حضرت مسیح موعودؑکے مختلف صحابہ کی بعض دلچسپ اور ایمان افروز روایات
خطبہ جمعہ 19؍ اکتوبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج میں پھر آپ کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں لے کر جاؤں گا۔ اُن کی روایات بیان کر رہاہوں۔ یہ روایات اُن لوگوں کے ایمان کا اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجالس کا ایک عجیب نقشہ کھینچتی ہیں۔ حضرت ولایت شاہ صاحبؓ ولد سید حسین علی شاہ صاحبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے مجھے بہت کم موقع ملے تھے کیونکہ میں ایک ایسی ملازمت میں تھا جس میں رخصت بہت کم ملتی تھی۔ میں نے خواب کی بناء پر بیعت کی تھی جو یہ تھی کہ ہیڈ ورکس مادھو پور جہاں سے ہیڈ باری دوآب نہر نکلتی ہے، وہاں میں تعینات تھا۔ سرکاری کوارٹر کی دیوار پر سے جس کے صحن میں مَیں سویا ہوا تھا، ایک جماعت بہت خوش سلوک اشخاص کی جن کے آگے آگے ایک بزرگ نہایت خوبصورت شکل اور نہایت خوبصورت لباس میں ملبوس، تاج ایسا چمکدار جس پر نظر نہ ٹھہر سکے، سر پر پہنے ہوئے گزر کر میرے کوارٹر کی چھت پر چڑھ گئے۔ (ایک جلوس نکل رہا تھا، لوگوں کا ایک گروہ تھا، اُس کے آگے جو بزرگ اُن کو لیڈ (Lead)کر رہے تھے، اُن کا نقشہ کھینچا ہے کہ دیوار پر سے گزر رہے تھے) اور وہاں بگل کے ذریعہ سے اذان کہی جس کی آواز بہت دور دور تک پہنچی تھی۔ اس کے بعد ایسا معلوم ہوا کہ وہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ اسی دیوار پر سے واپس تشریف لائے۔ (یہ خواب کا نظارہ بتا رہے ہیں۔ ) کہتے ہیں کہ جب میری چارپائی کے پاس سے گزرے تو مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ بھائی، پاخانہ اندر سے باہر کر دو، (یعنی اپنا جو نجس اور گند ہے نکال کے باہر کر دو) میں نے خواب میں عرض کیا کہ بہت اچھا جناب۔ جب وہ آگے ہو گئے تب میں نے اُن کے پیچھے جو دوست تھے اُن سے دریافت کیا کہ یہ کون بزرگ ہیں۔ اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ نہیں جانتے؟ یہ حضرت مرزا صاحب ہیں۔ اسی فجر کو میرے دوست ڈاکٹر محمد اسمعیل خان صاحب مرحوم نے میرے دروازے پر آ کر دستک دی۔ جب میں باہر آیا تو انہوں نے فرمایا شاہ صاحب! آپ تو احمدی ہو گئے۔ میں نے دریافت کیا کہ کس طرح؟ انہوں نے کہا کہ آج رات مجھے خواب آیا ہے کہ آپ شفا خانہ میں آ کر بیٹھے ہیں اور میں نے اندر جا کر اپنا صندوق کھول کر ایک بہت عمدہ خوبصورت انگرکھا (ایک گاؤن سا) نکال کر آپ کو پہنایا ہے اور وہ آپ کے بدن پر بہت فِٹ(Fit) آیا ہے۔ اس کے بعد میں نے بہت خوبصورت عمدہ عمدہ بٹن لا کر اُس گاؤن میں لگا دئیے۔ (تو یہ خواب صرف انہی کو نہیں آئی بلکہ ان کے احمدی دوست تھے، اُن کو بھی اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعہ سے اشارۃً بتا دیا کہ اس طرح احمدیت کی طرف مائل ہو گئے ہیں یا احمدی ہو جائیں گے کیونکہ نیک فطرت ہیں۔ ) بہرحال کہتے ہیں اس کے کچھ عرصے کے بعد میں اپنے سسرال والوں کے گھر سید اکبر شاہ مرحوم کے مکان میں آیا۔ مرزا غلام اللہ صاحب مرحوم جو کہ پڑوسی تھے، میرے پاس آئے۔ جمعہ کا دن تھا۔ میں اُن کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں گیا۔ وہاں انہوں نے مجھے منبر کے پاس بٹھا دیا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لائے تب انہوں نے حضور انور کی خدمت میں میری بیعت لینے کے متعلق عرض کیا۔ حضور انور نے نہایت شفقت سے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا اور دیگر بیعت کرنے والوں نے میری پشت پر ہاتھ رکھ کر بیعت کر لی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 7صفحہ 144۔ روایات حضرت ولایت شاہ صاحبؓ)
پھر اسی طرح بیعت کا واقعہ حضرت عنایت اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے 1901ء میں بیعت کی تھی۔ (کہتے ہیں) اُس وقت میری عمر قریباً پندرہ سال کی تھی۔ جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا تو ایک عطر کی شیشی ہمراہ لایا۔ پیدل سفر کیا۔ رات بٹالہ رہا۔ جب شیشی دیکھی تو سوائے ایک قطرہ کے باقی ضائع ہو گیا۔ مجھے سخت افسوس ہوا۔ شام کی نماز کے وقت جب حضور مسجد مبارک کی چھت پر تشریف لائے۔ مصافحہ کیا۔ اور حضور کو بندے نے دبانا شروع کیا تو عرض کی مَیں ایک شیشی عطر لایا تھا، وہ راستہ میں ضائع ہو گیا۔ شیشی حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔ فرمایا تم کو پوری شیشی کا ثواب مل گیا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے شیشی میں جو تھوڑا سا عطر کا ایک آدھ قطرہ رہ گیا تھا، اُس کو قبول فرمایا اور فرمایا تمہاری نیت تحفہ دینے کی تھی، تمہیں پوری شیشی کا ثواب مل گیا ہے۔ ) پھر کہتے ہیں کہ نماز کے بعد بیعت کی اور دس یوم تک رہا۔
پھر لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قادیان سے واپسی پر بٹالہ پہنچا۔ ایک ذمہ دار ہمراہ تھا۔ رات بٹالہ رہا۔ زمیندار نے پوچھا کہ کیا آپ نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی تھی۔ مَیں نے کہا: نہیں۔ مجھے افسوس ہوا کہ اجازت لے کر نہیں آیا۔ (کہتے ہیں کہ) رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور چارپائی پر بیٹھے روٹی کھا رہے ہیں۔ مجھے بھی کھانے کا حکم دیا۔ نصف حضور نے کھائی، باقی بندہ نے اور حضور نے فرمایا: جاؤ، آپ کو جانے کی اجازت ہے۔ (کہتے ہیں) بالکل ناخواندہ (اَن پڑھ) آدمی تھا، زبان میں بھی لکنت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں اور نظر کی برکت سے اب مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد1 صفحہ 139۔ روایات حضرت عنایت اللہ صاحبؓ)
حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں گول کمرہ کے قریب جہاں بابو فخر الدین ملتانی کی دوکان تھی، کھڑا تھا تو حضرت اقدس علیہ السلام خود بنفس نفیس مسجد مبارک کے دروازے پر آئے اور مجھے آواز دی کہ میاں عطاء اللہ! یہ چٹھی لیٹر بکس میں ڈال دیں۔ جس پر میں بڑا خوش ہوا کہ حضور کو میرا نام خوب یاد ہے۔ مغرب کے وقت حضور انور ایک معمولی گلاس بکری کے کچے دودھ کا روزمرہ نوش فرماتے تھے۔ ایک شخص نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو) عرض کیا کہ حضور! کچا دودھ نہ پیا کریں۔ تو آپ نے فرمایا کہ اکثر انبیاء علیھم السلام کچا دودھ ہی پیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے کے بعد جب میں محکمہ ٹیلی گراف میں نوکر تھا۔ (کہتے ہیں) مجھے بڑا شدید بخار ہو گیا، بلکہ تپ دِق سے بھی سخت بیمار ہو گیا۔ رخصت لے کر قادیان چلا گیا۔ حضرت مولوی نورالدین خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دولت خانے میں قیام پذیر تھا کیونکہ اُنہی کے ذریعہ سے میں جموں میں مشرف بہ اسلام ہوا تھا۔ اس روحانی اور گہرے تعلق کی وجہ سے خلیفۃ المسیح الاولؓ نے میرا علاج شروع کیا۔ مجھے صبح سویرے کھچڑی چاول اور بعد میں ایک اُبلا ہوا انڈہ کھلا کر دوائی دیتے تھے۔ یہ چیزیں کھا کھا کر جن کی مجھے عادت نہیں تھی زبان کا ذائقہ بگڑ گیا۔ کہتے ہیں ایک روز میں نے شام کو محترمہ اماں جان والدہ عبدالسلام صاحب (حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی بیگم) کو التجا کی کہ میری زبان کا ذائقہ خراب رہتا ہے۔ اگر کچھ شوربہ یا کچھ اور نمکین چیز ہو تو ذائقہ درست ہو جاوے گا۔ انہوں نے فرمایا: مولوی صاحب ناراض ہوں گے۔ مگر انہوں نے ایک کپڑے سے مرچوں کو چھان کر اور صاف کر کے مجھے پلا دیا۔ یعنی عام شوربہ جو بنایا ہوا تھا، اُس کو چھان کے پلایا۔ کہتے ہیں اگلی صبح جب حضرت مولوی صاحب خلیفۃ المسیح الاولؓ نے میری نبض دیکھی تو فرمایا کہ رات کو کیا کھانا کھایا تھا۔ (اب ڈاکٹر بڑے بڑے ٹیسٹ لیتے ہیں تب بھی پتہ نہیں لگتا۔ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ نے نبض دیکھی اور فرمایا رات کو کیا کھانا کھایا تھا؟) نبض بہت تیز چل رہی ہے۔ میں نے کہا کچھ نہیں۔ آپ درس کو چھوڑ کر جلدی سے گھر گئے اور گھر جاکے اپنی اہلیہ سے دریافت فرمایا کہ رات عطاء اللہ نے کیا کھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کھانا کھانے کے بعد اس نے ضد کر کے تھوڑا سا شوربہ پی لیا تھا۔ تو اُن پر ناراض ہوئے اور میرے پر بھی کہ تم نے اس قدر دروغگوئی کی ہے۔ غلط بیانی سے کام لیا ہے۔ بہرحال کہتے ہیں حضرت مولوی صاحب نے میرے اس جھوٹ کو اور بدپرہیزی کا جو قصہ ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عرض کیا کہ اس کو اپنی صحت کا کچھ خیال نہیں ہے۔ مرض تپ دق میں مبتلا ہے (یعنی ٹی بی میں مبتلاہے)۔ میں بباعث بیماری کے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ (تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اس بات پر بڑے ناراض ہوئے۔ کہتے ہیں) … آخر میری رخصت دو ماہ ختم ہو گئی۔ حضرت مولوی صاحب کو میری صحت کا بہت فکر تھا۔ ادویہ وغیرہ بنا کر ہمراہ دے دِیں تا مَیں استعمال کروں۔ اور فرمایا مَیں دعا بھی کروں گا۔ حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ حضور! آج میں راولپنڈی واپس جاتا ہوں کیونکہ رخصت ختم ہو گئی ہے۔ دعا کریں۔ صحت خراب ہے۔ حضور نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ آپ نمازوں میں نہایت عاجزی، انکساری اور دل سوزی سے دعائیں کیا کریں اور خط وغیرہ قادیان تحریر کرتے رہا کریں اور جلدی جلدی آیا کریں۔ پھر فرمایا کہ بدپرہیزی کو چھوڑ دیں۔ (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو وہ بات یاد تھی کہ کھانے میں بدپرہیزی کی تھی اس لئے فرمایا کہ بدپرہیزی کو چھوڑ دیں۔ ) اللہ تعالیٰ کے حضور پختہ وعدہ کریں۔ خداتعالیٰ غفورالرحیم ہے انشاء اللہ ضرور صحت بخشے گا۔ کہتے ہیں جب میں راولپنڈی واپس گیا تو رات ڈیڑھ بجے کے قریب ایک رؤیا غیر زبان میں اس عاجز کو ہوئی جس کو میں نہ سمجھ سکا۔ حیران ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گر گیا اور التجا کی کہ اے خدا! تیری ذات ہر زبان پر قدرت رکھتی ہے۔ مجھے اس خواب کا مفہوم سمجھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت فرماتے ہوئے رات کے اڑھائی بجے کے قریب میری زبان پر جاری کر دیا کہ ہیلدی ہیلدی ہیلدی (Healthy-healthy- healthy)۔ اس کئی بار کی آواز نے مجھے بیدار کر دیا کہ صحت ہو گئی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اب تک مجھے بیس برس ہو گئے ہیں (جب یہ بیان کیا تھا۔) کبھی سر درد سے بھی بیمار نہیں ہوا۔ اور دیگر اللہ تعالیٰ کی نصرت سے ہر امر میں کچھ ایسے سامان مہیاکئے گئے کہ اولاد پیدا ہونا شروع ہو گئی۔ (پہلے اولادنہیں تھی۔ ) پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین لڑکے اور چار لڑکیاں عطا کی گئیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 1صفحہ 164 تا 167۔ روایات حضرت شیخ عطاء اللہ صاحبؓ)
پھر ایک صحابی ہیں حضرت ملک برکت اللہ صاحبؓ پسر حضرت ملک نیاز محمد صاحبؓ۔ بیان فرماتے ہیں کہ اگرچہ میرے والد صاحب ملک نیاز محمد صاحبؓ 1897ء اور 98ء سے احمدی تھے اور میں بھی اُن کی اقتداء میں بچپن سے احمدی تھا تا ہم 1904ء میں جبکہ میری عمر چودہ یا پندرہ سال کے لگ بھگ تھی، میں نے حضور کی خود بیعت کی۔ جب کوئی شخص بیعت کرتا تھا، ہم بھی بار بار بیعت کر لیتے تھے تا کہ ہم حضور کی اس دعا میں جو حضور علیہ السلام بعد بیعت فرمایا کرتے تھے، شامل ہو جائیں۔ بعض وقت بہت آدمی بیعت کرنے والے ہوتے تھے تو لوگ اپنی اپنی پگڑیاں اُتار کر حضور کے ہاتھ تک پہنچا دیا کرتے تھے اور ان پگڑیوں کو سب لوگ پکڑ لیتے تھے اور اس طرح بیعت ہو جاتی تھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 3صفحہ 227 تا 228۔ روایات حضرت ملک برکت اللہ صاحبؓ)
حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ کی روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں 28؍ جولائی 1879ء کو پیدا ہوا اور بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام 30؍جون 1905ء کو کی اور وصیت 23؍جولائی 1928ء کو کی۔ پھر اپنا وصیت نمبر بھی لکھا ہے 2898۔ کہتے ہیں جماعت احمدیہ نیروبی کا پریذیڈنٹ اکتوبر 1924ء سے دو سال تک رہا۔ پھر انتظامیہ کمیٹی کا ممبر رہا۔ جماعت احمدیہ نیروبی کا پندرہ سال سے محاسب ہوں۔ (جب یہ بیان فرما رہے ہیں تو اُس وقت فرماتے ہیں کہ پندرہ سال سے محاسب ہوں) اور تین سال سے سیکرٹری وصایا و ضیافت ہوں۔ میں اس ملک میں 1900ء کی فروری میں ڈاکٹر رحمت علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، صوفی نبی بخش صاحب اکاؤنٹنٹ اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب وغیرہ کے زمانے میں آیا۔ ڈاکٹر رحمت علی صاحب کے اخلاق فاضلہ، شفقت اور ہمدردی کو دیکھ کر کثرت سے لوگ سلسلہ حقہ احمدیہ میں شامل ہوتے دیکھے۔ یہی پہلا موقع تھا جب اس ہادیٔ زمانہ کے پیغام کی آواز میرے کانوں نے سنی۔ (اب یہ دیکھیں کہ ایک شخص کے صرف اخلاق فاضلہ جو ہیں اور شفقت جو ہے اور انسانی ہمدردی جو ہے اُس کو دیکھ کر بہت سارے لوگوں کو توجہ پیدا ہوئی کہ کونسا مذہب ہے، کون شخص ہے اور پھر احمدی ہوئے۔) بہرحال کہتے ہیں کہ میں نے اپنی قسمت کے مقدمے کو بارگاہ ایزدی میں پیش کر دیا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ میری قسمت میں کیا ہے) اور نہایت تضرع، ہمت اور استقلال سے ہر روز تہجد میں دعا مانگنی شروع کر دی کہ اے میرے پیارے رب اور غیب کے جاننے والے خدا! میری فریاد سن اور میری رہبری کر اور مجھے اُس راستے پر چلا جو تیرے علم میں صحیح ہو تا کہ میں کہیں راہ ہدایت سے دور نہ پھینکا جاؤں۔ کیونکہ میں خود تو عاجز، کمزور، گناہگار اور کم علم ہوں، وغیرہ وغیرہ۔ پس کہتے ہیں کہ میرے مولیٰ نے میری فریاد سن لی اور سچی خوابوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر مجھے نہایت صفائی سے دو خوابیں دکھلائی گئیں جن کی بنا پر مَیں نے کریگو (غالباً کریچو ہوگا)سٹیشن سے جو کسومو ضلع میں واقع ہے اور جرمن ایسٹ افریقہ کی سرحد پر ہے اور جہاں کے ہسپتال کا میں انچارج تھا۔ مؤرخہ 30؍ جون 1905ء بذریعہ خط خدا کے پیارے محبوب کی بیعت کی۔ کہتے ہیں بیعت کرنے کے بعدپھر کیا تھا۔ عبادت میں وہ لطف آنا شروع ہوا جو میرے وہم و گمان میں نہ تھا۔ کیونکہ فرشتوں کے نزول پاک کا زمانہ تھا اور ہر ڈاک میں پیارے مسیح موعود علیہ السلام پر تازہ وحی ہوتی اور پوری ہوتی سنی جاتی تھی اور دل ہر وقت حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے تڑپتا رہتا تھا اور حد سے بڑھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے کی بیقراری بڑھنی شروع ہو گئی۔ (کیونکہ خط کے ذریعہ سے بیعت کی تھی۔ دستی بیعت نہیں ابھی ہوئی تھی۔ کہتے ہیں بہرحال) خدا خدا کر کے میری رخصت کا وقت قریب پہنچا۔ خدا نے میرے پیارے مسیح کے نذرانہ کی تحریک میرے دل میں ڈالی (کہ نذرانہ پیش کرنا ہے) تو اس کے لئے کہتے ہیں مَیں نے سوچا کہ چار شُتر مرغ کے انڈے لے جانے چاہئیں اور یہ فیصلہ کیا۔ مجھے اُن کے حاصل کرنے اور پَرمٹ لینے کے لئے جرمن پورٹ سے کوشش کرنی پڑی۔ کیونکہ ایسٹ افریقہ سے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ اکتوبر 1907ء کو میں اپنے وطن کو روانہ ہوا۔ گجرات پہنچنے پر میں نے اپنے والد صاحب مرحوم اور بھائی صاحب مرحوم کو سلسلہ احمدیہ کا مخالف پایا جن کے لئے ہر نماز میں پھر مَیں نے رو رو کر دعائیں مانگنی شروع کر دیں۔ کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور میرے والد صاحب بمع چند اور دوستوں کے جلسہ سالانہ پر جانے کے لئے راضی ہوگئے۔ (بڑی منت وغیرہ کی۔ دعائیں کیں توخیر والد اور بھائی جلسہ پر قادیان جانے کے لئے راضی ہو گئے۔ پھر کہتے ہیں ) 1907ء کے جلسہ سالانہ پر اپنی گجرات کی جماعت کے ساتھ ہم قادیان شریف کی پیاری بستی میں جا پہنچے۔ میں نے پہنچتے ہی عجیب نظارہ دیکھا کہ سب جماعتیں اور بڑی بڑی بزرگ ہستی کے احباب حضرت اقدس کی ملاقات کے لئے سخت بیقرار اور ترس رہے ہیں اور ملاقاتوں کے لئے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ میری حیرت اور فکر کی انتہا نہ رہی کیونکہ میں ایک مسافر کی حیثیت میں ایک دور دراز ملک سے تھوڑے عرصے کے لئے گیا تھا اور ملاقات کے لئے دو سال سے تڑپ رہا تھا اور یہ میری دلی آرزو تھی کہ حضرت اقدس کی ملاقات کا موقع تنہائی میں میسر آئے جو بات بنتی نظر نہ آتی تھی۔ (کیونکہ رَش بہت تھا، لگتا نہیں تھا کہ تنہائی میں ملاقات ہو سکے گی) کہتے ہیں ہماری جماعت احمدیہ گجرات لنگر خانے میں کھانا کھانے میں مصروف تھی اور میں ملاقات کی فکر میں ادھر اُدھر ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے مسجد مبارک کے نیچے کی گلی سے گزر رہا تھا کہ ایک بھائی کو اُس رستہ سے گزرتے ہوئے دیکھ کر مَیں نے پوچھا (کوئی شخص وہاں کھڑا تھا) کہ مَیں دور دراز ملک سے آیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ حضرت اقدسؑ سے تنہائی میں ملاقات ہوجاوے۔ آپ مجھے کوئی طریقہ بتا دیویں۔ انہوں نے فرمایا اس دروازے میں ایک مائی بوڑھی حضرت اقدسؑ کی خادمہ اکثر آتی جاتی ہے۔ اُس سے کہیں۔ (ایک بوڑھی سی مائی ہے اُس سے کہو) ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ خادمہ نظر آ گئی۔ میں نے بھاگ کر کہا کہ مائی جی میں بہت دور دراز ملک سے آیا ہوں اور حضرت اقدس کی تنہائی میں ملاقات کا اشتیاق ہے۔ مہربانی ہو گی اگر حضور کی خدمت میں مسافر کا پیغام پہنچا دیویں۔ مائی صاحبہ نے نہایت شفقت اور خوشی سے کہا کہ ذرا ٹھہرو۔ مَیں آتی ہوں۔ وہ جاتے ہی واپس آ گئی اور خوش خبری سنائی کہ میری مراد پوری ہو گئی ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا ہے اوپر آجائیں۔ میں جھٹ بھاگ کر اپنے والد صاحب مرحوم کو بمع دوسرے چند غیر احمدی دوستوں کے جو میرے ہمراہ تھے، بلا کر لے آیا اور جونہی ہم اوپر گئے۔ ایک صحن میں کھڑے ہی ہوئے تھے کہ کھڑکی کا دروازہ کھلا اور حضرت اقدس نے باہر آتے ہی السلام علیکم کہا۔ افسوس ہم کو پہلے السلام علیکم کہنے کا موقع نصیب نہ ہوا۔ (حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہل کی۔ ) کہتے ہیں میرے والد شریف مرحوم باوجود مخالف ہونے کے حضور کے قدموں میں گر پڑے۔ حضور نے ازراہِ کرم اپنے دستِ مبارک سے اُن کے سر کو اُٹھا کر کہا کہ سجدہ کی لائق ذات باری ہے۔ بندوں کے آگے نہیں جھکا کرتے، صرف اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں۔ پھر اس عاجز نے شتر مرغ کے چار انڈے بطور نذرانہ پیش کئے۔ حضور نے ازراہِ کرم منظور فرمائے اور نہایت شفقت اور محبت سے میرے افریقہ رہنے اور سفر وغیرہ کے حالات دریافت کئے اور میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے کر فرمایا کہ اس دنیا میں دل نہیں لگانا چاہئے۔ اور پھر فرمایا کہ اپنے آپ کو اُس مسافر کی حیثیت میں سمجھنا چاہئے جیسے کوئی مسافر خانے میں ٹکٹ لے کر گاڑی کا انتظار کر رہا ہو۔ اور مجھے کثرت سے استغفار پڑھنے کے لئے حضور نے تاکید فرمائی اور فرمایا کہ باقاعدگی سے خطوں میں دعا کے لئے لکھتے رہا کرو۔ پھر حضور نے میرے والد شریف کی بمع دو تین اور غیر احمدیوں کے جو میں ہمراہ لے گیا تھا، بیعت لی۔ (یا تو مخالف تھے یا ایک ملاقات میں ہی سب بیعت پر راضی ہوگئے) اور اس قدر رو کر دل سے ہمارے لئے دعا فرمائی۔ (بیعت کے بعد جو دعا ہوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس قدر رو کے دعا کی) کہ حضور کی آنکھیں پُر آب ہو گئیں اور ہمارے لئے آنسوؤں کو روکنا مشکل ہو گیا۔ دل اس قدر نرم اور گداز ہو گیا کہ آج دن تک (یعنی آج کے دن تک) بھی حضور کے دستِ مبارک میں ہاتھ دینا، حضور کا نورانی چہرہ دیکھنا، حضور کی شفقت بھری شرمیلی آنکھوں کا پُر آب ہونا اور مجھ عاجز، کمزور گناہگار کے لئے ہدایت، استغفار کرنا اور بار بار دعا کے لئے لکھنے کی ہدایت کرنا جب یاد آتا ہے تو طبیعت پر بجلی سا اثر ہو کر آنسوؤں کا تار بندھ جاتا ہے۔ وہ کیسا مبارک زمانہ تھا۔ مخالفت کے زبردست پہاڑ، سمندر، طوفان خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ (مَیں نے یہ جو مخالفت کے پہاڑ تھے، خدا کے پیارے نبی کی دعاؤں سے ان کے اُڑنے کا نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھا) اور اشد ترین دشمن کو مقابلے پر آنے سے لرزاں دیکھا۔ غیروں کے علماء و فضلا تو درکنار سلسلہ حقہ احمدیہ کے عالموں کا علم بھی اس چودھویں کے چاند تلے اندھیرے کا کام دے رہا تھا اور کسی کو کسی مسئلے پر حضور کی موجودگی میں دَم مارنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ الغرض بیعت کی۔ دعا کے بعد حضور نے مصافحہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت دے دی۔ جب جماعت احمدیہ گجرات کے احباب نے مع نواب خان صاحب تحصیلدار میری اس ملاقات کا ذکر سنا تو رَشک سے کہنے لگے کہ ہم کو کیوں نہ ساتھ لے گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 1صفحہ 178 تا 182۔ روایات حضرت ڈاکٹر عمر دین صاحبؓ)
پھر ایک روایت حضرت ماسٹر عبد الرؤوف صاحبؓ ولد غلام محمد صاحب کی ہے۔ ان کا سن بیعت 1898ء ہے اور اسی سال انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی۔ کہتے ہیں کہ شروع زمانے میں جبکہ میری عمر بچپن کی تھی اور اُس وقت بھیرہ ہائی سکول میں تعلیم پاتا تھا۔ اُس وقت یہ چرچا ہمارے بھیرہ میں ہوا کہ قادیان میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کہتے ہیں ہوتے ہوتے ہمارے محلے میں بھی اسی طرح خبر پہنچی کہ ایک شخص جس کا نام مرزا غلام احمد ہے امام مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ کہتے ہیں میں تو بچہ تھا اتنا علم نہ تھا۔ مگر میرا بھائی جس کا نام غلام الٰہی ہے اُس نے کتابیں پڑھ کر مرزا صاحب کی بیعت کر لی اور اُس کا نام 313صحابہ میں درج ہے۔ (ان کا نام انجام آتھم میں جو فہرست ہے اُس میں 249 نمبر پر مستری غلام الٰہی صاحب بھیرہ کے نام سے درج ہے۔) بہرحال کہتے ہیں میرے بھائی نے اپنے گھر کے تمام آدمیوں کے نام بیعت میں لکھوا دیئے۔ اُس وقت میں بھی مرزا صاحب کی کتابیں اور اشتہار جو محلے میں آتے، پڑھا کرتا تھا اور اپنی مسجد میں بھی رات کے وقت پڑھ کر سناتا۔ گنگا بشن اور عبداللہ آتھم تو اب تک یاد ہے۔ (جو بھی اشتہار ان کے بارے میں تھے۔) بہرحال مجھے بھی مرزا صاحب کو ملنے کا شوق پیدا ہوا۔ یعنی مجھے شوق پیدا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملوں اور مَیں مغرب کی نماز کے بعد وہیں بھیرہ میں ہی ایک پُل پر بیٹھ کر دعائیں کیا کرتا تھا کہ اے الٰہی! اگر مرزا سچا ہے تو مجھے بھی قادیان پہنچا اگر جھوٹا ہے تو اسی جگہ بٹھا۔ (یعنی بھیرہ میں ہی رہوں، پھر مجھے وہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔) لکھتے ہیں کہ دسویں جماعت کا امتحان میں نے راولپنڈی میں دیا (جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن 1311ھ میں ہوا تھا۔ وہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اُس وقت میں مڈل کی جماعت میں پڑھتا تھا۔ ) جب میں امتحان سے سن 98ء میں (1898ء میں) فارغ ہو چکا تو میرا بھائی غلام الٰہی مجھ کو قادیان میں اپنے ہمراہ لایا۔ اُس وقت میں نے مرزا صاحب کی دستی بیعت کی۔ اُس وقت چھوٹی سی مسجد تھی۔ کچھ دن رہ کر پھر میں اپنے بھائی کے ساتھ بھیرے میں واپس چلا آیا۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب میرے بھائی کے واقف تھے۔ اس لئے انہوں نے میرے بھائی کو لکھا کہ اپنے بھائی عبدالرؤوف کو قادیان بھیج دو۔ آخر خدا کے فضل سے 1899ء میں پھر دوبارہ قادیان پہنچا اور مولوی صاحب اور حضرت صاحب کی ملاقات کی۔ مولوی صاحب کو میری تعلیم کا علم تھا۔ اور میں غریب آدمی تھا۔ (یعنی یہ پتہ تھا کہ جو اس زمانے کی تعلیم تھی اُس کے مطابق مَیں پڑھا لکھا ہوں۔ لیکن غریب آدمی بھی ہوں اس لئے مولوی صاحب نے مدرسے میں مجھے ملازمت کی جگہ دے دی جو سن 1899ء میں آٹھ روپے ماہوار پر دوم مدرس پرائمری کے عہدے پر مقرر ہوا۔ اُس وقت چھ سات جماعتیں تھیں۔ مڈل کی کلاس نہیں ہوتی تھی۔ آخرمَیں نے مدرّسی کا کام سن 1902ء تک کیا۔ اُس زمانے میں مولوی شیر علی صاحب ہیڈ ماسٹر مدرسہ تھے۔ پرائمری طلباء کو تعلیم بھی دیتا اور پانچوں نمازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ ادا کرتا جبکہ اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب امامت کراتے تھے۔ پانچوں نمازوں میں حضرت صاحب کی مجلس میں بیٹھتا۔ جب گھر سے تشریف لاتے تو حضرت صاحب نماز پڑھنے سے پہلے اپنے الہامات، کشف، رؤیا اور خوابیں سناتے۔ میں بھی اُن سے حظ اُٹھاتا۔ نماز کے وقت موقع پا کر پاؤں دباتا، مٹھی چاپی کرتا۔ کچھ عرصہ تو حضرت صاحب مغرب کے وقت کھانا مسجد میں کھاتے اور میں بھی مہمانوں کے ساتھ مسجد میں کھانا کھاتا۔ حضرت صاحب کا جوٹھا وغیرہ بھی کبھی کبھی بطور تبرک کے چکھ لیتا۔ مغرب کی نماز کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک کی شاہ نشین پر بیٹھتے۔ رنگا رنگ کے کلمات الٰہیہ، کشف اور خوابیں سناتے۔ علیٰ ھذا القیاس۔ مسٹر ڈوئی، چراغ دین جمونی اور مولوی کرم دین ساکن بھیں کے متعلق الہامات اور خوابیں بھی ہوتیں۔ یہ بیان فرماتے۔ یہ تمام باتیں کتابوں میں شائع ہو چکی ہیں۔ دوبارہ تحریر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماسٹر عبدالرؤوف صاحب کے بارے میں مزید وہاں حاشیہ میں لکھا ہوا ہے کہ یہ صدر انجمن احمدیہ کے پینشنر تھے، سابق ہیڈ کلرک تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان۔ 1899ء میں یہ سکول میں آئے، 1902ء تک یہ ٹیچر رہے۔ اُس کے بعد دفتر ریویو آف ریلیجنر میں کام کیا۔ پھر چھ (1906ئ) سے ستائیس سن (1927ئ) تک ہائی سکول کے ہیڈ کلرک رہے۔ یہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کو میں اُس وقت سے مانتا تھا جس زمانے میں چاند گرہن اور سورج گرہن ہوا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 7صفحہ88-89۔ روایات حضرت ماسٹر عبدالرؤوف صاحبؓ)
پھر ایک روایت حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ ولد مولوی محمد عبداللہ صاحب کی ہے۔ ان کا بیعت کا سن 1904ء ہے۔ کہتے ہیں قبل اس کے کہ میں اپنی بیعت اور چشم دین حالات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بیان کروں، ضروری سمجھتا ہوں کہ اپنے والد صاحب مرحوم جناب مولانا مولوی محمد عبداللہ صاحب مغفور صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات بیان کروں۔ (ان کے واقعات بھی بڑے دلچسپ ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کابڑا امتحان لینے کی کوشش کی تھی اور پھر جب ہر طرح سے تسلی ہوگئی تو پھر انہوں نے بیعت کی تھی۔ بہرحال کہتے ہیں) کیونکہ آپ نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی تھی اور آپ کے بہت سے چشم دید واقعات تھے جو قلمبندنہیں ہو سکے اور آپ رخصت فرما گئے (یعنی وفات پاگئے) لہٰذا ضروری ہوا کہ حسب مقولہ اَلْوَلَدُ سِرٌّ لِاَبِیْہ۔ (اور فارسی میں کہتے ہیں کہ) وَچِیزے کہ پدر تمام نہ کُنَد پسرش تمام کُنَد۔ (یعنی کہ جو کام باپ نہیں کر سکا وہ بیٹا مکمل کرے)۔ وہ حالات بیان کر دوں۔ تو کہتے ہیں بہرحال جناب والدم بزرگوار مولوی محمد عبداللہ صاحب ساکن موضع بھینی ڈاکخانہ شرقپور ضلع شیخوپورہ اہل حدیث خیال کے تھے اور قوم کے بہت بڑے لیڈر تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے اُن کو انجمن اہل حدیث کا ڈپٹی کمشنر تجویز کیا ہوا تھا۔ اُس علاقے میں یہ بہت بڑے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور ان کی نمائندگی کیا کرتے تھے۔ کہتے ہیں آپ کی شہرت کی وجہ سے موضع تَھے غلام نبی ضلع گورداسپور والوں نے جو اہلحدیث تھے، آپ کو اپنے پاس بلایا اور انہوں نے ذکر کیا کہ ہمارے قریب ایک قصبہ قادیان ہے جہاں حضرت مرزا غلام احمد صاحب رہتے ہیں اور الہام کے مدعی ہیں اور انہوں نے ایک لڑکے کے متعلق پیشگوئی کی ہوئی ہے جو پوری نہیں ہوئی۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی اور ازاں بعد ایک لڑکا پیدا ہوا (یہ پیشگوئی مصلح موعودکا ذکر کر رہے ہیں۔ غیر احمدی مولویوں نے ان کو کہا کہ پہلے تو لڑکی پیدا ہوئی اور پھر لڑکا پیدا ہوا جو کچھ دنوں کے بعد فوت ہو گیا۔ چلو ایسے شخص سے چل کر مناظرہ کیا جائے۔ (ان کے نزدیک یہ الہام وغیرہ یا وحی وغیرہ نہیں ہو سکتی تھی جس کی پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی تھی۔ تو ان کو بلایا گیا کہ چلیں مناظرہ کریں۔ )چنانچہ آپ ان دنوں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کوئی دعویٰ نہ تھا صرف الہام کا سلسلہ جاری تھا اور حضور کتاب براہین احمدیہ لکھ رہے تھے قادیان میں تشریف لائے۔ (ان کے والد جن کا یہ ذکر کر رہے ہیں ) اور حضور سے پیشگوئی مذکورہ بالا کے متعلق بھی گفتگو ہوئی (یعنی پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں گفتگو ہوئی۔) اور سوال کیا کہ اگر آپ کے الہامات صحیح ہوتے تو لڑکے والی پیشگوئی کیوں پوری نہ ہوتی۔ پہلے لڑکی پیدا ہوئی پھر لڑکا پیدا ہوا اور وہ بھی مر گیا۔ کیا یہ پیشگوئیاں اسی قسم کی ہوا کرتی ہیں۔ تو کہتے ہیں میرے والد بزرگوار فرمایا کرتے تھے کہ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کیا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے متعلق کوئی پیشگوئی فرمائی تھی؟ تو مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حج کے بارے میں پیشگوئی ہے، تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس پر فرمایا کیا پھر وہ اسی سال ہی پوری ہو گئی تھی اور آپ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حج کر کے واپس تشریف لے آئے تھے؟ تو اس پر ان کے والد مولوی صاحب نے کہا کہ اگر اُس سال حج نہ ہوا تھا تو اُس سے اگلے سال تو ہو ہی گیا تھا۔ حضرت صاحب نے (حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے) کہا کہ مَیں نے کب کہا تھا کہ اسی سال لڑکا پیدا ہو جائے گا۔ یہ خدا کی پیشگوئی ہے جو پوری ہو گی اور ضرور پوری ہو گی، خواہ کسی سال ہی پوری ہو کیونکہ اس کا ایک عرصہ ہے۔ (معین ایک سال تو نہیں تھا، اس کا عرصہ بتایا گیا تھا۔) اس پر سلسلہ کلام ختم ہوا اور مولوی صاحب نے کوئی نیا سوال نہ کیا۔ مگر اس اعتراض پر اُن کا اصرار رہاکہ آپ کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی۔ (لیکن بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کے بعد اپنے اشتہار جو 22؍مارچ 1886ء میں دیا تھا اُس میں حد بندی بھی کر دی تھی کہ وہ موعودنو برس کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا اور پھر یکے بعد دیگرے کئی ایک اشتہارات میں اُس کا ذکر بھی فرمایا تھا۔ بہرحال یہ خود ہی آگے کہتے ہیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہوئی یا حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی پیدا ہوئے۔ پھر آگے ذکر کرتے ہیں کہ) چونکہ مولوی صاحب موصوف(یعنی ان کے والد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بحث کرنے آئے تھے) علوم عربی و فارسی میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے اور علوم صرف و نحو، منطق، بدیعی، بیان وغیرہ میں لاثانی انسان تھے، اپنے علم کے خیال میں اس نکتۂ معرفت اور جواب با صواب سے انہوں نے کوئی استفادہ نہ کیا، (یعنی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بحث ہوئی تھی، اُس سے وہ کوئی فائدہ نہ اُٹھا سکے) اور یہ سچ ہے کہ کُلُّ اَمْرٍ مَرْھُوْنٌ بِاَوْقَاتِھَا۔ کہ ہر کام کے لئے ایک وقت مقرر ہوتا ہے۔ اُس وقت آپ انکار پر مصر رہے۔ (وہیں انکار پر اصرار کرتے رہے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بات نہیں مانی۔ حضور نے آپ کے علم کا موازنہ فرما کر اپنی کامل مہربانی سے آپ کو یہ بھی فرمایا (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی باتوں سے اندازہ لگا لیا کہ آپ صاحب علم آدمی ہیں تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا) کہ مولوی صاحب! مَیں نے ایک کتاب بنام براہین احمدیہ مخالفین کے اعتراضات کے جواب میں لکھی ہے اور اس میں دس ہزار روپے کا چیلنج بھی دیا ہے جو آجکل طبع ہونے والا ہے۔ اگر آپ یہاں ٹھہر جائیں اور طباعت کے لئے اس کے پروف دیکھ لیا کریں تو بہت اچھا ہو، اس کا حق الخدمت بھی آپ کو دیا جائے گا۔ (جو بھی اجرت بنتی ہے) یہ مولوی عبدالعزیز صاحب اپنے والد صاحب کے متعلق لکھتے ہیں کہ افسوس کہ آپ نے اُسے تسلیم نہ کیا اور خالی واپس چلے گئے اور اسی انکار پر قریباً پندرہ سولہ برس گزر گئے۔ مگر (تسلیم نہ کیا۔ لیکن ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ) آپ کی فطرت میں بہرحال ایک نیکی تھی۔ کہتے ہیں کہ سعادت بھی تھی فطرت میں اور نیکی بھی تھی۔ جب کوئی شخص حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گالی دیتا یا توہین سے یاد کرتا تھا تو آپ اُسے روکتے اور فرماتے کہ خدا تعالیٰ نے تو کفار کے بتوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے۔ پس یہی یا بعض اور خوبیاں تھیں جو آپ کے وجود میں تھیں اور آپ کی ہدایت کا موجب ہوئیں۔ پھر بیان کرتے ہیں غرض اسی خاموشی میں جب وقت گزر گیا۔ 1902ء کا زمانہ آ گیا۔ (پندرہ سولہ سال کا عرصہ گزر گیا اور 1902ء آ گیا۔) اس اثناء میں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتاب جنگ مقدس اور آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کر چکے تھے جس کی وجہ سے کئی سوالات کا تو تصفیہ ہو گیا (جو آپ کے یعنی مولوی صاحب کے ذہن میں سوال اُٹھتے تھے۔ یہ دو کتابیں پڑھنے کے بعد بہت سارے سوالوں کا جواب آگیا) لیکن کئی نئے اعتراض بھی پیدا ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے اکیس سوالات نوٹ کر لئے۔ (جو اعتراضات پیدا ہوئے وہ اکیس سوالات کی صورت میں نوٹ کئے) اور 1902ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مناظرے کے لئے قادیان کو روانہ ہو گئے کہ وہاں جا کر میں مناظرہ کروں گا اور براہِ راست مسجد مبارک میں تشریف لائے۔ (کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ وہاں کے رہنے والوں میں سے کسی سے کچھ نہیں پوچھا، سیدھے گئے اور مسجد مبارک میں تشریف لے گئے۔ اُس کی بھی ایک وجہ تھی جو آگے بیان ہو گی) اور کسی نماز کے وقت پہنچے (اور نماز باجماعت ادا کی۔) اس لئے کسی کو نہیں بتایا کیونکہ مشہور یہ تھا کہ مرزا صاحب نے چند ایجنٹ رکھے ہوئے ہیں جو آنے والے مہمان سے سب کچھ پوچھ لیتے ہیں، جس طرح پیروں کی عادت ہوتی ہے اور اندر خبر پہنچا دیتے ہیں اور مرزا صاحب جس کمرے میں رہتے ہیں اُس کے کئی دروازے ہیں۔ عجیب عجیب کہانیاں بنائی تھیں۔ اور ہر ایک غرض کے لئے علیحدہ علیحدہ دروازہ تجویز کیا ہوا ہے۔ مرزا صاحب کے پاس جب مہمان اندر جاتا ہے تو چونکہ مرزا صاحب کو پہلے ہی اطلاع پہنچی ہوئی ہوتی ہے، آپ جاتے ہی پوچھتے ہیں کہ آپ کا یہ نام ہے اور آپ فلاں جگہ سے فلاں کام کے لئے آئے ہیں، وغیرہ وغیرہ اور ایسی باتوں سے مہمان کو یقین ہو جاتا ہے۔ (یہ کہانیاں مشہور تھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں اس لئے انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ ) تو لکھتے ہیں ایسی باتوں سے اس مہمان کو یقین ہو جاتا ہے کہ یہ یقینا ولی اللہ ہے جو خود بخود ہی سب کچھ بیان کر رہا ہے۔ غرض اُس وقت یہ خیال مولوی صاحب کے دل میں بھی تھا۔ (یہ جو مولوی صاحب گئے تھے ان کے دل میں بھی یہی خیال تھا) اور یہ خیال تھا کہ اگر مجھ سے کوئی پوچھے گا تو کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ اسی واسطے آپ سیدھے مسجد میں آئے اور کسی سے کچھ نہیں پوچھا۔ (بعد میں خود ہی کہتے ہیں کہ یہ امر غلط ثابت ہوا اور مخالفین کا بہتان۔ خیر بہرحال) چونکہ اُس وقت نماز کا وقت تھا یا نماز ہو رہی تھی، آپ نے نماز باجماعت گزاری۔ بعد از نماز حضرت اقدس شاہ نشین پر رونق افروز ہوئے اور دوسرے احباب ادھر ادھر بیٹھ گئے۔ بعد از ملاقات السلام علیکم عرض کرنے کے مولوی صاحب نے چپکے سے حضرت صاحب کے پاؤں پکڑ کر دبانے شروع کئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ (ان کی نیت دبانے کی نہیں تھی، کچھ اور تھی، آگے بیان ہو گی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان لینا اچھا نہیں ہوتا۔ فوراً اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل میں ڈال دیا کہ یہ دبانا اخلاص کا نہیں ہے بلکہ کوئی اور وجہ ہے۔ بہرحال کہتے ہیں کہ) یہ ایک نشان تھا جو حضو کی پہلی ملاقات میں ہی آپ نے(یعنی مولوی صاحب نے) ملاحظہ فرما لیا۔ اور آپ کو ایمانی روح حاصل کرنے کے لئے ممد ہوا۔ (بیٹا اپنے باپ کے بارے میں کہہ رہا ہے۔ خیر) الحمد للہ علیٰ ذالک۔ پھر لکھتے ہیں کہ بات یہ تھی جناب مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ایک حدیث یا روایت میں دیکھا تھا کہ حضرت امام مہدی کی صداقت کا ایک نشان یہ ہو گا کہ آپ کے پاؤں میں (پنجابی میں لکھا ہوا ہے) لپّا یا گڑھا نہیں ہو گا بلکہ سیدھے ہوں گے flat footed جو ہوتے ہیں اُس طرح، زیادہ تلوے میں گڑھا نہیں ہوگا۔ تو آپ نے اسی خیال سے حضور کے پاؤں کو پکڑا۔ (دبانے کی نیت سے نہیں پکڑا تھا یہ دیکھنے کے لئے کہ گڑھا ہے کہ نہیں ) اور اُس کے پکڑنے سے دو نشان ملاحظہ فرمائے۔ ایک تو یہ کہ حضور کے پاؤں میں حسب ارشادِ نبوی فی الواقع وہ گڑھا نہیں تھا۔ دوم خود ہی حضور نے فرما دیا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنااچھا نہیں ہوتا۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تو کسی نے نہیں بتایا تھا۔ جبکہ بیسیوں آدمی حضور کے پاؤں وغیرہ دبایا کرتے تھے مگر یہ لفظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی نہیں فرمایا تھاجو اُس وقت آپ نے فرمایا کہ خدا کے نبیوں کا امتحان کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ یہ کیسے خیال پیدا ہو گیا کہ اُس وقت دبانے والا امتحاناً دبا رہا ہے۔ اور اس وقت یقینا تھا بھی امتحانی دبانا۔ پس یہ ایک بین نشان تھا جو آپ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ایمانی تازگی حاصل کی۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّد۔ پھر لکھتے ہیں کہ اس کے بعد مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرے چند سوالات ہیں اگر حکم ہو تو عرض کروں۔ حضور نے اجازت فرمائی۔ مولوی صاحب نے پہلا سوال پیش کیا جو مولوی صاحب اور حضرت اقدس کے کلام کا جو سلسلہ ہے اُسی طرح لکھا جاتا ہے۔
مولوی صاحب پوچھتے ہیں کہ: حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حاضنہ (دائی) تھیں، (کھلانے والی تھیں) حضرت ایمن جن کا نام تھا جن کو حضور روزانہ یا اکثر دفعہ آپ کے پاس پہنچ کر اپنی تازہ وحی سے مشرف فرمایا کرتے تھے جس سے آپ مسرور رہتی تھیں۔ (وحی سن کے خوش ہوا کرتی تھیں ) حتی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انتقال ہو گیا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ جانشین مقرر ہوئے۔ آپ بھی ایک دن والدہ صاحبہ سے یعنی اُمّ اَیمن سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے۔ تو والدہ صاحبہ رونے لگ گئیں۔ آپ نے فرمایا کیا آپ اس لئے روتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے۔ یہ سنت اللہ تھی جو پوری ہوئی۔ امّاں جان نے فرمایا کہ نہیں بلکہ میں اس لئے روتی ہوں کہ اِنْقَطَعَتِ الْوَحْیُ۔ کہ آج وحی منقطع ہو گئی۔ پس جب اماں جان صاحبہ انقطاع وحی کی قائل ہیں تو آپ کیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد وحی کے قائل ہو سکتے ہیں؟یہ اُن کا سوال تھا۔ بڑی لمبی تمہید کے بعد یہ سوال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو انقطاعِ وحی ہو چکا ہے تو اب کس طرح وحی ہو سکتی ہے؟ آپ کہتے ہیں مجھے وحی ہوتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا آپ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ کے ماتحت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ امت خیر امت ہے۔ مولوی صاحب نے کہا: ہاں مَیں مانتا ہوں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ کیا آپ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آیت اَوْحَیْتُ اِلَی الْحَوَارِیِّیْنَ (المائدہ: 112)، وَاَوْحَیْنَآ اِلٰی اُمِّ مُوْسٰیٓ (القصص: 8)، وَاَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْل (النحل: 69) کے ماتحت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی والدہ اور شہد کی مکھیوں وغیرہ کو وحی الٰہی ہوئی اور ہوتی ہے۔ مولوی صاحب نے کہا ہاں ضرور ہوتی تھی اور ہوتی ہے۔ (بڑا اچھا یہ ایک تبلیغی قسم کا مناظرہ چل رہا ہے۔)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تو پھر کیا یہ امت مسیح کے حواریوں اور موسیٰ کی امت کی عورتوں اور حیوانوں سے بھی گئی گزری ہو گئی کہ اُنہیں تو وحی ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو جو خیرِ امت ہے، وحی نہ ہو۔
مولوی صاحب نے کہا۔ ان وحیوں کا تو قرآنِ کریم میں ذکر آیا ہے۔ کیا یہ بھی کہیں ذکر آتا ہے کہ اس امت محمدیہ میں بھی وحی ہو گی؟ اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ جبکہ آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلی امتوں میں وحی ہوتی رہی ہے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ میں دعا سکھلائی ہے جس کے بغیر آپ کا یقین ہے کہ نماز ہی نہیں ہوتی اور ہر رکعت میں اس کا پڑھنا فرض ہے۔ فرمایا صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6)۔ یعنی خدایا تو ہمیں اُن لوگوں کا راستہ دکھا جن پر تو نے انعام کیا اور وہ ایمان ہمیں بھی عطا فرما۔ پس جب اُن لوگوں میں وحی کا انعام موجود ہے، تو دعا کے نتیجے میں اس امت میں کیوں وحی نہ ہو گی۔ دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ آپ نے آیت کا حوالہ دیاکہ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَااللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا۔ تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَ لَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْن (حم سجدہ: 31)۔ یعنی جن لوگوں نے کہہ دیا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر اس پر مستقیم ہو گئے، استقامت اختیار کی، ثابت قدم ہوئے، اُن پر خدا کے ملائکہ کا نزول ہوتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں کہ یہ مت خیال کرو اور مت غم کرو اور تمہیں اُس جنت کی بشارت ہے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس آیت سے نزولِ وحی بوساطت ملائکہ ضروری ہے جو اس امت کے مومنین اور اہلِ استقامت کے لئے ضروری ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تیسری بات، تیسری آیت کہ لَہُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ (یونس: 65) کہ مومنین خیر اُمّت کے لئے اس حیاتی دنیا میں بھی بشارتیں ملتی ہیں اور آخرت میں بھی ملیں گی۔ پس یہ بشارتیں وحی نہیں تو اور کیا ہے؟پس اس ضمن میں حضور نے بہت سی اور بھی قرآنی آیات نزول وحی کے ثبوت کے طور پرپیش کیں۔ یہ مناظرہ جب ہو رہا تھا تو مولوی صاحب نے کہا کہ حضور! یہ تو سچ ہے کہ ان آیات سے نزول وحی ثابت ہوتی ہے اور اس امت کے لئے ہے۔ جب قرآنِ کریم میں ثبوت وحی فی ھذہ الامۃ موجود تھا تو پھر حضرت امّاں جان نے یہ کیوں فرمایا کہ اِنْقَطَعَتِ الْوَحْیُ کہ آج وحی بند ہو گئی۔ کیا آپ کو ان آیات کا علم نہ تھا؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ مولوی صاحب! یہ تو بتلائیے کہ اس جگہ اَلْوَحْی پر اَل(الف لام) کیسا ہے۔ یہ اَلْ اُس وحی کی طرف اشارۃ کر رہا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا کرتی تھی۔ اور حضور ہر روز اماں جان کو سنایا کرتے تھے۔ پس وہ قرآنی اور شرعی وحی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہواکرتی تھی وہ یقینا بند ہو گئی تھی اور ہو چکی ہے۔ اس سے یہ کہاں ثابت ہے کہ اس قسم کی وحی قیامت تک کے لئے بند ہے جبکہ آیات قرآنیہ میں نزول وحی بالتصریح موجود ہے۔ مولوی صاحب اس پر ساکت ہو گئے اور آگے کوئی نیا سوال نہ کیا۔ (اکیس سوالوں میں سے بس ایک ہی سوال کیا اور بس پھر اُن کی تسلی ہو گئی) حضرت اقدس نے اس کے بعد پھر ایک بڑی مبسوط تقریر فرمائی۔ (بڑی لمبی اور دلائل سے پُر تقریر فرمائی) جس سے اُن جملہ اعتراضات کا خود ہی حل فرما دیا جو کہ مولوی صاحب نوٹ کرکے لائے تھے۔ (اب مولوی صاحب نے باقی سوال نہیں پوچھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کے بعدجو تقریر فرمائی اُس میں ان سارے سوالوں کے جواب آگئے کہ وہ جو نوٹ کر کے لائے تھے اور آپ کے ایک کھیسے میں (یعنی جیب میں ) موجود تھے۔ اس ملاقات سے پہلے (انہوں نے ان سوالوں کا) کسی سے ذکر بھی نہیں کیا تھا۔ مولوی صاحب اُس وقت متعجب ہوئے اور سوچا کہ اگر اس شخص پر وحی کا نزول نہیں ہوتا تو آپ کو ان باتوں اور سوالات سے کس نے علم دیا جو آپ کے پاس لکھے ہوئے تھے، (یعنی جیب میں پڑے ہوئے تھے)۔ جب یہ دیکھا کہ میرے تو سارے سوال جو میری جیب میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا جواب بھی بغیر پوچھے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دے دیا تو تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر حضور کو عرض کی کہ حضور ہاتھ کریں۔ مَیں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں۔ پس آپ نے اُسی وقت خدا کے فضل سے بیعت کی اور اس کے بعد آپ کو کبھی بھی کوئی اعتراض حضور کی ذات پر پیدا نہیں ہوا اور آپ کے ایمان اور عرفان میں دن بدن ترقی ہوتی گئی۔ ازاں بعد حضرت خلیفہ اولؓ کی بیعت میں بلا چون و چرا داخل ہوگئے۔ خلافت ثانیہ میں بھی (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بھی بیعت کی) تب بھی کسی قسم کا شبہ پیدا نہیں ہوا۔ الحمد للہ علی ذالک۔
پھر یہ بیٹے لکھتے ہیں کہ آپ جس وقت بیعت کر کے واپس تشریف لے گئے تو دوآبہ باری اور چناب کے اکثر لوگ جو آپ کے معتقدین میں سے تھے، (اُس علاقے میں جہاں آپ رہتے تھے۔ آپ کے معتقدین میں سے تھے) اور پہلے اُن کا خیال تھا کہ اگر مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی تو ہم سب سلسلہ بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ لیکن ہوا کیا کہ جب آپ نے بیعت کر لی تو سب کے سب آپ کے دشمن ہو گئے اور آپ کے قتل کے منصوبے کرنے لگے۔ مگر آپ نے نہایت ثبات اور استقلال سے اُن کا مقابلہ کیا اور تبلیغ کا سلسلہ عاشقانہ رنگ میں جاری رکھا اور قریباً اٹھارہ سال تک آپ آنریری مبلغ رہے اور آپ کی معرفت خدا کے فضل سے قریباً تین سو آدمی یا اُس سے زیادہ سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلد 4صفحہ 7 تا 17۔ روایات حضرت مولوی محمد عبدالعزیز صاحبؓ)
تو یہ تھیں روایات۔ پس یہ چند واقعات ہیں جو اُن لوگوں کے بیان کئے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی روحانیت میں بھی مزید ترقی کی اور اللہ تعالیٰ کی ذات کا عرفان بھی اُن میں مزید بڑھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے نئے زاویے بھی اُن کے سامنے آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عشق تھا اس کی وجہ سے آپؐ کے عاشق صادق سے وفا، اخلاص اور محبت بھی تمام دنیاوی رشتوں سے بڑھ کر اُبھری۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں بھی زمانے کے امام کی بیعت میں آنے کے بعد اس بیعت کا حق ادا کرنے والا بنائے اور ہم اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور اس طرف توجہ دینے والے ہوں۔
آنے سے پہلے ایک افسوسناک اطلاع بھی آئی تھی جس کی تفصیلات تو ابھی نہیں آئیں کہ کراچی میں شاید جمعہ کے بعد ہی ایک فیملی جا رہی تھی، وہ ناظم امور طلباء تھے۔ وہ خود موٹر سائیکل پر تھے اور ان کی باقی فیملی کے لوگ شایدگاڑی میں تھے تو ان پر فائرنگ ہوئی۔ یہ نوجوان تو شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور ان کے رشتے دار، والد اور دوسرے عزیز جو گاڑی میں سوار تھے وہ زخمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ شہید مرحوم کے درجات بلند کرے۔ تفصیلات باقی آئیں گی تو پھر صورتحال سامنے آئے گی۔ بہرحال یہ جو زخمی ہیں۔ پتہ یہی لگا ہے ان کی حالت اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابھی خطرے سے باہر ہے لیکن بہرحال دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو ہر قسم کی پیچیدگی سے بچائے اور شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔
اسی طرح گھٹیالیاں سے بھی ایک شہادت کی اطلاع آئی ہے۔ ا للہ تعالیٰ ان شہیدوں کے درجات بلند کرے اور یہ جو زخمی ہیں جیسا کہ میں نے کہا ان کے لئے دعا کریں۔ ویسے بھی عمومی طور پر پاکستان میں آجکل جو حالات ہیں بہت دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر قسم کے شر سے بچائے۔
اس کے علاوہ ایک جنازہ بھی مَیں پڑھاؤں گا جو مکرمہ سیدہ امۃ الرحمن صاحبہ اہلیہ مکرم سید عبدالغنی شاہ صاحب مرحوم ربوہ کا ہے۔ جن کی وفات 15؍اکتوبر کو ایک لمبی علالت کے بعد ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آپ حضرت قریشی عبدالرحمن صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیٹی تھیں۔ بڑی نیک، پابند صوم و صلوٰۃ، توفیق سے بڑھ کر مالی قربانیوں میں حصہ لینے والی، بہت ملنسار اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ سادہ مزاج، عاجزانہ زندگی گزارنے والی تھیں۔ جلسہ کے موقع پر پاکستان میں جب جلسے ہوتے تھے تو پچاس پچاس مہمان ان کے گھر میں آکر رہتے تھے اور یہ ان سب کے لئے لنگر خانے کے علاوہ بھی کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکاتی تھیں۔ اسی طرح ہر وقت چائے کے لئے انتظام رہتا تھا۔ بعض عزیزوں کی جو بچیاں ہیں ان کی شادیوں پر جب پتہ لگتا تھا، کہ غربت کی وجہ سے اُن کے والدین کی طرف سے کوئی زیور نہیں ملا، تو اُن کواپنا کوئی نہ کوئی زیور دے دیا کرتی تھیں۔ جس کی وجہ سے اُن کے اپنے زیور بھی آہستہ آہستہ ختم ہو گئے۔ بچوں کو ہمیشہ جماعت کی خدمت کی ترغیب دلاتی رہتی تھیں اور اسی کا اثر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچے جماعت میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ موصیہ تھیں اور 1953ء میں نظام وصیت میں شامل ہونے کی توفیق پائی۔ ان کے بچوں میں دو بیٹے ان کے واقف زندگی ہیں۔ ایک وقفِ جدید میں وہاں معلم ہیں اور دوسرے عبداللہ ندیم صاحب پہلے سپین میں تھے آجکل چلّی میں ہیں۔ وہ جنازے میں شامل بھی نہیں ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو، ان سب کو صبر اور ہمت اور حوصلہ دے۔ اور ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے۔ اسی طرح ان کے ایک پوتے ہیں وہ بھی مربی سلسلہ ہیں اور ربوہ کی نظارت اشاعت میں آجکل کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح ان کے داماد منیر جاوید صاحب ہیں وہ یہاں پرائیویٹ سیکرٹری ہیں، تو چار افراد ان کے گھر کے واقفِ زندگی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اُن خواہشات کو جو ان کو اپنے بچوں کے بارے میں تھیں پورا کرے اور ان کی اولاد کو نیکیوں میں بڑھائے۔ مرحومہ کے درجات بلند فرمائے۔ باقی بچیاں اور بچوں کو سب کوہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے مختلف صحابہ کی بعض دلچسپ اور ایمان افروز روایات کاتذکرہ۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرکے اپنی روحانیت میں بھی مزید ترقی کی۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں پر ہزاروں ہزار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔
کراچی اور گھٹیالیاں میں ہونے والی حالیہ دوشہادتوں کا تذکرہ اور دعا کی تحریک۔
مکرمہ سیدہ امتہ الرحمن صاحبہ اہلیہ مکرم سید عبدالغنی شاہ صاحب مرحوم کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 19؍ اکتوبر 2012ء بمطابق 19؍اخاء 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔