔ یہ بھی سنا ہے کہ اس فلم میں لگایا گیا ہے۔ مَیں نے دیکھی تو نہیں، لیکن مَیں نے یہ لوگوں سے سنا ہے کہ یہ قرآنِ کریم بھی حضرت خدیجہ کے جو چچا زاد بھائی تھے، ورقہ بن نوفل، جن کے پاس حضرت خدیجہ آپؐ کو پہلی وحی کے بعد لے کر گئی تھیں انہوں نے لکھ کر دیا تھا۔ کفار تو آپ کی زندگی میں بھی یہ اعتراض کرتے رہے کہ یہ قرآن جو تم قسطوں میں اتار رہے ہو اگریہ اللہ کا کلام ہے تو یکدم کیوں نہیں اُترا؟ لیکن یہ بیچارے بالکل ہی بے علم ہیں بلکہ تاریخ سے بھی نابلد۔ بہر حال جو بنانے والے ہیں وہ تو ایسے ہی ہیں لیکن دو پادری جو اُن میں شامل ہیں جو اپنے آپ کو علمی سمجھتے ہیں وہ بھی علمی لحاظ سے بالکل جاہل ہیں۔ ورقہ بن نوفل نے تو یہ کہا تھا کہ کاش میں اُس وقت زندہ ہوتا جب تجھے تیری قوم وطن سے نکالے گی اور کچھ عرصے بعد اُن کی وفات بھی ہو گئی۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب 3حدیث نمبر3)
پھر یہ جو پادری ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا تاریخ اور حقائق سے بالکل ہی نابلد ہیں۔ جومستشرقین ہیں وہ قرآن کے بارے میں اس بحث میں ہمیشہ پڑے رہے کہ یہ سورۃ کہاں اُتری اور وہ سورۃ کہاں اُتری۔ مدینہ میں نازل ہوئی یا مکہ میں؟ اس بات پر بھی بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اُس نے لکھ کر دے دیا تھا۔ اور قرآنِ کریم کا تو اپنا چیلنج ہے کہ اگر سمجھتے ہو کہ لکھ کر دے دیا توپھر اس جیسی ایک سورۃ ہی لا کر دکھاؤ۔
پھر جذبات کے احترام کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں۔ باوجود اس علم کے کہ آپ سب نبیوں سے افضل ہیں، یہودی کے جذبات کے احترام کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دو۔ (صحیح البخاری کتاب فی الخصومات باب مایذکر فی الاشخاص و الخصومۃ…حدیث نمبر2411)
غرباء کے جذبات کا خیال ہے اور اُن کے مقام کی اس طرح آپ نے عزت فرمائی کہ ایک دفعہ آپ کے ایک صحابی جو مالدار تھے وہ دوسرے لوگوں پر اپنی فضیلت ظاہر کر رہے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا کہ کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زورِ بازو سے ملے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ تمہاری قومی طاقت اور مال کی طاقت سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الجھاد و السیرباب من استعان بالضعفاء و الصالحین فی الحرب۔ حدیث2896)
آزادی کے یہ دعویدار، آج غرباء کے حقوق قائم کرتے ہیں۔ اُن کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوشش کرتے ہیں اور یہ اعلان کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ کہہ کریہ حقوق قائم فرما دئیے کہ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دو۔ (سنن ابن ماجہ کتاب الرھون باب اجر الأجراء حدیث نمبر2443)
پس یہ اُس محسنِ انسانیت کا کہاں کہاں مقابلہ کریں گے۔ بیشمار واقعات ہیں۔ ہر پہلو خُلق کا آپ لے لیں، اس کے اعلیٰ نمونے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آئیں گے۔
پھر اور نہیں تو یہی الزام لگا دیا کہ نعوذ باللہ آپ کو عورتیں بڑی پسند تھیں۔ شادیوں پر اعتراض کیا توپھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ردّ بھی فرمایا۔ اسے پتہ تھا کہ ایسے واقعات ہونے ہیں، ایسے سوال اُٹھنے ہیں تووہ ایسے حالات پیدا کر دیتا تھا کہ اُن باتوں کا ردّ بھی سامنے آگیا۔
اسماء بنت نعمان بن ابی جَون کے بارے میں آتا ہے کہ عرب کی خوبصورت عورتوں میں سے تھیں۔ وہ جب مدینہ آئی ہیں تو عورتوں نے انہیں وہاں جا کر دیکھا تو سب نے تعریف کی کہ ایسی خوبصورت عورت ہم نے زندگی میں نہیں دیکھی۔ اُس کے باپ کی خواہش پر آپ نے اُس سے پانچ صد درہم حق مہر پر نکاح کر لیا۔ جب آپ اُس کے پاس گئے تو اُس نے کہا کہ مَیں آپ سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے ایک بہت عظیم پناہ گاہ کی پناہ طلب کی ہے اور باہر آ گئے اور اپنے ایک صحابی ابو اُسید کو فرمایا کہ اس کو اس کے گھر والوں کے پاس چھوڑ آؤ۔ اور پھر یہ بھی تاریخ میں ہے کہ اس شادی پر اُس کے گھر والے بڑے خوش تھے کہ ہماری بیٹی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عقد میں آئی لیکن واپس آنے پر وہ سخت ناراض ہوئے اور اُسے بہت برا بھلا کہا۔ (ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعدالجزء الثامن صفحہ318-319ذکر من تزوج رسول اللہﷺ …/اسماء بنت النعمان۔ داراحیاء التراث العربی بیروت 1996)
تو یہ وہ عظیم ہستی ہے جس پر گھناؤنے الزام عورت کے حوالے سے لگائے جاتے ہیں۔ جس کا بیویاں کرنا بھی اس لئے تھا کہ خدا تعالیٰ کا حکم تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو لکھا ہے اگر بیویاں نہ ہوتیں، اولادنہ ہوتی اور جو اولاد کی وجہ سے ابتلا آئے اور جن کا جس طرح اظہار کیا اور پھر جس طرح بیویوں سے حسنِ سلوک ہے، خُلق ہے، یہ کس طرح قائم ہو، اس کے نمونے کس طرح قائم ہو کے ہمیں پتہ چلتے۔ ہرعمل آپ کا خدا کی رضا کے لئے ہوتا تھا۔ (ماخوذ ازچشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ نمبر300)
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں الزام ہے کہ وہ بہت لاڈلی تھیں اور پھر عمر کے حساب سے بھی بڑی غلط باتیں کی جاتی ہیں۔ لیکن عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ یہ فرماتے ہیں کہ بعض راتوں میں مَیں ساری رات اپنے خدا کی عبادت کرنا چاہتا ہوں جو مجھے سب سے زیادہ مجھے پیارا ہے۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثورلامام السیوطی سورۃ الدخان زیر آیت نمبر4جلد7صفحہ350داراحیاء التراث العربی بیروت2001ء)
پس جن کے دماغوں میں غلاظتیں بھری ہوئی ہوں انہوں نے یہ الزام لگانے ہیں اور لگاتے رہے ہیں، آئندہ بھی شاید وہ ایسی حرکتیں کرتے رہیں، جیسے کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے جہنم کو بھرتا رہے گا۔ پس ان لوگوں کو اور ان کی حمایت کرنے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے پیاروں کے لئے بڑی غیرت رکھتا ہے۔ (ماخوذ از تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15صفحہ نمبر378)
اس زمانے میں اُس نے اپنے مسیح و مہدی کو بھیج کر دنیا کو اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لیکن اگر وہ استہزاء اور ظلم سے باز نہ آئے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بڑی سخت ہے۔ دنیا کے ہر خطّے پر آجکل قدرتی آفات آ رہی ہیں۔ ہر طرف تباہی ہے۔ امریکہ میں بھی طوفان آ رہے ہیں اور پہلے سے بڑھ کر آ رہے ہیں۔ معاشی بدحالی بڑھ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے آبادیوں کو پانی میں ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو رہا ہے۔ ان خطرات میں گھری ہوئی ہیں۔ پس ان حد سے بڑھے ہوؤں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرنے والا ہونا چاہئے نہ یہ کہ اس قسم کی بیہودہ گوئیوں کی طرف وہ توجہ دیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ حدود سے تجاوز کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زمانے کا امام تنبیہ کر چکا ہے، کھل کر بتا چکا ہے کہ دنیا نے اگر اُس کی آواز پر کان نہ دھرے تو ان کا ہر قدم دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے والا بنائے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام جو بار بار دہرانے والا پیغام ہے، اکثر پیش ہوتا ہے، آج پھر مَیں پیش کردیتا ہوں۔ فرمایا کہ:
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے۔ اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے۔ اور بعض اُن میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہوگی کہ خُون کی نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے۔ اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اُس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہوگی۔ اور اکثر مقامات زیر و زبر ہو جائیں گے کہ گویا اُن میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اَور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیرمعمولی ہوجائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں اُن کا پتہ نہیں ملے گا۔ تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہوگا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ مَیں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اَور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔ اگر مَیں نہ آیا ہوتا تو اِن بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہوگئے۔ جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَاکُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلًا(بنی اسرائیل: 16)۔ اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے۔ اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم اِن زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اُس دن خاتمہ ہوگا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک اُن سے محفوظ ہے…۔ اے یورپ! تُو بھی امن میں نہیں۔ اور اے ایشیا! تُو بھی محفوظ نہیں۔ اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مددنہیں کرے گا۔ مَیں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں۔ وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چُپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سُنے کہ وہ وقت دور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی اَمان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے…‘‘۔ فرمایا ’’نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم خود دیکھ لوگے۔ مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے۔ جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی۔ اور جو اُس سے نہیں ڈرتا وہ مُردہ ہے نہ کہ زندہ‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ نمبر268-269)
اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی عقل دے۔ مکروہ اور ظالمانہ کاموں کے کرنے سے بچیں۔ اور ہمیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے۔
مَیں نماز جمعہ کے بعد دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ اس وقت دو شہداء کے جنازے ہیں۔ پہلے شہید ہیں عزیزم نوید احمد صاحب ابن مکرم ثناء اللہ صاحب جن کو 14؍ستمبر2012ء کو کراچی میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
نوید احمد صاحب ابن ثناء اللہ صاحب کے خاندان میں سب سے پہلے ان کے دادا عبدالکریم صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ بیعت سے پہلے آپ کا تعلق امرتسر سے تھا مگر بیعت کے بعد آپ کا زیادہ وقت قادیان میں ہی گزرا۔ تقسیم کے بعد پاکستان میں آپ کا خاندان محمود آباد سندھ میں مقیم ہوا۔ پھر 1985ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔ عزیزم نوید احمد کے والد ثناء اللہ صاحب کو 1984ء میں اسیر راہِ مولیٰ رہنے کی بھی توفیق ملی۔ واقعہ شہادت اس طرح ہے کہ 14؍ستمبر2012ء کو جمعہ کے دن عزیزم نوید احمد ولد ثناء اللہ صاحب جن کی عمر بائیس سال تھی، اپنے گھر واقعہ حمیرا ٹاؤن حلقہ گلشن جامی کے سامنے اپنے دو غیر از جماعت پٹھان دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے کہ دو نامعلوم افراد موٹر سائیکل پر آئے اور انہوں نے ان تینوں نوجوانوں پر کلاشنکوف اور رپیٹر سے فائرنگ کر دی۔ کلاشنکوف سے نکلی دو گولیاں عزیزم نوید احمد کے پیٹ میں لگیں جبکہ دوسرے دونوں نوجوانوں کو بھی گولیاں لگیں جس سے یہ تینوں زخمی ہو گئے۔ انہیں فوری ہسپتال لے جایا گیا لیکن نوید احمد ہسپتال جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پا گئے۔ انّاللّہ وانّا الیہ راجعون۔ بڑے سادہ مزاج، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ نرم مزاج تھے۔ نرم خو تھے۔ ہمدرد تھے۔ اطاعت گزار تھے۔ عاجزانہ عادات کے مالک تھے۔ پڑھائی کا شوق تھا لیکن غربت کی وجہ سے مڈل کے بعد پڑھائی نہیں کر سکے۔ اپنے والد کے ساتھ کام کرتے تھے تو پھر اُس کام کے دوران ہی انہوں نے میٹرک کا امتحان بھی پرائیویٹ طور پر پاس کیا۔ اس رمضان میں بھی خود خدام الاحمدیہ کی ڈیوٹی میں اپنے آپ کو پیش کیا۔ اکثر خود پیش کیا کرتے تھے اور بڑے احسن رنگ میں ڈیوٹیاں سرانجام دیتے تھے۔ جہاں یہ کام کرتے تھے، وہاں ساتھی افسران بھی آپ کے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر تھے۔ آپ کی نماز جنازہ پر بھی دفتر سے کئی افرادنے شرکت کی۔ نیز آپ کے ادارہ کے مالکان اور اُس کی فیملی کے ممبران آپ کے گھر تعزیت کی غرض سے آئے۔ اُن کے والدین دونوں زندہ ہیں اور دو بھائی ہیں اور دو بہنیں ہیں۔
دوسرا جنازہ مکرم محمد احمد صدیقی صاحب ابن مکرم ریاض احمد صاحب صدیقی شہید کا ہے جن کی اگلے دن ہی 15؍ستمبر کو کراچی میں شہادت ہوئی۔ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ جو ہے، شہادتیں جو ہیں، بہت زیادہ ہورہی ہیں۔ اُن کے لئے دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ کراچی کے احمدیوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آجکل سب سے زیادہ ٹارگٹ کر کے جو شہادتیں کی جا رہی ہیں وہ کراچی میں ہیں اور بعض حکومتی اداروں کی طرف سے جو زیادتیاں کی جارہی ہیں وہ پنجاب میں ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ہر جگہ ہر احمدی کو محفوظ رکھے۔
محمد احمد صدیقی صاحب شہید کے خاندان کا تعلق کراچی سے ہے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے بھائی عمران صدیقی صاحب کی بیعت سے ہوا جو 2001ء میں امریکہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ اس کے بعد عمران صدیقی صاحب کی تبلیغ سے آپ کے دیگر دو بھائیوں کی بھی بیعت ہوئی۔ عمیر صدیقی اور رضوان صدیقی۔ اس کے بعد بشمول والدین کے پورا خاندان بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ 15؍ستمبر 2012ء کو ہفتہ کی رات تقریباً بارہ بجے عزیزم محمد احمد صدیقی اپنے بہنوئی مکرم ملک شمس فخری صاحب کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹل سٹور ’’السلام سپر سٹور‘‘ واقع گلستان جوہر سے موٹر سائیکل پر نکلے۔ ابھی کچھ ہی آگے گئے تھے کہ اُن پر شدید فائرنگ کی گئی جس سے دوگولیاں عزیزم محمد احمد صدیقی صاحب کو لگیں جن میں سے ایک اُن کے دل پر جبکہ دوسری گولی اُن کے کولہے پر لگی اور آپ موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ انّا للّہ و انّا الیہ راجعون۔ جبکہ آپ کے بہنوئی مکرم شمس فخری صاحب کو اُن کے جسم کے پانچ مختلف حصوں پر پانچ گولیاں لگیں جن میں سے ایک اُن کے دائیں کندھے پر، ایک پیٹ میں اور باقی گولیاں ٹانگوں پر لگیں اور اس وقت آپ آغا خان ہسپتال میں داخل ہیں۔ ان کی صحت یابی کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔
شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 23سال تھی اور صرف ایک ہفتہ قبل اُن کا نکاح ہوا تھا۔ شہید مرحوم نے گزشتہ سال ہی ایم بی اے امتحان پاس کیا تھا۔ بہت شریف النفس، معصوم، اطاعت گزار اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک تھے۔ کہتے ہیں کہ تیئس سال کا نوجوان نہ صرف خوبصورت شکل و صورت کا مالک تھا بلکہ خوب سیرت بھی تھا۔ ہر وقت چند دعائیں اپنے پاس لکھ کر رکھا کرتے تھے اور اُنہیں پڑھتے رہتے تھے۔ اُن کے بھائی نے کہا کہ ہم میں سے سب سے قابل تھا۔ 7؍ستمبر 2012ء کو اس نے اپنے بعض دوستوں کو موبائل پر ایس ایم ایس کیا کہ کراچی کے حالات بہت خراب ہیں، اگر میں شہید ہو جاؤں تو میرے لئے دعا کرنا۔
شہید مرحوم کی والدہ نے اس تکلیف دہ واقعہ کے وقت بتایا کہ تعزیت کے لئے آنے والی غیر احمدی رشتہ دار خواتین نے طنزیہ انداز میں کہا کہ آپ نے انجام دیکھ لیا۔ اس پر شہید مرحوم کی والدہ نے اُنہیں جواباً کہا کہ ہم نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مسیح کو مانا ہے، ہم کسی سے نہیں ڈرتے۔ میں جماعت کی خاطر اپنے نو (9) کے نو (9) بیٹوں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اللہ کے فضل سے شہید کے بھائی بہن سب حوصلے میں ہیں۔ شہید مرحوم کے والد صاحب پہلے ہی وفات پا چکے ہیں۔ شہید مرحوم نے لواحقین میں بوڑھی والدہ محترمہ کے علاوہ آٹھ بھائی اور دو بہنیں سوگوار چھوڑی ہیں۔ آپ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے۔ ان سب شہداء سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور پیچھے رہنے والوں کو صبر، ہمت اور حوصلہ دے اور پاکستان کے ہر احمدی کی حفاظت فرمائے۔
دشمنان اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو بیہودہ اور لغو فلم بنائی ہے اور جس ظالمانہ طور پر اس فلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اہانت کا اظہار کیا گیا ہے اس پر ہر مسلمان کا غم اور غصّہ ایک قدرتی بات ہے۔
اس عظیم محسنِ انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقینا ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر ایک احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔ جس نے ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم مقام کا اِدراک عطا فرمایا۔ پس ہمارے دل اس فعل پر چھلنی ہیں۔ ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدلہ لے۔ اُنہیں وہ عبرت کا نشان بنا جو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔
یہ لوگ جو اپنی ضد کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ اُس کی پکڑ میں آئیں گے۔
ان لوگوں کی بیہودہ گوئیوں اور ظلموں اور استہزاء سے اُس عظیم نبی کی عزت و ناموس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ تو ایسا عظیم نبی ہے جس پر اللہ تعالیٰ اور اُس کے فرشتے بھی درود بھیجتے ہیں۔ مومنوں کا کام ہے کہ اپنی زبانوں کو اس نبی پر درود سے تر رکھیں۔ اور جب دشمن بیہودہ گوئی میں بڑھے تو پہلے سے بڑھ کر درود و سلام بھیجیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق یہ ردّعمل دکھانا چاہئے کہ درود شریف سے اپنے ملکوں، اپنے علاقوں، اپنے ماحول کی فضاؤں کو بھر دیں۔ یہ ردّعمل ہے۔ یہ ردّ عمل تو بے فائدہ ہے کہ اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگ لگائی جائے یا اپنے ہی ملک کے شہریوں کو مارا جائے یا جلوس نکل رہے ہیں تو پولیس کو مجبوراً اپنے ہی شہریوں پر فائرنگ کرنی پڑے اور اپنے لوگ ہی مر رہے ہوں۔ دنیا کے امن کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس کو بھی یو این او کے امن چارٹر کا حصہ بنایا جائے کہ کوئی ممبر ملک اپنے کسی شہری کو اجازت نہیں دے گا کہ دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھیلا جائے۔
مسلمان اگر اپنی اہمیت کو سمجھیں تو دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ ملکوں کے اندر مذہبی جذبات کے احترام کے قانون بنوا سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی ہے کہ اس طرف توجہ نہیں ہے۔ جو جماعت توجہ دلاتی ہے یعنی جماعت احمدیہ، اُس کی مخالفت میں کمربستہ ہیں اور دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔
(کراچی کے دو شہداء مکرم نوید احمد صاحب ابن مکرم ثناء اللہ صاحب اور مکرم محمد احمد صدیقی صاحب ابن مکرم ریاض احمد صدیقی صاحب کی شہادت کا تذکرہ۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب)
فرمودہ مورخہ 21؍ستمبر 2012ء بمطابق 21؍تبوک 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔