غیر معمولی قربانیوں کے واقعات۔ وقف جدید کا نیا سال

خطبہ جمعہ 4؍ جنوری 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّاوَّلَآ اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ۔ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (بقرہ: 263)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اُس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے۔ اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے اور اُن پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔

اس آیت کے مضمون کا جو ادراک آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کو ہے، وہ کسی اور میں نہیں۔ یہ لوگ بے لوث، بے نفس ہو کر مالی قربانی کرتے ہیں۔ مالی قربانی کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر خواہش کے مطابق نہ دے سکیں تو بے چین ہو جاتے ہیں۔ پرانے احمدیوں کا بھی یہی حال ہے اور نئے آنے والوں کا بھی۔

ابھی کل ہی مجھے ایک عرب فیملی ملی۔ دونوں میاں بیوی بہت پڑھے لکھے ہیں۔ پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ بچے بھی ماشاء اللہ بڑے شریف النفس ہیں اور دین کی طرف رغبت رکھنے والے ہیں۔ باوجود اس کے کہ ابھی بالکل نوجوانی کی عمر ہے، نئے احمدی ہیں، جماعت کے ساتھ بڑا تعلق ہے اور اُن میں ایک تڑپ بھی ہے۔ ایک بچہ تو ابھی جوانی میں قدم رکھ رہا ہے لیکن دین کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہے۔ بارہ تیرہ سال کی عمر ہے۔ اس فیملی نے چند مہینے پہلے بیعت کی تھی۔ آجکل جیسا کہ دنیا کے معاشی حالات ہیں، اس وجہ سے ان کے پاس جاب بھی کوئی نہیں ہے، پڑھائی بھی ابھی ختم کی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد فارغ ہیں، بڑی مشکل سے گزارہ کر رہے ہیں بلکہ عزیزوں سے قرض لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔ وہ خاتونِ خانہ جو اس فیملی کی بچوں کی ماں تھی، بڑے درد سے مجھے کہنے لگیں کہ میرا دل بڑا بے چین رہتا ہے کہ کام نہ ہونے کی وجہ سے ہم چندہ پوری طرح نہیں دے سکتے۔ میں نے اُس کو سمجھایا کہ آپ کے حالات کے مطابق آپ جو دے سکتی ہیں یا دیتی ہیں وہی کافی ہے۔ لیکن بار بار یہی کہہ رہی تھی کہ میں کسی بھی قربانی میں اپنے آپ کو اب دوسرے احمدیوں سے پیچھے نہیں رکھ سکتی۔ حالانکہ ابھی چند مہینے پہلے بیعت کی ہے۔ بار بار اس کا اظہار تھا کہ بہت بے چین ہوں۔ تو یہ انقلاب جو بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والوں کی طبیعتوں میں پیدا ہو جاتا ہے، اس احساس کے بعدکسی قربانی پر احسان جتانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ بے چینی ہے کہ ہم قربانی نہیں کر رہے، یا قربانی کا وہ معیار نہیں ہے جو چاہتے ہیں۔ پھر بعض دفعہ بعض افراد کے خلاف کسی وجہ سے تعزیری کارروائی ہوتی ہے۔ تعزیری کارروائی میں سزا میں یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں سے چندہ نہیں لینا۔ اس پر لوگ بے چین ہو کر مجھے لکھتے ہیں کہ کوئی اور سزا دے لیں لیکن یہ سزا نہ دیں۔ اول تو ہم معافی مانگتے ہیں۔ جس قصور کی وجہ سے سزا ہے اُس کا مداوا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اگر سزا دینی ہی ہے تو پھر خدا کے لئے ہمیں چندے کی ادائیگی سے محروم نہ کریں کہ یہ تو ہمارا اوڑھنا بچھونا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عجیب جماعت پیدا فرمائی ہے جسے مالی قربانی کرنے میں عجیب راحت و سکون ملتا ہے اور اس سے روکنے پر دل بے چین ہو جاتے ہیں۔ پس آج روئے زمین پر کوئی اور ایسی جماعت نہیں ہے جو یہ جذبہ رکھتی ہو۔ مخالفینِ احمدیت دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن یہ اظہار اُن کی تقریروں میں جو وہ اپنے لوگوں میں کرتے ہیں، اکثر سننے میں آتا ہے کہ دیکھو قادیانی یا مرزائی (جو ہمیں وہ کہتے ہیں) اپنے مقاصد کے لئے کتنی قربانی کرتے ہیں اور تمہیں ایک مسجد کے چندے کے لئے یا فلاں کام کے لئے کوئی توجہ نہیں پیدا ہوتی۔ اور یہ اظہار ان غیر احمدی علماء کا، مولویوں کا یا ان لوگوں کا، تنظیموں کا ہمیں صرف پاکستان، ہندوستان میں نظر نہیں آتا بلکہ افریقہ کے مسلمان ممالک میں بھی یہ باتیں سننے میں آتی ہیں۔ اور پھر جب کچھ خرچ کر دیتے ہیں تو اظہار یہ ہوتا ہے کہ دیکھو ہم نے فلاں مسجد کے لئے یا عوام کی فلاح و بہبود کے فلاں کام کے لئے اتنا روپیہ دیا ہے۔ پھر جن کمیٹیوں کو دیتے ہیں، جن تنظیموں کو دیتے ہیں، اُن میں بعض دفعہ اس وجہ سے لڑائی ہو جاتی ہے کہ ہم نے اتنا پیسہ دیا تھا، اس کا حساب دو یا اس طرح خرچ نہیں ہوا، اسے صحیح طرح خرچ نہیں کیا گیا۔

یہ بھی خدا تعالیٰ کا جماعت پر فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کے پیسے میں اللہ تعالیٰ نے جو برکت رکھی ہے وہ اُن کے ہاں نظر نہیں آتی۔ ابھی گزشتہ دنوں جب میں نے جامعہ احمدیہ جرمنی کا افتتاح کیا تو وہاں ایک اخباری نمائندے نے جو مسلمان تھے بلکہ پاکستانی اخبار کے نمائندے تھے، مجھ سے پوچھا کہ اس پراجیکٹ کے لئے حکومت سے بھی یا کہیں سے کوئی مدد لی گئی ہے؟ تو مَیں نے اُسے کہا کہ ہمارے سب کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افراد کے چندوں سے ہوتے ہیں اور یہ عمارت بھی احبابِ جماعت کے چندوں سے ہی بنی ہے۔ لیکن جو خرچ اس پر ہوا ہے، اگر کوئی حکومتی ادارہ یہ اتنی بڑی عمارت بناتا یا کوئی اور ادارہ بھی اس عمارت کے لئے خرچ کرتا تو اس سے بہت زیادہ خرچ ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جماعتی پیسہ میں برکت بھی رکھی ہوئی ہے اور تھوڑے میں بہت سے کام ہو جاتے ہیں۔ پس جس نیک نیت سے احبابِ جماعت چندہ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اُتنی ہی اس میں برکت بھی رکھتا ہے۔

یہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دوں یا بتا دوں کہ گو چندہ دے کر افرادِ جماعت نہ تو پوچھتے ہیں، نہ ہی احسان جتاتے ہیں، لیکن خرچ کرنے والے احباب جو جماعتی انتظامیہ ہے، کو بہت زیادہ محتاط ہونا چاہئے۔ خرچ بڑا پھونک پھونک کر کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کے طفیل ہی ہم یہ کشائش دیکھ رہے ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کشائش اور ہمارے پیسے میں برکت کے نظارے ہم دیکھتے رہیں گے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس فکر کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جہاں تک پیسہ آنے کا سوال ہے اُس کی تو کوئی فکر نہیں۔ (فکر ہے تو یہ کہ) کہیں ان خرچ کرنے والوں کے دل دنیاداری کی لپیٹ میں نہ آ جائیں اور جماعتی اموال کا دردنہ رہے۔

اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ جماعتی اموال کے خرچ کرنے کا ایک طریقہ کار ہے۔ مختلف جگہوں پر چیک ہوتے ہیں۔ لیکن پھر بھی خرچ کرنے والوں کو جہاں اس طرف توجہ دینی چاہئے وہاں توبہ و استغفار سے اللہ تعالیٰ کی مدد بھی لیتے رہنا چاہئے۔ جب جماعت بڑھتی ہے، جماعت کے اموال میں وسعت پیدا ہوتی ہے تو جہاں مخالفین اپنی کوششوں میں تیزی پیدا کرتے ہیں، وہاں منافقین کے ذریعے وہ جماعت میں رخنہ ڈالنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ گو ان کی کوششیں بے اثر ہوتی ہیں لیکن ہمیں ہمیشہ محتاط رہنے اور استغفار اور دعا کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کے جماعت پر جو فضل ہیں، جو ہر آن تائید و نصرت کے نظارے ہیں وہ اُس وقت تک ہم دیکھتے رہیں گے جبتک ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ مجھے تو کبھی یہ فکر پیدا نہیں ہوئی کہ فلاں کام کی تکمیل کس طرح ہونی ہے؟ جو بھی منصوبہ (تیار) کیا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ خود ہی انتظام کر دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حیرت انگیز مضمون ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کے دل میں ڈالتا ہے اور کس طرح وہ بڑھ چڑھ کر قربانی میں حصہ لیتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی خاطر مالی قربانی دینے کا وقت آتا ہے تو احمدی اپنا پیٹ کر بھی قربانیاں دیتے ہیں۔ بھوکے رہنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن یہ گوارا نہیں کرتے کہ اپنے چندے دینے کا انکار کریں یا کسی طرح کمی کریں۔ یہی انبیاء کی جماعتوں کی نشانی ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں اور کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ جماعت کا احسان سمجھتے ہیں، خدا تعالیٰ کا احسان سمجھتے ہیں کہ اُن سے چندہ وصول کر لیا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ جب چندہ لینے پر پابندی لگائی جائے تو اکثر بے چین ہو کر اس سزا کو واپس لینے کی درخواست کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے چندہ وصول کر لیا جائے تو جماعت کا ہم پر احسان ہو گا۔ نئے شامل ہونے والے جو جماعتی نظام کو سمجھ لیتے ہیں، جن کی تربیت اچھے طور پر ہوتی ہے، وہ بھی مالی قربانی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ جماعتوں نے طوعی چندوں کے جو ٹارگٹ مقرر کئے ہوتے ہیں، اُن میں اگر کہیں کمی ہو جائے تو بعض صاحبِ حیثیت لوگ خود ہی کہتے ہیں کہ ہم کمی پوری کر دیں گے۔ اُن کے اندر سے آواز اُٹھ رہی ہوتی ہے۔ اُن کو کوئی مجبوری نہیں ہوتی، اُن کو زور نہیں دیا جا رہا ہوتا، بلکہ اندر کی ایک آواز ہوتی ہے کہ اس کمی کو پورا کرنا ہے۔ یہ سب کیوں ہے؟ اس لئے کہ اُنہیں اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کی آواز آ رہی ہوتی ہے کہ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (بقرہ: 263) اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔ اُنہیں اُخروی زندگی پر ایمان، یقین اور اُس کی فکر ہوتی ہے جس کے لئے وہ قربانی کرتے ہیں۔ پس جب اُن کے ایسے عمل ہوتے ہیں تو پھر اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنت کی بشارتیں مل رہی ہوتی ہیں۔ وہ اپنا شاندار مستقبل بنا رہے ہوتے ہیں جس کی انتہا اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ صرف مرنے کے بعد کی، مستقبل کی بات نہیں کرتا بلکہ اس دنیا میں بھی ادھار نہیں رکھتا اور یہاں بھی بڑے بڑے اجر سے نوازتا ہے۔

ایک حدیث قدسی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابنِ آدم! خرچ کرتا رہ، میں تجھے عطا کروں گا۔

تو اللہ تعالیٰ کی عطائیں تو ہر ایک کے لئے ہیں ہی لیکن جو اُس کے دین کے لئے خرچ کرتے ہیں ان پر تو بے شمار عطائیں ہوتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کبھی ادھار نہیں رکھتا، بشرطیکہ نیک نیتی سے اُس کی رضا کے حصول کی خاطر کوئی قربانی کی جائے۔

اس وقت مَیں چند واقعات پیش کروں گا جن سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں، ہر ملک میں، غریبوں میں بھی اور امیروں میں بھی احمدیوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص جذبہ قربانی کا پیدا فرما دیا ہے اور قربانیوں کے بعد پھر ہر ایک کو اُس کے ایمان اور یقین میں بڑھانے کیلئے اُنہیں اللہ تعالیٰ نوازتا بھی ہے۔

نئی قائم ہونے والی ایک جماعت کی قربانی کا ذکر سنیں جو افریقہ کے دور دراز علاقے میں ہے اور پھر اس سے صرف مالی قربانی کا پتہ نہیں چلتا بلکہ خلافت سے تعلق کا بھی پتا چلتا ہے۔ نائیجر افریقہ کے دور دراز علاقے میں ایک ملک ہے، وہاں کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر جو مبلغین کی میٹنگ تھی، اس میں مَیں نے افریقہ کے مبلغین کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ افریقہ میں چندے میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں ابھی کافی گنجائش ہے اس میں اضافہ کریں۔ تو اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب انہوں نے وہاں جا کے بات کی اور اپنے علاقے ’’برنی کونی‘‘ کی جماعت کو یہ پیغام دیا کہ خلیفہ وقت نے یہ کہا ہے تو انہوں نے فوراً آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی قربانی کو بڑھایا۔ اُن کو جب یہ کہا گیا کہ جو پہلے شامل نہیں تھے وہ بھی شامل ہوں تو اُس کا فوراً اثر ہوا۔ وہاں زمیندار جماعتیں ہیں، دیہاتی جماعتیں ہیں، اُن کے پاس نقد رقم تو نہیں ہوتی، لیکن جنس کی صورت میں دیتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ برنی کونی ریجن کی جماعتوں نے آپ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے، جہاں گزشتہ سال جنس کی صورت میں سولہ بوریاں دی تھیں، وہاں بالکل چھوٹے سے ایک گاؤں نے جہاں سو پچاس کی آبادی ہو گی، باون بوریاں انہوں نے دیں اور اس کے علاوہ انہوں نے پچھلے سال سے دوگنا چندہ نقد بھی پیش کیا۔

پھر امیر صاحب نائیجر لکھتے ہیں کہ جماعت گڈاں براوو (Gidan Barawoo) گاؤں کی طرف سے پیغام آیا کہ چندہ کے اناج کی بوریاں آکر لے جائیں۔ کہتے ہیں ہم لوگ گاڑی میں یہ لے کر واپس آرہے تھے تو اس وقت رات کے دس بج رہے تھے۔ ہم ایک احمدی گاؤں دبگاوا (Dabgawa) سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ خدام راستہ میں ہمارے انتظار میں کھڑے ہیں۔ رات کے دس بج رہے ہیں اور ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ ہم نے گاڑی روکی تو انہوں نے بتایا کہ ہم صدر صاحبہ لجنہ کے حکم پر شام سے یہاں کھڑے آپ کے اس راستے سے گزرنے کا انتظا ر کر رہے ہیں۔ اس گاؤں کی جو صدر صاحبہ لجنہ تھیں، انہوں نے لجنہ کو کہا کہ انہوں نے چندے کے لئے جو جنس وغیرہ اکٹھا کی تھی، وہ اپنا چندہ لجنہ کو علیحدہ دینا چاہئے۔ چنانچہ لجنہ نے اپنے طور پر بھی محنت کی اور اپنا علیحدہ اناج اکھٹاکیا اور وہ جو خدام جو تھے وہ دینے کے لئے وہاں کھڑے تھے۔ چھوٹی سی ایک غریب جماعت جس کی اپنی حیثیت بالکل معمولی تھی وہ بھی اس طرح محنت اور تعلق اور وفا کا اظہار کرتے ہیں۔ پھر بینن سے آلاڈا ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ Soyo (سویو) گاؤں کے صدر صاحب جماعت ایک سال قبل مشرکین سے احمدی ہوئے۔ پہلے مشرک تھے، بتوں کو پوجنے والے تھے، احمدی ہو گئے، ایک خدا کے آگے جھکنے والے بن گئے۔ اُن سے جب وقفِ جدید کا چندہ لینے گئے تو انہوں نے گھر میں موجود 450-فرانک سیفا کی رقم چندہ میں د ے دی اور یہ بھی نہ سوچا کہ آج دوپہر کو کیا کھائیں گے کہ اب کوئی رقم گھر میں نہ تھی۔ یہ موٹرسائیکل رکشہ چلاتے ہیں۔ چندہ دینے کے بعد اپنا موٹر سائیکل لے کر باہر نکل گئے کہ خدا کچھ تو دے گا، دوپہر کو نہیں تو شام کو کھا لیں گے، کیا فرق پڑتا ہے۔ موٹر سائیکل میں پٹرول بھی ادھار لے کر ڈلوایا اور پھر دوسرے دن مزید 1000-فرانک سیفا چندہ لے کر آئے اور بتایا کہ مربی صاحب دیکھیں خدا کا سلوک۔ مَیں نے دوپہر کے کھانے کا بھی نہیں سوچا تھا اور موٹرسائیکل رکشہ میں تیل بھی ادھار لے کر ڈلوایا تھا اور خدا نے مجھے اتنی سواریاں دیں کہ مَیں جو گھر سے خالی ہاتھ نکلا تھا، بظاہر مقروض تھا، 2,000-فرانک سیفا کی رقم لے کر گھر آیا ہوں۔ اور اب اُس میں سے نصف پھر مزید چندہ دے رہا ہوں۔ قرضے اتار کے یہ اتنے پیسے بچ بھی گئے۔

امیر صاحب بورکینافاسو بیان کرتے ہیں کہ بوبو ریجن کے ایک نومبائع کمپورے سعیدصاحب (Compore Saeed) کہتے ہیں کہ انہوں نے مالی تنگی کی وجہ سے تین ماہ کا چندہ ادا نہیں کیاتھا۔ اس دوران ان کی چوری بھی ہو گئی اور جوان بیٹا بھی شدید بیمار ہو گیا۔ ہر طرح علاج کروایا مگر صحتیاب نہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ایک رات خواب میں مَیں نے خلیفۃ المسیح کو دیکھا (مجھے دیکھا انہوں نے) کہ وہ آئے ہیں اور خاکسار سے کہنے لگے کہ آپ نے کئی ماہ سے اپنا چندہ ادا نہیں کیا۔ مَیں نے خواب میں جواباً کہا کہ انشاء اللہ 20دنوں میں ادا کردوں گا اور پھر کوشش کر کے 20دنوں میں اپنا چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کہ اُسی دن سے میرے بڑے بیٹے کو کامل شفا بھی ہو گئی اور نہ صرف شفا ہوئی بلکہ پہلے سے اچھی نوکری بھی مل گئی اور پھر اس کی برکت سے خدا تعالیٰ نے مجھے بھی توفیق دی کہ میں نے نئی موٹر سائیکل خرید لی۔ اور یہ تمام برکتیں اُسی مالی قربانی کی تھیں جو خلیفۂ وقت کے توجہ دلانے کے نتیجہ میں مَیں نے خدا کی راہ میں کی تھیں۔ اب (دیکھ لیں کہ) نئے نئے احمدیوں کو بھی اللہ تعالیٰ کس طرح ایمانوں میں مضبوط کرتا ہے۔

بورکینا فاسو کے ریجن کے دِدْگُو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ اِس ریجن کے ایک گاؤں نوکی بادالا (Noki Badala) کے صدر جماعت Diallo Sita (دیالو سیتا) صاحب کہتے ہیں کہ وہ کاشتکار لوگ ہیں اور احمدیت میں داخل ہونے سے پہلے بھی وہ کاشتکاری کرتے تھے۔ مگر اتنی فصل کبھی نہیں ہوئی جتنی احمدیت میں داخل ہونے کے بعد ہو رہی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ چندہ ہے۔ جب سے ہم احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور چندہ دینا شروع کیا ہے تو ہمارے حالات ہی بدل گئے ہیں۔ اور جب سے چندہ دینا شروع کیا ہے ہماری فصلوں میں اتنی برکت پڑی ہے کہ آج سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔ ان کا کہنا ہے کہ چندہ کی اتنی برکت پڑی کہ آغاز میں پہلے ایک یا زیادہ سے زیادہ دوبوری اناج چندہ دیا کرتے تھے۔ اور اس سال سات بوری دیا۔ مولوی کہتے ہیں کہ یہ غریبوں کو پیسے دے کے افریقہ میں اور غریب ملکوں میں احمدی بناتے ہیں۔ جماعت نے کیا پیسے دینے ہیں، ان کا یہ حال دیکھیں کہ کس طرح خود قربانی کر کے اپنے چندے بڑھا رہے ہیں۔ امیر صاحب مالی تحریر کرتے ہیں کہ ہمارے ایک معلم عبد القادر صاحب نے بتایا کہ جماعت Sonitigla (سونیتگلا) میں ہر سال احمدی خواتین اور احمدی مرد چندہ کے لئے الگ الگ کھیت کاشت کرتے ہیں۔ (اپنا جو فارم ہے، کھیت ہے، اُس کے علاوہ چندہ دینے کے لئے مرد اپنی اور عورتیں اپنی علیحدہ ایک فصل لگاتی ہیں کہ جو بھی آمد ہو گی یہ ساری کی ساری ہم نے جماعت کو چندے میں دینی ہے۔) کہتے ہیں 2011 ء میں جب فصل کٹائی کے بعد چندہ لینے کے لئے وہاں گئے تو مَردوں اور عورتوں نے الگ الگ چندہ جمع کروایا۔ جب بوریوں کی گنتی کی گئی تو مَردوں کا چندہ تھوڑا سا زیادہ تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ بوریاں یا جنس جب لوڈ کر لیا گیا تو عورتوں نے کہا ٹھہر جائیں، ابھی نہ جائیں۔ وہ اپنے گھر واپس گئیں اور انہوں نے مزید دو بوریاں جمع کیں کیونکہ ڈیڑھ بوری یا شاید آدھی بوری مَردوں کی زیادہ تھی۔ اور وہ کسی بھی صورت مَردوں سے پیچھے نہیں رہنا چاہتیں۔ اس طرح انہوں نے مَردوں سے ڈیڑھ بوری زائد چندہ جمع کروا دی۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع سیعد وتر اور ے صاحب جنہوں نے چھ سات ماہ قبل بیعت کی اور ساتھ دس ہزار فرانک سیفا چندہ دیا۔ جب ہمارے معلم دوبارہ گئے تو انہوں نے بتایا کہ بیعت کرنے اور چندہ دینے سے پہلے وہ اور اس کے بیوی بچے اکثر بیمار رہتے تھے اور ہمارا بہت سارا خرچ ادویات پر ہو جاتا تھا۔ لیکن جب سے میں نے چندہ دینا شروع کیا ہے۔ اُس وقت سے وہ اور اس کے بیوی بچے صحت کے ساتھ ہیں اور کم بیمار ہوتے ہیں اور ادویات کا خرچ بہت کم ہو گیا ہے۔ یہ سب چندہ کی برکت ہے۔

امیر صاحب یوگنڈا لکھتے ہیں کہ یوگنڈا میں احبابِ جماعت مالی قربانی کے میدان میں غیر معمولی طور پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ایک مخیر دوست سلیمان مغابی صاحب امبالہ کے رہنے والے ہیں اور مالی قربانی اور چندوں میں پیش پیش ہیں۔ انہوں نے نومبائعین کے علاقوں میں دو خوبصورت مساجد کی تعمیر اور ایک علاقہ میں سکول کے ایک مکمل بلاک کی تعمیر کے لئے پچاس ملین شلنگ کی بہت بڑی رقم کی قربانی کی۔ ان کو آغاز میں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے کہا گیا تھا۔ یہ خود بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں نے مالی قربانی شروع کی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کس طرح اور کہاں سے خدا مجھے دے رہا ہے۔

امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایک دوست الحاج Abdullah Balajo (عبداللہ بَلا جو) صاحب، جو پہلے سے چندہ وقفِ جدید ادا کرچکے تھے، جب ان کو دوبارہ تحریک کی گئی تو انہوں نے پہلے سے بڑھ کر چندہ ادا کر دیا۔ بعد میں جب انہیں یاد آیا کہ انہوں نے دو دفعہ چندہ دے دیا ہے تو اس پر بڑی خوشی سے کہا کہ یہ خلیفہ وقت کی بابرکت تحریک ہے، اس میں جتنا بھی دوں کم ہے۔

لیو (Leo) ریجن بورکینا فاسو کے مبلغ لکھتے ہیں کہ 10اگست2012ء کو Baacoungou Adama (باکونگو آدما) نامی ایک بزرگ صبح سویرے مشن ہاؤس میں آگئے اور بتایا کہ روزانہ باقاعدگی سے ’ریڈیو احمدیہ‘ سنتا ہوں اور میرے گھر میں صرف یہی سٹیشن آن (on) رہتا ہے۔ جس قدر یہ ریڈیو اسلام کی خدمت کررہا ہے اس کا الفاظ میں احاطہ ممکن نہیں۔ میں شکر گزاری کے طور پر اور تو کچھ نہیں کرسکتا صرف اس چھوٹی سی رقم سے ریڈیو کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اس بزرگ نے ایک لاکھ فرانک سیفا نکال کر بطور چندہ دیا جو خصوصاً کھیتی باڑی کرنے والوں کے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس بزرگ کو جماعتی چندوں کا نظام سمجھایا گیا اور پھر ادا شدہ چندے کی رسید دی (یہ ابھی تک احمدی نہیں تھے۔ غیر احمدیوں پر اس کا اثر ہو جاتا ہے۔) تو کہتے ہیں کہ کیونکہ آپ لوگ اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں، اس لئے مَیں دے رہا ہوں۔ خیر اُس کے بعد جب ان کو چندے کا نظام سمجھایا اور رسید بھی دی تو کہتے ہیں کہ احمدیت کی سچائی میرے دل میں گھر کر گئی ہے۔ کیونکہ مَیں نے اللہ کی راہ میں چندے تو بہت دیے ہیں لیکن چندہ کا ایسا شفاف نظام احمدیت کے سوا اور کہیں نہیں دیکھا۔

بینن سے لوکل معلم ذکریا رائمی صاحب بیان کرتے ہیں کہ Ekpeگاؤں کے گاربا ابراہیم صاحب کی حاملہ بیوی کو سسرال والے اختلافات کی وجہ سے اپنے ساتھ لے گئے حتیٰ کہ وضع حمل بھی وہیں ہوا اور خدا تعالیٰ نے بیٹے سے نوازا۔ گاربا ابراہیم صاحب نے اپنا بیٹا واپس لینے کے لئے تمام جتن کئے، سالہاسال تک کیس بھی لڑے مگر ناکامی کے علاوہ کچھ نہ ہاتھ آیا۔ یہ پانچ سال قبل احمدی ہوئے تھے مگر اپنے حالات کا کسی سے خاص ذکر نہ کیا۔ اس سال جب کیس بھی ہار بیٹھے تو پھر معلم صاحب کے پاس آکر ساری کہانی سنائی اور دعا کے لئے کہا۔ ان دنوں چندہ وقفِ جدید کا موسم تھا۔ معلم صاحب کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہمارا تو ایمان ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ تم احمدی تو پہلے سے ہولیکن چندے کی طرف توجہ نہیں ہے۔ کبھی چندہ بھی دے دیا کرو۔ اس سے خدا مشکلات دور کرتا ہے۔ چنانچہ گاربا صاحب نے وقفِ جدید کی مد میں 2,000فرانک سیفا چندہ کٹوایا۔ اب تین دن قبل ان کا فون آیا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے چندہ کی برکت دکھا دی ہے۔ خدا تعالیٰ نے میرا بچہ واپس دلوادیا ہے۔ میرا سسر خود اس کو میرے پاس چھوڑنے آیا کہ اپنی نسل خود سنبھالو اور اس نے کوئی معاوضہ بھی نہیں مانگا۔ حالانکہ پہلے مَیں ان کو تمام خرچے بھی بھرنے کے لئے تیار تھا لیکن یہ بچہ نہیں دیتے تھے۔

تنزانیہ سے حسن توفیق صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ پہلے بڑا معمولی چندہ دیتے تھے۔ مبلغ سلسلہ نے ان کو توجہ دلائی۔ گھر کھانے کی دعوت کی۔ چندہ جات کی اہمیت اور برکات کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور کہتے ہیں اب باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کیااور آہستہ آہستہ چندے کو بڑھاتا بھی گیا۔ کہتے ہیں پہلے خاکسار کے پاس کوئی جائیدادنہیں تھی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار نظامِ وصیت میں شامل ہے اور چندہ جات کی برکت سے اِن چند سالوں میں سن فلاور آئل نکالنے کا چھوٹے پیمانے پر کارخانہ بھی لگایا ہے۔ اپنا گھر بھی تعمیر کیا ہے۔ ڈوڈومہ شہر میں تین عدد پلاٹ خریدے ہیں۔ اپنی فیملی میں مستحق بچوں کی مسلسل تعلیمی مدد کر رہا ہوں اور خود بھی اپنے خرچہ پر PhD کر رہا ہوں۔ اور یہ سب کچھ محض اللہ تعالیٰ کاخاص فضل اور چندہ جات کی برکت ہے۔

کالی کٹ انڈیا سے تعلق رکھنے والے جو صاحب ہیں ان کا وقفِ جدید کا چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ ایک ہزار روپیہ ہے اور یہ اپنے تمام چندہ جات طاقت سے بڑھ کر لکھاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں چندہ جات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لوں گا تو اللہ تعالیٰ میرے کاروبار میں برکت دے گا اور کاروبار خوب بڑھے گا۔ مالی سال کے آخر میں وقفِ جدید کے انسپکٹر جو ان کے پاس وصولی کے لئے گئے تو انہوں نے کہا کہ خاص طور پر دعا کریں کیونکہ میرے اکاؤنٹ میں بالکل رقم نہیں ہے جبکہ مالی سال ختم ہونے میں چند دن رہ گئے ہیں۔ انہوں نے چیک بنا کر دیا اور بہر حال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور سال کے آخر میں ان کو آمد ہوئی اور اللہ کے فضل سے پوری رقم ادا ہو گئی۔

اسی طرح ایک رحمن صاحب ہیں جو انڈیا کے کیرولائی کیرالہ صوبہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ا للہ کے فضل سے موصی ہیں۔ ان کے انسپکٹر کہتے ہیں مَیں نے دیکھا ہے، چندہ جات میں، ہر چندے کا ڈبہ الگ الگ ہے۔ ایک ڈبہ میرے سامنے کھولا، اُس کے بعد بیوی کو کہنے لگے کہ اپنا پرس نکالو، پھر بیوی کے پرس سے نکال کر وعدہ پورا کرنے کے علاوہ ایک لاکھ پچہتّر ہزار روپے زیادہ چندہ ادا کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک انہوں نے سات لاکھ اسّی ہزار چندہ وقفِ جدید ادا کر دیاہے۔ انڈیا میں پہلے کوئی توجہ نہیں تھی لیکن اللہ کے فضل سے اب بڑی توجہ پیدا ہو رہی ہے۔

مکرم اقبال صاحب کنڈوری انسپکٹر وقفِ جدید آندھرا پردیش لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ جھٹ چرلہ کے ایک صاحب ہیں، اُن کی عمر صرف پچیس سال ہے لیکن اللہ کے فضل سے مالی قربانی کے میدان میں صوبہ آندھرا میں اول نمبر پر ہیں۔ موصوف نے اُنہیں 2011ء کے لئے چھیاسٹھ ہزار روپے وعدہ لکھوایا تھالیکن کاروبار مندی کی وجہ سے بے انتہا کوشش کے باوجود ادائیگی نہیں کر پائے تھے جس سے موصوف کافی شرمندہ تھے۔ اب وعدہ تو لکھ دیا لیکن ادائیگی نہیں ہوسکی کہ آمدنہیں تھی تو بہرحال مجبوری تھی۔ چند دوستوں نے تو اُن کو یہاں تک صلاح دی کہ مرکز میں معافی کی درخواست لکھ کر معاف کروا لیں۔ لیکن موصوف مالی قربانی کے میدان میں اس قدر جذباتی ہیں کہ ان لوگوں سے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر سلسلے کے لئے وعدہ کیا اور میرا اللہ ضرور پورا کرے گا۔ پھر انسپکٹر صاحب کہتے ہیں 2012ء میں جب وعدہ لینے خاکسار پہنچا تو گزشتہ سال کے مقابلہ میں اضافہ کے ساتھ ستہتّر ہزار کا وعدہ لکھوایا۔ حالانکہ اُس وقت بھی موصوف اس مالی تنگی میں مبتلا تھے۔ کہتے ہیں جب مئی میں خاکسار وصولی کے لئے پہنچا تو سابقہ بقایا اور سال 2012ء کے وعدہ کے علاوہ مزید چوبیس ہزار روپے کی ادائیگی کر دی اور موصوف کا کہنا تھا کہ یہ چندے کی برکت ہے۔ خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں کہ مجھے اس مالی پریشانی سے نجات ملی اور مَیں دونوں سال کی ادائیگی ایک ساتھ کر رہا ہوں۔ پھر انڈیا سے ہی انسپکٹر وقفِ جدید آئی آر نثار صاحب لکھتے ہیں کہ وقفِ جدید کے مالی دورے کے دوران خاکسار جماعت احمدیہ کومبیٹور صوبہ تامل ناڈو میں بجٹ بنانے کے لئے گیا۔ ناظم صاحب مال وقفِ جدید بھی خاکسار کے ہمراہ تھے۔ دوپہر کے کھانے کا انتظام ایک صاحب، سلیمان صاحب کے گھر میں تھا جو کہ ایک مخلص احمدی ہیں۔ اُن کا 2011ء کا چندہ وقفِ جدید کا بجٹ ایک لاکھ ساٹھ ہزار تھا اور یہ رقم سال کے آخر میں مکمل کرنے میں انہوں نے کافی تکلیف اُٹھائی تھی اور بہت مشکل سے اس کو ادا کر پائے تھے۔ انہوں نے اس سال اپنا بجٹ اپنی خوشی سے پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے لکھوایا۔ کہتے ہیں اس پر مجھے ایک عجیب ڈر پیدا ہوا کہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار کا بجٹ بہت مشکل سے آخری دنوں میں ادا کیا تھا، اور اُس سے تین گنا اضافہ بجٹ کیسے پورا کریں گے؟ بہر حال مکرم ناظم صاحب ساتھ تھے۔ اس لئے لکھنے کے علاوہ مجھے کچھ چارا نہیں تھا۔ کہتے ہیں کھانا کھانے کے بعد دعا کر کے ہم لوگ وہاں سے نکل گئے۔ ہم لوگ مع صدر دوسرے گھر میں دعا کے لئے گئے۔ کہتے ہیں کہ آدھے گھنٹے کے بعد مکرم ناظم صاحب مال کے ساتھ صدر صاحب کی کار میں جب ہم مسجد پہنچے تو مسجد کے سامنے ہی وہ صاحب کھڑے تھے۔ مکرم ناظم صاحب مال اور خاکسار کار میں ہی بیٹھے ہوئے تھے کہ مکرم سلیمان صاحب نے آ کر پلاسٹک کا ایک لفافہ دیا اور کہنے لگے کھانے کے بعد مٹھائی بھی کھانی چاہئے۔ انسپکٹر صاحب کہتے ہیں مَیں نے کہا کہ مولوی صاحب یعنی ناظم صاحب مال جو ہیں ان کو تو شوگر ہے۔ انہوں نے مٹھائی نہیں کھانی، مَیں کھا لیتا ہوں۔ ناظم صاحب لفافہ مجھے پکڑانے لگے تو یہ صاحب جن کا چندے کا وعدہ تھا، جو مٹھائی کھانے کے لئے لفافہ پکڑا رہے تھے، کہنے لگے کہ مولوی صاحب اس لفافے کو دیکھ کر اور دعا کر کے دیں۔ خیر مولوی صاحب نے جب لفافہ کھولا تو گنگ ہو گئے۔ اُن سے کچھ بولا نہ گیا۔ کہتے ہیں دوبارہ مَیں نے اُن سے پوچھا، پھر بھی نہیں بولا گیا۔ اُس کے بعدناظم صاحب یعنی مولوی صاحب نے لفافہ ان کو دے دیا۔ کہتے ہیں کہ جب مَیں نے دیکھا تو اُس کے اندر پانچ لاکھ پچاس ہزار روپے تھے۔ کہتے ہیں میری آنکھوں سے تو آنسو جاری ہو گئے اور اُن کے لئے دعائیں بھی نکلنے لگ گئیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے انتظام فرمایا اور انہوں نے یہ چندہ کی ادائیگی کی۔

صدر صاحب بریمپٹن کینیڈا لکھتے ہیں کہ ایک دوست جو یو ایس اے سے یہاں کینیڈاآئے تھے۔ کینیڈا میں رفیوجی کلیم کیا۔ اُن کا اسائلم کا کیس بھی کافی پیچیدہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی والدہ کو جرمنی بھجوانے کے لئے پانچ ہزار ڈالر کی رقم جمع کر رکھی تھی۔ جب ان سے چندے کے سلسلے میں رابطہ کیا گیا تو انہوں نے نہ صرف پانچ ہزار ڈالر کی رقم جو انہوں نے جمع کر رکھی تھی ادا کر دی بلکہ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ان کے پاس تھا، وہ بھی دے دیا۔ خدا تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں ان کو فضلوں سے نوازا۔ اُن کا اسائلم کا کیس بغیر کسی مزید دشواری کے پاس ہو گیا بلکہ اُن کی والدہ بھی ہفتہ کے بعد جرمنی کے لئے روانہ ہو گئیں۔ ناروے کے امیر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ایک لوکل جماعت میں مسجد بیت النصر کی تعمیر کی طرف توجہ دلائی گئی تو کچھ ہی دیر بعد انتہائی سرد برفباری کے موسم میں عبدالرحیم احمدی صاحب (مرحوم) مشن ہاؤس پہنچے اور درخواست کی کہ ان کے پاس ستّر ہزار کرونر زکی رقم موجود ہے، وہ یہ سب مسجد کی تعمیر کے لئے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس طرح بعض لوگ بالکل لاپرواہ ہو کے، کسی بھی فکر سے آزاد ہو کے اللہ تعالیٰ کی خاطر خرچ کرتے ہیں کیونکہ اُن کو علم ہے کہ نیک نیتی سے دیا گیا اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت کا درجہ پائے گا اور بہر حال اللہ تعالیٰ پھر اُس کا بدلہ دیتا ہے۔

یہ چند واقعات میں نے بیان کئے ہیں۔ یہ تو قربانیوں کی داستانوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو مالی قربانی کا عہد کر کے پھر پورا کرنے کے لئے ہر کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد اب میں جیسا کہ جنوری کے شروع میں وقفِ جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے، وقفِ جدید کے56ویں سال کا اعلان کروں گا اور گزشتہ سال کی کچھ رپورٹ پیش کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے سال 55 میں جو 2012ء گزشتہ سال تھا جو 31؍دسمبر کو ختم ہوا، جماعت نے پچاس لا کھ دس ہزار پاؤنڈ کی قربانی پیش کی۔ گزشتہ سال کے مقابلہ میں تین لاکھ سترہ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے۔

پاکستان تو اپنی پوزیشن قائم رکھتا ہی ہے، اُس کے علاوہ پھر بیرونی دنیا میں نمبر دو کہہ لیں یا بیرونی دنیا کا اگر مقابلہ کریں تو نمبر ایک سے شروع کریں، تو اس دفعہ آپ لوگوں کے لئے بھی خوشی کی یہ خبر ہے کہ اس دفعہ وقفِ جدید میں برطانیہ بیرونی دنیا میں نمبر ایک پر ہے۔ امریکہ نمبر دو پر، جرمنی نمبر تین پر، کینیڈا چار، انڈیا پانچ، آسٹریلیا چھ، انڈونیشیا سات، بیلجیئم آٹھ، مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے نویں نمبر پر اور سوئٹزر لینڈ دسویں نمبر پر۔

کرنسی کے لحاظ سے گزشتہ سال کے مقابلہ پر وصولی میں جو نمایاں اضافہ ہوا ہے وہ تین جماعتوں میں ہوا ہے۔ آسٹریلیا میں 42.5 فیصد، انڈیا میں 31.5فیصد اور انڈونیشیا نمبر تین ہے 25.19 فیصد۔ اس کے علاوہ فرانس، ناروے اور ترکی نے بھی گزشتہ سال کی نسبت نمایاں اضافے کئے ہیں۔ فی کس ادائیگی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں یہ ہیں۔ امریکہ نمبر ایک ہے، گو ویسے مجموعی آمد میں نمبر دو پر ہے یعنی پاکستان کے بعد اگر دیکھا جائے تو نمبر دو پر ویسے نمبر تین۔ لیکن فی کس چندے کے لحاظ سے یہ نمبر ایک ہیں، تقریباً 88پاؤنڈ فی کس چندہ ان کا بنتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کا 55 پاؤنڈ سے زیادہ بنتا ہے۔ برطانیہ کا تقریباً 40، بیلجیئم 39، کینیڈا تقریباً 32 پاؤنڈ۔

اس سال شاملین کی تعداد کی طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے افریقن ممالک نے خاص طور پر توجہ دی ہے اور جووقفِ جدید میں شامل ہونے والے ہیں ان کی یہ کل تعداد، دس لاکھ تیرہ ہزار ایک سو بارہ ہیں۔ گزشتہ سال چھ لاکھ نوے ہزار تھے۔ یعنی وقفِ جدید کا چندہ دینے والوں میں تین لاکھ تیئس ہزار نئے شامل ہوئے ہیں۔ ماشاء اللہ۔ اور اصل چیز یہی ہے کہ شامل ہونے والوں میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہر ایک کے ایمان اور ایقان میں اضافہ ہو کیونکہ یہ مالی قربانی بھی ایمان کا بہت ضروری حصہ ہے۔

شاملین میں تعداد کے اضافہ کے لحاظ سے افریقہ کی جماعتوں میں نائیجیریا نمبر ایک پر ہے۔ نمبر دو پر غانا، پھر سیرالیون، پھر بینن۔ پھر نائیجر۔ پھر بورکینا فاسو۔ پھر آئیوری کوسٹ۔ اور چھوٹے ممالک میں کیمرون، مالی، سینیگال، ٹوگو، گنی کناکری نے بھی اضافہ کیا ہے۔

پھر افریقہ کے علاوہ دنیا کے دوسرے ممالک میں جرمنی اور برطانیہ نے سب سے زیادہ اضافہ کیا ہے۔ اس سال پہلی دفعہ کبابیر والوں میں بھی تھوڑی سی کوئی ہلچل ہوئی ہے، وہ بھی نمایاں طور پر سامنے آئے ہیں۔ افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے پہلی پانچ جماعتیں۔ نمبر ایک پر گھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ یہ اس اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھنے والے ہوں۔ پھر نمبر دو پر نائیجیریا۔ نمبر تین پر ماریشس۔ چار پر بورکینا فاسو اور پانچ پر بینن۔

پاکستان کی پہلی تین جماعتوں میں پہلے نمبر پر لاہور۔ دوسرے پر ربوہ۔ تیسرے میں کراچی۔ بالغان میں اضلاع کی پوزیشن راولپنڈی نمبر ایک۔ پھر اسلام آباد۔ پھر فیصل آباد۔ پھر شیخو پورہ۔ پھر گوجرانوالہ۔ پھر عمر کوٹ۔ پھر گجرات۔ پھر نارووال۔ حیدرآباد اور سانگھڑ۔

اطفال میں تین بڑی جماعتیں جو ہیں اُس میں پوزیشن یہ ہے۔ لاہور نمبر ایک۔ کراچی نمبر دو اور ربوہ نمبر تین۔ اطفال میں ضلع کی پوزیشن کے حساب سے نمبر ایک راولپنڈی۔ پھر اسلام آباد۔ پھر فیصل آباد۔ پھر عمر کوٹ۔ عمر کوٹ بھی مقابلۃً بڑا غریب ضلع ہے لیکن اللہ کے فضل سے قربانیوں میں پیش پیش ہے۔ پھر گجرات پھر حیدرآباد، پھر اوکاڑہ اور بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس جماعتیں یہ ہیں۔ رینیزپارک نمبر ایک۔ برمنگھم ویسٹ نمبر دو۔ پھر ووسٹر پارک۔ پھر نیو مالڈن۔ پھر ویسٹ کرائیڈن۔ پھر برمنگھم سینٹرل۔ پھر بیت الفتوح۔ پھر جلنگھم۔ پھر ارلزفیلڈ اور ومبلڈن۔

وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی پانچ ریجن یہ ہیں۔ نمبر ایک مڈ لینڈز۔ پھر ساؤتھ ریجن۔ پھرلنڈن۔ پھرمڈل سیکس۔ پھر نارتھ ایسٹ۔

وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی پانچ جماعتیں ہیں۔ لاس اینجلس اِن لینڈ ایمپائر۔ سلیکون ویلی نمبر دو۔ پھر ڈیٹرائٹ، سیَیٹل اور شکاگو ویسٹ۔

وصولی کے لحاظ سے جرمنی کے ریجن یہ ہیں۔ ہیمبرگ نمبر ایک پر۔ ہیمبرگ بھی ماشاء اللہ بڑی ترقی کر رہا ہے۔ فرینکفرٹ نمبر دو۔ پھر گروس گیراؤ۔ پھر ڈارمسٹڈ۔ ویزبادن۔ مائن فرانکن۔ ہیسن ویسٹ۔ نوڈرائن۔ ہیسن مِٹّے اور بادن۔

وصولی کے لحاظ سے جرمنی کی پہلی دس جماعتیں روئڈر مارک۔ نوئس، ہینوور، فریدبرگ، اور گینزھائم۔ ہائیڈل برگ۔ فُلڈا۔ فرائنزھائم۔ وائن گارٹن اور موئر فلڈن۔

دفتر اطفال میں وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی پانچ جماعتیں ہیں۔ کیلگری۔ پیس ولیج ساؤتھ۔ ایڈمنٹن۔ ڈرہم۔ سرے ایسٹ۔

وصولی کے لحاظ سے بھارت کے صوبہ جات ہیں، کیرالہ نمبر ایک پر، تامل ناڈو نمبر دو، جموں کشمیر، آندھرا پردیش، ویسٹ بنگال، کرناٹک، اڑیسہ، قادیان پنجاب کو بھی صوبہ میں شامل کیا ہے، اتر پردیش، مہاراشٹرا اور دہلی۔

وصولی کے لحاظ سے انڈیا کی جماعتیں ہیں۔ کوئمبیٹور نمبر ایک۔ کالی کٹ نمبر دو۔ کیرولائی۔ کنانور ٹاؤن۔ قادیان۔ حیدرآباد۔ کلکتہ۔ پینگاڑی۔ چنائی۔ بنگلور اور رِشی نگر۔

اللہ تعالیٰ سب قربانی کرنے و الوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں اُن کے ساتھ وہ رأفت اور محبت کرتا ہے۔ چنانچہ خود فرماتا ہے۔وَ اللّٰہُ رَءُوۡفٌۢ بِالۡعِبَادِ(البقرۃ: 208) یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے اُن کو دی ہے اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اُس کی راہ میں صَرف کرنا اُس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں۔ مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے۔ سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے تا کہ وہ حیاتِ طیبہ کا وارث ہو‘‘۔

اللہ کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کرنے میں ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 364۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اس کے علاوہ ایک دعا کی تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں۔ لیبیا میں آج کل احمدیوں کے لئے حالات بڑے شدید خراب ہیں۔ حکومت تو وہاں ہے کوئی نہیں۔ ہر علاقے میں لگتا ہے کہ کچھ تنظیموں کا یا قبائلیوں کا زور ہے اور ہمارے احمدیوں کو بھی پکڑا ہوا ہے۔ اور بعض جگہ سے یہ بھی اطلاع ہے کہ ٹارچر بھی دیا جا رہا ہے۔ بہر حال پولیس نے علماء کے کہنے پر، تنظیموں کے کہنے پر اُن کو پکڑ کے بند کیا ہوا ہے اور وہاں وہ احمدی کافی پریشانی میں ہیں۔ خاص طور پر جو غیر لیبین ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی بھی رہائی کے اور آسانی کے سامان پیدا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 4؍ جنوری 2013ء شہ سرخیاں

    وقف جدید کے 56ویں سال کے آغاز کاا علان۔

    گرشتہ سال 2012ء میں عالمگیرجماعت احمدیہ نے وقف جدید میں 50لاکھ 10ہزار پاؤنڈز کی مالی قربانی پیش کی۔

    پاکستان نے اپنی اول پوزیشن برقرار رکھی۔ بیرون پاکستان میں برطانیہ نمبر ایک اور امریکہ دوسرے نمبر پر رہا۔ مختلف پہلوؤں سے وقف جدید میں جماعتوں کی مالی قربانی کے کوائف کابیان۔

    جس نیک نیت سے احباب جماعت چندہ دیتے ہیں اللہ تعالیٰ اتنی ہی اس میں برکت بھی رکھتاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل ہی ہم یہ کشائش دیکھ رہے ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ یہ کشائش اور ہمارے پیسے میں برکت کے نظارے ہم دیکھتے رہیں گے۔ خداتعالیٰ کی خاطر قربانی کردینے کا وقت آتاہے تو احمدی اپنا پیٹ کاٹ کر بھی قربانیاں دیتے ہیں۔ بھوکے رہنا گوارا کر لیتے ہیں لیکن یہ گوارا نہیں کرتے کہ اپنے چندے دینے کا انکار کریں یا کسی طرح کمی کریں۔ یہی انبیاء کی جماعتوں کی نشانی ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں اور کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم نے کچھ بھی نہیں کیا۔

    احباب جماعت کی غیر معمولی قربانیوں کے واقعات کا روح پرورتذکرہ۔

    فرمودہ مورخہ4؍جنوری 2013ء بمطابق 4؍صلح 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور