آنحضرت ؐ کی سیرت کے حسین پہلوؤں کی وسیع اشاعت کریں
خطبہ جمعہ 28؍ ستمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ کو جب مَیں یہاں مسجد میں جمعہ پڑھانے آیا تھا تو کار سے اترتے ہی مَیں نے دیکھا کہ ایک بڑی تعداد اخباری نمائندوں کی سامنے کھڑی تھی۔ بہرحال میرے پوچھنے پر امیر صاحب نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں امریکہ میں جوانتہائی دلآزار فلم بنائی گئی ہے اُس پر مسلمانوں میں جو ردّ عمل ہو رہا ہے، اس سلسلہ میں یہ لوگ دیکھنے آئے ہیں کہ احمدیوں کا ردّعمل کیا ہے۔ مَیں نے کہا ٹھیک ہے۔ انہیں کہیں کہ مَیں نے اسی موضوع پر خطبہ دینا ہے اور وہیں جو بھی احمدیوں کا ردّعمل ہو گا بیان کروں گا۔
یہ بھی خدا تعالیٰ کے ہی کام ہیں کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں میڈیا کو کھینچ کر یہاں لایا اور پھر میرے دل میں بھی ڈالا کہ اس موضوع پر کچھ کہوں۔ پہلے میرا ارادہ کچھ اور کہنے کا تھا۔ لیکن ایک دن پہلے توجہ اس طرف پھری کہ اسی موضوع پر کچھ کہنا چاہئے۔ بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں۔ وہ جس طرح چاہتا ہے کرواتا ہے اور بعد کے حالات نے ثابت بھی کیا کہ اس موضوع پر کہنے میں اللہ تعالیٰ کی تائید شامل تھی۔ مختصر وقت میں مختصر باتیں کی جا سکتی ہیں لیکن جو بھی کہی گئیں اُن کے خلاصے کو یا جو پیغام مَیں دینا چاہتا تھا اُس کو اللہ تعالیٰ نے دنیائے احمدیت کے علاوہ غیروں میں بھی کافی وسیع طور پر پہنچا دیا۔ بہر حال جمعہ کے بعد جب مَیں مسجد سے باہر نکلا ہوں تو امیر صاحب نے کہا کہ میڈیا والے دو تین منٹ آپ سے براہِ راست کچھ بات کرنا چاہتے ہیں، اور کچھ پوچھنا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اُن کو کہا کہ خطبہ میں ساری باتیں بیان کر چکا ہوں۔ کیونکہ مَیں دیکھ رہا تھا کہ میڈیا کے لوگ اوپرکھڑے تھے، کیمرے تصویریں بھی لے رہے تھے، ریکارڈنگ بھی کر رہے تھے، ترجمہ سن بھی رہے تھے تو پیغام تو ان کو مل گیا ہے۔ پھر اب یہ مزید اَور کیا چاہتے ہیں؟ بہرحال کیونکہ انہوں نے اُن کو یہ کہہ کر اندر کمرے میں بٹھا دیا تھا کہ مَیں آؤں گا تو اس بات پر مَیں نے اُنہیں کہا کہ ٹھیک ہے، دیکھ لیتے ہیں۔ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کی خاطر اَور باتیں بھی کرنی پڑیں تو ہم کریں گے اور آپ کے مقام کے حوالے سے نیز اسلام کی تعلیم کے حوالے سے اگر اس انٹرویو کی وجہ سے کوئی بہتر پیغام دنیا کو پہنچ سکتا ہے تو اچھی بات ہے، پھر مل لیتا ہوں۔ جب مَیں کمرے میں گیا تو علاوہ اخباری نمائندوں کے ٹی وی چینلز کے نمائندے بھی تھے جن میں نیوز نائٹ جو بی بی سی کے زیرِ انتظام ہے، اسی طرح بی بی سی کا نمائندہ، نیوزی لینڈ نیشنل ٹیلیویژن کا نمائندہ، فرانس کے ٹیلیویژن کا نمائندہ اور بہت سارے دوسرے نمائندے شامل تھے۔ نیوزی لینڈ کا نمائندہ جو میرے دائیں طرف بیٹھا تھا، اُس کو پہلے موقع مل گیا۔ اُس نے یہی سوال کیا کہ آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اُس کو بتایا کہ پیغام تو تم سُن چکے ہو۔ وہ خطبہ کی ریکارڈنگ سن رہے تھے اور ترجمہ بھی سن رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ کے بارے میں مَیں بیان کر چکا ہوں کہ آپ کا بہت بلند مقام ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل جو غم وغصّہ کا ہے وہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہے کہ پیدا ہونا چاہئے تھا، گو بعض جگہ اس کا اظہار غلط طور پر ہو رہا ہے۔ ہمارے دلوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقام ہے دنیادار کی نظر اُس تک نہیں پہنچ سکتی۔ اس لئے دنیادار کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کس حد تک اور کس طرح ہمیں ان باتوں سے صدمہ پہنچا ہے۔ ایسی حرکتیں دنیا کا امن برباد کرتی ہیں۔ نیوزی لینڈ کے ایک نمائندہ کا اس بات پر زور تھا کہ تم نے بڑے سخت الفاظ میں کہا ہے کہ یہ لوگ جہنم میں جائیں گے۔ یہ تو بڑے سخت الفاظ ہیں اور تم بھی اُن لوگوں میں شامل ہو گئے ہو۔ الفاظ تو یہ نہیں تھے لیکن ٹون (Tone) سے یہی مطلب لگ رہا تھا کیونکہ وہ بار بار اس سوال کو دوہرا رہا تھا۔ اُس کو مَیں نے یہ کہاکہ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے پیاروں کے بارے میں ایسی باتیں کریں، اُن کا استہزاء کرنے کی کوشش کریں اور کرتے چلے جائیں اور کسی طرح سمجھانے سے باز نہ آئیں اور تمسخر اور ہنسی کا نشانہ بناتے رہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کی بھی ایک تقدیر ہے وہ چلتی ہے اور عذاب بھی آ سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو پکڑتا بھی ہے۔ خیر وہ چپ کر گیا۔ لیکن لگتا تھا کہ اس بات سے کچھ ڈرا بھی ہوا ہے، کچھ خوفزدہ بھی لگ رہا تھا۔ اُس نے نیوزی لینڈ نیشنل ٹیلیویژن چینل کو جو اپنی خبریں بھیجی ہیں ان خبروں میں وہ وہاں نشر ہوئی اور اس طرح جماعت کے حوالے سے پہلی دفعہ وہاں کے نیشنل ٹیلیویژن پر کوئی خبر نشر ہوئی ہے۔ وہاں کی جماعت بھی اس لحاظ سے خوش تھی کہ خطبہ کے حوالے سے بھی اور میرے انٹرویو کے حوالے سے بھی وہاں ہمارا تعارف ہوگیا۔ خطبہ کے انگریزی مترجم کے یہ الفاظ کہ ’یہ لوگ جہنم میں جائیں گے‘، یہ فقرہ بھی انہوں نے اپنی خبروں میں سنایا جو ریکارڈ کیا ہوا تھا۔ لیکن اس میں یہ شرافت تھی جو بعض دفعہ غیر مسلم نمائندوں میں نہیں ہوتی یا وہ نہیں دکھاتے یا اللہ تعالیٰ نے اُس کے دل میں ڈالا کہ اس فقرہ کا جو بغیر سیاق و سباق کے منفی ردّعمل ہو سکتا تھا، اُس کو زائل کرنے کے لئے مجھے ٹی وی انٹرویو دیتے ہوئے دکھایا اور میرے الفاظ میں یہ بھی دکھا دیا۔ وہاں اس نے میرے الفاظ دوہرا دئیے جومَیں خود بھی بول رہا تھا کہ ہم شدت پسند مظاہرے اور توڑ پھوڑ پسندنہیں کرتے اور تم کبھی کسی احمدی کو نہیں دیکھو گے کہ اس قسم کے فساد اور مفسدانہ ردّعمل کا حصہ ہوں۔ خبریں پڑھنے والے نے میرا یہ جواب دکھا کر پھر آگے تبصرہ کیاکہ یہ جماعت مسلمانوں کی اقلیتی جماعت ہے اور ان کے ساتھ بھی مسلمانوں کی طرف سے اچھا سلوک نہیں ہوتا۔ بہرحال دیکھتے ہیں کہ یہ پیغام جو ان کے خلیفہ نے دیا ہے، اس کی آواز اور پیغام کا احمدی مسلمانوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں پر بھی کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں؟ اس نے وہاں دوسرے مسلمانوں کی فوٹیج بھی دکھائی جو توڑ پھوڑ کر رہے تھے۔ مولویوں کو جلوس نکالتے ہوئے، نعرے لگاتے ہوئے دکھایا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا بہرحال اس ذریعہ سے اسلام کا حقیقی پیغام نیوزی لینڈ کے ملک میں بھی اور سیٹلائٹ کے ذریعہ ارد گرد کے ملکوں میں بھی اور اُن کی ویب سائٹ کے ذریعہ سے دنیا کے بہت سے حصوں میں پہنچ گیا۔ اگر ہم کوشش بھی کرتے تو احمدیت کا تعارف اور اسلام کا حقیقی پیغام اس طرح نہ پہنچتا۔ اب نیوزی لینڈ جماعت کوچاہئے کہ اس حوالے سے اسلام اور احمدیت کا تعارف بھرا پروگرام ملک کے ہر حصہ میں پہنچانے کی کوشش کریں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ کے ارد گرد کے جو ممالک ہیں، اُن میں بھی یہ سنا گیا ہو گا، اُنہیں بھی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حوالے سے ان ممالک میں اسلام کی حقیقی تعلیم پہنچانے کے لئے بھر پور پروگرام بنائیں۔ نیوز نائٹ جو یہاں کا چینل ہے، اُس کا نمائندہ کہنے لگا کہ مَیں نے یہ فلم دیکھی ہے۔ اس میں تو کوئی ایسی بات نہیں جس پر اتنا زیادہ شور مچایا جائے اور مسلمان اس طرح ردّعمل دکھائیں۔ اور تم نے بھی بڑی تفصیل سے اس پر خطبہ دے دیا ہے اور بعض جگہ بڑے سخت الفاظ میں اس کو ردّ کیا ہے۔ یہ تو ہلکا سا مذاق تھا۔ اِنَّا لِلّٰہ۔ یہ تو ان لوگوں کے اخلاقی معیار کی حالت ہے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ پتہ نہیں تم نے کس طرح دیکھا اور تمہارا کیا معیار ہے؟ تم اُس مقام کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں کی نظر میں ہے، اُن کے دل میں ہے اور اُس محبت کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مسلمان کے دل میں ہے، تم نہیں سمجھ سکتے۔ مَیں نے اُسے بتایا کہ مَیں نے فلم تو نہیں دیکھی لیکن ایک دو باتیں جس دیکھنے والے نے مجھے بتائی ہیں، وہ ناقابلِ برداشت ہیں اور تم کہتے ہو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ باتیں سن کر تو مَیں کبھی فلم دیکھنے کی جرأت بھی نہیں کر سکتا۔ اس میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں، ان کو سن کر ہی خون کھولتا ہے۔ مَیں نے اُسے کہا کہ تمہارے باپ کو اگر کوئی گالی دے، برا بھلا کہے، بیہودہ باتیں کہے تو اُس کے متعلق تمہارا ردّعمل کیا ہو گا؟ تم دکھاؤگے ردّ عمل؟۔ یہ بتاؤ گے کہ ٹھیک ہے کہ نہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تو ایک مسلمان کی نظر میں اس سے بہت بلند ہے، اس جگہ تک کوئی پہنچ نہیں سکتا۔ دوبارہ پھر وہ فلم کے بارے میں بات کرنے لگا تو پھر مَیں نے اُسے کہا کہ مَیں تمہیں کہہ چکا ہوں کہ تمہارے باپ کے خلاف اگر کوئی بات کرے تو سنو گے؟ ہاں یا نہ میں جواب تو اُس نے نہیں دیا لیکن اس بات پربہر حال چپ کر گیا۔ اس نمائندے نے تو شاید اس بارے میں میڈیا میں خبر نہیں دی۔ لیکن میرے اس فقرہ کو کہ تمہارے باپ کو کوئی گالی دے تو ردّعمل دکھاؤ گے کہ نہیں؟ دوسرے میڈیا نے بہت ساری جگہوں پر اُٹھایا۔ ویب سائٹ پر بھی ڈالا ہے۔
بہر حال انٹرنیٹ پر اور بعض اخباروں کی ویب سائٹ پر مختلف تبصرہ کرنے والوں نے اور ایک پاکستانی انگلش اخبار نے خطبہ کے حوالے سے، پریس میٹنگ کے حوالے سے جماعت احمدیہ مسلمہ کے مؤقف کو دنیا پر خوب ظاہر کیا کیونکہ اکثر نے اس بات پر بڑے تعریفی کلمات لکھے تھے۔ لیکن انٹرنیٹ پر بعض تبصرے ایسے بھی تھے کہ مرزا مسرور احمدنے کونسی ایسی خاص بات کر دی ہے۔ بعضوں نے یہ بھی لکھا کہ انہوں نے جو بات کہی ہے ہر عقل مند انسان یہی بات کرتا ہے۔ لیکن ایک احمدی نے مجھے لکھا کہ مَیں نے سارے تبصرے سنے، ساری خبریں دیکھیں۔ علماء کے بھی اور ان کے لیڈروں کے بھی ساروں کے بیانات دیکھے۔ بہت باتیں کی ہیں لیکن کسی نے یہ توجہ نہیں دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو۔ تو یہ توجہ بھی صرف جماعت احمدیہ کی طرف سے ہی دلائی گئی ہے کہ اس کا ایک ردّعمل یہ بھی ہونا چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔ بعض نے یہ بھی لکھا کہ ان لوگوں نے ہی صحیح اسلامی ردّعمل دکھایا ہے جن کو تم غیر مسلم کہتے ہو۔ بہرحال اس کی خوب تشہیر ہوئی ہے۔ اس طرح دنیا کے سامنے ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی ردّعمل بھی آ گیا۔ اسلام کی حقیقی تعلیم جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، اُس کا بھی دنیا کو پتہ چل گیا۔ دنیا کو اور عالم اسلام کو یہ پیغام بھی مل گیا کہ ایک حقیقی مسلمان کا صحیح ردّعمل کیا ہوتا ہے اور کیا ہونا چاہئے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی تائید تھی کہ اس طرح کوریج ہوئی ورنہ اگر ہم اپنی کوشش بھی کرتے تو صحیح اسلامی مؤقف جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، دنیا کو اس کا پتہ نہ چلتا، یا ہم وسیع طور پر دنیا تک نہ پہنچا سکتے۔ اب اس کو آگے بڑھانا، اس کوریج سے فائدہ اُٹھانا ہرجگہ کی جماعت کا اور ہر احمدی کا کام ہے۔
جہاں تک مرکز کی طرف سے اس بارے میں کوشش کی ہدایت اور طریقۂ کار کا سوال ہے مَیں نے خطبہ کے حوالے سے اس کی اشاعت کی ہدایت تو کر دی ہے۔ بہرحال یہ ہدایت اور طریق جو بھی دفتر کی طرف سے جماعتوں کو اور افراد کو اُن کی جماعتوں کی طرف سے پہنچے گا وہ تو ہو سکتا ہے کہ چاہے چند دن ہی سہی وہ کچھ وقت لے لے۔ لیکن تمام احمدی جو میری بات سن رہے ہیں، اُن کو چاہئے کہ اس موقع سے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا ہے ایک تو جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا، اپنے عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کریں۔ لیکن ساتھ ہی متعلقہ مرکزی دفتر بھی جیسا کہ میں نے کہا اور جماعتیں بھی فوری توجہ دیتے ہوئے خطبہ کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے وسیع طور پر شائع کریں اور پریس کے حوالے سے بھی ذکر کریں اور ہر ذی شعور تک اسلامی مؤقف کو پہنچائیں۔ مختصر سا وہ خطبہ تھا۔ نیز اس میں یہ بھی درج ہو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو دیکھنا ہے تو حقائق اور تاریخ کی روشنی میں تمہیں ہم لٹریچر بھی مہیا کرتے ہیں، کتب بھی مہیا کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ویب سائٹ ہے، اور مختلف جماعتوں کی بھی ہیں اُن کا بھی پتہ دیں۔ مرکزی ویب سائٹ کا پتہ دیں جس میں یہ لٹریچر موجود ہو۔
اس بارے میں جیسا کہ مَیں نے کہا پہلے بھی مَیں ہدایت دے رہا تھا اور دے چکا ہوں۔ بعض لوگوں نے اپنے مشورے بھی دئیے ہیں کہ اس خطبہ کے حوالے سے اور پریس کے ساتھ سوال و جواب کے حوالے سے دنیا میں جماعت کے موقف کی جو تشہیر ہوئی ہے، اُس کے ذریعہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی بھر پور کوشش ہونی چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ اپنے علاقے کی لائبریریوں میں بھی مثلاً یورپ میں یا انگلستان میں یا انگریزی بولنے والے ملکوں میں سیرت سے متعلق جماعت کی وہ کتب رکھوانی چاہئیں جن کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے۔ نیزاگر کسی طبقے کو مفت بھی مہیا کرنی پڑیں تو کی جاسکتی ہیں۔ خاص طور پر وہ کتب، جیسا کہ میں نے کہا، جن کا انگلش ترجمہ ہو چکا ہے یا کسی اور زبان میں ترجمہ ہو چکا ہے، ان کو کثرت سے پھیلایا جائے۔ مثلاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب Life of Muhammad جو انگریزی میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تصنیف سیرۃ خاتم النبیینؐ کا کچھ حصہ انگلش میں ترجمہ ہو گیا ہے۔ باقی بھی وکالتِ تصنیف کو چاہئے کہ جلدی ترجمہ کرا کے شائع کرائیں۔ بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا Life of Muhammad جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کتاب ہے۔ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے جس میں سیرت کے تمام پہلوؤں کو مختصر طور پرکَور (Cover) کیا گیاہے۔ اصل میں یہ دیباچہ تفسیر القرآن کا ایک حصہ ہے۔ اس کا کچھ حصہ جس میں تاریخ بھی بیان ہوئی ہے اور سیرت بھی بیان ہوئی ہے، یہ تقریباً، تقریباً کیا سارا ہی دیباچہ کا وہ حصہ ہے جو سیرت اور تاریخ سے متعلقہ ہے۔ بہرحال اس کا اُتنا حصہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے متعلق ہے، اس کو پڑھنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو اجاگر ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہئے۔ وکیل اشاعت اور تصنیف مجھے رپورٹ کریں کہ کس کس زبان میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ اگر سٹاک میں نہیں ہے تو فوری اس کی اشاعت بھی کروائیں۔ میرا خیال ہے جرمن زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہے اور فرنچ میں بھی شاید ہے۔ بہر حال یہ رپورٹ دے دیں۔ دنیا کے سامنے ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو رکھنا ہے۔ یہ ہمارا کام ہے اور اس کو ہمیں بہرحال ایک کوشش کر کے سرانجام دینا چاہئے۔ آج یہ کام ایک لگن کے ساتھ صرف جماعت احمدیہ ہی کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ہر طرح کے پروگرام کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔ سیمینار بھی ہوں، جلسے بھی ہوں اور ان میں غیروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بلائیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ میرا گزشتہ خطبہ ہر زبان میں ترجمہ کر کے ایک چھوٹے سے پمفلٹ کی صورت میں بنا کرایک مہم کی صورت میں اُس طرح تقسیم کر دیں جس طرح پہلے امن کے حوالے سے لیف لیٹنگ ہوئی تھی۔ لیکن اس کام کو زیادہ دیر نہیں لگنی چاہئے۔ ہفتہ دس دن کے اندر اندر یہ کام ہو سکتا ہے اور کرنا چاہئے۔ بڑے ممالک میں اس کی اشاعت کا کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے۔ یہ لوگ تو اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے اور نہ آئیں گے۔ عمومی طور پر مسلمان جو ردّ عمل دکھارہے ہیں، اس کو لے کر لگتا ہے کہ یہ لوگ ہمارے دلوں کو مزید زخمی کرنے کے درپے ہیں۔ اپنی خبیثانہ حرکتوں کو ایک ملک سے دوسرے ملک میں پھیلاتے چلے جا رہے ہیں۔ اب دو دن پہلے سپین کے کسی اخبار نے بھی یہ خاکے بنائے تھے اور شائع کئے ہیں اور یہ کہا ہے کہ یہ تو مذاق ہے اور یہ مسلمانوں کے ردّعمل کا جواب بھی ہے۔
پس ہمیں ان لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے اور کم از کم شرفاء اور پڑھے لکھے لوگوں کو بتانے کے لئے بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ غلط طریق دنیا کا امن برباد کر رہا ہے، تاکہ جس حد تک ممکن ہو ان کے ظالمانہ رویے کی حقیقت سے ہم دنیا کو آگاہ کر سکیں۔ یہاں یوکے میں اور کامن ویلتھ ملکوں میں کوئین کی ڈائمنڈ جوبلی گزشتہ دنوں منائی گئی تھی۔ اس حوالے سے تقریباً سارا سال ہی شور پڑا رہا ہے اور پڑ رہا ہے یا اس کا ذکر چل رہا ہے۔ اب بھی اس طرف توجہ ہے۔ ملکہ وکٹوریہ کی جب ڈائمنڈ جوبلی ہوئی تھی تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ’’تحفہ قیصریہ‘‘ کے نام سے کتاب لکھ کر ملکہ کو بھجوائی تھی جس میں جہاں ملکہ کی انصاف پسند حکومت کی تعریف کی تھی وہاں اسلام کا پیغام بھی پہنچایا تھا اور دنیا میں امن کے قیام اور مختلف مذاہب کے آپس کے تعلقات اور مذہبی بزرگوں اور انبیاء کی عزت و احترام کی طرف بھی توجہ دلائی تھی۔ اور یہ بھی تفصیل سے بتایا تھا کہ امن کے طریق کیا ہونے چاہئیں۔ اب جب ملکہ الزبتھ کی ڈائمنڈ جوبلی ہوئی ہے تو تحفہ قیصریہ کا ترجمہ پرنٹ کر کے خوبصورت جِلد کے ساتھ ملکہ کو بھجوایا گیا تھا۔ ملکہ کا جو متعلقہ شعبہ ہے جس کو یہ کتاب تحفہ کے طور پر جا کے دی گئی تھی، اور ساتھ میرا خط بھی تھا، اُن کی طرف سے مجھے شکریہ کاجواب بھی آیا ہے اور یہ بھی کہ ملکہ کی کتابوں کی جو collection ہے وہاں رکھ دی گئی ہے اور ملکہ اس کو پڑھے گی۔ بہر حال پڑھتی ہے یا نہیں لیکن ہماری جو ذمہ داری تھی ہم نے ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس وقت بھی دنیا کی بدامنی کے وہ حالات ہیں جو اُس زمانے میں بھی تھے بلکہ بعض لحاظ سے بڑھ رہے ہیں اور یہ لوگ اسلام پر حملہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ، آپ کا استہزاء کرتے چلے جا رہے ہیں اور بہت آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کی تشہیر کی آج بھی بہت ضرورت ہے۔ اس لئے اس میں امن اور مذہب کے احترام کا جو حصہ ہے اور پھر یہ بھی دیا ہوا ہے کہ کانفرنسیں بھی منعقدہونی چاہئیں اور کس طرح ہونی چاہئیں۔ یہ سارے حصے اکٹھے کر کے ایک پمفلٹ کی شکل میں چھاپ کر یہاں بھی اور دنیا میں بھی تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر بھی فوری کام ہونا چاہئے۔ یہ دو تین ورقہ پیغام بنے گا، زیادہ سے زیادہ چار پانچ ورقے بن جائیں گے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انبیاء کا ذکر فرماتے ہوئے یہ مثال دی ہے کہ اگر کسی حکومت کے نام پر کوئی جھوٹا قانون بنا کر اس کی طرف سے پھیلائے اور اپنے آپ کو حکومت کا کارندہ ثابت کرے یا کرنے کی کوشش کرے تو حکومت کی مشینری حرکت میں آتی ہے اور ایسے شخص یا گروہ کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی طرف غلط باتوں کے منسوب ہونے کو برداشت کرے اور کھلی چھٹی دے دے۔ (ماخوذ از تحفۂ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 258-257)
پس انبیاء بھی جب خدا تعالیٰ کی طرف سے پیغام لانے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اُن کی جماعتیں بھی بڑھ رہی ہوتی ہیں تو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یہ جماعت یا یہ لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوؤں کا احترام کرنا چاہئے تا کہ دنیا کا امن قائم رہے۔ اس بارے میں ایک حصہ جس میں آپ نے فرمایا کہ کس طرح امن ہونا چاہئے اور انبیاء کا کیا مقام ہوتا ہے، وہ مَیں اس وقت پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے‘‘ (یعنی وہی قانون کہ اگر دنیاوی حکومتیں کسی ایسی بات کااپنی طرف منسوب ہونا برداشت نہیں کرتیں جو نہیں کہی گئی تو اللہ تعالیٰ کس طرح برداشت کرے گا؟) فرمایا ’’سو یہی قانون خدا تعالیٰ کی قدیم سنت میں داخل ہے کہ وہ نبوت کے جھوٹے دعویٰ کرنے والے کو مہلت نہیں دیتا بلکہ ایسا شخص جلد پکڑا جاتا اور اپنی سزا کو پہنچ جاتا ہے۔ اس قاعدہ کے لحاظ سے ہمیں چاہئے کہ ہم ان تمام لوگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور ان کو سچا سمجھیں جنہوں نے کسی زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا۔ اور پھر وہ دعویٰ ان کا جڑ پکڑگیا اور ان کا مذہب دنیا میں پھیل گیا اور استحکام پکڑ گیا اور ایک عمر پاگیا۔ اور اگر ہم اُن کے مذہب کی کتابوں میں غلطیاں پائیں یا اس مذہب کے پابندوں کو بدچلنیوں میں گرفتار مشاہدہ کریں تو ہمیں نہیں چاہئے کہ وہ سب داغ ملالت ان مذاہب کے بانیوں پر لگاویں۔ کیونکہ کتابوں کا محرف ہو جانا ممکن ہے۔ اجتہادی غلطیوں کا تفسیروں میں داخل ہو جانا ممکن ہے۔ لیکن یہ ہرگز ممکن نہیں کہ کوئی شخص کھلا کھلا خدا پر افترا کرے اور کہے کہ مَیں اس کا نبی ہوں اور اپنا کلام پیش کرے، اور کہے کہ’’یہ خدا کا کلام ہے‘‘۔ حالانکہ وہ نہ نبی ہو اور نہ اس کا کلام خدا کا کلام ہو۔ اور پھر خدا اس کو سچوں کی طرح مہلت دے‘‘۔ (یہ سب کچھ ہو اور پھر خدا اُس کو سچوں کی طرح مہلت دے) ’’اور سچوں کی طرح اس کی قبولیت پھیلائے۔ لہذا یہ اصول نہایت صحیح اور نہایت مبارک اور باوجود اس کے صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا ہے کہ ہم ایسے تمام نبیوں کو سچے نبی قرار دیں جن کا مذہب جڑ پکڑ گیا اور عمر پاگیا اور کروڑ ہا لوگ اس مذہب میں آگئے۔ یہ اصول نہایت نیک اصول ہے۔ اور اگر اس اصل کی تمام دنیا پابند ہو جائے تو ہزاروں فساد اور توہین مذہب جو مخالف امن عامہ خلائق ہیں اٹھ جائیں۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ کسی مذہب کے پابندوں کوایک ایسے شخص کا پیرو خیال کرتے ہیں جو ان کی دانست میں دراصل وہ کاذب اور مفتری ہے تو وہ اس خیال سے بہت سے فتنوں کی بنیاد ڈالتے ہیں اور وہ ضرور توہین کے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور اس نبی کی شان میں نہایت گستاخی کے الفاظ بولتے ہیں اور اپنے کلمات کو گالیوں کی حد تک پہنچاتے ہیں۔ اور صلح کاری اور عامہ خلائق کے امن میں فتور ڈالتے ہیں۔ حالانکہ یہ خیال ان کا بالکل غلط ہوتا ہے۔ اور وہ اپنے گستاخانہ اقوال میں خدا کی نظر میں ظالم ہوتے ہیں۔ خدا جو رحیم و کریم ہے وہ ہرگز پسندنہیں کرتا جو ایک جھوٹے کو ناحق کا فروغ دے کر اور اس کے مذہب کی جڑ جما کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے۔ اور نہ جائز رکھتا ہے کہ ایک شخص باوجود مفتری اور کذاب ہونے کے دنیا کی نظر میں سچے نبیوں کا ہم پلّہ ہو جائے۔
پس یہ اصول نہایت پیارا اور امن بخش اور صلح کاری کی بنیاد ڈالنے والا اور اخلاقی حالتوں کو مدد دینے والا ہے کہ ہم ان تمام نبیوں کو سچا سمجھ لیں جو دنیا میں آئے۔ خواہ وہ ہند میں ظاہر ہوئے، یا فارس میں، یا چین میں، یا کسی اور ملک میں اور خدا نے کروڑہا دلوں میں ان کی عزت اور عظمت بٹھادی اور ان کے مذہب کی جڑ قائم کردی اور کئی صدیوں تک وہ مذہب چلا آیا۔ یہی اصول ہے جو قرآن نے ہمیں سکھلایا۔ اسی اصول کے لحاظ سے ہم ہر ایک مذہب کے پیشوا کو جن کی سوانح اس تعریف کے نیچے آگئی ہیں عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں گو وہ ہندوؤں کے مذہب کے پیشوا ہوں یا فارسیوں کے مذہب کے یا چینیوں کے مذہب کے یا یہودیوں کے مذہب کے یا عیسائیوں کے مذہب کے۔ مگر افسوس کہ ہمارے مخالف ہم سے یہ برتاؤ نہیں کر سکتے۔ اور خدا کا یہ پاک اور غیر متبدل قانون ان کو یادنہیں کہ وہ جھوٹے نبی کو وہ برکت اور عزت نہیں دیتا جو سچے کو دیتا ہے اور جھوٹے نبی کا مذہب جڑ نہیں پکڑتا اور نہ عمر پاتا ہے جیسا کہ سچے کا جڑ پکڑتا اور عمر پاتا ہے۔ پس ایسے عقیدہ والے لوگ جو قوموں کے نبیوں کو کاذب قرار دے کر بُرا کہتے رہتے ہیں ہمیشہ صلح کاری اور امن کے دشمن ہوتے ہیں۔ کیونکہ قوموں کے بزرگوں کو گالیاں نکالنا اس سے بڑھ کر فتنہ انگیز اور کوئی بات نہیں۔ بسا اوقات انسان مرنا بھی پسند کرتا ہے مگر نہیں چاہتا کہ اس کے پیشوا کوبُرا کہا جائے۔ اگر ہمیں کسی مذہب کی تعلیم پر اعتراض ہو تو ہمیں نہیں چاہئے کہ اس مذہب کے نبی کی عزت پر حملہ کریں۔ اور نہ یہ کہ اس کو بُرے الفاظ سے یاد کریں۔ بلکہ چاہئے کہ صرف اس قوم کے موجودہ دستورالعمل پر اعتراض کریں‘‘ (یعنی اگر وہ غلطیاں اُس قوم میں ہیں تو اُس قوم کی اُن غلطیوں پر اعتراض کریں، نہ کہ نبیوں پر) فرمایا’’اور یقین رکھیں کہ وہ نبی جو خداتعالیٰ کی طرف سے کروڑہا انسانوں میں عزت پاگیا اور صدہا برسوں سے اس کی قبولیت چلی آتی ہے یہی پختہ دلیل اس کے منجانب اللہ ہونے کی ہے۔ اگر وہ خدا کا مقبول نہ ہوتا تو اس قدر عزت نہ پاتا۔ مفتری کو عزت دینا اور کروڑہا بندوں میں اس کے مذہب کو پھیلانا اور زمانہ دراز تک اس کے مفتریانہ مذہب کو محفوظ رکھنا خدا کی عادت نہیں ہے۔ سو جو مذہب دنیا میں پھیل جائے اور جم جائے اور عزت اور عمر پاجائے وہ اپنی اصلیت کے رُو سے ہرگز جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ پس اگر وہ تعلیم قابل اعتراض ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ‘‘(آپ نے اس کی تین وجوہات بتائی ہیں کہ اگر وہ مذہب موجودہ زمانے میں قابلِ اعتراض ہوتا ہے تو اس کی تین وجوہات ہیں۔ فرمایا اُس کا سبب یہ ہو گا کہ نمبر ایک) ’’اس نبی کی ہدایتوں میں تحریف کی گئی ہے‘‘۔ (یعنی نبی نے جو ہدایات دی تھیں، اُن کو بدلا گیا۔ نمبر دو یہ) ’’اور یا یہ سبب ہوگا کہ ان ہدایتوں کی تفسیر کرنے میں غلطی ہوئی ہے‘‘۔ (اُن کی تفسیر غلط رنگ میں کی گئی۔ اور تیسری بات یہ) ’’اوریا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود ہم اعتراض کرنے میں حق پر نہ ہوں‘‘۔ (ایک بات کی سمجھ ہی نہیں آئی اور اعتراض کر دیا۔ جس طرح آج کل اُٹھتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کر دیتے ہیں حالانکہ نہ تاریخ پڑھی، نہ واقعات پڑھے، نہ قرآن کی سمجھ آئی۔ فرمایا کہ) ’’چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض پادری صاحبان اپنی کم فہمی کی وجہ سے قرآن شریف کی ان باتوں پر اعتراض کر دیتے ہیں جن کو توریت میں صحیح اور خدا کی تعلیم مان چکے ہیں۔ سو ایسا اعتراض خود اپنی غلطی یا شتاب کاری ہوتی ہے‘‘۔
پھر فرمایا: ’’خلاصہ یہ کہ دنیا کی بھلائی اور امن اور صلح کاری اور تقویٰ اور خداترسی اسی اصول میں ہے کہ ہم ان نبیوں کو ہرگز کاذب قرار نہ دیں جن کی سچائی کی نسبت کروڑہا انسانوں کی صدہا برسوں سے رائے قائم ہو چکی ہو اور خدا کی تائیدیں قدیم سے ان کے شامل حال ہوں۔ اور مَیں یقین رکھتا ہوں کہ ایک حق کا طالب خواہ وہ ایشیائی ہو یا یورپین، ہمارے اس اصول کو پسند کرے گا اور آہ کھینچ کر کہے گا کہ افسوس ہمارا اصول ایسا کیوں نہ ہوا‘‘۔
ملکہ کو لکھتے ہیں کہ ’’مَیں اس اصول کو اس غرض سے حضرت ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند و انگلستان‘‘ (اُس وقت تو ہندوستان پر بھی ملکہ کی حکومت تھی) ’’کی خدمت میں پیش کرتا ہوں کہ امن کو دنیا میں پھیلانے والا صرف یہی ایک اصول ہے جو ہمارا اصول ہے۔ اسلام فخر کر سکتا ہے کہ اس پیارے اور دلکش اصول کو خصوصیت سے اپنے ساتھ رکھتا ہے۔ کیا ہمیں روا ہے کہ ہم ایسے بزرگوں کی کسر شان کریں جو خدا کے فضل نے ایک دنیا کو ان کے تابعدار کر دیا اور صدہا برسوں سے بادشاہوں کی گردنیں ان کے آگے جھکتی چلی آئیں؟ کیا ہمیں روا ہے کہ ہم خدا کی نسبت یہ بدظنی کریں کہ وہ جھوٹوں کو سچوں کی شان دے کر اور سچوں کی طرح کروڑہا لوگوں کا ان کو پیشوا بنا کر اور ان کے مذہب کو ایک لمبی عمر دے کر اور ان کے مذہب کی تائید میں آسمانی نشان ظاہر کر کے دنیا کو دھوکا دینا چاہتا ہے؟ اگر خدا ہی ہمیں دھوکا دے تو پھر ہم راست اور ناراست میں کیونکر فرق کر سکتے ہیں؟‘‘
فرمایا: ’’یہ بڑا ضروری مسئلہ ہے کہ جھوٹے نبی کی شان و شوکت اور قبولیت اور عظمت ایسی پھیلنی نہیں چاہئے جیسا کہ سچے کی۔ اور جھوٹوں کے منصوبوں میں وہ رونق پیدا نہیں ہونی چاہئے جیسا کہ سچّے کے کاروبار میں پیدا ہونی چاہئے۔ اسی لئے سچے کی اوّل علامت یہی ہے کہ خدا کی دائمی تائیدوں کا سلسلہ اس کے شامل حال ہو۔ اور خدا اس کے مذہب کے پودہ کو کروڑہا دلوں میں لگا دیوے اور عمر بخشے۔ پس جس نبی کے مذہب میں ہم یہ علامتیں پاویں ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی موت اور انصاف کے دن کو یاد کر کے ایسے بزرگ پیشوا کی اہانت نہ کریں۔ بلکہ سچی تعظیم اور سچی محبت کریں۔ غرض یہ وہ پہلا اصول ہے جو خدا نے ہمیں سکھلایا ہے جس کے ذریعہ سے ہم ایک بڑے اخلاقی حصہ کے وارث ہوگئے ہیں‘‘۔ (تحفۂ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 258 تا 262)
آپؑ نے یہ بھی فرمایا کہ ایسی کانفرنسیں ہونی چاہئیں جہاں مختلف مذاہب کے لوگ اپنے مذہب کے بارے میں خوبیاں بھی بیان کریں۔ (ماخوذاز خطبہ ٔ الہامیہ۔ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 30، ماخوذ از تحفۂ قیصریہ۔ روحانی خزائن جلد 12صفحہ 279)
اور اس وقت اگر دیکھا جائے، تو عملی رنگ میں اسلام دنیا کا پہلا مذہب ہے اور تعداد کے لحاظ سے یہ بہرحال دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے۔ اس لئے دنیا کے دوسرے مذاہب کو بہر حال مسلمانوں کی عزت کرنی چاہئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و احترام کا جو حق ہے وہ ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نہیں تو دنیا میں فساد اور بے امنی پیدا ہو گی۔
پس جب ہم دنیا کے مذاہب کا احترام و عزت کرتے ہیں، اُن کے بزرگوں اور انبیاء کو خدا تعالیٰ کا فرستادہ سمجھتے ہیں تو صرف اس خوبصورت تعلیم کی وجہ سے جو قرآنِ کریم نے ہمیں دی ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی۔ مخالفینِ اسلام باوجود اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں، بیہودہ قسم کی تصویریں بھی بناتے ہیں، مگر ہم کسی مذہب کے نبی اور بزرگ کو جواب میں غلط الفاظ سے نہیں پکارتے یا اُن کااستہزاء نہیں کرتے۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ امن برباد کرنے والے ہیں۔ پہلے خود یہ لوگ امن برباد کرنے والی حرکتیں کرتے ہیں، جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں اور جب جذبات بھڑک جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو مسلمان ہیں ہی تشدد پسند، اس لئے ان کے خلاف ہر طرح کی کارروائی کرو۔
جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ مخالفینِ اسلام کو یہ سب کچھ کرنے کی جرأت اس لئے ہے کہ مسلمان ایک ہو کر نہیں رہتے لیکن ہم احمدی مسلمان جن کو خدا تعالیٰ نے مسیح موعود اور مہدی موعود کے ہاتھ پر جمع کر دیا ہے، ہمارا بہرحال کام ہے کہ دنیا کو ہدایت کے راستے دکھائیں، امن اور سلامتی کے طریق بتائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس پیغام کو جو میں نے پڑھا ہے، اس کی خوب تشہیر کریں تا کہ دنیا کو حقیقی اسلامی تعلیم کا پتہ چل سکے۔ دنیا داروں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہمارے دل میں اور حقیقی مسلمان کے دل میں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور آپؐ کا اسوہ حسنہ کس قدر خوبصورت ہے اور اس میں کیا حسن ہے؟ ایک حقیقی مسلمان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق اور محبت ہے، اس کا یہ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عشق کا اظہار آج سے چودہ سو سال پہلے صرف حسان بن ثابت نے ہی اپنے اس شعر میں نہیں کیا تھا کہ ؎
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ فَعَمِیَ عَلَیْکَ النَّاظِرٗ
مَنْ شَآءَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ
(تحفۂ غزنویہ۔ روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 583)
یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تُو تو میری آنکھ کی پُتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھ اندھی ہو گئی۔ اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں تو تیری موت سے ہی ڈرتا تھا۔ یہ شعر آپ کی وفات پر حسانؓ بن ثابت نے کہا تھا لیکن ہم میں اس زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت، ایک گہری عشق و محبت پیدا کی ہے۔ ہمارے دل میں اس عشق و محبت کی جوت جگائی ہے۔ آپ ایک جگہ اس عشق و محبت کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں۔ آپ کا جو بڑا لمبا عربی قصیدہ ہے، اُس کے کچھ شعر ہیں کہ:
قَوْمٌ رَأَوْکَ وَاُمَّۃٌ قَدْ اُخْبِرَتْ
مِنْ ذَالِکَ الْبَدْرِ الَّذِیْ اَصْبَانِیْ
کہ ایک قوم نے تجھے دیکھا ہے اور ایک امت نے خبر سنی ہے، اُس بدر کی جس نے مجھے اپنا عاشق بنایا۔
یَبْکُوْنَ مِنْ ذِکْرِ الْجَمَالِ صَبَابَۃً
وَ تَأَلَّمًا مِّنْ لَوْعَۃِ الْھِجْرَانٖ
وہ تیرے حسن کی یاد میں بوجہ عشق کے روتے ہیں اور جدائی کی جلن کے دُکھ اُٹھانے سے بھی روتے ہیں۔
وَأَرَی الْقُلُوْبَ لَدَی الْحَنَاجِرَ کُرْبَۃً
وَأَرَی الْغُرُوْبَ تُسِیْلُھَا الْعَیْنَانٖ
اور میں دیکھتا ہوں کہ دل بیقراری سے گلے تک آ گئے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں۔ یہ قصیدہ بہت ساروں کو بلکہ اب تو ہمارے بچوں کو بھی یا د ہے۔ اور اس لمبے قصیدہ کا آخری شعر یہ ہے کہ:
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا
یَا لَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَانٖ
کہ میرا جسم تو شوقِ غالب سے تیری طرف اُڑنا چاہتا ہے۔ اے کاش میرے اندر اُڑنے کی طاقت ہوتی۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 590اور 594)
پس ہمیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے یہ سبق سکھائے گئے ہیں اور یہ دنیا دار کہتے ہیں کہ کیا فرق پڑتا ہے؟ ہلکا پھلکا مذاق ہے۔ جب اخلاق اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اخلاق کے معیار بجائے اونچے جانے کے پستیوں کو چھونے لگیں تو تبھی دنیا کے امن بھی برباد ہوتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے، ہمارا کام ہے کہ زیادہ سے زیادہ کوشش کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مختلف پہلوؤں کو دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اس کے لئے مختصر اور بڑی جامع کتاب Life of Muhammad یا دیباچہ تفسیر القرآن کا سیرت والا حصہ ہے، اس کو ہر احمدی کو پڑھنا چاہئے۔ اس میں سیرت کے قریباً تمام پہلو بیان ہو گئے ہیں یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ضروری پہلو بیان ہو گئے ہیں۔ اور پھر اپنے ذوق اور شوق اور علمی قابلیت کے لحاظ سے دوسری سیرت کی کتابیں بھی پڑھیں اور دنیا کو مختلف طریقوں سے، رابطوں سے، مضامین سے، پمفلٹ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان سے آگاہ کریں۔ اللہ تعالیٰ اس اہم کام اور فریضے کو سرانجام دینے کی ہر احمدی کو توفیق عطا فرمائے اور دنیا کو عقل عطا فرمائے کہ اس کا ایک عقلمند طبقہ خود اس قسم کے بیہودہ اور ظالمانہ مذاق کرنے والوں یا دشمنیوں کا اظہار کرنے والوں کا ردّ کرے تا کہ دنیا بدامنی سے بھی بچ سکے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بھی بچ سکے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔
اس وقت جمعہ کی نماز کے بعد مَیں ایک جنازہ پڑھاؤں گا، جنازہ حاضر ہے۔ یہ جنازہ مکرم مولانا نصراللہ خان ناصر صاحب کا ہے جو مربی سلسلہ تھے۔ ان کو دل کی پرانی تکلیف تھی۔ 23؍ستمبر کو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی ہے۔ 72سال ان کی عمر تھی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آج کل یہیں یوکے میں رہتے تھے۔ چوہدری مہر اللہ دتہ صاحب گجرات کے بیٹے تھے۔ ان کے والد صاحب نے 1918ء میں اپنے گاؤں سے پیدل سیالکوٹ جا کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مرحوم نصراللہ خان ناصر صاحب نے 1960ء میں زندگی وقف کی۔ جامعہ احمدیہ ربوہ میں داخلہ لیا۔ دورانِ تعلیم آپ نے اپنا پہلا مضمون اس عنوان سے لکھا کہ ’’خلیفہ ہرگز معزول نہیں ہو سکتا‘‘ جو الفضل ربوہ میں شائع بھی ہوا۔ آپ کا علمی ذوق کافی تھا جس کی وجہ سے آپ کو جامعہ کے رسالۃ مجلۃ الجامعۃ کا ایڈیٹر مقرر کیا گیا۔ آپ کو مضامین لکھنے کا بھی خاص ملکہ حاصل تھا۔ جماعتی رسائل میں، اخباروں میں مضامین لکھا کرتے تھے۔ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد 1983ء تک پاکستان کی مختلف جماعتوں میں بطور مربی سلسلہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مرکز میں اصلاح و ارشاد مقامی کے دفتر میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ 1994ء سے 2004ء تک ماہنامہ انصار اللہ کے ایڈیٹر رہے۔ اس وجہ سے ان پر بہت سارے مقدمات بھی قائم ہوئے۔ ان مقدمات کی وجہ سے آپ کو پیروی کے لئے ربوہ سے کراچی، سندھ اور ملک کے دوسرے شہروں میں جانا پڑتا تھا۔ بعض دفعہ بڑی جلدی جلدی تاریخیں ملتی تھیں لیکن یہ بڑی ہمت سے باوجود بیماری کے اور عمر کے جایا کرتے تھے۔ بڑی بہادری سے انہوں نے ان مقدمات کا سامنا کیا ہے۔ بعض دفعہ عدالتوں میں حالات خراب ہو جاتے تھے، بڑی مایوسی کی کیفیت ہوتی تھی، بعض دفعہ دشمن بڑا سرگرم ہوتا تھا لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمت دی اور جو مقدمات بنے ان میں ہمیشہ پیش ہوتے رہے۔ ان کودارالقضاء میں بطور نمائندہ برائے عائلی معاملات کے بھی خدمت انجام دینے کی توفیق ملی۔ آپ نے ایک کتاب ’’اصحاب صدق و صفا‘‘ بھی لکھی اور اس میں تین سو تیرہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر کیا۔ ان کی تاریخ تھی یا اُن کے بارے میں تھی۔ اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب آپ کی تصنیف ہیں۔ انتہائی دعا گو تھے۔ نیک، سادہ، متوکل مزاج اور جیسا کہ مَیں نے کہا ہمت بلند تھی۔ دھیمی طبیعت کے مالک تھے اور بڑے باوفا انسان تھے۔ مرحوم موصی بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور انہیں اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا، ان کا نمازجنازہ یہاں حاضر ہے۔ ابھی نماز جمعہ کے بعد مَیں باہر جاکر ادا کروں گا، احباب یہیں مسجد کے اندر ہی صفیں درست کر لیں۔
امریکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بنائی گئی نہایت ظالمانہ اور دلآزار فلم پر جماعت احمدیہ کا ردّعمل معلوم کرنے کے لئے آئے ہوئے پریس اور میڈیا کے نمائندگان کا حضور انور ایدہ اللہ سے انٹرویو اور اس ذریعہ سے دنیا بھر میں وسیع پیمانے پر اسلامی تعلیم کی تشہیر کا تذکرہ۔
یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل اور اُس کی تائید تھی کہ اس طرح کوریج ہوئی ورنہ اگر ہم اپنی کوشش بھی کرتے تو صحیح اسلامی مؤقف جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے، دنیا کو اس کا پتہ نہ چلتا، یا ہم وسیع طور پر دنیا تک نہ پہنچا سکتے۔ اب اس کو آگے بڑھانا، اس کوریج سے فائدہ اُٹھانا ہرجگہ کی جماعت کا اور ہر احمدی کا کام ہے۔
ایک تو جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں کہا تھا، اپنے عمل سے دنیا کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کریں۔ لیکن ساتھ ہی متعلقہ مرکزی دفتر بھی جیسا کہ میں نے کہا اور جماعتیں بھی فوری توجہ دیتے ہوئے خطبہ کا اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کر کے وسیع طور پر شائع کریں اور پریس کے حوالے سے بھی ذکر کریں اور ہر ذی شعور تک اسلامی مؤقف کو پہنچائیں۔ نیز اس میں یہ بھی درج ہو کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں کو دیکھنا ہے تو حقائق اور تاریخ کی روشنی میں تمہیں ہم لٹریچر بھی مہیا کرتے ہیں، کتب بھی مہیا کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہماری ویب سائٹ ہے اور مختلف جماعتوں کی بھی ہیں اُن کا بھی پتہ دیں۔ مرکزی ویب سائٹ کا پتہ دیں جس میں یہ لٹریچر موجود ہو۔
اپنے علاقے کی لائبریریوں میں بھی مثلاً یورپ میں یا انگلستان میں یا انگریزی بولنے والے ملکوں میں سیرت سے متعلق جماعت کی وہ کتب رکھوانی چاہئیں جن کا انگریزی ترجمہ ہو چکا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کتاب Life of Muhammad کی وسیع پیمانے پر اشاعت ہونی چاہئے۔
دنیا کے سامنے ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے خوبصورت پہلوؤں کو رکھنا ہے۔ یہ ہمارا کام ہے اور اس کو ہمیں بہر حال ایک کوشش کر کے سرانجام دینا چاہئے۔ آج یہ کام ایک لگن کے ساتھ صرف جماعت احمدیہ ہی کر سکتی ہے۔ اس کے لئے ہر طرح کے پروگرام کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کریں۔ سیمینار بھی ہوں، جلسے بھی ہوں اور ان میں غیروں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں بلائیں۔ میرا گزشتہ خطبہ ہر زبان میں ترجمہ کر کے ایک چھوٹے سے پمفلٹ کی صورت میں بنا کر ایک مہم کی صورت میں اُس طرح تقسیم کر دیں جس طرح پہلے امن کے حوالے سے لیف لیٹنگ ہوئی تھی، لیکن اس کام کو زیادہ دیر نہیں لگنی چاہئے۔
تحفۂ قیصریہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے امن اور مذہب کے احترام کے متعلق جو پیغام دیا ہے اس کی تشہیر کی آج بھی بہت ضرورت ہے۔ اس پر بھی فوری کام ہونا چاہئے۔
مکرم مولانا نصراللہ خان ناصر صاحب مربی سلسلہ کی وفات۔ مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ۔
فرمودہ مورخہ 28؍ستمبر 2012ء بمطابق 28؍تبوک 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔