صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی پاک باطنی، اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آنحضرت ؐسے محبت

خطبہ جمعہ 11؍ جنوری 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج بھی میں اُس پاک گروہ کے چند افراد کی خوابوں اور واقعات کا ذکر کروں گا جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ پایا اور اُن آخرین میں شامل ہوئے جو پہلوں سے ملائے گئے۔ یہ ہر واقعہ جہاں ان صحابہ کی پاک باطنی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار ہے، وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہے۔

پہلی روایت حضرت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحبؓ کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضور کے وصال کے چند سال بعد مَیں نے خواب میں آپ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے مکان میں دیکھا جبکہ یہ مکران بلوچستان میں تھے۔ کہتے ہیں مَیں نے دیکھا کہ سب نہایت خوش و خرم تھے۔ دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو آپ نے (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے، یہ انہی کو جانتے تھے) فرمایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ دوبارہ دریافت فرمایا کہ یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ بیان کرنے والے فرماتے ہیں کہ مَیں نے اپنا سر کچھ ندامت سے نیچے کر کے پھر جو دیکھا تو تینوں حسینان غائب تھے۔ شکلِ مبارک میں رسولِ کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتے جلتے دیکھا۔ (یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ ثبوت دیا کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظلّ کے طور پر آئے ہیں)۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 91۔ روایات حضرت ڈاکٹر عبدالمجید خان صاحبؓ)

پھر حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹیؓ کی روایت ہے۔ فرماتے ہیں کہ مَیں فتاپور (فتح پور) تعلیم حاصل کرتا تھا، پھر دو تین سال کے بعد میرے دوست میاں لال دین آرائیں جو ایک مخلص اور نیک اور راست گو آدمی تھے، انہیں رات کو خواب میں آیا کہ مَیں (یعنی وہ، میاں لال دین صاحب) جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر ہوا ہوں۔ حاضر ہونے پر مَیں نے حضور کو السلام علیکم عرض کیا۔ حضور نے وعلیکم السلام فرما کر فوراً فرمایا کہ میاں لال دین! آ گئے ہو؟ تو مَیں نے عرض کیا جی ہاں آ گیا ہوں۔ حضور ایک کرسی پر رونق افروز تھے اور آپ کی دائیں طرف ایک کرسی پر ایک اور شخص بیٹھا تھا۔ حضور نے فرمایا کہ میاں لال دین! تو نے اس آدمی کو پہچانا ہے؟ یہ مہدی ہے۔ اُسے پہچان لے۔ مَیں نے عرض کیا جناب مَیں نے پہچان لیا ہے۔ کہتے ہیں، میاں لال دین صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ مَیں نے جو مہدی کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ اُن کے چہرے سے نور کی شعائیں نکل رہی ہیں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے دیکھنے پر اُن کی طبیعت(یعنی میاں لال دین صاحب کی طبیعت) فوراً خدا تعالیٰ کی طرف جھک گئی اور بال بچوں کو نماز کی تلقین شروع کی۔ خود مسجد میں زیادہ جاتے۔ لوگوں نے اُنہیں دیوانہ تصور کیا اور دیوانگی کا علاج کرنے لگے۔ مولوی سلطان حامد صاحب احمدی مرحوم ایک زبردست حکیم تھے۔ انہوں نے جب یہ خواب سنی تو فوراً قادیان کی طرف روانہ ہو پڑے۔ اُس وقت مہدی کی آمد کی مشہوری تھی۔ مولوی صاحب کی روانگی پر میاں لال دین نے اُن کو فرمایا کہ حضرت صاحب سے میرے لئے بھی دعا طلب فرماویں۔ جب مولوی صاحب مذکور بیعت کر کے واپس آئے(یعنی مولوی سلطان حامد صاحب) تو میاں لال دین نے اُن سے دریافت فرمایا کہ میرے لئے دعا آپ نے حضرت صاحب سے منگوائی تھی۔ مولوی صاحب نے فرمایا کہ بھائی میں بھول گیا ہوں۔ میاں لال دین صاحب نے فرمایا کہ اچھا آپ قادیان سے ہو آئے ہیں لیکن مَیں نہیں گیا، آپ مجھ سے قادیان کا حال دریافت فرما لیویں۔ (یعنی گو مَیں گیا تو نہیں لیکن مَیں نے خواب میں جو نظارے دیکھے ہیں، وہ سارا حال بیان کر سکتا ہوں۔) چنانچہ انہوں نے قادیان کا نقشہ خواب میں جو دیکھا تھا، خوب کھینچ دیا۔ مولوی صاحب متحیر ہو گئے۔ مولوی صاحب کی زبانی گفتگو سن کر (جو انہوں نے قادیان کے واقعات بیان کئے، یہ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ) ہم تین آدمی یعنی منشی کرم الٰہی گرداور (گرداور محکمہ مال کا ایک پٹواری اور گرداوری عملے کا کارکن ہوتا ہے جو کھیتوں میں فصلوں کی پیمائش وغیرہ اور جو لگان لگتا ہے اُس کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ بہر حال محکمہ مال کے ملازم کو جو گاؤں میں متعین ہوتا ہے اُس کو گرداور بھی کہتے ہیں۔ تو کہتے ہیں) منشی کرم الٰہی صاحب گرداور، میاں رمضان دین میانہ اور میں نے بیعت کے خط تحریر کر دئیے۔ (یہ وضاحت مَیں اس لئے بیان کر دیتا ہوں کہ بعض ترجمہ کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں بعض باتوں کا پتہ نہیں لگتا) کہتے ہیں اس کے چند ماہ بعد میاں لال دین اور مَیں اور میاں محمد یار اور مراد باغبان (یعنی مرادنامی باغبان تھے)۔ چاروں نے مل کر قادیان جانے کا قصد کیا۔ ہم پیدل چل کر رات کو میاں چنوں کے سٹیشن پر پہنچے۔ پچھلی رات اُٹھ کر نفل پڑھے۔ پھر میاں لال دین نے رات کو خواب سنایا کہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ گدھے کے لے آنے کا کیا فائدہ ہے۔ (رات کو میاں لال دین نے خواب دیکھی کہ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ ’’گدھے کو لے آنے کا کیا فائدہ ہے‘‘) تو انہوں نے اصرار کیا (میاں لال دین صاحب نے اس بات پر پھر یہ اصرار کیا کہ) بھائی ہم میں سے کون ہے جو منافقانہ ایمان رکھتا ہے۔ (یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ گدھے کو لے کے آئے ہو، اس کا مطلب ہے کہ یقینا ہم میں سے کوئی منافقانہ ایمان رکھنے والا ہے۔ فرداً فرداً انہوں نے ان چاروں میں سے ہر ایک سے پوچھا۔ تو مراد باغبان بولا (مرادنامی جو باغبان تھا، اُس نے کہا) کہ مَیں تیرے لئے آ رہا ہوں کہ تم اس جگہ ٹھہر نہ جاؤ، ورنہ مَیں بیعت تو نہیں کروں گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ علیٰ ھذا القیاس۔ ہم گاڑی پر سوار ہو کر بٹالہ اتر کر میاں لال دین کی رہنمائی سے قادیان پہنچے۔ ہم قادیان میں بالا مسجد ٹھیک دوپہر کے وقت داخل ہوئے۔ کھانا کھانے کا وقت تھا، کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے۔ (غالباً یہ مسجد مبارک کے اوپر کے حصہ کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں کپڑے وغیرہ ہم نے وہیں رکھے۔ ایک شخص نے آواز دی کہ کھانا تیار ہے۔ سب بھائی آ جاؤ۔ ہم تقریباً اُس وقت دس بارہ آدمی تھے، اکٹھے ہو گئے۔ ایک شخص نے اُنہی میں سے ہم سے پوچھا کہ تمہارا گھر کس ضلع میں ہے۔ میاں لال دین نے جواب دیا کہ ملتان میں۔ اُس نے پھر پوچھا کہ تم کو کس طرح شوق ہوا کہ اس طرف آئے۔ میاں لال دین نے مذکورہ تمام خواب سنایا۔ اُس نے کہا کہ اب تم حضرت صاحب کو پہچان لو گے۔ تو میاں لال دین نے کہا کہ انشاء اللہ ضرور۔ چنانچہ نئے آدمی جو آتے جاتے رہے۔ وہ آدمی جو بھی ان کا میزبان تھا ان کو آزمانے کے لئے ان سے پوچھتا رہا کہ یہ ہیں مسیح موعود؟تو میاں لال دین نے کہا کہ یہ نہیں ہیں۔ مختلف آدمیوں کے متعلق انہوں نے پوچھا کہ یہ ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں، یہ نہیں ہیں۔ کیونکہ مَیں نے خواب میں جو دیکھا وہ کچھ اور شخص تھا۔ لیکن جب حضرت صاحب نے طاقچی سے جھانک کر مسجد میں دیکھا، (جو تھوڑی سی کھڑکی تھی وہاں سے جھانک کر جب مسجد میں دیکھا) تو میاں لال دین نے فوراً کہا کہ وہ حضرت صاحب ہیں۔ وہی نور مجھے نظر آ گیا ہے جو مَیں نے خواب میں دیکھا تھا۔ اُس آدمی نے کہا ٹھیک ہے، تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 92 تا 95۔ از روایات حضرت میاں غلام حسن صاحب بھٹیؓ)

حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ، بابو میراں بخش صاحبؓ (یہ دونوں صحابی ہیں، اسماعیل صاحب بھی صحابی تھے، وہ بابو میراں بخش صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ) بابو میراں بخش صاحب جو تین سو تیرہ کی فہرست میں شامل تھے، بیمار ہو گئے۔ اُن کے علاج کے لئے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ یہاں پورا ایک ماہ علاج کرایا اور اس عرصہ میں حضرت اقدس سے ملاقات ہوتی رہی۔ (یہ بیعت سے پہلے کی بات کر رہے ہیں ) کہتے ہیں تین رات خوابیں آئیں۔ آخری رات ایک ہیبتناک انسان تلوار ہاتھ میں لے کر سخت ڈراتا ہے کہ جلدی بیعت کرو۔ خیر انہوں نے صبح بیعت کر لی۔ بیعت کرنے کے بعد پھر جب اس کے علاج کے بعد وہاں سے رخصت ہوئے تو اُس کے بعد کہتے ہیں کہ پھر خط و کتابت سے ہمارا رابطہ رہا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 178۔ از روایات حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحبؓ)

حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میرے گھر میں ایک بھینس تھی۔ اُس نے بچہ دیا۔ ہمارے گاؤں میں رسم ہے کہ پہلے روز کے دودھ کی کھیر پکا کر فتح علی شاہ کے خانقاہ پر (وہاں کوئی سید شاہ تھا، اُس کی خانقاہ پر) چڑھاتے تھے، (پیروں فقیروں کو پوجنے والوں کا یہی اصول ہوتا ہے) تو کہتے ہیں میری بیوی نے بھی کھیر پکائی اور میرے والد اور چچا کو دعوت کھانے کی دی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کافر ہو گیا ہے۔ (انہوں نے یعنی میاں سوہنے خان نے بیعت کر لی تھی، وہ کافر ہو گیا ہے اس لئے اس کے گھر کے جانور کی ہم کھیر نہیں کھائیں گے) میری بیوی نے مجھے کہا کہ مَیں نے کھیر کی دعوت کی۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم نہیں کھائیں گے، وہ کافر ہو گیاہے۔ اس روز کہیں باہر سے ایک حکیم آیا ہوا تھا۔ وہ ہمارے چچا صاحب کا دوست تھا۔ وہ ملنے آیا۔ مَیں نے کھیر برتن میں ڈال کر اُس حکیم کے آگے رکھ دی۔ اُس نے ختم دے کر کھا لی۔ (یعنی دعا پڑھ کے اُس نے کہا ٹھیک ہے۔ جو بھی ہو۔ دعا پڑھ کے اُس نے کھا لی) بہر حال اُس نے (یعنی حکیم صاحب نے) مجھے پوچھا کہ تم کو کیا سکھایا ہے۔ (یعنی بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا سکھایا ہے۔) مَیں نے عرض کیا کہ پانچ گانہ نماز پڑھو (یعنی پانچ وقت نماز پڑھو) درود شریف پڑھو اور مجھے سچا مہدی مانو۔ یہ باتیں بتائی ہیں۔ حکیم صاحب نے فرمایا کہ تم نے دریافت کرنا تھا کہ کس درود شریف پڑھنے سے یا کس آیتِ قرآنی پڑھنے سے زیارت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو جائے اور کس درود شریف پر آپ کا عمل ہے۔ مَیں نے اُسی روز حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا۔ جو حکیم صاحب نے سوال پوچھے تھے وہ لکھ دئیے۔ کہتے ہیں مَیں چشتیانہ فرقہ کا خادم تھا، جو ذکر پاک اپناس، یعنی اللہ ہُو، اور ذکر لَا اِلٰہَ جسے چشتیہ خاندان میں ذکر سلطان الاذکار سمجھتے ہیں وہ کیا کرتا تھا۔ خیر جس قدر واقفیت تھی مَیں یہ پڑھتا تھا۔ مَیں نے اَور ان ذکروں کے علاوہ بھی جتنے وظیفے مجھے پتہ تھے، وہ بھی لکھ دئیے۔ (کل وظیفے لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیج دئیے)۔ حضرت صاحب نے اس کا جواب اس طرح دیا کہ میرا زمانہ ابتدائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ (یعنی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تھا، وہ میرا زمانہ ہے) جو ذکر تم نے لکھے ہیں، یہ سب کرنے فضول ہیں، منع ہیں۔ اس زمانے میں یہ تاثیر نہیں کریں گے۔ میرے جو ذکر ہیں وہ وہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے۔ یعنی سورۃ فاتحہ پڑھو، الحمد شریف، درود شریف پڑھو، استغفار بہت زیادہ کرو۔ لاحول پڑھو۔ یہ فیض رساں ہوں گے، ان سے فائدہ ہو گا۔ اور فرمایا کہ میرا کُل درود شریف پر عمل ہے۔ جتنے بھی درود شریف ہیں جو حدیث شریف میں آئے ہیں اُن پر میرا عمل ہے۔ اُن سب کو مَیں ٹھیک مانتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا کہ شرط یہ ہے کہ جس وقت درود شریف پڑھو، اگر تم سمجھتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو جائے تو محبت رسولِ مقبول کی دل میں قائم کرو۔ اور محبت بچوں کی(یعنی ہر ایک کی) چھوڑ دو۔ ہر دوسری محبت کو چھوڑ دو اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو سب سے زیادہ دل میں قائم کرو۔ کہتے ہیں مَیں نے درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ (اُس وقت کیونکہ غیر احمدیوں کا بھی اثر تھا) درود ہزارہ پڑھنا شروع کر دیا۔ (یہ ہزارہ درود شریف بھی ان کے ہاں ایک ہے جو تہجد کے وقت ایک ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے بعد پھر ان کے کچھ اپنے الفاظ ہیں۔ بہرحال اس کو یہ درود ہزارہ کہتے ہیں۔ کیونکہ نئے نئے احمدی تھے، کہتے ہیں یہ درود شریف مَیں نے پڑھنا شروع کر دیا۔ درُود ہزارے کا مطلب ہے کہ ہزار دفعہ درود شریف تہجد کی نماز کے وقت۔ عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اگر اُس کو پڑھا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو جاتا ہے۔ ) بہر حال کہتے ہیں مَیں نے پڑھنا شروع کیا۔ تھوڑے ہی دن گزرے، خواب اور عالمِ شہود میں مرزا صاحب تشریف لائے اور مجھ کو ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضر کر دیا۔ وہاں لوگ قطاریں باندھے کھڑے تھے اور سرورِ کائنات تختِ مبارک پر بیٹھے تھے۔ مگر ہم کو پچھلی سطر میں پچھلی لائن میں جگہ ملی۔ جناب مرزا صاحب نے بآواز بلندعرض کیا کہ اے سرورِ کائنات! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔ ہم نے سوہنے خان کی بابت اچھا انتظام کر دیا۔ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور جو کچھ سونے خان کی بابت انتظام کیا ہے، ہم نے منظور کیا ہے۔ کچہری میں حاضر رہے۔ (یعنی یہاں بیٹھے رہے۔ ) یہ اپنی خواب بیان کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں اور چند بزرگوں کی مَیں نے وہاں زیارت کی۔ مرزا صاحب خواب میں اجازت لے کر مجھے وہاں اُس مجلس سے واپس لے آئے، اور میرے مکان پر چھوڑ آئے۔ جو بزرگ سابقین ولی اللہ گزر چکے ہیں، حضرت میراں جی سید بھنج شریف والوں نے مجھ کو خوابِ روحانی میں بیعت کر لیا۔ فرمایا، مرزا صاحب کا ہمارا ایک ہی روپ ہے۔ وہ مہدی اور ہم بھی مہدی۔ ایک بزرگ سلطان ریاست کپور تھلہ خواب میں اُن کی ملاقات ہوئی۔ وہ بزرگ کامل تھے۔ انہوں نے فرمایا وہ مہدی ہے اور عیسیٰ ہے۔ ہمارا اُن کا ایک ہی روپ ہے۔ (یہ اپنی خوابوں کا ذکر کر رہے ہیں ) پھر کہتے ہیں کہ جب کرم دین کے ساتھ مرزا صاحب کا مقدمہ تھا تو میرے نزدیک یہاں پر یعنی اُن کے علاقے میں جہاں یہ رہتے تھے۔ اُس جگہ گاؤں میں، قصبہ میں احمدی کوئی نہیں تھا۔ تمام لوگ کہتے تھے کہ مرزا صاحب اس مقدمے میں قید ہو جائیں گے۔ اُس وقت غم میں آ کر میاں حبیب الرحمن حاجی پور والے کے پاس پہنچا۔ حبیب الرحمن صاحب نے فرمایا کہ فکر مت کرو۔ درود شریف پڑھ کر دعا کرو۔ میں نے کثرت سے درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا۔ چند روز میں خواب میں ایک شخص ایک لڑکے کی لاش لے کر اور وہ لاش سات رومال میں لپٹی ہوئی تھی لے کے آیا اور میرے پاس رکھ دی۔ مَیں نے اُس کو کہا، یہ کیا ہے؟ اُس نے کہا دیکھ۔ مَیں نے اُس کے رومال اتارنے شروع کئے۔ جب چھیواں رومال اُتارا (یعنی کپڑا اُس لاش پر سے اُتارا) تو مَیں نے کہا یہ بندر کی شکل ہے جو مرزا کا مدعی ہے۔ (یعنی جس نے حضرت مرزا صاحب کے خلاف دعویٰ کیا ہوا ہے) میں وہاں یعنی کوٹھے پر بیٹھا تھا، خواب میں اُس کو نیچے گرا دیا۔ (اُس مردہ لاش کو نیچے گراد یا۔ ) پھر کہتے ہیں میں نے یہ خواب لکھ کرحضرت مرزا صاحب کو بھیجا۔ حضور نے فرمایا کہ اسی طرح اس کا پردہ فاش ہو گا۔ (چنانچہ پردہ فاش بھی ہوا۔ ) (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 195 تا 199۔ از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)

ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑکؓ انجامِ آتھم پڑھ لینے کے بعد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مَیں نے اب کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا اور نماز بھی پڑھنی شروع کر دی جس کی مجھے اس سے قبل عادت نہ تھی۔ مَیں نے اس اثنا میں ایک رؤیا دیکھی کہ مَیں ایک ایسی جگہ پر ہوں کہ میرے سامنے ایک مینار ہے اور مینار کے ساتھ ایک دروازہ ہے جو پرانے فیشن کا موقع تختوں کا (پرانے فیشن کا تختوں کا دروازہ ہے) کارکڈ (Carked) دروازہ ہے۔ (میرا خیال ہے یہ کاروڈ، Carvedہو گا) اس دروازے کو مَیں کھول کر اندر جانا چاہتا ہوں، مگر وہ کھلتا نہیں۔ مَیں نے زور سے جو اُسے دھکا دیا تو ایسا معلوم ہوا کہ مَیں دروازہ کھلنے کے ساتھ ہی اندر جا پڑا ہوں مگر گرا نہیں۔ پھرمَیں دیکھتا ہوں کہ وہاں پر پارک ہی پارک ہیں۔ (بہت بڑے بڑے پارک ہیں ) جہاں پر روشیں ہیں، پھولوں کے پودے لگے ہوئے ہیں۔ اُن میں سے گزرتے ہوئے میں ایسا خیال کرتا ہوں کہ گاڑی لاہور جانے کے لئے تیار ہے، مگر میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ (خواب بیان کر رہے ہیں )۔ اس اثناء میں ایک شخص جو سانولے رنگ کا ہے اور مجھے وہ ڈرائیور معلوم ہوتا ہے مجھے کہتا ہے کہ کچھ حرج نہیں اگر تمہارے پاس ٹکٹ نہیں تو ٹرین کی سلاخوں کو پکڑ لو اور لٹک جاؤ مگر دیکھنا سو نہ جانا۔ چنانچہ مَیں نے ان سلاخوں کو پکڑ لیا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیند سی آ رہی ہے، اُس وقت میں نے سلاخوں کو بھی پکڑا ہوا ہے اور مٹھیوں سے آنکھوں کو بھی ملتا جاتا ہوں تاکہ سو نہ جاؤں۔ اس اثناء میں میری آنکھ کھل گئی۔ (خواب میں یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے) کہتے ہیں مَیں نے یہ رؤیا محمد امین صاحب سے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ اب آپ پر سچائی کھل گئی ہے۔ بیعت کر لیں۔ (وہ احمدی تھے۔ ) مَیں نے کہا کہ قادیان جا کر بیعت کر لوں گا۔ انہوں نے کہا کہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ ایک کارڈ جو انہوں نے اپنی جیب سے نکال کر مجھے دیا۔ (جوابی کارڈ تھا) انہوں نے کہا کہ ابھی اسے لکھ دو۔ چنانچہ مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا اور محمد امین صاحب اُسے پوسٹ کرنے کے لئے گئے۔ یہ 1907ء کا واقعہ ہے۔ اس کے دو یا تین دن بعد مجھے جواب ملا کہ بیعت حضرت اقدس نے منظور فرما لی ہے اور لکھا ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ استقامت بخشے اور ساتھ یہ لکھا ہوا تھا کہ نماز بالالتزام پڑھا کرو اور درود شریف بھی پڑھا کرو۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 214 تا 215۔ از روایات حضرت ڈاکٹر عبد الغنی صاحب کڑکؓ)

مکرم میاں شرافت احمد صاحب اپنے والد حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ والد صاحب سے احمدیت سے پہلے بھی الہامات کا سلسلہ جاری تھا اور قبولِ احمدیت کے بعد یہ سلسلہ بہت ترقی کر گیا۔ احمدیت کی بدولت آپ کو رؤیت باری تعالیٰ بھی ہوئی۔ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بھی کافی دفعہ ہوئی۔ حضرت عمرؓ اور دوسرے بزرگوں کی زیارت وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی تھی۔ پھر یہ اپنے والد صاحب کے بارے میں ہی لکھتے ہیں کہ ایک دن مسجد محلہ دارالرحمت میں کسی بات میں چند دوستوں کو رؤیا سنائی جن میں سے ایک دوست تو جناب ماسٹر اللہ دتہ صاحب مرحوم گجراتی تھے۔ بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک صحابی تھا، اُس کو روزانہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضوری ہوتی تھی۔ وہ صبح کو وہ کشف حضرت کے حضور پیش کرتے، (یعنی روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو وہ کشف یا رؤیا جو تھے وہ پیش کرتے تھے) اور حضور اُس پر اپنی قلم سے درست ہے یا ٹھیک ہے، لکھ دیتے تھے۔ والد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ غلط باتیں ہیں۔ (یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ روز روز حضوری ہو رہی ہے اور روز ہی دیدار ہو رہا ہے۔ تو کہتے ہیں) قریب تھا کہ یہ وسوسہ زیادہ شدید ہو جائے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میرا دامن پکڑ لیا اور مجھ کو غرق ہونے سے بچا لیا۔ (وہ کس طرح بچایا؟) کہتے ہیں رات کو مَیں بھی خواب میں اپنے آپ کو حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پاتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی وہاں پر تشریف فرما ہیں۔ حاضرینِ مجلس میں سے کسی نے سوال کیا کہ حضور! مکہ کی نسبت تو یہ آیا ہے کہ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۔ کہ اس میں جو داخل ہو گیا امن میں ہو گیا۔ پھر یہ مکّہ جناب کے لئے تو جائے امن نہ بنا۔ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تو امن کی جگہ نہیں بنا۔) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں جا کر پناہ لینی پڑی۔ (یہ خواب اپنی بیان کر رہے ہیں) کہتے ہیں اس کے جواب میں حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بھی تو ہے کہ مکّہ کو کوئی فتح نہیں کر سکتا۔ مَیں نے اس کو فتح بھی تو کر لیا۔ کیونکہ یہ میرے نکالے جانے کی وجہ سے میرے لئے حل ہو گیا کہ مَیں اس کو فتح کروں۔ اور بھی کچھ خواب کا حصہ بیان کیا۔ لیکن کہتے ہیں کہ مَیں کم علمی کی وجہ سے پورے طور پر اُس کو یادنہیں رکھ سکا، بھول گیا ہوں۔ پھر کہتے ہیں اُس کے بعد والد صاحب نے کہا کہ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس خواب کے بعد تہجد کا وقت تھا۔ تہجد ادا کی اور مسجد میں چلا گیا۔ صبح کو وہی دوست پھر تشریف لائے اور انہوں نے رات کی سرگذشت کاپی پر لکھی ہوئی حضور کے سامنے رکھ دی۔ حضور نے پھر اس پر اپنی قلم سے تصدیق فرما دی۔ مَیں نے وہ پڑھا تو وہی خواب جو کہ مَیں عرض کر چکا ہوں یعنی وہی سوال اور وہی جواب ہے جو مَیں نے عرض کیا ہے۔ (یعنی ان کو بھی جو خواب آئی تھی، وہی اُس دوست نے بھی سنائی۔ ) اس طرح کہتے ہیں خدا تعالیٰ نے اُس وقت میری دستگیری فرمائی اور مجھے ہلاکت سے بچا لیا کہ یہ خوابیں جو بیان کرتے ہیں وہ سچی خوابیں ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 272 تا 274۔ ازروایات حضرت مولوی جلال الدین صاحبؓ)

اس طرح حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ (1892ء کی ان کی بیعت ہے) بیان کرتے ہیں کہ بندہ کو امرتسر جناب قاضی سید امیر حسین صاحب مرحوم کے پاس آنے سے احمدیت کا علم ہوا۔ بندہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے لئے ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعا استخارہ کی اور دعا میں یہ درخواست تھی کہ مولیٰ کریم! مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب ہوں یہ درست ہے یا جو اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ ہے وہ درست ہے؟ اس پر مجھے دکھلایا گیا کہ مَیں نماز پڑھ رہا ہوں لیکن رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور سورج کی روشنی بوجہ کسوف کے بہت کم ہے۔ جس سے تفہیم ہوئی کہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے۔ دوسرے روز نماز عشاء کے بعد پھر رو رو کر بہت دعا کی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواب میں فرمایا کہ اصل دعا کا وقت جوف اللّیل کے بعد کا ہوتا ہے۔ (یعنی آدھی رات کے بعد کا ہوتا ہے۔ ) جس طرح بچے کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آ جاتا ہے، اسی طرح پچھلی رات گریہ و زاری خدا کے حضور کرنے سے خدا کا رحم قریب آ جاتا ہے۔ اس کے بعد بندے نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کر لی۔ کہتے ہیں اُس کے بعد حضور کی پاک صحبت کی برکت سے یہ فائدہ ہوا کہ ایک روز نماز تہجد کے بعد خاکسار سجدہ میں دعائیں کر رہا تھا کہ غنودگی کی حالت ہو گی جو ایک کشفی رنگ تھا، ایک پاکیزہ شکل فرشتہ میرے پاس آیا جس کے ہاتھ میں ایک خوبصورت سفید کوزہ پانی کا بھرا ہوا تھا اور ایک ہاتھ میں ایک خوبصورت چُھری تھی۔ مجھے کہنے لگا کہ تمہاری اندرونی صفائی کے لئے میں آیا ہوں۔ اس پر مَیں نے کہا بہت اچھا۔ آپ جس طرح چاہیں صفائی کریں۔ چنانچہ اُس نے پہلے چھری سے میرے سینے کو چاک کیا اور اس کوزہ کے مصفّٰی پانی سے خوب صاف کیا لیکن مجھے کوئی تکلیف محسوس نہ ہوئی اور نہ ہی خوف کی حالت پیدا ہوئی۔ جب وہ چلے گئے تو میں نے خیال کیا کہ اب میں نے صبح کی نماز ادا کرنی ہے اور یہ تمام بدن چرا ہوا ہے۔ نماز کس طرح ادا کر سکوں گا۔ اس لئے ہاتھ پاؤں کو ہلانا شروع کیا تو کوئی تکلیف نہ معلوم ہوئی اور حالتِ بیداری پیدا ہو گئی۔ اس کے بعدنماز فجر ادا کی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 12 صفحہ 322 تا 323۔ از روایات حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ)

حضرت میاں جان محمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ مَیں نے خدا کے فضل سے بچپن میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیں کی۔ باوجود باتیں سننے کے کبھی مخالفت نہیں کی، کیونکہ جس وقت میری عمر قریباً پندرہ سولہ سال کی تھی کہ میں اپنے والد صاحب مرحوم کے ہمراہ ملتان چھاؤنی آیا تھا۔ کیونکہ میرے والد صاحب مرحوم ایک سیٹھ کے پاس منشی مقرر تھے اور میں اُس وقت بیرک مالستری میں چار آنے یومیہ پر مزدوری لیتا تھا۔ (یعنی کوئی مالستری چھاؤنی ہو گی، شاید بیرکس کا ذکر کر رہے ہیں مزدوری پر کام کرتا تھا)۔ اتفاقاً ملتان میں عید رمضان آ گئی۔ چنانچہ روزے رمضان شریف کے بھی رکھے اور عید الفطر پڑھ کر اور سیر وغیرہ کر کے عصر کے بعد مجھے نیند آ گئی اور میں چارپائی پر سو گیا۔ چونکہ گرمی کے دن تھے۔ مَیں عصر کا سویا ہوا صبح تک سویا رہا۔ چنانچہ سحری کے وقت مجھے خواب آیا۔ وہ خواب یہ ہے کہ میں عید کے دن اپنے قصبہ ہیلاں میں گیا ہوں اور ہم سب مل کر بمع والد صاحب عید گاہ میں نماز پڑھنے کے لئے جا رہے ہیں۔ مگر ہمارے گاؤں کی عید گاہ گاؤں سے مغرب کی طرف ہے اور خواب میں جو مجھے عید گاہ کا نظارہ دکھایا گیا وہ مشرق کی طرف تھا۔ کہتے ہیں چنانچہ ہم سب مشرق کی طرف روانہ ہوئے اور نماز پڑھ کر جب واپس گھر آ رہے تھے تو راستے میں ایک ریت کا ٹیلہ تھا جس پر ایک چورس پتھر جو بہت خوبصورت تھا، میں اس پر بیٹھ گیا اور مَیں نے چاہا کہ اس کو ایک طرف ہٹاؤں لیکن وہ چونکہ وزنی تھا، پہلی دفعہ وہ مجھ سے ہٹ نہ سکا۔ پھر اللہ کا نام لے کر اور بسم اللہ پڑھ کر جب میں نے زور لگایا تو وہ پتھر ایک طرف ہو گیا۔ نیچے اس کے ایک دروازہ نکل آیا جو بند تھا۔ میں نے دروازہ کھولا، آگے ایک ڈیوڑھی نظر آئی۔ چنانچہ میں ڈیوڑھی میں داخل ہوا۔ آگے کیا دیکھتا ہوں کہ تین چار پاپوش (جوتیاں ہیں) جو بہت عمدہ اور خوبصورت ہیں۔ میں نے بھی اپنی جوتی وہاں اُتار دی۔ میری جوتی جو نئی تھی اُن کے ساتھ مل گئی۔ پھر میں اندر داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بارہ دری بہت خوبصورت بنی ہوئی ہے اور دو لڑکے نہایت خوبصورت قرآنِ مجید کی تلاوت کر رہے ہیں۔ جب میں اُن کے پاس گیا تو ان بزرگوں نے میرا نام بلا کر کہا کہ ہم تمہاری بہت انتظار کر رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ میں بھی آنے کو تیار تھا لیکن کام کی وجہ سے فرصت نہیں مل سکی۔ اب فرصت ملی ہے، اب حاضر خدمت ہو گیا ہوں۔ پھر میں دوسرے کمرے کی طرف ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ سبز لباس پہنے کرسی پر بیٹھے ہیں اور سامنے میز پر ایک ریل پر حمائل شریف رکھ کر تلاوت کر رہے ہیں۔ اور اُن کا لباس سبز ہے۔ جب میں اُن کے سامنے ہوا تو انہوں نے میرا نام بلا کر کہا کہ ہم تمہارا بہت انتظار کر رہے ہیں۔ اس بزرگ نے مجھے پیار سے اپنی بغل میں لے لیا اور پوچھنے لگے کہ تم نے قرآنِ مجید پڑھا ہوا ہے؟ میں نے عرض کی کہ میں نے سبقاً سات سپارے پڑھے ہوئے ہیں۔ باقی ویسے ہی خود بخود میں پڑھ لیتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے قرآنِ مجید کھولا اور مجھ کو کہنے لگے کہ سناؤ۔ اب جب قرآنِ مجید کھولا گیا تو پہلی آیت جو میری نظر میں آئی، وہ تِلْکَ الرُّسُلُ تھی اور ان بزرگ کی زبان پر بھی تِلْکَ الرُّسُلُ ہی تھا۔ یعنی یہ وہ رسول ہیں۔ اتنے میں وہ بزرگ کہنے لگے کہ اب مَیں جاتا ہوں۔ چنانچہ وہ میری آنکھوں سے غائب ہو گئے اور میں حیران ہو گیا کہ خدا جانے یہ کون بزرگ تھے۔ پھر مجھے غیب سے یہ معلوم ہوا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ بزرگ خضر علیہ السلام ہیں اور لڑکے امام حسن رضی اللہ تعالیٰ اور امام حسین رضی اللہ تعالیٰ ہیں۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ مگر میں پھر دو تین دن اس خواب کے باعث پریشان ہی رہا۔ جس کے آگے بات کی، کسی نے جواب نہ دیا۔ (جسے پوچھتا تھا کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔) اس کے بعد یعنی سات آٹھ سال کے بعد جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی تب وہ میری خواب پوری ہوئی اور وہ بزرگ جو خضر علیہ السلام کی شکل میں خواب میں مجھے نظر آئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی تھے۔ الحمد للہ کہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ واقعی حضور اس زمانے کے نبی ہی تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 6 صفحہ 13 تا 15۔ از روایات حضرت میاں جان محمد صاحبؓ)

حضرت مستری دین محمد صاحب فرماتے ہیں کہ شام کو میرے دل میں یہ بات پیدا ہوئی کہ جن لوگوں نے پہلے بیعت کر لی، اُن کے نام رجسٹر پر درج ہیں۔ میرا نام نہیں۔ رات کو مجھے خواب آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہیں۔ ہاتھ میں قلم ہے۔ دائیں ران پر رجسٹر ہے اور حضور نے دریافت کیا کہ آپ کا کیا نام اور پیشہ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ مستری دین محمد، پیشہ لوہار۔ کہتے ہیں ظہر کے وقت میں نے حضور کو یہ خواب سنائی۔ حضور نے فرمایا کہ آپ کا نام لکھا گیا ہے۔ اُس وقت کہتے ہیں مولوی عبدالکریم صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت خلیفہ اول بھی تشریف رکھتے تھے۔ مولوی محمد علی بھی تھے۔ پھر مولوی محمد علی صاحب نے عرض کیا کہ میرا نام بھی کہیں نہیں لکھا ہوا۔ جس پر حضور نے کچھ جواب نہ دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 6 صفحہ 56۔ از روایات حضرت مستری دین محمد صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 1904ء میں مجھے خواب کے اندر ایک کھیت دکھلایا گیا جس کے گردا گرد بالشت بالشت بھر فاصلے پر موٹے موٹے مضبوط درختوں کی باڑ تھی۔ صرف کھیت کے اندر جانے کے لئے ایک ہی راستہ تھا اور اسی کھیت میں نہایت ہی سبز لہلہاتی ہوئی گندم کی کھیتی تھی۔ کھیت سے باہر ایک بیل تھا جو درختوں کے بیچوں بیچ سے اس سبزے کو دیکھ کر اس کے حصول کے لئے (یعنی کھانے کے لئے بیل) وہاں کھڑا تھا۔ اس سبزے کو کھانے کے لئے درختوں کے درمیان سے، جو درمیانی فاصلہ ہوتا ہے اس سے اپنا منہ ڈال کے اُس فصل کو کھانے کی کوشش کرتا تھا مگر ہر سوراخ سے ناکامیاب رہتا تھا اور اندر جانے کا جو دروازہ تھا اُس میں وہ داخل نہیں ہوتا تھا۔ کہتے ہیں خواب میں یہ نظارہ دیکھ کر تفہیم ہوئی کہ دیکھو جس طرح یہ بیل بغیر دروازہ تلاش کئے اپنی مراد کو حاصل نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خدا کے ملنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام بمنزلہ دروازے کے ہیں۔ جب تک کوئی بشر اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا وہ خدا کو نہیں پا سکے گا۔ کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اس زمانے کا امام اللہ تعالیٰ نے آپ کو مقرر فرمایا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 6 صفحہ 129 تا 130۔ از روایات حضرت امیر خان صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے خواب میں شیخ حامد علی صاحب خادم مہمان خانہ کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خادم تھے دیکھا کہ آپ عرب کی سوکھی ہوئی کھجوریں مہمانوں میں تقسیم کرنے کے لئے ایک مجمع میں رکھ کر کھڑے ہیں جو سفید کپڑوں سے ڈھانپی ہوئی ہیں۔ اور جب آپ تقسیم کرنے لگے تو کھجوریں گلگلے کے برابر موٹی، خوش رنگ، تروتازہ، رس بھری ہیں جن کو آپ تقسیم کئے جاتے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ عرب کی سوکھی ہوئی کھجوریں ہیں جو تروتازہ کر کے آپ لوگوں کو دی جاتی ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے احیائے نو کیا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 6 صفحہ 130۔ از روایات حضرت امیر خان صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحب فرماتے ہیں کہ 19؍ جنوری 1911 کو میں نے خواب میں ایک سکھ لڑکے کو دیکھا جس کو جن چمٹا ہوا تھا، جس کولوگ منتروں کے ذریعہ نکال رہے تھے۔ (جِنّ کو نکالنے کے لئے جس طرح جنتر منتر کرتے ہیں ) اور جلتی ہوئی آگ اس کے نزدیک کر کے اس جنّ کو ڈرا رہے تھے کہ وہ اس ڈر سے نکل جائے۔ مگر وہ نہیں نکلتا تھا۔ اس پر خواب کے اندر مجھے اس کا علاج سمجھایا گیا کہ ایک سفید کاغذ لے کر اس پر جِنّ کی شکل بناؤ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر قلم کے ذریعہ جنّ کی شکل پر لکیریں کھینچ کر جن کی شکل کو کاٹ دو۔ اس لئے بار بار قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر شکل قلم زن کرنے سے جِنّ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ چنانچہ مَیں نے خواب کے اندر اس طریق سے عمل کیا جس سے جنّ ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا اور لڑکا تندرست ہو گیا۔ جس کا نام عطاء اللہ رکھا گیا۔ جب میں خواب سے بیدار ہوا تو حضرت اقدسؑ کا یہ شعر زبان پر جاری تھا۔

کلامِ پاک یزداں کا کوئی ثانی نہیں ہرگز

اگر لُولُوئے عمّاں ہے وگر لعل بدخشاں ہے

(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ۔ جلدنمبر 6 صفحہ 141 تا 142۔ از روایات حضرت امیر خان صاحبؓ)

تو یہ چند روایتیں تھیں جو میں نے سنائیں۔ اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے درجات بلند فرمائے اور ایمان کی پختگی ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے۔

اس وقت نمازوں کے بعد مَیں دو جنازے غائب پڑھاؤں گا۔ پہلا جنازہ مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب صاحب کا ہے۔ یہ ربوہ میں لمبا عرصہ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے زندگی تقریباً وہیں گزاری۔ یا شاید کاروباری معاملات میں باہر جاتے ہوں۔ لیکن فی الحال کچھ سالوں سے وہ سویڈن میں تھے۔ ان کی 23؍ دسمبر کو 82 سال کی عمر میں وفات ہو گئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آف کھارا کے بیٹے تھے اور حضرت امیر بخش صاحب کے پوتے تھے۔ دونوں، ان کے والد بھی اور ان کے دادا بھی صحابی تھے۔ ان کے بھائیوں میں، بیٹوں میں فی الحال لگتا ہے کوئی اختلاف ہے، لیکن بہر حال جہاں تک میری یادداشت ہے، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میرے والد صاحب نے مجھے بتایا تھا اور اب اس پر تصدیق خود ان کے بیٹے بھی کر رہے ہیں کہ ماسٹر چراغ محمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو بھی پڑھایا ہوا ہے۔ میرے والد اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث تقریباً ہم عمر ہی تھے، ڈیڑھ سال کا فرق تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ بھی ان سے پڑھے ہوئے ہیں۔ تو اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کو بھی بعض لوگ کہتے ہیں پڑھایا ہے۔ بہرحال یہ قادیان کے قریب ہی کھارا تھا، اُس علاقے کے تھے، اُن کے یہ بیٹے ہیں، عبدالمجید ڈوگر صاحب۔ ڈوگر صاحب بہت سی خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت سے بڑا وفا کا اور عشق کا تعلق تھا۔ ہمیشہ خلافت کا ذکر ہوتا تو بتانے والے بتاتے ہیں کہ آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ مربیانِ کرام اور واقفینِ زندگی کے ساتھ بھی پیار اور بڑے احترام کے ساتھ پیش آتے تھے۔ بلکہ میرے سے جو اِن کا تعلق تھا میں نے بھی دیکھا ہے کہ ان کی آنکھوں میں سے ہر وقت ایک محبت اور پیار چھلک رہا ہوتا تھا۔ بہت سادہ اور منکسر المزاج، مالی قربانیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے۔ نمازوں کے پابند، تہجد گزار، دعا گو، غریب پرور، نیک بااخلاق و باوفا انسان تھے۔ تبلیغ کا بھی بڑا شوق تھا اور تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے اور یہی ایک تقویٰ پر چلنے والے کی نشانی ہے۔ تبلیغ کے ضمن میں امیر صاحب بیان کرتے ہیں اور ان کے مربی صاحب نے بھی لکھا کہ سویڈن کے بادشاہ اور امریکہ کے صدر اوباما اور پوپ کو بھی انہوں نے خطوط لکھے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ بھی بھجوائی تھی۔ بیماری کی وجہ سے جب ہسپتال داخل تھے تو اُس موقع پر سب ڈاکٹروں کو بھی’اسلامی اصول کی فلاسفی ’پیش کرتے تھے۔ اور جب کسی کو لٹریچر دیتے تو اس سے وعدہ لیتے کہ ضرور پڑھیں گے۔ 2005ء میں جب میں نے وصیت کی تحریک کی ہے اور پھر جب سویڈن گیا ہوں تو اُس وقت تک انہوں نے وصیت نہیں کی ہوئی تھی۔ میرے کہنے پر کہ وصیت کریں اور سب ڈوگر ماشاء اللہ ان کے بھائی بھی اور اولادیں بھی صاحبِ حیثیت ہیں، تو سارے خاندان کو وصیت کرنی چاہئے۔ بہرحال مجھے تو یادنہیں لیکن ان کے بھائیوں بیٹوں نے یاد کرایا کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ ڈوگروں کو مَیں نہیں چھوڑوں گا، ان سب کو وصیت کروانی ہے۔ تو بہر حال اس پر انہوں نے سارے خاندان کو اکٹھا کیا اور وصیت کی اور پھر کہا کرتے تھے کہ مجھ پر اور میری اولاد پربڑا احسان کیا ہے جو ہم سے وصیت کروائی۔ آغا یحيٰ صاحب جو سویڈن کے مبلغ ہیں وہ کہتے ہیں۔ بیشمار خوبیوں کے مالک تھے، ان کے کردار اور گفتار سے معلوم ہوتا تھا کہ یقینا یہ ایک صحابی کی اولاد ہیں۔ تبلیغ کی تو جیسے دھن لگی ہوتی تھی، خلافت سے بڑا تعلق تھا۔ اور مَیں نے بروشرز تقسیم کرنے کی جب تحریک کی ہے تو ہر وقت بروشرز اپنے پاس رکھتے تھے تا کہ تقسیم کرتے رہیں۔ اور وقت ضائع نہیں کرتے تھے، مشن ہاؤس میں لائبریری میں آتے تھے اور بیٹھ کے کتابیں پڑھتے تھے۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ مَیں نے کہا کہ چائے پی لیں تو انہوں نے کہا کہ مَیں تو اب ریٹائرڈ آدمی ہوں، وقت گزار رہا ہوں، آپ کا وقت کیوں ضائع کروں۔ آپ کا وقت قیمتی ہے، مبلغین کا وقت بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بچوں کو بھی ہمیشہ وفا کے ساتھ اپنے عہدِ بیعت کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور مرحوم کے درجات بلند فرمائے، مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

دوسرا جنازہ مکرم ملک شفیق احمد صاحب آرکیٹیکٹ کا ہے جن کی 6؍ جنوری کو ورجینیا نیو جرسی میں وفات ہوئی۔ یہ اللہ کے فضل سے ٹھیک ٹھاک تھے۔ وہاں کسی کی شادی پر گئے ہوئے تھے تو شادی پر اپنے بیٹے کو کہا کہ کافی وقت ہے، پہلے نماز پڑھ لیتے ہیں۔ وضو کر کے باہر آئے ہیں۔ وہیں ان کو دل کا دورہ پڑا ہے۔ ان کا بیٹا ابھی واش روم میں ہی تھا۔ بہر حال ایک احمدی باہر بیٹھے تھے، اُن کو کہا کہ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے، وہ جب اُٹھانے کے لئے بڑھے تو یہ نیچے گر گئے۔ وہاں ایک ڈاکٹر بھی تھے۔ ڈاکٹر نے آ کران کو دیکھا، وہ کارڈیالوجسٹ تھے، اُن کو خیال ہوا کہ ہارٹ اٹیک ہے۔ بہر حال ایمبولینس بھی آ گئی لیکن جب ہسپتال پہنچے تو اُس سے پہلے ہی ان کی وفات ہو چکی تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

ان کا خاندان نوشہرہ ککّے زئیاں، پسرور، سیالکوٹ سے تعلق رکھتا تھا، اور ان کے دادا ملک میر محمد صاحب نے 1924ء میں بیعت کی تھی۔ اللہ کے فضل سے اس کے بعد سے یہ سارا احمدیت میں اچھا مخلص خاندان ہے۔ انہوں نے 1968ء میں انجنیئرنگ کی۔ ، وہاں سے انجنیئرنگ کی ڈگری لینے کے بعد منسٹری آف ڈیفنس میں بھی کام کیا۔ پھر چار پانچ سال لیبیا میں ملازمت کی۔ پھر لاہور میں ایل ڈی اے میں کام کرتے رہے۔ اور وہاں سے ریٹائر ہونے کے بعد پھر یہ امریکہ چلے گئے۔ لیکن اس عرصے میں بھی انہوں نے جماعتی طور پر بھی کافی خدمات کی ہیں۔ جب خلافتِ رابعہ میں ادارہ تعمیرات کا قیام ہوا تو وہاں بھی آپ کو خدمت کی توفیق ملی۔ دارالضیافت کی توسیع، لجنہ ہال کی تعمیر، مسجد مبارک کی توسیع، دارالقضاء کی بلڈنگ اور اسی طرح بیوت الحمد سوسائٹی وغیرہ میں انہوں نے کافی کردار ادا کیا ہے۔ مسجد بیت الفتوح کے (نقشہ میں) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 2001ء میں جو کچھ تبدیلیاں کی تھیں، اُس وقت بھی ان کو یہاں بلایا تھا اور مشورے لئے تھے اور یہ اس مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں بھی یہاں کافی دیر رہے ہیں۔ آج کل برازیل مشن ہاؤس اور گوئٹے مالا مسجد اور ٹرینیڈاڈ مشن و مسجد کے پراجیکٹس پر کام کر رہے تھے اور بڑی وقف کی روح کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ گو یہ وقف تو نہیں تھے لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے مکمل طور پر اپنے آپ کو جماعتی کاموں کے لئے سپرد کیا ہوا تھا۔ مسجدنور ماڈل ٹاؤن کی توسیع کے کام بھی ان کی نگرانی میں ہوئے جس میں 2010ء میں فائرنگ ہوئی تھی۔ یہ غریب پرور اور بہادر اور جماعتی کاموں پر فوری لبّیک کہنے والے تھے۔ ان کے بارے میں ان کی اہلیہ لکھتی ہیں کہ جماعت اور خلفاء کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرتے تھے اور اس کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ ان کے دن کا آغاز تہجد اور قرآن کی تلاوت سے ہوتا تھا اور اس میں بڑی لذت محسوس کرتے تھے۔ اکثر رات کو جماعت کی کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ کر کے سوتے تھے۔ اور ان کی اہلیہ نے تو بہت ساری اور باتیں بھی لکھی ہیں۔ شیخ حارث صاحب جو ہمارے واقفِ زندگی ہیں اور ربوہ میں، احمدیہ انجنیئرا یسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ہیں۔ انہوں نے بھی ان کے بارے میں یہی لکھا کہ بڑی وفا کے ساتھ یہ کام کرتے رہے اور مَیں نے بھی ربوہ میں ان سے کچھ کام کروائے ہیں۔ جب بلاؤ آ جایا کرتے تھے۔ حالانکہ اُس وقت ان کی سرکاری ملازمت تھی۔ اور انہوں نے بڑی محنت سے، توجہ سے ہر کام کیا ہے۔ اسی طرح برازیل کے مبلغ جو ہیں اُن کے ساتھ آجکل یہ کام کر رہے تھے، انہوں نے بھی لکھا ہے کہ حیرت انگیز طور پر محنت اور وفا سے کام کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے بھی درجات بلند فرمائے اور ان کی نسل کو بھی خلافت سے، جماعت سے وابستہ رکھے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 11؍ جنوری 2013ء شہ سرخیاں

    حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی پاک باطنی اور اللہ تعالیٰ سے تعلق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے اظہار پر مشتمل خوابوں او ر واقعات کا ایمان افروز تذکرہ۔

    مکرم عبدالمجید ڈوگر صاحب ابن حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب آف کھارا رضی اللہ عنہ اور مکرم ملک شفیق احمد صاحب آرکیٹیکٹ کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 11؍جنوری 2013ء بمطابق 11؍صلح 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور