یورپ کا کامیاب و بابرکت دورہ
خطبہ جمعہ 21؍ دسمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
شکر کے مضمون کا تذکرہ جتنا جماعت احمدیہ میں ہوتا ہے یا شکر کے مضمون کا ادراک جتنا جماعت کو ہے، ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی اور کو نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقی شکر وہ ہے جو خدا کا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو، خدا تعالیٰ کے دین کی ترقی اور غیروں پر اُس کا رعب پڑنے پر ہو۔
پس آج خالص ہو کر اگر کوئی جماعت اسلام کی ترقی کے لئے کوشاں ہے، اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر کونے اور ہر طبقے میں پھیلانے کی کوشش میں ہر قسم کی منصوبہ بندی کر کے اس کام کو سرانجام دے رہی ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہے اور یہ بات دنیا کی کسی بھی اَور جماعت، گروہ یا تنظیم میں نظر نہیں آئے گی۔ اور پھر اگر کوئی کوشش کر بھی رہا ہے تو کامیابی کا ہزارواں حصّہ بھی جماعت کی کوششوں اور کامیابیوں کے مقابل پر نظر نہیں آئے گا۔ غیر یعنی غیر مسلم اگر اسلام کے بارے میں غلط خیالات کو دل سے نکالتے ہیں یا یہ اظہار کرتے ہیں کہ آج ہمارے دل اور دماغ اسلام کے بارے میں غلط تأثرات سے صاف ہو گئے ہیں تو وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی مجالس میں حاضر ہو کر اپنے ذہنوں کو پاک کرتے ہیں، یا صحیح اسلام اُنہیں جماعت احمدیہ کی مجلسوں سے ہی، پروگراموں سے ہی پتہ لگتا ہے۔
پس اسلام کی تجدیدِ نو کے جس کام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا، وہ تقریباً 124 سال گزرنے کے بعد آج بھی جاری ہے اور نہ صرف جاری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور تائیدات کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں۔ چاہے یہ تائیدات کے نظارے افریقہ کے جنگلوں اور شہروں میں ہوں یا صحراؤں میں ہوں یا دور دراز جزائر میں ہوں، عرب دنیا میں ہوں یا ایشیا میں ہوں۔ امریکہ اور یورپ کے عوام کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا پیغام پہنچا کر اُن کے شبہات دور کرنے سے تعلق رکھتے ہوں یا یورپ اور امریکہ کے ایوانوں میں اسلام کی خوبصورت تعلیم کا لوہا منوانے سے تعلق رکھتے ہوں تو وہاں بھی اللہ تعالیٰ کی تائیدات نظر آتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی یہ بارش ہمیں کس قدر شکر گزاری کے مضمون کو سمجھنے والا اور شکر ادا کرنے والا بناتی ہے اور بنانی چاہئے دوسرے اس کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتے۔ احمدی ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو کہ لَئِنۡ شَکَرۡتُمۡ لَاَزِیۡدَنَّکُمۡ (ابراہیم: 8)۔ کہ’اگر تم میرا شکر کرو گے تو مَیں اپنی دی ہوئی نعمتوں کو زیادہ کروں گا‘، کو سب سے زیادہ سمجھتے ہیں۔ یہ کام جو ہم کر رہے ہیں، اس کا مقصد اپنی پہچان کروانا نہیں، کوئی ذاتی بڑائی نہیں یا اس کا اظہار نہیں بلکہ اُس مشن کو آگے لے جانا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لے کر آئے تھے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ہی ہمارا کام ہے تا کہ دنیا کے سامنے یہ تعلیم پیش کر کے آپؐ کے آخری رسول ہونے کا ادراک دنیا میں پیدا کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کروایا جائے۔ پس جو کام خدا تعالیٰ کے لئے ہوں اور ذاتی بڑائی اور نام و نمود اُن میں نہ ہوں اور پھر اُس کے نیک نتائج پر خدا تعالیٰ کی شکرگزاری بھی ہو توپھر یقینا اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہے۔ پس اس مضمون کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
گزشتہ دنوں مَیں یورپ کے سفر پر تھا جہاں مختلف پروگرام تھے جن میں سب سے پہلے تو یورپین پارلیمنٹ کا ایک پروگرام تھا جو اُن کے آڈیٹوریم میں ہوا۔ جس میں یورپین پارلیمنٹیرین اور مختلف ممالک کے ملکی پارلیمنٹیرین یعنی کُل ملا کے سارے مہمان تقریباً دو سو سے زائد تھے یا دوسرے سیاستدان، وکلاء اور پڑھے لکھے طبقے پر سارے مشتمل تھے۔ اُن کے ساتھ بھی وہاں پروگرام ہوا تھا۔ اسی طرح کئی نیوز ایجنسیوں کے نمائندوں کے سامنے بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کے حوالے سے مجھے کچھ کہنے کا موقع ملا۔ پریس کانفرنس کی وجہ سے دنیا میں کافی کوریج ہوئی۔ اس تقریب کو آرگنائز کروانے کے لئے یوکے کی جماعت نے بھی اچھا کردار ادا کیا۔ گو اصلی آرگنائزر تو ہمارے یورپین پارلیمنٹیرین دوست ہی تھے۔ بہر حال یہ پروگرام بہت اچھا رہا۔ یوکے کی جماعت کو شاید اس کی فکر بھی تھی اس لئے جماعتوں میں یہ لوگ دعا کا اعلان بھی کرواتے رہے اور احمدیوں کی دعاؤں کی قبولیت کو ہمیشہ کی طرح ہم نے اس پروگرام میں دیکھا بھی اور محسوس بھی کیا۔ میرے خیال میں تو جو باتیں مَیں نے کیں عمومی طور پر ہم اُن کو عام سمجھتے ہیں لیکن اگر سوچا جائے تو اسلام کے حوالے سے کوئی بات بھی عام نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین کو کامل کیا ہے اُس کی ہر بات ہی اہم ہے، اسی لئے شاملین پر ان باتوں کا بڑا اثر بھی ہوا۔ اس کا انہوں نے کھل کر اظہار بھی کیا۔ اسلام سے متعلق شکوک و شبہات دور ہوئے۔ الحمدللہ۔
اس کے بعد مَیں جرمنی چلا گیا تھا اور جرمنی میں بھی اسی طرح دو بڑے پروگرام تھے۔ ایک تو ہیمبرگ میں مسجد کو انہوں نے ٹھیک کیا ہے۔ جو نئی جگہ خریدی تھی اس میں پہلے مسجد تو اندر بنائی ہوئی تھی۔ بلڈنگ کو کنورٹ (Convert) کیا تھا لیکن مینارے وغیرہ نہیں تھے۔ اب مینار وغیرہ بنائے تھے تو اس تعمیر کے حوالے سے بھی ایک پروگرام ہوا جو اصل میں تو مہمانوں کو لانے کا ایک بہانہ تھا۔ بہر حال اس میں بھی بڑا اچھا طبقہ شامل ہوا اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کا یہ سب لوگ بڑا نیک اثر لے کر گئے۔
اسی طرح وہاں جامعہ احمدیہ جرمنی کی نئی عمارت بھی بنی ہے۔ یہ کیونکہ جامعہ کی باقاعدہ عمارت بنائی گئی ہے جس میں بڑے سائز کے باقاعدہ کلاس روم، اسمبلی ہال، ہوسٹل، اُس میں کچن، ڈائننگ وغیرہ، سارا کچھ ہے۔ بڑا وسیع انتظام ہے اور یہ بڑی خوبصورت عمارت بنائی گئی ہے۔ بہر حال یہاں بھی اچھے پڑھے لکھے لوگ، پریس، سیاستدان وغیرہ آئے ہوئے تھے۔ یہاں بھی اُن لوگوں کے سامنے تو نہیں بلکہ طلباء کو جو نصیحت کر رہا تھا، اُسی میں اسلام کی تعلیم آ گئی جس کو اُن لوگوں نے سمجھا اور پسند کیا۔
پھر دو مساجد کا وہاں افتتاح بھی ہوا۔ یہاں بھی شہر کے لوکل میئر اور پڑھے لکھے لوگ آئے ہوئے تھے اور محبت اور بھائی چارے کا اظہار کرتے رہے۔
ایک جگہ جب افتتاح ہوا تو وہاں ہمسایوں میں سے ایک جوڑا آیا ہوا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے بعد میرے پاس آئے اور یہ کہا کہ ہم آپ کو تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ تحفہ دیا اور ساتھ ہی کہا کہ ہم اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہیں اور مسجد کی مبارکباد دی۔ اُس وقت فنکشن میں میئر صاحب وہاں موجود تھے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ کہنے لگے کہ اس علاقے میں جب مسجد بن رہی تھی تو سب سے زیادہ مخالفت کرنے والا یہی گھر تھا جو یہ کہتے تھے کہ یہاں مسجد بن گئی تو فتنہ و فساد کا گڑھ بن جائے گا کیونکہ مسلمان ایسے ہی ہیں۔ لیکن بہر حال کونسل نے بھی، باقی ہمسایوں نے بھی ان کی اس فکر کو ردّ کر دیا اور مسجد بن گئی۔ اس عرصہ میں احمدیوں نے بھی ان سے رابطے کئے اور ان کو اسلام کی، احمدیت کی صحیح تعلیم کے بارے میں بتایاتو ان کے رویّوں میں تبدیلی آنی شروع ہوئی اور افتتاح کے موقع پر جب مَیں نے احمدیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی کہ مسجد بننے کے بعداحمدی کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم بیان کی تو ان میں مزید ایک اور تبدیلی پیدا ہوئی۔ ان لوگوں میں بڑا ادب اور احترام تھا۔ جو مخالف تھے اُن کے دل پگھلتے دیکھے۔
بہر حال ان مختلف مواقع پر وہاں جو فنکشن ہوئے، ان کے بارہ میں غیروں کے جو تاثرات ہیں وہ مَیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ بعض نے میرے متعلق بھی اظہار کیا ہے۔ مَیں نے کوشش یہی کی ہے کہ جہاں تک مَیں اپنی باتوں کو نکال سکتا ہوں تو نکال دوں لیکن بعض جگہ ذکر آ بھی جائے گا۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ جو باتیں مَیں نے کیں وہ اسلام کا پیغام ہے۔ اگر اثر ہے تو اسلام کے پیغام کا ہے نہ کہ میری ذات کا۔ بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں جو بات مَیں کہوں گا اُس کا اثر ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وعدہ ہے۔
پہلا ایک تبصرہ یہ ہے کہ وہاں ایک بشپ آئے ہوئے تھے جو پریس کانفرنس میں بھی آ گئے اور انہوں نے سوال بھی کر دیا۔ ڈاکٹر ایمن ہاورڈ (Bishop Dr Amen Howard) جنیوا سوئٹزرلینڈ سے آئے تھے۔ انٹر فیتھ انٹرنیشنل کے نمائندے ہیں۔ یہ رفاہی تنظیم فیڈ اے فیملی (Feed a Family) کے بانی صدر بھی ہیں۔ ان کو دعوت نامہ دیا گیا تھا۔ ایک دن پہلے یہ برف میں پھسل گئے تھے اور ان کی آنکھ بھی سوج گئی تھی۔ کافی چوٹ لگی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے کہا کہ اس فنکشن میں مَیں نے ضرور شامل ہونا ہے۔ انہوں نے برسلز کا سفر اختیار کیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ جو تقریر ہوئی، اس کے جو الفاظ تھے اُن کا جادو کا سا اثر تھا۔ پھر میرے بارے میں لکھتے ہیں کہ لہجہ دھیما تھا لیکن منہ سے نکلنے والے الفاظ اپنے اندر غیر معمولی طاقت اور شوکت رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان مَیں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بہر حال یہ وہ الفاظ تھے جو اسلام کی خوبیاں سن کر انہوں نے کہے۔
پھر سوئٹزر لینڈ سے آئے ہوئے جاپانی بدھ ازم کے نمائندے جارج کوہو میلو (Jorge Koho Mello) نے، جو راہب بھی ہیں، اپنے ساتھیوں کو جو اُن کو لے کر آئے تھے کہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ نے اس اہم لیکچر میں شامل ہونے کے لئے مجھے دعوت دی اور اس میں شامل ہونا اور خلیفہ سے ملنا میرے لئے ایک بہت بڑی سعادت ہے اور میرے قیمتی لمحات ہیں جن کومَیں کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ یہاں مجھے دوسرے ممالک کے اہل علم لوگوں سے ملنے کا بھی موقع ملا جس کے لئے مَیں مشکور ہوں۔ آنریبل Fouad Ahidar ممبربیلجیئم نیشنل پارلیمنٹ نے برملا اس بات کا اظہار بھی کیا۔ (یہ ہمارے پرانے واقف بھی ہیں، بلکہ ایک رات پہلے مجھے ملے تھے تو مَیں نے ان کو کہا تھا کہ اب کافی پرانی واقفیت ہو چکی ہے۔ اب آپ کو بیعت کر لینی چاہئے) بہر حال یہ مسلمان ہیں، مراکو وغیرہ کہیں سے ان کا تعلق ہے۔ کافی عرصے سے وہاں رہ رہے ہیں یا شاید ان کے والدین یہاں آئے تھے۔ اور اس وقت یہ اچھے سیاستدان، منجھے ہوئے سیاستدان بھی ہیں اور ممبر آف پارلیمنٹ بھی ہیں ) کہتے ہیں کہ میرا جو خطاب تھا، یہ خطاب پارلیمنٹ میں صرف میرے لئے ہی نہیں تھا بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے فخر کی بات ہے کیونکہ خلیفہ نے ہمارے سر بلند کر دئیے ہیں۔ اس سے پہلے جو اسلام کی بات ہمارے سامنے کرتا تھا، ہم سر جھکا لیا کرتے تھے کیونکہ صحیح تعلیم نہیں تھی، آج ہمیں اسلام کی صحیح تعلیم کا پتہ لگا ہے۔
پھروزارتِ داخلہ بیلجیئم کے نمائندے Jona Than Debeer (جوناتھن دیبیر) نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب نے ہم سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ہم نے اس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ یہ خطاب ہم سب کے لئے انسپائرنگ (Inspiring) ہے۔
پھر ممبر آف پارلیمنٹ مسٹر ماس (Mr Mass)کہتے ہیں کہ خلیفہ نے دنیا کے لئے جو امن کا پیغام دیا ہے، اور ہماری رہنمائی کی اس کے لئے ہم اُن کے بیحد شکر گزار ہیں۔ پھر ایک اور ممبر پارلیمنٹ مسٹر گاڈ فرے بلوم (Mr Godfrey Bloom)نے کہا کہ خلیفہ کے خطاب نے ہمیں روشنی عطا کی ہے۔ میں اپنے سب ساتھیوں کی طرف سے اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ پھر ناروے سے ایک ممبر پارلیمنٹ جو کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی کے صوبائی سیکرٹری بھی ہیں، آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھی ان باتوں کا اظہار کیا۔
پھر حکومتِ فرانس کی جانب سے وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ کے نمائندے مسٹر ایرک بھی شامل ہوئے۔ انہوں نے خطاب کے تمام اہم پوائنٹس نوٹ کئے اور کہا کہ خطاب میں فرانس کے لئے بہت رہنمائی ہے۔ میں واپس جا کر اپنی منسٹری میں رپورٹ کروں گا۔
فرانس یورپ میں ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف آوازیں اُٹھتی رہتی ہیں اور یہ صحیح تعلیم جو اُن کے سامنے پیش کی گئی تو بہر حال وہ متاثر ہوئے۔
پھرروسیو لوپیز (Rocio Lopez)صاحبہ جو سپین کی پارلیمنٹ کی ممبر ہیں، سپین سے اس تقریب میں شرکت کے لئے آئی تھیں اور طلیطلہ(Toledo) صوبے کی ہیں۔ کہتی ہیں کہ اس تقریب نے دوستی اور بھائی چارے کے اثرات چھوڑے ہیں۔ برسلز کے اس پروگرام نے ایک متحرک جماعت کا علم دیا جو مسلسل تعمیری کاموں میں مصروف ہے۔ مرزا مسرور احمد کی قیادت میں ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ جیسے ماٹو کے تحت مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے احمدی باہم مل جل گئے۔ دنیا جو اپنے نشہ میں دھت چلی جا رہی ہے اور جہاں امن اور محبت کا پیغام انتہائی اہم ہے، ایسی دنیا میں آپ لوگوں کے بارے میں جاننا ایک اعزاز کی بات ہے۔ پھر کہتی ہیں مَیں آپ کے تصورات کی کامل تائید کرتی ہوں۔ عالمی انسانی حقوق کی بحالی اور دنیا میں امن کے قیام کی تمام باتوں سے اتفاق کرتی ہوں۔ میں ہمیشہ مذہب کی بنیاد پر مظالم کی مذمت کرتی رہوں گی۔
پھر سپین سے ہی جَوسماریا الونسو (Jose Maria Alonso) اور میڈرڈ میں پاپولر پارٹی کی نمائندہ رکن اسمبلی ہیں۔ ان کا تعلق کنٹابریہ Cantabria سپین سے ہے۔ پہلے تو مجھے ملنے کے بعد تأثرات کا اظہار کیا۔ پھر کہتی ہیں کہ باقی تمام احمدیوں سے مل کر بھی میرے وہی جذبات ہیں جو خلیفہ سے مل کر تھے۔ یہ تمام جماعت بہت مہمان نواز اور پُرامن ہے۔ اور خلیفہ کے مطابق مذاہب کا مقصد بنی نوع انسان کے مابین مصائب بڑھانا نہیں بلکہ محبت بڑھانا ہے۔
سینٹیاگو کٹالہ (Santiago Catala) صاحب جو کہ کوئنسا یا کوئنکا یونیورسٹی Cuenca University میں لاء (Law) پروفیسر ہیں۔ بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں جن میں ‘Islam In Valencia’ اور ‘Islamic Jurisprudence’ شامل ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میرے الفاظ خلیفہ تک پہنچائیں اور اُن تمام لوگوں تک بھی جن سے عشائیہ پر ملاقات ہوئی اور ان سپینش احباب تک بھی جو ہمارے ساتھ موجود تھے۔ انہیں میری طرف سے شکریہ کے جذبات پہنچائیں۔ میں آپ سب سے مل کر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں خدا ہمیں مزید ملنے کے مواقع فراہم کرے گا۔ پھر کہتے ہیں خدا آپ پر بہت مہربان ہے اور مَیں بھی خدا کے نام پر آپ کے لئے بھلائی چاہتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ آپ کو خدا دولت اور امن عطا کرے۔ کہتے ہیں مَیں مذہبی شخص ہوں اور بعض روحانی تجربات رکھتا ہوں۔ ایک عرصے سے مَیں نے ایسا مذہبی ماحول نہیں دیکھا تھا۔ ہم جانتے ہیں کہ روحانی شخص وہ ہوتا ہے جو سیدھی راہ پر ہو، وہ خدا کے ساتھ ہو اور خدا اُس کے ساتھ ہو۔
پھر سپین سے ایک وکیل عورت تھیں وہ شامل ہوئیں۔ واپس جا کر انہوں نے جو پیغام بھیجا یہ ہے کہ سپین سے آنے والے ایک احمدی دوست قمر صاحب نے کہا تھا (یہ اُن کے ساتھ آئی تھیں ) کہ یہ دن بیمثال ہوں گے اور یقینا وہ غلط نہ تھے۔ مجھے امید ہے کہ خدا نے چاہا تو ان دنوں میں جو آپ کی جماعت نے کام کئے ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گے۔
سپین بھی ایسا ملک ہے جہاں ایک زمانے میں تو اسلام تھا اور اب وہاں اسلام کے لئے اتنی شدید دشمنی ہے، نفرت ہے، جس کی کوئی انتہانہیں۔ بعض علاقوں میں تو بہت حد سے بڑھی ہوئی ہے۔
پھر مالٹا (Malta)سے (مالٹا (Malta)ملک کا نام ہے) پروفیسر آرنلڈ کاسولہ (Prof. Arnold Cassola) صاحب بھی اس تقریب میں شامل ہوئے۔ یونیورسٹی آف مالٹا میں بطور پروفیسر کام کر رہے ہیں۔ مالٹی لٹریچر پڑھاتے ہیں۔ یہ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں۔ مالٹا کی تیسری سیاسی جماعت مالٹا گرین پارٹی کے (Co- Founder) ہیں۔ کئی سال تک گرین پارٹی کے سربراہ رہے۔ ان کو اٹالین پارلیمنٹ میں بھی ممبر آف پارلیمنٹ رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کانفرنس کا انتظام نہایت اعلیٰ تھا۔ کہیں کسی قسم کی کمی نظر نہیں آئی۔ جماعت احمدیہ کا عالمی بھائی چارے کا تصور اور ماٹو ’’محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں‘‘ ایک نہایت اہمیت کا حامل تصور ہے جو تمام انسانیت کو اکٹھا کر دیتا ہے اور ہر قسم کی نسلی اور مذہبی تفریق کو الگ کر کے انسان کو یکجا کرنے کی ضمانت دیتا ہے۔ خلیفہ کی تقریر عالمی امن کے قیام کی جدوجہد کی واضح عکاسی کرتی ہے۔ درحقیقت جماعت احمدیہ دنیا کے تمام لوگوں کے لئے جو امن اور رواداری کی تلاش میں ہیں مذاکرات کا ایک اہم پلیٹ فارم مہیا کر رہی ہے یہاں تک کہ سیاسی سطح پر بھی وہ اس معاملہ کو خوب اچھی طرح سے پیش کر رہی ہے۔
پھر دوسرے مہمان جو مالٹا سے آئے ہوئے تھے، اِوان بارتولو (Ivan Bartolo) صاحب، ان کا تعلق میڈیا سے ہے۔ وہ ٹی وی کے پروگراموں کے پروڈیوسر بھی ہیں، ان کو جماعت سے اس طرح تعارف ہوا تھا کہ لیف لیٹ سکیم جوشروع کی گئی ہے، اس کے تحت جب وہاں لیف لیٹ (Leaflet) تقسیم کئے گئے توجب ان کو لیف لیٹ ملا تو اس پر بڑے متأثر ہوئے اور انہوں نے خود جماعت سے رابطہ کیا۔ اور پھر یہ تعلقات بڑھتے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ امن کے قیام کے لئے آپ کی گراں قدر خدمات ہیں جس کا مَیں بڑا مداح ہوں اور پھر میرے بارے میں کہتے ہیں کہ جو کچھ اُن کے متعلق پڑھا تھا اُ س سے کہیں زیادہ اُن کو پایا۔ آپ کا پیغام دائمی ہے۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا پیغام صحیح لوگوں تک پہنچا ہے۔ آپ کی کوششوں، امن اور عالمی بھائی چارے کے لئے آپ کے مشن اور جدوجہد سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اور پھر انہوں نے اپنے ایک ساتھی کا واقعہ سنایا ہے جو وہیں بیلجیئم میں، برسلز میں اُن کو ملی تھیں کہ جب اُس کو بتایا کہ مَیں اس لئے آیا ہوں کہ یہاں ایک پروگرام ہے تو اُس نے کہا کہ یورپین پارلیمنٹ کے پروگرام عموماً اتنے آرگنائز نہیں ہوتے۔ تو انہوں نے کہا کہ نہیں یہ جماعت احمدیہ کا پروگرام ہے۔ اس پر وہ عورت کہنے لگی ہاں اُن کو مَیں جانتی ہوں۔ اُن کے پروگرام ہمیشہ بڑے آرگنائز ہوتے ہیں۔ پھر Mr Christian Mirre جو چرچ آف سائینٹالوجی یورپ کے ممبر ہیں، نے اپنے خیال میں کہا کہ ایک بہت اہم میٹنگ تھی۔ خلیفہ نے اپنے خطاب میں ہم سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم سب مل کر امن کے لئے کام کریں اور آپس کی نفرتوں کو دور کریں۔ اُن کا پیغام حکمت سے پُر تھا اور اب عالم انسانیت کے بہتر مستقبل کی ضمانت اسی پیغام پر عمل کرنے میں ہے۔
پھر فرانس کے ایک علاقہ Mont Le Jolie کی نائب میئر بھی اس پروگرام میں شامل ہوئیں۔ کہنے لگیں یہ خطاب مجھے بہت پسند آیا۔ انہوں نے ایک بڑا عظیم خطاب کیا اور ساری باتیں صاف صاف بیان کر دیں۔ فرانس کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسرMr. Marco Tiani بھی اس تقریب میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بہت خوش قسمت ہوں کہ خلیفہ کی سربراہی میں یورپین پارلیمنٹ میں ہونے والے اجلاس میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ میرے لئے بہت عزت اور برکت کا باعث تھا کہ میں ایک حقیقی امن والے انسانی حقوق کے لیڈر اور مذہبی آزادی کے ایک حقیقی علمبردار کی موجودگی میں وہاں موجود تھا۔ میرے لئے یہ ایک فخر کی بات ہے کہ میں ایک ایسے شخص سے ملا جو امن اور باہمی تعلقات کا ایک عظیم لیڈر ہے۔ ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ کا نعرہ سب سے طاقتور اور امن کی ضمانت دینے والا ہے۔ اس نعرہ نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ تمام شامل ہونے والوں کو بہت عزت ملی۔ لوگ اتنی تعداد میں تھے کہ باہر بھی کھڑے تھے۔
پھر نن سپیٹ کے سابق میئر کے تاثرات یہ ہیں کہ پہلے تو انہوں نے بلانے پر شکریہ ادا کیا ہے۔ پھر یہ کہا کہ مَیں پروگرام سے بہت متأثر ہوا (میاں بیوی دونوں آئے ہوئے تھے، یہ دونوں کے تاثرات ہیں )۔ اس قسم کی تقریب منعقد کرنا آجکل دنیا میں ہونے والے ظلم اور شدت پسندی کابہترین جواب تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ یہ موضوع یعنی امن یورپین پارلیمنٹ کے سیاسی ایجنڈا کا بھی حصہ ہے۔ اور امید ہے اس پہلو کو آئندہ بھی توجہ ملتی رہے گی۔ بہرحال اس تقریب کی وجہ سے اس تقریب میں شاملین، سامعین اور قارئین کا حوصلہ بلند ہوا ہے۔
Mr. Charles Tannock , MEP نے کہا کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی عالمی سطح پر امن کا پیغام پھیلارہی ہے اور شدت پسندی کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یہاں آنے سے قبل ایک کامیاب پریس کانفرنس کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ (اس فنکشن سے آدھا گھنٹہ پہلے ایک پریس کانفرنس بھی تھی) وہاں پر جس انداز سے سوال وجواب ہوئے اُس سے میں ذاتی طور پر بہت متاثر ہواہوں۔ مسلمانوں کے رہنماسے اس قسم کے پیغام کی دنیا کو ضرورت ہے۔ یہ امن کا پیغام دراصل ہمارے اپنے دلوں کی آواز ہے جن کا تعلق اسلام سے نہیں بلکہ دیگر مذاہب سے بھی ہے۔
انہوں نے کہاکہ احمدیہ مسلم جماعت روز بروز ترقی کی منزلیں طے کررہی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ان کی ہر براعظم میں شاخیں ہیں۔ احمدیہ کمیونٹی کی تعلیمات کو بہت کم لوگ جانتے ہیں لیکن ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس کمیونٹی کے بنیادی پیغام کو یورپ میں پھیلائیں جو کہ ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ پر مشتمل ہے۔ یہ امن کا پیغام ہے اور یہ امن صرف مسلمانوں کے بیچ نہیں بلکہ دنیا میں موجود تمام مذاہب کے درمیان امن کا پیغام ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ آجکل جماعت احمدیہ دنیا کیلئے امن اور برداشت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ جبکہ دوسری طرف مذہبی انتہاپسندی اور شدت پسندی، امن اور انسانی حقوق دونوں کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔ یہ مذہبی انتہاپسندی پھر عالمی سطح پرہونے والی دہشتگردی کے ساتھ جڑجاتی ہے۔
پھر کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو خود اس انتہا پسندی کا جواب دینے کی ضرورت ہے جیسا کہ جماعت احمدیہ اس انتہا پسندی کا جواب دے رہی ہے۔ پھر انہوں نے خطاب (ایڈریس)پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے متأثر کن اور وسیع المعنی خطاب پر بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ آپ نے اپنے خطاب میں مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا۔ آپ نے امن اور برداشت کے متعلق اسلام کی حقیقی تعلیمات سے آگاہ کیا۔ یہ بھی ذکر کیا کہ ترقی یافتہ ممالک کو غریب اقوام اور پسماندہ ممالک کی مدد کر نی چاہئے۔ نیز اُن ذمہ داریوں کا بھی ذکر کیاجو کہ مغرب اور بالخصوص یورپی یونین کے ممالک پر عائد ہوتی ہیں اور جو کہ اُنہیں فکر کے ساتھ اور ہمدردی کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں۔ اور مجھے اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ آپ نے نڈر ہو کر اور جرأت مندانہ طور پر امیگریشن کے حوالہ سے پیش آنے والے مسائل کا اپنے خطاب میں ذکر کیا ہے۔ بطور ایک سیاستدان ہونے کے مَیں جانتا ہوں کہ یہ ہمارے ملک کا اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی رکھنا، ایک دوسرے کے لئے برداشت پیدا کرنا آج کا اہم ترین پیغام تھا جس کو ساتھ لے کر ہمیں یہاں سے رخصت ہونا چاہئے۔
اسٹونیا سے تعلق رکھنے والے ممبرآف یورپین پارلیمنٹ Mr Tunne Kelam اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ کی جماعت شدت پسندی اور ظلم کو یکسر رد کرتی ہے جو کہ آج کل کی دنیا میں دن بدن پھیل رہا ہے۔ مختلف مذاہب اور عقائد کو اکٹھاکرنے کیلئے آپ کا نمونہ نہ صرف نظریاتی اعتبار سے بلکہ عملی طور پر بھی بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج ہمارے پاس اچھا موقع ہے کہ ہم اس پیغام کوپھیلانے پر زور دیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یورپین پارلیمنٹیرینز بھی اس پیغام کا حصہ بن رہے ہیں۔ پھرClaude Moraes (MEP) ممبر یورپین پارلیمنٹ نے کہاکہ بالعموم یورپین پارلیمنٹ کی ہونے والی میٹنگز میں حاضرین کی اتنی تعدادنہیں ہوتی جتنی آج یہاں پر نظرآرہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آجکل دنیا کے حالات اس طرف جارہے ہیں کہ ہمیں احمدیہ جماعت کے امن اور آشتی کے نظریات کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کیلئے برداشت پیداکرنے اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ یہ نظریات صرف کتابی باتیں نہیں ہیں بلکہ آجکل کے دور میں ان پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہوگیا ہے۔ انہوں نے میرے بارے میں کہا کہ اُن کا یہاں آنا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے متعلق جانناچاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ احمدیہ جماعت کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان کے امن اور ایک دوسرے کے لئے برداشت کے متعلق نظریات اور پیغام کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ مذہب وملّت کی تفریق کے بغیر انسانیت کی خدمت کرنا بھی اس جماعت کا خاصہ ہے۔ ان سب باتوں کو مزید سمجھنے کی ضرورت ہے۔
وہاں جو مختلف پریس والے آئے ہوئے تھے، اس میں بی بی سی نیوز فیتھ میٹرز، سپینش میڈیا اکویو یورپا (Aqui Europa)، پھر تیسرے مالٹا کا فیورٹ چینل تھا۔ جیو ٹی وی اور ڈیلی جنگ کے نمائندے تھے۔ پیرس کے ’لی میگزین‘ کے نمائندے تھے۔ المنار ریڈیو بیلجیئم تھا۔ ٹرکش میڈیا اب ھبر(Abhaber) تھا۔ فرنچ اکیڈیمک ریسرچر۔ اونر آف جسٹس فرسٹ آف دی ورلڈ۔ پکار نیوز یوکے۔ اسی طرح ہیں ایسوسی ایٹڈ (Associated)پریس پاکستان۔ اور پھر اس کے علاوہ یورپین پارلیمنٹ کے آفیشل فوٹو گرافر، بیلجیئم کے ٹی وی اور ریڈیو کے نمائندگان اور بعض دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے میڈیا کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے۔ سی این این نے بھی ایک حصہ کا حوالہ دے کر اپنی ویب سائٹ پر اُس کے اوپر لکھا تھا Quote of the day۔ اُس کو حوالہ پسند آیا تھا۔ اس میں ایک ہونے کا ذکر تھا۔
جرمنی کے نیشنل ممبر آف پارلیمنٹ اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خطاب انتہائی متأثر کن تھا۔ اس نے ہم پر گہرا اثر کیا ہے۔ میرا خیال ہے انہوں نے یہ ہیمبرگ میں کہا تھا۔ لیکن بہر حال میرے متعلق کہتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے برٹش پارلیمنٹ اور امریکن کیپیٹل ہل میں خطاب کئے ہیں، اسی طرح اب میں نے کوشش کرنی ہے کہ خلیفہ کا برلن میں جرمن پارلیمنٹ سے بھی خطاب ہو۔
Hakan Temirel ممبر صوبائی اسمبلی ہیمبرگ نے اس دن اُن کو مَیں نے وہاں جو باتیں بتائی تھیں، کہا کہ آج جو ہماری رہنمائی کی ہے، اس رہنمائی کی پوری اسلامی دنیا کو ضرورت ہے۔
اب یہ یورپین پارلیمنٹ سے آگے ہیمبرگ کے فنکشن کاذکر چل رہاہے۔ یہ اگلے دن ہی تھا۔ منگل کو یورپین پارلیمنٹ میں تھا، بدھ کو ہیمبرگ میں۔ ہیمبرگ میں ہی انٹیگریشن آفیسر(Integration Officer) کسی احمدی دوست کو اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے اسلام کی تعلیم کو انتہائی عمدہ اور خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گیا ہے۔ مجھے اس پروگرام میں شامل ہو کر بہت خوشی ہوئی ہے اور اسلام کی اصل تعلیم کا پتہ چلا ہے۔ اب ہم جماعت کے نمائندگان کو اپنے پروگراموں میں بلائیں گے تا کہ آپ لوگ وہاں آ کر اسلام کی تعلیم پیش کریں۔ ہیمبرگ کے علاقہ ہاربرگ (Harburg) کی کونسل کے ایک نمائندے نے کہا کہ جس طرح وہ الفاظ کی ادائیگی کر رہے تھے، وہ دلوں میں اتر رہے تھے، ایسا تو ہمارے مذہب کا کوئی بھی نمائندہ نہیں کر سکتا۔ پھر کہا خلیفہ نے جس طرح خاص طور پر اسلام کا تصور پیش کیا ہے، اسلام کی یہ حسین تعلیم پیش کی ہے کہ جس ملک میں رہتے ہو اس سے محبت کرنی چاہئے، یہ میرے لئے اسلام کی ایک نئی تصویر ہے۔ ایک خاتون نے اب یہ ذاتی میرے بارے میں تاثر دیا ہے(مَیں اسے چھوڑتا ہوں۔) پھر انٹیگریشن کے حکومتی ادارے سے تعلق رکھنے والی دو آفیسر خاتون آئیں ہوئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سارے ڈر اور خوف دور ہو گئے ہیں۔ خلیفہ نے اپنی تقریر کے اندر ہمارے سارے خوف دور کر دئیے ہیں۔ مسلمانوں کو ایسے ہی خیالات رکھنے چاہئیں۔ اسلام کی تعلیم تو بہت پُر امن ہے، جو خوف سوسائٹی میں ہمیں نظر آرہا تھا وہ اب دور ہو گیا ہے۔
ہیمبرگ کے ایک علاقے میں حکومتی وفاقی دفاتر کے Head اپنی اہلیہ کے ساتھ آئے ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ایسا محسوس کیا جس طرح شہد کی مکھیاں ہوتی ہیں اور اُن کی ایک ملکہ ہوتی ہے۔ ساری مکھیاں اپنی ملکہ کے گرد گھومتی ہیں اور اس کے لئے اپنی جان دیتی ہیں۔ اسی طرح آپ کی ساری جماعت اپنے خلیفہ کے گرد کام کرتی ہے اور خلیفہ پر اپنی جان دیتی ہے اور کامل اطاعت کرتی ہے۔ تو یہ نظارے بھی غیروں کو نظر آتے ہیں اور لکھا کہ اس دوران خلیفہ کی بھی صورتحال شہد کی ملکہ کی طرح ہے۔ اور اس کا ذکر کیا کہ جماعت کس طرح اپنے خلیفہ کا احترام کرتی ہے۔
وہاں کچھ پریس کے لوگ بھی آئے ہوئے تھے جن کا خطاب سے پہلے تو کوئی پروگرام نہیں تھا۔ صرف جرمنی کے امیر صاحب کا انٹرویو لینا تھا۔ لیکن پھر انہوں نے میرا کہا کہ اُن سے بھی ہم نے انٹرویو لینا ہے۔ سوال جواب کرنے ہیں۔ جب مجھے انہوں نے کہا تو مَیں نے کہا ٹھیک ہے فنکشن کے بعد کر لیں۔ اُس فنکشن کے بعد جب مَیں نے کہا کہ کہاں ہیں، اُن کوبلاؤ۔ تو کہتے ہیں انہوں نے اب یہ کہا ہے کہ جو کچھ ہم نے سوال کرنے تھے، جو شبہات اور تحفظات ہمارے ذہن میں تھے، وہ تو اس ایڈریس سے دور ہو گئے ہیں۔ اس لئے اب اس کی مزید ضرورت نہیں ہے۔ تو اسلام کے بارے میں خوبصورت تعلیم ان کو جب پتہ لگتی ہے تو پھر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ اسلام کیا چیز ہے۔ اسلامک کمیونٹی بورڈ کی ایک خاتون ممبر بھی آئی ہوئی تھیں۔ یہ میرا خیال ہے غالباً عرب ہیں۔ یہ یونیورسٹی میں اسلامک ریسرچ پر کام کرتی ہیں۔ جماعت کے بارے میں پہلے کافی مخالف تھیں اور احمدیوں کے خلاف باتیں بھی کرتی تھیں۔ پھر کچھ عرصے سے اُن کا رویہ تبدیل ہو گیا۔ وہاں یونیورسٹی میں ہمارے ایک مصری پروفیسر بھی ہیں، وہ جماعت سے کافی قریب ہیں، ہو سکتاہے کہ اُن کی وجہ سے بھی (رویّہ) تبدیل ہوا ہو۔ بہر حال کہنے لگیں کہ ہمارے سارے خدشات دور ہو گئے ہیں۔ آپ کے خلیفہ کوئی عام آدمی نہیں ہیں۔ بہت بڑے روحانی لیڈر ہیں۔ ذہین انسان ہیں۔ کہنے لگی کہ میں نے خلیفہ کو چلتے ہوئے دیکھا، بولتے ہوئے دیکھا، نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ مَیں سوچا کرتی تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایسا لیڈر ہو۔ آج میں نے وہ لیڈر اپنی زندگی میں دیکھ لیا ہے۔ پس یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کی برکت۔ یعنی ان سب خیالات کے باوجود انہوں نے جو کچھ دیکھا، وہیں سوئی ان کی اڑی رہے گی، قبول نہیں کریں گے۔
ہیمبرگ شہر کے پریذیڈنٹ آف پولیس اس پروگرام میں شامل ہوئے۔ وہ صوبے کا ہی پورا انچارج ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خطاب میں اسلام کی جو امن کی تعلیم بیان کی ہے اگر اس پر ہم سب عمل کرنے والے ہوں تو پھر ہم پولیس والوں کی ضرورت ہی نہ رہے۔
ہیمبرگ کا جو پروگرام تھا اس کو بھی بڑی وسیع کوریج ملی ہے۔ ہیمبرگ ایبنڈ بلاٹ(Hamburger Abendblatt) اخبار ہے جس کو پڑھنے والے پانچ لاکھ ستاون ہزار ہیں، اُس نے اس خبر کو دیا۔ پھر ایک اور اخبار ’بِلڈ‘ (Bild)ہے جس کو پڑھنے والے سات لاکھ اکتیس ہزار افراد ہیں۔ پھرایک اخبار ہے جس کی ایک لاکھ سرکولیشن ہے۔ ’ویلٹ کمپکٹ‘(Welt Kompakt)، پھر اخبار ’این ڈی آر ایکچوال‘(NDR Aktuell) اس کی چار لاکھ کی سرکولیشن ہے، لوگ پڑھتے ہیں۔ اور اسی طرح مختلف اخباروں نے ہیمبرگ کی مسجد کی اس رینوویشن (Renovation) کے افتتاح کا اور اس ایڈریس کا ذکرکیا۔
صوبہ ہیسن کی جو پارلیمنٹ ہے، اُس کے اپوزیشن لیڈر نے بھی وہاں پارلیمنٹ میں ملاقات کے لئے بلایا تھا تو وہ کہنے لگا کہ اسلامی دنیا میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں، خاص طور پر عرب ممالک میں، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ آجکل ہمارے ہاں اس کی بڑی بحث چل رہی ہے۔ ان لوگوں سے مدد بھی وہاں جاتی ہے اور یہی لوگ وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار بھی ہیں۔ تو مَیں نے ان کو یہ کہا کہ جو عرب دنیا کی صورتحال ہے یہ کوئی راتوں رات پیدا نہیں ہو گئی۔ عرب دنیا کی یہی لیڈرشپ تھی جو آج سے دس بیس سال پہلے بھی تھی۔ انہی خیالات کے حامل تھے۔ اُس وقت بڑی طاقتوں نے اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ اپنی ترجیحات اور مفادات تھے۔ اور نہ ہی وہاں کے لوکل عوام کی توجہ پیدا ہوئی کیونکہ ان کو بھی بھڑکانے والے باہر کے لوگ ہیں۔ یہی لیڈر شپ تھی جو پہلے بھی کرپٹ تھی یا اپنے عوام کے ساتھ صحیح سلوک نہیں کر رہی تھی۔ لیکن مغربی طاقتوں نے یا اُن ایجنسیز نے جو ان ملکوں کو ایڈ (Aid) دیتی تھیں، ان کے ساتھ رابطہ رکھا۔ اصل چیز یہ ہے کہ جب تک بڑی طاقتوں نے لیڈرشپ کو اپنے زیرِ اثر رکھا، لیڈرشپ نے ان کی بات مانی تو اُس وقت تک وہاں کوئی ایسا فسادنہیں تھا، کوئی فکر نہیں تھی۔ لیکن جب وہ لیڈر شپ ان کے قابل نہیں رہی تو انہوں نے وہاں ایک انقلاب لانے کی کوشش کی۔ مَیں نے ان کو کہا کہ اگر مغربی حکومتیں چاہتی ہیں کہ ان ممالک میں امن ہو تو وہ پھر وہاں خالص جمہوریت لے کے آئیں۔ کیونکہ آپ لوگ جمہوریت کا ہی زیادہ شور مچاتے ہیں ناں کہ جمہوریت ہونی چاہئے۔ نہ یہ کہ کسی خاص شخص کو پسند کر کے ایک لمبا عرصہ اُس کی سپورٹ کرتے رہیں اور پھر جب وہ حد سے بڑھ جائے، ڈکٹیٹر بن جائے تو پھر اُس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ تو یہ ڈکٹیٹر بنانے والے بھی آپ لوگ ہی ہیں۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ ترقی کے جس معیار تک وہ ملک پہنچ چکا ہوتا ہے، جب پسندنہیں رہتا تو پھر اُس کا اتنا بُرا حال کرتے ہیں کہ بالکل مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے اب یہ کوشش کرنی چاہئے کہ جن ملکوں میں فساد ہیں وہاں حقیقی طور پر اُن کی مدد بھی کی جائے اور جمہوریت اگر آپ نے قائم کرنی ہے تو کریں۔ خیر اور بھی باتیں ہوتی رہیں، بہر حال ان کو یہ کہنے کا ایک موقع ملا۔
وہاں جامعہ احمدیہ کا افتتاح بھی ہوا۔ ورنر آرمنڈ (Werner Amend) ریڈشٹڈ، جس شہر میں جامعہ ہے وہاں کے میئر ہیں، وہ کہتے ہیں کہ خلیفہ نے جو تقریر کی وہ کوئی لکھی ہوئی تقریر نہ تھی بلکہ اُن کے دلی خیالات تھے۔ اُن کا طلباء کو یہ کہنا کہ وہ تعلیم پر خود بھی عمل کریں اور لوگوں کے سامنے عملی نمونہ رکھیں بہت ضروری اور مثبت بات ہے۔ ایک مذہبی تنظیم کے سربراہ ہونے کے باوجود بہت پریکٹیکل انسان ہیں۔ یہ ’’باوجود‘‘ سے پتہ نہیں اُن کی کیا مراد ہے؟ اُن کے خیال میں شاید مذہبی رہنما پریکٹیکل نہیں ہوتے یا عملی طور پر کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ وولف والتھرWolf Walther صاحب جرمن اسلام کانفرنس کے سیکرٹری ہیں۔ وہ بھی وہاں جامعہ کے افتتاح پر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیفہ کی ہدایات بہت اہم اور ضروری تھیں۔ اُن کی طلباء کو ایک ہدایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ طلباء عمومی آبادی سے مختلف نظر آنے والے اور الگ لباس میں ہوں گے، اس لئے بہت ضروری ہے کہ وہ دوستانہ رویہ رکھیں اور کھلے دل سے ملنے والے ہوں۔ اس سے خوف کم کرنے اور تعصبات سے بچنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ بولنے اور معلومات کے تبادلے سے ہی ایسا ممکن ہے۔ اس لئے خلیفہ کی اس بارے میں ہدایات بہت اہم ہیں۔ ایک جرنلسٹ ہاناک (Hanack) کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں تقریب بہت باوقار تھی اور دوستانہ ماحول میں ہوئی۔ آپ کے عالمی سربراہ کی تقریر میرے نزدیک بہت پُر مغز اور مناسب تھی۔ اُن کے زندگی بخش الفاظ صرف بنیادی اخلاقیات تک محدودنہیں تھے۔ مجھ پر گہرا اثر چھوڑ گئے کیونکہ انہوں نے ٹھوس طریق پر طلباء کے مقامی آبادی کے ساتھ سلوک کا ذکر کیا۔
جامعہ احمدیہ کے افتتاح کو بھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں کافی کوریج ملی ہے۔ دس سے زائد خبریں آ چکی ہیں جن میں صوبائی ٹی وی، ریڈیو وغیرہ شامل ہیں۔ جامعہ کی تصویر بھی آئی ہے۔ اخبارات نے لکھا کہ مرزا مسرور احمدنے طلباء سے خطاب کیا۔ انہوں نے بار بار یہ کہا کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ انہوں نے ان نوجوانوں کو نصیحت کی کہ وہ اپنے آپ کو پَرکھیں۔ تعلیمات کو اپنے اوپر لاگو کریں اور بنی نوع انسان سے خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ احمدیہ جماعت کی اہم شرط یہ ہے کہ معاشرے میں ہم آہنگی اور امن پھیلایا جائے۔
ایک اخبار نے لکھا کہ اسلامی جماعت احمدیہ مستقبل میں ریڈشٹڈ میں امام تیار کرے گی اور پھر سارا نقشہ کھینچا کہ کیا کیا کچھ وہاں موجود ہے۔ ان کے سربراہ مرزا مسرور احمدنے مستقبل کے اماموں کو مخاطب کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ ریڈشٹڈ اور ہیسن میں لوگوں میں اسلام کا خوف ختم کرنا ہے۔ اسلام دوسرے مذاہب اور معاشروں کے خلاف جنگ نہیں کر رہا۔ اس طرح مختلف اخباروں کے تبصرے تھے۔
جو پروگرام ہوئے اللہ تعالیٰ ان سب کے دوررَس نتائج پیدا فرمائے اور ہمارا ہر قدم ترقی کا قدم ہو۔ ہمیں شکر گزاری اور تقویٰ میں بڑھاتا چلا جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے۔ مسلمان کاپوچھنے پر اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہہ دینا سچا سپاس اور شکر نہیں ہے۔ اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو۔ کوئی تم پر غالب نہیں آ سکتا‘‘۔ پھر فرمایا ’’اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے اور خدا تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا‘‘۔ فرمایا ’’ضروری ہے کہ انسان تقویٰ کو ہاتھ سے نہ دے اور تقویٰ کی راہوں پر مضبوطی سے قدم مارے کیونکہ متقی کا اثر ضرور پڑتا ہے اور اُس کا رعب مخالفوں کے دل میں بھی پیدا ہو جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 50-49۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اپنے فضلوں سے نوازتا رہے۔
شکر کے مضمون کا تذکرہ جتنا جماعت احمدیہ میں ہوتا ہے یا شکر کے مضمون کا ادراک جتنا جماعت کو ہے، ہم دعویٰ سے کہہ سکتے ہیں کہ کسی اور کو نہ ہے اور نہ ہو سکتا ہے کیونکہ حقیقی شکر وہ ہے جو خدا کا ہو، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہو، خدا تعالیٰ کے دین کی ترقی اور غیروں پر اُس کا رعب پڑنے پر ہو۔
غیر مسلم اگر اسلام کے بارے میں غلط خیالات کو دل سے نکالتے ہیں یا یہ اظہار کرتے ہیں کہ آج ہمارے دل اور دماغ اسلام کے بارے میں غلط تأثرات سے صاف ہو گئے ہیں تو وہ صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی مجالس میں حاضر ہو کر اپنے ذہنوں کو پاک کرتے ہیں، یا صحیح اسلام اُنہیں جماعت احمدیہ کی مجلسوں سے ہی، پروگراموں سے ہی پتہ لگتا ہے۔
تجدیدِ نو کے جس کام کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع فرمایا تھا، وہ تقریباً 124 سال گزرنے کے بعدآج بھی جاری ہے اور نہ صرف جاری ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور تائیدات کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں۔
(حالیہ دورہ ٔیورپ میں یورپین پارلیمنٹ میں خطاب۔ اسی طرح جرمنی کے دورہ کے دوران اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اور غیروں میں اسلام کے پیغام کی اثرانگیزی پر مشتمل تأثرات اور میڈیا میں دورہ کی کوریج کا ایمان افروز تذکرہ)
جامعہ احمدیہ جرمنی کی نئی عمارت کا افتتاح۔
فرمودہ مورخہ 21؍دسمبر 2012ء بمطابق 21؍فتح 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔