صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے بعض رؤیاء و کشوف
خطبہ جمعہ 7؍ دسمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
مَیں نے کچھ عرصہ سے وقتاً فوقتاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات کا بیان شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے تو مجموعی روایات شروع میں لی تھیں۔ پھر خیال آیا کہ مختلف عناوین کے تحت بیان کروں۔ سو یہ سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے بلکہ سال سے زیادہ عرصہ سے چل رہا ہے۔ آج بھی مَیں اس کے تحت صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وہ روایات جو ان کی اپنی رؤیا و کشوف کے بارے میں ہیں، وہ بیان کروں گا۔ جو اصل میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہیں۔ یا ایمان اور یقین میں بڑھانے کے لئے ہیں اور بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر بھی وہ ایمان اور یقین پیدا ہو، وہ تعلق باللہ پیدا ہو اور ہم لوگ بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے سچے تعلق کو قائم کرنے والے بن جائیں جس کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں تشریف لائے تھے۔ کیونکہ مختلف رنگ میں یہ روایات بیان ہو رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ مختلف جگہوں میں بیان ہوئی ہیں اس لئے عموماً میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ دوبارہ بیان نہ ہوں، چیک تو کروایا جاتا ہے لیکن بہر حال بعض ہو سکتا ہے دوبارہ بھی آجائیں۔ پہلی روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے جنہوں نے 1902ء میں بیعت کی تھی اور اُسی سال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی۔ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بیعت کرنے سے پہلے خواب میں دیکھا۔ وہ اس طرح کہ ایک سڑک ہے جس پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مل کر ٹہلتے آ رہے ہیں۔ بندہ سامنے سے آ رہا ہے۔ (یعنی یہ کہتے ہیں مَیں اُن کے سامنے سے آ رہا ہوں ) حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو مخاطب کر کے انگلی کا اشارہ کرکے فرماتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے، یہ خدا کی طرف سے ہے۔ یہ تین دفعہ حضور نے فرمایا۔ کہتے ہیں جب مَیں نے 1902ء میں بمقام قادیان دارالامان جبکہ چھوٹی مسجد ہوا کرتی تھی(مسجد مبارک جبکہ چھوٹی مسجد تھی)بیعت کی تو اسی حلیہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پایا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 1 روایت حضرت سردار کرم داد خان صاحبؓ)
پھر حضرت کریم الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1896ء میں بیعت کی اور اُسی سال ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں کہ 1896ء کے تقریباً نصف حصہ میں بذریعہ خواب بندہ کو(یعنی کہ ان کو اُس سال کے مئی جون کے قریب) خواب میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت جبکہ حضور اونٹنی پر سوار تھے، ہوئی۔ (خواب میں دیکھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اونٹنی پر سوار تشریف لا رہے ہیں ) کہتے ہیں پھر بندہ کو حضور کی زیارت بصورت اکیلے ہونے کے جبکہ ایک ایسے کھیت میں سے گزر رہے تھے جو کہ تازہ تازہ جوتا گیا تھا اور جس میں مٹی کے ابھی بڑے بڑے ڈھیلے تھے اور حضور اس میں سے میری طرف کو آ رہے تھے، ہوئی۔ (یعنی یہ بھی خواب بیان کر رہے ہیں) اور حضور نے بڑے تپاک اور محبت سے بندہ سے مصافحہ کیا اور بندہ اس حالت میں بہت خوش ہوا۔ خواب ہی میں اس سے پہلے ایک نقشبند پیر سے میری ملاقات ہوئی۔ میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور اس پیر نے میرے ہاتھ کو پرے ہٹا کر کہا کہ چل بے دین۔ (حالانکہ سلام کرنے کا اسلام کا حکم ہے۔ بہر حال اس نے بے دین کہہ کر سلام نہیں کیا۔) کہتے ہیں اس کے بعد حضور سے ملاقات ہوئی اور حضور بڑے تپاک سے ملے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 38 روایت حضرت کریم الدین صاحبؓ)
حضرت کریم الدین صاحبؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ چوہدری نبی بخش صاحب حوالدار پولیس کو جو کہ حضور سے شرفِ بیعت حاصل کر چکے تھے، الہام ہوتا ہے۔ (خواب میں ان کو بتایا گیا، یہ پولیس کے حوالدار جو ہیں، ان کو الہام ہوتا ہے۔ یہ آجکل کی پولیس نہیں ہے پاکستان کی یا ہندوستان کی جن کو سوائے رشوت کے اور بے ایمانی کے اور کچھ نہیں آتا۔ یہ اُس زمانے کے لوگ تھے جن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق تھا۔ تو کہتے ہیں میں نے خواب میں دیکھا کہ ان کو الہام ہوتا ہے۔) کہتے ہیں یہ خواب مَیں نے اپنے ایک دوست سید محمد علی شاہ صاحب کو سنائی۔ اور انہوں نے کہا یونہی سر نہ کھاؤ۔ لیکن جب میں صبح کی نماز پڑھ کر مسجد سے واپس آیا اور سورج نکل رہا تھا تو سید مولوی محمد علی شاہ صاحب مرحوم اور چوہدری نبی بخش صاحب کچھ الفاظ جو چوہدری صاحب نے کاغذ پر رات کو لکھے ہوئے تھے اور ادھر اُدھر اوپر نیچے تھے اور بے ترتیب تھے، ان کو ترتیب دے رہے تھے۔ (سید محمد علی شاہ صاحب نے ان سے تو یہی کہا کہ یونہی میرا دماغ نہ کھاؤ۔ کوئی الہام شلہام نہیں ہوتا چوہدری صاحب کو۔ لیکن کہتے ہیں نماز سے مَیں واپس آ رہا تھاتو چوہدری نبی بخش صاحب بھی اور محمد علی شاہ صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپس میں ان کا تعلق تھا اور کچھ کاغذوں کو ترتیب دے رہے تھے۔ تو کہتے ہیں مجھے شک پڑا کہ یہ رات کے کوئی الہامات ہیں یا ویسے الہامات ہیں جن کو ترتیب دے رہے ہیں )۔ تو مَیں نے اُن سے کہا کہ تم تو کہتے تھے کہ سر نہ کھاؤ (پہلے جب مَیں نے اس طرح بات کی تھی۔ ) اب بتاؤ یہ کیا بات ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ چونکہ لوگ مذاق کرتے ہیں، مخول کرتے ہیں، اس واسطے اظہار نہیں کرتے۔ کہتے ہیں اُسی وقت سے مجھے خیال آیا جبکہ حضور کے مریدین کو الہام ہوتے ہیں تو ضرور حضرت مسیح موعود سچے ہیں۔ اُس وقت میری عمر سولہ سترہ برس کی ہو گی۔ مَیں نے حضور کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی اور نہ ہی مجھے اس وقت تحقیق کا مادہ تھا کیونکہ میں بچہ ہی تھا اور دینی تعلیم بھی میری کوئی نہیں تھی۔ صرف قرآنِ کریم ناظرہ بے ترجمہ پڑھا تھا اور اُس وقت میری دنیاوی تعلیم صرف نارمل پاس تھی۔ (میرا خیال ہے آٹھویں پاس کہنا چاہتے ہیں) اور مَیں قلعہ صوبہ سنگھ میں نائب مدرس تھا۔ پھر ایک خواب میں مَیں نے دیکھا کہ مَیں ماہ کاتک(میرا خیال ہے ستمبر اکتوبر کا مہینہ ہے)مَیں فوت ہو جاؤں گا۔ مَیں انتظار کرتا رہا۔ اب میری موت کا وقت قریب آ گیا ہے اور میں ضرور کاتک میں (پنجابی مہینہ ہے) فوت ہو جاؤں گا۔ کیونکہ اس سے پہلے جو خوابیں مجھے آئیں وہ پوری ہو گئی تھیں، اس لئے مجھے یقین تھا کہ پہلی خوابیں پوری ہوتی رہی ہیں تو یہ بھی پوری ہو گی اور زیادہ سے زیادہ ستمبر اکتوبر تک میری زندگی ہے۔ لیکن کہتے ہیں کاتک گزر گیا اور میں نے محمد علی شاہ صاحب مرحوم سے عرض کیا کہ آپ تو کتابیں ہی پڑھتے رہیں گے اور آپ کی تسلی ہو گی۔ (محمد علی شاہ صاحب کا چوہدری نبی بخش صاحب کے ساتھ تعلق تھا، اُن کے الہامات کا بھی پتہ تھاکہ ہوتے ہیں، لیکن انہوں نے شاید اُس وقت تک بیعت نہیں کی تھی۔ لیکن بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے متأثر تھے اور آپ کی کتب پڑھا کرتے تھے۔ تو کہتے ہیں مَیں نے اُن کو کہا آپ تو کتابیں پڑھتے رہیں گے اور پتہ نہیں آپ کی تسلی کب ہونی ہے لیکن مَیں تو آپ سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر آؤں گا)۔ چنانچہ کہتے ہیں مَیں وہاں سے پیدل ہی چل پڑا اور قادیان پہنچا۔ جب مَیں یہاں آیا تو مَیں کئی دن ادھر اُدھر پھرتا رہا۔ ایک دن مَیں نے حکیم فضل دین صاحب بھیروی سے ذکر کیا کہ مَیں نے حضور کی بیعت کرنی ہے۔ تو حکیم صاحب نے فرمایا کہ مَیں نے سمجھا کہ یونہی لڑکا اِدھر اُدھر پھر رہا ہے۔ حکیم صاحب مرحوم نے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں میری بیعت کی خواہش کا ذکر کیا تو حضرت اقدس نے منظور فرمایا اور اپنے ہاتھ میں میرا ہاتھ لے کر صرف مجھ اکیلے ہی کو شرفِ بیعت عطا فرمایا۔ میں نے حضرت مسیح موعودؑ کو جیسا کہ خوابوں میں دیکھا تھا، آ کر بعینہٖ ویسا ہی پایا۔ یہ خداوند تعالیٰ کی خاص موہبت عظمیٰ ہے جو کہ مجھ پر ہوئی ورنہ معلوم نہیں میری کیا حالت ہوتی اور میرا نام اصحابِ بدر میں نمبر اڑسٹھ یا انہتّر پر جو کہ ضمیمہ انجامِ آتھم میں فہرست دی گئی ہے، لکھا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد 5صفحہ 38تا40 روایت حضرت کریم الدین صاحبؓ)
یہ انہتر نمبر(69) پر ان کا نام وہاں، ضمیمہ انجامِ آتھم میں لکھا گیا ہے۔
پھر حضرت میاں اللہ دتہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1900ء میں بیعت کی اور 1905ء میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں میں ماہل پور ضلع ہوشیار پور کا رہنے والا ہوں۔ جس وقت چاند اور سورج کو گرہن لگا اُس وقت میری عمر قریباً دس بارہ برس تھی اور اُس وقت مَیں نے اپنے استاد کے ساتھ قرآنِ کریم اور نوافل بھی پڑھے تھے۔ 1897ء یا 1898 میں ہمارے گاؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر پہنچ گیا تھا کہ قادیان ضلع گورداسپور میں حضرت مہدی علیہ السلام آ گئے ہیں۔ یہ ذکر شیخ شہاب الدین صاحب کی معرفت پہنچا تھا۔ دو تین سال باہم تبادلہ خیالات ہوتا رہا۔ سن 1900ء کے قریب اس عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خواب میں قادیان میں دیکھا۔ اگرچہ میں خود قادیان نہیں آیا تھا۔ اُس خواب سے میری تسلی ہوگئی۔ (پہلے قادیان کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن قادیان خواب میں دیکھا۔ خواب سے تسلی ہو گئی) اور سوچا کہ جتنی جلدی ہو سکے بیعت کر لوں۔ کہتے ہیں میں ایک پیسے کا کارڈ لے کر قاضی شاہ دین صاحب کے پاس گیا اور کہا کہ چونکہ مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کر لی ہے اور اُس کے متعلق تسلی ہو گئی ہے اس لئے میرا بیعت کا خط لکھ دو اور انگوٹھا لگوا لو۔ انہوں نے کہا کہ ابھی ٹھہرو، چند دن کے بعد بیعت کنندگان کی فہرست بنا کر بھیجیں گے۔ کہتے ہیں جہاں تک مجھے علم ہے قریباً چالیس آدمیوں کی فہرست بنا کر بھیجی گئی جنہوں نے بیعت کی تھی جس میں میرا نام بھی تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ 49 روایت حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ)
حضرت دین محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1902ء میں بیعت کی تھی اور 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا۔ کہتے ہیں کہ میں 1902ء میں پیچش اور بخار سے بیمار ہوگیا۔ اُن دنوں میں میرے والد صاحب کلکتہ میں محنت مزدوری کے لئے گئے ہوئے تھے۔ میں خواب میں قادیان آ گیا۔ پہلے میں نے قادیان کا کبھی خیال بھی نہیں کیا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے، اُس میں نیچے ٹاٹ بچھا ہوا ہے۔ آگے چاروں طرف چار طاقیاں ہیں (یعنی طاقچے بنے ہوئے ہیں۔ دیوار کے اندر ایک جگہ رکھنے کے لئے بنی ہوتی تھی) ہر طاقی میں ایک دوات ہے۔ حضور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں ٹہل رہے ہیں اور کوئی مضمون لکھ رہے ہیں۔ جس طاقی کی طرف جاتے ہیں وہاں سے ہی قلم بھر لیتے ہیں۔ مَیں دروازہ پر جا کر کہتا ہوں کہ السلام علیکم۔ حضور نے فرمایا وعلیکم السلام آؤ بیٹا تم آئے۔ مَیں نے کہا حضور یونہی آیا ہوں۔ فرمایا تم پرسوں کو راضی ہو جاؤ گے۔ (یہ خواب بتا رہے ہیں) تمہارا والد بہت لوگوں کے بس میں ہے وہ تم کو روپے بھیجے گا۔ صبح اُٹھتے ہی یہ خواب مَیں نے اپنے محترم و مکرم و محسن استاد حضرت سید بہاول شاہ صاحب کو سنایا۔ انہوں نے میرے کہنے سے دوسرے دن بیعت کا خط لکھ دیا۔ جو اب موجود و محفوظ ہے۔ (جب یہ بیان کر رہے تھے اُس وقت تک خط ان کے پاس تھا۔) کہتے ہیں دوسرے دن پھر خواب میں قادیان حضور کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ پہلی ہی طرح حضور نے فرمایا۔ آؤ تم آئے۔ مَیں نے عرض کیا حضور یونہی آیا ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ آپ کے ایک لڑکا ہو گا۔ وہ ایسا لڑکا ہو گا جو آپ کے کنبہ میں کبھی نہیں ہوا۔ اُس کی ایک ران پر سیاہ داغ ہو گا۔ پھرمَیں نے یہ خواب بھی حضرت شاہ صاحب کو سنایا۔ غرض پہلے خواب کو جب تین دن ہوئے تو میں اب تندرست ہو گیا۔ گویا کبھی بیمار ہی نہیں تھا۔ تھوڑے دن کے بعد والد صاحب نے مبلغ تیس روپے ارسال فرمائے۔ پھر تو مجھے ایسا عشق ہوا کہ کون وقت ہو، حضرت صاحب کی زیارت کروں۔ والدین خفیہ مخالفت کرتے رہے۔ 1904ء میں لاہور جا کر حضور کے دستِ مبارک پر بیعت کی، حضور کی خدمت میں قریباً پانچ دن رہا۔ حضور کا مقام غالباً مرہم عیسیٰ کے مکان پر تھا۔ کہتے ہیں ایک مولوی لنگور کی طرح ٹالیوں (شیشم کے درخت) پر چڑھ کر بہت بکواس کرتا تھا اور ٹالی مولوی کے نام سے مشہور تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ 118-119 روایت حضرت دین محمد صاحبؓ)
حضرت حافظ ابراہیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے 1899ء میں بیعت کی اور 1900ء میں دستی بیعت کی۔ کہتے ہیں مَیں نے 1899ء میں بذریعہ خط کے بیعت کی اور اس سے پہلے بھی تین چار سال میرے والد صاحب نے بیعت کے لئے بھیجا تھا مگر میں بسبب بعض وجوہ کے واپس گھر چلا گیا۔ اس کے بعد سید بہاول شاہ صاحب جو ہمارے دلی دوست اور استاد بھی ہیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کی اور انہوں نے مجھے حضور کی کتابیں سنانی شروع کیں۔ جتنی اُس وقت تک حضور کی کتب تصنیف ہو چکی تھیں قریباً قریباً ساری مجھ کو سنائیں۔ (جو اَن پڑھ تھے وہ بھی کتابیں سنا کرتے تھے) کہتے ہیں انہی دنوں میں مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں۔ مَیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتا ہوں کہ حضور! مرزا صاحب نے جو اس وقت دعویٰ مسیح اور مہدی ہونے کا کیا ہے، کیا وہ اپنے دعویٰ میں سچے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں سچے ہیں۔ مَیں نے کہا حضور! قسم کھا کر بتاؤ۔ آپ نے فرمایا مجھے قسم کھانے کی حاجت نہیں (، ضرورت نہیں )۔ مَیں امین ہوں زمینوں اور آسمانوں میں۔ (یعنی کہ امین ہوں زمین و آسمان میں۔) اس کے بعد اُسی رات کی صبح کو میں نے مسیح موعود علیہ السلام کی خدمتِ اقدس میں بیعت کا خط اور اُس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا السلام علیکم بھی لکھ دیا۔ پھر اُس کے بعد 1900ء میں قادیان شریف آ کر حضور کے ہاتھ پر بیعت کی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ 120روایت حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحبؓ)
حضرت منشی برکت علی خان صاحبؓ اپنی ایک مبارک خواب یوں بیان فرماتے ہیں۔ ان کا بیعت کا سن 1901ء ہے اور اُسی سال انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت بھی کی۔ کہتے ہیں 1901ء کے شروع میں جبکہ مردم شماری ہونے والی تھی، حضور نے ایک اشتہار شائع فرمایا جس میں درج تھا کہ جو لوگ مجھ پر دل میں ایمان رکھتے ہیں، گو ظاہراً بیعت نہیں کی ہو، وہ اپنے آپ کو احمدی لکھوا سکتے ہیں۔ اُس وقت مجھے اس قدر حسنِ ظن ہو گیا تھا کہ میں تھوڑا بہت چندہ بھی دینے لگ گیا تھا اور گو مَیں نے بیعت نہ کی تھی لیکن مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوا دیا۔ مجھے خواب میں ایک روز حضور کی زیارت ہوئی۔ صبح قریباً چار بجے کا وقت تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ حضور برابر والے احمدیوں کے کمرہ میں آئے ہیں۔ چنانچہ مَیں بھی حضور سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے لئے اُس کمرے میں گیا اور جا کر السلام علیکم عرض کی۔ حضور نے جواب دیا: وعلیکم السلام اور فرمایا۔ برکت علی! تم ہماری طرف کب آؤ گے؟۔ مَیں نے عرض کی حضرت! اب آ ہی جاؤں گا۔ حضور اُس وقت چارپائی پر تشریف فرما تھے۔ جسم ننگا تھا۔ سر کے بال ننگے اور پیٹ بھی نظر آ رہا تھا۔ اُس وقت کے چند روز بعد میں نے تحریری بیعت کر لی۔ یہ نظارہ مجھے اب تک ایسا ہی یاد ہے جیسا کہ بیداری میں ہوا ہو۔ اُس کے بعد جلسہ سالانہ کے مقام پر میں نے دارالامان میں حاضر ہو کر دستی بیعت بھی کر لی۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ حضور کی شبیہ مبارک بالکل ویسی ہی تھی جیسی کہ میں نے خواب میں دیکھی تھی۔ اس کے کچھ عرصہ بعد اتفاقاً میں اُس مہمان خانے میں اترا ہوا تھا جس میں اب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب سکونت پذیر ہیں۔ (یہ گھر مسجد اقصیٰ کے قریب ہی ہے)۔ کہتے ہیں مَیں ایک چارپائی پر بیٹھا تھا کہ سامنے چھت پر غالباً کسی ذرا اونچی جگہ پر حضور آ کر تشریف فرما ہوئے۔ نہا کر آئے تھے، بال کھلے ہوئے تھے۔ جسم ننگا تھا۔ یہ شکل خصوصیت سے مجھے ویسے ہی معلوم ہوئی جو مَیں خواب میں دیکھ چکا تھا۔ اور مجھے مزید یقین ہو گیا کہ یہ خواب اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کے لئے مجھے دکھلایا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد4صفحہ 138-139روایت حضرت منشی برکت علی صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب فرماتے ہیں۔ (ان کا بیعت کا سن 1906ء ہے اور زیارت بھی 1906ء میں کی) کہ ایک دن نیند میں خاکسار نے آسمان سے ایک آواز سنی کہ نورالدین کا نام فرشتوں میں عبدالباسط ہے۔ یہ واقعہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں عرض کیا۔ آپؓ نے ہنستے ہوئے (یہ حضرت خلیفۃ اوّل کے بارے میں ہے) فرمایا کہ مجھے بھی معلوم ہے کہ میرا نام عبدالباسط ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 157-158روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب ہی کی روایت جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (پہلے مَیں نے بتادیا ہے کہ انہوں نے 1906میں بیعت کی ہے۔) کہتے ہیں جب آپ نے خلعتِ خلافت پہنا اور حضور نے ابتدائی تقریر مسجد مبارک میں شروع کی تو اُس وقت آپ کی ران مبارک پر پھوڑا تھا اس لئے آپ کے لئے کرسی لائی گئی۔ چنانچہ آپ نے تقریر شروع کی۔ اُس وقت خاکسار سیڑھیوں کے سامنے مسجد میں بیٹھا ہوا تھا۔ تمام مسجد بھری ہوئی تھی۔ اُس وقت میری حالت نہ نیند میں تھی نہ اونگھ میں، بلکہ میں اچھی طرح بیداری کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیکھتا کیا ہوں کہ سورج کی روشنی بدل کر کوئی اور ہی روشنی آ گئی ہے۔ وہ روشنی ایسی لذّت اور سرور والی ہے کہ جس کی کیفیت بیان نہیں ہو سکتی۔ اُس کے سرور اور لذّت کا میں اندازہ نہیں کر سکا۔ دیکھتے دیکھتے مسجد کا وجود بھی جاتا رہا اور مجلس بھی غائب ہو گئی۔ صرف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا وجود آنکھوں کے سامنے ایک ستارے کی طرح بنا ہوا نظر آتا ہے جو اُس نور میں گھوم رہا ہے۔ بہت دیر تک یہی حالت دیکھتا رہا مگر کس حالت میں نہ نیند ہے نہ اونگھ، بلکہ ٹھیک طرح مجلس میں بیٹھا بھی ہوا ہوں اور یہ نظارہ روحانی بھی دیکھ رہا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد اچانک یہ حالت ہونے لگی۔ اسی طرح مسجد دکھائی دینے لگی۔ اسی طرح لوگ، اُسی طرح حضرت اقدس دکھائی دینے لگ گئے۔ کہتے ہیں یہی نور جو اُس وقت خاکسار نے حضرت اقدس کے ارد گرد دیکھا جو اُس وقت ایک ستارے کی شکل میں تھے برابر گیارہ دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کو اس حالت میں ہر وقت دیکھتا رہا۔ جدھر آپ جاتے تھے ادھر ہی وہ نور دائیں بائیں آگے پیچھے رہتا تھا۔ مَیں جس حالت میں ہوتا تھا، اُسی حالت میں حضرت اقدس خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو اُس نور کے اندر دیکھتا تھا۔ خواہ مَیں گھر میں ہوتا یا باہر کام کر رہا ہوتا یا یونہی بیٹھا ہوتا۔ کھانا کھا رہا ہوتا یا باتیں کر رہا ہوتا۔ (مختلف وقتوں میں ان پر یہ کشفی حالت طاری ہوتی رہتی تھی) کہ وہ نور اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ مجھے دکھائی دیتے ہی رہتے۔ کہتے ہیں یہ نظارہ متواتر گیارہ دن تک دیکھتا رہا۔ ایسا کشف نہ میں نے کبھی سنا ہے نہ کبھی اتنا لمبا دیکھاہے۔ یہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت اور نورِ نبوت کا اثر ہے کہ میرے جیسے معمولی انسان بھی اس قدر بڑے اور اتنے اتنے لمبے کشف دیکھتے ہیں۔ یہ کشف بھی گویا اس آیتِ کریمہ کے ماتحت ہے جس میں کہ لکھا ہے کہ پاک اور نیک لوگوں کو ایک نور ملے گا جیسا کہ سورۃ تحریم کی یہ آیت فرمائی ہے، نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَبِاَیْمَانِہِمْ(التحریم: 9)۔ دوسری آیت شریف میں یہ ہے کہ جس کو اس دنیا میں نور نہیں ملتا اُس کو قیامت میں کیونکر ملے گا۔ گویا خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بتایا کہ یہ تمہارا خلیفہ اُن برگزیدہ لوگوں میں سے ہے جن کو کہ قیامت کے دن نور ملے گا۔ اور اس دنیا میں بھی یہ شخص اپنے خدا کے نور میں ہی رہتا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7 صفحہ 158-159روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ فرماتے ہیں جن کی بذریعہ خط جنوری 1902ء کی بیعت ہے اور دسمبر 1902ء میں دستی بیعت کی۔ کہتے ہیں مجھے دکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے میری محافظت پر مقرر کئے ہیں۔ ایک کا نام محمد صدیق ہے اور میرے والد صاحب کی شکل پر ہے، اور دوسرے کا نام غلام صمدانی ہے۔ مصائب اور تکالیف کے وقت پھر فرشتہ سامنے متشکل ہو کر نظر آ تا ہے اور والدنے کہا کہ دو بار کم از کم اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الفاتحہ: 2) پڑھا کرو۔ جس پر مَیں ہر نماز میں عمل کرتا ہوں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7 صفحہ 201 روایت حضرت قاضی محمد یوسف صاحبؓ)
یعنی نماز میں اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(الفاتحہ: 2) جو ہے وہ دو دفعہ پڑھتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے ناں کہ حقیقی تعریف کے لائق تو اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ حمد ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتی ہے، اس سے تعلق پیدا کرنے کے لئے، مشکلات دور کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے اور اس کے ہر ہر لفظ پر غور کرنا چاہئے۔
حضرت محمد فاضل صاحبؓ ولدنور محمد صاحب فرماتے ہیں جنہوں نے 1899ء کے آخر یا 1900ء کے ابتدا میں بیعت کی تھی کہ پہلے رسم و رواج کے مطابق نماز میں زیرِ ناف ہاتھ باندھتا تھا (یعنی عموماً جسے غیر از جماعت لوگ نماز پڑھتے ہوئے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں) اور کبھی کسی کی اقتداء میں نماز باجماعت پڑھنے کا موقع ملتا تو دل میں کبیدگی سی پیدا ہوتی اور فاتحہ خلف امام بھی پڑھ لیتا۔ (امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتا تھا) لیکن دل میں اضطراب رہتا تھا۔ (کہ فاتحہ خلف امام اور سینہ پر ہاتھ باندھیں یا کس طرح باندھیں؟ ان دونوں باتوں کے بارہ میں تسلی نہیں تھی کہ ہاتھ اوپر کر کے باندھنے چاہئیں یا ناف سے نیچے رکھنے چاہئیں، اور سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہئے یا نہیں پڑھنی چاہئے؟)۔ تو کہتے ہیں اسی حالتِ اضطراب میں ایک دن مَیں سو گیا تو خواب میں مَیں قادیان پہنچا ہوں۔ مسجد مبارک والی گلی سے جاتا ہوں۔ مَیں مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچا اور پہلے جو سیڑھیاں سیدھی تھیں، اُن پر گزر کر اندر داخل ہوتا ہوں تو حد مسجد سے باہر جوتیوں والی جگہ ایک پُھلاہی کا درخت ہے، (یہ ایک پودے کی قسم ہے) اور اُس کے پاس یا نیچے ایک پختہ قبر ہے اور اُس کی شمالی سمت میں ایک کنواں ہے اور مسجد میں ایک جماعت مکمل سینہ پر ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے اور مُصلّٰی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امام ہیں اور امام کے مقابل ایک مقتدی کی جگہ خالی ہے۔ مَیں اُس جگہ جا کر کھڑا ہو گیا ہوں اور سینہ پر ہاتھ باندھ کر سورۃ فاتحہ شروع کی ہے۔ جب ختم کر کے آمین کہتا ہوں تومیری نیند کھل گئی۔ اس طرح مجھے یہ مسئلہ حل ہو گیا کہ ہاتھ یہاں باندھنے چاہئیں درمیان میں اور سورۃ فاتحہ بھی پڑھنی چاہئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 231 روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ خاکسار نے رؤیا میں دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی لوگوں کی دعوت فرمائی ہے اور اُس دعوت کا کام حضرت اُمّ المومنین کر رہی ہیں اور حضرت اقدس بھی نگرانی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ جب مَیں پیغام کے طور پر حاضر ہوا تو جناب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو چاول کھلاؤ۔ چنانچہ مجھے چاول دئیے گئے۔ ایک اور بات ہے مگر یہ اچھی طرح یادنہیں کہ اُسی دعوت والی خواب کے ساتھ ہی ہے یا علیحدہ، مگر وہ بات مجھے خوب یاد ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ اس کو کرتہ پہناؤ۔ چنانچہ اس بات کے فرمانے کے بعد میں فوراً اپنے جسم کی طرف دیکھتا ہوں کہ ایک بڑا خوبصورت سفید رنگ کا کرتہ میں نے پہنا ہوا ہے۔ نامعلوم کس طرح پہنچا، کس وقت پہنا، ناگہاں اُس کو اپنے جسم کے اوپر پہنا ہوا دیکھتا ہوں جس کا اثر آج تک مَیں اپنے اوپر محسوس کرتا رہتا ہوں۔ اسی طرح ایک دفعہ خواب میں ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صحابہ کرام میں سے ہے۔ خواب کے بعد معلوم ہوا کہ یہ خواب آپ کے یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اُس شعر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مَے اُس کو مولیٰ نے پلا دی
چنانچہ وہ شخص جو مجھ کو ملا اُس نے اپنے اوپر کھیس لیا ہے جس کا کنارہ سرخ ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ کھیس تم نے کہاں سے لیا ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ میں نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحلت فرما گئے ہیں۔ غالباً چودہ سو سال ہو گئے ہیں۔ (آپ کو وفات ہوئے۔ وصال ہوئے)۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھ کو بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دیا ہے۔ یا یہ کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے۔ صرف اس فقرے میں اختلاف ہے۔ بہر حال یہ تو لفظ کہتے ہیں اچھی طرح یاد ہے۔ میں نے کہا کہ بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت کون کرتا ہے؟ اُس نے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کی حفاظت مسجد کے مُنڈے کرتے ہیں۔ خاکسار نے پوچھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ بیویوں کا کیا حال پوچھتے ہو، کچھ تو اُن میں سے دلّی پہنچ گئی ہیں۔ اُس وقت مجھے معلوم نہ تھا کہ حضرت اُمّ المومنین حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ دلّی کے رہنے والے ہیں۔ کہتے ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ نے روحانی اور جسمانی طور پر تسلی دلا دی کہ یہ قرآنِ کریم کے مطابق سلسلہ ہے جیسا کہ وَاٰخَرِیْن میں فرمایا گیا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 156-157روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)
خیر دین صاحب کی ہی ایک روایت ہے اور وہ کہتے ہیں ایک دن خاکسار نے خواب میں مسجد اقصیٰ کو دیکھا، مگر اس طرح دیکھا کہ اُس کے پاس ہی بیت اللہ ہے۔ ان دونوں کی شکل ایک ہی جیسی ہے۔ مَیں پہچان نہیں سکتا کہ قادیان والی مسجد اقصیٰ کونسی ہے اور بیت اللہ کونسا ہے۔ ان دونوں چیزوں کی شکل مجھ پر مشتبہ ہو گئی ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ اس کو مسجد اقصیٰ کہوں یا اُس کو کہوں۔ غرض یہ دونوں چیزیں مجھ پر مشتبہ ہو گئیں اور میری آنکھ کھل گئی۔ اُس کی تعبیر دل میں یہ ڈالی گئی کہ یہ وہی سلسلہ ہے جو اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ(الجمعۃ: 4) کا مصداق ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 158روایت حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت حکیم عطا محمد صاحبؓ فرماتے ہیں (ان کی 1901ء کی بیعت اور زیارت بھی ہے۔) کہ بیعت کے بعد چند دن قادیان رہا اور پھر حضور سے اجازت حاصل کر کے واپس لاہور آ گیا اور صوفی احمد دین صاحب ڈوری باف نے احمدیہ جماعت کے احباب سے ملاقات کرائی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک صاحب نے محبت سے فرمایا (کسی احمدی نے کہا) کہ پھر محمدؐ صاحب قادیان آ گئے ہیں۔ کہتے ہیں اس بات کو سن کر مجھے حیرانی ہوئی، نئی نئی بیعت ہوئی ہوئی تھی۔ اور دعا کی کہ یا الٰہی! اس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ آ گئے ہیں اور مرزا صاحب محمد کیسے ہو سکتے ہیں؟ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کھڑے ہیں اور آسمان سے ایک فرشتے نے اتر کر مجھ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب ہیں۔ پھر مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اترا اور وہ نور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دماغ میں داخل ہوا۔ پھر تمام جسم میں سرایت کر گیا اور حضور کا چہرہ اُس نور سے پُر نور ہو گیا۔ پھر اُس فرشتے نے کہا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا پہلے تو مرزا صاحب تھے اب واقعی محمد ہو گئے ہیں، صلی اللہ علیہ وسلم۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 176روایت حضرت حکیم عطاء محمد صاحبؓ)
تو یہی اعتراض ہے نہ۔ اصل میں تو یہ نور محمد ہی ہے جس کو پھیلانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے ہیں۔ حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ فرماتے ہیں۔ (1905ء کی ان کی بیعت ہے) کہ جس وقت خاکسار کی عمر 12سال کی تھی اور گو ہمارے خاندان میں میرے تایا حکیم شیخ عباداللہ صاحب اور میرے تایا زاد بھائی شیخ کرم الٰہی صاحب حضرت صاحب سے بیعت تھے مگر خادم نے نہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا (یعنی انہوں نے خودنہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھا تھا) اور نہ ہی حضور کا فوٹو دیکھا تھا۔ خواب دیکھا کہ میرے جسم کی تمام جان نکل گئی ہے مگر دماغ میں سمجھنے کی اور آنکھوں میں دیکھنے کی طاقت باقی ہے۔ میرے سامنے ایک بزرگ بیٹھے ہیں اور اُن کے پیچھے گھٹنوں تک قدم مبارک دکھائی دیتے ہیں۔ میرے دل میں ڈالا گیا یہ بزرگ جو بیٹھے تیری طرف دیکھ رہے ہیں مرزا صاحب ہیں اور پچھلی طرف جو قدم مبارک نظر آتے ہیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ میری آنکھ کھل گئی۔ صبح میں نے مرتضیٰ خان ولد مولوی عبداللہ خان صاحب جو ان دنوں لاہوری جماعت میں شامل ہیں (یعنی بعد میں غیر مبائع میں شامل ہو گئے تھے) اُس کو یہ خواب بتائی اور تعبیر دریافت کی۔ تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو مرزا صاحب کی بدولت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی حاصل ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور میں خدا کی قسم کھا کر تحریر کرتا ہوں کہ جب 1905ء میں مَیں بیعت ہوا تو حضور وہی تھے جو خواب میں میری طرف دیکھ رہے تھے۔ اس طرح سے خدا جس کو چاہتا ہے سچا راستہ دکھا دیتا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 218-219روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ)
حضرت شیخ محمد افـضل صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر 15سال کے قریب تھی تو مَیں نے بہشت اور دوزخ اور اعراف کو خواب میں دیکھا۔ اُن کے دیکھنے کی ایک لمبی تفصیل ہے، محض اسی پر ہی اکتفا کرتا ہوں کہ جب میں بہشت دیکھ کر باہر آیا تو ایک بزرگ ملے اور انہوں نے میرے کندھے پر دستِ مبارک رکھ کر فرمایا کہ لڑکے تُو کہاں؟ میں نے تو اُس کا کوئی جواب نہ دیا۔ اُس بزرگ سے دریافت کیا کہ یہ مکان یعنی بہشت کس مالیت کا ہے؟ بزرگ نے فرمایا کہ اگر تیرا پٹیالہ(یعنی یہ پٹیالہ کے تھے) تیرا پٹیالہ سو دفعہ بھی فروخت ہو تو اس مکان کی ایک اینٹ کی بھی قیمت نہ ہو گا۔ میری آنکھ کھل گئی؟ خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے جب میں 1905ء میں بیعت کے لئے قادیان شریف گیا تو مرزا صاحب وہی بزرگ تھے جو مجھ کو بہشت کے دروازے پر ملے تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 219روایت حضرت شیخ محمد افضل صاحبؓ)
حضرت محمد فاضل صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ولدنور محمد صاحب(ان کی بھی بیعت 1899ء کی ہے)۔ یہ روایت پہلے بیان ہو چکی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دن موضع مان کوٹ جو ہمارے قریب آٹھ کوس کے فاصلے پر ہے، گیا۔ رات کو وہاں پر نماز پڑھ کر سویا تو خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ میں مُصلّٰی پر بیٹھا ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مُصلّٰی کے (جائے نماز کے) سرہانے کی طرف آ کر بیٹھ گئے ہیں اور میرے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو اپنے انگوٹھے سے زور سے مَلتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ دل میں کچھ طاقت پیدا ہو گئی ہے۔ تو مَیں اُس وقت طاقت محسوس کرتا ہوں اور عرض کرتا ہوں کہ ہاں حضور ہو گئی ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 231-232روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)
یہ محمد فاضل صاحب ہی فرماتے ہیں کہ مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں قادیان پہنچا ہوں اور مسجد مبارک کے اندر محراب کے پاس کونے میں حضرت اقدس علیہ السلام تشریف فرما ہیں۔ مسجد میں بڑی روشنی ہے۔ مَیں حضور کے آگے جا کر بیٹھ گیا ہوں تو حضور مجھے ایک سفید چینی کی پلیٹ جس میں نہایت شفاف سرخ رنگ کا حلوہ ہے اپنے دست مبارک سے دے کر کہتے ہیں کہ یہ کھا لو۔ چنانچہ میں نے اُسی وقت اُس کو کھا لیا اور وہ نہایت ہی خوشگوار ہے اور اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 235-236روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)
حضرت حافظ جمال احمد صاحبؓ فرماتے ہیں جنہوں نے 1908ء میں مئی میں زیارت کی تھی کہ میری اہلیہ مرحومہ نے بیان کیا کہ میرے دل میں ایک وسوسہ پیدا ہوا کہ پیر تو اور بھی بہت ہیں پھر ہم حضرت صاحب کو سچا اور دوسروں کو جھوٹا کیوں کہتے ہیں؟ (کہ صرف سچے پیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی ہیں اور دوسرے سب غلط ہیں )۔ کہتی ہیں کہ رات کو خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صاحب کا بازو پکڑ کر فرمایا کہ جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ میری اہلیہ مرحومہ کا گھرانہ پہلے سید احمد رضا خان بریلوی کا مرید تھا۔ اُس کے بعد سے پھر اُن کو تسلی ہو گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 251روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)
حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی بیعت 1905ء کی ہے، لکھتے ہیں کہ میرے خسر قاضی زین العابدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ سے پہلے حضرت منشی احمد جان صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کئے ہوئے تھے۔ حضرت منشی احمد جان صاحب لدھیانوی کے فوت ہونے کے بعد مکرمی معظمی قاضی زین العابدین صاحب نے کئی بار حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر جا کر کشف قبور کے طریق پر مراقبہ کیا۔ ایک روز حضرت مجدد الف ثانی کی آپ کو زیارت ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کیوں کیا چاہتے ہو؟ قاضی صاحب نے عرض کیا کہ یادِ الٰہی ! میرے مرشد فوت ہو گئے ہیں۔ اتنا لفظ سن کر حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی صورت غائب ہو گئی۔ پھر قاضی صاحب وہاں سے واپس آ گئے۔ پھر دو تین روز گئے، ویسا ہی عمل کیا، مراقبہ کیا، قبر پر بیٹھ کر دعا کی۔ پہلے کی طرح پھر حضرت مجدد الف ثانی کی شکل سامنے آئی اور دریافت کیا کہ کیا چاہتے ہو؟پھر قاضی صاحب نے عرض کیا کہ یادِ الٰہی! (یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق) اور ساتھ لگتے ہی عرض کی، اس کے ساتھ ہی کہتے ہیں میں نے اُن کو عرض کیا کہ کیا میں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے پاس جاؤں۔ حضرت مجدد صاحب نے فرمایا کہ وہاں تمہاری تسلی نہ ہو گی۔ اتنا کہہ کر وہ شکل پھر غائب ہو گئی۔ پھر کچھ دن کے بعد قاضی صاحب قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں جا کر رہے۔ فرماتے تھے کہ جو مزہ حضرت منشی احمد جان صاحب کی مجلس میں ہمیں ملتا تھا وہ قادیان میں میسر نہ تھا۔ وہاں کچھ اُن کو پہلے جو عادت تھی، کہتے ہیں مجھے مزہ نہیں آیا۔ حضرت مجدد الف ثانی صاحب کے فرمانے کے مطابق ہماری تسلی نہ ہوتی تھی۔ خیر کئی بار قادیان جا کر ہفتہ ہفتہ رہ کر آتا تھا۔ حضرت منشی احمد جان صاحب وہ بزرگ ہستی ہیں کہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی حالات کو ہی دیکھ کر لوگوں کی بیعت لینا چھوڑ دی تھی اور جو کوئی آتا اُس کو آپ فرمایا کرتے تھے کہ اب جس کو یادِ الٰہی کا شوق ہو وہ قادیان مرزا غلام احمد کے پاس جائے۔ 1885ء میں ان کی وفات ہو گئی تھی۔ یہ وہی بزرگ ہیں جن کو حج کے وقت دعا کے لئے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا تھا۔ بہرحال کہتے ہیں کہ منشی احمد جان صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم تو اَن ہوند کے تھے۔ (جب کوئی نہیں تھا تو ہم تھے)۔ ہم تو مخلوقِ خدا کو ایک ایک قطرہ دیا کرتے تھے مگر یہ شخص یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام توا یسا عالی ہمت پیدا ہوا ہے کہ اس نے تو چشمہ پر سے پتھر ہی اُٹھا دیا ہے۔ اب جس کا جی چاہے سیر ہوکرپئے اور ساتھ ہی یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شانِ مبارک میں فرمایا کرتے تھے۔
ہم مریضوں کی ہے تمہی پہ نظر
تم مسیحا بنو خدا کے لئے
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لدھیانہ آنے سے قبل ہی آپ نے اپنے مریدوں سے فرما دیا تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب لدھیانہ آنے والے ہیں، ہم بھی اُن کو ملنے کے واسطے اسٹیشن پر جائیں گے۔ میں جن کی طرف اشارہ کروں تم سمجھ لینا کہ وہی مرزا غلام احمد صاحب ہیں۔ آپ کواپنے مریدین نے کہا کہ جب حضور نے ان کو دیکھا ہی نہیں (یعنی آپ نے دیکھا ہی نہیں ) تو آپ پھر کیسے بتلا دیں گے کہ فلاں شخص ہی مرزا غلام احمد صاحب ہیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ حدیثوں میں تو پہلے سے ہی حلیہ موجود ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب اسٹیشن لدھیانہ پر آ کر اُترے اور بہت مخلوق کے درمیان آپ چلے آ رہے تھے اُس وقت آپ نے اپنے مریدین سے اشارہ کر کے بتلایا کہ وہ شخص مرزا غلام احمد صاحب ہیں۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے قریب آئے تو آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کیا۔ حضرت منشی احمد جان صاحب کی عقیدت کی وجہ سے کہتے ہیں کہ میں نے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی۔ پھر حضرت اقدس کی مجلس کا جو رنگ مجھ پر چڑھا، پہلے تو یہ مجلس پسندنہیں آ رہی تھی لیکن اُس کے بعد، بیعت کرنے کے بعدجب رنگ چڑھا تو پھر پہلی مجلسوں کاجو رنگ تھا وہ پھیکا نظر آنے لگا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد11صفحہ 355تا358روایت حضرت میاں محمد ظہور الدین صاحبؓ)
اللہ تعالیٰ ہمیں ان بزرگوں کی طرح ایمان و یقین میں بڑھاتا چلا جائے اور ہم میں سے ہر ایک میں وہ رنگ چڑھ جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں چڑھانا چاہتے تھے اور جس کے چڑھانے کے لئے آپ تشریف لائے۔ صرف بیعت کافی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے ایک تعلق بھی ہم میں سے ہر ایک کا پیدا ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ پاکستان کے لئے مَیں دعا کی تحریک کرتا ہی رہتا ہوں۔ احباب جماعت دعائیں کرتے بھی ہیں۔ تاہم آج پھر اسی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ احمدیوں کے حالات پاکستان میں تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اور جب اربابِ حکومت سے کہو، رپورٹ کرواؤ، افسران کے پاس جاؤ یا اُن سے پوچھو تو یہ کہتے ہیں کہ ہماری رپورٹوں کے مطابق تو سب کچھ ٹھیک ہے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ اس ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی پر سوائے اِنَّا لِلّٰہ کے اور کیا کہا جا سکتا ہے۔ اور یقینا اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ہماری توجہ کا مرکز ہے اور ہونا چاہئے۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ دنیاوی طور پر یہ بھی ایک جماعت ہے جو سلوک مرضی ان سے کر لو، کچھ نہیں ہو گا ان کے ساتھ۔ بہر حال ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہی ہمارا فرض ہے۔ اس کی طرف ہمیں زیادہ سے زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ اس بارے میں ہماری طرف سے کبھی کسی قسم کی کمی یا کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
گزشتہ دنوں لاہور میں احمدیہ قبرستان میں ماڈل ٹاؤن میں رات کو چودہ پندرہ آدمی زبردستی گھس گئے۔ وہاں جو چوکیدار تھا اُس کو اور اُس کے گھر والوں کو گن پوائنٹ پر رسّیوں سے باندھ دیا اور پھر گھر کے اندر بند کر دیا۔ اور اُس کے بعد 120 قبروں کی بے حرمتی بھی کی، اُن کے کتبے بھی توڑے۔ اب تو ان شیطانوں کے شر سے مردے بھی محفوظ نہیں ہیں۔ احمدی وفات یافتگان بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اور اس میں بظاہر شواہد یہی نظر آتے ہیں کہ اس میں پولیس کا بھی ہاتھ ہے۔ پولیس کی پشت پناہی اُنہیں حاصل ہے۔ کیونکہ بڑی مشکلوں سے ایف آئی آر درج کی گئی۔ جب درج کروانے کی کوشش کی تو بڑے انکار کے بعد درج ہوئی۔ اسی طرح شہادتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ آج بھی کوئٹہ میں ایک احمدی نوجوان کو جن کا نام مقصود احمد صاحب تھا، شہید کر دیا گیا ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی مجھے اطلاع ملی ہے۔ اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ بہرحال شہید مرحوم کے جب کوائف آئیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ اگلے جمعہ اُن کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا۔ ان کے بڑے بھائی کو بھی ایک مہینہ پہلے کوئٹہ میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ جلد تر ان دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائے۔ بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ہمارا کام دشمنوں کے ہر کریہہ اور ظالمانہ عمل پر پہلے سے زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکنا اور اُس کی مدد چاہنا ہے۔ اس کی طرف جماعت کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی بعض روایات کا تذکرہ جو ان کے رؤیاء و کشوف کے بارہ میں ہیں۔ جو اصل میں توحضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے ہیں یا ایمان اور یقین میں بڑھانے کے لئے ہیں۔ ان کے بیان کرنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہمارے اندر بھی وہ ایمان اور یقین پیداہو، وہ تعلق باللہ پیدا ہو اور ہم لوگ بھی خداتعالیٰ کے ساتھ ایسے سچے تعلق کو قائم کرنے والے بن جائیں جس کو پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام ہم میں تشریف لائے تھے۔
احمدیوں کے حالات پاکستان میں تنگ سے تنگ تر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان لوگوں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اندازہ ہی نہیں ہے۔
ہمارا کا م ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکیں اور یہی ہمارا فرض ہے۔ اس بارہ میں ہماری طرف سے کبھی کسی قسم کی کمی یا کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے احمدیہ قبرستان میں بعض شرپسندوں کی طرف سے120 قبروں کی بے حرمتی کی واردات۔ قبروں کے کتبے بھی توڑ دئیے گئے۔ بظاہر شواہد یہی نظر آتے ہیں کہ اس میں پولیس کابھی ہاتھ ہے۔
کوئٹہ میں ایک اور شہادت۔ اللہ تعالیٰ جلد تر دشمنوں کوکیفر کردار تک پہنچائے۔ جماعت کودعاؤں کی طرف خاص طورپر توجہ دینی چاہئے۔
فرمودہ مورخہ 7؍دسمبر 2012ء بمطابق 7؍فتح 1391 ہجری شمسی، بمقام ہیمبرگ (جرمنی)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔