اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور قربانیاں
خطبہ جمعہ 26؍ اکتوبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالسَّمَآءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ۔ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ۔ وَشَاہِدٍ وَّمَشْہُوْدٍ۔ قُتِلَ اَصْحٰبُ الْا ُخْدُوْدِ۔ النَّارِ ذَاتِ الْوَقُوْدِ۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْدٌ۔ وَہُمْ عَلٰی مَا یَفْعَلُوْنَ بِالْمُوْمِنِیْنَ شُہُوْدٌ۔ وَمَا نَقَمُوْا مِنْہُمْ اِلَّا اَنْ یُّؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ۔ الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْا َرْضِ۔ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْْئٍ شَہِیْدٌ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِ۔ اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْا َنْْہَارُ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْرُ۔ (سورۃ البروج: آیات 2تا12)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ: قسم ہے بُرجوں والے آسمان کی اور موعود دن کی، اور ایک گواہی دینے والے کی اور اس کی جس کی گواہی دی جائے گی۔ ہلاک کردیئے جائیں گے کھائیوں والے (یا خندقوں والے)۔ یعنی اس آگ والے جو بہت ایندھن والی ہے۔ جب وہ اس کے گرد بیٹھے ہوں گے۔ اور وہ اس پر گواہ ہوں گے جو وہ مومنوں سے کریں گے۔ اور وہ ان سے پرخاش نہیں رکھتے مگر اس بنا پر کہ وہ اللہ، کامل غلبہ رکھنے والے صاحبِ حمد پر ایمان لے آئے۔ جس کی آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے اور اللہ ہر چیز پر گواہ ہے۔ یقینا وہ لوگ جنہوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو فتنہ میں ڈالا پھر توبہ نہیں کی تو ان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے آگ کا عذاب (مقدّر) ہے۔ یقینا وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان کے لئے ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
یہ آیات سورۃ البروج کی ہیں جن میں اسلام کی اصل تعلیم کا ہر زمانے میں محفوظ رہنے کا بھی ذکر ہے۔ اسلام کی نشٔاۃ ثانیہ کے لئے مسیح موعود کے آنے کا بھی ذکر ہے۔ آپ کے یعنی مسیح موعود کے اور آپ کی جماعت کے دشمنوں اور مخالفین کا بھی ذکر ہے۔ افرادِ جماعت کو قربانیوں کے لئے تیار بھی کیا گیا ہے۔ یعنی ایسی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا، ایسی مخالفت اور تکالیف ہوں گی جو لمبا عرصہ دی جاتی رہیں گی۔ اُن مخالفتوں کے لئے تیار ہوجاؤ۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ سب کچھ دیکھ کر خاموش نہیں رہے گا بلکہ ایک دن آئے گا جب یہ لوگ جو مومنوں کو تکالیف دینے والے ہیں، جہنم کا عذاب دیکھیں گے اور جس آگ میں احمدیوں کو جلانا چاہتے تھے یا جلا رہے ہیں اور جلانے کی کوشش کر رہے ہیں، اُس سے بڑی آگ میں یہ جلیں گے۔ جبکہ احمدیوں کے لئے، مومنین کے لئے، مومنات کے لئے جنتیں ہیں، کامیابیاں ہیں۔ جماعت کو بحیثیت جماعت اس دنیا میں بھی غلبہ کی خوشخبری ہے اور ہر مومن کو جنت کی، کامیاب زندگی کی خوشخبری ہے۔
پس ان آیات کے مضمون کا یہ خلاصہ ہے۔ جب ہم ان آیات پر غور کریں اور ذرا تفصیل میں جائیں اور آج کل کے جماعت کے حالات پر بھی غور کریں تو جہاں قرآنِ کریم کی صداقت پر یقین بڑھتا ہے وہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر یقین بڑھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور یقین میں اضافہ ہوتا ہے کہ کس طرح پیشگوئی کے طور پر پندرہ سو سال پہلے ایک بات بیان فرماتا ہے، ایک نقشہ کھنچتا ہے اور اسی طرح وہ پورا ہو بھی رہا ہے۔ اسلام کے ہر زمانے میں ہرابھرا رہنے، چاہے وہ مخصوص اور محدود علاقوں اور لوگوں میں ہی رہا، اس کی یہ تسلی دلاتا ہے اور پھر اسی طرح ہوتا بھی چلا جاتا ہے کہ اسلام قائم ہے۔ اور پھر ایک ایسے موعود کے آنے کی خوشخبری بھی دیتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور پیغام کو محدود جگہوں پر اور محدود لوگوں میں نہیں جیسا کہ پہلے مجددین کے زمانے میں ہوتا رہا ہے بلکہ تمام دنیا اور تمام قوموں میں پھیلا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی چمک دنیا کو دکھائے گا۔ یہ پیشگوئی بھی ہمیں اس میں نظر آتی ہے۔ اور اس پیغام کو پھیلانے کے لئے دنیا کے ہر ملک میں ایک جماعت قائم کر کے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا عرفان بھی اس شاہد مسیح موعودنے جماعت کو دیا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ قُلْ یَا اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعًا(الاعراف: 159)۔ پس یہ سب کچھ مسیح موعود اور جماعت احمدیہ کی صداقت کو بھی روز روشن کی طرح واضح کر رہا ہے، دکھا رہا ہے۔ خوش قسمت ہیں ہم جو مسیح موعود کی جماعت کا حصہ بن کر اُس شاہد سے منسلک ہیں جو اُس عظیم مشہود کی سچائی کی گواہی دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد اور مشن کو آگے بڑھانے کے لئے آیا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دنیا پر روشن کرنے کے لئے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُسے بھیجا اور اپنے وعدہ کے مطابق بھیجا۔ قرآن کریم کی خوبصورت سچائی اور اس کے سب سے اعلیٰ و ارفع ہونے کو دنیا پر ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا، جس نے اسلام میں دَر آنے والی، شامل ہو جانے والی تمام لغو باتیں اور بدعات سے پاک اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے رکھا۔ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام و مرتبہ کو دنیا کے سامنے پیش فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے اسلام کی حالت دیکھ کر لوگ ایک شاہد کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ وہ لوگ جن کے دل میں اسلام کا درد تھا، بے چین تھے۔ اسی لئے حالیؔ نے کہا ؎
رہا دین باقی نہ اسلام باقی
اک اسلام کا رہ گیا نام باقی
(مسدس حالی ازخواجہ الطاف حسین حالی صفحہ32 مطبوعہ فیروز سنز الاہور ایڈیشن اول 1988)
یہ صدا صرف ایک شخص کی صدا نہیں تھی بلکہ مختلف جگہوں سے مختلف الفاظ میں بلند ہو رہی تھی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آنا عین وقت کی ضرورت کے مطابق تھا۔ اور پھر یہ اُس وقت اور اُس زمانے میں ہی نہیں کہ آپ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ فرمایابلکہ آج بھی کسی مصلح کو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی سچے عاشق کو دنیا تلاش کر رہی ہے یا کرنا چاہتی ہے۔ ہر نیک فطرت کی آواز ہے کہ کوئی آئے اور مسلمانوں کی موجودہ حالت کی اصلاح کرے۔ اس سال جلسہ کی تقریر میں مَیں نے اس کی تفصیل اور غیروں کے حوالے پڑھ دئیے تھے اس لئے اس کی تفصیل میں اس وقت تو نہیں جاؤں گا۔
بہرحال ہر احمدی بڑی اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ شریف الطبع غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہی اسلام کی خدمت کا حق ادا کر رہی ہے۔ مَیں نے گزشتہ خطبوں میں بتایا بھی تھا کہ وکیلوں کی ایک مجلس میں بھی انہوں نے یہی کہا کہ وکیلوں کی طرف سے اگر کوئی کوشش ہوسکتی ہے تو وہ جماعت احمدیہ آرگنائز کر سکتی ہے۔ اور کسی بھی معاملے میں دیکھ لیں کہ جو کوشش جماعت احمدیہ کی طرف سے ہوتی ہے وہ کوئی اَور نہیں کرسکتا اور یہ وہی لوگ سمجھتے ہیں جو نیک فطرت ہیں کہ یہ آرگنائز جماعت ہے، یہ کر سکتی ہے اور یہ بہرحال ایک حقیقت ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو نکھر کر اور بھی واضح ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اس طرح گواہی دے رہے ہیں جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور پھرآپ کی تعلیم کے زیرِ اثر آپ کی قائم کردہ جماعت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ اور دریدہ دہنی کرنے والی ہر زبان کو روکنے کے لئے صحیح ردّ عمل کا اظہار کر رہی ہے۔ دوسرے مسلمانوں کا ردّ عمل کیا ہے؟ وہ ایک ایسا ردّ عمل ہے جو اسلام دشمن طاقتوں کو مزید موقع دے رہا ہے کہ اسلام کے خلاف بولیں، مزید اپنی زبانیں کھولیں، استہزاء کریں کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ نام نہاد علماء کس قسم کے فتوے دے رہے ہیں۔ ان کے فتوے تو قتل و غارت کے فتوے ہیں یا اپنے ہی ملکوں میں اپنی ہی جائیدادوں کو آگیں لگانا، یا اپنے ہی لوگوں کو مارنا، یہ اُن کا ردّعمل ہے۔ لیکن جب احمدی کا ردّعمل یہ لوگ دیکھتے ہیں تو غیر مسلموں میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو انصاف پسند ہیں، طبیعت میں کچھ نہ کچھ شرافت ہے۔ وہ جب اصل اسلام کی حقیقی تصویر کاذکر احمدی کے منہ سے سنتے ہیں تو اُن میں سے بعض شرمندہ بھی ہوتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بولنے والوں یا استہزاء کرنے و الوں کو برا بھی کہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہی ایک خط آیا۔ ایک جگہ فنکشن تھا اور وہاں سے احمدی نے لکھا کہ فنکشن میں ایک عیسائی عورت آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں بولی۔ تو اُس نے کہا کہ اُس وقت میری آنکھوں میں آنسو آگئے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان لوگوں میں بھی ایسے لوگ پیدا کئے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل مقام کو اپنے لوگوں میں پہنچا رہے ہیں۔ بہرحال ہر جگہ ایک جیسے لوگ نہیں ہوتے۔ اچھے بھی ہیں اور برے بھی۔ پس اس کو ہم نے مزید اجاگر کر کے دنیا کو بتانا ہے۔
احمدی کا ردّ عمل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو دنیا پر اجاگر کیا جائے۔ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کی جائے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ اب دنیا کا نجات دہندہ یہی نبی ہے۔ دنیا کو بتایا جائے کہ اب اسلام کی تعلیم ہی کامل اور مکمل تعلیم ہے۔ یہی تعلیم ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے کا راستہ دکھانے والی ہے۔ پس اگر نجات چاہتے ہو تو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کی تعلیم کے ساتھ جُڑ جاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بدؤوں کو، اَن پڑھ جاہلوں کو باخدا انسان بنا کر اُن کو محبت اور صلح کا سفیر بنا دیا تھا اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لئے دلوں میں محبت کی لَو جلائی تھی۔
پس اسلام نے تو یہ معجزے دکھائے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ معجزے دکھائے ہیں اور یہی معجزے دکھانے کے لئے، انہی باتوں کی تجدید کے لئے، دنیا کو نئے سرے سے بتانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے جس کا نام یا جس کو ان آیات میں ’’شاہد‘‘ ظاہر کیا گیا ہے۔
بہرحال اب مَیں واپس اس بات کی طرف آتا ہوں کہ یہ جو شاہد اللہ تعالیٰ نے بھیجا اس کے دعویٰ کے بعد مسلمانوں کا کیا ردّعمل ہوا۔ باوجود اس کے کہ اس ضرورت کو محسوس کر رہے تھے، جیسا کہ میں نے کہا، باوجود اس ضرورت کے محسوس ہونے اور اس کا اظہار کرنے کے جب اللہ تعالیٰ نے اس شاہد کو بھیجا تو اس کے لئے انہوں نے کیا ردّعمل دکھایا؟ انہوں نے اُس کو کس طرح اس کے دعوے کا جواب دیا؟ اور یہ تو بہرحال ہونا ہی تھا کیونکہ ان آیات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس قسم کا ردّعمل ان لوگوں کی طرف سے ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں جیسا کہ مَیں نے کہا، یہی نقشہ کھینچا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت دلوں میں حقیقی رنگ میں بٹھانے کے لئے، قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتانے کے لئے مسیح موعود کو بھیجے گا اور جب وہ آئے گا تو اُس کو بھی اور اُس کی جماعت کو بھی خوفناک مصائب اور مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہی انتظار کرنے والے جو کہہ رہے تھے کہ اسلام کا نام باقی رہ گیا ہے، دین کا نام باقی رہ گیا ہے یہ انتظار کرنے والے بھی اور مخالفین بھی جو اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ اسلام ختم ہوا۔ اس شاہد کے آنے کے بعد ان سب لوگوں کی جو کوششیں ہوں گی وہ اکثریت کی مشترکہ کوششیں بن جائیں گی۔ وہ مخالفتوں کی خوفناک آگیں جلائیں گے اور ان لوگوں کو آگ میں ڈالنا چاہیں گے۔
پس یہ ان کی حالت ہے کہ ایک طرف تو مسلمانوں کی حالت پر رونا ہے اور ابھی تک رویا جا رہا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی مخالفت کی بھی انتہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو مخالفت کی آگیں بھڑکا رہے ہیں، ان پر اس کی لعنت بھی ہے اور آخرکار یہ ہلاک ہونے والے ہیں۔ لیکن مومنین اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں۔ مومنین کو بہرحال قربانیاں دینی پڑیں گی اور یہ قربانیاں بھی کوئی عارضی نہیں ہوں گی، وقتی نہیں ہوں گی بلکہ وقتاً فوقتاً یہ مخالفت کی آگ بھڑکائی جاتی رہے گی۔ احمدیوں پر ظلم و جور کیا جاتا رہے گا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی ترقی اسی سختی اور قربانی کے نتیجہ میں ہو گی، انہی ظلموں کے نتیجہ میں ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بارہا اپنی مختلف تصنیفات میں بھی اور ارشادات میں بھی اس طرف توجہ دلائی ہے۔ پس احمدیت کی مخالفت، احمدیوں کا مالی نقصان، احمدیوں کا جانی نقصان، احمدیوں سے بائیکاٹ جو بعض ملکوں میں ہے اور پاکستان میں تو آجکل بہت زیادہ، حد سے زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ احمدی بچوں پر سکولوں اور بازاروں میں آوازے کسنا اور اُن سے اساتذہ کی طرف سے بھی، ماسٹروں کی طرف سے بھی، ٹیچرز کی طرف سے بھی اور لڑکوں کی طرف سے بھی اذیت ناک سلوک، علمی لحاظ سے بھی احمدیوں کو تباہ کرنے کی کوشش، ہمارے لائق طلباء کو یونیورسٹیوں میں تنگ کیا جا رہا ہے، ان کو نکالا جا رہا ہے۔ یہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دی تھیں کہ یہ تو ہوں گی۔ مختلف قسم کی، مختلف نہج کی آگیں جلائی جائیں گی جن میں ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ گو کہ ظاہری آگ بھی احمدیوں کے خلاف بھڑکائی گئی۔ بعض گزشتہ فسادات جو 73ء میں بھی اور اُس کے بعد بھی ہوئے ہیں، ان میں گھروں کو آگیں لگائی گئیں اور کوشش کی گئی کہ احمدیوں کو گھروں میں جلایا جائے، ان کو زندہ جلا دیا جائے اور باہر پولیس بھی اور دوسرے لوگ بھی تماشا دیکھتے رہے لیکن دوسری قسم کی آگیں بھی اس میں شامل ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے موعود آئے گا اُس کے ساتھ اور اُس کے ماننے والوں کے ساتھ بڑے سخت ظلم ہوں گے اور یہ ظلم مسلمانوں کی طرف سے بھی ہوں گے۔ چنانچہ حدیثوں سے بھی ثابت ہے کہ مسلمانوں کی یہ بگڑی ہوئی حالت ہو گی تو اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جب پوچھے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی جواب ہو گا کہ جب تک مَیں اُن میں تھا اُن کا نگران تھا۔ بعد میں یہ بگڑ گئے تو وہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ وہی حضرت عیسیٰ والا جواب۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المائدۃ باب وکنت علیہم شہیداً ما دمت فیہم… حدیث نمبر 4625)۔ اور اس بگاڑ کو درست کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے مطابق جس مسیح موعود کو بھیجے گا اُس کے خلاف یہ لوگ آگیں بھڑکائیں گے اور بھڑکا رہے ہیں۔ بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے لئے ہمیں خود بھی تیار فرمایا ہے۔ مختلف جگہوں پر بڑے زور سے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مصائب اور آفات اور تکلیفوں کی یہ گھڑیاں آئیں گی اور اُن کو صبر سے برداشت کرنا۔ ایک جگہ آپ فرماتے ہیں:
’’وہ سب لوگ جو اخیر تک صبر کریں گے اور اُن پر مصائب کے زلزلے آئیں گے اور حوادث کی آندھیاں چلیں گی اور قومیں ہنسی اور ٹھٹھا کریں گی اور دنیا اُن سے سخت کراہت کے ساتھ پیش آئے گی۔ وہ آخر فتح یاب ہوں گے اور برکتوں کے دروازے اُن پر کھولے جائیں گے‘‘۔ فرمایا کہ ’’خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے، ایسا ایمان جو اُس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں، اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجے سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے‘‘۔ (رسالہ الوصیت۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 309)
پھر آپ اپنی کتاب فتح اسلام میں فرماتے ہیں کہ:
’’سچائی کی فتح ہو گی اور اسلام کیلئے پھر اُ س تازگی اور روشنی کا دن آئے گا جو پہلے وقتوں میں آچکا ہے اور وہ آفتاب اپنے پورے کمال کے ساتھ پھر چڑھے گا جیسا کہ پہلے چڑھ چکا ہے۔ لیکن ابھی ایسا نہیں۔ ضرور ہے کہ آسمان اسے چڑھنے سے روکے رہے جب تک کہ محنت اور جانفشانی سے ہمارے جگر خون نہ ہو جائیں اور ہم سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں‘‘۔ (اب صرف یہ ضروری نہیں ہے کہ جن لوگوں پر سختیاں آرہی ہیں اُن کا ہی کام ہے یا اُن کی ہی سختیاں ہیں بلکہ جن پر نہیں ہیں اُن کے لئے محنت اور جانفشانی ہے کہ دعاؤں اور عبادتوں میں ایک خاص رنگ پیدا کریں۔ اپنی نمازوں میں اپنی تہجدوں میں ایک خاص رنگ پیدا کریں۔ ) پھر آپ فرماتے ہیں ’’اپنے سارے آراموں کو اُس کے ظہور کے لئے نہ کھو دیں اور اعزاز اسلام کے لیے ساری ذلتیں قبول نہ کرلیں‘‘۔ (اُس وقت تک یہ نہیں ہو گا۔ فرمایا) ’’اسلام کا زندہ ہونا ہم سے ایک فدیہ مانگتا ہے۔ وہ کیا ہے؟ہمارا اسی راہ میں مرنا۔ یہی موت ہے جس پراسلام کی زندگی مسلمانوں کی زندگی اور زندہ خدا کی تجلّی موقوف ہے‘‘۔ (فتح اسلام۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 10-11)
پس گو آخری فتح یقینا ہماری ہے اور اسلام کی فتح یقینا اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت سے وابستہ ہے لیکن اس کے لئے ہمیں کوشش کرنی ہے۔
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں توجہ دلائی ہے کہ ایمان کی حفاظت کے لئے آگ میں جلنے کے لئے تیار رہو۔ ایک مخالفت کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ پاکستان میں وقتاً فوقتاً یہ مخالفت کی آگ احمدیوں کے خلاف بھڑکائی جاتی رہی ہے اور بھڑکائی جا رہی ہے۔ لیکن گزشتہ دو سال سے جو حالت ہے اور جتنی اس میں تیزی آ رہی ہے، اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ جتنی جانی قربانی جماعت نے گزشتہ دو سال میں پاکستان میں دی ہے، پہلے کبھی نہیں دی۔ پس یہ قربانیاں رائیگاں جانے کے لئے نہیں بلکہ فتوحات دکھانے کے لئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان فتوحات کی تسلی بھی دلائی ہے۔ تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے کہ فتوحات ان قربانیوں کے نتیجہ میں ہی ملی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے پر غور کرو۔ انہوں نے دین کی خاطر کیسے کیسے مصائب اُٹھائے اور کن کن دکھوں میں مبتلا ہوئے، نہ دن کو آرام کیا نہ رات کو۔ خدا کی راہ میں ہر ایک مصیبت کو قبول کیا اور جان تک قربان کر دی‘‘۔ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 330 مطبوعہ ربوہ)
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الفاظ اور آپ کی جماعت سے قربانی کی توقعات کو آج بھی جماعت نے خوب سمجھا ہوا ہے اور یاد رکھا ہوا ہے اور خوش ہو کر جماعت کے لئے نذرانے پیش کر رہے ہیں، جیسا کہ مَیں نے کہا ان گزشتہ دو سالوں میں جماعت نے بے انتہا جانی قربانی پیش کی ہے۔ مجھے کسی نے لکھا کہ گزشتہ دنوں کراچی میں جو ایک جواں سال کی شہادت ہوئی ہے، اُس پر میں نے افسوس کرنے کے لئے فون کیا تو اُس کی کسی قریبی عورت نے، اُن کی ماں یا بہن تھی مجھے کہا کہ ہمیں تو مبارک دو کہ ہمارے گھر کو بھی شہادت کا رُتبہ ملا ہے۔ پس چاہے یہ لاہور کی شہادتیں ہوں یا منڈی بہاؤالدین کی ہوں یا گھٹیالیاں کی ہیں یا کراچی کی، یہ قربانی کی روح ہر جگہ ہر احمدی میں نظر آتی ہے اور احمدی سمجھتے ہیں کہ اسی میں ہماری فتح ہے۔
پس اے دشمنانِ احمدیت! تم جس طرح لاہور میں درجنوں شہادتیں کرنے کے بعد بھی کسی احمدی کو اُس کے ایمان سے ہٹا نہیں سکے، احمدیوں کا ایمان متزلزل نہیں کر سکے، اسی طرح کراچی کے احمدیوں کے ایمانوں کو بھی متزلزل نہیں کر سکتے۔ کبھی ان کے ایمانوں میں کمی نہیں آ سکتی۔ انشاء اللہ۔ آج احمدی ہی حقیقت میں اس قربانی کی روح کو سمجھتا ہے اور سمجھتا رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ۔ اُس کو اس بات کا ادراک ہے کہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے لئے ہر قسم کی قربانی دینی پڑے گی۔ جیسا کہ مَیں نے کراچی کی اس شہادت کا ذکر کیا۔ گزشتہ دنوں کراچی میں تقریباً ایک ہفتہ کے دوران یا چند دن کے عرصے میں تین شہادتیں ہوئی ہیں، کچھ زخمی بھی ہوئے ہیں۔ گزشتہ جمعہ کو میں نے اس کا ذکر کیا تھا، ان میں سے ایک آدھ کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے ایک واقعہ عورتوں کا سنایا، ان کے عزیزوں کے ایمان کو بھی متزلزل نہیں کر سکے۔ بیشک دشمن اپنی بھر پور کوشش کر رہا ہے کہ یہ آگیں جلائیں اور پھر اس کی نگرانی بھی کریں۔ اِذْ ہُمْ عَلَیْْہَا قُعُوْد کی صورتحال پیدا کریں اور پیدا کر رہے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ کس طرح احمدیوں کو نقصان پہنچانے اور جلانے کی کوشش کامیاب ہوتی ہے اور اُس کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اور پھر یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس نگرانی کی جویہ مخالفین احمدیوں کی کر رہے ہیں اور جلانے کی اپنی طرف سے کوشش کر رہے ہیں اُس کی ایک صورت یہ بھی سامنے آئی ہے، کراچی کی ہی بات ہے کہ جب ایک خاندان کے افراد کو شہید کیا گیا یعنی جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے، تو سنا ہے پھر مولوی یا اُن کے چیلے چانٹے ہسپتال والوں پر یہ دباؤ ڈالنے کے لئے جمع ہوگئے تھے کہ ان کا علاج نہ کیا جائے۔ تو یہ نگرانی بھی ساتھ ساتھ کی جائے کہ پہلے گولیاں ماری جائیں، پھر ہسپتالوں میں بھی، ایسی جگہوں پر پیچھا کیا جائے جہاں اُن کا علاج کیا جا رہا ہے اور نگرانی کی جائے کہ کہیں صحیح طرح علاج نہ ہو۔ یہ تو ان ظالموں کا حال ہے جو رحمۃ للعالمین کے نام پر یہ ظلم کر رہے ہیں۔ اصل ظلم تو یہ ہے کہ اپنے ظلموں اور بیہودگیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے نام پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لیتے ہیں۔ پس یقینا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی پکڑ میں آئیں گے۔ کیونکہ نہ صرف اپنے ساتھ بے علم لوگوں کو ملا کر، اُن کے جذبات کو بھڑکا کر وہ احمدیوں پر یہ ظلم دین کی آڑ میں کر رہے ہیں بلکہ جیسا کہ مَیں نے کہا، جانتے بوجھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے خلاف آپ کے نام پر یہ ظلم کر رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیْق۔ پس اُن کے لئے جہنم کا عذاب بھی ہے اور آگ کا عذاب بھی ہے۔ اس دنیا کا عذاب بھی ہے اور اگلے جہان کا عذاب بھی ہے۔
پس اگر ان لوگوں نے توبہ نہ کی، کیونکہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر یہ توبہ کر لیں تو پھر بخشے جاسکتے ہیں۔ تو اگر توبہ نہ کی اور اسی طرح یہ مومنین پر ظلم کرتے رہے، مومن مردوں اور عورتوں پر ظلم کرتے رہے تو اس دنیا میں بھی اور مرنے کے بعد بھی ان کے لئے عذاب مقدرہے۔ یہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ مومن خوش ہوں کہ اُن کے لئے جنت ہے، سایہ دار باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس دنیا میں بیشک ہر قسم کی تکلیف پہنچا کر مخالفین اپنے زعم میں ہمارے خلاف آگیں بھڑکا رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ان مومنوں کے لئے ٹھنڈی چھاؤں اور ٹھنڈے پانی ہیں، جبکہ مخالفین کے لئے ہمیشہ کی رہنے والی آگ مقدر ہے۔ پس احمدی جو عموماً تو اچھا حوصلہ دکھانے والے ہیں اس مخالفت سے بعض جگہ بعض دفعہ پریشان بھی ہو جاتے ہیں، لیکن وہ پریشان نہ ہوں۔ احمدیوں کی قربانیاں اللہ تعالیٰ کے ہاں پندرہ سو سال پہلے ہی قبولیت کا درجہ پا گئی ہیں جب قرآنِ کریم نازل ہوا۔
پس یہ کوئی معمولی اعزاز نہیں ہے۔ پس ہر احمدی چاہے وہ پاکستان میں ہو، انڈونیشیا میں ہو، ہندوستان کے چھوٹے سے گاؤں میں ہو یا کسی عرب ملک میں ہو، کہیں بھی ہو۔ جو بھی مخالفین کی طرف سے بھڑکائی گئی اذیتوں کی آگ میں سے گزر رہا ہے یا پاکستان کا ہر احمدی جسے ہر وقت یہ کہہ کر اذیت دی جا رہی ہے کہ تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے۔ نعوذ باللہ آپؐ کو خاتم الانبیاء تسلیم نہیں کرتے۔ تم ختم نبوت کے منکر ہو، یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے خلاف مغلّظات سن کر اُن کے دل جلانے کی مستقل کوشش کی جاتی ہے۔ ان کا یہ صبر اور ان کی ہر قسم کی قربانی اُنہیں یعنی احمدیوں کو مستقل جنت کا وارث بنا دے گی۔
اب کل یا پرسوں ہی دو دن پہلے ایک بیہودہ قسم کا پمفلٹ گالیوں سے بھرا ہوا ان غیر احمدیوں نے شائع کیا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصویر بھی شائع کی اور پھر اُس جگہ جہاں سے ایک جلوس نکل رہا تھا، لوگوں کو کھڑا کر دیا جو ان تصویروں کو یا اس اشتہار کو پھینکتے جا رہے تھے اور اس پر سے لوگ گزرتے جا رہے تھے۔ اور اس طرح اپنے زعم میں نعوذ باللہ یہ اس تصویر کو اپنے پاؤں کے نیچے روندتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہتک کا باعث بن رہے تھے یا اپنا بدلہ لے رہے تھے۔ لیکن یہی ہتک ان کے لئے جہنم کا عذاب مقدر کرنے والی ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کراچی میں تین شہادتیں ہوئی ہیں۔ آجکل مخالفین احمدیت کا کراچی کی طرف رخ ہے۔ اس وقت مَیں ان شہداء کے جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ ان شہداء کے درجات بلند فرمائے اور ہر شہید کے خون کا ہر قطرہ احمدیت کی ترقی کو لاکھوں کروڑوں میں بڑھانے والا ہو۔ بیشک جماعت کی ترقی کے لئے قربانیاں بھی ضروری ہیں لیکن یہ دعا بھی ہمیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں فتوحات کے نظارے بھی جلد دکھائے۔ اسی طرح ان میں سے جو تین چار زخمی مریض ہیں، اُن کی صحت کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔ اب جو شہداء ہیں مَیں اُن کا کچھ ذکر کرتا ہوں۔ پہلے شہید ہیں مکرم سعد فاروق صاحب ابن مکرم فاروق احمد کاہلوں صاحب جن کو 19؍ اکتوبر کو بلدیہ ٹاؤن کراچی میں شہید کیا گیا۔ سعد فاروق صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ اُن کے پڑدادا مکرم چوہدی اللہ بخش صاحب کاہلوں آف چک 117چہور مغلیاں شیخو پورہ کے ذریعہ ہوا، جنہوں نے اپنے گاؤں سے پیدل قادیان جا کر بیعت کی تھی۔ پھر 62ء میں لیّہ چلے گئے۔ پھر اُس کے بعد روزگار کے سلسلہ میں شہید کے والد کراچی منتقل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا۔ شہید 5؍اکتوبر 1986ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ الیکٹرانک انجنیئرنگ کی ڈگری لی اور اُس کے بعد کاروبار سے وابستہ ہو گئے۔ چند دن پہلے 15؍ اکتوبر کو شہید مرحوم کی شادی ہوئی تھی اور تین دن بعد ہی ان کو شہادت کا رُتبہ ملا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کا واقعہ شہادت اس طرح ہے کہ 19؍اکتوبر بروز جمعۃ المبارک سعد فاروق صاحب اور اُن کے والد فاروق احمد کاہلوں صاحب صدر حلقہ بلدیہ ٹاؤن دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر واپس جا رہے تھے۔ سعد فاروق صاحب موٹر سائیکل پر تھے جبکہ آپ کے والد فاروق احمد صاحب، سسر نصرت محمود صاحب، بھائی عماد فاروق صاحب اور ان کے تایا منصور صاحب، پھوپھا اشرف صاحب کار میں تھے۔ گھر کے قریب پہنچے ہی تھے کہ سعد فاروق صاحب پر دو نقاب پوش موٹر سائیکل سواروں نے پیچھے سے فائر کیا۔ گولی اُن کے دائیں طرف کان کے نیچے لگی اور دوسری طرف سے باہر نکل گئی جس سے شدید زخمی ہو کر گر پڑے۔ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے بعد کار کا تعاقب کر کے فائرنگ شروع کی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے والد جو گاڑی چلا رہے تھے اُن کو بھی پانچ گولیاں لگیں جس میں سے دو گولیاں اُن کے دائیں بازو میں، دو گولیاں بائیں بازو میں، جبکہ ایک گولی اُن کی گردن کو چھوتی ہوئی گزر گئی۔ شہید مرحوم کے چھوٹے بھائی عزیزم عماد فاروق کو ایک گولی ماتھے پر لگی اور سامنے آنکھ کے پیچھے کھوپڑی کی ہڈی میں پھنس گئی۔ شہید مرحوم کے سسر چوہدری نصرت محمود صاحب جو کہ گاڑی میں موجود تھے ایک گولی اُن کی گردن اور ایک گولی سینے میں اور ایک گولی پیٹ میں لگی۔ ان کی حالت پہلے سے تو بہتر ہے لیکن خطرے سے باہر نہیں ہے۔ وینٹی لیٹر (Ventilator)پر رکھا ہوا ہے۔ ان کے پھوپھا اشرف صاحب بھی زخمی ہوئے اور باقی دو محفوظ رہے۔ جب واقعہ ہوا ہے تو شہید مرحوم کے والد صاحب نے شدید زخمی حالت میں گاڑی چلانی شروع کی اور جب پیچھے دیکھا تو شہید مرحوم سڑک پر گرے ہوئے تھے۔ وہ گاڑی روک کر پہلے اُن کے پاس آئے، اُن کو گاڑی میں ڈالا اور خود زخمی ہونے کے باوجود خود گاڑی چلا کر ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال پہنچتے ہی سعد فاروق شہید ہوگئے۔ انہوں نے جان دے دی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
شہید مرحوم موصی تھے اور 21؍ اکتوبر کوربوہ میں اُن کا جنازہ ادا کیا گیا۔ شہید مرحوم کا اپنے خاندان سے نہایت محبت کا تعلق تھا۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے ہمارے کمرہ میں آتے۔ میرے اور اپنے والد کے پاؤں دباتے۔ ہمیں چائے پلاتے اور اے سی (AC) کا ٹمپریچر سیٹ کر کے جانے کی اجازت طلب کرتے۔ اور کہتی ہیں ہماری اطاعت کے تمام معیار پورے کرتے۔ آج تک انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں ٹالی اور نہ ہی کبھی آگے سے جواب دیا۔ خون کا عطیہ دینے کا اُنہیں بہت شوق تھا اور محلے یا جماعت میں کسی کو بھی خون کی ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو پیش کرتے۔ ان کی والدہ کہتی ہیں میرے منع کرنے پر کہتے کہ اُمی یہ خون تو ضائع ہو جانا ہے، کیوں نہ کسی کے کام آ جائے۔ ان کی بہن ڈاکٹر صبا فاروق ہیں، یہ کہتی ہیں کہ ہمارا بہن بھائیوں کا دوستی کا رشتہ تھا۔ انتہائی پیار کرنے والا بھائی تھا بلکہ لوگ مجھے کہا کرتے تھے تمہارا بھائی دنیا سے الگ ہے۔ اور کہتی ہیں چھوٹا ہونے کے باوجود ہمیشہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ (Treat) کرتا تھا۔ انتہائی نیک اور خدمت گزار تھا اور صرف ہمارے دل میں نہیں بلکہ جو بھی جس کا بھی اُس سے واسطہ ہے ہر ایک کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اللہ تعالیٰ اُس کی قربانی قبول فرمائے۔ اُن کی بیوہ بھی کہتی ہیں کہ نکاح کے بعد وہ امریکہ رہتی تھیں، تو جب فون پر اُن کی بات ہوتی تھی، وہ اکثرمجھے یہ کہا کرتے تھے کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔ جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ خدام الاحمدیہ کی بھی اور مختلف جماعتی خدمات میں بھی انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ قائد خدام الاحمدیہ کراچی کہتے ہیں کہ شہید سعد بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے۔ سب سے بڑھ کر جو میں نے محسوس کیا وہ اُن کی عاجزی تھی۔ خاکسار نے ہمیشہ مشاہدہ کیا کہ جب بھی کسی کام کے لئے کہا گیا، یا کوئی بات دریافت کی گئی، وہ ہمیشہ سر جھکا کر نظریں نیچی کر کے صرف یہ جواب دیتا تھا جی قائد صاحب۔ اُن کی اطاعت بیمثال تھی۔ خلافت کے فدائی تھے۔ ہر عہدیدار کو اُس کے عہدے سے مخاطب کرتے۔ کبھی نام نہ لیتے۔ پچھلے ایک سال سے خاکسارنے اُنہیں ایک ایسے بلاک کا نگران مقرر کیا تھا جہاں جماعتی مخالفت زوروں پر تھی مگر اتنا کم عمر ہونے کے باوجود اُن کی بہادری اور لگن بیمثال تھی۔ اکثر اپنے سپرد مجالس کا دورہ کرتے اور مکمل کرتے اور رات گئے دیر سے فون پر کام مکمل ہونے کی اطلاع دیتے۔ خاکسار حیران ہو کر اُن کو ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ کا یہ علاقہ خطرناک ہے اس لئے اپنا خیال رکھا کریں۔ شہید کا جذبہ بیمثال تھا۔ مشکل حالات میں اُن کی وجہ سے اُن کے سپرد مجالس میں جملہ امور کی انجام دہی میں خاص معاونت حاصل تھی۔ ان کے والد صاحب بڑے زخمی تھے تو ان سے ان کی شہادت چھپانے کی کوشش کی گئی۔ وہ بھی ہسپتال میں ہی تھے تو انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ سعد شہید ہوچکا ہے۔ مجھے اُس کی شہادت کا کوئی غم نہیں ہے۔ بس مجھے میرے شہید بیٹے کا چہرہ دکھا دو اور آپ اپنے شہید بیٹے کے پاس گئے اور اُس کی پیشانی کو چوما اور اُسے الوداع کہا۔
پس جس شہید کے باپ، بہن، ماں ایسے جذبات رکھتے ہوں دشمن بھلا اُن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ شہید کے سُسر جو ہیں وہ بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اُن کی کافی Critical حالت ہے۔ یہ امریکہ سے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے وہاں گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو شفا عطا فرمائے۔
دوسرے شہید بشیر احمد بھٹی صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم ہیں۔ یہ بھی بلدیہ ٹاؤن کراچی کے ہیں۔ ان کی 23؍اکتوبر کو شہادت ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑنانا مکرم محترم میاں محمد اکبر صاحب کی بیعت کے ذریعے سے ہوا۔ آپ کے گاؤں سے ایک وفد قادیان گیا۔ اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ واپسی پر اُن کے ذریعہ گاؤں کے کئی لوگوں نے بیعت کی جن میں سے ایک آپ کے پڑنانا تھے۔ آباؤ اجداد کا تعلق باجوڑی چار کوٹ کشمیر کے ساتھ ہے۔ پھر بشیر صاحب سندھ میں ناصر آباد سٹیٹ میں آ کر بھی کچھ عرصہ آباد رہے۔ ان کی شہادت کا واقعہ اس طرح ہے کہ اپنی دکان واقع بلدیہ ٹاؤن میں رات تقریباً 9بجے بیٹھے ہوئے تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار آئے جن میں سے ایک نے آپ پر تین گولیاں فائر کیں جن میں سے ایک گولی اُن کی گردن اور دوسری گولی سینے میں لگی۔ اُن کو فوری طور پر ہسپتال لے جایا گیا مگر آپ ہسپتال لے جاتے ہوئے راستے میں شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ کی عمر تقریباً 67سال تھی۔ کشمیر میں ان کی پیدائش ہوئی۔ اَن پڑھ تھے، ناخواندہ تھے، محنت مزدوی کیا کرتے تھے۔ 1984ء میں کراچی شفٹ ہو گئے۔ پھر فیکٹریوں میں کام کرتے رہے اور ساتھ انہوں نے اپنے گھر دوکان کھولی ہوئی تھی، جو چھوٹی سی پرچون کی دوکان تھی۔ اولاد کی تربیت بڑی احسن رنگ میں کی۔ ان کا ایک پوتا عزیزم عمران ناصر پچھلے سال جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے لئے گیا تو جاتے ہوئے آپ نے اُسے دین کی خدمت کی نصائح کیں۔ نظام جماعت سے مکمل تعاون کرتے تھے۔ خلافت کی محبت میں خدا تعالیٰ نے اُن کے دل کو گداز کیا ہوا تھا۔ اہلیہ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو۔
تیسری شہادت مکرم ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب ابن مکرم راجہ عبدالعزیز صاحب کی ہے۔ 1994ء میں محترم سید محمد رضا بسمل صاحب جو کہ ضلع کراچی کے معروف داعی الی اللہ ہیں اور صاحب علم بزرگ ہیں اُن کا رابطہ ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب شہید کے والد مکرم ڈاکٹر عبدالعزیز خان صاحب سے ہوا۔ سوال و جواب کی کئی محفلیں ہوئیں جس کے بعد سب سے پہلے ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب شہید کو 1994ء میں ہی بیعت کر کے جماعت احمدیہ مبائعین میں شامل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس کے تھوڑے عرصے بعد ہی آپ کے والد صاحب اور والدہ صاحبہ نے بھی بیعت کر لی۔ شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان کے قبیلے یوسف زئی سے ہے۔ شہید مرحوم کے دادا مکرم عبدالحمید خان صاحب جن کے نام پر آپ کا نام رکھا گیا ہے، حیدرآباد دکن کے نواب کے چیف سیکرٹری تھے۔ شہید مرحوم 1972ء میں کراچی میں پیدا ہوئے اور آپ نے بلدیہ ٹاؤن سے ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر نیوی سے انٹرن شپ کر کے نیوی میں بطور سویلین فور مین بھرتی ہو گئے۔ ڈاکٹر ان کو اس لئے کہتے تھے کہ نیوی کی ڈیوٹی سے واپس آکر اپنے والد صاحب کے ساتھ ان کے کلینک میں بیٹھا کرتے تھے۔ وہیں سے تھوڑی بہت پریکٹس کر لیتے تھے۔ 23؍ اکتوبر کو رات کو آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پر دو موٹر سائیکل سوار آئے ہیں اور ایک شخص موٹر سائیکل پر ہی سوار رہا جبکہ دوسرا کلینک میں داخل ہوا اور اُس نے پستول سے آپ پر تین فائر کئے۔ ایک گولی آپ کے بائیں گال پر لگی اور دائیں جانب گال کے اوپر سے ہی باہر نکل گئی جبکہ دوسری گولی ٹھوڑی پر نیچے کی جانب لگی۔ ایک گولی بائیں کندھے پر بھی لگی جو کمر سے باہر نکل گئی۔ ان تین گولیوں کے لگنے سے آپ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ گو کہ 94ء کی بیعت تھی لیکن یہ بھی حلقہ بلدیہ ٹاؤن میں جماعتی خدمات بطور سیکرٹری تربیت نو مبائعین انجام دے رہے تھے۔ دعوت الی اللہ کا شعبہ کے آپ نگران تھے۔ پھر ناظم تربیت نو مبائعین بھی خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ بڑے ہمدرد، بااخلاق مزاج کے حامل تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ رہتی۔ بڑی دھیمی آواز میں بات کیا کرتے تھے۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ آپ ایک انتہائی خیال رکھنے والے اور محبت کرنے والے شوہر اور شفیق باپ تھے۔ دین کی خدمت اور اطاعت، خلافت سے محبت آپ کی خوبیوں میں سے نمایاں خوبیاں تھیں۔ آپ کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بلدیہ ٹاؤن میں ہونے والی شہادتوں کی وجہ سے علاقے میں تناؤ تھا۔ شہید مرحوم شہادت سے ایک روز قبل مجھے کہنے لگے کہ کچھ احمدی گھرانے حالات کی وجہ سے یہاں سے شفٹ ہو رہے ہیں، اس طرح تو دشمن اپنے عزائم میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی آپ پر رقت طاری ہو گئی اور کہنے لگے لیکن مَیں نہیں ڈرتا۔ میری خواہش ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہو جاؤں۔ نیز کہا کہ کہیں آپ ڈر کا شکار تو نہیں ہیں؟ ان کی اہلیہ کہتی ہیں مَیں نے کہا کہ نہیں، مَیں بھی نہیں ڈرتی بلکہ مجھے بھی آپ کے لئے اور اپنے لئے شہادت کا شوق ہے۔ ان کی اہلیہ نے لکھا ہے کہ میری تین بچیاں ہیں۔ چھوٹی عمر کی بچیاں ہیں، اُن کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے نیک نصیب کرے۔ اللہ تعالیٰ خود ان کا حافظ و ناصر ہو۔
چوتھی شہادت ریاض احمد بسراء صاحب ابن مکرم چوہدری منیر احمد بسراء صاحب گھٹیالیاں ضلع سیالکوٹ کی ہے۔ 18؍اکتوبر کو ان کی شہادت ہوئی۔ ان کے دادا کے بھائی مکرم چوہدری غلام رسول صاحب بسراء صحابی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسل میں سے تھے۔ 1958ء میں یہ گھٹیالیاں کلاں تحصیل پسرور میں پیدا ہوئے۔ گاؤں میں جس طرح بعض دشمنیاں چلتی ہیں، ان کی دشمنیاں چل رہی تھیں۔ ان کے بڑے بھائی کو پہلے شہید کیا گیا تھا اور پھر ان کے بعض دوسرے عزیزوں رشتہ داروں کو بھی۔ اُن کی دشمنیاں آگے چل رہی تھیں لیکن بظاہر لگتا ہے کہ یہ براہ راست اُس میں انوالو (Involve) نہیں تھے لیکن جماعتی خدمات اور ایک رعب کی وجہ سے وہاں کے علاقے کے بعض لوگ ان کے کافی خلاف تھے اور خاص طور پر کچھ مولوی اس علاقہ میں اب نئے آئے ہیں جنہوں نے ان کے دشمنوں کو بھڑکایا کہ ذاتی دشمنی کو اب جماعتی رنگ دو اور اب ان کو شہید بھی کر دو گے توکوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا فوراً کہہ دینا کہ یہ کیونکہ قادیانی تھا اس لئے ہم نے مار دیا۔ بہرحال 18؍اکتوبر کو جمعرات کی نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد یہ کچھ دیر وہاں ڈیوٹی دینے والے خدام کے پاس بیٹھے رہے اور اُس کے بعد واپس گھر جا رہے تھے کہ راستے میں ان کو بعض نامعلوم افرادنے پکڑ کر فائر کیا جس کے نتیجہ میں ان کی وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ جماعتی کاموں میں بہت فعال تھے۔ انہوں نے چار سال قائد مجلس گھٹیالیاں کے فرائض سرانجام دئیے ہیں۔ چھ سال تک ناظم عمومی گھٹیالیاں رہے اور آجکل بطور سیکرٹری امور عامہ گھٹیالیاں خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انصار اللہ کے مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے۔ جماعت کے لئے بڑی غیرت رکھنے والے تھے اور نظام جماعت کی اطاعت بھی ان میں خوب تھی۔ خلافت سے محبت کرنے والے تھے۔ ان میں بڑا جوش بھی تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ ان کے بچوں کو صبر اور ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
یہ تو شہداء کا ذکر ہے۔ اس کے علاوہ دو اور وفاتوں کا بھی اعلان کروں گااور ان شہداء کے ساتھ ان کے جنازہ غائب بھی ادا کئے جائیں گے۔
ان میں سے ایک سعودی عرب کے مکرم عبدالرحمن الجبالی صاحب ہیں۔ نو مبائع تھے۔ 9؍اکتوبر کو ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے۔ ان کی عمر 47سال تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ 2010ء میں جلسہ سالانہ برطانیہ میں شامل ہوئے تھے۔ بڑے خاموش طبع اور غوروفکر کے عادی تھے۔ اُنہیں احمدیت کی ترقی پر کامل یقین تھا اور کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پیغام کو اُن کے ملک میں بہت پذیرائی مل رہی ہے اور احمدیت ہی وہاں کے لوگوں کی واحد امیدگاہ ہے۔ مرحوم بچپن سے ہی سچائی کے متلاشی تھے۔ ان کی زندگی میں عام لوگوں سے ہٹ کر بہت سے عجیب و غریب واقعات پیش آئے۔ بالآخر اُنہیں احمدیت کی نعمت ملی جس پر ان کا ایمان بہت پختہ تھا۔ گھر پر یا باہر ہر ملنے والے کو تبلیغ کرتے تھے۔ گزشتہ دو سال سے کہا کرتے تھے کہ اب ان لوگوں کو تبلیغ کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ سب لوگ احمدیت کے بارے میں جانتے ہیں لیکن قبول کرنے کی جرأت نہیں کرتے لہٰذا اب ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ 2010ء میں جب یہ یہاں بھی آئے ہیں تو انہوں نے بڑے اخلاص اور وفا کا اظہار کیا تھا۔ ان کے بارے میں سعودی عرب کے ہی ایک نو مبائع لکھتے ہیں کہ ہمارے بھائی عبدالرحمن کو کوئی بیماری نہ تھی۔ اچانک حرکت قلب بند ہونے سے فوت ہو گئے۔ ہم گواہی دیتے ہیں کہ مرحوم ہردلعزیز تھے۔ نہایت بااخلاق اور مطمئن اور ہر وقت ذکر الٰہی اور درود شریف میں مصروف رہتے تھے۔ دنیا اُن کی نظر میں بالکل ہیچ تھی۔ غرباء کی مدد کرتے اور صدقات دیتے تھے۔ بیعت کے بعد ان کا دل دنیا سے بالکل اُچاٹ ہو گیا تھا۔
دوسرا جنازہ مکرم عزت عبدالسمیع محمد جلال صاحب (مصر) کا ہے۔ ان کی وفات 11؍اکتوبر کو ہوئی ہے۔ آپ مکرم خالد عزت صاحب (مصر) کے والد تھے۔ خالد عزت صاحب تحریر کرتے ہیں کہ میرے والد عزت عبدالسمیع صاحب 11؍ اکتوبر کو وفات پا گئے۔ میرے والدین شروع میں جماعت کے مخالف تھے لیکن جب میری اپنے شدید مخالف بھائی مکرم محمد سے جماعت کی صداقت پر گفتگو ہوتی تو سن کر کہنے لگے کہ ہم دونوں بھی آپ جیسے مسلمان ہیں۔ لیکن بیعت فارم پر دستخط کرنے کی ضرورت نہیں۔ 2009ء میں والد صاحب کے کندھے کی ہڈی ٹوٹ گئی تو اُنہیں کچھ عرصہ میرے ہاں ٹھہرنے کا موقع ملا۔ اس دوران ایم ٹی اے دیکھتے اور میری ملاقات کے لئے آنے والے احمدیوں سے متعارف ہوتے رہے۔ اس طرح تسلی ہونے پر خود ہی 2010ء میں بیعت کر لی۔ آپ نیک اور صالح اور نماز تہجد کے پابند تھے۔ بچوں کو ہمیشہ رزق حلال کھلایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور سنت کی پیروی سکھائی۔ کہتے ہیں کہ پہلی بار خاکسار نے اُن کے ساتھ 1998ء میں حج کیا، اُس وقت میں بفضلہ تعالیٰ احمدی ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور اُن کی اپنی اولاد کے بارے میں بھی اور اپنے ہم وطنوں کے بارے میں بھی جو نیک خواہشات تھیں اُنہیں بھی پورا فرمائے۔
ہر احمدی بڑی اچھی طرح یہ جانتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ اور صرف احمدی ہی نہیں بلکہ شریف الطبع غیر از جماعت بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہی اسلام کی خدمت کا حق ادا کر رہی ہے۔
اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی اس طرح گواہی دے رہے ہیں جس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور پھرآپ کی تعلیم کے زیرِ اثر آپ کی قائم کردہ جماعت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے والے ہر ہاتھ اور دریدہ دہنی کرنے والی ہر زبان کو روکنے کے لئے صحیح ردّ عمل کا اظہار کر رہی ہے۔
جتنی جانی قربانی جماعت نے گزشتہ دو سال میں پاکستان میں دی ہے، پہلے کبھی نہیں دی۔ پس یہ قربانیاں رائیگاں جانے کے لئے نہیں بلکہ فتوحات دکھانے کے لئے ہیں۔ بیشک جماعت کی ترقی کے لئے قربانیاں بھی ضروری ہیں لیکن یہ بھی دعا ہمیں کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان قربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے ہمیں فتوحات کے نظارے بھی جلد دکھائے۔
کراچی کے تین شہداء مکرم سعد فاروق صاحب ابن مکرم فاروق احمد کاہلوں صاحب، مکرم بشیر احمد بھٹی صاحب ابن مکرم شاہ محمد صاحب مرحوم، مکرم ڈاکٹر راجہ عبدالحمید خان صاحب ابن مکرم راجہ عبدالعزیز صاحب۔ اسی طرح مکرم ریاض احمد بسراء صاحب ابن مکرم چوہدری منیر احمدبسراء صاحب شہید گھٹیالیاں اور مکرم عبدالرحمن الجبالی صاحب آف سعودی عرب اور مکرم عزت عبدالسمیع محمد جلال صاحب آف مصر کی وفات۔ مرحومین کاذکرخیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 26؍اکتوبر 2012ء بمطابق 26؍اخاء 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔