صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے متفرق ایمان افروز واقعات
خطبہ جمعہ 30؍ نومبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متفرق واقعات پیش کروں گا جن میں صحابہ کا آپ پر کامل یقین اور اُس کے واقعات ہیں۔ پھر صحابہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا جو اثر ہوا، اُن کو پڑھ کر جو اُن کے دل میں سچائی ظاہر ہوئی، ان کے ایک دو واقعات ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے کس طرح خوابوں کے ذریعے رہنمائی فرمائی، وہ واقعات ہیں، ایک ایک واقعہ ہی ہے۔ کیونکہ واقعات لمبے ہیں اس لئے مَیں نے ایک دو لئے ہیں۔ حضرت شیخ زین العابدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہماری بھاوج بیمار ہو گئیں اور سخت بیمار ہوئیں۔ ہم نے سوچا کہ اب سوائے قادیان جانے کے اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ یعنی وہیں لے چلتے ہیں وہاں حضرت خلیفہ اول ہیں، حکمت، اُن سے علاج کرائیں گے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کریں گے اور ساتھ دعا۔ بہر حال کہتے ہیں ہم چل پڑے، والدہ بھی ساتھ تھیں اور بھائی بھی ساتھ تھا۔ راستے میں ہم نے (کیونکہ ہاتھ سے لکھا گیا ہے اس لئے صحیح طرح وہاں سے پڑھا نہیں جاتا۔ بہرحال یہی لکھا ہے کہ) لڑکی کو سمجھایا۔ یعنی اُس بیمار عورت کو کہ حضرت صاحب کہیں گے کہ مولوی نورالدین صاحب سے تمہارا علاج کراتے ہیں مگر تم کہنا کہ میں تو حضور ہی کا علاج چاہتی ہوں، مولوی صاحب سے ہرگز علاج نہیں کرواؤں گی۔ کہتے ہیں جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہی فرمایا کہ مولوی صاحب آپ کا علاج کریں گے۔ مگر اُس لڑکی نے کہا کہ حضور مَیں تو مولوی صاحب کے علاج کرنے کیلئے تیار نہیں۔ حضور خود ہی علاج کریں۔ حضور علیہ السلام نے ایک دوائی لکھ دی اور تین بوتلیں شہد کی گھر سے لا کر دے دیں اور فرمایا کہ مَیں کل لدھیانہ جا رہا ہوں، آپ یہ علاج شروع کریں، بیماری خطرناک ہے اس لئے مجھے بذریعہ خط اطلاع دینا یا خود پہنچنا۔ کہتے ہیں ہم نے وہ نسخہ لے لیا اور حضرت مولانا نورالدین کو دکھایا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ نسخہ اس بیماری والے کے لئے سخت مضر ہے۔ اگر مَیں کسی ایسے مریض کو یہ نسخہ دوں تو وہ ایک منٹ میں مر جائے گا۔ مگر یہ نسخہ حضور کا ہے اس لئے یہ لڑکی ضرور صحت یاب ہو جائے گی۔ چنانچہ ہم نے وہ نسخہ استعمال کروایا اور لڑکی کو دو تین دن میں ہی آرام ہو گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 11صفحہ69-70روایت حضرت شیخ زین العابدین صاحبؓ)
حضرت خلیفہ اولؓ کا بھی تو خیر یہ کامل یقین تھا ہی، اسی لئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ نورالدین جیسے مجھے مل جائیں تو انقلاب پیدا ہو جائیں۔ لیکن اُن دیہاتیوں کا بھی یہ ایمان تھا کہ جیسا بھی نسخہ ہے ہم نے استعمال کرنا ہے اور اسی سے شفا ہو گی اور اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی۔
حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی برادر مولوی امام الدین صاحب سیکھوانی نے حضور سے عرض کیا (حضور مسجد میں اوپر تشریف رکھتے تھے) کہ حضور یہ ہمارا بھائی محمد شریف ہے اور ان کی طرف طاعون کی بیماری کا بہت زور ہے۔ یعنی اُس علاقے میں جہاں سے یہ آئے تھے۔ ان کے لئے دعا کریں۔ تو حضور علیہ السلام نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ طاعون کس طرح ہوتی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ پہلے چوہے مرتے ہیں۔ فرمانے لگے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نوٹس ہے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ حضور! جب سرخ پھوڑا نکلے تو وہ بیمار بچ جاتا ہے اور زرد والا نہیں بچتا۔ حضور نے فرمایا کہ کیا آپ وہاں جایا کرتے ہیں؟مَیں نے عرض کیا، پوچھا کیا مَیں جایا کروں؟ آپ نے فرمایا کہ پرہیز ہی اچھا ہے۔ عام طور پر اُن کے پاس نہ جایا کرو۔ مگر جس کو ایمان حاصل ہے اُس کو کوئی خطرہ نہیں وہ طاعون سے نہ مرے گا۔ مَیں نے عرض کیا کہ میری بیوی طاعون سے مری ہے۔ حضور نے فرمایا معلوم ہوتا ہے مجھ پر اُس کا کامل ایمان نہیں تھا۔ اگر ایمان ہوتا تو وہ ایسی بیماری سے نہ مرتی۔ تو کہتے ہیں میں سمجھ گیا کہ اُس نے بیعت نہیں کی تھی۔ پھر حضور نے فرمایا کہ آپ استغفار پڑھا کریں۔ ہمارا سارا کنبہ بیماری میں مبتلا تھا۔ حضور کو میں نے لکھا تو حضور نے پھر فرمایا کہ استغفار پڑھو اور ہم نے پڑھا اور اللہ کے فضل سے سب اچھے ہو گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ115-116روایت حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیریؓ)
میاں محمد شریف کشمیری صاحب ہی فرماتے ہیں کہ جمال الدین صاحب سیکھوانی ولد میاں صدیق صاحب نے مجھے بتایا کہ مَیں نے خیال کیا کہ جب بادشاہ کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کا یہ الہام ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کہ ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے‘‘ تو کیا ہمیں برکت حاصل نہ ہوگی۔ اُن کی آنکھوں سے پانی بہتا تھا۔ انہوں نے حضور کی پگڑی کا پلہ ایک موقع ملا اُن کو تو آنکھوں پر پھیرا تو آنکھیں اچھی ہو گئیں۔ کہتے ہیں مجھے بھی ککرے تھے آنکھوں میں، میں نے بھی پلّہ اپنی آنکھوں پر پھیرا اور وہ اچھی ہو گئیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد12صفحہ118-119روایت حضرت میاں محمد شریف صاحب کشمیریؓ)
اب یہ ایک واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں کا اثر: بلکہ یہاں دو واقعات ہیں۔ حضرت میاں محمد الدین صاحب ولد میاں نورالدین صاحب فرماتے ہیں، (اپنا بیان دے رہے ہیں پچھلا چلتا چلا آ رہا ہے) کہ پہلے بیان کر چکا ہوں کہ آریہ، برہمو، دہریہ لیکچراروں کے بد اثر نے مجھے اور مجھ جیسے اور اکثروں کو ہلاک کر دیا تھا، یعنی خدا تعالیٰ سے دور لے گئے تھے، اسلام سے دور لے گئے تھے اور ان اثرات کے ماتحت لایعنی زندگی بسر کر رہا تھا کہ براہین احمدیہ پڑھنے کو ملی تو وہ پڑھنی شروع کی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے کتاب پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ بہت سارے ایسے ہیں جن کو یہ توفیق ہی نہیں ملتی اور ضد اُن کی طبیعت میں ہوتی ہے لیکن بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمانا تھا۔ کہتے ہیں مجھے براہین احمدیہ مل گئی، پڑھنی شروع کی۔ پڑھتے پڑھتے جب میں ہستی باری تعالیٰ کے ثبوت کو پڑھتا ہوں، صفحہ 90کے حاشیہ نمبر 2پر اور صفحہ نمبر 149کے حاشیہ نمبر 11 پر پہنچا تو معاً میری دھریت کافور ہو گئی۔ (یہ روحانی خزائن کی پہلی جلد کا صفحہ 78ہے اور ’حاشیہ 2‘ انہوں نے میرا خیال ہے غلطی سے یہاں لکھا ہوا ہے۔ کیونکہ اردو میں پہلے گنتی لکھی جاتی ہے۔ یہ 2نہیں ہے، حاشیہ نمبر 4 ہے۔ اور اسی طرح روحانی خزائن کی جو جلد 1ہے اُس کے صفحہ نمبر 153 میں یہ حوالہ ہے جو چار پانچ صفحے آگے حاشیہ نمبر 11سے شروع ہوتا ہے۔ اس کو پڑھا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کی ہستی کی بات واضح ہوتی ہے۔) بہر حال یہ کہتے ہیں کہ مَیں وہاں پہنچا تو معاً میری دہریت کافور ہو گئی اور میری آنکھ ایسے کھلی جس طرح کوئی سویا ہوا یا مرا ہوا جاگ کر زندہ ہو جاتا ہے۔ سردی کا موسم، جنوری 1893ء کی 19تاریخ تھی۔ آدھی رات کا وقت تھا کہ جب میں ’’ہونا چاہئے‘‘ اور ’’ہے‘‘ کے مقام پر پہنچا۔ (یہاں اللہ تعالیٰ کی ہستی کا بیان ہو رہا ہے۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ ہر چیز جو وجود میں آتی ہے یہ خیال پیدا ہوتا ہے اُس کو بنانے والا کوئی ’ہونا چاہئے‘ اور یہ کہ اس کا بنانے والا کوئی ’ہے‘۔ یہ دو چیزیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی ہیں۔ سو یہ چیز ہے اصل میں جو خدا تعالیٰ کے وجود پرکامل یقین پیدا کرتی ہے۔ بہر حال اس مضمون کی گہرائی تو بہت ہے، تفصیل میں اس وقت تو نہیں جایا جا سکتا۔ براہین احمدیہ میں جو لکھا ہوا ہے وہ پڑھیں) کہتے ہیں بہرحال آدھی رات کا وقت تھا جب مَیں یہ کتاب پڑھ رہا تھا۔ ’’ہونا چاہئے‘‘ اور ’’ہے‘‘ کے مقام پر پہنچا تو پڑھتے ہی معاً توبہ کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور مَیں نے توبہ کر لی۔ کورا گھڑا پانی کا بھرا ہوا صحن میں پڑا تھا۔ یعنی نیا گھڑا ٹھنڈے پانی کا صحن میں پڑا ہوا تھا، جنوری کے دن اور پانی گھڑے کا کتنا یخ ہو گا، تصور کریں۔ اور تختہ سہ پائی میرے پاس تھی، سرد پانی سے لاچا (تہ بند) پاک کیا۔ ٹھنڈے پانی سے اپنا تہ بند جو ہے اُس کو دھویا۔ میرا ملازم مسمّی منگتو سو رہا تھا۔ وہ بھی جب مَیں دھو رہا تھا تو جاگ پڑا اور وہ مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ یہ تہ بند جو ہے، لاچا ہے مجھے دو مَیں دھوتا ہوں۔ مگر مَیں اُس وقت ایسی شراب پی چکا تھا کہ جس کا نشہ مجھے کسی سے کلام کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ آخر منگتو اپنا سارا زور لگا کر خاموش ہو گیا اور کہتے ہیں کہ گیلا تہ بند باندھ کے مَیں نے نماز پڑھنی شروع کی اور منگتو دیکھتا گیا اور محویت کے عالم میں میری نماز اس قدر لمبی ہوئی کہ منگتو جو ملازم تھا وہ تھک کے سو گیا اور مَیں نماز میں مشغول رہا۔ پس یہ نماز براہین نے پڑھائی کہ بعد ازاں اب تک مَیں نے نماز نہیں چھوڑی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے مذکورہ بالا طوطیہ تمہید مَیں نے باندھا تھا۔ یعنی یہ لمبی اور خوبصورت تمہید مَیں نے یہ معجزہ بیان کرنے کے لئے باندھی ہے کہ کس طرح براہین احمدیہ نے میرے اندر ایک انقلاب پیدا کیا۔ کہتے ہیں عین جوانی میں بحالت ناکتخد ا(یعنی میرے جوانی کے دن تھے اور مَیں غیر شادی شدہ بھی تھا) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ ایمان جو ثریا سے شاید اوپر ہی گیا ہو اتھا اتار کر میرے دل پر داخل کیا اور ’’مسلماں را مسلماں باز کردند‘‘ کا مصداق بنایا۔ جس رات میں مَیں بحالت کفر داخل ہوا تھا اس کی صبح مجھ پر بحالت اسلام ہوئی۔ براہین احمدیہ پڑھنے کی وجہ سے۔ اس مسلمانی پر جب میری صبح ہوئی تو مَیں وہ محمد دین نہ تھا جو کل شام تک تھا۔ فطرتاً مجھ میں حیا کی خصلت اچھی تھی۔ فطرت میں یہ تھا میرے اندر حیا تھی لیکن اوباشوں کی صحبت میں عنقا ہو چکی تھی(یعنی ختم ہو گئی تھی غلط لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی وجہ سے۔) اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے مجھے وہی خصلت حیا واپس دی۔ میں اس وقت اس آیت کے پر تو کے تحت مزے لے رہا تھا۔ سورۃ حجرات کی یہ آیت نمبر 7یہاں لکھا ہے لیکن یہ 8,9آیت ہے کہ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً۔ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌَ (الحجرات: 9-8) یعنی اللہ نے تمہارے لئے ایمان کو محبوب بنا دیا اور تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے کراہت پیدا کر دی ہے۔ یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔ اللہ کی طرف سے ایک بڑے فضل اور نعمت کے طور پر یہ ہے۔ اللہ دائمی علم رکھنے والا اور حکمت رکھنے والا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایمان لانے کے ساتھ ہی قرآن کی عظمت اور محبت نے میرے دل میں ڈیرہ لگایا۔ گویا علم شریعت جو ایمان کی جڑ ہے اُس کے حاصل کرنے کا شوق اور فکر دامنگیر ہوا۔ ازاں بعد سال 1893ء، 1894ء میں براہین احمدیہ کا ایک دور ختم کیا جو نمازِ تہجد کے بعد پڑھتا تھا اور پھر آئینہ کمالاتِ اسلام پڑھا جو ’’توضیح المرام‘‘ کی تفسیر ہے۔ حضرت قبلہ منشی مرزا جلال الدین صاحب پنشنر منشی رسالہ نمبر 12ساکن بولانی تحصیل کھاریاں ضلع گجرات دو ماہ کی رخصت لے کر سیالکوٹ چھاؤنی سے بولانی تشریف لائے اور بولانی ہی میں مَیں پٹواری تھا۔ اُن سے پتہ پوچھ کر بیعت کا خط لکھ دیا جس کا جواب مجھے اکتوبر 1894ء میں ملا۔ جس میں لکھا تھا کہ ظاہری بیعت بھی ضروری ہے جو میں نے 5؍جون 1895ء مسجد مبارک کی چھت پر بالا خانے کے دروازے کی چوکھٹ کے مشرقی بازو کے ساتھ حضرت صاحب سے کی۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ46-47روایت حضرت میاں محمد الدین صاحبؓ)
حضرت میاں محمد دین صاحبؓ ولد میاں نورالدین صاحب ہی فرماتے ہیں۔ میرے دل میں گزرا کہ مَیں علمِ دین سے ناواقف ہوں اور مولوی لوگ مجھے تنگ کریں گے۔ مَیں کیا کروں گا اور پوچھنے سے بھی شرم کر رہا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے یا کسی اور سے بھی پوچھنے سے شرم تھی۔ جو آپ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بغیر میرے پوچھے اُس کا جواب دیا۔ کہتے ہیں کہ میرے سوال کہ جب آپ کے بائیں پہلو پر لیٹے ہوئے تھے، مسجد مبارک کے چھت پر محراب میں تھے اور آپ کا سر جانبِ شمال تھا اور مَیں پیٹھ کے پیچھے بیٹھ کر مشرق کی طرف منہ کر کے آپ کو مٹھیاں بھر رہا تھا، دبا رہا تھا۔ پوچھنے سے مجھے شرم تھی لیکن بہر حال مَیں بیٹھا تھا دل میں خیال آیا دباتے ہوئے تو کہتے ہیں لیٹے لیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میری طرف منہ فرمایا اور ایسے بلند لہجہ اور رعب ناک آواز سے فرمایا کہ مَیں کانپ گیا۔ فرمایا ’’ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہو گا‘‘۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد7صفحہ49روایت حضرت میاں محمد الدین صاحبؓ) (پس یہ خزانہ تو آج بھی ہمارے پاس ہے، اسے حاصل کرنے کی، پڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اب تو یہ بہت سی کتابیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکی ہیں۔)
ایک روایت میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک میرے بھائی نواب دین کو خواب آیا کہ حضور نے میرے سے آٹھ آنے کے پیسے مانگے ہیں۔ پھر مَیں اور نواب دین دونوں پیسے دینے گئے اور خواب سنائی تو حضور نے فرمایا کہ اس خواب کے نتیجے میں تم علم پڑھو گے۔ سو جب مولوی سکندر علی ہمارے گاؤں میں آگئے تو اُن سے میں نے اور نواب دین نے بلکہ اور بہت سارے لوگوں نے قرآن مجید پڑھا اور کچھ اُردو کی کتابیں بھی پڑھیں۔ جو حضور کا فرمانا تھا پورا ہو گیا۔ پھر آگے کہتے ہیں کہ ہمارے گاؤں میں ایک پیپل کا درخت تھاجو ہم نے مرزا نظام الدین صاحب کے پاس فروخت کیا تھا اور اُس وقت ہمارے گاؤں میں بیماری طاعون تھی اور ہم نے وہ روپے جو پیپل کی قیمت کے تھے وہ سیر پر آتے وقت حضرت صاحب کے آگے نذر کر دئیے اور حضور راستے سے ہٹ کر ہمارے گاؤں میں مسجد کے پاس آ کر دعا کرنے لگ گئے اور بیماری دور ہو گئی۔ گاؤں میں جو بیماری تھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد1صفحہ56-57روایت حضرت چوہدری فتح محمد صاحبؓ)
حضرت فضل دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی بیعت کا ذکر فرماتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ مَیں پہلے پہل ایک آزادانہ خیال کا آدمی تھا۔ چند سال آزاد خیالی میں گزر گئے۔ بعدہٗ رفتہ رفتہ چند دوستوں کی صحبت سے بہرہ ور ہو کر میں نقشبندی خاندان کا مرید ہو گیا کیونکہ میرے دوست بھی نقشبندی خاندان کے مرید تھے اور وہ ہمارا مرشد ہمارے ہی گاؤں میں رہتا تھا۔ چونکہ یہ خاندان اپنے آپ کو شریعت کا پابند کہلاتا تھا اور اپنا سلسلہ حضرت ابوبکر صدیقؓ سے ملاتا تھا اس واسطے شروع بیعت میں مجھ کو نماز اور روزہ کی سخت تاکید فرمائی اور نماز تہجد کی بھی تاکیداً تاکید فرمائی اور حکم دیا کہ نماز تہجد کبھی بھی نہ چھوڑی جاوے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیا کہ جو خواب آوے وہ کسی سے بیان نہ کی جائے۔ اس عرصے میں مجھ کو کئی خوابیں آئیں اور مَیں نے وہ کسی سے بیان نہ کیں۔ چونکہ مَیں کام معماری کا کرتا تھا بسبب نہ ملنے کام کے مَیں باجازت اپنے مرشد کے بمع بیوی امرتسر چلا گیا اور وہاں ایک مکان کرایہ پر رہنے لگا۔ وہاں ہی کام کرتا تھا۔ عرصہ دو سال کے بعد ایک دن میں نماز تہجد کی پڑھ کر وظائف میں مصروف تھا کہ وظائف کی حالت میں مجھے نیند سی آ گئی اور مَیں جائے نماز پر لیٹ گیا۔ چنانچہ مَیں خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ آسمان سے ایک فوج فرشتوں کی بشکل انسانی میرے ارد گرد کچھ فاصلے پر حلقہ کر کے بیٹھ گئے اور ایک افسر جو عہدہ جرنیلی کا رکھتا تھا، میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ اُس کے بیٹھنے کے بعد ایک تخت زرّیں آسمان سے اترا اور اُس حلقے کے اندر تخت رکھ دیا گیا اور سب فوج تعظیماً کھڑی ہو گئی اور جب میں نے دیکھاتو اس تخت زرّیں پر دو بزرگ ہمشکل اور نورانی شکل اور ہر طرف اُن کے نور ہی نور تھا بیٹھے تھے۔ تب مَیں نے اس افسر سے جو میرے نزدیک تھا پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں؟ تب اُس نے کہا کہ جو بزرگ دائیں طرف تخت پر ہیں وہ خدا کا پیارا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جو بائیں طرف ہیں وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا ابنِ مریم ہیں۔ میں نے کہا ابنِ مریم تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے جو اسرائیل کا نبی تھا۔ اُس نے کہا یہ وہ نہیں، وہ تو فوت ہو چکا۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پیارا ابنِ مریم ہے۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبانِ مبارک سے یہ آوازہ فرمایا اور اس افسر کو فرمایا کہ بلند آواز سے لوگوں کو کہہ دے کہ جب یہ ہمارا ابنِ مریم آوے، اُس کی تابعداری کرنی ضروری ہے اور جس نے تابعداری نہ کی وہ مجھ سے نہیں۔ اس عرصے میں میری بیوی نے مجھے جگا دیا اور کہا کہ صبح کی اذان ہو گئی ہے آپ تہجد کے بعد کبھی سوئے نہیں تھے، اٹھو اور نماز کے لئے مسجد میں جاؤ۔ اُس وقت اپنی بیوی پر میں بہت خفا ہواکہ تو نے مجھ کو کیوں جگایا۔ خیر اگلے روز میں گاؤں کو چلا گیا اور تمام ماجرامَیں نے اپنے خواب کا اپنے مرشد کو کہہ سنایا۔ اُس نے کہا کہ مبارک ہو تم کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔ اور پھر کہا کہ اب ہم غیر کے علاقے میں ہوں گے اور عنقریب ابن مریم نازل ہوں گے۔ یعنی خواب کی تعبیر یہ کی، غیر کے علاقے میں ہوں گے عنقریب ابنِ مریم نازل ہوں گے۔ بلکہ یہ زمانہ مسیح موعود کا ہی زمانہ ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اُس کو پاویں گے۔ یہ مرشدنے جواب دیا۔ کہتے ہیں اس کے بعد مَیں نے محکمہ نہر میں مستری کی ملازمت کی۔ ایک بابو کے ذریعے سے اور اس ملازمت میں کسی کلرک کے ذریعے سے ملازمت کی اور ملازمت میں مجھ کو بہت سی خوابیں آئیں اور بسبب منع کرنے کے (یعنی اُس پیر اور مرشد جو تھا اُس نے منع کیا تھا کہ خوابیں نہیں بتانی) تو منع کرنے کی وجہ سے مَیں نے کسی سے ظاہر نہ کیں۔ پندرہ بیس سال تک مَیں نے ملازمت کی۔ بعد میں ملازمت چھوڑ کر اپنے گاؤں کو چلا گیا اور اپنے گھر پر رہنے لگا۔ لہٰذا ہماری برادری میں سے مولوی محمد چراغ صاحب جو ہمارے استاد بھی تھے اور وہ پکّے اہلحدیث تھے۔ جب مَیں ملازمت چھوڑ کر واپس چلا آیا تو اُن کو مَیں نے احمدی طریقے پر پایا۔ وہ احمدی ہو گئے تھے اور میرے ساتھ حضرت صاحب کے سلسلے کی گفتگو شروع کر دی لیکن مَیں نے کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی کیونکہ مَیں فقیروں کا معتقد تھا اور جانتا تھا کہ فقیر ہی اصل شریعت کے مالک ہیں۔ اس واسطے مَیں نے مولوی صاحب کو کوئی جواب نہ دیا اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہاں آجکل ایسے لوگوں نے دوکانداریاں بنا رکھی ہیں اور خلقِ خدا کو دھوکہ دیتے ہیں۔ لہٰذا مَیں نے ارادہ کیا کہ اپنے مرشد سے تحقیقات کراؤں کہ کیا یہ دعویٰ حضرت صاحب منجانب اللہ ہے یا دھوکہ ہے۔ جب مَیں اُن کے مکان پر گیا اور پیر صاحب کے لڑکے سے دریافت کیا کہ حضرت کہاں ہیں؟ تو اُس نے رو کر جواب دیا کہ وہ مرشد جو تھے ان کے وہ دو ماہ سے فوت ہو گئے ہیں اور ہم آپ کو اُن کی فوتیدگی کی اطلاع دینی بھول گئے، معاف فرمائیں۔ کہتے ہیں مجھے بڑا رنج ہوا اور صدمہ ہوا۔ مَیں روتا دھوتا گھر کو چلا آیا۔ ایک دن پھر مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم خواندہ آدمی ہو، پڑھے لکھے آدمی ہو۔ حضرت صاحب کی تصنیفات دیکھنی چاہئیں۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو تحریرات ہیں، کتابیں ہیں، وہ دیکھنی چاہئیں۔ انہوں نے اُسی وقت مجھے ایک کتاب جس کا اسم شریف جلسہ مذاہب مہوتسو ہے، پڑھنے کو دیا۔ وہ مَیں نے سارا ختم کیا اور پھر انہوں نے مجھ کو براہینِ احمدیہ ہر چہار جلد دیں۔ جب مَیں نے ساری ختم کر لیں تو معاً میرے دل میں بات ڈالی گئی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدنہ کوئی ایسا لائق شخص ہوا ہے اور نہ کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایسی کتاب شائع کی ہے جو تمام غیر مذاہب کو اسلام کی حقانیت پر دعوت دے۔ کہتے ہیں اس کے بعد میرا دل تذبذب میں پڑ گیا۔ دل میں یہ بات پیدا ہو گئی کہ اگر یہ شخص جس نے ایسی چیز دنیا کے سامنے پیش کی ہے سچا ہے تو اگر مَیں نے بیعت کر لی تو سچے کی بیعت کی اور اگر خوانخواستہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہوا تو ایک کاذب کی بیعت میں داخل ہوں گا۔ لہٰذا یہ خیال ایسا پکّا دل میں گڑھ گیا کہ دو ماہ تک اس پر اڑا رہا۔ مولوی صاحب مجھ کو ہرچند سمجھاویں لیکن دل نہ مانے۔ ایک دن ماہِ رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کو مَیں نے خدا تعالیٰ سے بڑے خشوع و خضوع سے یہ دعا کی کہ اے زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے! بواسطہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اگر یہ شخص یعنی مرزا صاحب سچا ہے اور تو نے ہی مامور کر کے دنیا کی اصلاح کے لئے نازل فرمایا ہے تو تُو اپنی ستاری سے مجھ کو کوئی نشان ظاہری یا کسی خواب کے ذریعے دکھا دے۔ اگر مجھ کو کوئی نشان نہ دکھایا تو پھر مجھ پر قیامت کے دن تیری کوئی حجت نہ رہے گی، کیونکہ مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ سچے اور جھوٹے میں امتیاز کر سکوں اور بس۔ جب پندرہ رمضان گزرے تو بعد تہجد میں جائے نماز پر لیٹ گیا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ مَیں اور میرے ساتھ ایک اور آدمی کسی شہر کو چلے ہیں۔ راستے میں ہم کو ایک باغ نظر آیا جو چار دیواری اُس کی قریباً تین فٹ اونچی ہے۔ (باغ کی چار دیواری تین فٹ اونچی ہے) اُس دیوار کے پاس جا کر کیا دیکھتے ہیں کہ باغ گویا بہشت کا نمونہ ہے اور نہریں جاری ہیں لیکن پانی خشک تھوڑا تھوڑا چلتا نظر آ رہا ہے اور عالی شان محل دکھائی دئیے۔ ہم نے ارادہ کیا کہ باغ کے اندر جا کر سیر کریں لہٰذا ہم دونوں چار دیواری پھاند کر اندر جانا چاہتے تھے۔ لیکن ہم نے بہت زور کیا لیکن چاردیواری کو پھاند کر اندر نہ پہنچے۔ پھر ہم نے پختہ ارادہ کر لیا۔ (یہ اپنی خواب سنا رہے ہیں بڑی لمبی خواب ہے) کہ ضرور اندر جانا ہے۔ چلو اب اس کا دروازہ معلوم کریں۔ پھر ہم تین طرف باغ کے پھرے۔ یعنی جنوب و مغرب اور شمال اور ان تینوں طرف سے ہم کو کوئی دروازہ نہ ملا۔ پھر ہم نے کہا کہ چلو مشرق کی طرف چلیں شاید اُس طرف سے ہم کو دروازہ مل جائے۔ جب باغ کے مشرق کی جانب روانہ ہوئے تو ہم کو ایک بزرگ ایک درخت کے سائے میں بیٹھے نظر آئے اور وہ بزرگ اپنے ہاتھ کے اشارے سے ہم کو پکار رہے تھے کہ ادھر آؤ ہم تم کو اس کا دروازہ بتلا دیں اور اگر ہماری طرف نہ آؤ گے تو تم کو تمام عمر دروازہ باغ کا نہ ملے گا۔ جب ہم اس بزرگ کے پاس پہنچے تو معاً مجھ کو وہ خواب جو عرصے سے امرتسر میں آئی تھی وہ یاد آ گئی کہ اس بزرگ کو مَیں نے تخت پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خواب میں دیکھا تھا۔ (اس دوسری خواب میں دوسرے آدمی کو جو دیکھا تھا یہ بزرگ تھے۔ ) چنانچہ مَیں نے پوچھا کہ حضرت آپ کون بزرگ ہیں؟ تو آپ نے اپنی زبانِ مبارک سے یہ فرمایا کہ مَیں ابنِ مریم ہوں اور وہ دیکھو باغ کا دروازہ ہے۔ جاؤ سیر کرو۔ چنانچہ ہم دونوں باغ کے اندر چلے گئے اور خوب سیر کی۔ اتفاقاً مجھ کو پیاس لگی اور مَیں نے اپنے ساتھی کو کہا کہ ہم کو پیاس لگی ہے اور پانی نہروں کا بہت ہی نیچے ہے۔ ہاتھ نہیں پہنچتا، کیا کریں؟ ہم تھکے ہوئے ماندہ ہو کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک لڑکا کوئی دس بارہ سال کی عمر کا ایک محل سے برآمد ہوا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک پیالہ بیضوی شکل تھا اوول جیسا اور اس میں کوئی چیز تھی، میرے ہاتھ پر لا کر رکھ دیا اور کہا کہ لو تم اس کو پی لو۔ چنانچہ مجھ کو پیاس تو تھی مَیں نے اس سے پیالہ لے کرکوئی نصف کے قریب پی گیا اور باقی ماندہ اپنے ساتھی کو دیا۔ اُس لڑکے نے اُس کے ہاتھ سے پیالہ چھین کر مجھ کو دے دیا اور کہا کہ یہ تمہارا حصہ ہے اس کا اس میں حصہ نہیں۔ یعنی دوسرے شخص کا جو خواب میں ان کے ساتھ تھا اُس کا اس میں حصہ نہیں ہے۔ چنانچہ اس بات سے میرا ساتھی شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا کہ چلو بہت دیر ہو گئی ہے۔ ہم نے ابھی دور جانا ہے۔ پس ہم جلدی جلدی دروازے کی طرف آئے۔ میرا ساتھی جلدی سے دروازے کے باہر چلا گیا اور مَیں ابھی اندر ہی تھا کہ ہمارے مولوی صاحب کا لڑکا آیا اور مجھ کو جگا کر کہنے لگا کہ کیا باعث ہے آپ تہجد کے بعد منزل قرآن شریف کی پڑھنے سے آج سو گئے۔ مَیں نے اُس کو خفا ہو کر کہا کہ مَیں ایک عمدہ خواب دیکھ رہا تھا۔ تم نے برا کیا جو جگا دیا۔ اُس نے جواب دیا کہ بندے خدا! صبح کی اذان ہو گئی ہے اور مولوی صاحب مسجد میں جماعت کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ چلو نماز پڑھیں۔ کہتے ہیں لہٰذا ہم دونوں مسجد میں چلے گئے اور وضو کر کے مولوی صاحب کے ساتھ نماز باجماعت پڑھی۔ بعد فراغت نماز مَیں نے یہ تمام حالات خواب کے اور جس طرح سے خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی اور جس طرح سے خدا نے مجھ کو خواب میں تمام حالات بتائے، سب مَیں نے مولوی صاحب سے بیان کر دئیے۔ اور یہ بھی بیان کر دیتا ہوں کہ ان دونوں کے سوائے مَیں نے حضرت مرزا صاحب کو اپنی پہلی تمام عمر میں کبھی نہ دیکھا تھا اور نہ ہی مَیں نے قادیان شریف کو، لہٰذا اس خواب کے بیان کرنے سے مولوی صاحب نے تعبیر میں یہ فرمایا کہ جو آپ نے باغ اور خشک نہریں اور محل وغیرہ دیکھے ہیں اس سے مراد باغ شریعت ہے اور نہریں علمائے زمانہ ہیں جو خشک ہو چکے ہیں ان کے پاس کوئی علم نہیں اب رہا۔ اصل شریعت ان کے پاس نہیں ہے اور محل اور مکان یہ عمل ہیں اور پیالے سے مراد بھی عمل ہیں جن میں کچھ قصور ہیں جو بیضوی ہیں یعنی سیدھے نہیں ہیں اور خواب میں جو مشرق کی طرف اشارہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے گاؤں سے قادیان خاص مشرق میں ہے اور خواہ حدیث مشرق والی سمجھ لیجئے، یعنی مسیح مشرق میں اترے گا۔ وہ بھی حدیث کا حوالہ بھی دے رہے ہیں کہ چاہے وہ سمجھ لو۔ اور وہ بزرگ جس کا آپ نے حلیہ بیان کیا ہے وہ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود ہیں۔ اور ہاتھ کے اشارے سے یہ پتہ ہے کہ جب تک ہمارے سلسلے میں داخل نہ ہو گے تب تک شریعت اسلام اور بہشت کے دروازے کا آپ کو راستہ نہ ملے گا۔ آپ نے جو نشان مانگا تھا۔ یعنی نشان خداوند کریم نے آپ کو دکھا دیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے جمعہ کے دن قادیان جانا ہے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں۔ اگر آپ کی خواب کے مطابق وہ بزرگ حضرت صاحب ہوئے تو مان لینا ورنہ کوئی جبر نہیں ہے۔ الغرض ہم بروز جمعرات قادیان کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس وقت ہم قادیان میں پہنچے مجھ کو سخت بخار ہو گیا اور مولوی صاحب نے حضرت صاحب سے عرض کیا ہمارا لڑکا جو حق کی جستجو میں یہاں آیا ہے وہ روزہ کے ساتھ تھا اس کو بخار ہو گیا ہے۔ حضرت صاحب نے مجھ کو دیکھا اور فرمایا کہ مولوی صاحب! آپ نے اس کو روزہ کے ساتھ سفر کیوں کرنے دیا؟ اگر راستے میں بخار یا کوئی اور مرض ہو جاتی تو آپ کیا کرتے۔ یہ قرآنِ کریم کی منشاء کے خلاف ہے۔ خیر ہم دوائی بھیج دیتے ہیں۔ انشاء اللہ آرام ہو جائے گا۔ دوائی آ گئی۔ معلوم نہیں کہ شاید حامد علی صاحب لے کر آئے۔ دوائی مَیں نے پی لی اور مجھ کو بخار سے بالکل آرام ہو گیا۔ اُس وقت میں نے بخار کی بیہوشی میں حضرت صاحب کو اچھی طرح نہ پہچانا تھا۔ اگلے روز جمعہ تھا۔ ہم وضو کر کے جلدی سے آگے جگہ کے واسطے پہلے ہی چلے گئے اور اول صف میں جگہ مل گئی۔ (پہلی صف میں جگہ مل گئی۔) اوّل مولوی عبدالکریم صاحبؓ اور بعدہٗ مولوی صاحب حضرت خلیفہ اوّلؓ تشریف لائے اور اُن کے بعد حضرت مرزا صاحب تشریف فرما ہوئے اور مَیں نے دیکھتے ہی آپ کوپہچان لیا کہ یہی میری خواب والا بزرگ ہے اور مَیں نے اپنے مولوی صاحب کو بھی کہہ دیا کہ یہی بزرگ ابنِ مریم ہیں جو دو دفعہ خواب میں دیکھے ہیں۔ اب مولوی صاحب کی تسلی ہو گئی اور انہوں نے سمجھا کہ یہ اب خود ہی بیعت کر لے گا۔ چس وقت ہم قادیان کو چلے تھے، اُس وقت ہم چار آدمی تھے، ایک ہم اور دوسرے مولوی صاحب، تیسرے وہی جو خواب میں ہمارے ساتھ تھا، چوتھا ایک شخص کمہار تھا جو بغرض بیعت آیا تھا۔ الغرض خطبہ مولوی عبدالکریم صاحب نے پڑھا اور اغلب ہے کہ جمعہ بھی انہوں نے پڑھایا۔ لہٰذا بعدنماز جمعہ آوازہ ہوا کہ جس نے بیعت کرنی ہے وہ آ کر بیعت کر لے۔ چنانچہ بہت سے لوگ اُس دن بیعت کے لئے آگے ہوئے جن میں سے ہمارا ساتھی وہ چوتھا کمہار بھی تھا۔ جس وقت ہم بیعت کرنے کے واسطے چلے تو ہمارے ساتھی نے جو خواب میں بھی ہمارے ساتھ تھا، بیعت کرنے سے مجھ کو روکا اور یہ وسوسہ ڈال دیا کہ تم مرزا صاحب کی کتابیں دیکھتے رہے ہو، چونکہ وہی خیالات مجسم ہو کر تم کو خواب میں نظر آئے ہیں اور کچھ نہیں۔ باقی خواب تمہاری غلط ہے۔ وسوسہ ڈالا اُس نے۔ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ دھوکہ ہے اور مَیں دماغ کا کمزور تھا۔ کہتے ہیں مَیں دماغ کا کمزور تھا، یعنی باتوں میں آنے والا تھا، اس واسطے اس نے مجھ کو بیعت کرنے سے روکا۔ لہٰذا اگلے روز علی الصبح ہی ہم چار آدمی قادیان سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس وقت ہم لوگ بٹالہ سے آگے جو سڑک علی وال کو جاتی ہے اُس پرایک گاؤں مولے والی کے برابر پہنچے تو پھر مولوی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے بیعت کر لی ہے؟ تو مَیں نے جواب دیا: نہیں۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں کی۔ جب تم کو تمہاری خواب کے مطابق سب کچھ پورا ہو گیا پھر تم نے بیعت کیوں نہ کی۔ مَیں نے جواب میں کہا کہ اس شخص نے مجھ کو روک دیا ہے اور کہا کہ تم کتابیں مرزا صاحب کی دیکھتے رہے ہو، وہی خیالات مجسم ہو کر تمہارے رُو برو خواب میں آگئے ہیں۔ بس اور کچھ نہیں ہے۔ پس یہ سنتے ہی مولوی صاحب ہم سے اور اُس شخص سے جو اُن کا چچازاد بھائی تھا سخت ناراض ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے بس اب ہمارا تمہارا کوئی تعلق استادی شاگردی یا رشتہ داری کا نہیں رہا۔ لہٰذا ہم عصر کی نماز کے وقت اپنے گاؤں پہنچے۔ اُس کے بعد میں چار پانچ دن گاؤں میں رہا لیکن مولوی صاحب ہم سے ناراض ہی رہے۔ اتفاقاً موضع بھانبڑی سے مجھ کو بابو جان محمد کا خط آیا کہ میں تبدیل ہو کر کوٹھی نہر ہرچوال میں آ گیا ہوں اور میرے پاس کام بہت ہے اور میں نے سنا ہے کہ آپ نوکری چھوڑ کر آ گئے ہیں۔ لہٰذا خط دیکھتے ہی موضع بھانبڑی یا کوٹھی ہرچوال میں ضرور بالضرور آ جائیں۔ خیر میرا بھی دل اُداس تھا۔ میں خط کے اگلے دن بمقام کوٹھی ہرچوال (ہرچوال نہر کا جو بنگلہ ہوتا ہے) وہاں براستہ قادیان پہنچ گیا، اور بابو صاحب بخندہ پیشانی خاطر تواضع سے پیش آئے۔ اگلے روز میرے سپرد کام کیا گیا اور میں مصروف ہو گیا۔ جب تیسرا دن ہوا تو مجھ کو پھر تیسرا خواب آیا اور وہ یہ تھا کہ خواب میں حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پاس آ کر بیٹھ گئے اور میں اُٹھ کر واسطے تعظیم کے جو گدی نشینوں میں دستور ہے، پاؤں چومنے کے لئے اپنے سر کو جھکایا۔ لیکن حضرت صاحب نے مجھ کو اپنے دستِ مبارک سے روک دیا اور فرمایا یہ شرک ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ دیکھو میاں فضل دین! تم نے خدا سے بذریعہ دعا نشان مانگا تھا کہ اگر مجھ کو ظاہری یا خواب کے ذریعہ سے نشان نہ دیا گیا تو قیامت کو مجھ پر خداوند بندہ تیری حجت نہیں ہو گی کہ تم نے مسیح موعود کو کیوں نہیں مانا۔ پس اب تم کو نشان مل گیا اور تم پر حجت قائم ہو گئی۔ اتنی ہی بات کہہ کر آپ چل دئیے اور میں خواب سے بیدار ہو کر رونے لگا اور اتنا رویا کہ آنسوؤں سے میرا گریبان تر بتر ہو گیا۔ اور اُسی وقت میں بغیر اطلاع بابو صاحب قادیان کو ننگے پاؤں اُٹھ کے بھاگا (جوتی بھی نہیں پہنی) ایک شخص جو مجھ کو بھاگتا دیکھ رہا تھا اُس نے بابو صاحب کو جا کر کہہ دیا کہ مستری صاحب اپنے گاؤں کو بھاگا جاتا ہے۔ اُسی وقت بابو صاحب گھوڑی پر سوار ہو کر میرے پیچھے بھاگے اور مجھ کو ہرچوال نہر کے پل پر پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ بغیر اجازت اپنے گاؤں کو بھاگے جا رہے ہو، خیر ہے؟ میں نے کہا کہ مجھ کو چھوڑ دو میں قادیان جا رہا ہوں، گاؤں نہیں جا رہا۔ پس قادیان کا نام سن کو وہ آگ بگولہ ہو گیا کیونکہ وہ بھی مخالف تھا اور اب تک بھی مخالف ہی ہے۔ غرض وہ چھوڑتا نہیں تھا اور میں اصرار کر رہا تھا اور میں نے عاجزی سے کہا کہ بابو صاحب! مجھ کو جانے دو ورنہ میں یہاں ہی دَم دے دوں گا(جان دے دوں گا۔) کیونکہ یہ میرے بَس کی بات نہیں ہے۔ ایک زور آور ہستی مجھ کو جبراً لے جا رہی ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ تیسرے دن کے بعد حاضر خدمت ہو جاؤں گا۔ خیر اُس نے مجھے چھوڑ دیا اور میں دل میں کہتا تھا کہ مرزا صاحب سچے ہیں کہ میرے دل کی بات انہوں نے بتا دی کہ تم پر حجت قائم ہو گئی۔ پس میں قادیان میں آ گیا اور اب جہاں بکڈپو کا دفتر ہے اُس کے پیچھے پریس ہوتا تھا۔ کنوئیں کے پاس، وہاں مرزا اسماعیل پریس میں کام کرتا تھا۔ اُس سے کہا کہ میں نے مرزا صاحب کو ملنا ہے۔ اُس نے کہا کہ نماز ظہر کے وقت مسجد مبارک میں آپ تشریف لاتے ہیں، وہاں پر آپ ملاقات کریں۔ اُس دن آپ ظہر کے وقت تشریف نہ لائے اور مغرب کے وقت آپ تشریف فرما ہوئے اور میں دیدار سے مشرف ہوااور عرض کی، حضور! مَیں نے بیعت کرنی ہے۔ حضور نے کہا کہ تیسرے دن کے بعد بیعت لی جائے گی۔ القصہ میں تین دن تک رہااور تیسرے دن میں نے اور میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق اور تیسرا اور آدمی تھا جس کا مجھے نام معلوم نہیں، شاید مولوی سرور شاہ صاحب ہوں گے، تینوں نے بیعت کی اور سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7صفحہ16تا22روایت حضرت فضل دین صاحبؓ)
تو اس طرح بھی اللہ تعالیٰ لوگوں کی بیعتیں کرواتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ہمارا تبلیغ کا بہت سارا کام تو فرشتے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام صحابہ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی نسلوں کو بھی اپنے بزرگوں کی نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اس وقت میں ایک شہیدکا بھی ذکر کرنا چاہتا ہوں اور ان کا جنازہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ جمعہ کی نماز کے بعد پڑھاؤں گا جو مکرم و محترم چوہدی نصرت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری منظور احمد صاحب گوندل ہیں۔ ان کا خاندانی تعارف یہ ہے کہ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابی تھے، کے ذریعہ سے ہوا جو شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری اخلاص احمد صاحب کے کزن تھے۔ بعد میں اُن کی کوششوں سے چوہدری اخلاص احمد صاحب نے بھی خلافت اولیٰ میں بیعت کی تھی۔ آپ کے خاندان کا تعلق بہلول پور ضلع سیالکوٹ سے تھا۔ چوہدری نصرت صاحب بڑا لمبا عرصہ قریباً تیس سال منڈی بہاؤالدین رہے اور 2008ء میں اپنی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ لانگ آئی لینڈ نیویارک امریکہ میں چلے گئے۔ وہاں شہریت اختیار کر لی۔ نصرت محمود صاحب چھ مارچ 1949ء کو بہلول پور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر مرےؔ کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کیا۔ پھر شاہ تاج شوگر مل منڈی بہاؤالدین میں ملازمت کی۔ تقریباً 35سال وہاں بطور مینیجر کام کیا۔ پھر جیسا کہ مَیں نے بتایا آپ امریکہ شفٹ ہو گئے۔ یہ ستمبر میں اپنی چھوٹی صاحبزادی شائزہ محمودہ صاحبہ کی شادی کے سلسلے میں امریکہ سے پاکستان آئے تھے۔ 5؍اکتوبر 2012ء کو شائزہ محمودہ صاحبہ کی شادی سعد فاروق صاحب شہید کے ساتھ ہوئی، جن کو شادی کے تیسرے دن شہید کر دیا گیا تھا جو فاروق احمد صاحب کاہلوں کے بیٹے تھے۔ اور 19؍اکتوبر کو جمعہ کے دن سعد فاروق صاحب شہید ہوئے۔ جیسا کہ میں نے سعد فاروق کے جنازے پر بھی بتایا تھا ان کے سمدھی محترم فاروق احمد کاہلوں صاحب اور چند دیگر افرادِ خاندان کے ساتھ یہ لوگ بیت الحمد بلدیہ ٹاؤن سے نمازِ جمعہ کی ادائیگی کے بعد گھر واپس آ رہے تھے کہ نامعلوم افرادنے آپ لوگوں پر فائرنگ کر دی۔ سعد فاروق صاحب تو جو موٹر سائیکل پر تھے موقع پر شہید ہو گئے، دو تین ہفتہ پہلے اُن کا جنازہ پڑھا گیا تھا۔ دیگر دو افراد زخمی ہوئے تھے۔ ایک گولی آپ کی گردن میں لگی اور دو گولیاں آپ کے، چوہدری نصرت محمود صاحب کے سینے پر لگی تھیں۔ فوری طور پر آپ کو ہسپتال لے جایا گیا اور وہاں سے پہلے عباسی شہید ہسپتال پھر آغا خان میں شفٹ کیا گیا۔ تقریباً اڑتیس(38) دن آپ زیرِ علاج رہے اور آخر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے (اور ان کے زخم مزید خراب بھی ہو گئے تھے) 27؍نومبر کو منگل کے دن رات گیارہ بجے اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور شہادت کا رُتبہ پایا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ شہید مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے اور آپ کو خدمتِ دین کا بیحد شوق تھا۔ منڈی بہاؤالدین میں قیام کے دوران آپ کو بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری دعوتِ الی اللہ اور دیگر مختلف عہدہ جات پر خدمت کی توفیق ملی۔ 2008ء میں امریکہ شفٹ ہونے کے بعد لانگ آئی لینڈ، نیویارک امریکہ میں آپ کو بطور سیکرٹری تربیت خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔ مرحوم انتہائی مخلص اور ایماندار شخصیت کے مالک تھے۔ جہاں کام کرتے تھے وہاں سے ان کو ایک دفعہ آنسٹی (Honesty) ایوارڈ بھی ملا تھا۔ خلافت سے گہرا تعلق تھا۔ تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے پروگرام میں اگر خودنہ شامل ہو سکتے تو پھردوسروں کو جانے کے لئے اپنی گاڑی دے دیا کرتے تھے تا کہ ثواب میں شامل ہو سکیں۔ آپ کے بیٹے کاشف احمد دانش آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو ایک بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والے شخص کے طور پر پایا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ہمیشہ اولاد کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ تعلیم دلوانے کے لئے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ زبان بہت اعلیٰ اور لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا۔ کبھی بھی بچوں کوتُم کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ ان کے بیٹے کہتے ہیں کہ میری جماعت کے کاموں میں دلچسپی کو بہت سراہتے تھے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کی تلقین کرتے تھے۔ گھر آ کر سب سے پہلے اپنے بچوں کو نماز کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے نہ پڑھی ہوتی تو فوراً ادائیگی کے لئے کہتے۔ بچپن میں اپنے ساتھ باجماعت نماز کے لئے لے جاتے۔ کام کے دوران، سفر پر، کسی بھی جگہ پر ہوتے نماز کا خاص التزام کرتے۔ کسی سے سخت لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ ہمیشہ اخلاقیات کا درس دیتے۔ ہر کوئی آپ کی نرم گو اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے جلد آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ مرحوم کی اہلیہ محترمہ اس وقت امریکہ میں مقیم ہیں، یہ بھی آئی ہوئی تھیں یہاں لیکن بعد میں بیمار ہوگئیں تو چلی گئیں، اُن کا بھی وہاں علاج ہو رہا ہے، اُن کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ اُن کو بھی شفا عطا فرمائے۔ اور آپ کا بیٹا کاشف احمد دانش کینیڈا میں مقیم ہے اور وہاں بطور نائب صدر خدام الاحمدیہ کینیڈا خدمت کی توفیق پا رہے ہیں۔ مرحوم کی تین بیٹیاں ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی سعد فاروق شہید کی بیوہ ہے۔ محمد منیر شمس صاحب بیان کرتے ہیں (یہ قریباً گیارہ سال منڈی بہاؤالدین میں مربی رہے ہیں) کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ گیارہ سال بطور مربی ضلع کام کرنے کی توفیق ملی۔ شوگر مل کے شعبہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ تھے، وہاں زعیم انصار اللہ تھے، سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے، نگران کمیٹی بیت الذکر گیسٹ ہاؤس، مربی ہاؤس بھی تھے۔ پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرتے۔ پھر گھر کھانا کھا کر دفتر جاتے تھے۔ ظہر کی نماز پر بھی پہلے نماز ادا کرتے پھر دفتر جاتے۔ تہجد گزار تھے۔ کہتے ہیں مربی ہاؤس مسجد کے ساتھ ہی ملحق تھا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ تنہائی میں مجھے عبادت کرنے کا جب بھی کبھی خیال آیا، مَیں کوشش کرتا تھا لیکن ہمیشہ جب بھی مَیں نے کوشش کی کہ فجر سے پہلے جا کے کچھ نفل پڑھوں مسجد میں تو ہمیشہ نصرت محمود صاحب کو وہاں موجود پایا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کر رہے ہوتے تھے۔ اپنی آمدنی کے مطابق صحیح بجٹ بنواتے تھے، چندہ کی بروقت ادائیگی کرتے تھے۔ صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ غرباء اور ضرورتمندوں اور معذوروں کا خیال رکھتے۔ اسی طرح صفائی پسند بھی بہت تھے۔ جہاں اپنی صفائی کا خیال رکھتے وہاں گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے اور مربی صاحب کہتے ہیں میرے ساتھ جاتے تھے تو کبھی کوئی دنیاوی باتیں نہیں کیں۔ ہمیشہ دعوتِ الی اللہ اور جماعت کے حوالے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی جماعتی کاموں کے لئے، غریب بچیوں کی شادی کے لئے پٹرول ڈلوا کر دیا کرتے تھے۔ آتے جاتے اگر کسی غریب کو لفٹ کی ضرورت ہوتی تو دے دیا کرتے۔ کہتے ہیں کبھی مَیں نے اُن کو غصّہ میں نہیں دیکھا۔ ایک غیر احمدی اُن کا ورکر تھا اُس نے بتایا کہ پچیس سال سے نصرت صاحب کے ساتھ کام کر رہا ہوں، زندگی میں کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا اور کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ اپنے جو ماتحت کام کرنے والے تھے اُن کو ہر عید پر نئے کپڑے اور عیدی تحفہ ضرور دیتے تھے۔ خلافت سے گہری محبت تھی۔ خطبہ ہمیشہ لائیو سنتے اور سیر کے دوران پھر اُس پر بتاتے کہ آج یہ کہا گیا ہے اور ان باتوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی تلقین کرتے۔ اسی طرح کسی موقع پر اگر کہیں جانا ہوتا تو پہلے مربی صاحب اور اُن کی فیملی کو اپنی گاڑی پر، کار پر چھوڑ کر آتے، پھر اپنی فیملی کو لے کر دوبارہ جاتے اور دعوتوں پر غرباء کو ضرور بلاتے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے اور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی ہر احمدی کو دشمنانِ احمدیت کے ہر شر سے محفوظ رکھے اور اپنا خاص فضل فرماتے ہوئے اب اُنہیں فتح و نصرت کے جلدنظارے دکھائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا ہے ان دنوں میں دعاؤں پر بہت زور دیں۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعض صحابہ کے حضورعلیہ السلام پر کامل یقین، آپؑ کی کتب کے غیر معمولی اثرات اور خوابوں کے ذریعہ حضور علیہ السلام کی صداقت کی طرف رہنمائی کے ایمان افروزواقعات کا تذکرہ۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے فرمایا تھا ’ہماری کتابوں کو پڑھنے والا کبھی مغلوب نہیں ہو گا‘۔
یہ خزانہ آج بھی ہمارے پاس ہے۔ اسے حاصل کرنے کی، پڑھنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اب تو یہ بہت سی کتابیں مختلف زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترجمہ بھی ہو چکی ہیں۔
مکرم سعد فاروق شہید صاحب کے خسر مکرم ومحترم چوہدری نصرت محمود صاحب ابن مکرم چوہدری منظور احمد گوندل صاحب کی شہادت، شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 30؍نومبر 2012ء بمطابق 30؍ نبوت 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔