خاتم الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفیﷺ کے ارفع مقام، آپ کی بلند شان
خطبہ جمعہ یکم فروری 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ سے پچھلے جمعہ بارہ ربیع الاول تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالے سے مَیں نے بتایا تھا کہ پاکستان میں میلاد النبیؐ کے جلسے اور جلوس منعقد ہو رہے ہیں۔ جن میں خاص طور پر پاکستان میں سابقہ تجربہ کی بنا پر میں نے کہا تھا کہ یہ قوی امکان ہے کہ سیرت اور عشقِ رسول کا کم ذکر ہو اور خاص طور پر ربوہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور جماعت کے خلاف مغلّظات اور دریدہ دہنی کا زیادہ اظہار ہو گا۔ چنانچہ جو رپورٹس آئیں، وہی کچھ ہوا۔ جلسے کئے گئے، ربوہ کی گلیوں میں جلوس نکالے گئے اور مغلّظات بکی گئیں۔ اُن کو سب کچھ کہنے کی آزادی ہے۔ احمدیوں کواللہ اور رسول کا نام لینے کی بھی آزادی نہیں۔ بہر حال یہ علماءِ سُوء کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ قوم پر بھی رحم فرمائے کہ ان نام نہاد علماء کے چنگل سے آزاد ہوں۔ یہ گالیاں بکنا تو ان نام نہاد علماء کا کام ہے، یہ بَکتے رہیں گے۔ اور یہ بات کہ یہ گالیاں بکیں یا روکیں ڈالیں، جماعت کی ترقی میں یہ روکیں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتیں بلکہ ہر مخالفت جماعت کی ترقی کے قدم پہلے سے آگے بڑھاتی ہے۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی چند تحریرات آپ کے سامنے رکھوں گا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان، مقام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنے آقا و مطاع سے عشق و محبت اور غیرت کا اظہار ہوتا ہے اور اس کے نمونے ملتے ہیں۔ ایک طرف یہ مخالفین ہیں جو دریدہ دہنی کر رہے ہیں۔ دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں جو کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان فرماتے ہیں۔ تمام انبیاء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربّی ٔ اعظم ہے۔ یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ سے فساد اعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا۔ جس نے توحید گم گشتہ اور ناپدید شدہ کو پھر زمین پر قائم کیا۔ جس نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہریک گمراہ کے شبہات مٹائے جس نے ہریک ملحد کے وسواس دور کئے اور سچا سامان نجات کا……اصول حقہ کی تعلیم سے ازسرنو عطا فرمایا۔ پس اس دلیل سے کہ اس کا فائدہ اور افاضہ سب سے زیادہ ہے اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ اب تورایخ بتلاتی ہے۔ کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘۔ (براہین احمدیہ ہر چہارحصص۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 97حاشیہ)
براہینِ احمدیہ کا یہ حوالہ ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ کریمہ کی عظمت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔ ’’حضرت موسیٰ بردباری اور حلم میں بنی اسرائیل کے تمام نبیوں سے سبقت لے گئے تھے۔ اور بنی اسرائیل میں نہ مسیح اور نہ کوئی دوسرا نبی ایسا نہیں ہوا جو حضرت موسیٰ کے مرتبۂ عالیہ تک پہنچ سکے۔ توریت سے ثابت ہے جو حضرت موسیٰ رفق اور حلم اور اخلاق فاضلہ میں سب اسرائیلی نبیوں سے بہتر اور فائق تر تھے۔ جیسا کہ گنتی باب دو از دہم آیت سوم توریت میں لکھا ہے کہ موسیٰ سارے لوگوں سے جو رُوئے زمین پر تھے زیادہ بردبار تھا۔ سو خدا نے توریت میں موسٰی کی بردباری کی ایسی تعریف کی جو بنی اسرائیل کے تمام نبیوں میں سے کسی کی تعریف میں یہ کلمات بیان نہیں فرمائے۔ ہاں جو اخلاق فاضلہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن شریف میں ذکر ہے وہ حضرت موسیٰ سے ہزارہا درجہ بڑھ کر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تمام ان اخلاق فاضلہ کا جامع ہے جو نبیوں میں متفرق طور پر پائے جاتے تھے۔ اور نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا ہے۔ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ(القلم: 5)۔ تو خلق عظیم پر ہے۔ اور عظیم کے لفظ کے ساتھ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ عرب کے محاورہ میں اس چیز کے انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ یہ درخت عظیم ہے تو اس سے یہ مطلب ہوگا کہ جہاں تک درختوں کے لئے طول و عرض اور تناوری ممکن ہے وہ سب اس درخت میں حاصل ہے۔ ایسا ہی اس آیت کا مفہوم ہے کہ جہاں تک اخلاقِ فاضلہ و شمائلہ حسنہ نفسِ انسانی کو حاصل ہوسکتے ہیں وہ تمام اخلاقِ کاملہ تامّہ نفسِ محمدی میں موجود ہیں۔ سو یہ تعریف ایسی اعلیٰ درجہ کی ہے جس سے بڑھ کر ممکن نہیں۔ اور اسی کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا۔ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا(النساء: 114)۔ یعنی تیرے پر خدا کا سب سے زیادہ فضل ہے اور کوئی نبی تیرے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ یہی تعریف بطور پیشگوئی زبور باب 45میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں موجود ہے جیسا کہ فرمایا کہ خدا نے جو تیرا خدا ہے خوشی کے روغن سے تیرے مصاحبوں سے زیادہ تجھے معطر کیا‘‘۔ (براہین احمدیہ۔ ہر چہارحصص۔ روحانی خزائن جلد 1صفحہ 606-605حاشیہ درحاشیہ)
یہ بھی براہینِ احمدیہ کا حوالہ ہے۔
پھر جو اعلیٰ درجہ کا نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا، اُس کا ذکر کرتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو۔ وہ ملائک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز اَرضی اور سماوی میں نہیں تھا۔ صرف انسان میں تھا۔ یعنی انسان کامل میں جس کا اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فرد ہمارے سید و مولیٰ سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اس کے تمام ہم رنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔ …اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سیّد، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی اُمّی صادق مصدوق محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔ جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔ وَبِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ (الانعام: 164-163)وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۔ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبیْلِہٖ(الانعام: 154)۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(آل عمران: 32)۔ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْھِیَ لِلّٰہِ(آل عمران: 21)۔ وَاُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(المومن: 67)
یعنی ان کو کہہ دے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لئے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالموں کا ربّ ہے جس کا کوئی شریک نہیں۔ اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے۔ اور مَیں اوّل المسلمین ہوں۔ یعنی دنیا کی ابتدا سے اس کے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو۔ جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو‘‘۔ ’’خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اُس کو واپس دینے والا‘‘، اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے سپرد جتنے بھی کام کئے ہیں، جو ذمہ داریاں ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد جو فرائض و حقوق تھے، اُن کی ادائیگی کی جو انتہا ہو سکتی تھی وہ آپؐ نے فرمائی۔
فرمایا: ’’اس آیت میں اُن نادان موحّدوں کا ردّ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلّی ثابت نہیں اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متّٰی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو‘‘ (اول تو حدیث کا پتہ نہیں صحیح ہے کہ نہیں۔ لیکن اگر مان لیا جائے کہ صحیح بھی ہو) ’’تب بھی وہ بطور انکسار اور تذلّل ہے جو ہمیشہ ہمارے سیّد صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔ اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباد اللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص درحقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباد اللہ ہے کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے۔ غور سے دیکھنا چاہئے کہ جس حالت میں اللہ جلّ شانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اوّل المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت صلعم (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کرسکے۔ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لئے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ مَااَعْظَمَ شَانَکَ یَا رَسُوْلَ اللہ۔‘‘ فرماتے ہیں، فارسی شعر ہے کہ ؎
’’موسیٰ و عیسیٰ ہمہ خیلِ تُواَند
جملہ درین راہ طفیلِ تُواَند‘‘
(یعنی موسیٰ اور عیسیٰ سب تیرے ہی گروہ میں سے ہیں اور سب اس راہ میں تیرے ہی طفیل سے ہیں۔)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’پھر بقیہ ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جلّشانہٗ اپنے ر سول کو فرماتا ہے کہ ان کو کہہ دے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اس کی پیروی کرو اور اَور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال دیں گی۔ ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤ۔ میرے پیچھے چلنا اختیار کرو۔ یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے قدم مارو۔ تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ان کو کہہ دے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں ربّ العالَمین کے لئے خالص کر لوں۔ یعنی اس میں فنا ہو کر جیسا کہ وہ ربّ العالَمین ہے مَیں خادم العالَمین بنوں اور ہمہ تن اُسی کا اور اُسی کی راہ کا ہو جاؤں۔ سو مَیں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کردیا ہے۔ اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ165-160)
یہ حوالہ جو مَیں نے پڑھا ہے یہ آئینہ کمالاتِ اسلام کا ہے۔
پس یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے اور یہ اُسوہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا۔ اب دیکھیں ہمارے مخالفین کا یہ اُسوہ ہے کہ وہ تو رحمت لے کر آئے تھے اور یہ لوگ کلمہ گوؤں کو بھی اذیتیں پہنچانے والے ہیں۔ پھر آپؐ کے فیض اور نبوت کی وسعت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’موسیٰ اور عیسیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ایک ہی ہے۔ تین خدا نہیں ہیں۔ مگر مختلف تجلّیات کی رُو سے اُسی ایک خدا میں تین شانیں ظاہر ہو گئیں۔ چونکہ موسیٰ کی ہمّت صرف بنی اسرائیل اور فرعون تک ہی محدود تھی اِس لئے موسیٰ پر تجلّی قدرتِ الٰہی اُسی حد تک محدود رہی۔ اور اگر موسیٰ کی نظر اُس زمانہ اور آئندہ زمانوں کے تمام بنی آدم پر ہوتی تو توریت کی تعلیم بھی ایسی محدود اور ناقص نہ ہوتی جو اَب ہے۔
ایسا ہی حضرت عیسیٰ کی ہمّت صرف یہود کے چند فرقوں تک محدود تھی جو اُن کی نظر کے سامنے تھے اور دُوسری قوموں اور آئندہ زمانہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی کا کچھ تعلق نہ تھا۔ اس لئے قدرت الٰہی کی تجلّی بھی اُن کے مذہب میں اُسی حد تک محدود رہی جس قدر اُن کی ہمّت تھی۔ اور آئندہ الہام اور وحی الٰہی پر مُہر لگ گئی۔ اور چونکہ انجیل کی تعلیم بھی صرف یہود کی عملی اور اخلاقی خرابیوں کی اصلاح کے لئے تھی، تمام دُنیا کے مفاسد پر نظر نہ تھی اس لئے انجیل بھی عام اصلاح سے قاصر ہے۔ بلکہ وہ صرف ان یہودیوں کی موجودہ بد اخلاقی کی اصلاح کرتی ہے جو نظر کے سامنے تھے۔ اور جو دُوسرے ممالک کے رہنے والے یا آئندہ زمانہ کے لوگ ہیں اُن کے حالات سے انجیل کو کچھ سروکار نہیں۔ اور اگر انجیل کو تمام فرقوں اور مختلف طبائع کی اصلاح مدّ نظر ہوتی تو اس کی یہ تعلیم نہ ہوتی جو اَب موجود ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ایک طرف تو انجیل کی تعلیم ہی ناقص تھی اور دُوسری طرف خود ایجاد غلطیوں نے بڑا نقصان پہنچایا جو ایک عاجز انسان کو خواہ نخواہ خدا بنایا گیا اور کفّارہ کا مَن گھڑت مسئلہ پیش کرکے عملی اصلاحوں کی کوششوں کا یکلخت دروازہ بند کر دیا گیا۔
اب عیسائی قوم دوگونہ بد قسمتی میں مبتلاہے۔ ایک تو اُن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اور الہام مددنہیں مل سکتی کیونکہ الہام پر جو مُہر لگ گئی۔ اور دُوسری یہ کہ وہ عملی طور پر آگے قدم نہیں بڑھا سکتی کیونکہ کفّارہ نے مجاہدات اور سعی اور کوشش سے روک دیا۔ مگر جس کامل انسان پر قرآن شریف نازل ہوا اُس کی نظر محدودنہ تھی اور اس کی عام غم خواری اور ہمدردی میں کچھ قصور نہ تھا۔ بلکہ کیا باعتبار زمان اور کیا باعتبار مکان‘‘ (زمانے کے لحاظ سے بھی، جگہ کے لحاظ سے بھی) ’’اس کے نفس کے اندر کامل ہمدردی موجود تھی۔ اس لئے قدرت کی تجلّیات کا پُورا اور کامل حصّہ اُس کوملا اور وُہ خاتم الانبیاء بنے۔ مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اُس سے کوئی رُوحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحبِ خاتَم ہے بجُز اُس کی مُہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا۔ اور اس کی اُمّت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الٰہیہ کا دروازہ کبھی بندنہ ہوگا۔ اور بجز اُس کے کوئی نبی صاحبِ خاتَم نہیں۔ ایک وہی ہے جس کی مُہر سے ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے اُمّتی ہونا لازمی ہے۔ اور اُس کی ہمّت اور ہمدردی نے اُمّت کو ناقص حالت پر چھوڑنا نہیں چاہا۔ اوراُن پر وحی کا دروازہ جو حصول معرفت کی اصل جڑھ ہے بند رہنا گوارا نہیں کیا۔ ہاں اپنی ختمِ رسالت کا نشان قائم رکھنے کے لئے یہ چاہا کہ فیضِ وحی آپؐ کی پَیروی کے وسیلہ سے ملے اور جو شخص اُمّتی نہ ہو اُس پر وحی الٰہی کا دروازہ بند ہو۔ سو خدا نے اِن معنوں سے آپ کو خاتم الانبیاء ٹھہرایا۔ لہذا قیامت تک یہ بات قائم ہوئی کہ جو شخص سچی پَیروی سے اپنا اُمّتی ہونا ثابت نہ کرے اور آپ کی متابعت میں اپنا تمام وجود محو نہ کرے ایسا انسان قیامت تک نہ کوئی کامل وحی پا سکتا ہے اور نہ کامل مُلہَم ہو سکتا ہے کیونکہ مستقل نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی۔ مگر ظلّی نبوّت جس کے معنی ہیں کہ محض فیضِ محمدی سے وحی پاناوہ قیامت تک باقی رہے گی تا انسانوں کی تکمیل کا دروازہ بندنہ ہو اور تا یہ نشان دُنیا سے مٹ نہ جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمّت نے قیامت تک یہی چاہا ہے کہ مکالمات اور مخاطباتِ الٰہیہ کے دروازے کُھلے رہیں اور معرفتِ الٰہیہ جو مدارِ نجات ہے مفقودنہ ہو جائے۔ کسی حدیث صحیح سے اِس بات کا پتہ نہیں ملے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا نبی آنے والا ہے جو اُمّتی نہیں یعنی آپؐ کی پیروی سے فیض یاب نہیں‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ 28تا 30)
یہ حوالہ حقیقۃ الوحی کا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں اور تربیت کی وجہ سے صحابہ کرام کے مقام کی ترقیات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں میں وہ جوشِ عشقِ الٰہی پیدا ہوا اور توجہ قدسی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تاثیر اُن کے دلوں میں ظاہر ہوئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں بھیڑوں اور بکریوں کی طرح سر کٹائے۔ کیا کوئی پہلی اُمّت میں ہمیں دکھا سکتا ہے یا نشان دے سکتا ہے کہ انہوں نے بھی صدق اور صفا دکھلایا‘‘۔
پھر آپ نے حضرت موسیٰ کی بھی مثال دی کہ اُن کی قوم میں بھی نظر نہیں آتا۔ پھر فرمایا:
’’حضرت مسیح کے صحابہ کا حال سنو۔ … جس قدر حواری تھے، وہ مصیبت کا وقت دیکھ کر بھاگ گئے اور ایک نے بھی استقامت نہ دکھلائی اور ثابت قدم نہ رہے اور بزدلی اُن پر غالب آگئی۔ اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے تلواروں کے سایہ کے نیچے وہ استقامتیں دکھلائیں اور اس طرح مرنے پر راضی ہوئے جن کی سوانح پڑھنے سے رونا آتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جس نے ایسی عاشقانہ روح اُن میں پھونک دی اور وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اُن میں اس قدر تبدیلی کر دی۔ یا تو جاہلیت کے زمانہ میں وہ حالت اُن کی تھی کہ وہ دنیا کے کیڑے تھے اور کوئی معصیت اور ظلم کی قسم نہیں تھی جو اُن سے ظہور میں نہیں آئی تھی اور یا اس نبی کی پیروی کے بعد ایسے خدا کی طرف کھینچے گئے کہ گویا خدا اُن کے اندر سکونت پذیر ہو گیا۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہ وہی توجہ اُس پاک نبی کی تھی جو اُن لوگوں کو سفلی زندگی سے ایک پاک زندگی کی طرف کھینچ کر لے آئی۔ اور جو لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوئے اُس کا سبب تلوار نہیں تھی بلکہ وہ اُس تیرہ سال کی آہ و زاری اور دعا اور تضرّع کا اثر تھا جو مکّہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کرتے رہے۔ اور مکّہ کی زمین بول اُٹھی کہ مَیں اس مبارک قدم کے نیچے ہوں جس کے دل نے اس قدر توحید کا شور ڈالا جو آسمان اُس کی آہ و زاری سے بھر گیا۔ خدا بے نیاز ہے۔ اُس کو کسی ہدایت یا ضلالت کی پرواہ نہیں‘‘۔ (کوئی ہدایت پاتا ہے یا گمراہ ہوتا ہے اُس کو پرواہ نہیں )۔ ’’پس یہ نورِ ہدایت جو خارق عادت طور پر عرب کے جزیرہ میں ظہور میں آیا اور پھر دنیا میں پھیل گیا، یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دلی سوزش کی تاثیر تھی‘‘۔ (یہ آپ کی دعائیں تھیں جو سینے سے اُبل رہی تھیں کہ دنیا ہدایت پا جائے۔ ) فرمایا ’’ہر ایک قوم توحید سے دور اور مہجور ہو گئی مگر اسلام میں چشمۂ توحید جاری رہا۔ یہ تمام برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُوْمِنِیْنَ(الشعراء: 4)۔ یعنی کیا تو اس غم میں اپنے تئیں ہلاک کر دے گا جو یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ پس پہلے نبیوں کی اُمّت میں جو اس درجہ کی صلاح و تقویٰ پیدا نہ ہوئی اُس کی یہی وجہ تھی کہ اس درجہ کی توجہ اور دلسوزی اُمّت کے لئے اُن نبیوں میں نہیں تھی۔ افسوس کہ حال نے نادان مسلمانوں نے اپنے اس نبی مکرّم کا کچھ قدر نہیں کیا اور ہر ایک بات میں ٹھوکر کھائی۔ وہ ختمِ نبوت کے ایسے معنی کرتے ہیں جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو نکلتی ہے، نہ تعریف۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نفسِ پاک میں افاضہ اور تکمیلِ نفوس کے لئے کوئی قوت نہ تھی۔ اور وہ صرف خشک شریعت کو سکھلانے آئے تھے‘‘۔ (یعنی کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں، یعنی اپنے عمل سے یہ ظاہر کرتے ہیں ) ’’حالانکہ اللہ تعالیٰ اس اُمّت کو یہ دعا سکھلاتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم َ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِم (الفاتحۃ: 6)۔ پس اگر یہ اُمّت پہلے نبیوں کی وارث نہیں اور اس انعام میں سے ان کو کچھ حصہ نہیں تو یہ دعا کیوں سکھلائی گئی؟‘‘۔ (حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد22صفحہ 101تا 104۔ حاشیہ)
یہ حوالہ بھی حقیقۃ الوحی کا ہے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اقتداری معجزات کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اس درجۂ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں‘‘۔ (اور ایسا مقام پہنچ جاتا ہے جو ایسے معجزات بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ بظاہر ممکن نہیں بلکہ بشری طاقتوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور انسانی طاقتوں سے باہر ہوتے ہیں ) فرمایا کہ ’’جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفّار پر چلائی۔ اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی۔ مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو‘‘۔ (بیشک قانونِ قدرت کے تحت اُس مٹھی کے پیچھے ایک آندھی آئی لیکن وہ مٹھی ہی تھی جس نے وہ آندھی کا سبب پیدا کر دیا) فرمایا ’’اور وہ سب اندھوں کی طرح ہوگئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا۔ اسی معجزہ کی طرف اللہ جلّ شانُہٗ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی(الانفال: 18) یعنی جب تُونے اس مٹھی کو پھینکا وہ تُونے نہیں پھینکا بلکہ خدا تعالیٰ نے پھینکا۔ (کیونکہ اُس مٹھی کے پیچھے خدا تعالیٰ کی طاقت کارفرما تھی) ’’یعنی درپردہ الٰہی طاقت کام کر گئی۔ انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا‘‘۔
پھر فرمایا: ’’اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جوشق القمر ہے‘‘ (یعنی چاند کے دو ٹکڑے ہونے کا جو واقعہ آتا ہے) ’’اسی الٰہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کہ کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الٰہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس قسم کے اَور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعانہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کردیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا‘‘۔ (یہ معجزات دکھائے) ’’اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا‘‘۔ (یعنی پیٹ بھر دیا) ’’اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا۔ اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں‘‘ (یعنی نمکین پانی والے کنوئیں میں) ’’اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کردیا۔ اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا۔ اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے‘‘ (آنکھیں باہر آ گئی تھیں، ڈیلا) ’’اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کردیا‘‘۔ (واپس رکھ دیا اور آنکھ اُسی طرح سالم ہو گئی) ’’ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقتِ الٰہی مخلوط تھی‘‘۔ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ66-65)
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ کی آسمانی زندگی کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں ناں کہ عیسیٰ آسمان پر زندہ ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ہمیشہ کی آسمانی زندگی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ فرمایا کہ: ’’باتفاق جمیع کتب الٰہیہ ثابت ہے کہ انبیاء و اولیاء مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جایا کرتے ہیں۔ یعنی ایک قسم کی زندگی اُنہیں عطا کی جاتی ہے جو دوسروں کونہیں عطا کی جاتی۔ اسی طرف وہ حدیث اشارہ کرتی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خدائے تعالیٰ مجھے قبر میں میّت رہنے نہیں دے گا اور زندہ کر کے اپنی طرف اُٹھا لے گا‘‘۔ (ازالہ ٔ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 225)
یہ ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے پڑھا تھا۔ اسی کی تشریح آگے فرما رہے ہیں۔ اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’یعنی مَیں اس مدت کے اندر اندر زندہ ہو کر آسمان کی طرف اُٹھایا جاؤں گا‘‘۔ (اب یہ آپؐ فرما رہے ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں کہتا کہ آپؐ جسم کے ساتھ زندہ آسمان پر موجود ہیں )۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اب دیکھنا چاہئے کہ ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبر میں زندہ ہوجانے اور پھر آسمان کی طرف اٹھائے جانے کی نسبت مسیح کے اُٹھائے جانے میں کونسی زیادتی ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ عیسیٰ بن مریم کی حیات حضرت موسیٰ کی حیات سے بھی درجہ میں کمتر ہے۔ اور اعتقاد صحیح جس پر اتفاق سلف صالح کا ہے اور نیز معراج کی حدیث بھی اس کی شاہدناطق ہے، یہی ہے کہ انبیاء بحیات جسمی مشابہ بحیات جسمی دنیاوی زندہ ہیں‘‘۔ (یعنی اس کی اس طرح، اس لحاظ سے مشابہت ہے لیکن عملاً اس طرح نہیں ہوتا)۔ پھر فرمایا ’’اور شہداء کی نسبت اُن کی زندگی اکمل واَقویٰ ہے‘‘۔ (اب شہداء کے بارے میں فرماتے ہیں اُن کو مردہ نہ کہو، وہ زندہ ہیں۔ لیکن انبیاء اُن سے بہت بڑھ کر ہیں) ’’اور سب سے زیادہ اَکمل واَقویٰ واَشرف زندگی ہمارے سیّد ومولیٰ فدا ئً ًلہٗ نفسی واَبی واُمّی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ حضرت مسیح تو صرف دوسرے آسمان میں اپنے خالہ زاد بھائی اور نیز اپنے مرشد حضرت یحییٰ کے ساتھ مقیم ہیں لیکن ہمارے سیّد ومولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ مرتبہ ٔ آسمان میں جس سے بڑھ کر اور کوئی مرتبہ نہیں تشریف فرما ہیں۔ عِنْدَ سِدْرَۃِ الْمُنْتَھٰی بِالرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ اوراُمّت کے سلام وصلوات برابر آنحضرتؐ کے حضور میں پہنچائے جاتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَعَلیٰ اٰلِ سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ اَکْثَر مِمَّا صَلَّیْتَ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْ اَنْبِیَآئِکَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔‘‘ (ازالہ ٔ اوہام۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ 226 حاشیہ)
یہ بھی ازالہ اوہام کا حوالہ تھا جو مَیں نے ابھی پڑھا ہے۔
پھر اس بات کا ذکر فرماتے ہوئے کہ ہم نے خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اُس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرّہ ذرّہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرّہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہور پذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔ اور کوئی چیز نہ اُس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے، نہ اُس کے خَلق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اُس پاک نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا اور ایسے خدا کو پایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اُس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقشِ وجودنہیں پکڑا اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بے شمار برکتوں والا ہے اور بے شمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا احسان والا۔ اُس کے سوا کوئی اور خدا نہیں‘‘۔ (نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 363)
پھرحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مجھے جو کچھ بھی ملا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا ہے۔ تم لوگ کہتے ہو کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گراتا ہوں۔ مجھے تو آپؐ کے دَر سے ہی ملا ہے جوکچھ ملا ہے۔ یہ منن الرحمن کی عربی عبارت ہے، ترجمہ پڑھتا ہوں۔ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ میری کامیابی میرے ربّ کی طرف سے ہے۔ پس میں اس کی تعریف کرتا ہوں اور نبی عربی پر درود بھیجتا ہوں۔ اسی سے تمام برکتیں نازل ہوئیں اور اسی سے سب تانا بانا ہے۔ اسی نے میرے لئے اصل اور فرع کو میسر کیااور اس نے میرے بیج اور کھیت کو اُگایا۔ اور وہ بہتر ہے سب اگانے والوں سے۔‘‘ (منن الرحمن۔ روحانی خزائن جلد 9صفحہ 187-186)
مجھے جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا، اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے پھر فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں اُسی کی (یعنی اللہ تعالیٰ کی) قَسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اُس نے ابراہیم سے مکالمہ مخاطبہ کیا اور پھر اسحاق سے اور اسماعیل سے اور یعقوب سے اور یوسف سے اور موسیٰ سے اور مسیح ابن مریم سے اور سب کے بعدہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہمکلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی، ایسا ہی اُس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی مَیں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا‘‘۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے کلام کرنا اور اللہ تعالیٰ کاآپ سے بولنا، یہ مقام کبھی نہ ملتا، ’’کیونکہ اب بجز محمدی نبوّت کے سب نبوّتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو‘‘۔ (تجلیات الٰہیہ۔ روحانی خزائن جلد 20صفحہ 412-411)
پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درُود کے بارے میں آپ فرماتے ہیں کہ:
’’الٰہی تیرا ہزار ہزار شکر کہ تُو نے ہم کو اپنی پہچان کا آپ راہ بتایا۔ اور اپنی پاک کتابوں کو نازل کرکے فکر اور عقل کی غلطیوں اور خطاؤں سے بچایا اور درود اور سلام حضرت سید الرسل محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی آل و اصحاب پر کہ جس سے خدا نے ایک عالم گم گشتہ کو سیدھی راہ پر چلایا۔ وہ مربّی اور نفع رسان کہ جو بھولی ہوئی خَلقت کو پھر راہ راست پر لایا۔ وہ محسن اور صاحب احسان کہ جس نے لوگوں کو شرک اور بتوں کی بلا سے چھوڑایا۔ وہ نور اور نور افشان کہ جس نے توحید کی روشنی کو دنیا میں پھیلایا۔ وہ حکیم اور معالج زمان کہ جس نے بگڑے ہوئے دلوں کا راستی پر قدم جمایا۔ وہ کریم اور کرامت نشان کہ جس نے مُردوں کو زندگی کا پانی پلایا۔ وہ رحیم اور مہربان کہ جس نے اُمّت کے لئے غم کھایا اور درد اٹھایا۔ وہ شجاع اور پہلوان جو ہم کو موت کے منہ سے نکال کر لایا۔ وہ حلیم اور بے نفس انسان کہ جس نے بندگی میں سر جھکایا اور اپنی ہستی کو خاک میں ملایا۔ وہ کامل موحّد اور بحر عرفان کہ جس کو صرف خدا کا جلال بھایا اور غیر کو اپنی نظر سے گرایا۔ وہ معجزہ ٔقدرت رحمن کہ جو اُمّی ہوکر سب پر علوم حقّانی میں غالب آیا اور ہریک قوم کی غلطیوں اور خطاؤں کو ملزم ٹھہرایا‘‘۔ (براہین احمدیہ ہرچہار حصص۔ روحانی خزائن جلد1صفحہ 17)
اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ایک مومن مسلمان کے لئے لازمی امر ہے جس کے بغیر وہ محبت کے معیار پورے نہیں ہوتے اور نہ ہو سکتے ہیں جو ایک مومن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہئے۔ نہ ہی کوئی دعا قبولیت کا درجہ حاصل کرتی ہے یا کر سکتی ہے جس میں درود شامل نہ ہو۔ لیکن یہ بھی ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارے درود کی بھی اصل غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری محبت ہونی چاہئے اور اس کو ہر چیز پر حاوی ہونا چاہئے۔
درود شریف کی اس غرض کو بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’جیسا کہ مَیں نے (پہلے زبانی سمجھا رہے تھے، مجلس میں ذکر ہو رہا ہے۔) زبانی بھی سمجھایا تھا (کہ درود شریف) اس غرض سے پڑھنا چاہئے کہ تا خداوندکریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل کرے اور اُس کو تمام عالَم کے لئے سرچشمہ برکتوں کابنا وے اور اُس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالَم میں ظاہر کرے۔ یہ دعا حضورِتامّ سے ہونی چاہئے جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضورِتامّ سے دعا کرتا ہے‘‘۔ (ایک دلی گہرائی کے ساتھ پوری طرح یہ درودشریف کی دعا ہونی چاہئے جیسے تم اپنے لئے دعا کرتے ہو۔ ) فرمایا ’’بلکہ اُس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے‘‘ (بلکہ اپنے لئے انسان جو دعائیں کرتا ہے اُس سے بھی زیادہ بڑھ کر تضرع اور التجا ہو ان دعاؤں میں اور اس میں اپنا کچھ حصہ نہ ہو۔ ) فرمایا کہ ’’اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہئے کہ اس سے (یعنی درود شریف پڑھنے سے) مجھ کو یہ ثواب ہوگا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہئے کہ برکاتِ کاملہ الٰہیہ حضرت رسولِ مقبول (صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل ہوں اور اُس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمّت چاہئے۔ اور دن رات دوام توجہ چاہئے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔‘‘ (مکتوبات احمد۔ جلد اول۔ صفحہ 523)
یہ ہے عشقِ رسول۔
پھر آپؑ اپنے ایک مکتوب میں جومیر عباس علی شاہ صاحب کو لکھا تھا، جو بعد میں بہرحال پِھر گئے تھے۔ فرماتے ہیں:
’’آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کیلئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرّع سے چاہیں اور اُس تضرّع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ …… اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراضِ نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔‘‘ (مکتوبات احمد۔ جلد اول صفحہ 535-534)
پھر ایک مجلس میں آپؑ نے فرمایا:
’’درود شریف کے طفیل …مَیں دیکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جاتے ہیں او رپھر وہاں جا کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں جذب ہوجاتے ہیں اور وہاں سے نکل کران کی لاانتہاء نالیاں ہوجاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔ یقینًا کوئی فیض بدُوں وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوسروں تک پہنچ ہی نہیں سکتا۔ درود شریف کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اُس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھا کرے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔‘‘ (الحکم۔ جلد 7نمبر 8مورخہ 28؍فروری1903ء صفحہ 7)
پھر اپنے ایک خط میں تعداد کے بارے میں کہ کتنی تعداد میں پڑھا جائے یا تعداد ہونی چاہئے کہ نہیں، فرماتے ہیں بعض دفعہ تعداد بتائی بھی ہے لیکن اس میں بتایا کہ:
’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے۔ اور وہ یہ ہے‘‘۔ (ایک تو یہ کہ درود شریف کونسا بہتر ہے اور پھر کتنا پڑھا جائے۔ فرمایا وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ کی زبانِ مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے۔ کہ) اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔ اَللّٰھُمَّ بارکِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ …‘‘۔
فرمایا’’سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا وِردہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اُس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت ر قّت اور بیخودی اور تاثّر کی پیدا ہوجائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔‘‘ (مکتوبات احمد۔ جلد اول صفحہ 526)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے حکم میں کیا حکمت ہے آپ فرماتے ہیں کہ:
’’اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے‘‘۔ (بڑا گہرا راز ہے) ’’جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے‘‘(یعنی جب کسی سے ذاتی محبت ہو اور ذاتی محبت کی وجہ سے رحمت اور برکت چاہے تو اُس کا ایک حصہ بن جاتا ہے) ’’اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرتِ احدیّت کے بے انتہا ہیں اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد۔ جلد اول صفحہ 535-534)
یہ تو درود شریف پڑھنے کے طریقے ہیں۔ اب مَیں تھوڑے سے عربی کے بعض وہ اشعار پڑھتا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تحریر فرمائے۔ جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور مقام اور قوتِ قدسی اور آپ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور اُس محبت کے باوجود قوم کا آپ سے جو سلوک ہے، اُس کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ جتنے بیان مَیں نے پڑھے ہیں، ان سے سوائے محبت کے اور کچھ بھی نہیں ٹپکتا۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت آپ کے خلاف ہے۔ ان شعروں میں آپ نے کچھ یوں ذکر فرمایا۔ فرماتے ہیں:۔
لَا شَکَّ اَنَّ مُحَمَّدًا خَیْرُالْوَرٰی رَیْقُ الْکِرَامِ وَ نُخْبَۃُ الْاَعْیَانٖ
کہ بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق میں سب سے بہترین ہیں اور معز ّزین میں سے برگزیدہ اور سرداروں میں سے منتخب وجود ہیں۔ فرمایا:
وَاللّٰہِ اِنَّ مُحَمَّدًا کَرِدَافَۃٍ وَ بِہِ الْوُصُوْلُ بِسُدَّۃِ السُّلْطَانٖ
کہ بخدا بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم (خدا کے) نائب کے طور پر ہیں اور آپ ہی کے وسیلے سے دربارِ شاہی میں رسائی ہو سکتی ہے۔ فرمایا:
اِنِّیْ لَقَدْ اُحْیِیْتُ مِنْ اِحْیَآئِہٖ وَاھًا لِاِعْجَازٍ فَمَا اَحْیَانِیْ
کہ بیشک میں آپ کے زندہ کرنے سے ہی زندہ ہوا ہوں، سبحان اللہ! کیا اعجاز ہے اور مجھے کیا خوب زندہ کیا ہے۔ فرمایا
یَا سَیّدِیْ قَدْ جِئْتُ بَابَکَ لَاھِفًا وَالْقَوْمُ بِالْاِکْفَارِ قَدْ آذَانِی
کہ اے میرے آقا! مَیں آپ کے دروازے پر مظلوم و فریادی بن کر آیا ہوں۔ جبکہ قوم نے مجھے کافر کہہ کر دکھ دیا ہے۔
اُنْظُرْ اِلَیَّ بِرَحْمَۃٍ وَّتَحَنُّنٍ یَا سَیّدِیْ اَنَا اَحْقَرُالْغِلْمَانٖ
تُو مجھ پر رحمت اور شفقت کی نظر کر۔ میرے آقا میں ایک حقیر ترین غلام ہوں
جِسْمِیْ یَطِیْرُ اِلَیْکَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا یَالَیْتَ کَانَتْ قُوَّۃُ الطَّیَرَانٖ
میرا جسم تو شوقِ غالب سے تیری طرف سے اُڑتا ہے، اے کاش مجھ میں اُڑنے کی طاقت ہوتی۔ (آئینہ کمالاتِ اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 590 تا 594)
تو یہ چندنمونے مَیں نے آپ کے عشق و محبت کے پیش کئے اور بیچ میں قوم کے دکھ کا بھی ذکر آ گیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی رنگ میں اس مقام اور اس شان کو سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آخر میں پھر اُمّتِ محمدیہ کے لئے دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ بیشک یہ ہمیں جو مرضی کہتے رہیں، سمجھتے رہیں، اکثریت ان میں سے لاعلمی کی وجہ سے اور علماء کے خوف کی وجہ سے ہماری اس جماعت کی مخالفت کرتی ہے۔ لیکن کیونکہ یہ اپنے آپ کو ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں اس لئے اس وقت ان کی حالتِ زار کے بارے میں ہمیں دعا کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان کو اس حالت سے نکالے۔ اکثر مسلمان ممالک جو ہیں مشکلات کا شکار ہیں۔ اندرونی فسادوں اور جھگڑوں نے اُنہیں تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور یہ اس سے باہر آئیں۔ ان کے سیاستدانوں اور لیڈروں میں بھی خوفِ خدا اور انصاف نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ان میں وہ پیدا کرے۔ اور ان کے عوام جو ہیں وہ بھی غلط لیڈروں کے پیچھے چل کر اپنے ملک سے محبت کا جو اظہار ہے اُس کا غلط رنگ میں اظہار کر کے اُس محبت کو ضائع کر رہے ہیں، بلکہ ملک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی انصاف سے وطن سے محبت کا اظہار کرنے کی توفیق عطا فرمائے ورنہ بہت خوفناک حالات پیدا ہونے والے ہیں جو بظاہر نظر آ رہے ہیں۔ اگر یہی حالات رہے تو یہ جو تھوڑی بہت آزادی ان لوگوں کی ہے، یہ کہیں مکمل طور پر بعض ملکوں میں محکومیت میں نہ بدل جائے۔ اس لئے بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے۔ اسلام کے نام پر جو غلط تنظیمیں قائم ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بدنام کرنے والی ہیں، اسلام کو بدنام کرنے والی ہیں، اللہ تعالیٰ ان سے بھی جلد اُمّت کو چھٹکارا دلوائے، دنیا کو چھٹکارا دلوائے۔ اب تو یہ دنیا کے لئے بھی خطرہ بن چکی ہوئی ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ اسلام کے خوبصورت چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہماری جماعت کی جو کوششیں ہیں وہ تو اس لئے ہیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم ظاہر کی جائے۔ جب یہ کوششیں ہماری طرف سے ہو رہی ہوتی ہیں تو سامنے ان کی مکروہ کوششیں کھڑی ہو جاتی ہیں جو پھردوسرے جو اسلام کے مخالف ہیں وہ پیش کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے بھی ہماری جلد جان چھڑائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عشقِ رسول میں بڑھائے اور اپنے فرائض اور حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابھی جمعہ کے بعدنمازوں کے بعدمَیں دو جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک تو حاضر جنازہ ہے (یہاں حضور نے جنازہ کے بارہ میں استفسار فرمایا کہ آ گیا ہوا ہے نا؟) جو مکرم احسان اللہ صاحب کراچی کا تھا جو آجکل تو یوکے میں ہی تھے۔ 19؍ جنوری کو 57سال کی عمر میں یہ کینسر کے عارضہ کی وجہ سے وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ حضرت احمد دین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے بھی تھے۔ نمازوں کے پابند، خدمت گزار، بڑے شفیق، ہمدرد، صابر و شاکر، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے، بڑے خوش اخلاق تھے۔ نیک اور مخلص انسان تھے۔ والدین کی بے انتہا خدمت کرنے والے تھے۔ بیوی بچوں سے ہمیشہ پیار کا سلوک کیا اور سختی نہیں کی اور اگر کبھی ہو گئی تو فوراً احساس ہوا اور پھر اُس کا مداواکرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت فرمائے اور ان بچوں کو بھی جو پاکستان میں ہی ہیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ان کا خود کفیل ہو۔ یہ گزشتہ دس بارہ سال سے یہاں یوکے میں مقیم تھے۔ اور اسائلم کے لئے آئے تھے اور تین چار سال پہلے ہی ان کا کیس پاس ہوا تھا اور یہاں جماعتی شعبہ جائیداد میں مساجد کے تحت ان کو خدمت کی توفیق بھی مل رہی تھی۔ ان کے پسماندگان میں ان کی اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا، اللہ تعالیٰ سب کا کفیل ہو۔
دوسرا جنازہ غائب ہے جو علاء نجمی صاحب کا ہے جو مکرم عکرمہ نجمی صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ ان کو دس سال پہلے جگر کا کینسر ہوا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ چند ماہ کے مہمان ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے دس سال تک یہ زندہ رہے۔ 9دسمبر 2012ء کو اپنی وفات والے دن گھر میں اکیلے تھے۔ ان کی بڑی بیٹی سکول سے واپس آئی تو اُسے کہا کہ مجھے کچھ دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دو کیونکہ مَیں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ کچھ دیر کے بعد جب ان کی بیٹی کمرے میں گئی تو دیکھا کہ نماز ادا کرکے بستر پر لیٹنے کے بعد وہ خدا کے حضور حاضر ہو چکے تھے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ مرحوم بھی نہایت نیک اور مخلص تھے۔ فلسطین کے رہنے والے تھے۔ خلافت کے فدائی اور جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے۔ مختلف عرب احباب کے ساتھ مل کر انہوں نے عربی پروگرام ’’الحوار المباشر‘‘ کو ضبط تحریر میں لانے کا کام مکمل کیا۔ اسی طرح عربک ڈیسک کی طرف سے خطبات ِ جمعہ اور مختلف کتب کے تراجم کی پروف ریڈنگ وغیرہ کا کام بھی کرتے تھے۔ مرحوم موصی تھے اور ان کے لواحقین میں والدین بھی ہیں اور بیوی اور دو بیٹیاں او رایک بیٹا ہے۔ اکلوتا بیٹا میری خلافت کے انتخاب والے دن، جب خلافتِ خامسہ کا انتخاب ہوا ہے تو اس دن پیدا ہوا تھا۔ اس لئے انہوں نے اس کا نام بھی مسرور رکھا تھا۔
ہانی طاہر صاحب ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ مرحوم اور مکرم مصطفی ثابت صاحب مرحوم محبت، طہارت، سعادت مندی، بیماری پر صبر اور شکوہ شکایت نہ کرنے میں اور انکساری میں ایک جیسے تھے۔ معجزہ یہ ہے کہ دونوں کی بیماری ایسی تھی جس میں انسان زیادہ زندہ نہیں رہتا اور کوئی کام نہیں کرسکتا لیکن ان دونوں نے لمبا عرصہ بیماری کا مقابلہ کیا اور بہت کام کیا۔ اور یہ بات بالکل ٹھیک ہے۔ مرحوم علاء صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب اور میرے خطبات جمعہ جو تھے، اُن کے ترجمہ کی پروف ریڈنگ اور چیکنگ کا کام کرتے تھے اور شدید بیماری اور کمزوری کے باوجود بڑی مستعدی سے یہ کام کرتے تھے۔ ان کی طرف سے جو آخری خط موصول ہوا، وہ جامعہ احمدیہ یوکے میں میرا طلباء جامعہ کو جو خطاب تھا اُس کے ترجمہ کی چیکنگ کے متعلق تھا۔ اور وہ بڑا اس پر شکر ادا کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق دے رہا ہے۔
طاہر ندیم صاحب لکھتے ہیں کہ علاء نجمی صاحب کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ انہیں نیکی کرنے کی بہت جلدی تھی۔ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ زندگی کے دن تھوڑے ہیں، اس لئے باقی دنوں کو وہ زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ سے بھردینا چاہتے تھے۔ ہر خطبہ کا ترجمہ انہیں بھجوایا جاتا تھالیکن اگر کسی وجہ سے ان کو خطبہ نہ پہنچتا تو ان کی طرف سے شکوہ کا ای میل آجاتا کہ اس دفعہ آپ نے مجھے خطبہ کیوں نہیں بھیجا؟ باوجود بینائی پر بیماری کا اثر ہونے کے وہ یہ کام تندہی سے انجام دیتے رہے۔ کئی دفعہ عربک ڈیسک کو ای میل کر کے کہتے کہ میری طبیعت بہت خراب ہے اس لئے اگرکوئی جماعتی کام ہے تو ارسال کریں۔ یعنی طبیعت کی خرابی کو ٹھیک کرنے کے لئے جماعتی کام بھی ایک دوائی ہے۔ اور بعض دفعہ یہ بھی ذکر کرتے کہ بیماری کا مَیں صرف دعا کے لئے لکھتا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب مجھے کام بھیجنا بند کر دیں۔ مومن طاہر صاحب کہتے ہیں کہ مرحوم کے ساتھ خاکسار کا گہرے پیار کا تعلق تھا۔ رضا بالقضاء، بے انتہا توکل، خلافت سے شدید محبت اور وفا۔ نظام جماعت کی اطاعت، عربک ڈیسک کی علمی کاموں میں انتھک مدد اور مہمان نوازی ان کے نمایاں اوصاف تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں کو جماعت اور خلافت سے شدید پیار سکھایا۔ انہیں اردو سکھانے کی کوشش کی۔ ان کی بڑی بیٹی نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اردو نظمیں یاد کی ہوئی ہیں۔ ہر جلسہ پرآنے کی کوشش کرتے اور باوجود کینسر جیسی موذی بیماری کے دوسرے مہمانوں کے ساتھ زمین پر سوتے۔ وہ خلافت کے ایسے مدد گاروں میں سے تھے جو نہایت خاموشی اور عاجزی سے اور زندگی کی آخری رمق تک انتھک کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ بیماری کے دوران جب بچوں کا ذکر ہوتا تو ہمیشہ یہی کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ میرے بچوں کو ضائع نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بچوں کے بارے میں اُن کی جو نیک تمنائیں اور دعائیں ہیں وہ قبول فرمائے اور خود اُن کا کفیل ہو۔ اللہ تعالیٰ عرب دنیا میں ان جیسے اور ان سے بڑھ کر خلافت کے مددگار، سلطانِ نصیر عطا فرمائے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے خاتم الانبیاء حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارفع مقام، آپ کی بلند شان اور حضور علیہ السلام کی اپنے آقا و مطاع صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا دلنشیں تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ یکم فروری 2013ء بمطابق یکم تبلیغ 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔