کامل نبی ﷺ اور مسیح موعودؑ کے بارہ میں صحابہؓ کے ایمان افروز خواب

خطبہ جمعہ 25؍ جنوری 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

’’خدا نے اپنے رسول نبی ٔ کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اتمامِ حجت میں کسر نہیں رکھی۔ وہ ایک آفتاب کی طرح آیا اور ہر ایک پہلو سے اپنی روشنی ظاہر کی۔ پس جو شخص اس آفتابِ حقیقی سے منہ پھیرتا ہے اُس کی خیر نہیں۔ ہم اُس کو نیک نیت نہیں کہہ سکتے‘‘۔ فرمایا: ’’یاد رہے کہ توحید کی ماں نبی ہی ہوتا ہے جس سے توحید پیدا ہوتی ہے اور خدا کے وجود کا اس سے پتہ لگتا ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اور خدا تعالیٰ سے زیادہ اتمامِ حجت کو کون جانتا ہے۔ اُس نے اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سچائی ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کو نشانوں سے بھر دیا ہے۔ اور اب اس زمانہ میں بھی خدا نے اس ناچیز خادم کو بھیج کر ہزارہا نشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے لئے ظاہر فرمائے ہیں جو بارش کی طرح برس رہے ہیں۔ تو پھر اتمامِ حجت میں کونسی کسر باقی ہے‘‘۔ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22صفحہ180-181)

گو یہ نشان مختلف صورتوں میں آج بھی ظاہر ہو رہے ہیں لیکن آخرین کی وہ جماعت جس نے براہِ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فیض پایا، اللہ تعالیٰ نے اُن کی رہنمائی کی، اُن کو نشانات دکھائے، خوابوں کے ذریعہ سے اُن کو صحیح ہدایت کے رستے کی طرف ڈالا اور اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے لئے پھر ہر طرح کی قربانی بھی دی۔ اُن میں سے ایسے بھی تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے عاشقِ صادق کو ایک جان ہونے کی صورت میں دکھایا۔ جیسا کہ مَیں نے سلسلہ شروع کیا ہوا ہے۔ آج بھی مَیں اُن لوگوں کی چند خوابیں پیش کروں گا جن کی مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور پھر ایسے بھی ہیں جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خوابوں میں دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مسیح کے بارے میں بعض کو بتایا کہ مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کیا مقام تھا اور کس طرح یہ جری اللہ آیا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے کے لئے اس زمانے میں کام کیا؟ اس کی بھی بعض مثالیں ہیں۔ حضرت مرزا محمد افضل صاحبؓ ولد مرزا محمد جلال الدین صاحب فرماتے ہیں۔ ان کا بیعت کا سن 1895ء ہے اور زیارت انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی 1904ء میں کی اور وہیں دستی بیعت کی۔ کہتے ہیں کہ غالباً 1876عیسوی کے ادھر اُدھر میرے والد منشی محمد جلال الدین صاحب اول الاصحاب البدر۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جبکہ وہ نوشہرہ چھاؤنی میں تھے۔ (مسیح کے بارے میں یہ بھی آتا ہے کہ اُس کے تین سو تیرہ (313) اصحاب ہوں گے۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مختلف جگہوں پر ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ میں بھی اور ’’انجامِ آتھم‘‘ میں بھی 313 صحابہ کا ذکر کیا ہے جن کو حدیث کے مطابق بدر کے صحابہ کے نام سے موسوم کیا ہے، اُن میں مرزا محمد افضل صاحب کے والد یہ منشی جلال الدین صاحب بھی تھے۔ تو کہتے ہیں) جبکہ وہ نوشہرہ چھاؤنی میں تھے ایک مبشر خواب کی بناء پر جو متواتر تین روز دیکھا۔ مجھے (یعنی ان کو، مرزا افضل صاحب کو جو کہتے ہیں اُس وقت مَیں خورد سال ہی تھا، چھوٹا سا تھا) ایک دوست کے حوالے کر کے مہدی موعود کی تلاش میں رخصت لے کر نکلے۔ جہلم کے مقام پر اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کسی کتاب کا اشتہار ملا۔ مطالعہ کیا اور منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہوئے۔ قادیان ایک گمنام گاؤں تھا۔ پوچھ پوچھ کر وہ بٹالہ پہنچے مگر یہاں میاں صاحب بٹالہ کے ایماء پر(شاید وہاں کسی صاحب نے اُن کو روکا یا بددل کیا ہو گا، وہ واپس چلے گئے بہرحال) واپس چلے گئے۔ (فوج میں تھے) اور اس کے بعد کابل لڑائی پر چلے گئے۔ وہاں سے واپسی پر ایک نادم دل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت صاحب نے دیکھتے ہی فرمایا کیا آپ وہی منشی جلال الدین صاحب ہیں جن کے کابل سے خط آتے تھے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 224 از روایات حضرت مرزا محمد افضل صاحبؓ) (ان کو اللہ تعالیٰ نے کئی دفعہ رہنمائی فرمائی تھی لیکن پھر بھی کیونکہ مخالفین تو روڑے اٹکانے والے ہوتے ہیں۔ ان کو اُس وقت تو قبولیت کی توفیق نہیں ملی لیکن نیت سے جو نکلے تھے اور بہرحال سعادت تھی، تو اللہ تعالیٰ نے بعد میں موقع دیا)۔

حضرت محمد عبداللہ صاحبؓ جلد ساز ولد محمد اسماعیل صاحب جن کا بیعت کا سن مئی 1902ء ہے اور 1903ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کی۔ کہتے ہیں جو کچھ مجھے ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ مَیں نے بچپن میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شبیہ مبارک رؤیا میں دیکھی تھی کہ مَیں اپنے آپ کو پرندوں کی طرح اُڑتا ہوا دیکھتا ہوں اور مشرق کی طرف اُڑ رہا ہوں اور آگے جا کر دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ ہیں جن کی داڑھی اور سر کے بال مہندی سے رنگے ہوئے ہیں۔ جب 1903ء میں حاضر ہوا وہ شکل جو بچپن میں میں اُڑتے ہوئے دیکھی تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تھی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 241از روایات حضرت محمد عبد اللہ صاحبؓ جلد ساز)

حضرت رحمت اللہ صاحبؓ جن کی بیعت بذریعہ خط 1901ء میں ہوئی، کہتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ قریب آ گیا۔ خاکسار نے دعائے استخارہ کیا تو غنودگی میں چند مرتبہ زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے۔ ’’بکوشید اے جواناں تا بہ دیں قوت شود پیدا‘‘ (کہ اے جوانو! کوشش کرو کہ دین میں قوت پیدا ہو۔ یعنی خدمتِ دین کی طرف توجہ دو۔) کہتے ہیں کہ الحمد للہ! عاجز ہر جلسہ پر حضور کی موجودگی میں خدا کے فضل سے بمع احبابِ بنگہ حاضر ہوتا رہا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2صفحہ36 از روایات حضرت رحمت اللہ صاحبؓ)

حضرت خانزادہ امیر اللہ خان صاحبؓ جن کی بیعت بذریعہ خط 1904ء کی اور زیارت 1905ء یا 1906ء کی تھی، کہتے ہیں خواب کی باتیں حضرت مسیح موعود سے جبکہ میں قادیان میں گیا نہ تھا، (کیا باتیں تھی) دن کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ہم تین احمدی ہیں۔ یہ عاجز، امیر اللہ احمدی اور بابو عالمگیر خان مرحوم، غیرمبائع دلاور خان (میرا خیال ہے غیر مبائع دلاور خان ہوں گے۔) جنوب کی قطار میں کھڑے ہیں۔ ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلیفہ اوّل نور الدین علیہ الرحمۃ رُو بہ شمال کھڑے ہیں۔ مسیح علیہ السلام نے ہاتھ بڑھا کر میرے سینے کی طرف انگلی کر کے خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو فرمایا۔ ’’یہ جنتی ہے‘‘۔ پھر دوسرے احمدی کی طرف انگلی سے اشارہ کر کے ’’یہ بھی‘‘۔ تیسرے کی نسبت کچھ نہ کہا۔ چونکہ مسیح موعود کی طرف مَیں ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا مَیں تمیز نہ کر سکا کہ ہر دو احمدیوں میں سے مسیح موعود کا اشارہ کس کو تھا۔ اس کے بعدنظارہ اچانک بدل گیا۔ دیکھتا ہوں کہ ہم چار احمدی ایک یہ راقم اور مولوی عطاء اللہ مرحوم، عالمگیر خان، غیر مبائع دلاور خان اکٹھے بیٹھے ہیں، جس طرح روٹی کھانے کے لئے بیٹھتے ہیں۔ ہم آپس میں کہتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے میں باز ہوں، کوئی کہتا ہوں میں کاؤس ہوں، ایک کہتا ہے میں کبوتر ہوں، دوسرا کہتا ہے میں چکور ہوں۔ اتنے میں خلیفہ اول تشریف لائے۔ فرمایا تم اس کے لئے نہیں پیدا ہوئے کہ میں باز ہوں، کاؤس ہوں، کبوترہوں، چَکور ہوں، کہولَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ۔ تیسرے کلمہ پڑھنے پر (دو تین دفعہ کلمہ پڑھا) بیدار ہوا خواب سے۔ ظہر کا وقت تھا، ایک بالشت بھر سایہ دیوار کا تھا۔ جب اگلے سال میں قادیان گیا تو وہی حلیہ خواب میں مسیح کا اور خلیفہ اول کا پایا۔ الحمد للہ

دوسرا خواب کہتے ہیں کہ قادیان میں خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کے خلافت کے زمانے میں بائیس دن زیرِ علاج خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ حکیم الامت، ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب اور دو اور احمدی ڈاکٹروں سے میری تشخیص کروائی۔ (یہ ان کا علاج کر رہے تھے) اُنہوں نے آپریشن کا مشورہ دیا۔ میں خوش ہوا۔ رات کو مہمان خانے کے کمرے میں مسیح موعود علیہ السلام میرے سرہانے کھڑے فرما رہے تھے (رات کو خواب دیکھی) کہ آپریشن نہیں طاعون ہے اور تعبیر بھی مجھے سمجھایا گیا کہ طاعون بمعنی موت ہے۔ میں نے صبح خلیفہ اوّل کو خواب کا ذکر کیا۔ حضرت خلیفہ اول نے فرمایا۔ مسیح موعود درست فرماتے ہیں۔ آپریشن نہیں چاہئے۔

تیسری خواب بھی ایک بیان فرما رہے ہیں۔ کہتے ہیں اپنے گھر میں خواب میں دیکھا کہ میں نے دوسرے روز جلسہ سالانہ پر جانے کا ارادہ کیا تھا۔ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ حامد علی کا بھی خیال رکھنا۔ چنانچہ میں نے جلسہ سالانہ قادیان پر جا کر ایک روپیہ حامد علی صاحب خادم مسیح موعود علیہ السلام کو دیا۔ (یہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد کا ذکر ہے) کہتے ہیں میں نے حامد علی صاحب خادم مسیح موعود کو لکھا کہ رؤیا میں مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے حکم دیا ہے کہ حامد علی کا بھی خیال رکھنا۔ پس یہ ایک روپیہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ حامد علی صاحب روئے۔ (اس بات کو سن کر وہ روئے۔) کہنے لگے کہ انبیاء کیسے رحیم و کریم ہوتے ہیں۔ اپنے خادم کا بھی اُنہیں فکر ہے۔ پھر اپنے پیارے بیٹوں کا اُنہیں فکر نہ ہو گا جو لاہور میں ایک بے شرم اور اس کے ہم خیال مسیح علیہ السلام کے اہلِ بیت پر ناجائز حملے کرتے ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2صفحہ77تا 79۔ از روایات حضرت خان زادہ امیراللہ خان صاحبؓ)

اُس وقت غیر مبائعین جو لاہور ہی چلے گئے تھے، اُن کا پھر خواب میں اُن کو(خیال) آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کیا اپنے بیٹے کی فکر نہیں ہو گی؟ (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی طرف اشارہ ہے۔ اس بات پر ان کو مزید یقین پیدا ہوا کیونکہ اُس زمانے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خلافت پر کافی فتنہ تھا)۔

حضرت میاں میراں بخش صاحبؓ ٹیلر ماسٹر بیان کرتے ہیں۔ (1900ء کی ان کی بیعت ہے) کہ بیعت کی تحریک اس طرح پیدا ہوئی تھی کہ ہمارے بھائی غلام رسول صاحب ہم سے پہلے احمدی ہو چکے تھے مگر اَن پڑھ تھے۔ مَیں جب دوکان سے اپنے گھر کی طرف جاتا تھا تو راستے میں اُن سے ملا کرتا تھا۔ اُن کے ساتھ سلسلے کی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ میں چونکہ مخالف تھا اس لئے اُن کو جھوٹا کہا کرتا تھا۔ لیکن جب گھر آ کر سوچتا تو نفس کہتا کہ گو یہ اَن پڑھ ہے مگر ان کی باتیں لاجواب ہیں۔ ایک دفعہ میرے بھائی نے مجھے کچھ ٹریکٹ دئیے جومَیں نے پڑھے، اُن کا مجھ پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اس پرمَیں نے خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا شروع کر دی۔ ایک رات خواب میں دیکھا کہ مَیں اپنی چارپائی سے اُٹھ کر پیشاب کرنے گیا ہوں مگر دیکھتا ہوں کہ کھڑکی کھلی ہے۔ مَیں حیران ہوا کہ آج یہ کھڑکی کیوں کھلی ہے۔ مَیں جب کھڑکی کی طرف گیا تو دیکھا کہ ایک بزرگ ہاتھ میں کتاب لئے پڑھ رہے ہیں۔ مَیں نے سوال کیا کہ یہ کونسی کتاب ہے جو آپ پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ کتاب مرزا صاحب کی ہے اور ہم تمہارے لئے ہی لائے ہیں۔ جب انہوں نے کتاب دی تو مَیں نے کہا کہ یہ تو چھوٹی تختی کی کتاب ہے۔ مَیں نے اُن کے ٹریکٹ دیکھے ہیں وہ تو بڑی تختی کے ہوتے ہیں۔ وہ بزرگ بولے کہ مرزا صاحب نے یہ کتاب چھوٹی تختی کی چھپوائی تھی۔ اس پر میری آنکھ کھل گئی۔ مَیں نے خیال کیا کہ شاید رات کو مَیں دعا کر کے ان خیالات میں سویا تھا، یہ اُن کا ہی اثر ہو گا۔ مگر جب مَیں ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر کی طرف آیا تو غلام رسول کی دوکان پر ایک شخص بیٹھا ہوا ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ مَیں نے کہا یہ کونسی کتاب ہے جو پڑھ رہے ہو؟ میاں غلام رسول صاحب نے اُس کے ہاتھ سے کتاب لے کر میرے ہاتھ میں دے دی اور کہا کہ تم جو کتاب مانگتے تھے یہ کتاب آپ کے لئے ہی مَیں لایا ہوں، یہ آپ لے لیں۔ مَیں نے کتاب کو دیکھ کر کہا کہ یہ کتاب رات خواب میں مجھے مل چکی ہے۔ اس پر مَیں نے ازالہ اوہام کے دونوں حصوں کو غور سے پڑھا اور اپنے دل سے سوال کیا کہ اب بھی تمہیں کوئی شک و شبہ باقی ہے۔ میرے دل نے جواب دیا کہ اب کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا۔ اس لئے مَیں نے بیعت کا خط لکھ دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ117-118از روایات میاں میراں بخش صاحبؓ ٹیلر ماسٹر) (یعنی چند گھنٹوں کے اندر اندر خواب پوری بھی ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق بھی دی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آ جائیں۔)

حضرت محمد فاضل صاحبؓ ولدنور محمد صاحب، 1899ء کی ان کی بیعت ہے، کہتے ہیں کہ ایک دن گھر میں تھا، مولوی شیخ محمد (ان کا کوئی مولوی تھا) غیر مقلد جو میرا سالا تھا، ملنے کے لئے آیا اور اُنہوں نے مجھے ایک رسالہ دیا جس کا نام شہادۃ القرآن علی نزول المسیح الموعود فی اٰخر الزمان تھا۔ رات کا وقت تھا، مجھے شوق ہواکہ کب دن ہو اور میں اُسے پڑھوں۔ جب صبح ہوئی تو مَیں نے نماز سے فارغ ہو کر ایک علیحدہ کوٹھڑی میں چارپائی پر لیٹ کر رسالے کو پڑھنا شروع کیا تو کوئی تین صفحے پڑھے ہوں گے کہ مجھے غنودگی ہوگئی۔ میں کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سرہانے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آکر بیٹھ گئے ہیں اسی چارپائی پر اور اپنے دہنِ مبارک سے اپنے لعاب نکال کر میرے منہ میں ڈالتے ہیں اور اپنے ہاتھ سے ڈالتے ہیں تو میں اُس کو گھونٹ کی طرح نگل گیا۔ اُس وقت مجھے اس طرح معلوم ہواکہ میرے دل سے فوارے نکل رہے ہیں اور سرور سے سینہ بھر گیا۔ پھر میں بیدار ہو گیا۔ اس سے میرے دل میں یقین زیادہ ہو گیا اور محبت کی آگ بہت تیز ہو گئی۔ اور میرے قلب میں اضطراب اور عشاقِ جہاں جاتا رہا، اضطراب جاتا رہا اور جب بھی میں اکیلا چلتا اکثر میری زبان پر یہ شعر جاری ہوتا۔

پھرتا ہوں تجھ بن صنم ہو کے دیوانہ ہوبہو

شہر بہ شہر دیہہ بہ دیہہ خانہ بہ خانہ کُو بہ کُو

(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 7 صفحہ 231-230 از روایات حضرت محمد فاضل صاحبؓ)

یہ کتاب ’’شہادۃ القرآن‘‘ جس کا یہ ذکر کر رہے ہیں۔ ، اُس میں کسی اعتراض کرنے والے نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ اعتراض کیا تھا کہ حدیثوں سے کس طرح ثابت ہوتا ہے کہ آپ سچے ہیں۔ حدیثیں تو بعض اس قابل بھی نہیں ہیں کہ اُن پر یقین کیا جائے۔ تو اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب لکھی تھی اور تمام شبہات دور فرمائے۔ اُس شخص کی تو تسلی نہیں ہوئی لیکن بہرحال اُس کی اس کتاب سے بہتوں کا فائدہ ہو گیا۔

حضرت شیخ عطاء محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں بیان کرتے ہیں کہ خواب آیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بٹالہ کی سڑک پر ٹہلتے ہیں جو تحصیل کے محاذ میں ہے۔ (یعنی سامنے ہے۔) حضور نے مجھ کو ایک روپیہ دیا اور ملکہ کی تصویرپر کراس لگا دیا، کانٹا پھیر دیا، خط کھینچ دیا اور فرمایا کہ اس کو خزانے میں دے آؤ۔ جب یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوسنائی گئی تو حضور نے فرمایا کہ ملکہ مسلمان نہیں ہو گی۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ رجسٹر 10صفحہ355 از روایات حضرت شیخ عطا محمد صاحبؓ سابق پٹواری ونجواں)

میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل صاحب روایت کرتے ہیں، (اُن کی بیعت 1892ء کی ہے) کہ چوہدری عبدالرحیم صاحب ابھی غیر احمدی ہی تھے کہ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی مرمت کے لئے میرے پاس آئی ہے۔ کہتے ہیں چنانچہ اتفاق سے مَیں نے (یعنی میاں مغل صاحب نے) یہ گھڑی اُن کو مرمت کے لئے دی۔ (یہ وہ گھڑی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی گھڑی تھی اور حضرت اماں جان نے ان کو دی تھی۔ جس شخص نے خواب دیکھی وہ غیر احمدی تھے۔ اُس وقت احمدی نہیں ہوئے تھے، انہوں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی اُن کے پاس مرمت کے لئے آئی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد مغل صاحب نے ایک گھڑی مرمت کے لئے، ان صاحب کو دی جنہوں نے خواب دیکھی تھی۔ جب انہوں نے وہ گھڑی کھولی تو مرمت کرنے و الے کہنے لگے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھڑی ہے۔ بالکل وہی نقشہ ہے جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ جلد 9صفحہ19از روایات حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل)

حضرت امیر خان صاحبؓ جن کی 1903ء کی بیعت ہے، فرماتے ہیں کہ 1902ء میں مَیں نے خواب کے اندر مسجد مبارک کو ایک گول قلعہ کی شکل میں دیکھا جس کے اندر بہت سی مخلوق تھی اور ہر ایک کے ہاتھ میں ایک ایک سرخ جھنڈی تھی۔ اور اُن میں سے ایک شخص جو سب سے بزرگ تھا، وہ اوپر کی منزل میں تھا۔ اُس کے ہاتھ میں ایک بہت بڑا سرخ جھنڈا تھا۔ کسی نے مجھے کہا کہ آپ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ میں نے کہا میں تو نہیں جانتا۔ تب اُس نے کہا یہ تیرا کابل کا بھائی ہے۔ اس قلعہ کے برجوں میں ایسے سوراخ تھے کہ جن سے بیرونی دشمن پر بخوبی نشانہ لگ سکتا تھا مگر باہر والوں کا بوجہ اوٹ کے کوئی نشانہ نہیں لگ سکتا تھا اور قلعہ کے باہر گرد و غبار کا اس قدر دھواں تھا کہ مشکل سے آدمی پہچانا جاتا تھا۔ اور گدھوں، خچروں اور اونٹوں کی آوازوں کا اس قدر شور تھا کہ مارے دہشت کے دل بیٹھا جاتا تھا۔ جب میں قلعہ سے باہر نکلا (یہ خواب بیان فرما رہے ہیں) تو کیا دیکھتا ہوں کہ ہرطرف مُردے ہی مُردے پڑے ہیں جن کو اُٹھا اُٹھا کر قلعہ میں لایا جا رہا ہے۔ جب میں قلعہ سے ذرا دور فاصلے پر چلا گیا اور شور و غل نے مجھے پریشان سا کر دیا تو مَیں گھبرا کر قلعہ کی طرف فوراً لوٹا اور قلعہ میں داخل ہونے کے لئے دروازے کی تلاش کرنے لگا مگر کوئی دروازہ نہ ملا۔ مَیں اسی تلاش میں تھا کہ اتنے میں مَیں نے ایک شخص مسکین صورت، نیک سیرت کو دیکھا۔ وہ بھی قلعہ کے اندر داخل ہونے کے لئے سعی کر رہا ہے مگر دروازہ اُسے بھی نہیں ملتا۔ ابھی ہم اسی جستجو میں تھے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ قلعہ کے اوپر جو چبوترہ ہے اُس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فداہٗ ابی وامّی، جماعت نماز کرا رہے ہیں (باجماعت نماز وہاں ہو رہی ہے) یہ دیکھ کر ہم دونوں بے تاب اور بیقرار ہو گئے۔ اسی اضطراری حالت میں کہتے ہیں کہ مَیں نے دوسرے ساتھی کے گلے میں اپنے دونوں ہاتھ ڈال کر ’’اَللہ ھُو‘‘ کا ذکر جس طریق سے کہ مجھے میرے پیر سید غلام شاہ صاحب نے بتلایا ہوا تھا، کرنا شروع کر دیا۔ جس کی برکت سے ہم دونوں پرواز میں آئے اور اُڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب پہلی صف میں جہاں کہ صرف دو آدمی کی جگہ خالی تھی کھڑے ہو کر سجدہ میں شامل ہو گئے اور سجدہ کے اندر میں اپنی اس خوش نصیبی کو محسوس کرتے ہوئے کہ ہمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں جانب اور پہلی صف میں جگہ میسر آئی، اس قدر رقّت پیدا ہوئی اور اس زور سے اَللہ ھُو کا ذکر جاری ہوا کہ جب مَیں اسی حالت میں بیدار ہوا تو سانس بہت ہی زور سے آ رہا تھا۔ اور آنکھوں سے آنسوؤں کا تار جاری تھا اور سانس اس قدر بلند تھا کہ اس سانس کو سن کر گھر والے بھی بیدار ہو گئے اور مجھے پوچھنے لگے۔ کیا ہوا؟ کیا ہوا؟ مگر چونکہ ابھی اَللہ ھُو کا ذکر برابر جاری تھا اور سانس زور زور سے نکل رہا تھا، اس کی وجہ سے میں اُنہیں کوئی جواب نہیں دے سکا۔ اس لئے میں جوش کو فرو کرنے کے لئے اور پردہ پوشی کے لئے اندر سے صحن میں چلا گیا اور جب حالت درست ہوئی تو مَیں پھر اندر آیا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 125-126 از روایات حضرت امیر خان صاحبؓ)

پھر آگے انہوں نے بیان فرمایا ہے کہ اس کا اثر ہوا اور کچھ عرصے کے بعد اُن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق بھی عطا فرمائی۔

حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ پیدائشی احمدی تھے، 1903ء میں ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ کہتے ہیں مَیں نے سب سے پہلے حضرت اقدس کو اُس وقت دیکھا جب حضور جہلم تشریف لے جا رہے تھے۔ واپسی پر بھی دیکھا تھا۔ پھر لاہور 1904ء میں، پھر 1905ء میں مَیں قادیان گیا۔ قادیان جانے سے پہلے مجھے ایک خواب آئی تھی جس کا مفہوم یہ تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ والد صاحب گھر سے باہر گئے ہوئے ہیں اور گھر میں صرف مَیں اور میری چھوٹی ہمشیرہ ہیں۔ دیکھا کہ دو آدمی دروازے پر آئے، دستک دی اور آواز دی۔ مَیں نے باہر نکل کر دروازہ کھولا۔ وہ دونوں میری درخواست پر اندر تشریف لے آئے۔ مَیں نے دیکھا کہ ہمارے گھر کے صحن میں ایک دری اور تین کرسیاں بچھی ہوئی ہیں۔ سامنے ایک میز بھی پڑی ہے۔ میں نے اُن (یعنی دو مہمان جو آئے تھے) کو کرسیوں پر بٹھا دیا۔ خواب میں چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ اُن کے لئے چائے تیار کرو۔ وہ کوٹھے پر ایندھن لینے کے لئے گئی (اُس زمانے میں جو طریقہ تھا، گیس وغیرہ تو ہوتی نہیں تھی۔ لکڑیاں یا جو بھی جلانے کی چیزیں اوپر پڑی ہوتی تھیں، وہ لینے گئی) تو سیڑھیوں میں ہی تھی کہ ایک سیاہ رنگ کا اچھے قد و قامت کا سانڈ اندر آیا اور اُن آدمیوں کو دیکھ کر فوراً واپس ہو گیا اور سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ میں نے شور ڈال دیا کہ میری ہمشیرہ کو مار دے گا۔ شور سن کر پہلے سیاہ داڑھی والے مہمان اٹھنے لگے ہیں مگر سرخ داڑھی والے نے کہا کہ چونکہ یہ کام آپ نے میرے سپرد کیا ہوا ہے اس لئے یہ میرا کام ہے۔ چنانچہ وہ گئے۔ مَیں بھی پیچھے ہو لیا۔ ہمشیرہ دیوار کے ساتھ لگ گئی۔ اُسے کچھ خراش لگی ہے مگر زخم نہیں لگا۔ ہم اوپر چلے گئے۔ سانڈ ہماری مغربی دیوار پر انجن کی شکل میں تبدیل ہو گیا (اُس کی شکل بدل گئی) اور دیوار پر آگے پیچھے چلنے لگا۔ جب دیوار کے آخری کونے پر پہنچا تو اس مہمان نے سوٹا مارا اور پیچھے کی طرف گر کر چور چور ہو گیا۔ ہم واپس آگئے اور وہ مہمان پھر کرسی پر بیٹھ گئے اور چائے پی۔ مجھے بھی انہوں نے پلائی۔ چائے پینے کے بعد کچھ دیر وہ بیٹھے رہے، باتیں کرتے رہے۔ پھر کہنے لگے کہ برخوردار ہمیں دیر ہو گئی ہے، اجازت دو تا کہ ہم جائیں۔ میں نے عرض کیا کہ آپ مجھے بتائیں تو سہی کہ آپ کون ہیں؟ تا میں اپنے والد صاحب کو بتا سکوں۔ میری اس عرض پر وہ دونوں خفیف سے مسکرائے۔ کالی داڑھی والے نے کہا کہ میرا نام محمد ہے اور ان کا نام احمد ہے۔ میں نے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا کہ پھر مجھے کچھ بتائیں۔ انہوں نے عربی زبان میں ایک کلمہ کہا جو مجھے یادنہ رہا مگر اُس کا مفہوم جو اُس وقت میرے ذہن میں تھا وہ یہ تھا کہ تیری زندگی کے تھوڑے دن بہت آرام سے گزریں گے۔ پھر مَیں نے مصافحہ کیا، انہوں نے کہا کہ اپنے باپ کو ہمارا السلام علیکم کہہ دینا۔ وہ باہر نکل گئے۔ میں نے اُن کو رخصت کیا۔ اُن کے جانے کے بعد خواب میں ہی کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب آ گئے۔ (خواب ابھی چل رہی ہے) میں نے سارا قصہ سنایا۔ وہ فوراً باہر گئے۔ اتنے میں کہتے ہیں میری آنکھ کھل گئی جس کا باعث یہ ہوا کہ میرے باپ نے آواز دی کہ اُٹھو اور نماز پڑھو۔ میں نے اپنے والد صاحب کو یہ خواب سنائی۔ اُس دن جمعہ تھا۔ جمعہ کے وقت میں نے منشی احمد دین صاحب اپیل نویس کو وہ خواب سنائی۔ انہوں نے حضرت اقدس کی خدمت میں خود لکھ کر یا مجھ سے لکھوا کر بھیج دی۔ چند روز کے بعد کہا کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ جلسہ پر اس لڑکے کو ساتھ لے کر آؤ۔ چنانچہ جلسہ پر میں گیا۔ جب ہم مسجد مبارک میں گئے تو دو تین بزرگ بیٹھے تھے۔ ہم نے اُن سے مصافحہ کیا۔ اتنے میں حضرت اقدس تشریف لائے۔ ہم کھڑے ہو گئے۔ مصافحہ کیا۔ پھر حضور بیٹھ گئے۔ منشی احمد دین صاحب نے عرض کیا کہ حضور یہ وہ لڑکا ہے جس کو خواب آئی تھی۔ حضور نے مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ وہ خواب سناؤ۔ چنانچہ میں نے وہ خواب سنائی۔ پھر اندر سے کھانا آیا۔ حضور نے کھایا اور دوستوں نے بھی کھایا۔ جب حضرت اقدسؑ کھانا کھاچکے تو تبرک ہمارے درمیان تقسیم فرما دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 10صفحہ111تا113از روایات حضرت میاں محمد ابراہیم صاحبؓ)

حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ انہوں نے 1906ء میں بیعت اور 1908ء میں زیارت کی تھی۔ کہتے ہیں غالباً بارہ تیرہ سال کی عمر تھی کہ خواب میں اپنے آپ کو موضع یاڑی پورہ میں پایا۔ اُس وقت تک میں یاڑی پورہ سے نا آشنا تھا۔ (پتہ نہیں تھا کہ یاڑی پورہ کیا جگہ ہے)۔ کہتے ہیں دیکھا کہ ہزاروں لوگ جمع ہو گئے ہیں اور اس جگہ احمدیوں کی مسجد ہے۔ اُس جگہ ایک ٹیلہ جو قریباً چھ سات گز اونچا تھا نظر آیا۔ اور اُس پر ایک صاحب بیٹھے ہیں اور لوگ اُس ٹیلے کے نیچے سے اُن کی زیارت اور آداب کر کے گزرتے ہیں۔ میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ تو مجھے کہا گیا کہ یہ حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو مَیں نے کمال مسرت سے بے تحاشا ٹیلے پر چڑھ کر اور اُن کے سامنے کھڑا ہو کر السلام علیکم عرض کیا اور حضور نے وعلیکم السلام فرمایا اور میں نزدیک ہو کر اُن کے سامنے بیٹھ گیا تو یک لخت میرے دل میں وہی ہمیشہ کی آرزو یاد آ گئی تو میں نے دل میں کہا کہ اب ان سے بڑھ کر مجھے اور کس پیر یا رہبر کی ضرورت ہے۔ میں انہی سے بیعت کروں گا۔ مَیں نے عرض کی کہ یا حضرت مَیں بیعت کرنا چاہتا ہوں تو حضور نے فرمایا اچھا ہاتھ نکالو۔ تو مَیں نے ہاتھ نکالا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے دستِ مبارک میں پکڑا اور فرمایا کہ کہو، اَللہُ رَبِّیْ۔ تو مَیں نے اَللہُ رَبِّیْ کہا۔ اتنے میں مَیں بیدار ہو گیا۔ بیدار ہونے پر مجھے نہایت افسوس ہوا کہ مَیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر رہا تھامگر افسوس کہ جلدی بیدار ہو گیا۔ وہ مقدس صورت ہمیشہ میرے سامنے آ جاتی تھی اور رُخِ منوّر کا عکس میرے لوحِ دل سے کبھی محو نہ ہوتا تھا۔ گویا میرے دل پر وہ نقشہ جم گیا تھا۔ آگے لکھتے ہیں کہ اس رؤیا کی تعبیرآگے کھل جائے گی۔ پھر بڑا لمبا عرصہ گزر گیا۔ (اس عرصے کے مختلف حالات انہوں نے بیان کئے ہیں ) کہتے ہیں آخر ان کو قادیان جانے کا موقع ملا۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا دیدار ہوا تو کہتے ہیں کہ جب میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی تو مجھے وہی خواب والا نقشہ یاد آیا۔ یعنی ہوبہو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہی صورت دیکھی جو مَیں نے خواب مذکور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دیکھی تھی۔ ایک سرِمُوتفاوت نہ تھی۔ (ماخوذازرجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد3صفحہ 41-42و45-46۔ از روایات حضرت سید سیف اللہ شاہ صاحبؓ)

حضرت چوہدری غلام احمد خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ مئی 1908ء میں انہوں نے زیارت کی تھی لیکن بیعت نہیں کی تھی۔ 1909ء میں انہوں نے خلیفہ اوّل کی بیعت کی۔ کہتے ہیں کہ 1905ء کے موسمِ سرما کا ذکر ہے جبکہ مَیں آٹھویں جماعت میونسپل بورڈ سکول راہواں ضلع جالندھر میں تعلیم پاتا تھا کہ ایک شب میں نے رؤیا دیکھا کہ میں اور ایک اور لڑکا مسمّی عبداللہ قوم جٹ جو کہ میرا ہم جماعت تھا، کھیل کود یعنی ورزش کے میدان سے اپنی جائے رہائش (بورڈنگ ہاؤس اہلِ اسلام جو کہ شہر میں بڑے بازار کے نزدیک ہوا کرتا تھا) کو آ رہے تھے۔ چونکہ وہ میدان شہر کی جانبِ شمال واقع ہے اس لئے ہم شہر میں شمالی سمت سے داخل ہونے والے تھے کہ وہاں ایک گلی میں آنحضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دکھائی دئیے۔ حضور کا رُخ شہر کی طرف تھا۔ اس واسطے میں شہر کی طرف پیٹھ کرتا ہوا اور اپنا رُخ جانبِ شمال کرتا ہوا حضور کی طرف بڑھا اور السلام علیکم کہا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا۔ حضور کے سر پر سفید پگڑی نہایت سادگی سے بندھی ہوئی تھی۔ کالا لمبا چوغہ اور سفید پاجامہ زیب تن تھا۔ گندمی رنگ تھا، بال سیدھے تھے، آنکھیں ٹوپی دار تھیں۔ پیشانی فراخ اور اونچی تھی، بڑھی ہوئی اونچی ناک تھی۔ ریشِ مبارک کے بال سیدھے اور لمبے اور سیاہ تھے۔ چہرے پر کوئی شکن نہیں تھا بلکہ خوبصورت نورانی اور چمکدار تھا۔ قد درمیانہ تھا۔ خواب میں حضور سرورِ کائنات سے ملاقات کر کے دل میں لذت اور سرور حاصل ہوتا تھا اور دل نہایت خوش و خرم تھا۔ یہاں تک کہ بیداری پر بھی وہی لذت اور سرور موجود تھا۔ خواب کا دل پر ایسا گہرا نقش ہوا کہ میں آج یہ سطور لکھتا ہوا بھی اس پاک نظارے سے محظوظ اور مسرور ہو رہا ہوں اور اس کا دل سے مٹنا ممکن نہیں۔ تبلیغِ احمدیت تو مجھے ہو چکی تھی (تبلیغ ان کو ہو چکی تھی لیکن احمدی نہیں تھے) کہتے ہیں تبلیغِ احمدیت تو مجھے ہوچکی تھی اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لا چکا تھا اور بعض ابتلاؤں میں بھی اس ایمان پر قائم رہ چکا تھا (یہ بیعت کر چکے تھے) مگر بعد ازاں بعض وجوہات سے پھر مخالف ہو گیا۔ (پہلے انہوں نے بیعت کی لیکن پھر بعد میں بیعت سے ارتداد اختیار کر لیا۔ کہتے ہیں مَیں مخالف ہو گیا) حتی کہ اس خواب سے اڑھائی سال بعد جب مَیں نے حضرت مسیح موعود کو بتاریخ 18؍ مئی 1908ء لاہور میں پہلی دفعہ دیکھا تو مجھے فوراً مذکورہ بالا خواب یاد آ گیا، کیونکہ خواب میں جس شخص کو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا تھا بعینہٖ وہی شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نظر آ رہا تھا۔ دونوں کا حلیہ اور لباس ہو بہو ملتا تھا۔ سرِ مُوکے برابر فرق نہ تھا۔ وہی تمام جسم، وہی گندمی رنگ، وہی سیدھے بال، وہی پگڑی اور اُس کی وہی بندش اور وہی کالا لمبا چوغہ اور وہی سفید پاجامہ، غرضیکہ ہو بہو وہی شخص تھا جس کو مَیں نے خواب میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھا تھا۔ البتہ میرے ہم جماعت عبداللہ کے بجائے میرے ہمراہ چوہدری عبدالحئی خان صاحب احمدی کاٹھگڑی جو کہ اب پنشنر پوسٹ ماسٹر ہیں، تھے۔ اور دراصل عبدالحئی، عبداللہ ہی تھا جس نے مجھے اُس وقت اشارہ کیا کہ مصافحہ کر لو۔ چنانچہ میں نے اُن کے ارشاد پر حضرت مسیح موعود کو السلام علیکم عرض کیا اور جواب میں وعلیکم السلام سنا کیونکہ میرے اور حضرت مسیح موعود کے درمیان چند آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ اس واسطے جب مَیں نے کھڑے ہو کر حضور سے مصافحہ کے واسطے ہاتھ آگے بڑھایا اور حضور تک میرے ہاتھ پہنچ نہ سکے تو کہتے ہیں پھر آپ نے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے زانوؤں کے بل کھڑے ہو کر اس عاجز کو مصافحہ بخشا۔ السلام علیکم اور وعلیکم السلام کا تبادلہ مصافحہ کے وقت ہی ہوا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 2صفحہ113تا 115۔ از روایات حضرت چوہدری غلام احمد خاں صاحبؓ)

میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل صاحب فرماتے ہیں۔ مرزا ایوب بیگ صاحب صبح کو میرے پاس آئے۔ آواز دی، عبدالعزیز! عبدالعزیز! میں نیچے آیا۔ کہنے لگے میری خواب سنیں۔ اس لئے سنانے آیا ہوں کہ مَیں صبح کی نماز پڑھ رہا تھا کہ میری حالت بدل گئی۔ میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بڑی تیزی سے تشریف لا رہے ہیں اور میرے پاس آ کر کھڑے ہو گئے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! آپ کہاں تشریف لے چلے ہیں۔ فرمایا مرزا غلام احمد کی حفاظت کے لئے قادیان چلا ہوں۔ اس کے بعد ایوب بیگ نے کہا کہ خدا معلوم آج قادیان میں کیا ہے؟ شام کو خبر پہنچی کہ حضرت صاحب کے گھر کی تلاشی ہوئی ہے، لیکھرام کے قتل کے سلسلے میں (جو تلاشی تھی اُس کے لئے پولیس وغیرہ آئی تھی۔ وہ تلاشی تھی)۔ ان لوگوں کو نہیں پتہ تھا۔ خواب میں اللہ تعالیٰ نے پہلے بتا دیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد 9صفحہ20-21 از روایات حضرت میاں عبدالعزیز صاحبؓ المعروف مغل)

یہی روایت حضرت سید محمد شاہ صاحبؓ بھی بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کی تلاشی لیکھرام کے قتل کے سلسلہ میں ہوئی۔ ہم ایک دن یہاں لاہور میں لنگے منڈی والی مسجد میں مرزا ایوب بیگ کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے۔ مرزاصاحب مرحوم کی عمر اُس وقت سترہ اٹھارہ سال کی تھی، (بڑے نیک نوجوان تھے۔ مرزا ایوب بیگ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بڑی تعریف فرمائی ہوئی ہے) سلام پھرنے کے بعد انہوں نے بیان کیا کہ میں نے سجدے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔ آپ فوجی لباس میں ہیں۔ ہاتھ میں تلوار ہے اور بھاگے بھاگے جا رہے ہیں۔ میں نے عرض کی کہ حضور کیا بات ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مرزا غلام احمد کی آج تلاشی ہونی ہے۔ مَیں قادیان اُن کی حفاظت کے لئے جا رہا ہوں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیر مطبوعہ جلد9صفحہ242از روایات حضرت سید محمد شاہ صاحبؓ)

حضرت امیر خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ 31؍جنوری 1915ء کو مَیں نے خواب میں بادشاہوں کو احمدیوں سے مخاطب ہو کر کہتے سنا کہ اب ہم بادشاہی نہیں کر سکتے اور بادشاہی احمدیوں کو دیتے ہیں۔ مگر احمدیوں کو چاہئے کہ بذریعہ تبلیغ کے پہلے عوام الناس کو اپنا ہم خیال بنالیں۔ پھر یہ کام بآسانی ہو سکے گا۔ اور پھر مَیں نے اسی بنا پر (کہتے ہیں مَیں نے) خواب میں ہی ایک ہندؤوں کے گاؤں جا کر تبلیغ کی اور اوتاروں کے حالات اور نزول عذاب کے اسباب بیان کئے اور تمثیلاً کہا کہ دیکھو کرشن علیہ السلام کے وقت میں کیسی خطرناک جنگ ہوئی تھی اور عذاب آیا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد 6 صفحہ 150از روایات حضرت امیر خان صاحبؓ)

پس یہ جو بات ہے یہ آج بھی قائم ہے کہ حکومتیں ملنی ہیں۔ تبلیغ کے ذریعہ سے اور دعاؤں کے ذریعہ سے فتوحات ہونی ہیں۔ حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 1896ء کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ مقدس کے بعد (جو عیسائی سے جنگ تھی اور debate ہوئی تھی) جو بمقام امرتسر مسیح صاحبان اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے درمیان تحریری مباحثات کے رنگ میں واقعہ ہوا تھا۔ میرے والد مکرم کے پاس ایک جھمگٹا رہنے لگا اور روزمرہ اس کے متعلق گفتگو ہوتی رہتی۔ اس مباحثے کے اختتام پر حضور نے عبداللہ آتھم کے متعلق ایک پیشگوئی فرمائی تھی۔ جب اس پیشگوئی کی مقررہ میعاد میں صرف دو تین روز باقی رہ گئے تو مخالفین نے کہنا شروع کیا کہ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ بھلا کس طرح ہو سکتا ہے کہ ڈپٹی آتھم ایسا صاحبِ اختیار آدمی جو اپنی حفاظت کے لئے ہر قسم کے ضروری سامان نہایت آسانی سے مہیا کر سکتا ہے اور پولیس کا ایک دستہ اپنے پہرے کے لئے مقرر کرا سکتا ہے، کسی کی سازش کا نشانہ بن سکے۔ میرے والد صاحب کو یہ باتیں سخت ناگوار گزرتی تھیں اور اُن لوگوں کے طنزیہ فقروں کے جواب میں وہ کہہ اُٹھتے کہ میعادِ پیشگوئی کے پورا ہو جانے سے پہلے کوئی رائے زنی کرنا سخت بے باکی ہے۔ ہمارا یقین ہے کہ اُس دن آفتاب غروب نہ ہوگا جبتک کہ اسلامی فتح کے نشان میں یہ پیشگوئی اپنے اصلی روپ میں پوری نہ ہو لے گی۔ ایک دن باقی رہ گیا پھر خبر آئی کہ ابھی آتھم زندہ ہے۔ کہتے ہیں میرے والد صاحب کی بے چینی اس خبر کو سن کر بہت ترقی کر گئی۔ (بہت بڑھ گئی) وہ برداشت نہ کرسکتے تھے کہ جو پیشگوئی اسلامی فتح کے نشان کے طور پر کی گئی ہے وہ پوری ہونے سے قاصر رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعداء خوش تھے لیکن میرے والد صاحب کے دل پر غم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ اور وہ دعاؤں میں لگ گئے۔ اُسی رات خدائے کریم و حکیم نے خواب میں اُن کو ایک نظارہ دکھلایا۔ وہ کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شکل ہے جو انسانی وجود معلوم ہوتا ہے۔ اُس کے منہ پر بالخصوص اور باقی سارے جسم پر بالعموم کثرت کے ساتھ گھاس پھوس اور گرد و غبار پڑا ہوا ہے، اُس کا چہرہ بالکل نظر نہیں آتا۔ اور باقی جسم سے بھی اُس کی شناخت ناممکن ہو رہی ہے۔ ایک اور شخص ہے جس کی پیٹھ میرے والد صاحب کی طرف کو ہے لیکن اُس کا منہ اس گردو غبار سے ڈھکے ہوئے وجود کی طرف ہے۔ وہ نہایت احتیاط اور محنت اور محبت کے ساتھ ایک ایک کر کے اُس دوسرے شخص کے وجود پر سے تنکے اپنے ہاتھوں سے چُن چُن کر اُتار رہا ہے۔ کچھ وقت کے بعد وہ تمام تنکوں کو اُٹھا کر پھینک دیتا ہے۔ اور گردوغبار سے اُس کے جسم کو صاف کر دیتا ہے۔ اور جونہی کہ وہ تنکے وغیرہ سب اُتر کر گر جاتے ہیں۔ اُن کے نیچے سے آفتاب کی طرح ایک ایسا روشن چہرہ نکلتا ہے جس کو دیکھنے کی آنکھیں تاب نہیں لا سکتیں۔ اُسی وقت خواب میں ہی تفہیم ہوتی ہے کہ یہ مقدس انسان جس کے جسمِ مطہر سے تنکے دور کئے گئے ہیں، وہ سیدنا حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور تنکوں کو دور کرنے والے صاحب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں۔ رات کو یہ نظارہ دیکھا۔ صبح ہوتے ہی معاندینِ سلسلہ اکٹھے ہو کر پھر آئے اور کہنے لگے کہ دیکھئے صاحب، یہ کل آپ کیا کہہ رہے تھے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آتھم ابھی زندہ ہے، مرا نہیں اور آپ کے مرزا کی پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ تم کو جو خبر ملی ہے وہ غلط ہے۔ آتھم یقینا زندہ نہیں ہو گا اور اگر وہ زندہ ہے تو وہ اپنے رشتہ داروں اور اپنے دینی بھائیوں کے لئے ضرور مر چکا ہے۔ اُس نے ان باتوں سے اگر توبہ نہیں کی تھی تو بہرحال دوبارہ اُس کا اظہار نہیں کیا۔ جب تک تمام باتوں کی حقیقت نہ کھل جائے اپنے شکوک و ابہامات کو خدا کے حوالے کریں۔ رات جو میں نے نظارہ دیکھا ہے اگر تم بھی وہ دیکھ لیتے تو پھر تمہیں پتہ لگتا کہ یہ شخص جس کے خلاف تم لوگ زہر اُگل رہے ہو کس پایہ کا انسان ہے۔ مَیں نے تو جب سے وہ خواب کا نظارہ دیکھاہے اس سے میری طبیعت پر یہ اثر ہے کہ بہرحال یہ نشان اس طرز سے پورا ہو کر رہے گا کہ دنیا کو اپنی شوکت دکھا کر رہے گا۔ پھر اَور بھی سینکڑوں ہزاروں نشان سیدنا حضرت مرزا صاحب کے وجود سے ظاہر ہوں گے جو دشمنانِ اسلام کی پیداکردہ تمام روکوں کو توڑ کر رکھ دیں گے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہؓ غیرمطبوعہ رجسٹر نمبر 11 صفحہ156-156الف۔ از روایات حضرت ڈاکٹر محمد طفیل خاں صاحبؓ)

پس اسلام کی جو خوبصورت تعلیم ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح چہرہ دکھانا اور آپ پر لگائے تمام الزامات کو دور کرنا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی کام تھا۔ اب یہ دیکھیں کہ یہ مقابلہ جو عبداللہ آتھم کے ساتھ تھا اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا دفاع کر رہے تھے اور بعض مسلمان کہلانے والے بلکہ اُن کے علماء بھی دوسروں کا ساتھ دے رہے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کی سچائی ظاہر کرنا چاہتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ دکھانا چاہتے ہیں اور یہ لوگ آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔

اب آج یہ لوگ بڑے جلوس نکال رہے ہیں۔ میلادِ نبی کی خوشیاں منا رہے ہیں تو حقیقی خوشی جشن منانے میں تو نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے میں، آپ کی خوبصورت تعلیم کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچانے میں ہے۔ آپؐ پر درود بھیجنے میں ہے۔ پہلے میں نے ایک حوالہ پڑھا تھا کہ دین میں قوت پیدا کرو۔ تو یہ دین میں قوت پیدا کرنا آج ہر مسلمان کاکام ہے اگر حقیقی مسلمان ہے۔ اور وہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عاشقِ صادق کے ساتھ جڑ کر ہی ہو سکتا ہے۔ آتھم کی بھی موت کچھ عرصہ تک تو ٹل گئی تھی لیکن چھ سات مہینے بعد، کیونکہ اُس نے ایک طرح کی توبہ کی تھی، اور اُن الفاظ کو دہرانے سے پرہیز کیا تھا، احتراز کیا تھا تو چند مہینہ کے بعد پھر وہ موت واقع ہو گئی۔ تو یہی پیشگوئی تھی کہ اگرچہ کچھ دیر کے لئے موت ٹل تو سکتی ہے لیکن یہ واقعہ ضرور ہو گا۔ اور وہ ہوا۔ اور جیسا کہ میں نے کہا، ایک خواب سنائی تھی کہ حکومتیں اگر حاصل کرنی ہیں، دنیا پر غلبہ حاصل کرنا ہے تو تبلیغ کے ذریعہ سے ہو گا، اس طرف بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے اور نہ کوئی ہے جو دکھا رہا ہے۔ اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے۔ پس اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جس کا نام محمدؐ ہے‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ’’(ہزار ہزار درود اور سلام اُس پر) یہ کس عالی مرتبہ کا نبی ہے۔ اُس کے عالی مقام کا انتہاء معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیساحق شناخت کا ہے اُس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دُنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اُس کو دُنیا میں لایا۔ اُس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی۔ اِس لئے خدانے جو اُس کے دل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین اور آخرین پر فضیلت بخشی اور اُس کی مُرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اُس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں ہے بلکہ ذُرّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کُنجی اُس کو دی گئی ہے‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو)۔ ’’اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اُس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محروم ازلی ہے۔ ہم کیا چیز ہیں اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافر نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحید حقیقی ہم نے اِسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اِسی کامل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نُور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اُس کا چہرہ دیکھتے ہیں اِسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسّر آیا ہے۔ اس آفتاب ہدایت کی شعاع دُھوپ کی طرح ہم پر پڑتی ہے اور اُسی وقت تک ہم مُنوّر رہ سکتے ہیں جب تک کہ ہم اُس کے مقابل پر کھڑے ہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 119-118)

فرمایا: ’’وہ انسان جو سب سے زیادہ کامل اور انسانِ کامل تھا اور کامل نبی تھا اور کامل برکتوں کے ساتھ آیا جس سے روحانی بعث اور حشر کی وجہ سے دنیا کی پہلی قیامت ظاہر ہوئی اور ایک عالَم کا عالَم مرا ہوا اس کے آنے سے زندہ ہو گیا۔ وہ مبارک نبی حضرت خاتم الانبیاء امام الاصفیاء ختم المرسلین فخر النبییّن جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اے پیارے خدا اس پیارے نبی پر وہ رحمت اور درود بھیج جو ابتداءِ دنیا سے تُو نے کسی پر نہ بھیجا ہو‘‘۔ (اتمام الحجۃ۔ روحانی خزائن جلد 8صفحہ 308) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ۔

پس یہ تھا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا اور یہی وجہ ہے کہ جب لوگوں نے مختلف خوابیں دیکھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وجود میں دیکھا۔ یعنی دو وجود ایک ہی جان ہو گئے۔ پس ہمارا بھی کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ اسی طرح آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا آج جلسے بھی بڑے ہو رہے ہیں، جلوس نکل رہے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت منائی جا رہی ہے لیکن وہاں آپ کی تعلیم کا اظہار نہیں ہو رہا۔ ربوہ میں تو شاید اس وقت جو جلوس نکل رہے ہوں اُن میں سوائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو گالیاں دینے کے اور کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بیان نہیں ہو رہی ہوگی بلکہ صرف اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جا رہی ہوں گی۔ جماعت کے خلاف غلیظ زبان استعمال کی جا رہی ہوگی۔

پس ایک طرف تو یہ ان لوگوں کا سلوک ہے جو دنیا دار ہو چکے ہیں۔ مسلمان کہلانے کے باوجود اسلام سے دور ہٹ چکے ہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کا سلوک جو صحابہ کے ساتھ تھا کہ اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں ظاہر کر رہا ہے، اُن کو دکھا رہا ہے، اُن کی تسلی کرا رہا ہے اور آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ اسی طرح کے نظارے اپنے نیک فطرت اور سعید لوگوں کو دکھا رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ جماعت میں آ رہے ہیں، قبول کر رہے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں بیعت میں آکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی کو اختیار کر رہے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ لوگ جو مخالفین ہیں ان کی بھی آنکھیں کھلیں اور بجائے یہ نام نہاد مسلمان کہلانے کے حقیقی مسلمان بننے والے ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی آواز ہے اُس کو سننے والے ہوں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 25؍ جنوری 2013ء شہ سرخیاں

    آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خوبصورت چہرہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علاوہ اور کوئی نہیں جو دکھا سکے اور نہ کوئی ہے جو دکھا رہا ہے۔ اور یہی آپ کی جماعت کا کام ہے۔ پس اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے۔

    صحابہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خوابوں کا ایمان افروز تذکرہ جن میں انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعودعلیہ السلام کو ایک ہی وجود کی طرح دکھا کر ان کے ایمانوں کو تقویت عطا کی گئی۔

    آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ اسی طرح کے نظارے اپنے نیک فطرت اور سعید لوگوں کو دکھا رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں، بیعت میں آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی غلامی کو اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارا بھی کام ہے کہ آج اور ہمیشہ اپنی زبان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے سے تَر رکھیں اور اس میں ترقی کرتے چلے جائیں۔ اسی طرح آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے والے ہوں اور اس میں بھی ہمیشہ آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔

    خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

    فرمودہ مورخہ 25؍جنوری 2013ء بمطابق 25؍صلح 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور