صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی قبول احمدیت کے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات
خطبہ جمعہ 2؍ نومبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت بھی میں آپ کو صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات پیش کروں گا جو ان کی بیعت کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ پہلی روایت حضرت محمد شاہ صاحبؓ کی ہے وہ بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے پہلے واقعات میں (اس سے پہلے یہ اپنے کوئی واقعات لکھ چکے ہیں، جہاں سے یہ حوالہ لیا گیا۔ اُس سے آگے چلتا ہے) یہ لکھا تھا کہ سیّد کو دوسرے کی بیعت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ سیّد تھے۔ انہوں نے کہا کہ مَیں یہی سمجھتا تھا کہ سیّد کو دوسرے کی بیعت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک روایت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ کہتے ہیں اور اسی لئے مَیں نے باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حق پر سمجھتا تھا، بیعت کی ضرورت نہیں سمجھی۔ کہتے ہیں، کچھ مدت تک مَیں اسی خیال میں پختہ رہا لیکن جب بھی کسی مجلس میں حضرت مرزا صاحب کا ذکر ہوتا، اگر توصیفی رنگ میں ہوتا تو دلچسپی سے سنتا اور جس مجلس میں مخالفت ہوتی اس مجلس میں بیٹھنا ناگوار گزرتا۔ اس مجلس میں نہ بیٹھتا، اُٹھ کر چلا جاتا۔ آخر ایک روز کسی کے منہ سے بے پیر اور بے مرشد کا سن کر جو کسی اور سے کہہ رہا تھا، خیال آیا کہ بے پیر اور بے مُرشد تو ایک گالی ہے۔ اور میں خود بے پیر اور بے مرشد ہوں۔ کیا سیّد مستثنیٰ ہیں؟ خود ہی بعض گدی نشینوں کا خیال آکر کہ بعض بڑے بزرگ گزرے ہیں اور وہ سیّد تھے۔ انہوں نے بھی بعض غیر سیّدبزرگوں کی بیعت کر کے فیض حاصل کیا۔ تو مَیں بھی اپنی جگہ فکر مند رہنے لگا۔ لیکن کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے کسی سے دریافت نہ کیا۔ لیکن ایک مقصد دل میں رکھ کر بعض اچھے آدمیوں سے اپنے مقصد کے پورا ہو جانے کے واسطے کوئی وِرد پوچھنے اور کرنے شروع کر دئیے۔ یعنی دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ اور مقصد یہی تھا کہ مُرشد کامل اور سیّدمل جاوے (یعنی ایسا پیر ملے جو سیّد ہو)چنانچہ کافی عرصے تک چلّوں اور وِردوں کی دھن لگی رہی اور کرتا رہا۔ قبرستانوں میں، دریاؤں میں، کنوؤں پر اور پہاڑوں پر، بزرگوں کے مزاروں پر، غرضیکہ رات خفیہ جگہوں پر جا جا کر چالیس چالیس دن چلّے کئے۔ کچھ نہ بنا۔ آخر ایک روز مایوس ہو کر لیٹ گیا اور سو گیا۔ نیند میں ایک بزرگ کو دیکھا۔ اُس نے تسلی دی کہ بیٹا تمہیں جومُرشد ملے گا وہ سب کا مرشد ہو گا۔ اس کے ہوتے ہوئے سب پیر و مُرشد مات ہو جائیں گے۔ یہ نظارہ دیکھ کر دل کو تسلی ہو گئی اور یقین ہو گیا کہ مُرشدِ کامل انشاء اللہ مل جائے گا۔ آخر 1905ء میں ایک رات مَیں نے دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے جو کہ بالکل صاف اور پاکیزہ کیا گیا ہے، جیسے ایک بہت بڑا جلسہ گاہ ہو۔ نہایت صاف اور اس میں ایک سٹیج اونچی اور بادشاہوں کے لائق جس کی تعریف میرے جیسے کم علم سے نہیں ہو سکتی، تیار ہے۔ مجھ کو یہ شخص کہہ رہا ہے کہ یہاں آجکل نبیوں علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اجتماع ہے اور رسول کریم یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج اپنے پیارے بیٹے کو تخت پر بٹھانے آئیں گے۔ تومَیں خوشی میں اچھلتا ہوں اور نہایت تیزی سے دوڑتا ہوا اس میدان میں سٹیج کے عین قریب سب سے پہلے ہانپتا ہوا اور سانس پھولا ہوا پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ میدان کھچا کھچ پاک لوگوں، نورانی شکلوں سے بھر گیا کہ معاً سب کی نظریں اوپر کی طرف کو دیکھنے لگیں۔ مَیں نے بھی اوپر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ہوائی جہازوں کی طرح جھولے نہایت نفیس بنے ہوئے ہیں اور ان میں کسی میں فقط ایک مرد، کسی میں ایک مرد اور ایک عورت یا دوعورتیں اور کسی میں فقط عورتیں یا فقط مرد آسمان سے نہایت آرام سے آ جاتے ہیں۔ مجھے خود بخود معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ فلاں نبی ہے اور یہ فلاں نبی ہے۔ اور بہت سی امّہات المومنین بھی مثلاً مائی صاحبہ حوّا، مائی صاحبہ ہاجرہ و مریم اور بی بی فاطمہ و خدیجہ رضی اللہ عنہا سب تشریف لے آئیں اور سب نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور امّہات المومنین آ کر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور اسی طرح انتظار ہونے لگا جیسے جمعہ کے روز قادیان شریف مسجد اقصیٰ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے زمانے کی بات کر رہے ہیں، کہ اُن کا انتظار ہوتا تھا۔ اور بعض دفعہ آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہنے لگتے ہیں کہ باپ بیٹا آتے ہی ہوں گے۔ کافی دیر کے بعد ایک جھولا اترا جو کہ سب جھولوں سے زیادہ مرصّع تھا۔ (سجا ہوا تھا۔) اُس میں جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اتر کر سٹیج پر دو کرسیاں ساتھ ساتھ پڑی تھیں، تشریف فرما ہوئے۔ پہلے مجھ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعودنے السلام علیکم کہا اور پہلے افتتاحی تقریر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور فرمایا کہ میں اپنے بیٹے کو آپ سب نبیوں کے سامنے، جس کے متعلق پہلے سے آپ لوگوں کو خبریں دی جا چکی ہیں، تخت پر بٹھاتا ہوں۔ پھر حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تقریر فرمائی۔ اس وقت مجھے سیّد کی حقیقت معلوم ہوئی اور حضرت صاحب کو دیکھا کہ وہی لدھیانہ کے سٹیشن والے ہی مرزا صاحب تھے۔ کہتے ہیں جب یہ پتہ لگ گیا کہ سیّد کا اصل مقام کیا ہے تو اگلے دن صبح اُٹھتے ہی بیعت کا خط لکھ دیا۔ پھر آگے لکھتے ہیں ہزاروں ہزار برکتیں نازل ہوں مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اور ان کی اولاد پر‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 17 تا 20)
حضرت محمد علی صاحبؓ ولد گامے خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے 1903ء یا 1904ء میں جو بڑی پلیگ پڑی تھی اُس کے بعد گرمیوں کا موسم تھا اُس میں بیعت کی۔ پہلے والد صاحب نے بیعت کی تھی جو موصی تھے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ انہوں نے جالی گاڑ رکھی ہے۔ (یعنی کہ ایک جالی لگائی ہوئی ہے) شکار کے لئے جو جال لگاتے ہیں۔ جس میں تین فاختائیں پھنس گئی ہیں۔ مولوی بوٹے خان صاحب سکنہ شکار نے اُن کی اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ آپ کے تینوں لڑکے احمدی ہو جائیں گے۔ چنانچہ ہم تینوں بھائی بعد میں پھر احمدی ہو گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 1 صفحہ 190)
حضرت مولوی علی شیر صاحب زیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بیعت 1906ء میں کی تھی۔ موجب یہ ہوا کہ میں مولوی محمد علی صاحب برادر مولوی جلال الدین صاحب مبلغ یوپی سے قرآن کریم پڑھا کرتا تھا۔ آپ کو مولوی جلال الدین صاحب کے ذریعے تحریک ہوئی اور انہوں نے بیعت کر لی۔ پھر مولوی علی محمد صاحب نے ہمیں تبلیغ کرنا شروع کی۔ مَیں نے استخارہ شروع کیا اور چالیس روز تک یَاخَبِیْرُ اَخْبِرْنِیْ کا وِرد جاری رکھا۔ مجھے بتایا گیا کہ مدعی سچا ہے۔ کہتے ہیں، مختلف مدعی تھے پتہ نہ چلا کہ کس کے حق میں ہے۔ تو دوسری رات پھر کہا گیا کہ دعویٰ کرنے والا سچا ہے۔ پھر کہتے ہیں تیسری رات کہا گیا کہ قادیان میں جس شخص نے دعویٰ کیا ہے، وہ سچا ہے۔ اس پر میں نے بیعت کر لی اور پھر خلافت ثانیہ پر بھی بشارت پر مَیں نے بیعت کی تھی۔ (یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خلافت کے وقت جو ایک فتنہ اُٹھا تھا اُس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوئی تو انہوں نے بیعت کی)۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 1 صفحہ 219)
حضرت شیخ محمد حیات صاحب موگاؓ بیان کرتے ہیں کہ 1903ء میں حضرت صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مولوی نور محمد صاحب آف مانگٹ نے تبلیغ کی تھی۔ شیخ صاحب کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اپنے گھر کے صحن میں لیٹا ہوا ہوں۔ ایک چاند کی سی شکل میرے سامنے سے گزری اور مجھے ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ یہ قادیانی احمد ہیں۔ مگر خواب میں ہی میں خیال کرتا ہوں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اسی حالت میں میں جاگ اُٹھااور مولوی نور محمد صاحب سے خواب کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ خواب کے علاوہ جو خیال آیا وہ شیطانی ہے۔ اس پر مَیں نے بیعت کر لی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 1 صفحہ 220)
حضرت عبدالرحیمؓ بوٹ میکر و جلد ساز ولد میاں قادر بخش صاحب بیان فرماتے ہیں کہ 1906ء میں مجھے قادیان آنے کا شوق پیدا ہوا۔ ہمارے خاندان میں صرف میرے ماموں صاحب محمد اسماعیل صاحب جلد ساز (والد محمد عبداللہ صاحب جلد ساز) اور اُن کے لڑکے بھائی محمد عبداللہ صاحب جلد ساز بھی احمدی تھے۔ اُن سے زیادہ مخلص میری مامی صاحبہ تھیں، یعنی والدہ صاحبہ محمد عبداللہ صاحب۔ اُن کے ذریعے ہمارے ماموں صاحب اور بھائی محمد عبداللہ صاحب قادیان آئے، احمدی ہوئے۔ میں ماموں صاحب کے پاس قرآن پڑھا کرتا تھا۔ اُن کی باتیں سنا کرتاتھا۔ مثال دیا کرتے تھے کہ دیکھو تم بھی مجھے عبداللہ جیسے ہو۔ (یعنی اُسی طرح پیارے ہو۔ ) لو بات سنو۔ بات یہ کہتے کہ لوگ حضرت مرزا صاحب کو برا کہتے ہیں مگر پھر بھی جماعت ترقی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یاد رکھنا کہ کھیت میں جس قدر گندگی اور رُوڑی ڈالی جاوے اُسی قدر زیادہ اچھی فصل سرسبز ہوتی ہے۔ یہ لوگ جتنا گند بکتے ہیں، اُسی قدر زیادہ جماعت ترقی کرتی جاتی ہے۔ سو خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ ایسے برے لوگوں کی صحبت میں رہ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی غلامی میں داخل ہوئے۔ ماموں صاحب اور مامی صاحبہ سے میری خاص محبت تھی۔ مجھے فرمایا کرتے تھے کہ تجھے قادیان ضرور لے کر جانا ہے۔ مجھے شوق تھا۔ ایک دن فرمایا کہ ایک طرف کا کرایہ میں دوں گا، ایک طرف کا تم خرچ کرنا۔ (اُس بچے کو شوق دلایا کہ جانا تو ہے لیکن کم از کم خرچ تم نے اپنا کرنا ہے) کہتے ہیں کہ مجھے ہر جمعہ کے دن آٹھویں روز ایک پیسہ ملا کرتا تھا۔ (جیب خرچ کے طور پر ایک پیسہ ملا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں پیسے کی بھی بڑی ویلیو تھی) کہتے ہیں مَیں وہ ایک آنہ ماہوار جمع کرتا۔ (آنے میں چار پیسے ہوا کرتے تھے۔ ) مجھے یادنہیں کتنے آنے میرے پاس تھے۔ بہرحال جتنے بھی تھے میں نے اپنے ماموں کو دے دئیے اور باقی سب کرایہ ماموں صاحب نے خرچ کیا۔ (اب یہ بھی اُس بچے کو احساس دلانے کے لئے کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ملنے جانا ہے تو کچھ نہ کچھ تمہیں قربانی کرنی چاہئے اور اُس کی عادت اس طرح ڈالی۔ یہ معمولی سی رقم ہو گی، اصل رقم تو اُن کے ماموں نے ہی خرچ کی ہوگی) کہتے ہیں بہرحال 1907ء میں قادیان میں محمد عبداللہ صاحب کی ہمشیرہ صاحبہ بنام فاطمہ جو میری بھی دودھ کی ہمشیرہ تھیں، اُس کو چھوڑنے کے لئے قادیان آیا۔ یہاں آکرحقیقی مسلمان ہوا اور جماعت میں داخل ہوا۔ اللہ کریم کا شکر ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 167-168)
عبدالستار صاحبؓ ولد عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنے والد صاحب سے سوا ل کیا کہ مسیح ناصری کی وفات کا مسئلہ ہمیں نہیں آتا، زندہ کا آتا ہے۔ (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کا مسئلہ تو ہمیں پتہ نہیں۔ یہ احمدی نہیں ہوئے تھے، والد احمدی ہو گئے تھے۔ مسیح زندہ ہے یہ مسئلہ تو ہمیں پتہ ہے، اُس کی وفات ہمیں سمجھ نہیں آتی کس طرح ہو گئی) یہ ہمیں سمجھا دیں تو میرے والد صاحب نے اپنا ایک خواب بیعت سے آٹھ دس ماہ کے بعد یہ سنایا کہ میں نے دریائے راوی کے کنارے پر دیکھا کہ دو خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ایک مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہے اور دوسرا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ میں رسول کریم کے خیمے میں داخل ہوا اور یہ سوال کیا کہ مسیح موعود کا دعویٰ کرنے والے بزرگ کیسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص بہت لائق ہے۔ بہت لائق ہے۔ بہت لائق ہے۔ تین دفعہ انگلی کے اشارہ سے فرمایا۔ مکمل شہادت کو دیکھ کر یقینِ کامل ہوگیا کہ آپ یعنی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دعویٰ میں راستباز ہیں، سچے ہیں۔ ہمیں حیات و ممات کے مسئلے کی ضرورت نہیں ہے۔ (باپ نے تو کہا کہ مجھے ایک خواب آ گئی۔ بڑی واضح خواب تھی اس لئے مجھے اس کا نہیں پتہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہیں یا زندہ ہیں، اس کی ضرورت نہیں۔ میرے لئے یہی نظارہ کافی ہے اور مَیں نے اس لئے بیعت کر لی۔ ) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 178)
حضرت چوہدری نظام الدین صاحبؓ ولد میاں نبی بخش صاحب فرماتے ہیں کہ تیسرا واقعہ طاعون کی پیشگوئی کے موقع پر موضع شکار ماچھیاں سے مولوی رولدو صاحب کی بیوی اور پانچ چھ اور عورتیں طاعون سے مرعوب ہو کر کمال سردی اور بارش کے موقع پر بیعت کی غرض کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ (جب طاعون ہو رہا تھا تو شکار ماچھیاں سے پانچ چھ عورتیں باوجود اس کے کہ سردی بہت تھی اور بارش ہو رہی تھی، طاعون کے خوف سے آئیں۔ انہوں نے کہا کہ بیعت کر کے ہی جان بچائی جا سکتی ہے۔ تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بارش میں بھیگتی ہوئیں حاضر ہوئیں) حضرت صاحب نے اُن کی حالت ِ تکلیف سفر اور سردی وغیرہ دیکھ کر نہایت شفقت اور مہربانی سے عذرات مناسب فرمائے اور بھیگے کپڑے اتروا کر نئے کپڑے پہنوا دئیے، یعنی اُن کے کپڑوں کا انتظام کر دیا اور سردی دور کرنے کے لئے آگ سلگوا دی۔ جب آسودہ حال ہوئیں تو عرض کی حضور خاکساروں کی بیعت قبول فرمائی جائے۔ حضور نے مہربانی اور عنایت سے عرض منظور فرما کر بیعت کے زمرہ میں داخل فرما لیا۔ مولوی صاحب مذکور کی بیوی نے پیغام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی ’’السلام علیکم‘‘ پیش کیا۔ (مولوی صاحب کی جو بیوی تھی اُن میں سے کچھ پڑھی لکھی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں بیعت کرنے کے بعد حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو ارشاد آتا ہے کہ میرے مسیح کو پیغام پہنچاؤ، وہ پیش کیا) تو حضور بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے کہ یہ پیغام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم آج تک کسی نے نہیں ادا کیا۔ لوگ آتے ہیں، بیعت کرتے ہیں، چلے جاتے ہیں۔ پھر بایعانِ مذکورہ نے عرض کی کہ حضور کاپس خوردہ بوجہ تبرک ہمیں ملنا چاہئے جو تبرک ملا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 232-233)
چوہدری حاجی ایاز خان صاحب جو ہنگری وغیرہ کے مبلغ بھی رہے ہیں۔ وہ اپنے والد صاحب حضرت چوہدری کرم دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے اُن کو جو بتایا، بیٹے نے اُس کی آگے روایت کی ہے۔ حضرت چوہدری کرم دین صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ جب حضرت صاحب کے جہلم آنے کے متعلق افواہ تھی اُس وقت تمہاری والدہ حسین بی بی کو خواب میں اللہ تعالیٰ سے معلوم ہوا کہ یہ شخص جو جہلم آنے والا ہے اور لوگ اُس کی مخالفت کرتے ہیں، وہ سچا ہے۔ چنانچہ صبح کو تمہاری والدہ نے مجھے کہا کہ یہ بڑی خوش قسمتی ہو گی اگر تم اس پاک مرد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کرو اور بیعت کرو۔ چنانچہ جس دن حضرت صاحب جہلم پہنچے، اُس دن کھاریاں اور دوسرے سٹیشنوں پر اس قدر ہجوم ایک دن پہلے سے جمع ہو رہا تھا کہ حضور کو دیکھنے کی کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ اس لئے مقدمے کی تاریخ کے دن، (یہ حاجی ایاز خان صاحب کے والد ان کو کہہ رہے تھے کہ مقدمے کی تاریخ کے دن) تمہاری والدہ نے سحری کے وقت مجھے تازہ روٹی پکا کر دی اور میں کھا کرپیدل جہلم چلا گیا اور کچہری کے احاطے میں مشکل سے پہنچا کیونکہ لوگ کئی کئی حیلے کر کے حضرت صاحب کی شکل مبارک دیکھنے کے لئے ترس رہے تھے۔ ڈپٹی صاحب کی کوٹھی کے پرے بہت خوبصورت داڑھیوں والے مولوی لوگ وعظ کرتے تھے اور کہہ رہے تھے، (یعنی کچھ احمدی لوگ تھے پنجابی میں کہہ رہے تھے کہ) ’’او خلقنے خدا دی اے، اوہ سچا مہدی، اوہ سچا مسیح، اوہ بڑیاں اُڈیکاں والا مسیح، اوہ آگیا اے، من لو تے ویلا جے‘‘ یعنی اے مخلوق خدا! وہ سچا مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کی مدتوں سے انتظار تھی، وہ آ گیا ہے۔ اب وقت ہے اُس پر ایمان لے آؤ۔ ہمارے کھاریاں کے احمدی کچھ دن پہلے جہلم چلے گئے ہوئے تھے کیونکہ وہاں لنگر اور پہرے کا انتظام کرنا تھا۔ حضرت صاحب جب ڈپٹی کی کچہری میں داخل ہوئے تو ایک دو منٹ بعد ہی کمرے سے باہر آ گئے اور دھوم مچ گئی کہ آپ بَری ہو گئے ہیں اور بگھی میں بیٹھ کر سٹیشن کی طرف چلے گئے۔ مَیں حیران تھا کہ حضور تک کس طرح رسائی ہو اور بیعت کس طرح کروں۔ چنانچہ معلوم نہیں حضور شہر کی جانب سے ہو کر سٹیشن گئے یا دوسرے راستے کی سڑک سے، لیکن میں دوڑ کر سیدھا سٹیشن پہنچا۔ حضور گاڑی میں بیٹھ گئے اور پولیس نے سب آدمیوں کو سٹیشن کے باہر کر دیا۔ جنگلے کے پار جدھر دیکھو، جہاں تک نظر جاتی تھی، آدم ہی آدم نظر آتا تھا۔ جب پولیس نے ہمیں پلیٹ فارم سے باہر نکالنا چاہا تو میری نظر ایک کانٹے والے یعنی ریلوے پوائنٹس مَین پر جا پڑی۔ ریلوے کا ملازم تھا، اُس کا نام عبداللہ تھا اور وہ موضع بوڑے جنگل میں رہنے والا تھا اور کبڈی اور کشتی لڑنے میں مشہور تھا۔ میرا واقف تھا۔ اُس کو مَیں نے کہا کہ کوئی صورت کرو کہ اب پولیس مجھے باہر نہ نکالے۔ میں نے قریب ہو کر مرزا صاحب کی زیارت کرنی ہے۔ چنانچہ عبداللہ کانٹے والے نے میرے ہاتھ میں ایک ریلوے جھنڈی دے دی۔ ایک اُس کے ہاتھ میں تھی اور ایک دوسری میرے ہاتھ میں اور ہم دونوں اس طرح ٹہلنے لگے جیسے کہ مَیں بھی ریلوے ملازم ہوں۔ اب صرف چند آدمی تھے اور باقی مخلوق جنگلے کے باہر۔ مَیں نے جھنڈی وہیں پھینکی اور جس ڈبے میں حضرت صاحب تھے اُس کی طرف بڑھا۔ حضرت صاحب نے جیب سے گھڑی نکالی اور فرمایا، ابھی تو دس منٹ باقی ہیں۔ آواز دو جس نے بیعت کرنی ہے کر لو۔ بیعت کا لفظ حضور کے منہ میں تھا کہ کھڑکی کے سامنے پائیدان پر موجود اور آگے بڑھا۔ ایک مولوی صاحب نے باہر نکل کر بیعت کے لئے لوگوں کو آواز دی اور ابھی آواز کے لئے باہر نکلے تھے کہ میں نے ذرا اور آگے سر جھکایا تو حضرت صاحب نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا۔ بیعت کرنی ہے؟ مَیں نے عرض کی۔ جی ہاں۔ جی صاحب میرے۔ چنانچہ حضور نے میرا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لے لیا اور کلمہ شہادت پڑھایا اور کئی باتیں جیسے شرک نہیں کروں گا اور سچ بولوں گا وغیرہ جو اب مجھ یادنہیں ……۔ مگر جب حضور نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور اُدھر سے ایک مولوی صاحب کی آواز بیعت کے لئے نکلی تو جو لوگ سٹیشن کے برآمدے میں تھے یا جنگلے کے باہر، وہ سب ٹوٹ پڑے اور جنگلہ پھلانگ کے ایک آن میں پلیٹ فارم پُر کر دیا۔ حضور نے فرمایا کہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھ لو۔ (یعنی ان کا ہاتھ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ میں تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ باقی جو بیعت کرنے والے ہیں اس کے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ لیں۔) مگر یہ تو پہلے چار پانچ آدمیوں نے ہی میری کہنی اور بازو پر ہاتھ رکھے تھے اور اب تو ہجوم تھا۔ حضور نے فرمایا کہ اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ لو اور جو اس کے پیچھے ہیں وہ اس طرح ایک دوسرے کے کندھوں اور بازوؤں پر۔ پس میرا ہاتھ حضرت صاحب کے ہاتھ میں تھا اور باقی نامعلوم کہاں تک پیچھے کو کندھوں پر ہاتھ رکھنے کا سلسلہ تھا۔ حضرت صاحب نے میرا ہاتھ خوب مضبوط پکڑا ہوا تھا اور آنکھیں قریباً بند تھیں۔ حضور کی پگڑی برف کی طرح سفید تھی اور پگڑی کے نیچے کلاہ نہیں تھا بلکہ رومی ٹوپی کی طرح کچھ تھا اور پُھندنابھی سیاہ رنگ کا پگڑی سے اوپر کو نکل کر لٹک رہا تھا جو بہت ہی خوبصورت معلوم ہوتا تھا۔ جب بیعت لے چکے تو حضور نے گھڑی نکال کر دیکھتے ہوئے فرمایا کہ ایک منٹ باقی ہے۔ دوستوں کو گاڑی سے علیحدہ کرنا چاہئے۔ کوئی حادثہ نہ ہو۔ (یہ حضرت اقدس کے اصل الفاظ نہیں مگر مفہوم یہی تھا۔) چنانچہ لوگ تھوڑے سے گاڑی سے ہٹ گئے لیکن میں نے دروازے کا ڈنڈا پکڑے رکھا اور گاڑی نہایت آہستہ سے حرکت میں آئی اور مَیں نے حسرت بھری نگاہوں سے حضور کو دیکھا تو حضور نے ذرا آگے جھک کر میری پشت پر تھپکی دی اور فرمایا: اچھاخدا نگہبان۔ چنانچہ حضور کے اتنا فرمانے پر میں پائیدان سے نیچے اتر آیا۔ اور بس کیا سناؤں۔ عجب ہی رنگ اور عجب ہی سماں تھا۔ اس قدر مخلوق قیامت کو ہی نظر آئے تو آئے ورنہ کیا درخت اور کیا زمین، مخلوق سے لدے ہوئے تھے۔ فقط بیعت کے وقت والد صاحب کی عمر 52سال تھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 2 صفحہ 80-83)
حضرت مولا داد صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ 1880ء سے پہلے کا واقعہ ہے جب میری عمر دس گیارہ سال کی ہو گی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا گروہ آدمیوں کا کمر بستہ ہے اور ایک شخص اُن کے آگے آگے ہے وہ بھی کمر بستہ جا رہا ہے۔ سر سے اور گلے سے سب برہنہ معلوم ہوتے ہیں۔ کمروں میں پٹکے بندھے ہوئے ہیں۔ سب سے اگلا جو ہے وہ پیشرو معلوم ہوتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ ’’ہفت زمین ہفت آسمان از خویش پیدا می کنم‘‘ اور پیچھے والے سب یک زبان ہوتے ہیں ’’از خویش پیدا می کنم، از خویش پیدا می کنم‘‘ اسی طرح کہتے جاتے ہیں اور جھومتے جاتے ہیں۔ ایک پختہ چار دیواری میں جا داخل ہوتے ہیں۔ یعنی سات زمین اور سات آسمان مَیں ہی پیدا کرنے والا ہوں، مَیں نے خود ہی پیدا کیا ہے یا پیدا کروں گا۔ بہر حال یہ بھی نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ بہرحال ان کو خواب میں یہ دکھایا گیا۔
پھر اگلی روایت کرتے ہیں کہ 1906ء کو میرے بڑے بھائی عبدالحکیم تپ سے بیمار تھے۔ (بخار سے بیمار ہو گئے۔) اُن کا علاج ایک طبیب مولوی جو سلسلے کا سخت مخالف تھا، کر رہا تھا اور اُس کا بڑا بھائی شمس الدین احمدی تھا۔ وہ گاؤں موضع دودہ علاقہ سکر شکر میں ہے۔ اس طبیب مولوی نے حضرت اقدس کی شان میں ناملائم الفاظ استعمال کئے۔ (یعنی اچھے الفاظ استعمال نہ کئے) مَیں تو موجودنہ تھا۔ لیکن بھائی جو بیمار تھا انہوں نے اپنے حکیم کو روکا۔ کہتے ہیں جب مَیں باہر سے آیا تو وہ مولوی چلا گیا تھا۔ بھائی صاحب نے نہایت سنجیدہ لہجے میں کہا کہ مَیں اس طبیب سے علاج نہیں کراتا۔ اس نے حضرت صاحب کی شان میں گستاخی کی ہے۔ غرض وہ مولوی راستہ میں ہی طاعون کا شکار ہو گیا۔ پھر میں بھائی صاحب کو اپنے ساتھ بہاولنگر لے گیاوہاں دو اسسٹنٹ سرجن علاج کرتے رہے مگر آخر انہوں نے جواب دے دیا کہ اب یہ بچ نہیں سکتے۔ علاج ترک کر دو اور پیسہ خراب نہ کرو۔ (شدت سے طاعون پھیلا ہوا تھا، وہ مولوی جو بدزبانی کر رہا تھا، وہ تو رستے میں طاعون کا شکار ہو کے ختم ہو گیا لیکن بھائی جو ان کا علاج کروا رہے تھے، اُن کی بیماری جو ہے وہ بڑھتی چلی گئی۔ بہاولپور جب لے کر گئے ہیں وہاں بھی ڈاکٹروں نے جواب دے دیا)۔ کہتے ہیں تب مَیں نے ایک سال کے بعد حضرت اقدس کے حضور خط لکھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواباً تحریر فرمایا کہ ’’فکر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے۔ ہم دعا کریں گے۔ تم بھی دعا کرو انشاء اللہ صحت ہو جائے گی‘‘۔ اس خط کے دوسرے دن مَیں نے دیکھا کہ بھائی کا بخار جاتا رہا۔ مَیں نے کہا اب آپ کو بخار نہیں ہے۔ مَیں نے اُٹھا کر بٹھایا اور خود سہارا لے کر بیٹھ گیا تو بھائی صاحب نے کہا کہ میرا سینہ جو جلتا تھا اب سرد ہے۔ مَیں نے کہا کہ مَیں نے حضرت اقدس کے حضور لکھا تھا۔ حضور نے جواباً تحریر فرمایا ہے کہ ہم دعا کریں گے۔ خدا تعالیٰ شفا دے گا۔ تب سن کر پنجابی میں کہنے لگا کہ ’’اوہو ہن مَیں نئیں مردا۔ مسیح نے مردہ زندہ کیتا اے‘‘۔ اس کے بعد وہ احمدی ہو گئے۔ یعنی بیعت کر لی اور پھر پوری صحت ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 2 صفحہ 84-85) اس سے پہلے احمدی نہیں تھے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف بات سننا پسندنہیں کرتے تھے۔
حضرت صوفی نبی بخش صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت حضور مسجد میں تشریف لائے اور میری نظر حضور کے چہرہ مبارک پر پڑی تو میں نے حضور کو پہچان لیا اور فوراً بجلی کی طرح میرے دل میں ایک لہر پیدا ہوئی کہ یہ وہ مبارک وجود ہے جس کو میں نے ایام طالب علمی یعنی ستمبر 1882ء کو خواب میں دیکھا تھا۔ حضرت صاحب نے اُس دن وہ لباس پہنا ہوا تھا جس لباس میں وہ مجھے خواب میں ملے تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 5 صفحہ 42)
حضرت مولوی امام الدین صاحب فیضؓ ولد مولانا بدرالدین صاحب فرماتے ہیں کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہونے کی پوری ہدایت رؤیائے صادقہ سے ہوئی جو استخارہ مسنونہ کئی بار کرنے کے بعدمجھے آئی۔ جب میں پہلی دفعہ بٹالہ والے پیرصاحب کی اجازت لے کر صرف قادیان دیکھنے کے واسطے آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کے وقت پوچھا کہ وحی تو خاصہ انبیاء کا ہے۔ آپ یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں۔ فرمایا کہ وحی تو شہد کی مکھی کو بھی ہوتا ہے اور سید عبدالقادر اور حضرت مجدد الف ثانی، شیخ احمد سرہندی نے بھی فرمایا ہے کہ وحی و الہام مکاشفات الٰہیہ اولیاء اللہ کو بھی ہوتا ہے۔ مَیں نے عرض کی کہ مَیں بحث کرنے نہیں آیا۔ مجھے تو صوفیائے کرام کی طرح سچی خواب یا الہام یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے آپ کی صداقت کا یقین آئے گا۔ (یعنی بحث تو مَیں نے نہیں کرنی۔ کوئی سچی خواب آئے یا الہام ہو یاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو تو مجھے یقین آئے گا۔ اس لئے آیا ہوں۔ یہ آپ مجھے کر کے دکھائیں )۔ آپ نے فرمایا کہ آپ استخارہ کریں۔ مَیں نے کہا کونسا استخارہ؟ فرمایا جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری صداقت اللہ تعالیٰ سے پوچھو۔ عرض کی کہ کس طرح؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ استخارہ کر کے۔ یہ دو باتیں تھیں جن سے مجھے یقین ہوا کہ یہ شخص مکّار نہیں ہے۔ خیر چار ماہ بعد استخارہ مسنونہ (چار ماہ یہ استخارہ کیا اور اس مسنونہ استخارہ کے بعد کہتے ہیں میں نے) یہ رؤیا دیکھا کہ میں ایک مسجد میں آیا ہوں جو مسجد مبارک کی طرح ہے۔ حضرت صاحب صبح کی نماز پڑھ کر دالان میں نہایت مبارک نورانی صورت سے آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے عرض کی کہ میں آپ کے دعویٰ کی صداقت کا طالب ہوں۔ (یعنی پوچھنا چاہتا ہوں کہ کس طرح آپ کا دعویٰ سچا ہے؟) کہتے ہیں کہ آپ کی طرف سے یہ بڑی اونچی آواز آئی۔ ’’جس آونا سی او تے آ گیا‘‘پنجابی میں۔ کہتے ہیں یہ آوازمیرے دل کے اندر داخل ہو گئی اور یقین کامل ہوگیا کہ جس نے آنا تھا، یعنی مسیح موعود، مہدی موعود یہی حضرت مرزا صاحب ہی ہیں۔ اثناء استخارہ (یعنی استخارہ کے دوران) مَیں نے بہت دعائیں عجز و نیاز سے کیں۔ ایسے بھی اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ یا اللہ! اگر مجھے صاف پتہ نہ لگا تو قیامت کے دن اگر مجھ سے باز پرس ہوئی تو یہی کہوں گا کہ مَیں نے دنیا میں نہایت عجز سے دعا کی تھی کہ عیسیٰ مہدی یہی ہے تو یا اللہ! مجھے بتا دیا جائے۔ آپ نے کیوں نہ بتایا؟ پھر میں نے خط و کتابت حضرت صاحب سے شروع کر دی۔ جواب میں اکثر نماز بحضور دل پڑھنے کی تاکید فرماتے۔ (یعنی بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھا کرو۔ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہی تاکید فرماتے تھے۔) اور کوئی اعتراض جو مخالفین کرتے تھے اُس کا جواب مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قلم سے ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ مَیں نے عرض کی کہ مَیں نے بیعت تو پہلے حضرت خواجہ شمس الدین سیال شریف مرحوم والے کی چشتیہ طریق پر کی ہوئی ہے۔ اور پھر میرے پیر صحبت اُن کے مرید مجاز خلیفہ سید حیدر شاہ صاحب مرحوم اور طریقہ قادریہ میں پیر ظہور حسین صاحب مرحوم بٹالہ ہیں۔ کیا اب بیعت کی کوئی ضرورت ہے؟ آپ نے فرمایا وہ اَور بیعت ہے۔ ضروری یہی بیعت ہے جو اَب کرو گے۔ اس پر مَیں نے بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر کی‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ جلد 6 صفحہ 25-27)
یہ تھیں چند روایات جومَیں نے بیان کیں۔ اس وقت مَیں چند مرحومین کا بھی ذکر کروں گا۔ جن میں سے ایک مکرم محترم فضل الرحمن خان صاحب ہیں جو امیر ضلع راولپنڈی تھے۔ ان کی 29؍اکتوبر 2012ء کو مختصر علالت کے بعد تراسی(83) سال کی عمر میں وفات ہو گئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ ان دنوں میں یہیں تھے۔ جلسے پر آئے تھے۔ اُس کے بعد پھر ان کو میں نے کہا کچھ دیر رُک جائیں۔ بیماری تو ان کی کافی لمبا عرصہ سے چل رہی تھی لیکن ماشاء اللہ ذہن بالکل اَلرٹ (Alert) تھا اور بڑی ہمت سے انہوں نے امارت کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں۔ یہ مکرم مولوی عبدالغفور صاحب کے بیٹے تھے جنہوں نے خلافتِ ثانیہ میں بیعت کی تھی۔ لیکن مکرم فضل الرحمن صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ ابتدائی تعلیم انہوں نے پارہ چنار سے حاصل کی۔ مڈل اور میٹرک کے امتحانات بھی اعزاز کے ساتھ پاس کئے۔ پھر 1948ء میں اسلامیہ کالج پشاور میں داخلہ لیا۔ 50-51ء میں ایف ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد پنجاب کالج آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور میں داخلہ لیا اور 1953-54ء میں بی ایس سی مکینیکل انجنیئرنگ اور سول انجنیئرنگ کے امتحان پاس کئے۔ مختلف سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے۔ انجنیئرنگ کالج میں تحصیل علم کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو احمدیہ انٹر کالجیئٹ ایسوسی ایشن کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا تھا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ غیر احمدی سٹوڈنٹس کے ساتھ انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ایک میٹنگ ارینج (Arrange)کی اور جب آ کے اطلاع کی تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے فرمایا کہ مَیں تو بڑا مصروف ہوں لیکن انہوں نے بتایا کہ ہم تو اطلاع کر چکے ہیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ٹھیک ہے مَیں لاہور آؤں گا اور ان کو کہا کہ انتظام کرو اور انہوں نے انتظام کیا۔ امیر جماعت لاہور کو بعد میں پتہ لگا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ بہر حال یہ اُس زمانے سے جماعت کے کاموں میں انوالو (Involve) تھے۔ ملازمت کے سلسلے میں حیدرآباد رہے۔ وہاں کے قیام کے دوران اور خلیفۃ المسیح الثالث کے دور میں خدام الاحمدیہ میں انہوں نے قائد علاقہ خدام الاحمدیہ، پھر قاضی ضلع حیدرآباد کے طور پر بھی خدمت کی۔ اس کے علاوہ صدر حلقہ بھی رہے۔ سیکرٹری اصلاح و ارشاد، نائب امیر ضلع اور 1998ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ان کو بطور امیر شہر اور ضلع راولپنڈی مقرر فرمایا۔ خلافت اور نظام جماعت سے والہانہ عشق تھا۔ ہر محفل میں آپ کی گفتگو کا محور جماعتی واقعات، صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی کے واقعات اور خلفائے احمدیت ہوتے تھے۔ ہمیشہ خلافت کی اطاعت اور خلیفہ وقت سے مضبوط تعلق کی تاکید اپنی اولاد کو کرتے رہے۔ انتہائی دعا گو انسان تھے۔ بچے کہتے ہیں کہ روزانہ صبح گھر سے نکلنے سے پہلے سب کو بٹھا کر دعا کروایا کرتے تھے اور انہوں نے شروع سے ہی یہ طریق رکھا ہوا تھا۔ پچھلے چند دنوں میں جب یہ ہسپتال میں رہے ہیں تو وہاں بھی غنودگی کی حالت سے جب باہر آتے تھے تو پھر بچوں کو یہی کہتے تھے کہ اب ہاتھ اُٹھا کے دعا کر لو۔ ان کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور چار بیٹے ہیں۔ بیٹے سارے ملک سے باہر ہی ہیں اور بیٹیاں بھی باہر ہیں۔ ان کی بڑی ہمشیرہ وفات پا گئی تھیں تو ان کے بچے چھوٹے تھے۔ ان کی پرورش انہوں نے کی۔ بلکہ ان کی بچیوں میں سے ایک بچی کو دو دفعہ بڑا صدمہ ہوا تو اس کا بڑا خیال رکھا۔ ان کی جو بھانجی تھی اس کی شادی انہوں نے نوابشاہ یا سانگھڑ میں کی۔ وہاں ان کی بھانجی کے جو خاوند تھے اُن کو شہید کر دیا گیا۔ پھر دوسری شادی اُن کے بھائی پیر حبیب صاحب کے ساتھ کی تو اُن کو بھی کچھ عرصے کے بعد شہید کر دیا گیا۔ اس طرح ان کی بھانجی کو دو دفعہ بیوگی کو دیکھنا پڑا اور دونوں دفعہ شہداء کی بیوہ بنی ہیں۔ ان کے متعلق قائمقام امیر راولپنڈی مبارک احمد صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت کا ہر رکن خواہ وہ چھوٹا ہے یا بڑا، مرد ہے یا عورت، آپ کی شفقت بے پایاں سے ذاتی طور پر فیضیاب تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ انہی خداداد صلاحیتوں کا نتیجہ تھا کہ آپ کے دورِ امارت میں جو نومبر 1998ء سے شروع ہوا، جماعت راولپنڈی نے اموال و نفوس کے لحاظ سے ہر شعبے میں نمایاں ترقی کی اور راولپنڈی کا شمار ملک کی جو اچھی جماعتیں ہیں، اُن میں ہونے لگا۔ مجموعی طور پر آپ کی جماعتی خدمات کا عرصہ نصف صدی یا پچاس سال کے عرصے میں پھیلا ہوا ہے جو خلافت ثانیہ سے شروع ہوتا ہے۔ متعدد مرکزی کمیٹیوں کے ممبر رہے۔ آپ کے دورِ امارت میں تاریخ احمدیت راولپنڈی کی تدوین اور اشاعت کا کام ہوا۔ اس کے لئے آپ کو بڑھاپے اور مختلف عوارض کے باوجود کئی کئی روز مسلسل گھنٹوں بیٹھنا پڑا اور اس تاریخی دستاویز کو ایک ایک کر کے لفظ بہ لفظ پڑھا، سنا اور پھر اس کے منظوری دی۔ اسی طرح صد سالہ خلافت جوبلی کے موقع پر جماعت احمدیہ راولپنڈی کو ایک دیدہ زیب اور منفرد خلافت جوبلی سووینئر شائع کرنے کی توفیق ملی۔ اس کا تمام تر سہرابھی آپ کے سر ہے کیونکہ آپ نے اس اہم کام میں ذاتی دلچسپی لی اور مضمون نگار حضرات کو اور خواتین کو ذاتی طور پر فون کر کے مضامین لکھوائے۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا 1998ء میں خلیفۃ المسیح الرابع نے آپ کو جماعت راولپنڈی کا امیر مقرر فرمایا تھا۔ اس سے قبل آپ کو تقریباً ساڑھے چار سال تک نائب امیر کے طور پر بھی خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔ امارت کی یہ تبدیلی بھی بوجوہ ہوئی تھی تو اُس وقت مَیں ناظر اعلیٰ ہوتا تھا اور اُس زمانے میں یہ میرے علم میں تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے ساتھ انہوں نے قائد خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے کام کیا ہے جبکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ صدر خدام الاحمدیہ ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے لکھا کہ امیر ضلع کے لئے، امیر پنڈی شہر کے لئے کوئی نام تجویز کرو۔ زیادہ نام تو اس وقت میرے سامنے نہیں تھے تو مَیں نے انہی کا ایک نام بھیجا تھا جس کو فوری طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے منظور فرمایا اور فرمایا کہ ہاں ان کو میں جانتا ہوں، یہ انتظامی لحاظ سے بھی بڑے اچھے کام کرنے والے ہیں اور ویسے بھی اخلاص و وفا کے لحاظ سے بڑے اچھے ہیں، انشاء اللہ تعالیٰ کام سنبھالیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے پھر خوب کام سنبھالا۔ زندگی کے آخری دن تک مفوضہ ذمہ داریوں کو انتہائی احسن رنگ میں نبھایا ہے اور خلافت کے فدائی اور جان نثار وجود تھے اور اشاروں پر چلنا جانتے تھے۔ اس کو ایک سعادت سمجھتے تھے اور صرف جماعتی کاموں میں نہیں بلکہ میں نے ذاتی معاملات میں بھی دیکھا ہے۔ جلسے پر جب یہاں آئے ہیں تو مَیں نے ان کو کہا کہ کچھ عرصہ یہاں رہ جائیں لیکن ان کی اہلیہ کے چہرے کے تأثرات سے مجھے لگا کہ یہ یہاں رہنا نہیں چاہتیں لیکن انہوں نے بڑی بشاشت سے کہا کہ جب تک آپ کہیں انشاء اللہ ہم رہیں گے اور شاید یہیں ان کی وفات ہونی تھی اور جنازہ پڑھانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ انتظام کیا۔ ابھی ان کا جنازہ بھی انشاء اللہ میں پڑھاؤں گا۔
ڈاکٹر نوری صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ان کا میرے ساتھ تعلق مختلف حیثیتوں سے تھا۔ قریبی دوست بھی تھے اور ڈاکٹر کی حیثیت سے ان کے ڈاکٹر بھی تھے۔ اور ڈاکٹر صاحب نے ان کے نائب امیر کے طور پر بھی ان کے ساتھ کام کیا۔ کہتے ہیں ہر لحاظ سے میں نے ان کو دیکھا ہے۔ یہ فضل الرحمن صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ خدا تعالیٰ سے بہت ڈرنے والے، ہر قسم کے حالات میں ہمیشہ اُسی پر توکل رکھنے والے، خلافت سے آپ کا کامل وفا، پیار اور اطاعت کا تعلق تھا۔ جب بھی خلیفہ وقت کا ذکر ہوتا تو آپ کی آواز بھرّا جاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ ان کا اوڑھنا بچھونا صرف اور صرف جماعت کی خدمت تھا۔ ان کو بہت سی بیماریاں لاحق تھیں اور ویل چیئر استعمال کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دینی خدمات کے لئے بہت محنت کیا کرتے تھے۔ آخری دو تین سال تو ویل چیئر پر تھے۔ کبھی شکوہ نہ کرتے تھے اور کبھی ماتھے پر بل نہ لاتے تھے۔ غریبوں، ضرورتمندوں، یتیموں، بیواؤں اور مستحق طلباء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ عزیز رشتہ داروں، مختلف پریشان حال اور مالی بحران سے متاثرہ خاندانوں کی مدد اور رہنمائی کیا کرتے تھے۔
قائد خدام الاحمدیہ ضلع راولپنڈی لکھتے ہیں کہ محترم امیر صاحب ایک منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ آپ انتہائی ملنسار، غریب پرور، ہمیشہ راضی بقضاء رہنے والے، خلافت سے دلی محبت رکھنے والے، صابر و شاکر بزرگ انسان تھے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حقیقی تصویر تھے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار کو محترم امیر صاحب کے بہت قریب رہنے کا موقع ملا۔ ان کی شفقت اور محبت ایک باپ سے بڑھ کر تھی۔ (اور یہ رویہ ہے جو ہر جگہ ہر امیر اور ہر صدر کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ساتھ اور باقی نظاموں کے ساتھ بھی ہونا چاہئے۔ اور ہر قائد کا نوجوانوں کے ساتھ بھی، قائدین اور صدران کو یہی رویہ رکھنا چاہئے)۔ یہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کو بھی جس حد تک ہو سکا ایک بیٹے کی طرح اُن کے زیر سایہ جماعت کی خدمت کرنے کی توفیق ملی۔ اور یہ سب جو ان کی خوبیاں بیان ہو رہی ہیں، ان میں مَیں نے دیکھا ہے کہیں بھی کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ شاید کوئی کمی رہ گئی ہو۔ قائد صاحب لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے امیر صاحب کو قیادت اور امارت کی قائدانہ صلاحیتوں سے بھی خوب نوازا تھا۔ آپ کو ہر عہدیدار اور کارکن سے اُس کی اہلیت اور قابلیت اور طاقت کے مطابق کام لینے کا سلیقہ اور ڈھنگ آتا ہے اور ہر عہدے دار بلکہ جماعت کا ہر فرد آپ کے ہر حکم اور ارشاد کی تعمیل بجا لا کر خوشی محسوس کرتا اور اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا تھا۔ خدام الاحمدیہ سے ان کی شفقت بھی ایک باپ سے بڑھ کر تھی۔ خاکسار کو یہ کہنے میں کوئی وہم نہیں کہ خدام الاحمدیہ راولپنڈی نے جو پچھلے دس سالوں میں غیر معمولی ترقی اور مضبوطی حاصل کی ہے اس میں محترم امیر صاحب کا سب سے بڑا حصہ ہے۔
پھر لکھتے ہیں کہ احباب جماعت سے محبت اور ان کی تکلیف کا بہت زیادہ خیال فرماتے تھے۔ 28؍ مئی کے بعد امیر صاحب نے خدام الاحمدیہ راولپنڈی کے ذمہ کافی کام لگائے جن میں کنسٹرکشن اور سکیورٹی کے کام بھی شامل تھے۔ ان امور میں بہت زیادہ اخراجات بھی ہوئے لیکن کبھی امیر صاحب نے اس بات کی پرواہ نہ کی۔ ایک موقع پر راولپنڈی کے ایک احمدی عہدیدار نے ان خدشات کا اظہار کیا کہ امیر صاحب روپیہ بہت خرچ ہو رہا ہے جس پر امیر صاحب نے کہا کہ ایک احمدی کی جان کے مقابل پر لاکھوں روپیہ بھی کوئی معنے نہیں رکھتا۔ اگر کسی احمدی کی جان چلی جائے تو ہم خلیفۂ وقت کو کیا جواب دیں گے کہ چند لاکھ روپے کی خاطر ہم نے یہ انتظام نہیں کیا تھا۔ راولپنڈی شہر کے حالات کی خرابی کے بعد جب حلقہ جات میں نماز جمعہ کی ادائیگی شروع ہو گئی(وہاں مسجد میں جمعہ کی ادائیگی کی اجازت نہیں ہے تو مختلف حلقوں میں جمعہ پڑھا جاتا ہے۔ پنڈی شہر میں بھی کافی ٹینشن ہے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے۔ اُن کے لئے بھی دعا کریں کہ وہاں بھی حالات ٹھیک ہوں۔ ) پھر کہتے ہیں اس بات کا ان کو بہت شدت کے ساتھ احساس تھا کہ جماعت کے ساتھ رابطہ نہیں ہو رہا۔ جماعت ایک جگہ جمع ہو جاتی ہے تو امیر جماعت کو بہرحال ہدایات دینے اور اُن کی رہنمائی کرنے، اور اُن کی باتیں سننے سمجھنے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن وہاں تو دفتر تک میں بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی، ہر چیز سیل (Seale)کر دی گئی تھی۔ کہتے ہیں خاکسار کو ہدایت تھی کہ کسی نہ کسی حلقے میں بندوبست کروائیں اور اُنہیں جمعہ کے لئے لے کر جائیں۔ امیر صاحب نے قائد صاحب کو کہا ہوا تھا کہ کیونکہ اب ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، اس لئے فضل الرحمن صاحب بطور امیر مختلف جگہوں پر جایا کریں گے تاکہ لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم رہے۔ کہتے ہیں لیکن مَیں کوشش کرتا تھا کہ ایسی جگہ نہ لے کر جاؤں جہاں سیڑھیاں چڑھنی پڑھیں کیونکہ اُن کو گھٹنوں کی تکلیف تھی۔ ایک بار انہوں نے خود ہی کہا کہ بیت الحمد مری روڈ کا پروگرام بنائیں۔ اس پر قائد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی کہ امیرصاحب وہاں تو بہت سیڑھیاں ہیں اور آپ کو بہت تکلیف ہو گی۔ لیکن امیر صاحب نے کہا کہ نہیں، کچھ نہیں ہوتا، دوستوں سے ملے بہت وقت ہو گیا ہے۔ پھر مرکزی عہدیداروں کا بھی بڑا احترام تھا۔ یہ بھی امراء کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ مرکزی عہدیداروں کو عزت و احترام دیں۔ گو اُن کا مطالبہ کوئی نہیں اور نہ کسی مرکزی عہدیدار کے دل میں خیال آنا چاہئے کہ مجھے عزت و احترام ملے۔ لیکن جماعتوں کا، افراد کا، جماعتی عہدیداروں کا، امراء وغیرہ کا کام ہے کہ اس بات کا خیال رکھا کریں۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ صدر صاحب خدام الاحمدیہ پنڈی آئے ہوئے تھے تو انہوں نے کہا کہ مَیں نے ملاقات کرنی ہے۔ صدر صاحب نے کہا کہ مَیں آ جاؤں گا مجھے وقت بتا دیں۔ تو انہوں نے کہا نہیں، آپ نہیں آئیں گے۔ آپ وہیں رہیں جہاں ٹھہرے ہوئے ہیں، مَیں آپ کو ملنے کے لئے خود آؤں گا۔
پھر جب یہاں آئے ہیں تو پنڈی جماعت کی بڑی فکر تھی۔ مستقل رابطہ قائد صاحب سے رکھا ہوا تھا اور اُن کی رہنمائی کرتے رہتے تھے۔ تحریک جدید کے بارے میں کہتے ہیں کہ مجھ سے پوچھا۔ سال ختم ہو رہا ہے کیسی پوزیشن ہے؟ اُن کی تو وفات ہو گئی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تحریک جدید کی پوزیشن اچھی ہے۔ اُس کا اعلان تو مَیں انشاء اللہ اگلے جمعہ کروں گا۔ پنڈی جماعت نے اس میں کافی ترقی کی ہے۔ ماشاء اللہ۔
دوسری وفات کی جو اطلاع دینی ہے وہ مکرم محسن محمود صاحب کی ہے۔ افریقن امریکن احمدی ہیں۔ چوراسی سال کی عمر میں 19؍ اکتوبر کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ انہوں نے 1958ء میں بیعت کر کے اسلام احمدیت میں شمولیت اختیار کی تھی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بڑے تحمل سے اور استقامت سے ان کو برداشت کیا۔ آپ سیکرٹری تبلیغ بھی تھے۔ بعد ازاں پندرہ سال سے زائد عرصہ صدر جماعت نیو یارک کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔ تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ جب کبھی تبلیغی سٹال لگایا جاتا یا لٹریچر کی تقسیم کا پروگرام ہوتا تو اس میں بڑے شوق سے شامل ہوتے بلکہ سارا دن ساتھ رہتے۔ صوم و صلوۃ کے پابند، تہجد گزار، انتہائی عاجز، منکسر المزاج، بہت محبت کرنے والے، شفیق، خاموش طبع، ہنس مکھ، نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک، بردبار، غریب پرور، نیک، متقی اور مخلص انسان تھے۔ خلافت کے فدائی اور خلیفۂ وقت کے ہر اشارہ پر فوراً عمل پیرا ہونے والے، نظام جماعت کے اطاعت گزار تھے۔ مبلغین سلسلہ سے بہت عزت اور محبت سے پیش آتے۔ ہر جماعتی میٹنگ میں حاضر ہوتے اور ساری کارروائی خاموشی سے سنتے۔ جب مشورہ مانگا جاتا تو ہمیشہ مفید اور صائب مشورہ دیتے۔ بیت الظفر نیو یارک میں ہر سال پھول پودے لگاتے اور پھر سارا سال اُن کی دیکھ بھال کرتے۔ مسجد کی صفائی اور آرائش وغیرہ کے کاموں کو سعادت سمجھ کر سرانجام دیتے۔ مالی قربانی میں پیش پیش رہتے۔ اپنی حیثیت سے بڑھ کر مالی قربانی کیا کرتے تھے۔ 2005ء میں جب میں نے وصیت کی تحریک کی ہے تو انہیں بھی جب جماعت کی طرف سے وہاں مقامی طور پر شمولیت کے لئے کہا گیا تو پوچھنے لگے کہ کیا آبلیگیشن (Obligation) ہیں۔ ان کو بتایا گیا کہ قربانی کی شرح دس فیصد ہے، تو کہنے لگے کہ مَیں تو پہلے ہی اپنی آمد کا بیس بچیس فیصد چندہ ادا کرتا ہوں۔ لیکن بہرحال اس کو انہوں نے کافی نہیں سمجھاکیونکہ خلیفۂ وقت کی تحریک پر لبیک کہنی تھی تو فوراً وصیت کے نظام میں بھی شامل ہو گئے۔ اور کہتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ ریٹائرڈ تھے اور پینشن پر گزارہ تھا۔ مگر ان کا چندہ اپنی جماعت میں سب سے زیادہ ہوا کرتا تھا۔ بعض کمانے والوں سے بھی زیادہ ہوا کرتا تھا کیونکہ صحیح شرح پر چندہ دینے والے تھے۔
اللہ تعالیٰ ان دونوں مرحومین سے مغفرت کا سلوک فرمائے۔ اپنی رضا کی جنتوں میں جگہ دے۔ بلند مقامات عطا فرمائے۔ یہ جو افریقن امریکن احمدی محمود صاحب ہیں ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ چار لَے پالک بیٹے ہیں ان کی اپنی اولاد کوئی نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جماعت سے تعلق میں مضبوط کرے اور ہمیشہ ان نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے جن پر یہ کاربند رہے۔ اسی طرح فضل الرحمن صاحب کی اولاد کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی توفیق دے کہ اُن کی نیکیاں یہ لوگ ہمیشہ جاری رکھنے والے ہوں اور صحیح اخلاص و وفا کا تعلق ان کا ہمیشہ خلافت اور جماعت سے رہے۔
ان دونوں کی نماز جنازہ ابھی نماز جمعہ کے بعد مَیں انشاء اللہ پڑھاؤں گا۔ ایک جنازہ فضل الرحمن صاحب کا تو حاضر ہے، اُس کے لئے مَیں باہر جاؤں گا۔ باہر جا کے نماز پڑھاؤں گا۔ احباب یہیں مسجد میں تشریف رکھیں اور یہیں نماز جنازہ ادا کریں۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی قبول احمدیت کے واقعات پرمشتمل نہایت دلچسپ اور ایمان افروز روایات کا تذکرہ۔
مکرم فضل الرحمن خان صاحب امیر جماعت راولپنڈی اور افریقن امریکن احمدی مکرم محسن محمود صاحب آف نیویارک کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ۔
فرمودہ مورخہ 2؍نومبر 2012ء بمطابق 2؍ نبوت 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔