حافظ احمد جبرئیل سعید صاحب مبلغ گھانا

خطبہ جمعہ 16؍ نومبر 2012ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

ہر انسان جو دنیا میں آتا ہے اُس کا ایک موت کا دن بھی مقرر ہے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں ہر چیز کو فنا ہے لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی خوشخبری دی ہے کہ یہ عارضی دنیا کی زندگی جب ختم ہو گی تو پھر ایک ہمیشہ رہنے والی زندگی شروع ہو گی۔ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اس دنیا میں اپنے اعمال کرنے والے ہوں گے، اللہ تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دیں گے وہ اس دائمی اور اُخروی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے انعاموں کے وارث بنیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش اور رحمت اُنہیں اپنے قرب میں جگہ دے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے وہ کوشش کرتے رہے۔ اُنہوں نے اپنی زندگی کو بامقصد بنانے کی کوشش کی یعنی اُس مقصد کے حصول کی کوشش کی جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے مقرر کیا ہوا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش کی وسعت کسی انسان کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی وجہ سے بھی اُسے اپنی چادر میں لپیٹ لیتی ہے چاہے اُس نے مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش نہ بھی کی ہو۔ لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیتے ہیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے ہر وقت اپنی استعداد کے مطابق کوشش میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی اور اشاعت اُن کا مطمح نظر ہوتی ہے۔ جن کے اعلیٰ اخلاق کے بارے میں ہر چھوٹا بڑا رطب اللّسان ہوتا ہے۔ اُن کے بارے میں تو ہمیں خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جن پر جنّت واجب ہو جاتی ہے۔ یا پھر ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے جنّت کی خوشخبری دی ہے جو اُس کے دین کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کا رتبہ پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بیشک یہ لوگ اس دنیا سے تو چلے گئے، اس عارضی ٹھکانے سے تو رخصت ہو گئے، دنیا کی نظر میں تو مر گئے یا مار لئے گئے یا مارے گئے لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ہمیشہ کی زندگی پا گئے۔ اس لئے ایسے لوگوں کومُردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ ایسے لوگوں کی اس دنیا سے رخصتی پیچھے رہنے والوں کی زندگی کے سامان کرنے والی ہے۔

پس ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر زندگی گزارتے ہیں، اُس کے نام کی سربلندی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور بے خطر ہو کر یہ قربانی دیتے ہیں، وہ جہاں اپنی دائمی زندگی کے سامان کرتے ہیں، وہاں اپنی جماعت، اپنے دینی بھائیوں کو حقیقی اور دائمی زندگی کے اسلوب بھی سکھانے والے ہوتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کی جماعت کے افراد ہی ہیں یا اُن میں سے ایک گروہ اور ایک طبقہ ہے جو ایک طرف تو اشاعت دین اور اسلام کی خاطر مستقل مزاجی سے اپنی زندگیوں کے ہر لمحے کو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنی زندگی کے آخری دم تک لڑتے ہیں اور جان دیتے ہیں یا وہ ہیں جو دین کی خاطر اس جرم کی وجہ سے کہ انہوں نے مسیح محمدی کو کیوں قبول کیا ہے ظالموں کے ظلموں کا نشانہ بن کر شہادت کا رتبہ پا کر خدا تعالیٰ کے حضورحاضر ہو تے ہیں۔ آج مَیں ایسے ہی دو افراد کا ذکر کروں گا۔ یعنی ایک خادم سلسلہ اور دوسرا شہید۔ ایک نے اپنے بچپن سے وفات تک مسیح محمدی کی فوج میں شامل ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا تک پہنچایا۔ اُس پیغام کو پہنچایا جس کی اشاعت کی تکمیل کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدے کے مطابق آپ کے غلام صادق اور مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا تھا۔

پس یہ مخلص اور فدائی خادم سلسلہ جن کا نام حافظ جبرائیل سعید ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کی تکمیل کے لئے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ سرگرداں رہے۔ ایک جوش اور ایک ولولے سے کام کرتے رہے۔ اور یقینا ایک سچے خادم سلسلہ اور حقیقی واقفِ زندگی کی طرح اپنے وقف کے عہد کو پورا کیا۔ وہ خادم سلسلہ جو قادیان اور ربوہ سے ہزاروں میل دُور برّاعظم افریقہ کے ملک گھانا کہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہوا جہاں شاید تعلیم کی بھی صحیح سہولت میسر نہیں تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے باپ کی نیک تمناؤں اور دعاؤں کی وجہ سے اپنے عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری ہوئی کامل اور مکمل کتاب کا حافظ بنا دیا۔ مکمل طور پر اُسے یاد کرنے کی توفیق دی اور نہ صرف حفظ قرآن کے اعزاز سے نوازا بلکہ تفقّہ فی الدّین یعنی دین کا فہم حاصل کرنے والوں کی صف میں کھڑا کر کے قرآنِ کریم کی عظیم تعلیم کو اپنے ہم قوموں اور غیر قوموں تک پہنچانے کی خدمت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے فضل سے نوازا۔ اور یوں گھانا کا یہ باوفا مخلص سپوت خلفائے وقت کا سلطانِ نصیر بن کر جماعت احمدیہ گھانا کو بہت سے اعزازات سے نواز گیا۔ حافظ جبرائیل سعید صاحب کی گزشتہ دنوں گھانا میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے بارے میں مزید کچھ تفاصیل ہیں، وہ مَیں بیان کرتا ہوں۔ مکرم حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب گھانا میں مبلغ سلسلہ بھی تھے اور نائب امیر ثالث بھی تھے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا 9؍نومبر 2012 ء کو جمعۃ المبارک کے دن ان کی کورلے بو (KORLE BO) ہسپتال اکرامیں ایک ماہ کی علالت کے بعد وفات ہوئی ہے۔ اُس دن مَیں نے دعا کے لئے بھی اعلان کیا تھا لیکن اُس وقت وہ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ کافی عرصے سے بیمار تھے۔ ان کی بیماری کے متعلق غانا کے ڈاکٹرز کی رپورٹ یہاں لندن اور امریکہ کے ڈاکٹرز کو بھجوائی گئی تھی کیونکہ وہاں کے ڈاکٹروں کو بیماری کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی۔ اور ان ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق مزید ٹیسٹ لئے جانے کی کارروائی بھی زیرِ عمل تھی۔ اسی طرح علاج کی غرض سے بیرونِ ملک، لندن یا امریکہ بھجوانے پر بھی غور ہو رہا تھا اور کارروائی ہو رہی تھی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور ان کی اس دوران میں وفات ہو گئی۔ مکرم حافظ صاحب دو فروری 1954ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب سوفو جبرائیل سعید صاحب غانا کے مبلغ تھے جنہوں نے وہیں مشنریز کے ذریعے سے مبلغ کی ٹریننگ لے کر میدانِ عمل میں کام کیا اور بڑے کامیاب مبلغ تھے۔ حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب 1970ء میں حفظ قرآنِ کریم کی غرض سے ربوہ گئے تھے اور مدرسۃ الحفظ میں داخلہ لیا۔ آپ خدا کے فضل سے غانا کے پہلے حافظ قرآن تھے۔ آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ایک موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت آپ سے کلائی پکڑنے کا مقابلہ بھی کیا تھا۔ آپ قرآنِ مجید حفظ کر کے غانا آئے اور چند ماہ بعد پھر دوبارہ جامعہ میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان واپس چلے گئے۔ جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا۔ 1982ء میں شاہد کی ڈگری حاصل کی۔ اسی کے ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے فاضل عربی کا امتحان بھی پاس کیا۔ آپ جب شاہد کا امتحان پاس کر کے گھانا آئے تو 15؍ستمبر 1982ء کو آپ کی تقرری گھانا کے ایک شہر ٹیچی مان میں ہوئی جہاں آپ نے برانگ اہافو ریجن کا چارج سنبھالا اور چار سال کے بعد پھر آپ کو فجی بھجوایا گیا جہاں لمباسا میں آپ کا تقرر ہوا۔ فجی سے اگست 1987ء میں آپ کوطوالو بھجوایا گیا۔ آپ طوالو کے پہلے باقاعدہ مبلغ مقرر ہوئے۔ طوالو میں قیام کے دوران آپ نے ساؤتھ پیسفک کے تین جزائر (جو ملک بھی ہیں ) یعنی مارشل آئی لینڈ، سولومن آئی لینڈ اور مائیکرو نیشیا میں احمدیت کا نفوذ کیا اور جماعتیں قائم کیں۔ اس طرح آپ کو یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ دنیا کے تین ممالک میں احمدیت کا پودا آپ کے ذریعے سے لگا۔ طوالو میں قیام کے دوران 1991ء میں آپ ہمسایہ ملک کریباتی میں تشریف لے گئے اور لمبا عرصہ یہاں بھی قیام کیا۔ اس لحاظ سے آپ ملک کریباتی کے بھی پہلے مبلغ سلسلہ تھے۔ آٹھ سال تک ساؤتھ پیسفک کے جزائر میں تبلیغی خدمات سرانجام دینے کے بعد 1994ء میں واپس گھانا آ گئے یا بھجوا دئیے گئے۔ گھانا واپس آنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے آپ کو نائب امیر جماعت احمدیہ گھانا برائے تبلیغ مقرر کیا اور تا وفات آپ اسی فریضے کو بخوبی سرانجام دے رہے تھے۔ آپ کی نگرانی میں گھانا میں قائم تربیت سینٹر اور تبلیغ سینٹر میں ائمہ کرام اور نومبائعین کی تربیت کے بہت سے کورسز مقرر ہوئے۔ مقامی معلمین یا امام جو جماعت میں شامل ہوتے تھے، اُن کو دین کے علم کی کچھ سُدھ بُدھ تو تھی اس کے علاوہ حقیقی اسلام، اسلام کی حقیقی تعلیم اور جماعت احمدیہ کی روایات کے بارے میں بھی سکھانے کے لئے ریفریشر کورسز ہوتے تھے جس کی نگرانی بھی حافظ صاحب کیا کرتے تھے۔ آپ کی سرکردگی میں بڑی کامیاب تبلیغی مہمات ہوئیں جس کے نتیجے میں جماعت کو بیشمار نئے پھل عطا ہوئے اور نئی جماعتیں بنیں اور نئے سرکٹ بنائے گئے اور ان جماعتوں میں بیشمار مساجد کی تعمیر کروائی گئی بلکہ ایسی جگہیں جو دور دراز علاقے تھے جہاں ایک دو دفعہ بیعتوں کے لئے رابطوں کے بعد ایک لمبا عرصہ جماعت کا، مقامی مرکز کا رابطہ نہیں رہا تھا۔ وہ لوگ غیر احمدی علماء اور دوسرے کچھ لوگوں کے زیرِ اثرجو جماعت سے ورغلانے والے تھے، کچھ دور بھی ہٹ گئے تھے، کچھ تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اتنے ایکٹو (Active)نہیں رہے تھے۔ جب مَیں نے حافظ صاحب پر زور دیا کہ وہ دوبارہ اُن کوقریب لے کر آئیں، رابطے کریں اور جماعت سے اُن کا تعلق مضبوط کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حافظ صاحب نے اس بارے میں بھی بھر پور کوشش کی اور لاکھوں کی تعداد میں ان لوگوں کو دوبارہ جماعت کے نظام میں اس طرح مربوط کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اُن کا جماعت سے ایک مضبوط تعلق قائم ہے اور ایمان اور ایقان میں بڑے مضبوط ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ حافظ صاحب نے جزائر پیسفک میں آباد لوگوں کی طرف سے احمدیت کے متعلق کئے جانے والے مخصوص سوالات(جو اعتراضات ہوتے ہیں ) کو مدّنظر رکھتے ہوئے اُن لوگوں میں تبلیغ کے لئے ایک کتاب بھی لکھی تھی جس کا نام تھا “Islam in the Islands Removing the Impediments”۔

گزشتہ سال 2011ء کے جلسہ سالانہ یوکے میں ’خلافت احمدیہ مسلم جماعت کی امتیازی خصوصیت‘ کے عنوان سے حافظ صاحب نے یہاں تقریر بھی کی تھی۔

گھانا جانے کے بعد انہوں نے جو عرصہ پیسیفک ممالک میں گزاراہے وہاں سے واپس آنے کے بعد بھی حافظ صاحب کو دورہ پر ان ممالک میں بھجوایا جاتا رہا۔ کیونکہ ان کا اچھا اثر و رسوخ تھا اور ان کا تبلیغ اور تربیت کا ڈھنگ بھی بہت اچھا تھا۔ اکتوبر نومبر 2001ء میں آپ نے جزائر اور ممالک کے دورے کئے۔ 2003ء میں بھی آپ کو ساؤتھ پیسفک کے ان جزائر اور ممالک کے دورے پر بھجوایا گیا۔ جو پہلا دورہ 2001ء میں آپ نے کیا ڈیڑھ ماہ کا دورہ تھا، جہاں جا کے آپ نے ان ممالک میں مضبوط رابطے کئے جس میں ویسٹرن ساموآ، ٹونگا، کریباس، سولومن آئی لینڈ، ونواتو اور طوالو شامل ہیں۔ جماعتوں کو یہاں آرگنائز کیا اور مزید بیعتیں حاصل کیں۔ سولومن آئی لینڈ میں حافظ جبرائیل سعید صاحب کے ذریعے 1988ء میں احمدیت کا پودا لگا تھا۔ کچھ عرصہ یہ اور مصروفیات کی وجہ سے، دوسرے جزیروں میں جانے کی وجہ سے وہاں نہیں جا سکے تو انہوں نے اُس وقت حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کو 1991ء میں یہاں ایک رپورٹ بھیجی کہ مَیں یہاں دو سال بعد آیا ہوں اور یہ دیکھا کہ جو کام دوسال قبل کیا تھا، وہ تمام کا تمام ختم ہو گیا۔ فجی سے مسلم لیگ کا ایک بزنس مَین آیا اور تمام افراد کے دل میں شکوک و شبہات پیدا کر کے جماعت سے متنفر کر دیا۔ مَیں اپنے کام پر پانی پھرا دیکھ کر بالکل ہل گیا ہوں۔ لکھتے ہیں کہ حضور یہ میرا قصور ہے اور مَیں نہایت عاجزی سے آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ دیگر جزائر میں مصروفیت کے باعث میں یہاں نہیں آ سکا۔ گزشتہ سال یہاں کاپروگرام تھا لیکن ارشاد موصول ہوا تھا کہ دسمبر تک کریباتی میں ہی رہوں۔ پھر خلیفہ رابعؒ کو لکھتے ہیں کہ حضور پھر سے دوبارہ کام کا آغاز کرنا ہے۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے اور مسلم لیگ جسے کویت کی حمایت حاصل ہے، جسے مسلمانوں نے پیسہ لگا کر وہاں بھیجا تھا حالانکہ اسلام اِن کے ذریعے سے وہاں پہنچا، اُن کو ہم شکست دے سکیں۔ خیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے اس پر ان سے کافی افسوس اور ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔ اس کے بعد تو حافظ صاحب ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھے اور مصمّم ارادہ کیا کہ جو کچھ کھویا گیا ہے وہ سب واپس حاصل کریں گے۔ اس طرح مسلسل دو سال محنت کرتے رہے اور اس علاقے میں دوبارہ سے احمدیت کا پودا لگا کر دم لیا۔ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایک مضبوط جماعت قائم ہے اور یہاں پر احمدیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے اور ان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اعلیٰ عہدیداران سے مل کر جماعت کی رجسٹریشن کے کام سے لے کر جماعتی عاملہ کی تشکیل اور ٹریننگ کا کام بھی حافظ صاحب نے کیا۔ حافظ صاحب نے بعد ازاں مختلف دورہ جات میں اس جماعت کی مضبوطی اور استحکام میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ اب یہاں جیسا کہ مَیں نے کہا رجسٹریشن بھی ہو چکی ہے۔ جماعت کا باقاعدہ مشن ہاؤس ہے اور مسجد بھی ہے۔ جب مَیں 2005ء میں آسٹریلیا گیا ہوں تو صدر صاحب سولومن آئی لینڈ مبشر مارٹنگا سو صاحب وہاں آئے تھے۔ انہوں نے وہاں مجھ سے ملاقات کی اور بتایا کہ مَیں نے حافظ جبرائیل سعید صاحب کے ذریعہ 1994ء میں احمدیت قبول کی تھی۔ پھر انہوں نے بتایا کہ ہمارے اس ملک میں احمدیت کے آنے سے پہلے کوئی مسلمان نہیں تھا، اس طرح جماعت احمدیہ کے ذریعے اس ملک میں پہلی بار اسلام داخل ہوا اور یہ سعادت حافظ جبرائیل سعید صاحب کے حصہ میں آئی۔

اپنی ایک پرانی رپورٹ میں حافظ صاحب ذکر کرتے ہیں کہ 9؍ستمبر 2001ء کو فجی پہنچا۔ وہاں سے 10؍ستمبر کو مارشل آئی لینڈ کے لئے روانہ ہو کر کریباس میں دو یوم ٹرانزٹ کے طور پر قیام کیا۔ چنانچہ 11ستمبر کو جبکہ مَیں ابھی ٹرانزٹ میں ہی تھا تو امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر والاجو واقعہ تھا وہ پیش آ گیا۔ چونکہ مارشل آئی لینڈ میں امریکہ کا بہت بڑا فوجی اڈہ ہے اور اس ملک کا دفاعی نظام امریکہ کے ہاتھ میں ہے اس لئے طبعاً یہ فکر لاحق ہوئی کہ پتہ نہیں اب کیا صورتحال ہو کیونکہ خاکسار کو یاد ہے کہ دس سال قبل جبکہ خلیج کی جنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت خاکسار یہاں موجود تھا اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بہر حال لکھتے ہیں کہ خاکسار نے بہت دعائیں کیں اور بہت سوچا کہ کچھ انتظار کروں یا ابھی چلا جاؤں۔ مجھے بہت مشورہ دیا گیا کہ حالات خراب ہیں۔ آپ نے تبلیغ کرنے کے لئے بہت غلط وقت کا انتخاب کیا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ فوری طور پر واپس چلے جائیں۔ کہتے ہیں کہ پھرمَیں نے بہت دعائیں کیں کہ خلیفۃ المسیح کے ارشاد پر آیا ہوں۔ اس مقصد کو حاصل کئے بغیر واپس نہیں جاناچاہتا جبکہ حالات بہت خراب ہیں۔ بہر حال کہتے ہیں کہ دعاؤں کے بعد انشراح ہوا کہ ابھی چلا جاؤں یعنی جس کام پہ آیا ہوں وہ کروں۔ خاکسار بذریعہ جہاز مارشل آئی لینڈ چلا گیا۔ امریکہ کے واقعہ کے بعد تمام ائیر پورٹس پر سکیورٹی کافی سخت ہو گئی تھی۔ ائیر پورٹ پہنچا تو وہاں پہلے ہی ایک پاکستانی کو صرف اس وجہ سے ڈیٹین (Detain) کیا ہوا تھا کہ وہ مسلمان تھا۔ کہتے ہیں ان میں سے ایک آفیسر نے میرا پاسپورٹ دیکھا اور پوچھا کہ آپ کیا کام کرتے ہیں۔ مَیں نے بتایا کہ مَیں مشنری ہوں۔ غالباً اُس نے نام سے اندازہ لگا لیا کہ یہ بھی مسلمان ہے۔ چنانچہ اُس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ مَیں نے کہا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں۔ کچھ تأمل کے بعد اُس نے دوبارہ مذہب کا پوچھا۔ مَیں نے پھر وہی جواب دیا کہ مَیں احمدی مسلمان ہوں۔ چنانچہ اُس نے مجھے ایک ماہ کا ویزہ لگا دیا اور اللہ کے فضل سے اُن کو اینٹری (Entry) مل گئی۔

پھر ایک خط میں وہ لکھتے ہیں کہ ان علاقوں میں پہنچنے پر یہ معلوم ہوا کہ خاص طور پر اس وقت میں جبکہ تمام تر میڈیا اسلام کے خلاف برسرِ پیکار ہے اور القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو لے کر اسلام پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے، یہ دورہ نہایت ضروری ہے۔ نیویارک کے واقعہ کی وجہ سے لوگ اسلام کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہ تھے اور اکثر لوگ مسلمانوں کے قریب بھی آنے سے ڈرتے تھے۔ چنانچہ اُس موقع پر میڈیا پر اور دیگر مواقع پر اسلام کا دفاع کرنے کا موقع ملا اور مقامی احمدیوں کو اسلام کے دفاع کے لئے تیار کیا۔ کریباس میں ریڈیو پر اسلام کے خلاف جو پروپیگنڈا شروع ہوا اُس سے ہمارے احمدی کافی پریشان تھے۔ چنانچہ خاکسار نے براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مینیجر سے رابطہ کیا اور وقت لینے کی درخواست کی۔ الحمدللہ کہ مجھے وقت مل گیا۔ چنانچہ خاکسار نے جملہ مسائل القاعدہ، اسلامی نظریہ جہاد کے بارے میں تفصیل سے آگاہی دی۔ الحمدللہ اس کا بہت فائدہ ہوا۔ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت خلیفۂ وقت نے جو بھی فیصلہ کیا تھا اور عین ضرورت پر جزائر کا دورہ کرنے کا جو ارشاد فرمایا تھا(یہ 2001ء کی بات ہے) تو خدا تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف اسلام کا دفاع کرنے کی توفیق ملی بلکہ اس دورے میں 49 نئی بیعتیں بھی حاصل ہوئیں۔ کہاں تو یہ تھا کہ لوگ مسلمانوں کے قریب بھی آنے سے ڈرتے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے 49 نئی بیعتیں بھی مل گئیں۔ پھر کہتے ہیں، الحمد للہ علیٰ ذالک کہ جماعت کو مستحکم کرنے کے لئے عاملہ کا انتخاب اور رجسٹریشن وغیرہ کے جملہ مسائل پر کام کرنے کی توفیق ملی۔

گھانا میں ان کے ساتھ کام کرنے والے مبلغین اور داعیانِ الی اللہ کا کہنا ہے کہ اُنہیں تبلیغ کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ اور اس کے لئے وہ دن رات ایک کر دیتے۔ داعیانِ الی اللہ کی ٹیمیں بھجواتے تو خود اُن کے پیچھے جاتے اور اُن کے ساتھ رہتے۔ چیکنگ کرتے کہ کام کس طرح ہو رہا ہے، کہاں کہاں ہو رہا ہے۔ ان میں بیحد صبر اور برداشت تھی۔ اگر ماتحت غلطی کرتا تو اُسے پیار سے سمجھاتے۔ دوستوں کے کام کاج اور خاندان وغیرہ کا علم ہوتا اور اُن کے گھریلو مسائل وغیرہ حل کرنے میں مدد کرتے۔ اگر کسی مبلغ یعنی مقامی معلمین کے خلاف کوئی شکایت ہوتی توکوشش کرتے کہ اُنہیں فارغ کرنے کے بجائے دوبارہ فعال اور مستعد کیا جائے اور جماعت کے استعمال میں لایا جائے۔ بعض لوگ بڑی جلدی فیصلے کر لیتے ہیں کہ فارغ کرو اور شکایت کرو، اور اس طرح فراغت کی کوشش ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ سے زیادہ کوشش کرتے تھے کہ کسی احمدی سے اور خاص طور پر معلمین سے جتنا استفادہ کیا جاسکتاہے کیا جائے۔

پھر ان کے معلمین ساتھی لکھتے ہیں کہ غیر از جماعت کے بڑے بڑے علماء کے ساتھ تعلقات تھے۔ عید وغیرہ کے موقع پر اُن کو تحائف بھجواتے۔ بیحد مستعد اور فعال تھے۔ شمالی علاقہ جات یعنی گھانا کے شمالی علاقہ جات میں اُن کی وسیع و عریض تبلیغی مہم کا ہی نتیجہ ہے کہ جماعت احمدیہ وہاں پہچانی جاتی ہے۔ گھانا کے شمالی علاقہ میں آج سے بیس سال پہلے یا پچیس سال پہلے جماعت احمدیہ کا نفوذ بڑا مشکل تھا بلکہ ناممکن تھا۔ اِکّا دُکّا کوئی احمدی ہوتے تھے۔ اور کیونکہ دوسرے مسلمانوں کا وہاں زور ہے اور وہاں کے جو امام ہیں وہ شدید مخالفت کرنے والے تھے۔ بلکہ شروع شروع میں جب احمدیت وہاں گئی ہے تو شمال میں ہی یا شمال مغرب میں وہی پہلا علاقہ ہے جہاں ہمارے احمدیوں پر مقدمے بھی چلے اور جرمانے بھی ہوئے، قید بھی کئے گئے۔ لیکن بہر حال اب وہاں بالکل کایا پلٹی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدیں بھی بنتی چلی جا رہی ہیں اور اُنہی مسلمانوں میں سے بلکہ اُن کے اماموں میں سے لوگ جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ تو یہ کہتے ہیں کہ جماعت وہاں پہچانی جاتی ہے۔ یہ حافظ صاحب اکثر لوگوں کو خاموشی کے ساتھ صدقہ و خیرات بھی دیتے رہتے تھے۔ آپ کے تعلقات امیروغریب ہر قسم کے لوگوں کے ساتھ تھے۔ لوگوں کے ذاتی مسائل حل کرنے کی بھر پور کوشش کرتے۔ آپ کو لوگوں سے کام لینے کا خوب سلیقہ آتا تھا۔ گھانا کے امیر اور دولتمند احمدی احباب کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے اور اُن کی مدد سے شمالی علاقہ جات میں مساجد بنوایا کرتے تھے۔ جو اچھے مخیر، کھاتے پیتے احمدی ہیں ان کو تحریک کرتے تھے کہ تم پر اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل فرمایا ہے اور اس فضل کا شکرانہ یہی ہے کہ تم ان غریب علاقوں میں مساجد بنا کے دو۔ چنانچہ وہاں کے مقامی لوگوں نے بہت ساری چھوٹی چھوٹی مساجد ان علاقوں میں بنائی ہیں۔ ایم ٹی اے پر ایک انٹرویو کے دوران آپ نے بتایا کہ وقف اور جماعت کی خدمت ہمارے خون میں ہے۔ ہمارے جینز (Genes) میں ہے۔ میرے والد صاحب گیمبیا میں پہلے مبلغ تھے جن سے مکرم چوہدری محمد شریف صاحب نے چارج لیا تھا۔ پھر میرے والد صاحب کو لائبیریا میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ حافظ جبرائیل سعید صاحب فی الحقیقت خدمت کے جذبے سے معمور تھے۔ ذمہ داری کا احساس تھا۔ چنانچہ اپنی بیماری کے ایام میں بھی انہوں نے جو آخری خط مجھے لکھا، ہسپتال میں آئی سی یو(ICU) میں داخل تھے، آئی سی یو میں عموماً لوگوں کو ہوش کوئی نہیں ہوتی۔ اس میں انتہائی تکلیف میں لکھا کہ’مَیں آئی سی یو سے انتہائی تکلیف سے یہ خط تحریر کر رہا ہوں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ حضور کام بہت زیادہ ہیں اور طاقت بالکل نہیں‘۔ یعنی آخر وقت تک فکر تھی تو صرف یہ کہ کس طرح اسلام اور احمدیت کاپیغام ملک کے کونے کونے میں پہنچ جائے اور تمام گھانین کو مَیں جلد سے جلد احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں لے آؤں۔ آپ نے اپنے ایک انٹرویو میں پاکستان جانے کا واقعہ بھی سنایا جو بڑا دلچسپ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گھانا کی جماعت نے فیصلہ کیا کہ کسی بچے کو قرآنِ مجید حفظ کرنے کے لئے پاکستان بھجوایا جائے۔ چنانچہ سکول کے بچوں کا جائزہ لیا گیا اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ میرا انتخاب ہو گیا۔ میرے والد صاحب نے مجھے پوچھا تو مَیں نے رضا مندی ظاہر کر دی۔ اُس وقت محمد بن صالح صاحب (یہ بھی ہمارے وہاں مبلغ سلسلہ ہیں) اور ابراہیم بن یعقوب صاحب (یہ بھی گھانین مبلغ ہیں جو آجکل ٹرینیڈاڈ میں ہیں) یہ پاکستان بھجوائے جا رہے تھے تا کہ جامعہ احمدیہ میں پڑھ سکیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ ہم تینوں کا میڈیکل چیک اَپ ہوا۔ وہ دونوں تو اس میں پاس ہو گئے مگر میرے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ دبلا پتلا ہے اور وزن میں ہلکا پھلکا ہے۔ پاکستان کے شدید موسمی حالات ہیں اور یہ شدید گرمی اور شدید سردی برداشت نہیں کر سکے گا۔ اس طرح کہتے ہیں کہ مَیں اَن فٹ ہو گیا۔ اس کا میرے والد صاحب کو شدید دکھ ہوا اور وہ دعاؤں میں لگ گئے اور ایک دن گھانا کی جماعت کے اس وقت جو امیر جماعت تھے مکرم عطاء اللہ کلیم صاحب، اُن سے حافظ صاحب کے والد کہنے لگے کہ میرا بیٹا ضرور پاکستان جائے گا۔ تو امیر صاحب نے پوچھا: وہ کیسے؟ والد صاحب کہنے لگے کہ میں تہجد پڑھ رہا تھا تو میرے کانوں میں بڑی واضح آواز آئی ہے۔ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا(النبا: 32)۔ یعنی متقیوں کے لئے کامیابی ہی ہے۔ کہتے ہیں مَیں تو ان دنوں اپنے بیٹے کے لئے بہت دعائیں کر رہا تھا۔ پس یہ خوشخبری میرے بیٹے کے لئے ہے۔ بہر حال کہتے ہیں میرے والد صاحب نے میری صحت کی طرف توجہ کی اور مجھے مارجرین کی شیشی لا کر دی اور کچھ خوراک وغیرہ بھی کہ مَیں کھایا کروں۔ دو یا تین ہفتوں کے بعد مَیں دوبارہ ٹیسٹ کے لئے بھجوایا گیا تو ڈاکٹروں نے مجھے میڈیکلی فِٹ کر دیا اور یہ لکھا کہ لڑکا مکمل طور پر فِٹ ہے، اُسے کوئی مسئلہ نہیں۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب جب بھی مجھے پاکستان میں خط لکھتے تو لکھا کرتے تھے کہ تمہارا جانا خدا کی تقدیر ہے۔ لہٰذا سنجیدگی کے ساتھ پڑھائی کی طرف توجہ دو۔ اور پھر انہوں نے بھی اپنے والد صاحب کی خواہش کو خوب پورا کیا۔ اپنے پیچھے انہوں نے اپنی اہلیہ حنا سعید صاحبہ اور دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں، اُن کا نام ھبہ ارباب اور صبا کوجواور منیر الھادی اور تہمینہ ہیں۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ بچے بھی دینی اور دنیاوی تعلیم میں آگے آئیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا جماعت کے ساتھ تعلق بھی مضبوط ہے۔ سارے بچے دینی تعلیم میں بھی آگے ہیں اور دنیاوی تعلیم میں بھی۔ تین بچے ماسٹرز کر چکے ہیں، ایم ایس سی کر چکے ہیں۔ بلکہ ایک بچی پی ایچ ڈی بھی کر رہی تھی۔ 2007ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکرم حافظ صاحب کو حج پر جانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔

ان کے جامعہ کے ایک ساتھی مکرم الیاس منیر صاحب جو جرمنی میں مربی سلسلہ ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ حافظ جبرائیل سعید صاحب جامعہ میں مجھ سے ایک سال پیچھے تھے مگر بہت آگے نکل گئے۔ اُنہیں مَیں نے بچپن میں ہی ایک چھوٹے سے بچے کی شکل میں دیکھا ہوا ہے جب وہ اپنی معصوم عمر میں قرآنِ کریم حفظ کرنے کے لئے ربوہ کے حفظ کلاس میں داخل ہوئے تھے۔ اُنہیں نہ صرف حفظ قرآن کی سعادت ملی بلکہ نہایت شیریں لحن بھی قدرت نے عطا فرمایا ہوا تھا جس سے جامعہ کے دوران اور اس کے بعد جلسوں کے مواقع پر حاضرین کو محظوظ ہونے کا موقع ملتا رہا۔ کہتے ہیں میں نے اُنہیں بہت قابل اور اپنے کام اور علم پر گرفت رکھنے والا مربی پایا۔ مضبوط وجود کے ساتھ ساتھ نہایت اطاعت گزار اور سعادت مند بھی تھے۔ (کہاں تو وہ کمزور بچے تھے لیکن آہستہ آہستہ جب بڑے ہوئے ہیں، جامعہ سے فارغ ہوئے ہیں تو اُن کا قد بھی تقریباً چھ فٹ کے قریب ہو گیا اور جسم بھی ان کا مضبوط تھا) لکھتے ہیں کہ مرحوم نظام جماعت کو سمجھنے والے اور اُس کی معمولی سے معمولی امر میں بھی پابندی کرنے والے بہت مخلص انسان تھے۔ اسی طرح برداشت کا مادہ بھی بہت تھا۔ ایک مرتبہ کسی دوست نے افریقن سمجھ کر اس خیال سے کہ اُنہیں کونسی پنجابی آتی ہے، اُن کے بارے میں بعض ایسے الفاظ اُن کی موجودگی میں کسی کو ہدایت دیتے ہوئے کہہ دئیے جو مناسب نہیں تھے۔ لیکن انہوں نے باوجود سمجھنے کے اُنہیں احساس تک نہیں ہونے دیا۔

عبدالسمیع خان صاحب ایڈیٹر الفضل لکھتے ہیں کہ حافظ جبرائیل سعید صاحب اور خاکسار 1975ء سے 1982ء تک جامعہ احمدیہ میں کلاس فیلو رہے۔ حافظ صاحب نہایت محنتی اور ذمہ دار اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے اور اساتذہ کا بہت ادب کرنے والے انسان تھے۔ اردو بھی اچھی سیکھ لی تھی اور دیگر کلاس فیلوز کو انگریزی سیکھنے میں مدد کیا کرتے تھے۔ انگریزی عربی تقاریر اور مضمون نویسی میں حصہ لیتے تھے، اچھا مقابلہ ہوتا تھا۔ ہمیشہ خوشی اور بشاشت ان کے چہرے پر کھیلتی رہتی تھی۔ (یقینا یہ خوشی اور بشاشت تو مَیں نے دیکھا ہے۔ کیسے ہی حالات ہوں ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ کبھی مَیں نے اُن کو یہ نہیں دیکھا کہ چہرے پر غم کے آثار ہوں۔ گھانا میں بھی مَیں نے اُن کودیکھا ہے، اس کے بعد یہاں بھی دیکھا ہے) اُنہیں کھیل کا بھی بہت شوق تھا اور فٹ بال اچھا کھیلتے تھے۔ خدام الاحمدیہ کے کاموں میں عمدگی سے حصہ لیتے تھے۔ دوستوں کے ساتھ پرانا تعلق قائم رکھا۔ 2005ء میں قادیان گئے تو وہاں سب دوستوں کی دعوت کی۔

احمد جبرائیل سعید کے بارے میں اَور دوسری رپورٹیں بھی ہیں۔ کہتے ہیں کہ گھانا کے ہمسایہ ملک ٹوگو میں بارڈر کے ساتھ شمالی علاقے میں تبلیغی کام کرنے کی توفیق ملی۔ آپ نے متعدد مرتبہ ان علاقوں کے دورے کئے اور تبلیغی مہمات کیں۔ یہاں مخالفت بھی بڑی تھی۔ چنانچہ آپ کی کوششوں سے ملک ٹوگو کے پانچ علاقوں ممپاگا (MAMPAGA)، ممپروگ (MAMPRUG)، اور مانگو (MAANGU)، اور بولے (BAULE)، اور لیما کارا (LEMAKARA) میں جماعتیں قائم ہوئیں۔ اس طرح آپ نے ملک بورکینا فاسو کے بھی کئی دورے کئے اور یہاں بھی آپ کو جماعتی پروگراموں میں شرکت کے ساتھ بہت سے تبلیغی اور تربیتی کام کرنے کی توفیق ملی۔

فضل اللہ طارق صاحب امیر جماعت فجی لکھتے ہیں کہ جب حافظ جبرائیل سعید صاحب 2003ء میں فجی تشریف لائے توکہتے ہیں اُس وقت میری اُن سے پہلی دفعہ ملاقات ہوئی اور قریب رہنے کا موقع ملا تو پہلی ملاقات میں حافظ صاحب کی ایک اچھی عادت کا مشاہدہ ہو گیا۔ وہ یہ کہ رات کو جب حافظ صاحب کی آنکھ کھلتی تو آپ قرآنِ کریم دہراتے رہتے تھے۔ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ آپ بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے۔ تبلیغ کے میدان میں صاحب تجربہ تھے۔ ہر چھوٹے بڑے سے اس کے مزاج کے مطابق تبلیغی گفتگو کیا کرتے تھے۔ دینی علم کے ساتھ دنیاوی معلومات سے بھی بہرہ مند تھے اور ایک کامیاب مبلغ کی طرح باتوں باتوں میں اسلام کا پیغام پہنچا دیتے تھے۔ آپ کا اندازِ تکلم بہت بے تکلفانہ تھا اور ہنستے مسکراتے ہوئے مشکل سے مشکل بات بھی بڑے آرام سے کر لیتے تھے۔

کریباتی کے مبلغ ابراہیم اے کے آر کوصاحب اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب کریباتی، طوالو اور دیگر جزائر میں تبلیغ کی خاطر بہت کثرت کے ساتھ دورہ جات کرتے اور اُن کی فیملی پیچھے بالکل اکیلی رہتی۔ مختلف جگہوں میں دوروں پرجاتے اور کبھی فیملی کی پرواہ نہ کرتے بلکہ کہتے تھے کہ اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے خلیفۃ المسیح نے میرا انتخاب کیا ہے اور مجھے یہاں بھجوایا ہے۔ خلیفۃ المسیح میرے لئے دعا بھی کرتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے تبلیغ کا کبھی بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا اور ہر وقت یہی کوشش ہوتی کہ وہ خلیفہ وقت کی توقعات پر پورا اتر سکیں۔ جب ان کا تقرر واپس گھانا میں ہوا تو انہوں نے ان جزائر ممالک کے ساتھ اپنا ناطہ نہ توڑا بلکہ ان جزائر میں تبلیغ کے حوالے سے بہت فکر رہتی تھی۔ 2010ء میں جب مَیں نے دوبارہ بھی ان کو دورے پر بھجوایا ہے تو بڑا وسیع دورہ کر کے آئے تھے اور بڑی معلومات لے کر آئے اور وہاں جماعت کے نظام کوبڑا Establish کر کے آئے تھے۔

مبلغ کریباتی لکھتے ہیں کہ حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب نے اپنی بیماری کے آخری ایام میں مکرم انیس کلاٹا صاحب مرحوم جو کریباتی کے پہلے احمدی تھے، اُن کی اہلیہ کو فون کیا اور اُن کو جماعت کے ساتھ رابطہ رکھنے کی تلقین کی۔ یہ ہسپتال سے وہاں فون کر رہے ہیں جب بیمار کو بیماری کی فکر ہوتی ہے اور وہ بھی ایک دور دراز علاقے کے جزیرے میں۔ کہتے ہیں کہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت آپ کو عطا فرمائی ہے اور آپ لوگوں کو اسلام تلاش کرنے کے لئے کوئی سفر نہیں کرنے پڑے بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے گھروں میں اسلام پہنچا کر آپ پر بہت فضل کیا ہے۔ اس لئے کبھی بھی جماعت کو نہیں چھوڑنا۔

احمد جبرائیل سعید صاحب کے ذریعے جن احباب نے بیعتیں کیں ان میں ایک میڈیکل ڈاکٹر علی بریبو صاحب بھی ہیں جنہوں نے اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی۔ اُن کے دونوں بیٹے بھی اس وقت میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ موصوف کریباتی زبان کے ماہر ہیں اور اس وقت کریباتی زبان میں قرآنِ کریم کا ترجمہ بھی کر رہے ہیں بلکہ مکمل کر لیا ہے اور اب اُس کی ریویژن ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ احمدیت کے اس مایہ ناز فرزند کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے۔ خلافت احمدیہ کو ان جیسے سینکڑوں ہزاروں سلطان نصیر عطا فرمائے۔ ان جیسے قابل، عاجز اور وفا شعار خادم سلسلہ کے رخصت ہونے کا غم بہت زیادہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا ہی ایک مومن کی شان اور شیوہ ہے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہماری دعا اور سہارا ہے۔ اُن کے رخصت ہونے سے بشری تقاضے کے تحت جو مجھے فکر ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُسے بھی دور فرمائے۔ گھانا میں بھی اب مدرسۃ الحفظ قائم ہو چکا ہے۔ بلکہ میرا خیال ہے کچھ حفاظ کی کلاس وہاں سے نکل بھی چکی ہے اور مبلغین یعنی شاہد مبلغین تیار کرنے کے لئے جامعہ احمدیہ بھی شروع ہو چکا ہے جو کم از کم افریقن، جو ویسٹ افریقن ریجن ہے یا شاید سارے افریقہ کو ہی سنبھالے گا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اُس میں سے بھی حافظ صاحب جیسے بلکہ اُن سے بڑھ کر خادمِ سلسلہ پیدا ہوں اور یہ تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے ہوں۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہونے والوں میں سے دو کا ذکر کروں گا تو دوسرے مخلص جن کا ذکر کرنا ہے وہ ہیں جنہیں گزشتہ دنوں کوئٹہ میں شہادت کا رتبہ ملا۔ اور یہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہوئے جن کے بارے میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتاً بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ (سورۃ آل عمران آیت 170)۔ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے اُن کو ہرگزمُردے گمان نہ کرو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور اُن کو اپنے رب کے ہاں رزق عطا کیا جارہا ہے۔

پس جیسا کہ مَیں نے کہا کہ یہ اعزاز آج صرف افرادِ جماعت احمدیہ کو ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں قتل کئے جا رہے ہیں جو اپنے ایمانوں کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں پہلے بھی کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ دشمن کے قتل و غارت کے یہ ہتھکنڈے احمدی کو اُس کے دین سے منحرف نہیں کر سکتے۔ انشاء اللہ۔

یہ شہید جنہوں نے کوئٹہ میں یہ اعزاز حاصل کیاہے ان کا نام مکرم منظور احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب ہے جن کو 11؍نومبر 2012ء کو سیٹلائٹ ٹاؤن کوئٹہ میں شہید کیا گیا۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد مکرم نواب خان صاحب کی پڑدادی محترمہ بھاگ بھری صاحبہ المعروف محترمہ بھاگو صاحبہ کے ذریعے ہوا۔ محترمہ بھاگو صاحبہ قادیان کے قریب ننگل کی رہنے والی تھیں۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اس طرح آپ صحابیہ تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ خاندان ہجرت کر کے ضلع ساہیوال رہائش پذیر ہوا۔ 1965ء میں کوئٹہ چلا گیا۔ منظور احمد صاحب شہید 1978ء میں کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد 1996ء میں اپنا کام شروع کیا اور ہارڈویئر کی دوکان بنائی۔ تھوڑے عرصے میں اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں نمایاں برکت دی۔ شہادت کا واقعہ ان کا یوں ہے کہ مرحوم 11؍نومبر 2012ء کی صبح آٹھ بجے کے قریب اپنے گھر واقع سیٹلائٹ ٹاؤن سے اپنی دوکان پر(جو کہ قریب ہی ہے) جانے کے لئے پیدل گھر سے نکلے ہی تھے کہ دو موٹر سائیکل سوار افراد آئے جن میں سے ایک شخص موٹر سائیکل سے اتر کر منظور احمد صاحب کی طرف بڑھا اور گولی چلانے کی کوشش کی لیکن قریب ہونے کی وجہ سے منظور صاحب سے اس کی مڈھ بھیڑ ہو گئی۔ وہاں لڑائی شروع ہو گئی۔ انہوں نے اُس کو قابو کرنے کی کوشش کی اور منظور احمد صاحب اُس سے چھوٹ کر پیچھے گھر کی طرف بھاگے، کیونکہ وہ دو تھے اس لئے بچت یہی تھی کہ گھر آ جاتے۔ گھر کے گیٹ کے ستون کے ساتھ اُن کا گھٹنا ٹکرایا جس کی وجہ سے وہ نیچے گر گئے۔ جس پر حملہ آور اُن کے پیچھے آیا اور منظور صاحب کے گرنے پر اُس نے اُن پر گولیاں چلائیں۔ ایک گولی سرسے رگڑ کھا کر گزر گئی جبکہ دوسری گولی سر کے پچھلے حصہ میں اور آگے ناک اور ماتھے کے درمیان سے نکل گئی جس سے موقع پر ہی شہادت ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم کو کافی عرصے سے مذہبی مخالفت کا سامنا تھا۔ ارد گرد کے دکاندار بھی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ علاقے میں کچھ عرصے سے جماعت کے خلاف بائیکاٹ کی مہم منظم انداز میں چلائی جا رہی ہے۔ حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن کی معروف گول مسجد میں ڈیرہ غازی خان سے ایک مولوی آ کر احمدیوں کے واجب القتل ہونے کے فتوے جاری کرتا رہتا ہے اور پورے علاقے میں اشتعال انگیز لٹریچر تقسیم کر رہا ہے۔

گزشتہ سال شہید مرحوم کی دوکان سے ملحقہ ایک معاند احمدی کی دکان میں آگ لگ گئی۔ ان باتوں سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ یہ دیکھیں کہ اُس کے آگ لگی، اُس کا تمام سامان جل کر راکھ ہو گیا۔ شہید مرحوم کی دکان براہِ راست آگ کی لپیٹ میں تھی مگر اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں ہر لحاظ سے اُس کو محفوظ رکھا حتیٰ کہ باہر پڑے ہوئے پلاسٹک کے بورڈ بھی معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ اس کو دیکھ کر سب حیران تھے لیکن یہ چیزیں ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں۔ شہید مرحوم کو اپنے پورے خاندان سے نہایت شفقت اور محبت کا سلوک تھا۔ خاندان میں کسی کو بھی کسی چیز یا مالی معاونت کی ضرورت ہوتی تو آپ اُس کی ضرورت پوری کرتے تھے۔ نہایت مہمان نواز تھے۔ بطور خاص جماعتی مہمان کو خدمت کے بغیر نہیں آنے دیتے تھے۔ اگر مرکز سے جماعتی مہمان آتے اور کوئی دوسرے احمدی دوست اُن کو اپنا مہمان بنا لیتے تو مہمان کو اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرتے۔ چالیس پچاس افرادِ جماعت کے پروگرام کا گھر پر انتظام کرتے تھے۔ گھر پر ہی اُن کے کھانے کا انتظام بھی کرتے۔ خود مہمان نوازی کرتے۔ جماعتی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ اس وقت بھی وہ نائب قائد حلقہ سیٹلائٹ ٹاؤن، سیکرٹری وقفِ جدید اور سیکرٹری تحریکِ جدید کے علاوہ حلقہ کے سکیورٹی اور اصلاحی کمیٹی کے ممبر کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ شہید اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔ 2007ء میں نظامِ وصیت میں شامل ہوئے۔ شہادت سے ایک ہفتہ قبل شہید مرحوم کے والد صاحب نے خواب میں دیکھا کہ لوگوں کا ہجوم ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کسی کی شادی ہے اور اپنے ہاتھ سے بارات کو روانہ کر رہا ہوں۔ یہ ان کے والد صاحب کہتے ہیں۔ اسی طرح آپ کی اہلیہ نے خواب میں دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں اور میرے بچے اور دیورانی میرے ہمراہ ہیں۔ راستے میں ایک کالاکُتّاحملہ کرتا ہے۔ مَیں اپنی دیورانی کے پیچھے چھپ جاتی ہوں اور کہتی ہوں کہ دعا کریں لیکن وہ کالا کُتا میری شہ رگ سے پکڑ لیتا ہے۔

شہید مرحوم نے پسماندگان میں والد مکرم نواب خان صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ شبانہ منظور صاحبہ اور دو بیٹیاں عزیزہ نعمانہ منظور واقفۂ نو بعمر دس سال اور عزیزہ فائزہ منظور بعمر آٹھ سال اور بیٹا توحید احمد وقفِ نو عمر چھ سال اور ایک بھائی مسعود احمد صاحب اور ہمشیرگان یادگار چھوڑے ہیں۔ شہید مرحوم کی والدہ وفات پا چکی ہیں، دوسری والدہ ان کی حیات ہیں۔ بہر حال ان دونوں مرحومین کے جن کا مَیں نے ذکر کیا ہے، شہید کا اور اُن (حافظ جبرئیل سعید صاحب) کا جنازہ غائب مَیں ابھی جمعہ کی نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔

آجکل پاکستان کے لئے عمومی طور پر بھی دعائیں کریں۔ یہ احمدی شہداء تو اپنے عہدوں اور وفاؤں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے جب احمدیوں کے لئے وہاں سہولتیں پیدا ہوں اور سُکھ کے سانس لے سکیں۔ آج سے اب محرّم بھی شروع ہے اور محرِم میں احمدیوں کے لئے تو پہلے سے بڑھ کر کربلائیں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ یہ خود بھی ایک دوسرے کی قتل و غارت کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ اُس سے سبق سیکھیں، آپس میں مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہا ہے۔ ان کے لئے بھی دعا کریں اور ان دنوں میں، اس محرّم کے مہینہ میں بھی خاص طور پر درود اور صدقات کی طرف بہت زیادہ توجہ دیں۔ امتِ مسلمہ کے لئے آجکل جو سخت حالات ہو رہے ہیں اُس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سچائی کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ یہ لوگ ان مشکلات اور ان عذابوں سے نجات حاصل کر سکیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جس کے ذریعے سے کہا جا سکے کہ مُسلم اُمّہ کے لئے کوئی بچاؤ کا رستہ ہے سوائے اس کے کہ زمانے کے امام کو یہ ماننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 16؍ نومبر 2012ء شہ سرخیاں

    ایسے لوگ جو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر زندگی گزارتے ہیں، اُس کے نام کی  سربلندی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور بے خطر ہو کر یہ قربانی دیتے ہیں، وہ جہاں اپنی دائمی زندگی کے سامان کرتے ہیں، وہاں اپنی جماعت، اپنے دینی بھائیوں کو حقیقی اور دائمی زندگی کے اسلوب بھی سکھانے والے ہوتے ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح محمدی کے ماننے والوں کی جماعت کے افراد ہی ہیں یا اُن میں سے ایک گروہ اور ایک طبقہ ہے جو ایک طرف تو اشاعت دین اور اسلام کی خاطر مستقل مزاجی سے اپنی زندگیوں کے  ہر لمحے کو گزارنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کے لئے اپنی زندگی کے آخری دم تک لڑتے ہیں اور  جان دیتے ہیں یا وہ ہیں جو دین کی خاطر اس جرم کی وجہ سے کہ انہوں نے مسیح محمدی کو کیوں قبول  کیا ہے ظالموں کے ظلموں کا نشانہ بن کر شہادت کا رتبہ پا کر خدا تعالیٰ کے حضورحاضر ہو تے ہیں۔

    مکرم حافظ احمد جبرئیل سعید صاحب مبلغ گھانا کی وفات اور مرحوم کا ذکرخیر۔

    گھانا کا یہ باوفا مخلص سپوت خلفائے وقت کا سلطانِ نصیر بن کر جماعت احمدیہ گھانا کو بہت سے اعزازات سے نواز گیا۔

    اللہ تعالیٰ احمدیت کے اس مایہ ناز فرزند کو اپنی رضا کی جنتوں میں داخل فرمائے۔ خلافت احمدیہ کو ان جیسے سینکڑوں ہزاروں سلطان نصیر عطا فرمائے۔ ان جیسے قابل، عاجز اور وفا شعار خادم سلسلہ کے رخصت ہونے کا غم بہت زیادہ ہے لیکن خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا ہی ایک مومن کی شان اور شیوہ ہے اور اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ہی ہماری دعا اور سہارا ہے۔ اُن کے رخصت ہونے سے بشری تقاضے کے تحت جو مجھے فکر ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اُسے بھی دور فرمائے۔

    مکرم منظور احمد صاحب ابن مکرم نواب خان صاحب آف کوئٹہ کی شہادت اور شہید مرحوم کا ذکر خیر۔

    یہ احمدی شہداء تو اپنے عہدوں اور وفاؤں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد وہ وقت لائے جب احمدیوں کے لئے وہاں سہولتیں پیدا ہوں اور سکھ کے سانس لے سکیں۔

    مکرم حافظ احمد جبرائیل سعید صاحب آف گھانااورمکرم منظور احمد صاحب آف کوئٹہ کی نماز جنازہ غائب

    فرمودہ مورخہ 16؍نومبر 2012ء بمطابق 16؍ نبوت 1391 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور