صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے رؤیا وکشوف کی ایمان افروز روایات
خطبہ جمعہ 28؍ دسمبر 2012ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت مَیں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ روایات لی ہیں جو اُن کے رؤیا و کشوف کے بارے میں ہیں۔ پہلی روایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ کی ہے۔ یہ کچھ دیر قادیان رہنے کے لئے آئے۔ قادیان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت میں رہے تو (وہاں کے) جو مختلف واقعات تھے، ان کی ایک روایت پیچھے چلتی آرہی ہے۔ اُس کے بعد آگے بیان کرتے ہیں کہ پانچ چھ روز کے بعد میں رخصت ہو کر واپس آ گیا (یعنی قادیان سے واپس چلے گئے)۔ واپس اپنے گھر آ کر، اپنے علاقے میں آ کر میں نے تبلیغ شروع کر دی۔ سب سے پہلے مَیں اپنے استاد صاحب کے پاس بغرض تبلیغ پہنچا۔ رات کے وقت اُن کو اور (اُن کے ساتھی تھے) میاں لال دین صاحب آرائیں، جو وہاں کے باشندے تھے، اُنہیں تبلیغ کی۔ کہتے ہیں اُسی رات جب میں نماز پڑھ کر سویا تو خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے۔ آپ علیہ السلام کی کمر میں ایک کمر بند باندھا ہوا تھا اور نہایت چستی سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑ کر بڑی تیزی سے مجھے ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مدینہ شریف میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاں بیوت مبارک تھے، (جہاں اُن کے گھر تھے، وہاں انہوں نے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے) کھڑا کر دیا اور (پھر کہتے ہیں کہ خواب میں مجھے) آپ علیہ السلام نظر نہیں آئے اور میں اُن مکانات کو جو خام تھے (کچے مکان تھے) اور شمار میں نو (9) ہیں۔ دیکھ کر کہتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حرم مبارک ان گھروں میں رہتے تھے اور اُن کے شمالی سمت میں ایک خام مسجد ہے۔ خواب میں مَیں کہتا ہوں کہ یہ مسجدنبوی ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ صبح کو مَیں نے مولوی صاحب کو یہ خواب سنایا (یعنی اپنے استاد کو) اور ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ اُن کی خدمت میں پیش کی اور (وہاں سے آ گیا، اُن سے) رخصت ہوا۔ پندرہ روز کے بعد مولوی صاحب نے یہ کتاب پڑھی، قادیان روانہ ہوئے اور بیعت کر کے واپس آئے۔ اسی طرح میاں لال دین بھی بیعت میں داخل ہو گئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ۔ غیر مطبوعہ۔ جلد7صفحہ235-234۔ ازروایت حضرت محمد فاضل صاحبؓ)
حضرت نظام الدین صاحبؓ، انہوں نے 1890ء یا 91ء میں بیعت کی تھی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بیعت سے بہت پہلے 1883ء۔ 1884ء میں دیکھ لیا تھا۔ کہتے ہیں ’’مَیں ابھی بیعت میں داخل نہیں ہوا۔ نمازِ عصر مسجد مبارک سے پڑھ کر پرانی سیڑھیوں سے جب نیچے اترا تو ابھی سقفی ڈیوڑھی میں تھا (یعنی وہ ڈیوڑھی جس پر covered area تھا) کہ دو آدمی بڑے معزز سفید پوش جوان قد والے ملے۔ (یہ قادیان گئے ہوئے تھے) جو مجھے سوال کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کا پتہ مہربانی کر کے بتلائیں کہ کہاں ہیں؟ ہم بہت دور دراز سے سفر کر کے یہاں پہنچے ہیں۔ مَیں نے کہا آؤ مَیں بتلا دوں۔ انہوں نے کہا نہیں آپ ہمارے پیچھے ہو جائیں۔ اوپر ہیں تو ہم پہچانیں گے۔ تب میں اُن کے پیچھے ہو لیا۔ وہ میرے آگے آگے سیڑھیاں چڑھتے ہوئے چلے گئے۔ آگے اجلاس لگا ہوا تھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس تھی۔ ) اور حضور علیہ السلام دستارِ مبارک سر سے اتارے ہوئے بے تکلف حالت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جاتے ہوئے اُن میں سے ایک شخص نے حضور کو جاتے ہی پوچھا کہ آپ کا نام غلام احمد ہے؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘۔ پھر اُس نے کہا کہ آپ کا دعویٰ مسیح موعود کا ہے؟ حضور نے فرمایا۔ ’’ہاں‘‘۔ تو پھر اُس نے کہا کہ پہلے آپ کو السلام علیکم جناب حضرت رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا، اور پھر میری طرف سے اور میں فلاں دن حضوری میں تھا۔ (یعنی اپنی خواب کا ذکر کر رہے ہیں ) تب رسولِ خدا کا ہاتھ مبارک حضورؑ کے دائیں کندھے پر تھا۔ (یہ آگے وہی شخص اب اپنی خواب بتا رہے ہیں کہ فلاں دن مَیں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھا) اور رسولِ خدا کا ہاتھ مبارک حضورؑ کے دائیں کندھے پر تھا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دائیں کندھے پر تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ھٰذا مَسِیْحٌ‘‘ ان کی بیعت کرو اور میرا سلام کہو۔ (یہ اُن لوگوں نے کہا۔ ) کہتے ہیں تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا۔ (یہ جو روایت بیان کرنے والے ہیں ناں حضرت نظام الدین صاحب، یہ اب آگے اپنا واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ) تب میرے دل نے سخت لرزہ کھایا اور دعا مسجد اقصیٰ میں بہت زاری سے کی۔ اللہ کے صدقے، اللہ تعالیٰ کے قربان، کیسے جلدی اُس نے میرے آقا کی دعا سے اس عاجز گناہگار کو اُٹھایا ہے۔ اسی رات سے بشارتیں اعلیٰ سے اعلیٰ ہونی شروع ہو گئیں۔ (جب مَیں نے دعا کی۔ ) تمام خوابوں کے لئے تو میدانِ کاغذ کی ضرورت ہے(اتنی خوابیں ہیں کہ انتہا کوئی نہیں ) صرف ایک آخری خواب جس نے میرے جیسے عاصی گناہگار کو شرف بیعت حاصل کرنے کی بخشی، جس کا(ذکر) درج ذیل کرتا ہوں۔ کہتے ہیں خواب میں دیکھا کہ ایک دریا شرق سے غرب کو جا رہا ہے جس کی چوڑائی تقریباً ایک میل کی ہو گی۔ پانی بہت مصفّٰی ہے جیسے کسی نے شعر کہا ہے
مصفی ہمچو چشم نیز بیناں
مصفٰی ہمچو از خلوت نشیناں
یعنی ایسا صاف جیسے ایک صاف نظر دیکھنے والی آنکھ ہے، جیسے صاف دل ایسا شخص جو خلوت میں ہو، علیحدگی میں ہو، الگ پاک سوچ رکھنے والا ہو، وہ بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ تشبیہ انہوں نے دی ہے۔ بہر حال کہتے ہیں بہت صاف پانی تھا، کوئی شئے اُس میں خوفناک نہیں ہے اور میں بڑی خوشی سے تیر رہا ہوں۔ جب مولوی عبداللہ کشمیری جو اُس وقت تک (میرا خیال ہے اس وقت تک) احمدی نہیں تھا اُس نے بہت دور کنارے جنوب سے بلند آواز سے کہا۔ اے منشی جی، اے بابو جی! کیا آپ نہا رہے ہیں؟ ذرا دل کی جگہ تو دیکھو جو بالکل خشک ہے۔ کہتے ہیں مَیں نہا رہا تھا۔ آواز آئی کہ دل کو دیکھوباوجود پانی میں تیرنے کے بالکل خشک ہے۔ تب میں اُسی عالم میں اچھل کر دیکھتا ہوں تو واقعی میرے دل کی جگہ بالکل خشک ہے۔ اچھلتا ہوں اور پانی ہاتھوں میں بھر کے دل کی جگہ ڈال رہا ہوں، مگر خشک۔ مَیں کہتا ہوں مولوی عبداللہ! یہ کیا بات ہے؟ اُس نے جواب دیا۔ مشرق کو منہ کر کے دیکھو کیونکہ میں مغرب کی طرف جا رہا تھا۔ مشرق کی طرف جب منہ کر کے دیکھا تو اُدھر ایک بڑا عظیم الشان پُل دریا پر ہے اور اُس پُل کے اوپر مرزا صاحب کے گھر ہیں۔ مَیں نے کہا میں اس طرف نہیں جاؤں گا کیونکہ مرزا کے گھر ہیں۔ پھر مولوی عبداللہ نے کہا کہ جاؤ تو سہی۔ پھر جواب دیا کہ مَیں اُس طرف نہیں جاؤں گا۔ پھر مولوی عبداللہ روئے اور بلند آواز سے کہا کہ جاؤ تو سہی۔ تب اللہ تعالیٰ کے صدقے قربان، میں تیرتا ہوا پُل سے پار کی طرف شرق (یعنی مشرق کی طرف) چلا گیا۔ اُس طرف نکلا تو کنارہ گھاس والا پانی کے برابر ملا۔ محنت کر کے گھاس والے کنارے پر کھڑا ہو کر تمام بدن سے پانی نچوڑ رہا ہوں (خواب میں دیکھتے ہیں) مگر دل کا پانی جو خشک جگہ دل کی تھی (یعنی پہلے جب دریا میں نہا رہے تھے تو دل خشک تھا لیکن جب یہاں کھڑے ہو کر جسم سے پانی نچوڑنا شروع کیا تو کہتے ہیں کہ جو خشک جگہ دل کی تھی) وہاں سے اتنا پانی جاری ہے جو ایک چشمے کی طرح جاری ہے، خشک ہونے تک نہیں آتا۔ آنکھ کھل گئی اور اُسی دن بیعت کر لی اور ٹھنڈ پڑ گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 189تا191۔ ازروایات حضرت نظام الدین صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ ولد مستقیم صاحب، جنہوں نے 1906ء میں بیعت کی فرماتے ہیں کہ مَیں نے (اپنے ایک خواب کا پہلے ذکر کیا اُس کے بعد کہتے ہیں ) ایک اور یہ خواب دیکھا کہ آپ نے جمعہ عید کی طرح پڑھایا ہے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جمعہ عید کی طرح پڑھایا ہے) خطبہ کرنے کے لئے ایک کمرہ ہے۔ قرآنِ شریف پکڑ کر آپ اُس کے اندر تشریف لے گئے۔ وہ کمرہ مسجد کے داہنے کونے میں ہے۔ آپ کے پیچھے چار سکھ بھی، جن کے کپڑے میلے کچیلے ہیں اور اُن کے پاس کوئی ہتھیار بھی معلوم ہوتا تھا مگر ظاہراً نظر نہیں آتا تھا، اندر داخل ہو گئے۔ اُس وقت میرے دل میں یہ بات گزری کہ یہ شاید حضرت اقدس پر حملہ کریں گے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ کرسی پر بیٹھے ہوئے میز پر قرآنِ شریف رکھ کر پڑھ رہے ہیں اور وہ چار سکھ پاس بیٹھ کر قرآنِ شریف سن رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ باہر نکلے۔ اُس وقت اُن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ وہ اپنی آنکھوں کو پونچھتے آتے تھے۔ مجھے اُس وقت یہ معلوم ہوتا تھا کہ اُن پر بہت رقت طاری ہو گئی ہے اور یہ مرید بن گئے۔ وہ روتے بھی ہیں اور پنجابی میں یہ الفاظ بھی کہتے ہیں کہ ’’چندہ ایویں تے نئیں ناں منگدا‘‘ گویا کہ وہ معتقد ہو گئے ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد7صفحہ 161۔ از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ جنہوں نے 1901ء میں بیعت کی تھی بیان کرتے ہیں کہ 1902ء میں حضور کی کسی ایک تحریر کے اندر ’’میری نبوت‘‘اور ’’میری رسالت‘‘ کے الفاظ تھے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی تحریر انہوں نے پڑھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا، یہ الفاظ تھے کہ ’’میری نبوت‘‘ اور ’’میری رسالت‘‘) کہتے ہیں اس کو دیکھ کر میری طبیعت میں قبض پیدا ہوئی (کہ یہ نبوت اور رسالت کو اس طرح واضح طور پر کیوں لکھا ہوا ہے؟) کہتے ہیں پھر مَیں نے کسی سے دو تین روز تک بات نہیں کی۔ آخر تیسرے دن مجھے الہاماً بتایا گیا کہ ’’لَارَیْبَ فِیْہ‘‘۔ اب اس کے بعد (کہتے ہیں کہ اس الہام کے بعد) مَیں اودھ میں ملازمت کے سلسلے میں چلا گیا اور مطالعہ کا موقع ملا۔ اور خدا کے فضل سے علم میں اضافہ ہو کر وہ وقت آ گیا جب اللہ تعالیٰ قادیان لے آیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدرجسٹر نمبر11صفحہ 256 از روایات حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ)
حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ (ان کا سن بیعت 1897ء ہے) بیان کرتے ہیں کہ مجھے بیعت کی تحریک حضرت والد صاحب کو تحریک اور ایک خواب کے ذریعہ سے ہوئی۔ (کہتے ہیں ) مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ حضور ایک چارپائی پر لیٹے ہیں اور بہت بیمار ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے پاس کھڑے ہیں جیسے کسی بیمار کی خبرگیری کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چارپائی سے آپ کے کندھے کا سہارا دے کر کھڑے ہوئے۔ اُس کے بعد اس حالت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لیکچر دینا شروع کر دیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے متعلق بیان تھا اور اس کے بعد خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تندرست ہو گئے ہیں اور آپ کا چہرہ پُر رونق ہو گیا۔ جس سے میں نے یہ تعبیر نکالی کہ اب اسلام حضرت صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے ذریعہ سے دوبارہ زندہ ہو گا۔ چنانچہ اس خواب کے بعد پھر میں نے بیعت کر لی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ۔ رجسٹرنمبر11صفحہ 28۔ از روایات حضرت میاں عبدالرشید صاحبؓ)
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں (ان کی بیعت 1903ء کی ہے۔ یہ حضرت اُمّ طاہر کے بھائی تھے) کہ میری عمر سات آٹھ سال کی ہو گی، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا (یعنی اُس زمانے میں سات آٹھ سال کے بچے کی بھی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتا تھا۔) کہتے ہیں گھر میں اس بات کا تذکرہ ہوا کہ کسی شخص نے مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور یہ کہ اس نے یہ خواب دیکھا ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو کالے کالے پودے لگا رہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ طاعون کے پودے ہیں اور دنیا میں طاعون پھیلے گی اور یہ کہ میری آمد کی بھی یہ نشانی ہے۔ اس وقت ہم تحصیل رعیہ میں تھے۔ والد صاحب وہاں شفا خانے کے انچارج ڈاکٹر تھے۔ اسی عرصے کی بات ہے کہ مَیں نے ایک خواب دیکھا کہ کسی نے گھر میں آ کر اطلاع دی کہ نانا جان آ رہے ہیں۔ چنانچہ ہم باہر اُن کے استقبال کے لئے دوڑے۔ شفا خانے کی فصیل (یعنی ہسپتال کی دیوار) کے مشرق کی جانب کیا دیکھتا ہوں کہ بہلی میں نانا جان سوار ہیں، سبز عمامہ ہے اور بھاری چہرہ ہے۔ رنگ بھی گندمی اور سفید ہے اور داڑھی بھی سفید ہے۔ اور سورج نکلا ہوا ہے۔ مجھے فرماتے ہیں کہ میں آپ کو قرآن پڑھانے کے لئے آیا ہوں۔ اور انہی دنوں مَیں نے یہ خواب بھی دیکھا کہ رعیہ کی مسجد ہے اور اُس کے دروازے پر ’’لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ‘‘ لکھا ہوا ہے لیکن جہاں تک مجھے یاد ہے، اُس کے الفاظ مدھم تھے۔ امام الزمان آتے ہیں۔ مسجد میں داخل ہوتے ہیں، (یہ نظارہ دیکھا کہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ لکھا ہے لیکن الفاظ مدھم ہیں۔ اُس کے بعد پھر نظارے میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لاتے ہیں، مسجد میں داخل ہوتے ہیں )مَیں بھی ساتھ جاتا ہوں، مسجد کی صفیں ٹیڑھی ہیں۔ آپ ان صفوں کو درست کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں ہم اُس زمانے میں احمدی نہیں ہوئے تھے۔ اُس زمانے میں اس بات کا عام چرچا تھا کہ مسلمان برباد ہو چکے ہیں اور تیرھویں صدی کا آخر ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس میں حضرت امام مہدی تشریف لائیں گے اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ بھی تشریف لائیں گے۔ (مسلمانوں میں جو عام تصور پایا جاتا تھا کہ عیسیٰ اور مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخص ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس بات کابڑا چرچا تھا۔ ) چنانچہ حضرت والدہ صاحبہ اُس مہدی اور عیسیٰ کی آمد کا ذکر بڑی خوشی سے کیا کرتی تھیں کہ وہ زمانہ قریب آ رہا ہے اور یہ بھی ذکر کیا کرتی تھیں کہ چاند گرہن اور سورج گرہن کا ہونا بھی حضرت مہدی کے زمانے کے لئے مخصوص تھا اور وہ ہو چکا ہے۔ آگے لکھتے ہیں ممکن ہے کہ یہ خوابیں اس بچپن میں شنیدہ باتوں کے اثر کے ماتحت خواب کی صورت نظر آتی ہوں لیکن واقعات یہ بتلاتے ہیں کہ وہ مہدی اور مسیح کے آنے کا عام چرچا اور یہ خوابیں جو بڑوں چھوٹوں کو اُس زمانے میں آیا کرتی تھیں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی ہوا چلی تھی کہ بچوں اور بڑوں سب کو آیا کرتی تھیں۔ ) آنے والے واقعات کے لئے بطور آسمانی اطلاع کے تھیں۔ (چنانچہ یہ پورا خاندان حضرت سید ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب کا احمدی ہوا اور اخلاص و وفا میں بڑی ترقی کی۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ۔ رجسٹر نمبر11صفحہ 143-142 بقیہ روایات حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ)
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ جن کا بیعت کا سن 1898ء کا ہے، فرماتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ آپ حامد علی کے ساتھ مہمان خانے میں جائیں اور ظہر کے وقت مَیں پھر ملاقات کروں گا۔ (جب یہ وہاں پہنچے تو ان کو یہ کہا گیا) کہتے ہیں مَیں مہمان خانے چلا گیا وہاں کھانا آیا، ذرا آرام کیا۔ ظہر کی اذان ہوئی۔ مجھے پہلے ہی حامد علی صاحب نے فرمایا تھا کہ آپ پہلی صف میں جا کر بیٹھ جائیں۔ چنانچہ میں اُسی ہدایت کے ماتحت پہلی صف میں ہی قبل از وقت جا بیٹھا۔ حضور تشریف لائے، نماز پڑھی گئی۔ نماز کے بعد حضور میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا کہ کب جانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے کہا حضور! ایک دو روز ٹھہروں گا۔ حضور نے فرمایا کہ کم از کم تین دن ٹھہرنا چاہئے۔ دوسرے روز ظہر کے وقت میں نے بیعت کے لئے عرض کی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ابھی نہیں، کم از کم کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں۔ ہمارے حالات سے آپ واقف ہوں۔ اس کے بعد بیعت کر لیں۔ مگر مجھے پہلی رات ہی مہمان خانے میں ایک رؤیا ہوئی جو یہ تھی۔ (اب یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خواب کے ذریعہ سے رہنمائی ہو رہی ہے۔ یہ جو غیر احمدی کہتے ہیں ناں یا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بغیر سوچے سمجھے لوگ بیعت کر لیتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بڑے آرام سے بیعت لے لیا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام تو ہر ایک کی حالت کے مطابق بیعت لیتے تھے جب تک یہ تسلی نہیں ہو جاتی تھی کہ اس شخص کی تسلی ہو گئی ہے۔ بہر حال کہتے ہیں میں نے ایک خواب دیکھی۔ )مَیں نے دیکھا کہ آسمان سے ایک نور نازل ہوا اور وہ میرے ایک کان سے داخل ہوا اور دوسرے کان سے تمام جسم سے ہو کر نکلتا ہے۔ اور آسمان کی طرف جاتا ہے۔ (یعنی یوں ہو کر نکل نہیں گیا بلکہ یہ داخل ہو کے سارے جسم میں سے گزرا پھر دوسری طرف سے نکل گیا اور پھر آسمان کی طرف چلا جاتا ہے) اور پھر ایک طرف سے آتا ہے اور اس میں کئی قسم کے رنگ ہیں۔ سبز ہے، سرخ ہے، نیلگوں ہے، اتنے ہیں کہ گنے نہیں جا سکتے۔ قوسِ قزح کی طرح تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ تمام دنیا روشن ہے اور اُس کے اندر اس قدر سرور اور راحت تھی کہ مَیں اس کو بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے صبح اُٹھتے ہی یہ معلوم ہوا کہ رؤیا کا مطلب یہ ہے۔ (اس خواب کا مطلب یہ ہے) کہ آسمانی برکات سے مجھے وافر حصہ ملے گا اور مجھے بیعت کر لینی چاہئے۔ اسی رؤیا کی بناء پر مَیں نے حضرت صاحب سے دوسرے روز ظہر کے وقت بیعت کے لئے عرض کیا مگر حضور نے منظور نہ فرمایا اور تین دن کی شرط کو برقرار رکھا۔ چنانچہ تیسرے روز ظہر کے وقت میں نے عرض کیا کہ حضور! مجھے شرح صدر ہو گیا ہے اور لِلّٰہ میری بیعت قبول کر لیں۔ (خدا کے واسطے بیعت قبول کر لیں۔) چنانچہ حضور نے میری اپنے دستِ مبارک پر بیعت لی اور میں رخصت ہو کر لاہور آ گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر9صفحہ 126-127۔ ازروایات حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ)
حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں (ان کا بیعت سن 1898ء ہے۔ پہلے بھی انہی کی روایت تھی) کہ لاہور میں ایک وکیل ہوتے تھے، ان کا نام کریم بخش تھا۔ وہ بڑی فحش گالیاں حضرت (مسیح موعود علیہ السلام) کو کو دیا کرتے تھے۔ ایک دن دورانِ بحث اُس نے کہا کہ کون کہتا ہے مسیح مر گیا؟ مَیں نے جواباً کہا کہ مَیں ثابت کرتا ہوں کہ مسیح مر گیا۔ اُس نے اچانک ایک تھپڑ بڑے زور سے مجھے مارا۔ اس سے میرے ہوش پِھر گئے اور مَیں گر گیا۔ (یعنی بیہوشی کی کیفیت ہو گئی) جب مَیں وہاں سے چلا آیا تو اگلی رات مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ کریم بخش ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑا ہے اور اُس کی چارپائی کے نیچے ایک گڑھا ہے اس میں وہ گر رہا ہے اور نہایت بے کسی کی حالت میں ہے۔ صبح میں اُٹھ کر اُس کے پاس گیا اور میں نے اُسے کہا کہ مجھے رؤیا میں بتایا گیا ہے کہ تو ذلیل ہو گا۔ چنانچہ تھوڑے عرصے کے بعد اس کی ایک بیوہ لڑکی کو ناجائز حمل ہو گیا۔ اُس نے کوشش کر کے جنین کو گروایا۔ مگر اس سے لڑکی اور جنین دونوں کی موت واقع ہو گئی۔ پولیس کو جب علم ہوا تو اُس کی تفتیش ہوئی جس سے اُس کا کافی روپیہ ضائع گیا اور عزت بھی برباد ہوئی۔ وہ شرم کے مارے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا۔ مجھے جب علم ہوا تو میں اُس کے گھر گیا، اُسے آواز دی۔ وہ باہر آیا۔ مَیں نے کہا حضرت مسیح موعود کی مخالفت کا وبال چکھ لیا ہے یا ابھی اس میں کچھ کسر باقی ہے۔ اُس نے مجھے گالیاں دیں اور شرمندہ ہو کر اندر چلا گیا۔ (یعنی اثر پھر بھی اُس پرنہیں ہوا) اور پھر کبھی میرے سامنے نہیں آیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر9صفحہ 206-207 ازروایات حضرت منشی قاضی محبوب عالم صاحبؓ)
اس قسم کے واقعات اب بھی ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو ظلم ہو رہے ہیں، ان میں اس قسم کے واقعات بھی ساتھ ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ بیان اس لئے نہیں کیا جاتا کہ بعض اَوروجوہات ہیں۔ کیونکہ ابھی وہاں کے حالات ایسے نہیں، کہیں اَور تنگ نہ ہوں۔ لیکن اللہ تعالیٰ پاکستان میں بھی، ان حالات میں بھی یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی توہین کرنے والے ہیں، اُن سے انتقام لیتا جا رہا ہے۔ کئی واقعات لوگ لکھتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے مخالفین کی پکڑ کی۔ کس طرح اُن کی ذلّت کے سامان کئے۔ لیکن بہر حال جب وقت آئے گا تو وہ بیان بھی کر دئیے جائیں گے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُن لوگوں کا، اُس علاقے کے لوگوں کا پھر اس کو دیکھ کے ایمان بہر حال بڑھتا ہے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے 1897ء میں بذریعہ خط بیعت کی تھی اور دو سال بعد زیارت ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ مولوی امام الدین صاحب 1897ء میں مجھ سے پہلے بھی ایک دفعہ قادیان جا چکے تھے، مگر مخالفانہ خیالات لے کر آئے تھے۔ (قادیان تو گئے تھے لیکن بیعت نہیں کی اور نہ صرف بیعت نہیں کی بلکہ مخالفت میں بڑھ گئے۔ ) مگر جب مجھے بار بار خوابیں آئیں اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قادیان آئے ہیں تو ان پر(امام الدین صاحب پر) بھی اثر ہوا۔ اور ہم دونوں نے 99ء میں جا کر بیعت کی۔ جب ہم مسجد مبارک کے پاس پہنچے تو مولوی صاحب سیڑھیوں پر آگے آگے تھے اور میں پیچھے پیچھے۔ میں نے یہ بات سنی ہوئی تھی کہ بزرگوں کو خالی ہاتھ نہیں ملنا چاہئے۔ مَیں نے پیچھے سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر ایک روپیہ نکالا۔ مولوی صاحب حضرت صاحب سے ملے۔ حضرت صاحب نے مولوی صاحب کو کہا کہ جو لڑکا آپ کے پیچھے ہے اس کو بلاؤ۔ مَیں جب حاضر ہوا تو حضور علیہ السلام کی بزرگ شان کا تصور کر کے میری چیخیں نکل گئیں۔ حضرت صاحب میری پیٹھ پر بار بار ہاتھ پھیرتے اور تسلی دیتے مگرمَیں روتا ہی جاتا تھا‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ 33-32 از روایات حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ) (کیونکہ خوابیں یاد آ جاتی تھیں، کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قادیان میں دیکھا۔ اور اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھ کے ایک اپنی کیفیت بھی تھی۔ حضرت چوہدری احمد دین صاحب (ان کی بیعت غالباً 1905ء کی ہے) بیان کرتے ہیں کہ راولپنڈی میں کتابیں دیکھنے سے پہلے مَیں نے ایک خواب دیکھا۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں دیکھنے سے پہلے۔) کہ گویا حضرت داتا گنج بخش صاحب کا روضہ ہے اور مجھے اُس وقت ایسا معلوم ہوا کہ یہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ ہے جس پر کہ چاندی کا کٹہرا لگا ہوا ہے۔ ایک شخص کے ہاتھ میں پھولوں کا ہار تھا، اُس نے قبر کے اوپر ہو کر وہ ہار اپنے دونوں ہاتھوں سے نیچے کیا تو اُس کے ہاتھ نیچے چلے گئے۔ یہاں تک کہ مجھے معلوم ہوا کہ جسمِ مطہر کے نیچے اُس نے وہ پھولوں کا ہار رکھ دیا ہے۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کے نیچے وہ ہار رکھ دیا ہے) جس کا یہ نتیجہ ہوا کہ مدفون ایک بارہ سالہ لڑکے کی شکل میں باہر نکل آیا اور سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے معانقہ کیا۔ اُس لڑکے کی شکل حضرت مرزا صاحب کی شکل سے ملتی تھی۔ مَیں نے اُس وقت خیال کیا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم وعدہ الٰہی کے خلاف کس طرح دنیا میں زندہ ہو کر آ سکتے ہیں؟ اُس وقت یہ بھی خیال آیا کہ مرزا صاحب جو بروزِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تو یہ وہی واقعہ نہ ہو۔ اتنے میں مجھے جاگ آ گئی۔ اُس خواب سے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کے متعلق کچھ اثر ہوا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ ؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ 68تا70 ازروایات حضرت چوہدری احمد دین صاحبؓ)
حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ بیان کرتے ہیں (1898ء یا 99ء کی ان کی بیعت ہے) کہ بیعت سے ایک سال قبل میں نے خواب میں دیکھا۔ اُس وقت ہم چکڑالوی تھے۔ اس سے پہلے اہلحدیث تھے۔ ہمارے محلے میں ایک شخص احمدی آ گیا۔ ہم نے اس کا مسجد میں نماز پڑھنا اور کنوئیں میں سے پانی بھرنا بند کر دیا تھا۔ اس لئے کہ ہم اُسے دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے کنوئیں کے مغرب کی طرف امریکن پادریوں کی ایک کوٹھی ہے۔ مَیں نے دیکھا کہ مغرب کی طرف ایک راستہ ہے۔ راستہ میں ایک آدمی کھڑا ہے۔ اُس نے ایک پتنگ اڑائی ہے۔ مَیں اُس آدمی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوں اور اِس آدمی کو بھی۔ (دو آدمی تھے ناں۔ تواِس آدمی کی طرف بھی دیکھ رہا ہوں اور اُس آدمی کو بھی۔ ) اسی اثناء میں مَیں نے دیکھا کہ اس کوٹھی میں ایک مرصع تخت بچھا ہے۔ (ایک بڑا سجایا تخت ہے) اُس پر ایک خوبصورت لڑکا بیٹھا بانسری بجا رہا ہے اور تخت ہوا میں لہرا رہا ہے۔ وہ بوڑھا آدمی جو پتنگ اڑا رہا تھا اُس نے پتنگ اس لڑکے کی طرف اُڑایا یہاں تک کہ پتنگ لڑکے کے سر کے ساتھ لگا۔ اُس کا لگنا ہی تھا کہ دھواں پیدا ہو گیا۔ نہ وہ تخت رہا، نہ لڑکا۔ سب کچھ دھواں ہو گیا۔ پہلے لڑکے کی شکل سیاہ ہوئی پھر دھواں ہو گیا مگر پتنگ کو کوئی نقصان نہ پہنچا۔ پھر میں نے مولوی فیض دین صاحب کو اس مسجد کبوتراں والی میں آ کر خواب سنائی۔ مگر انہوں نے کہا کہ یہ یونہی خیال ہے، جانے دو۔ دوسری خواب کا ذکر کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم دونوں بھائی بازار میں جا رہے تھے، تمام بستی ہندؤوں کی تھی۔ ایک بوڑھے شخص کو ہم نے قرآن پڑھتے سنا۔ جب ہم واپس آئے تو پھر بھی وہ پڑھ رہا تھا۔ میں نے دل میں خیال کیا کہ یہ شخص پکا مسلمان اور بے دھڑک آدمی ہے جو ہندؤوں کی بستی میں قرآن پڑھ رہا ہے۔ بیعت کے بعد جب حضرت صاحب کا فوٹو دیکھا تو پتہ لگا کہ یہ وہی شخص ہے اور جو شخص پہلی خواب میں پتنگ اڑا رہا تھا وہ بھی یہی شخص تھا، (یعنی دونوں خوابوں میں ایک ہی شخص تھا)۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ 168-167۔ از روایات حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ)
حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ (مزید)بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مَیں قادیان گیا۔ حضرت صاحب فرمانے لگے کہ بتاؤ سیالکوٹ میں طاعون کا کیا حال ہے؟ میں نے واردات کا ذکر کیا۔ ساتھ ہی میں نے ایک خواب بیان کیا کہ یا حضرت! میں نے دیکھا کہ ہمارے مکان پر پولیس کے آدمی بندوقوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ آپ کا گھر طاعون سے محفوظ رہے گا۔ آپ کا خدا حافظ ہے۔ (چنانچہ محفوظ رہے۔) (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ174-173۔ از روایات حضرت مہر غلام حسن صاحبؓ)
حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں بیان فرماتے ہیں کہ اپنے لڑکے عبدالحق کی پیدائش کے بعد میں قادیان آیا اور مسجد مبارک میں خواب کی حالت میں مَیں نے دیکھا کہ حضور اس مسجد میں ٹہلتے ہیں اور اس مسجد میں صندوق رکھے ہوئے ہیں۔ آپ نے میرا نام سرخ سیاہی سے ایک کتاب میں درج کیا اور فرمایا کہ بابو فتح دین کو کہہ دینا کہ اب کے 13؍دسمبر کو جلسہ نہیں ہو گا۔ یہ مسجد اُس وقت فراخ نہ تھی۔ خواب میں دیکھا کہ سات پٹواری مسجد مبارک کے دروازے پر بیٹھے ہیں۔ اُن سات میں سے صرف مجھ کو حضور نے بلوایا ہے۔ تعبیر پوچھنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سات پٹواری احمدی ہوں گے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر11صفحہ 355-356۔ از روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں)
حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ بیان کرتے ہیں (بیعت 1891ء کی ہے) کہ رہتاس میں ہم اپنے بھائی منشی گلاب دین صاحب سے کتابیں سنا کرتے تھے، مرثیہ اور دیگر نظمیں وغیرہ، کیونکہ ہم غالی شیعہ تھے۔ ماتم وغیرہ کیا کرتے تھے۔ مرأ ۃ العاشقین وغیرہ پڑھتے تھے۔ بعض وقت فقراء: امام غزالی اور شیخ عطّار وغیرہ کی باتیں سنایا کرتے تھے۔ ایک دن کہنے لگے کہ اگر سراج السالکین مصنفہ امام غزالی جیسی تحریر لکھنے والا آج پیدا ہو جائے توچاہے ہمیں سو، دوسو، چار سو میل پیدل جانا پڑے ہم ضرور جائیں گے۔ اتفاقاً یہاں سے (یعنی قادیان سے) توضیح مرام، فتح اسلام دونوں رسالے وہاں پہنچ گئے۔ یہ اشتہار باباقطب الدین آف مالیر کوٹلہ فقیر لائے تھے۔ اُن کو ایک خواب آیا تھا کہ میں سیالکوٹ گیا ہوں اور وہاں حضرت صاحب سے جا کر ملا ہوں۔ چنانچہ اُس نے وا قعی جانے کا عزم کر لیا اور جس طرح خواب میں لباس اور حضور کا نکلنا دیکھا تھا، ویسا ہی پایا اور یہ کتابیں ساتھ لایا۔ آخر منشی گلاب دین صاحب سے ملا اور کتابیں دے کر کہا کہ مَیں نے اپنی لڑکی کے پاس جانا ہے۔ آپ ایک دو روز میں یہ کتابیں دیکھ لیں۔ (یعنی ادھار کتابیں اُن کو دے گئے کہ مَیں نے آگے سفر پر جانا ہے، دو تین دن ہیں، آپ یہ کتابیں دیکھ لیں۔ ) وہ رسالے منشی صاحب نے ہمیں پڑھ کر سنائے اور کہا کہ یہ تحریر شیخ عطّار اور امام غزالی وغیرہ سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ (پہلے ان کی کتابیں پڑھا کرتے تھے ناں، جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھیں تو کہتے ہیں یہ تحریر تو اُن سے بہت اعلیٰ ہے) ان دنوں بیعت کا اشتہار حضور نے دیا تھا۔ خاکسار (یعنی یہ روایت کرنے والے) اور منشی گلاب الدین صاحب اور میاں اللہ دتہ صاحب تینوں نے اُسی وقت بیعت کا خط لکھ دیا۔ یہ غالباً 1891ء کی بات ہے۔ جب وہ رسالے سنا چکے تو مَیں نے کہا کہ تمہارا وعدہ تھا کہ اگر اس وقت اس قسم کا آدمی ملے تو چاہے چار سو میل جانا پڑے ہم جائیں گے۔ اب بیعت ہم کر چکے ہیں اور جلسہ سالانہ 1892ء کا بالکل قریب ہے۔ اشتہار شائع ہو چکا ہے۔ چلو زیارت بھی کر آئیں اور جلسہ بھی دیکھ آئیں۔ چنانچہ ہم تینوں نے عزم کر لیا۔ میں ایک جگہ پانچ چھ میل کے فاصلے پر دکان کیا کرتا تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ پرسوں چلیں گے۔ لیکن وہ لوگ میرے آنے سے پہلے چل پڑے (وہاں ’’کریالہ‘‘ایک سٹیشن تھا ’’وہ کریالہ والے سٹیشن پر چلے گئے۔ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ میں جہلم سے سوار ہو گیا۔ کریالہ میں ہم تینوں اکٹھے ہو گئے۔ اگلے دن لاہور پہنچے۔ کسی نانبائی کی دکان سے روٹی کھائی۔ لوگ کہنے لگے کہ گاڑی چھ بجے شام کو چلے گی۔ چنانچہ ہم نے عجائب گھر، چڑیا گھر وغیرہ کی سیر کی۔ شام کو سٹیشن پر آ کر بٹالہ کا ٹکٹ حاصل کیا۔ رات گیارہ بجے بٹالہ ایک سرائے میں پہنچے۔ چارپائی بھی کوئی نہ تھی اور وہاں گند پڑا ہوا تھا۔ وہاں رہنے کو دل نہیں چاہا۔ شہر میں ایک مسجد میں پہنچے۔ مسجد میں رات کو آرام کیا۔ خدا کی قدرت کہ وہ مسجد مولوی محمد حسین بٹالوی کی تھی۔ جب صبح نماز پڑھ کر بیٹھ گئے تو مولوی محمد حسین صاحب پوچھنے لگے کہ مہمان کہاں سے آئے ہیں؟ہم نے منشی گلاب الدین صاحب کو کہا کہ آپ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ مولوی معلوم ہوتے ہیں۔ آپ ہی بات کریں۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ ہم رہتاس ضلع جہلم سے آئے ہیں۔ مولوی صاحب نے مہمان سمجھ کر گنے کے رَس کی کھیر کھلائی۔ پھر پوچھا کہ آپ کہاں جائیں گے۔ منشی صاحب نے کہا قادیان۔ مولوی صاحب کہنے لگے ادھر کیا کام ہے؟ منشی صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب نے دعویٰ کیا ہے اور جلسہ کا بھی اعلان کیا ہے۔ کہتے ہیں لکھتے ہوئے کہ ایک بات رہ گئی کہ جب رہتاس میں منشی صاحب نے رسالے سنائے تو بھائی اللہ دتہ تیلی نے کہا کہ یہ جو مرزا صاحب نے کہا ہے کہ مسیح مر گیا ہے اور میں آنے والا مسیح ہوں، یہ معمولی بات نہیں ہے اور نہ ایسا کہنے والا معمولی انسان ہے جو تیرہ سو سال کی اتنی بڑی غلطی کو نکالے۔ خیر کہتے ہیں مولوی محمد حسین صاحب سے ہماری باتیں ہو رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہاری عقل ماری ہوئی ہے۔ اگر مرزا اچھا ہوتا (یعنی صحیح ہوتا) تو کیا ہم نہ جاتے؟ (مَیں نہ بیعت کر لیتا جا کے؟) پس تم واپس چلے جاؤ۔ کہنے لگا کہ مرزا صاحب ہمارے واقف ہیں۔ مَیں اُن کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ انہوں نے تو ایک دوکان کھولی ہوئی ہے جو چلے گی نہیں۔ خوامخواہ تم بھی پیسے برباد کر رہے ہو۔ اُن کے پاس جانے کاکیا فائدہ۔ وہ کہتے ہیں میرے ساتھی بات سن کے خاموش ہو گئے۔ مَیں نے کہا کہ جو پیسے صَرف کرنے تھے، وہ تو خرچ ہو گئے۔ اب تو ہم ضرور جائیں گے۔ دیکھ کر واپس آ ئیں گے۔ خیر اُس نے روٹی منگوائی اور روٹی کھا کر ہم پیدل چل پڑے۔ قادیان پہنچے، جلسہ شروع تھا۔ پچیس تیس آدمی تھے1))۔ جلسہ فصیل پر ہوا۔ ایک تخت پوش تھا اور چند صفیں تھیں۔ کھانے کے لئے پلاؤ زردہ اور پُھلکے آ گئے۔ ہم نے کھا لئے۔ ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب بسترے اور جگہ دیا کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس نے جگہ بتلائی۔ رات گزری۔ صبح سویرے کھانا کھا کر دس بجے جلسہ میں شامل ہوئے۔ حضرت صاحب تشریف لائے۔ حضور کبھی رومی ٹوپی سر پر رکھا کرتے تھے، کبھی اُس پر ہی پگڑی باندھ لیا کرتے تھے اور ٹوپی پگڑی میں سے نظر آتی تھی۔ حضور جب تخت پوش پر کھڑے ہوئے تو میں نے ساتھیوں کو کہا کہ دیکھو ایسی نورانی شکل بھلا اور کوئی نظر آ سکتی ہے۔ اگر مولوی محمد حسین کی باتوں پر جاتے تو کیسے بدنصیب ہوتے‘‘۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلدنمبر10صفحہ 314تا317۔ از روایات حضرت ملک غلام حسین صاحب مہاجرؓ)
حکیم عبدالصمد صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ (بیعت 1905ء کی ہے) کہ حضرت صاحب نے تقریر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور فرمایا کہ جو لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے میرے متعلق فیصلہ نہیں کر سکتے وہ اس دعا کو کثرت سے پڑھیں جو اللہ تعالیٰ نے اُن کی پنجوقتہ نمازوں میں بتلائی ہے۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6)۔ چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت کثرت سے پڑھیں۔ زیادہ سے زیادہ چالیس روز تک اللہ تعالیٰ اُن پر حق ظاہر کر دے گا۔ کہتے ہیں مَیں نے تو اُسی وقت سے شروع کر دیا۔ مجھ پر تو ہفتہ گزرنے سے پہلے ہی حق کھل گیا۔ مَیں نے دیکھا (خواب بتا رہے ہیں ) کہ حامد کے محلہ کی مسجد میں ہوں۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لائے ہیں۔ مَیں حضرت صاحب کی طرف مصافحہ کرنے کے لئے بڑھنا چاہتا تھا کہ ایک نابینا مولوی نے مجھ کو روکا۔ دوسری طرف میں نے بڑھنا چاہا تو اُس نے اُدھر سے بھی روک لیا۔ پھر تیسری مرتبہ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کرنا چاہا تو اُس نے مجھ کو پھر روکا۔ تب مجھے غصہ آ گیا اور میں نے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ حضرت صاحب نے فرمایا کہ نہیں غصہ نہ کرو، مارو نہیں۔ (خواب کا ذکر فرما رہے ہیں۔) مَیں نے عرض کیا کہ حضور! مَیں تو حضور سے مصافحہ کرنا چاہتا ہوں اور یہ مجھ کو روکتا ہے۔ اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے صبح میر قاسم علی صاحب اور مولوی محبوب احمد صاحب، مستری قادر بخش صاحب کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا۔ (خواب بیان کی۔) میر صاحب نے کہا کہ اسے لکھ دو۔ مَیں نے لکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نیچے لکھ دو کہ مَیں اپنے اس خواب کو حضور کی خدمت میں ذریعہ بیعت قرار دیتا ہوں۔ مَیں نے لکھ دیا۔ مولوی محبوب احمد صاحب جو غیر احمدی تھے انہوں نے کہا کہ تم کو اپنے والد کا مزاج بھی معلوم ہے۔ وہ ایک گھڑی بھر بھی تم کو اپنے گھر نہیں رہنے دیں گے۔ میں نے کہا مجھے اُن کی کوئی پرواہ نہیں۔ خیر حضرت صاحب نے بیعت منظور کر لی اور مجھے لکھا کہ تمہاری بیعت قبول کی جاتی ہے۔ اگر تم پر کوئی گالیوں کا پہاڑ کیوں نہ توڑے، نگاہ اُٹھا کر مت دیکھنا۔ (ماخوذ ازرجسٹر روایات صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ جلد12صفحہ 18-17۔ از روایات حضرت حکیم عبدالصمد صاحبؓ ولد حکیم عبدالغنی صاحب)
پس یہ چند واقعات تھے جو مَیں نے اس وقت بیان کئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی اولادوں کو بھی وفا کے ساتھ جماعت سے منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو بھی اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آجکل قادیان میں جلسہ کی تیاریاں ہیں۔ کل سے انشاء اللہ تعالیٰ وہاں جلسہ شروع ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جلسہ کو بابرکت فرمائے اور جو بھی شاملین ہیں وہ جلسہ سے بھر پور استفادہ کرنے کی کوشش کریں۔ بہت سارے مہمان دنیا بھر سے گئے ہوئے ہیں۔ اس وقت وہاں تقریباً اکیس یا بائیس ممالک کی نمائندگی ہو گئی ہے، مَیں اُن کو بھی کہتا ہوں کہ وہ لوگ جس مقصد کے لئے گئے ہوئے ہیں اُس کو پورا کریں۔ دعاؤں میں وقت گزاریں اور اگر اُن کو موقع ملے تواُن مقدس جگہوں پر جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کی ہیں، دعائیں کریں اور جماعت کی ترقی کے لئے سب سے بڑھ کر دعا کریں۔ دشمنوں سے نجات پانے کے لئے خاص دعا کریں۔ وہاں یہ دعائیں سب سے زیادہ احمدیت والی دعائیں ہونی چاہئیں۔ اسی طرح مسلم اُمّہ کے لئے بھی دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی سیدھے راستے پر چلائے، ان کی رہنمائی فرمائے اور ان کو بھی زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اسی طرح آجکل مسلمان ممالک کے، خاص طور پر مشرق وسطیٰ کے ممالک کے، اور شام کے خاص طور پر حالات بہت خراب ہوئے ہوئے ہیں۔ وہاں کے احمدی لکھتے ہیں کہ اتنے برے حالات ہیں کہ جس کا اندازہ بھی باہر بیٹھے نہیں کیا جا سکتا۔ عمومی طور پر ان تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر احمدیوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ہر طرح سے، ہر شر سے ہر تکلیف سے، ہر پریشانی سے محفوظ رکھے۔ اللہ تعالیٰ حکومت کے ارباب کو بھی عقل دے اور عوام کو بھی جو آپس میں ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں کہ بجائے لڑائی کے مصالحت سے، افہام و تفہیم سے اپنے مسائل کو حل کرنے والے ہوں۔ ان کے ان حالات سے شدت پسند اور اسلام دشمن دونوں فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس وجہ سے مزید حالات بگڑتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں گروہوں کا بھی خاتمہ کرے تا کہ اسلام کو داغدار کرنے کی جومذموم کوشش یہ لوگ کر رہے ہیں یا اسلام کے نام پر اسلام کے یہ ہمدرد جو کوششیں کر رہے ہیں جو غلط قسم کی کوششیں ہیں، یہ ناکام ہوں اور اسلام کا خوبصورت چہرہ جو جماعت احمدیہ دنیا کو دکھا رہی ہے، وہ دنیا پر واضح اور صاف ہو۔ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں اور ہمارے ارادوں، ہماری کوششوں میں برکتیں ڈالے اور تمام دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے ہم دیکھنے والے ہوں۔ اس لئے وہاں جو موجود ہیں، جلسہ پر گئے ہوئے ہیں اُن سے مَیں کہتا ہوں کہ خاص طورپر جلسہ کے دنوں میں ان دعاؤں کو ہمیشہ اپنے مدّنظر رکھیں، پیشِ نظر رکھیں۔
اس کے علاوہ جمعہ کے بعد، نمازوں کے بعد مَیں تین جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ پہلا جو ہے وہ پروفیسر بشیر احمد چوہدری صاحب کا ہے۔ یہ مکرم چوہدری سراج دین صاحب لاہور کے بیٹے تھے۔ 2؍نومبر کو مختصر علالت کے بعد اڑسٹھ سال کی عمر میں وفات پا گئے، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 28؍ مئی 2010ء کے سانحہ لاہور میں مسجدنور ماڈل ٹاؤن میں تھے جہاں کئی گولیاں ان کو لگی تھیں۔ شدید زخمی ہوئے تھے۔ ان کا دایاں بازو اور دائیں ٹانگ اور کولہا فائرنگ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ ڈیڑھ سال تک متواتر ماہر ڈاکٹروں کے زیرِ علاج رہے ہیں۔ شدید جسمانی اور ذہنی تکلیف اُٹھائی لیکن باوجود بیماری کے اس لمبے عرصہ کے بڑے صبر اور حوصلے اور جوانمردی سے انہوں نے وقت گزارا ہے اور کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں لائے۔ چلنے پھرنے کے قابل تو ہو گئے تھے۔ لیکن پھر پچھلے مہینہ ان کی وفات ہوئی ہے۔ یہ تو بہر حال اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے۔ نمازوں کے بڑے پابند، قرآنِ کریم سے محبت کرنے والے، بڑے منکسر المزاج تھے۔ سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ کمربستہ، خلافت کے ساتھ والہانہ عشق، انہوں نے انگریزی اور اکنامکس میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی اور پنجاب یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد اور اسی ادارے میں ایڈوائزر کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ اس سے پہلے ایف سی کالج میں انگریزی کے پروفیسر رہے۔ انگریزی کی چھ کتب کے مصنف بھی تھے جو وہاں سکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ انگریزی زبان کے شاعر بھی تھے۔ ضلع کی سطح پر شعبہ وقفِ نو اور شعبہ تعلیم میں خدمت کی توفیق پائی۔ گلبرگ میں آپ کا گھر بیس سال تک نماز سینٹر بھی رہا۔ چندوں کی ادائیگی میں، تحریکات میں بڑا بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ مرحوم کے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو صبر اور حوصلہ دے۔ ان کے درجات بلند فرمائے۔
دوسرا جنازہ بابر علی صاحب کاہے جو 17؍ دسمبر 2012ء کو ایک حادثہ میں تیس سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ بھی ایک طرح کی شہادت ہی ہے۔ آپ اپنے سرکل انچارج مکرم شیخ عبدالقادر صاحب کے ساتھ موٹر سائیکل پر ایک جماعتی دورہ کر رہے تھے۔ جماعتی کام کے دوران سب کچھ ہوا ہے۔ اس لئے بہر حال یہ بھی شہید ہیں۔ شام کو تقریباً سات بجے دورہ مکمل کر کے واپس آ رہے تھے کہ سردی کے موسم کی وجہ سے وہاں دھند چھائی ہوئی تھی اور سڑک چھوٹی تھی تو اچانک مخالف سمت سے آنے والے ایک تیز رفتار ٹریکٹر سے ان کی موٹر سائیکل ٹکرائی اور حادثہ کی وجہ سے یہ اور شیخ عبدالقادر صاحب دونوں شدید زخمی ہو گئے۔ غیر آباد جگہ تھی جہاں حادثہ ہوا۔ لوگوں نے تھوڑی دیر بعد دیکھا۔ پھر پولیس کو اطلاع کی، ہسپتال پہنچایا گیا۔ لیکن بابر علی صاحب معلم جو موٹر سائیکل چلا رہے تھے اُن کو داہنے بازو اور سینے پر شدید چوٹیں آئی تھیں جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ۔
مرحوم بہت نیک فطرت آدمی تھے، محنتی تھے، اطاعت گزار تھے اور وفا شعار تھے، واقفِ زندگی تھے۔
ایم ٹی اے کی نئی ڈشوں کی تنصیب کا کام بڑی دلچسپی اور محنت سے کرتے رہے۔ آپ کے والد کا انتقال بچپن میں ہو گیا تھا۔ پسماندگان میں بوڑھی والدہ اور ایک شادی شدہ بہن یادگار چھوڑی ہیں۔ اللہ تعالیٰ والدہ کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ مرحوم موصی تھے۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں ان کی تدفین ہوئی ہے۔ عبدالقادر صاحب بھی زخمی ہیں۔ ان کے لئے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو شفائے کاملہ و عاجلہ عطا فرمائے۔
تیسرا جنازہ روبینہ نصرت ظفر صاحبہ کا ہے جو مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید لاہور کی اہلیہ تھیں۔ 3؍ دسمبر کو تقریباً دو سال کینسر کے مرض میں مبتلا رہ کر وفات پا گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 28؍ مئی کو ان کے شوہر کو دارالذکر لاہور میں شہید کر دیا گیا تھا۔ بڑے حوصلے اور صبر سے یہ سارا صدمہ آپ نے برداشت کیا۔ جب آپ کے شوہر کی میّت کو گھر لایا گیا تو زبان پر یہی الفاظ تھے کہ کوئی ان کی شہادت پر نہ روئے۔ ہر ایک رونے والے کو منع کرتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا ہے۔ یہی کہا کرتی تھیں۔ آنکھوں سے آنسو تو جاری تھے لیکن مرحومہ نے بلند حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور سب گھر والوں کو تسلی دی، حوصلہ دلایا۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ یہ سیرالیون میں بھی کچھ عرصہ رہی ہیں۔ شادی کے بعد 1988ء میں ان کے شوہر جاپان چلے گئے تو یہ بھی اُن کے ساتھ چلی گئیں۔ وہاں صدر لجنہ ٹوکیو اور نیشنل مجلسِ عاملہ میں سیکرٹری اصلاح و ارشاد کے طور پر جماعتی خدمات بجا لاتی رہیں۔ کئی تبلیغی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والی تھیں۔ اپنے زیورات جماعت کو پیش کر دیا کرتی تھیں۔ 2004ء میں یہ جاپان سے واپس آ گئے تو پھر یہاں پاکستان میں لمبا عرصہ ان کو لجنہ کی خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نائب سیکرٹری تحریکِ جدید قیادت بیت النور تھیں اور صدر حلقہ بحریہ ٹاؤن لاہور بھی تھیں۔ خلافت سے بڑا وفا کا تعلق تھا۔ خطبات کو ایم ٹی اے پر سنتی تھیں اور پوائنٹس نوٹ کیا کرتی تھیں اور پھر اُن کو مختلف موقعوں پر بتایا کرتی تھیں۔ اتنا لمبا عرصہ نہایت صبر سے انہوں نے تکلیف کو برداشت کیا۔ کبھی حرفِ شکایت زبان پر نہیں آیا۔ ان کوکوئی چھوٹے سے چھوٹا تحفہ بھی رقم کی صورت میں ملتا تھا تو اُس پر فوراًچندہ ادا کر دیا کرتی تھیں۔ ان کے چھوٹے بھائی سیکرٹری مال تھے تو وہ کہا کرتے تھے کہ چندہ مہینے میں ایک دفعہ اکٹھا ہی دے دیا کریں تو کہتی تھیں کہ جب کوئی آمد ہو اُسی وقت چندہ دینا ہے تا کہ خدا تعالیٰ کے معاملوں میں معمولی سی بھی تاخیر نہ ہو۔ 2011ء کے جلسہ میں یہاں آئی تھیں۔ بیماری کے بعد آئی تھیں لیکن اللہ کے فضل سے بڑے حوصلے میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کی اولاد کوئی نہیں تھی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کے رؤیا وکشوف پرمشتمل ان کی بعض ایمان افروز روایات کا تذکرہ۔
اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی اولادوں کو بھی وفا کے ساتھ جماعت سے منسلک رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر ایک کو بھی اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جلسہ سالانہ قادیان کے کامیاب و بابرکت انعقاد اور جلسہ میں شامل ہونے والوں کو بالخصوص جماعت کی ترقی اور اُمّت مسلمہ کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک۔
مکرم پروفیسر بشیر احمد چوہدری صاحب ابن مکرم چوہدری سراج دین صاحب (لاہور)، مکرم بابر علی صاحب معلم سلسلہ (انڈیا) اور مکرمہ روبینہ نصرت ظفر صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا ظفر احمد صاحب شہید (لاہور) کی وفات، مرحومین کا ذکرخیر اور نمازجنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 28؍دسمبر 2012ء بمطابق 28؍فتح 1391 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔