نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ تحریک جدید کا نیا سال

خطبہ جمعہ 9؍ نومبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا فَاسْتَبِقُواالْخَیْرَاتِ۔ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَاتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ اِنَّ اللہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ (سورۃ البقرہ آیت نمبر:149)

اس آیت کا ترجمہ ہے: اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے۔ پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا۔ یقینا اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

اس آیت میں خدا تعالیٰ نے ایک ایسا حکم ارشاد فرمایا ہے جو ہر فرد جماعت کی ہر قسم کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے، یعنی ہر ایسی ترقی جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ بناتی ہے اور مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے کو حقیقی مسلمان بناتی ہے۔ اور بحیثیت مجموعی جماعت کی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے۔ اور وہ حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ایک حقیقی مومن کا، ایک حقیقی مسلمان کا حقیقی مومنین کی جماعت کا مطمح نظر نیکیوں میں آگے بڑھنا ہونا چاہئے۔

دنیا میں جو کروڑوں اربوں انسان بستے ہیں اِلاَّ مَاشَاءَ اللّٰہ ہر ایک کا زندگی کا ایک مقصد ہوتا ہے جس کو حاصل کرنے کی وہ کوشش کرتا ہے۔ کوئی کسی ایک مقصد کے پیچھے پڑا ہوا ہے تو کوئی کسی دوسرے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حتیٰ کہ برائیاں کرنے والے جو ہیں اُن کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے جس کے حاصل کرنے کی وہ کوشش کرتے ہیں۔ چاہے وہ برے نتائج پیدا کرنے والے ہوں، چاہے وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے والی ہو۔ مثلاً ایک چور ہی ہے، وہ اپنے دن کا اکثر وقت اس منصوبہ بندی میں ہی صَرف کرتا ہے کہ میں نے رات کو کہاں کہاں اور کس طرح چوری کرنی ہے؟ یا ڈاکو ہیں تو وہ اپنے ڈاکے ڈالنے کے مقصد کے حصول کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ نیکی اور مذہب کے نام پر ظلم کو ہی اپنا مقصد اور مطمح نظر بنا لیتے ہیں اور اس کے لئے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ معصوم بچوں کو اس کے لئے تربیت دیتے ہیں۔ اس کے لئے روپیہ اور وقت خرچ کرتے ہیں۔ بچوں کے ذہنوں کو ایک لمبی تربیت سے سوچ سمجھ سے بالکل خالی کر کے پھر اُن سے خودکش حملے کرواتے ہیں۔ دہشت گردی کے حملے کروا کر معصوم جانوں کو ضائع کرتے ہیں اور بدقسمتی سے اس وقت یہ ظلم کرنے والی اکثریت وہ ہے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے اور یوں اسلام کی خوبصورت تعلیم کو بدنام کرنے والے ہیں، مسلمانوں کے نام کو بدنام کرنے والے ہیں۔ اور مذہب کے نام پر یہ سب فتنہ و فساد، ظلم و بربریت اور معصوم جانوں کے خون سے کھیلنے والے وہ لوگ ہیں جن لوگوں کے لئے، جس مذہب کے ماننے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ مطمح نظر رکھاتھا کہ فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات۔ یعنی ہر قسم کی نیکیوں میں آگے بڑھنا تمہارا مقصد ہو۔ کسی ایک نیکی کا حصول مقصودنہیں ہے بلکہ ہر قسم کی نیکی کرنا اور اُس میں بڑھنا تمہارا مقصد ہونا چاہئے۔ تمہارا یہ مقصد اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ہے۔ ہر قسم کی نیکی کرنا اور اُس کا حصول تمہارا مقصد ہے تبھی تم حقیقی مومن کہلا سکتے ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ وَلِکُلٍّ وِّجْھَۃٌ ھُوَ مُوَلِّیْھَا۔ اور ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہوتا ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے اس کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے۔ وِجْھَۃٌ کے معنی ہیں کوئی سمت یا کوئی جانب یا جہت۔ اس کے معنی راستے اور طریق کے بھی ہیں اور اس کے معنی کسی مقصد کو حاصل کرنا بھی ہیں۔ (لسان العرب زیر مادہ ’’وجہ‘‘)

پس ایک مومن کے لئے یہ شرط ہے کہ اس طرف منہ کرے، اُس جانب دیکھے جس طرف دیکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اور پھر اُس طرف دیکھنا ہی نہیں بلکہ جس طرف دیکھ رہا ہے، وہاں جو مختلف راستے ہیں، اُن میں سے وہ راستہ اختیار کرے جس کے اختیار کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور پھر اُس رستے کی طرف صرف منہ اُٹھا کر ہی نہیں چلتے چلے جانا بلکہ اُس راستے پر چلنے کی وجہ ایک مقصد کو پانا ہے اور وہ مقصد وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے یعنی فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات۔ نیکیوں کو نہ صرف بجا لانا بلکہ اُن کے معیار بھی بلند کرنا اور ان نیکیوں کو کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنا اور صرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش ہی نہیں کرنا بلکہ جو کمزور ہیں، پیچھے رہ جانے والے ہیں، اُن کو بھی ساتھ لے کر چلنا۔ یعنی جماعتی ترقی بھی ہر وقت ایک مومن کے مدّنظر ہوتی ہے۔ اس لئے حقیقی مومن وہی ہے کہ جب وہ ترقی کرتا ہے تو باقی افرادِ جماعت کی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے، اُن کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اُن کو بھی نیکیوں کی دوڑ میں اپنے ساتھ شامل کرتا ہے۔ اُن کے لئے بھی مواقع مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں تا کہ جماعت کی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے کی طرف گھومتا چلا جائے۔

جماعت احمدیہ یعنی وہ جماعت جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ساتھ جڑنے کی وجہ سے اُس خیر کو پھیلانے کے لئے قائم ہوئی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور اس خیر میں حقوق اللہ بھی ہیں اور حقوق العباد بھی ہیں، عبادات بھی ہیں اور مخلوق اور کُل عالَم انسانیت کی خدمت بھی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ انسانیت کی خدمت نیکیاں پھیلانے سے ہی ہو سکتی ہے۔ رحمت بکھیرنے سے ہی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے مثال دی تھی بعض لوگ برائیاں کرتے ہیں اور اُس کے لئے بچوں کو تربیت دیتے ہیں، معصوم بچوں کی جانیں لینے یا اُن سے خود کش حملے کروانے سے یہ خدمت نہیں ہو سکتی۔ بموں اور توپوں اور لڑائیوں اور فسادوں سے یہ خدمت نہیں ہو سکتی۔

پس آج دنیا میں من حیث الجماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو رحمۃ للعالمین کی رحمت سے دنیا کو حصہ دلانے اور نیکیاں بکھیرنے کے لئے ہر وقت کوشاں ہے اور اس کا حق ادا کرنے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ یہ کوشش اسلام کی خوبصورت تعلیم اور اسلام کا پیغام دنیا کو دے کر بھی ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم کی اشاعت اور دنیا کے مختلف ممالک اور علاقوں کی زبانوں میں قرآنِ کریم کے ترجمے کر کے پھر اُن کو پھیلانے کی صورت میں بھی ہے۔ اعلیٰ اخلاقیات دنیا کو سکھانے کی صورت میں بھی ہے۔ پیار محبت کی تعلیم دنیا کو دینے کی صورت میں بھی ہے۔ انسانیت کی خدمت ہسپتالوں کے ذریعے دکھی انسانیت کا علاج مہیا کرنے کی صورت میں بھی ہے۔ دور دراز علاقوں میں تعلیم سے بے بہرہ بچوں کو، انسانوں کو، تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے پھر اُنہیں نیکیوں کا صحیح ادراک دلانے کی صورت میں بھی ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لا کر خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانے کی صورت میں بھی ہے۔

پس جماعت احمدیہ کا مشن کوئی معمولی مشن نہیں ہے جو عہدِ بیعت ہم نے زمانے کے امام کے ساتھ باندھا ہے وہ کوئی معمولی عہدنہیں ہے۔ اس کے پورا کرنے کے لئے ہمیں وہی مطمح نظر بنانا ہو گا جو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مقرر فرمایا ہے جس کی مَیں کچھ وضاحت کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُن راستوں پر چلنا جو خدا تعالیٰ کی طرف لے جانے والے راستے ہیں۔ ان راستوں پر بھی جیسا کہ شیطان نے کہا تھا، شیطان سے آمنا سامنا ہو سکتا ہے جو نیکیوں کے بجا لانے سے روکنے کی کوشش کرے گا۔ نیکیوں کے معیار بلند کرنے کی کوشش میں روڑے اٹکائے گا لیکن دل سے نکلی ہوئی یہ دعا کہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6) جو ہے شیطان کے حملوں کا توڑ کرتی چلی جائے گی۔ نیکیوں کی بلندیوں کو ایک مومن چھوتا چلا جائے گا اور خیر اُمّت میں سے ہونے کے اعزاز پاتا چلا جائے گا۔ پس اس کے حصول کے لئے ہمارے ہر بڑے چھوٹے مرد عورت، بچے بوڑھے کو کوشش کرنی چاہئے۔ تمام قسم کی نیکیاں اپنا کر اللہ تعالیٰ کے ہمارے لئے مقرر کردہ مطمح نظر اور مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں جن نیکیوں کے کرنے کا ایک مومن کو حکم دیا ہے اُن میں سے ایک انفاق فی سبیل اللہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانیاں بھی ہیں۔ مالی قربانی بھی اُن مقاصد کے لئے ضروری ہے جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے یعنی اشاعتِ اسلام اور خدمتِ انسانیت۔ جماعت احمدیہ کی تاریخ گواہ ہے کہ گزشتہ تقریباً سوا سو سال سے ان مقاصد کے حصول کے لئے افرادِ جماعت مالی قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، یہ قربانی اور نیکی جماعت احمدیہ کا ایسا طرہ امتیاز ہے جس کو دیکھ کر غیر جو ہیں وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں کیونکہ اُن کو اس بات کا فہم و ادراک نہیں کہ اس کے پیچھے کیا جذبہ کار فرما ہے۔ یقینا یہ روح ایک احمدی میں اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق اپنا مطمح نظر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کو بناتا ہے۔

پس آج روئے زمین پر صرف احمدی ہیں، آپ ہیں جو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کا مصداق بن کر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کو قائم کئے ہوئے ہیں، اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیکیوں کے حصول اور اُن میں آگے بڑھتے چلے جانے اور جماعت کی ترقی اور اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرتے چلے جانے والے ہیں۔ کوئی دشمن، کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔ کوئی حکومت، کوئی گروہ ہماری ترقی کی رفتار کو اُس وقت تک روک نہیں سکتا، کم نہیں کرسکتا جب تک ہم میں فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کی روح قائم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جس عاشقِ صادق کو مان کر ہم نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا حصہ بننے کا عہد کیا ہے، یہ عہد انشاء اللہ تعالیٰ کبھی بھی ہم میں نیکیوں میں آگے بڑھتے چلے جانے کی روح کو کم نہیں ہونے دے گا۔ نیکی میں آگے بڑھنے کا جذبہ اور قربانی کی روح کو دیکھ کر بعض دفعہ ہمیں بھی یہ حیرت ہوتی ہے، میں بھی حیرت میں ڈوبتا ہوں کہ کیسے کیسے قربانیاں کرنے والے لوگ ہیں اور یہ نیکیاں بجا لانے والے لوگ ہیں اور استقلال کے ساتھ اس پر قائم رہنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایسے مخلصین عطا فرمائے ہیں، آپ کی جماعت کو عطا فرمائے ہیں جو مستقل مزاجی سے یہ قربانیاں کرتے چلے جا رہے ہیں، جنہوں نے فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کی حقیقت کو سمجھا ہے۔ فَاسْتَبِقُوْا کا مطلب ہے مسلسل آگے بڑھتے چلے جانا۔ استباق کا مطلب ہے مستقل آگے بڑھتے چلے جانا اور اس کے لئے کوشش کرتے چلے جانا۔ (لسان العرب زیر مادہ ’’وجہ‘‘)

یہ استباق، یہ آگے بڑھنا ہمیں افرادِ جماعت میں مختلف نیکیوں کی صورت میں نظر آتا ہے جن میں سے ایک نیکی، جیسا کہ میں نے کہا، مالی قربانی بھی ہے۔ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت اس مقصد کے لئے قربانی کرتی ہے۔ ان میں نئے شامل ہونے والے احمدی بھی ہیں اور پرانے احمدی بھی ہیں۔ غریب بھی ہیں، اوسط درجے کے لوگ بھی ہیں اور مقابلۃً امیر بھی ہیں۔ جس کو بھی مالی قربانی کی اہمیت کا احساس دلا دیا گیا وہ اس نیکی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کمی ہے تو احساس دلانے والوں کی طرف سے کمی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افرادِ جماعت کے اخلاص و وفا میں کوئی کمی نہیں۔ افرادِ جماعت کی اکثریت جیسا کہ مَیں نے کہا کم آمدنی والوں کی ہے، اس لئے قربانی کرنے والوں کی اکثریت بھی اُنہی میں سے ہے جو اپنی بہت سی خواہشات کو قربان کر کے مالی قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ بیشک بعض صاحبِ حیثیت مالی کشائش رکھنے والے بھی ہیں جو بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں لیکن کم آمدنی والوں کے مقابلے میں اُن کی قربانی کی نسبت یعنی بلحاظ معیار قربانی اور بلحاظ تعداد بھی بہت کم ہے۔ اس وقت مغربی ممالک میں رہنے والے احمدیوں کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے یا کہہ سکتے ہیں کہ اچھی خاصی اکثریت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پہلے سے بہت بہتر حالت میں کر دیا ہے، بہت کچھ اُنہیں عطا فرمایا ہے۔ اِن لوگوں کو صرف اپنی قربانی کو ہی نہیں دیکھنا چاہئے یا اپنی قربانی کی رقم پر ہی راضی نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ جو قربانی انہوں نے ایک سال میں دی ہے، اگلے سال میں ان کا وہ قدم آگے بڑھا ہے کہ نہیں۔ اگر نہیں بڑھا اور وہیں کھڑا ہے تو پھر فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ عموماً احمدی مسابقت کی روح کو سمجھتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے۔ جماعت میں علاوہ مستقل چندوں کے تحریکات بھی ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے لئے بھی جماعت کے افراد بہت قربانی کرتے ہیں۔ بعض تحریکات کسی جگہ کی لوکل جماعت کی ضروریات کے لئے ہو رہی ہوتی ہیں۔ بعض تحریکات کسی ملک کی نیشنل جماعت کے کسی پروجیکٹ کے لئے ہو رہی ہوتی ہیں۔ بہت سے ملکوں میں مرکزی طور پر بھی مساجد کے یا دوسرے پراجیکٹ چل رہے ہیں، کیونکہ یہ ضروریات، یہ اخراجات مستقل چندوں سے پورے نہیں ہو سکتے۔ تو بہرحال مستقل چندوں کے علاوہ بھی افرادِ جماعت بہت زیادہ قربانی کر رہے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک اکثریت اُن میں سے قربانی کرنے والوں کی ہے۔

یہاں مَیں ایک بات کی وضاحت بھی کرنا چاہتا ہوں کہ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے تمام کے تمام وہ چندے ہیں جو مرکزی چندے ہوتے ہیں۔ ان کا خرچ مقامی یا نیشنل اخراجات پر نہیں ہو رہا ہوتا۔ یا اگر بعض غریب ملکوں میں وہیں رکھے بھی جاتے ہیں تو اُن کی صوابدید پر نہیں ہوتے بلکہ مرکز سے پوچھ کر خرچ کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ بعض امیر ملکوں کے لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آ جاتا ہے کہ جب یہ مرکزی چندے ہیں اور ہم پر خرچ بھی نہیں ہوتے تو پھر ہم اس میں اتنا بڑھ چڑھ کر کیوں حصہ لیں؟ ہمارے اپنے پراجیکٹس ہیں (جیسا کہ میں نے کہا لوکل پراجیکٹس بھی چل رہے ہوتے ہیں، نیشنل پراجیکٹ بھی چل رہے ہوتے ہیں) پہلے ہم اپنے اخراجات پورا کریں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دے رہے ہیں تو پھر ایسے سوال ہی غلط ہیں۔ دوسرے مرکز کے بھی بہت سارے اخراجات ہیں۔ بہت سارے پراجیکٹس ہیں۔ غریب ملکوں میں جن میں افریقن ممالک بھی شامل ہیں، ایشین ممالک بھی شامل ہیں، بشمول ہندوستان، بنگلہ دیش وغیرہ، بلکہ یورپ کے وہ ممالک بھی شامل ہیں جہاں جماعت کی تعداد تھوڑی ہے۔ ان پر یہ مرکز کی طرف سے خرچ ہوتے ہیں۔ اسی طرح جو ہمارے ہونہار طلباء ہیں، طالب علم ہیں، اُن کی تعلیم کے اخراجات بھی مرکز خرچ کر رہا ہوتا ہے۔ تو اُن رقموں سے یہ اخراجات پورے ہوتے ہیں جو جماعتوں سے مرکز کو آتی ہیں۔ پھر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کی روح بھی یہ ہے کہ اپنے غریب بھائیوں کو، چھوٹی جماعتوں کو، کمزور جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہوں کہ ہم اپنے کمزوروں کو بھی اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسی آیت میں جو میں نے تلاوت کی ہے آگے یہ بھی فرماتا ہے کہ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ یعنی جب اکٹھے ہو کر حاضر ہوں گے تو جو تو نیکیوں میں مسابقت کی روح قائم رکھے رہے وہ تو سرخرو ہوں گے اور جو سستیاں کرتے رہے، دوسروں کی مدد سے کتراتے رہے، سوال اُٹھاتے رہے کہ ہم دوسروں کے لئے کیوں خرچ کریں، اُنہیں جواب دینا پڑے گا۔ پس چاہے یہ سوال اِکّا دُکّا ہی اُٹھائیں یا اُن کی طرف سے اُٹھ رہے ہوں، اُس روح کے خلاف ہیں جس کی تعلیم ایک احمدی کو دی گئی ہے جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔

مرکز کے خرچوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے، ان کا مختصر خاکہ بھی مَیں آج آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں تاکہ آپ کو علم ہو کہ دنیا کی ہر جماعت اپنے آپ کو اپنے وسائل سے نہیں سنبھال رہی بلکہ بہت سا خرچ مرکز کی گرانٹ کی صورت میں دنیا کو دیا جاتا ہے اور وہ انہیں رقموں سے دیا جاتا ہے جو مرکز کا حصہ بن کر آتی ہیں۔ مثلاً افریقہ اور دیگر غیر خود کفیل ممالک جو ہیں، یہ اڑسٹھ (68) ممالک ہیں جس میں افریقہ کے ستائیس ممالک، یورپ کے اٹھارہ ممالک، ایشیا اور مشرق بعید کے پندرہ ممالک، جنوبی امریکہ کے چھ ممالک اور شمالی امریکہ کے دو ممالک شامل ہیں۔ اور اس سال ایک بڑی رقم صرف وہاں کی مساجد اور مشن ہاؤسوں کی تعمیر پر خرچ بھی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کلینکس، سکولز، ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز پر کوئی تقریباً تین ملین پاؤنڈ خرچ ہو گا۔ پھر اس کے علاوہ بھی معمول سے ہٹ کے بہت بڑے تعمیری پراجیکٹس بعض جگہ چل رہے ہیں اور جہاں ہمارے مشنز ہیں، مثلاً افریقہ میں جہاں گرانٹ جاتی ہے، وہاں پینتیس ممالک میں ایک سو اٹھہتر (178) مرکزی مبلغین ہیں، دس سو اٹھہتر (1078) مقامی معلمین ہیں۔ ان کے خرچ کا کافی بڑا حصہ جو ہے مرکز پورا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اکیالیس (41) ممالک میں مرکز سے گرانٹ جاتی ہے۔ ان میں بھی ہمارے مبلغین کی تعداد دو سو تینتالیس (243) ہے اور مقامی معلمین کی تعدادنو سو اٹھائیس (928) ہے۔ پھر مساجد زیرِ تعمیر ہیں۔ آئر لینڈ میں مسجد تعمیر ہورہی ہے۔ اس میں گو آئر لینڈ کی جماعت نے کافی بڑی کنٹری بیوشن (Contribution) کی ہے لیکن کچھ نہ کچھ حصہ تقریباً نصف کے قریب مرکز کو بھی دینا پڑا۔ سپین میں ویلنسیا میں مسجد بن رہی ہے۔ وہاں تقریباً اسّی فیصد مرکز خرچ کر رہا ہے۔ یوگنڈا میں کمپالہ کی مسجد میں توسیع ہو رہی ہے، وہ تقریباً سارا مرکز خرچ کر رہا ہے۔ آئیوری کوسٹ میں مرکزی مسجد کی تعمیر ہو رہی ہے۔ پھر افریقہ کے انیس (19) مختلف ممالک ہیں جن میں ننانوے (99) مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور چھیالیس (46) مشن ہاؤس تعمیر ہوئے۔ اور ان ننانوے (99) میں سے پینسٹھ (65) مساجد کا خرچ مرکز نے دیا ہے۔ اسی طرح مشن ہاؤسز کا خرچ دیا۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک ہیں جن میں چھبیس (26) مساجد کی تعمیر ہوئی۔ ستر (70) مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔ ان میں سے تقریباً بنگلہ دیش میں دو (2)، انڈیا میں چالیس (40)، فلپائن ایک، نیپال تین (3)، گوئٹے مالا اور مارشل آئی لینڈ وغیرہ میں مرکز نے خرچ کیا۔ پھر طلباء کے لئے جو ٹیلنٹڈ (Talented) سٹوڈنٹ ہیں اُن کے لئے تقریباً چار ہزار پانچ سو سٹوڈنٹس کو کئی لاکھ پاؤنڈ کی صورت میں جماعت نے وظیفہ یا بعض کو قرضۂ حسنہ دیا۔ اور ان میں سے ساڑھے تین سو (350) سٹوڈنٹس ایسے ہیں جو اعلیٰ تعلیم ایم ایس سی یا پی ایچ ڈی وغیرہ کر رہے ہیں اور جماعت ان کا خرچ برداشت کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ افریقہ میں پانی، بجلی، ریڈیو سٹیشن وغیرہ کے پراجیکٹس ہیں۔ یہ سب کام مرکزی گرانٹ سے ہوتے ہیں۔ پس یہ جو کام ہیں یہ جماعت کی ترقی کے لئے ہیں۔ دنیا کو اسلام کی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لئے یہ کام ہیں۔ اور یہ سب کام ایسے ہیں جو ان کاموں میں شامل ہونے والوں کو، جو براہِ راست تو ان میں شامل نہیں ہو سکتے لیکن چندوں کی صورت میں شامل ہو رہے ہیں اور اس کا حصہ بن کر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے لوگوں میں شامل ہورہے ہیں۔ بہرحال یہ خیال نہ کریں کہ یہ جو افریقن ممالک ہیں ان کا انحصار شاید سب کچھ مرکز پر ہی ہے اور وہ خود کچھ نہیں کرتے۔ بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کافی پراجیکٹس انہوں نے خود بھی کئے ہیں۔ اس لئے میں ان کے چند واقعات بھی آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ اپرویسٹ ریجن غانا کی ایک خاتون فاطمہ داؤد صاحبہ ہیں، انہوں نے خود زمین خریدی اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی جس میں تین سو افراد بآسانی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اکرا شہر کے قریب لمنارہ (Lomnara) گاؤں میں کافی زیادہ بیعتیں ہوئیں۔ چنانچہ وہاں احبابِ جماعت نے اپنے طور پر مسجد بنائی بلکہ یہ جماعتیں مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی تھیں تو انہوں نے چھ مساجد بنانی شروع کیں جن میں سے چار مساجد مکمل ہو چکی ہیں، اور دو زیرِ تعمیر ہیں۔ ان میں سے ایک مسجد ایک خاتون صادقہ صاحبہ نے اکیلے بنوائی ہے۔ اس میں ایک سو پچاس نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ا س سے پہلے یہ اکرا شہر میں بھی مسجد بنوا چکی ہیں۔ احمد جبرائیل سعید صاحب غانا کے مبلغ ہیں وہ لکھتے ہیں کہ سینٹرل ریجن اکوٹسی (Ekotsi) میں بھی بڑی مسجد تعمیر ہو رہی ہے، اُس کا پچاس فیصد خر چ ہمارے ہائی کورٹ کے ایک جج کَوَاکُوجان صاحب ہیں، انہوں نے ادا کیا ہے۔ جبرائیل سعید صاحب بھی آجکل بیمار ہیں اور ڈاکٹروں کو اُن کی بیماری کی تشخیص کا بھی صحیح پتہ نہیں لگ رہا۔ اُن کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی صحت کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔

امیر صاحب فرانس مراکش کے دورے پر گئے تو کہتے ہیں وہاں نو احمدی احباب کو قربانی اور اخلاص سے بھرا ہوا پایا۔ اور خلافت سے اُن کو بے انتہا محبت تھی۔ اور جب اُن کو مالی قربانی کے بارے میں بتایا گیا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پڑھ کر سنائے تو پھر کہتے ہیں کہ چند دنوں کے بعد ایک دوست صدر صاحب کے پاس آئے اور ایک بڑی رقم اُن کو ادا کر دی اور کہا کہ مَیں جب سے احمدی ہوا ہوں، اُس وقت سے لے کر اب تک یہ چندہ ہے، کیونکہ چندے کے بارے میں مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور خلیفۂ وقت کی نصائح کو نہیں سنا تھا۔ اب مَیں نے سن لیا ہے تو اب مَیں پیچھے نہیں رہ سکتا۔

نائیجر سے اصغر علی بھٹی صاحب لکھتے ہیں کہ پچھلے سال اکتوبر 2011ء میں تبلیغ کے دوران خاکسار گِدابراؤ (Gida Braoo) گاؤں میں پہنچا۔ نمازِ مغرب کے بعد تبلیغ کی گئی اور نمازِ عشاء کے بعد میرے دورہ جات کی جو مختلف ویڈیوز تھیں، وہ دکھائی گئیں۔ جلسے دکھائے، مساجد کے بارے میں پروگرام دکھائے، تبلیغی مساعی کے بارے میں پروگرام دکھائے، اسی طرح امام مہدی کی آمد کے بارے میں بتایا، بیت المال کے نظام کے بارے میں بتایا۔ یہ سب کچھ ویڈیو میں تھا تو جب ویڈیو ختم ہوئی تو ایک امام صاحب وہاں اُٹھے جو ہاؤسا لوگوں کو مخاطب ہوئے اور مسجد سے باہر چلے گئے۔ کہتے ہیں ہم پریشان تھے لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اب پتہ لگا ہے کہ امام مہدی آ گیا ہے اور بیت المال کا نظام قائم ہے۔ میں ان سب کو لے کر گیا تھا اس لئے کہ اس نظام میں ہمیں حصہ لینا چاہئے اور چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ چنانچہ انہوں نے وہاں فوری طور پر رقم اکٹھی کی اور وہ ہمارے مشنری کو ادا کی اور پھر ساتھ ہی انہوں نے بیعت فارم بھی فِل (Fill) کئے۔

امیر صاحب یوگنڈا بیان کرتے ہیں کہ گزشتہ سال 18؍ستمبر کو نیشنل مجلس عاملہ اور کچھ دوسرے سرکردہ احباب جماعت کی میٹنگ بلائی اور سیتا لینڈ (Seeta Land) کی ڈویلپمنٹ کے لئے تین سالہ منصوبہ اُن کے سامنے رکھا تا کہ اس جگہ کو جلسہ گاہ کے طور پر تیار کیا جا سکے۔ یہ جگہ نیشنل ہیڈ کوارٹر کمپالہ سے نو میل دور ہے۔ یہاں جماعت کی سترہ ایکڑ زمین ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ اس میٹنگ میں بہت سارے مخیر حضرات نے فوری طور پر وعدے کئے اور رقمیں دینی شروع کر دیں۔ یوگنڈن شلنگ گو اُس کی ویلیو (Value) کم ہے لیکن اپنے لحاظ سے انہوں نے فوری طور پر وہاں تراسی ملین سے زیادہ شلنگ جمع کر لئے جو اس پراجیکٹ کو پورا کریں گے۔

پس امیر ممالک کے احمدی یہ خیال نہ کریں کہ شاید غریب ممالک مکمل طور پر اُن پر انحصار کر رہے ہیں بلکہ اپنی توفیق کے مطابق بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ لوگ قربانیاں کر رہے ہیں۔ بہرحال جیسا کہ آپ جانتے ہیں، آج مالی قربانی کا یہ ذکر مَیں اس لئے کر رہا ہوں کہ تحریکِ جدید کے نئے سال کا آج اعلان ہونا ہے اور حسبِ روایت گزشتہ سال کے کچھ کوائف بھی پیش ہوتے ہیں۔ تو ان چند باتوں کے ساتھ جو میں نے پہلے پیش کی ہیں کہ ایک احمدی کی قربانی کا کیا معیارہونا چاہئے؟ اب میں یہ کوائف آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ تحریک جدید کا اٹھہترواں (78) سال تھا جو 31؍اکتوبر کو ختم ہوا، اور اب اناسیواں (79) سال اس یکم نومبر سے شروع ہو چکا ہے اور جو رپورٹس موصول ہوئی ہیں اس کے مطابق تحریک جدید کے مالی نظام میں اس سال جماعت نے بہتر لاکھ پندرہ ہزار سات سو (72,15,700) پاؤنڈ کی قربانی پیش کی۔ الحمد للہ۔ اور گزشتہ سال سے یہ تقریباً پانچ لاکھ چوراسی ہزارسات سو (5,84,700) پاؤنڈ زیادہ تھی۔

پاکستان کی جو پوزیشن ہے وہ باوجود ایسے حالات کے اور غربت کے قائم ہے۔ اُس کے بعد باہر کی بڑی جماعتوں میں امریکہ نمبر ایک ہے۔ اور پھر اُس کے بعدنمبر دو جرمنی ہے۔ پھر برطانیہ نمبر تین ہے۔ پھر کینیڈا نمبر چار۔ پھر ہندوستان نمبر پانچ۔ انڈونیشیا چھ۔ اور پھر سات مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے، مصلحتاً میں نام نہیں لے رہا، پھر آسٹریلیا آٹھ، سوئٹزرلینڈ نواور پھر بیلجیئم۔ اور بیلجیئم اور گھانا تقریباً سوئٹزر لینڈ کے قریب ہی ہیں۔ پھر پہلی دس بڑی جماعتوں کی مقامی کرنسی میں گزشتہ سال کے مقابلے میں جس شرح وصولی کے لحاظ سے اضافہ ہوا ہے یہی عرب ملک کی ایک جماعت ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔ پھر انڈیا ہے۔ پھر جرمنی ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ پھر بیلجیئم ہے۔ کینیڈا ہے۔ برطانیہ ہے۔ انڈونیشیا۔ اُس کے بعد فرانس یورپ کی جماعتوں میں سب سے آگے ہے۔

فی کس ادائیگی کے اعتبار سے بھی مڈل ایسٹ کا ہی ملک ہے۔ ان کی قربانی ایک سو چھپن پاؤنڈ فی کس (تقریباً ایک سو ستاون پاؤنڈ) ہے۔ پھر امریکہ ہے ایک سو اٹھارہ پاؤنڈ فی کس۔ پھر سوئٹزرلینڈ ہے۔ پھر جاپان ہے۔ پھر برطانیہ ہے۔ پھر فرانس ہے۔ پھر کینیڈا، ناروے اور جرمنی اور پھر آسٹریلیا۔

اسی طرح صرف رقم میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید میں شامل ہونے والے مخلصین کی تعداد میں بھی اضافہ ہو اہے جو ایک لاکھ اسّی ہزار کا اضافہ ہے اور اس طرح اب نو لاکھ گیارہ ہزار شاملین ہو گئے ہیں۔ گزشتہ سال سات لاکھ اکتیس ہزار (7,31000) تھے۔

افریقہ کی جماعتوں میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا سب سے آگے ہے۔ پھر نائیجیریا۔ پھر ماریشس۔ پھر بورکینا فاسو، کینیا، بینن، یوگنڈا، تنزانیہ، گیمبیا، سیرالیون۔ یہ کیونکہ غریب ممالک ہیں اس لئے مقابلۃً میں نے ان کو علیحدہ رکھا ہے۔ قربانی کے لحاظ سے تو اللہ کے فضل سے کافی آگے جا رہے ہیں۔ شاملین کی تعداد میں اضافے کے لحاظ سے نائیجیریا نہ صرف افریقہ کے ممالک میں بلکہ دنیا بھر کی جماعتوں میں سب سے آگے ہے۔ اس سال انہوں نے چونسٹھ ہزار چار سو انیس (64419) نئے چندہ دہندگان کا اضافہ کیا ہے اور تعداد میں اس غیر معمولی اضافے کے بعدنائیجیریا شاملین کی مجموعی تعداد کے لحاظ سے پاکستان کے بعد دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس اضافے کے بعد اب چندہ دہندگان کی کُل تعداد ڈیڑھ لاکھ افراد سے زیادہ ہوگئی ہے۔ پھر اسی طرح تعداد میں اضافے کے لحاظ سے افریقہ کے ملکوں میں نائیجر، بینن، بورکینا فاسو اور سیرالیون قابل ذکر ہیں۔ گھانا کو بھی اس معاملے میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

دفتر اوّل کے مجاہدین کی کُل تعداد پانچ ہزار نو سو ستائیس (5927) ہے جس میں سے دو سو پچاسی (285) خدا کے فضل سے زندہ موجود ہیں جو اپنا چندہ خود ادا کر رہے ہیں۔ باقیوں کے حسابات بھی اُن کے ورثاء نے یا دوسروں نے جاری کئے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی مجموعی وصولی کے لحاظ سے تین بڑی جماعتیں ہیں۔ اول لاہور۔ پھر ربوہ دوئم اور سوم کراچی۔ اور اس کے علاوہ زیادہ قربانی کے لحاظ سے دس شہری جماعتیں ہیں جو راولپنڈی، اسلام آباد، سیالکوٹ، کوئٹہ، سرگودھا، فیصل آباد، میر پور خاص، نوابشاہ، پشاور اور بہاولپور ہیں۔ ضلعی سطح پر زیادہ مالی قربانی کرنے والے اضلاع نمبر ایک عمر کوٹ۔ پھر شیخو پورہ۔ پھر گوجرانوالہ۔ پھر بدین۔ سانگھڑ، نارووال، بہاول نگر، حیدر آباد، رحیم یار خان، میر پور آزاد کشمیر اور خانیوال۔

امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں جو قربانی میں آگے ہیں وہ لاس اینجلس اِن لینڈ ایمپائر۔ کولمبس اوہائیو۔ سلیکون ویلی۔ ڈیٹرائٹ اور ہیرس برگ ہیں۔ وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی جو جماعتیں ہیں وہ، کولون۔ رؤڈرمارک۔ نوئے ایس۔ کوبلنز۔ فلورزہائم۔ مہدی آباد۔ درائے آیش۔ راؤن ھائم ساؤتھ۔ فلڈا اور وائن گارڈن۔ اور وصولی کے لحاظ سے اُن کی جو دس امارتیں ہیں۔ پہلے جماعتیں تھیں۔ اب اُن کی جو ریجنل امارتیں ہیں اُس میں ہیمبرگ۔ فرینکفرٹ۔ گروس گراؤ۔ ڈارمشٹڈ۔ ویزبادن۔ من ہائم۔ ڈٹسن باخ۔ اوفن باخ اور رِیْڈشَٹَڈْ۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے آپ کی، یوکے کی، جو پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں مسجد فضل نمبر ایک۔ نیومولڈن۔ ویسٹ ہل۔ ووسٹر پارک۔ بیت الفتوح۔ رینزپارک۔ موسک ویسٹ۔ چیم۔ مانچسٹر ساؤتھ اور برمنگھم سینٹرل شامل ہیں۔ اور ریجن کے لحاظ سے پہلی ریجن لنڈن۔ نمبر دو مڈلینڈ ریجن اور تیسری نارتھ ایسٹ۔ چھوٹی جماعتوں میں جہاں تھوڑی تعداد ہے۔ سکنتھورپ کا پہلا نمبر۔ پھر بروملے۔ لیوشم۔ بورن متھ۔ لیمنگٹن سپا اور آکسفورڈ۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی قابل ذکر جماعتیں کیلگری۔ ایڈ منٹن۔ پیس ولیج ایسٹ۔ سرے ایسٹ۔ پیس ولیج سینٹر۔ ووڈ برج۔ بریمٹن فلاور ٹاؤن۔ مسی ساگا ویسٹ۔ وان نارتھ۔ مَیْپَل۔ مونٹریال ایسٹ۔

انڈیا کے پہلے دس صوبہ جات جو ہیں وہ، کیرالہ۔ تامل ناڈو۔ آندھرا پردیش۔ جموں و کشمیر۔ بنگال۔ کرناٹک۔ اڑیسہ۔ پنجاب۔ دہلی۔ یوپی ہیں۔ اور نمایاں قربانی کرنے والی پہلی دس جماعتیں جوہیں ان میں نمبر ایک کوئمبٹورتامل ناڈو۔ نمبر دو کیرولائی کیرالہ۔ پھر کالی کٹ کیرالہ۔ پھر حیدرآباد آندھرا پردیش۔ پھر قادیان نمبر پانچ۔ چھ پر کینانور ٹاؤن کیرالہ۔ پھر کلکتہ پینگاڈی۔ ماتھوٹم کیرالہ اور چنائی تامل ناڈو شامل ہیں۔ تحریک جدید کے تعلق سے چند واقعات جو مختلف جماعتوں نے لکھے ہیں وہ بھی میں آپ کے سامنے پیش کر دیتا ہوں۔ مَیں نے کہا تھا کہ تعداد بڑھائیں۔ چنانچہ کماسی میں جب احمد جبرائیل سعید صاحب نے لوگوں کو بتایا کہ غانا کی کم از کم تعداد ایک لاکھ ہونی چاہئے۔ اس ٹارگٹ کو بھی آپ نے حاصل نہیں کیا تو اب بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اب آپ کو اور توجہ دلائی جاتی ہے تو احباب نے اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ فارافینی ایریا کے مشنری نے بتایا کہ ایک دن ایک بوڑھی خاتون مشن ہاؤس آئیں انہوں نے ہمارے مبلغ سے پوچھا کہ فارا فینی ایریا میں تحریک جدید کا سب سے زیادہ چندہ کون ادا کرتا ہے۔ اُنہیں بتایا گیا کہ اس ایریا میں ایک دوست سمبوجانگ (Sambujang Bah) صاحب ہیں وہ ادا کرتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ کتنا چندہ ادا کرتے ہیں؟ بتایا گیا کہ پچاس ہزار ڈلاسی ادا کرتے ہیں۔ یہ خاتون اس سے پہلے پندرہ سو ڈلاسی ادا کرتی تھیں۔ کہنے لگیں گو میرے پاس اتنے وسائل تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی مَیں اس شخص کا مقابلہ کروں گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سے زیادہ چندہ ادا کروں گی۔

امیر صاحب سپین لکھتے ہیں کہ وفاء الرحمن صاحبہ ایک نو مبائع خاتون ہیں، انہوں نے پچھلے سال میرا تحریک جدید کاخطبہ جب سنا تو پانچ سو یوروز کا وعدہ کیا اور ساتھ ہی ادائیگی بھی کر دی۔ جب انہوں نے تحریک جدید کا چندہ ادا کیا تو ان کو دیگر چندہ جات کی تفصیل بھی بتائی گئی اور کہا کہ چونکہ آپ نے نئی بیعت کی ہے اس لئے آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ جتنا بھی دینا چاہیں دے سکتی ہیں۔ لیکن انہوں نے اُسی دن باقی چندے بھی چندہ عام اور جلسہ سالانہ وغیرہ شرح کے مطابق ادا کئے۔

سوئٹزر لینڈ سے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایک دوست جو کہ نیو شٹل جماعت کے صدر ہیں، نیشنل سیکرٹری تحریک جدید بھی ہیں، انہوں نے بتایا کہ جب وہ سوئٹزرلینڈ آئے اور سیاسی پناہ کی درخواست کی تو جلد ہی متعلقہ ادارے نے ردّ کر دی۔ اسی دوران تحریکِ جدید کے نئے سال کا اعلان ہو گیا۔ ان کے پاس اکاؤنٹ میں کُل ایک ہزار فرانک کی رقم تھی جو انہوں نے وکیل وغیرہ کے لئے رکھی ہوئی تھی لیکن تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان سن کر وہ ساری رقم خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے چندے میں ادا کر دی اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اصل نعم الوکیل تو وہ ہے، وہی ہمارے ٹوٹے کام بنا دے گا۔ چندے کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان پر فضل کیا اور نہ صرف غیبی طورپر ان کی مدد کی بلکہ اُن کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوئی اور اُن کو ملک کی شہریت بھی حاصل ہو گئی اور اُن کو کوئی وکیل وغیرہ بھی نہ کرنا پڑا۔

کرغزستان سے ہمارے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک کرغز دوست جومارٹ (Joomart) صاحب نے، 2006ء میں بیعت کی تھی۔ بہت ہی نیک فطرت نوجوان ہیں۔ بیعت کے فوراً بعد ہمارے مبلغ نے چندے کے بارے میں سمجھانے کے لئے اُن سے ازراہِ مزاح کہا کہ دوسرے لوگ تو اپنی جماعت میں داخل کرنے کے لئے پیسے دیتے ہیں، جبکہ ہماری جماعت میں داخل ہو تو ہم اُس سے پیسے لیتے ہیں۔ جس پر انہوں نے کہا کہ ماہانہ تین سو کرغیز چندہ عام ادا کیا کروں گا۔ کچھ عرصے کے بعد ہی انہوں نے چار سو کر دئیے۔ پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد آٹھ سو کردئیے۔ پھر کچھ مدت کے بعد خود ہی بغیر کسی کے کہنے کے ایک ہزار سُم ماہانہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ جب تحریک جدید کا وعدہ لکھنے لگے تو اُن کو بیعت کئے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے، انہوں نے ایک ہزار سُم لکھوائے۔ یہ رقم اُن کی مالی حالت کے لحاظ سے زیادہ تھی۔ اُن کو سمجھایا گیا کہ ابھی چھوٹی رقم لکھوا دیں پھر آہستہ آہستہ اس میں اضافہ کرتے رہنا۔ خیر اس طرح بہت بحث تمحیص کے بعد پھر انہوں نے اس کو کم کیا۔

آئر لینڈکے صدر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان جوڑے نے فیصلہ کیا کہ جب ان کی اولاد ہو گی تو وہ اپنی اولاد کو وقف کریں گے۔ انہوں نے اپنی اولاد کے لئے نام بھی سوچ لئے لیکن اُن کی اہلیہ اُس وقت تک امید سے نہ تھیں۔ چند روز بعد انہوں نے تحریک جدید اور وقفِ جدید کے لئے دونوں بچوں کے نام چندہ کی رسیدیں کٹوا دیں جس میں ایک لڑکی اور ایک لڑکا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی اس قربانی کا صلہ اس طرح دیا کہ چند ہفتوں کے بعد اُنہیں پتہ چلا کہ ان کی اہلیہ امید سے ہیں اور اُن کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوں گے۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اُنہیں صحت مند جڑواں بچوں سے نوازا اور میاں بیوی کا پختہ ایمان ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے جڑواں بچوں سے اس لئے نوازا کہ انہوں نے بچوں کا چندہ ادا کیا تھا۔

انڈیا کی ایک رپورٹ ہے کہ وہاں کی کوئمبٹور جماعت کے صدر لکھتے ہیں کہ تحریک جدید کے چندہ میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر اضافہ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو اپنی معجزانہ قدرت کے دو ایمان افروز نظارے دکھائے۔ میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس وعدہ کی بروقت ادائیگی کے لئے مسلسل دعاؤں میں مصروف تھا کہ اچانک ایک شخص میری دکان میں آیا اور میرے پاس جو سامان تھا اُس نے اُسے اصل قیمت سے بھی کہیں زیادہ قیمت پر خرید لیا جس کے نتیجے میں مجھے اُسی وقت اپنا وعدہ پورا کرنے کی توفیق مل گئی۔ پھر کہتے ہیں اسی دوران ہمارے علاقے کے گودام میں اچانک آگ لگ گئی جس میں خاکسار کا مال بھی کافی مقدار میں رکھا ہوا تھا۔ خاکسار دعا کرتے ہوئے وہاں پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ جہاں دوسرے بیوپاریوں کا سارا سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا مال بالکل محفوظ رہا۔ آگ اتنی شدید تھی کہ گودام کے لوہے کی چھت بھی پگھل گئی تھی۔ یہ علاقہ متعصب مسلمانوں کا گڑھ ہے جو ہمیشہ ہماری مخالفت پر کمربستہ رہتے ہیں لیکن اس واقعہ کے بعد وہ سب خاکسار کی بہت عزت کرنے لگے ہیں۔ یہ محض چندہ دینے کے افضال ہیں۔ میں جب بھی ان واقعات کو یاد کرتا ہوں میرا دل شکریہ سے لبریز ہو جاتا ہے۔

پھر انسپکٹر تحریکِ جدید احسن بشیرالدین صاحب ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کاوارتی لکشدیپ پہنچا۔ وہاں کے امیر صاحب کی زیرِ صدارت منعقدہ ایک تربیتی جلسہ میں خاکسار نے تحریکِ جدید کی فضیلت و اہمیت اور اس کی برکات کے موضوع پر تقریر کی۔ جلسہ کے بعد تمام احباب نے اپنے وعدے خاطر خواہ اضافہ کے ساتھ نوٹ کروائے۔ اس جلسہ میں پردہ کی رعائت سے مستورات بھی موجود تھیں۔ کہتے ہیں دوسرے دن وہاں سے چل کے دوسرے شہر پہنچا تو امیر صاحب ’’کاوارتی‘‘ نے بذریعہ فون بتایا کہ ایک احمدی خاتون محترمہ بی بی صاحبہ نے شکایت کی ہے کہ مردوں سے تو تحریکِ جدید کے وعدے لئے گئے ہیں ہم مستورات کو محروم رکھا گیا ہے۔ مجھے آج چندہ تحریک جدید کی اہمیت کا احساس ہوا ہے۔ میرا دل کہتا ہے کہ میں نے جو وعدہ لکھوایا ہے وہ کم ہے اس لئے میرا وعدہ ڈبل کر دیں۔ موصوفہ بہت نیک اور مخلص احمدی خاتون ہیں۔ چھ سال قبل انہوں نے احمدیت قبول کی تھی۔

محمد شہاب انسپکٹر تحریک جدید آندھرا پردیش لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ سکندرآباد کی ایک مخلص خاتون نے تحریک جدید کے باب میں مالی قربانی کی ایک نیک مثال قائم کی ہے۔ موصوفہ کے شوہر گزشتہ سال بعارضہ قلب لمبا عرصہ ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ بہت زیادہ زیرِ بار آ جانے کی وجہ سے اپنا چندہ تحریک جدید ادا نہیں کر سکتے تھے۔ عنقریب ان کی بیٹی کی شادی بھی ہونے والی تھی۔ سیکرٹری صاحب تحریکِ جدیدنے اُن کی اہلیہ کو چندے کی ادائیگی کی تحریک کی تو موصوفہ نے فوراً رقم ادا کر دی اور کہا کہ اس کا ذکر میرے شوہر سے نہ کرنا کیونکہ یہ رقم میں نے اپنی بیٹی کی شادی کے تحائف سے اُس کی رضا مندی سے ادا کی ہے۔

ایسی قربانی کرنے والوں کی وہاں کی جماعت کو بھی فوری طور پر مدد کرنی چاہئے۔

جماعت احمدیہ کوئمبٹور کے دو مخلص احمدی نوجوان مشترکہ کاروبار کرتے ہیں۔ یہ لکھتے ہیں گزشتہ سال تحریکِ جدید میں ہم دونوں کے وعدے دس دس ہزار روپے تھے۔ امسال ہم دونوں نے اپنے وعدے ایک ایک لاکھ روپے اضافے کے ساتھ لکھوائے اور ادائیگی کی توفیق ملنے کے لئے انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا۔ کہتے ہیں کاروبار بھی بہت کمزور رہا۔ اس وجہ سے بہت فکر پیدا ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا کہ ایک ایسا سودا ہوا جس سے پورے دو لاکھ بیس ہزار روپے کا منافع ہو گیا اور دونوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔

سماڑا سرکل راجھستان کی ایک نوجوان احمدی خاتون مسماۃ ضمیری بیگم گاؤں والوں کی بکریاں چرا کر گزارا کرتی ہیں۔ چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کرنے پر موصوفہ نے بکریاں چرانے سے ملنے والی مزدوری اور جو کچھ اُن کی تھیلی میں پہلے سے موجود تھا وہ سب اُسی وقت چندہ تحریکِ جدید میں ادا کر دیا۔

تو جس طرح میں نے کہا یہ غریبوں کے قربانی کے معیار اُن لوگوں سے بہت بلند ہیں جو امیر ہیں۔ اسی طرح جماعت احمدیہ نامانہ سرکل کوٹا (راجھستان) کی ایک نو احمدی خاتون سے چندہ تحریک جدید کا مطالبہ کرنے پر انہوں نے اپنی بچی سے (جو چودہ سال کی عمر کی بچی تھی) کہا کہ پچاس روپیہ دے دو۔ بچی نے جواب دیا کہ میرے پاس ایک سو روپیہ ہے میں وہی چندہ دوں گی۔ چنانچہ ماں کے منع کرنے کے باوجود بچی نے ایک سو روپیہ چندہ ادا کر دیا۔ یہ انڈیا کے مخلصین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے انڈیا میں بھی مالی قربانی کا معیار بہت بڑھ رہا ہے گو مرکز وہاں کافی خرچ کر تا ہے لیکن اس کے باوجود وہ خود بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔ اللہ کرے کہ امراء اور امیر جماعتیں جو ہیں، وہ اپنے کمزور بھائیوں اور چھوٹی جماعتوں کو ہمیشہ اپنے ساتھ آگے بڑھانے اور جماعتی ترقی کی روح کو قائم رکھنے والے ہوں تاکہ اسلام کی حقیقی تعلیم دنیا میں جاری ہو کیونکہ ہم سب اکٹھے آگے قدم بڑھائیں گے تو تبھی دنیا میں اسلام کا حقیقی پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ مسلم اُمّہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو پہچاننے والی ہو تا کہ دنیا میں حقیقی بھائی چارے اور محبت کی فضا قائم ہو جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا تمام دنیا پر لہرانے لگے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 9؍ نومبر 2012ء شہ سرخیاں

    حقیقی مومن وہی ہے کہ جب وہ ترقی کرتا ہے تو باقی افرادِ جماعت کی ترقی کے لئے بھی کوشاں ہوتا ہے، اُن کے لئے کوشش کرتا ہے۔ اُن کو بھی نیکیوں کی دوڑ میں اپنے ساتھ شامل کرتا ہے۔ اُن کے لئے بھی مواقع مہیا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ آگے بڑھیں تا کہ جماعت کی ترقی کا پہیہ تیزی سے آگے کی طرف چلتا چلا جائے۔

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ انسانیت کی خدمت نیکیاں پھیلانے سے ہی ہو سکتی ہے۔

    آج دنیا میں من حیث الجماعت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو رحمۃ للعالمین کی رحمت سے دنیا کو حصہ دلانے اور نیکیاں بکھیرنے کے لئے ہر وقت کوشاں ہے اور اس کا حق ادا کرنے کیلئے اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

    پس آج روئے زمین پر صرف احمدی ہیں، آپ ہیں جو کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاس کا مصداق بن کر فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَات کو قائم کئے ہوئے ہیں، اس پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نیکیوں کے حصول اور اُن میں آگے بڑھتے چلے جانے اور جماعت کی ترقی اور اسلام کا پیغام دنیا کے کونے کونے میں پھیلانے کے لئے جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرتے چلے جانے والے ہیں۔ کوئی دشمن، کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کے راستے میں حائل نہیں ہو سکتی۔

    تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کے چندے تمام کے تمام وہ چندے ہیں جو مرکزی چندے ہوتے ہیں۔ ان کا مقامی یا نیشنل اخراجات پر خرچ نہیں ہو رہا ہوتا۔

    مرکز کے تحت دنیابھر میں ہونے والے کاموں اور اخراجات کا اجمالی تذکرہ۔ یہ جو کام ہیں یہ جماعت کی ترقی کے لئے ہیں۔ دنیا کو اسلام کی تعلیم سے روشناس کرانے کے لئے ہیں۔ انسانیت کی خدمت کے لئے یہ کام ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مالی قربانی کے نہایت درجہ ایمان افروز واقعات کا روح پرور تذکرہ۔

    تحریک جدید کے 79ویں سال کے آغاز کا اعلان۔  اس سال 72لاکھ 15 ہزار 700 پاؤنڈ کی قربانی تحریک جدید میں پیش کی گئی  جو گزشتہ سال سے تقریباً 5 لاکھ 84 ہزار 700 پاؤنڈ زیادہ ہے۔

    پاکستان نے اپنی پوزیشن برقرار رکھی۔ دیگر جماعتوں میں امریکہ اوّل، جرمنی دوم اور برطانیہ تیسرے نمبر پر۔

    اللہ تعالیٰ سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

    فرمودہ مورخہ 09؍نومبر 2012ء بمطابق 09؍ نبوت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور