صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کے حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں رؤیا
خطبہ جمعہ 15؍ فروری 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے واقعات اور روایات کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، اُس کے مَیں نے مختلف عنوان بنائے تھے، جو بیان ہوتے رہے۔ آج کا خطبہ اس سلسلہ کا آخری خطبہ ہو گا۔ ویسے مَیں نے متعلقہ لوگوں کو کہا ہے کہ رجسٹر دوبارہ چیک کر لیں۔ اگر کچھ روایات رہ گئی ہوئیں توپھر کسی وقت بیان ہو جائیں گی۔
یہ حُسنِ اتفاق ہے کہ یہ خطبات فروری کے مہینہ میں ختم ہو رہے ہیں اور جن روایات پر ختم ہو رہے ہیں اُن کا تعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے۔ ایک دو روایات مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کر دی تھیں اور آج تقریباً ساری ہی وہ روایات ہیں یا رؤیا ہیں، جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متعلق ہیں۔ پانچ دن کے بعد یومِ مصلح موعود بھی منایا جائے گا۔ 20؍فروری کو جماعت میں منایا جاتا ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ مصلح موعود کی پیدائش تھی بلکہ اس لئے کہ 20؍فروری کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مصلح موعود کی جو پیشگوئی فرمائی تھی، یہ اُس کا دن ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ دلیل ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش تو 20؍فروری کی نہیں تھی۔
بہرحال یہ جو روایات مَیں بیان کرنے لگا ہوں ان میں حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت کے بارے میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے تسلیاں دلوائیں۔ جو لوگ پہلے غیر مبائعین میں شامل ہوئے تھے اُن کی پھر اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فرمائی اور وہ دوبارہ بیعت میں آ گئے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنا زمانہ گزارا ہے تو وہ بڑی سختیوں اور پریشانی کا دَور تھا۔ شروع میں انتخابِ خلافت کے وقت جو فتنہ اُٹھا، اس میں جو بڑے بڑے علماء کہلاتے تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بڑے قریبی بھی تھے وہ جماعت سے علیحدہ ہو گئے، خزانہ لے کے چلے گئے اور پھر مختلف وقتوں میں اندرونی اور بیرونی فتنے بھی اُٹھتے رہے۔ لیکن ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شاملِ حال رہی۔ یہ اولوالعزم ہر فتنہ اور ہر سختی کا بڑا مردانہ وار مقابلہ کرتا رہا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔ آخر وہی جماعت ترقی کرتی رہی جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اور جو خلافت کے ساتھ وابستہ تھے۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہ کس طرح ترقی کر رہی ہے۔
آج کی جو روایات ہیں، اب مَیں بیان کرتا ہوں۔ حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں۔ انہوں نے 1894ء میں بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے رؤیا میں حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی میں دیکھا تھا جو حضرت محمود کی خلافت کے متعلق تھا۔ جب حضرت خلیفہ اوّل ؓ کو چوٹ لگی اور آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی۔ (یہ بیماری ہے خون کے دباؤ میں یا جسم میں کسی وجہ سے سوجن وغیرہ ہو جاتی ہے اور پیٹ کی بھی خرابی ہوتی ہے) بہرحال کہتے ہیں آپ کو ماشرہ کی تکلیف ہوئی تو مَیں نے حضرت محمودؓ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ اقرار کیا تھا کہ مَیں آپ کاپہلا غلام ہوں۔ تو مجھے آپ نے فرمایا کہ سمجھ میں نہیں آیا۔ تو جناب شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی نے بتلایا کہ ان کو بذریعہ رؤیا اور الہام کے یہ بتلایا گیا ہے کہ ہم نے محمود کو خلیفہ بنا دیا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 75-76 از روایات حضرت شیخ محمد اسماعیل صاحبؓ)
حضرت امیر محمد خان صاحب ؓ۔ پچھلی روایتوں میں بھی ان کی روایتیں، امیر خان صاحب کے نام سے پڑھتا رہا ہوں۔ ان کے کسی عزیز نے مجھے لکھا کہ ان کا نام امیر محمد خان تھا۔ تو بہرحال روایت میں لکھنے والے نے تو شروع میں امیر خان ہی لکھا ہے لیکن آگے روایتوں میں ان کے ایک خط کا ذکر آتا ہے اُس سے پتہ لگتا ہے کہ اصل نام ان کا امیر محمد خان ہی ہے۔ بہرحال انہوں نے 1903ء میں بیعت کی تھی۔ کہتے ہیں کہ 23؍نومبر 1913ء کو مَیں نے خواب کے اندر ایک سرس کا درخت دیکھا جس کے ساتھ کچھ بڑی بڑی خشک پھلیاں لٹک رہی تھیں جس کی کھڑ کھڑاہٹ سے اس قدر شور پڑ رہا تھا کہ کسی کو آواز بھی سنائی نہیں دیتی تھی۔ تب اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جس سے وہ تمام سوکھی ہوئی پھلیاں جھڑ گئیں۔ اس پر حضرت اولوالعزم نے فرمایا(یعنی حضرت مصلح موعود نے خواب میں ہی فرمایا) کہ شیطان کا گھر اُجڑ گیا، برباد ہو گیا۔ اب زمین سے سبزہ اُگے گا اور غلبہ پیدا ہو گا اور میوے لگیں گے۔ اس پر بعض اشخاص نے ان خشک پھلیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ آپ نے ان کو شیطان کا گھر کیوں کہا ہے؟ اس کے جواب میں حضرت اولوالعزم نے فرمایاکہ انہیں مَیں نے شیطان کا گھر نہیں کہا، انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی شیطان کا گھر ہی کہا ہے۔ اس کے بعد مَیں نے حکیم محمد عمر صاحب کو بڑی بلند آواز کے ساتھ(یہ خواب کا ذکر کر رہے ہیں، خواب میں ہی) حضرت صاحب کی پیشگوئیاں لوگوں کو سناتے دیکھا جو کہ پوری ہو چکی تھیں اور جن کو آئندہ کی پیشگوئی کی صداقت میں بطور دلیل کے پیش کر رہے تھے۔ جن کے سننے سے سامعین کے دلوں میں ایک سکینت اور سرور پیدا ہو رہا تھا۔ کہتے ہیں سو الحمد للہ! یہ خواب تقرر خلافتِ ثانیہ کے وقت ہو بہو پورا ہوا اور مولوی محمد علی صاحب مع اپنے رفقاء کے، جنہوں نے خلافت کے خلاف شور برپا کر رکھا تھا، جماعت سے الگ ہو گئے بلکہ قادیان سے بھی نکل گئے۔ جن کے نکلنے کے بعد احمدیت خلافتِ ثانیہ کے ذریعہ چاردانگِ عالم میں پھیل گئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 147-148 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
حضرت امیر محمد خان صاحبؓ ہی بیان فرماتے ہیں کہ 24؍ فروری 1912ء بدھ وار کی رات خواب کے اندر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ (یہ جس خواب کا ذکر کر رہے ہیں، یہ حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی کی خواب ہے) کہ جب مبارک موعود آئے گا تو تخت نشین کیا جائے گا۔ اس سے مراد ہم تو جارج پنجم کی تخت نشینی لیتے تھے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ مبارک موعود سے مراد صاحبزادہ میاں محمود احمد ہیں اور تخت نشینی سے مراد آپ کی خلافت ہے۔ پھر خیال ہوا کہ آپ کی خلافت کے وقت تو دنیا میں کوئی زبردست زمینی یا آسمانی نشان ظاہر ہونا چاہئے تھے۔ تب تفہیم ہوئی کہ نشان بھی پورا ہو جائے گا۔ صاحبزادہ صاحب کی خلافت کے ذکر سے حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ بشاش ہو رہا تھا اور مَیں بھی خوش ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مَیں تو مبارک موعود کا ظہور کسی دُور کے زمانے میں سمجھتا تھا لیکن خدا کا شکر ہے کہ یہ خوش وقت بھی میری زندگی میں ہی مجھے نصیب ہوا۔ پھر خواب کے اندر خیال پیدا ہوا کہ خلیفہ تو حضرت مولوی صاحب ہیں، میاں صاحب کس طرح خلیفہ ہو گئے۔ تب تفہیم ہوئی کہ خلیفہ اوّل نے تو بہت بوڑھے ہونا نہیں کیونکہ خدا کے پیارے ارزل عمر کو نہیں پہنچتے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 142-143 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
بعض لوگ موعود کا سوال اُٹھا دیتے ہیں تو ان کو اُس زمانے میں بھی خواب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے بتا دیا۔
حضرت خیر دین صاحبؓ جن کی بیعت 1906ء کی ہے، فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا داہنا ہاتھ گیارہ کرم لمبا ہو گیا ہے۔ (کرم ایک پیمانہ ہے جو دیہاتوں میں زمینوں کی پیمائش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، ساڑھے پانچ فٹ کا۔ یعنی پچپن ساٹھ فٹ لمبا ہو گیا) اس میں بتایا ہے کہ خدا نے ان کو غیر معمولی طاقت عطا فرمائی ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ اسی حالت میں دیکھا کہ آپ کا چہرہ مبارک مغرب کی طرف ہے اور ایک چھوٹی سی دیوار پر رونق افروز ہیں اور آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضور آپ روتے کیوں ہیں ؟ آپ نے فرمایا اس واسطے روتا ہوں کہ لوگ مجھے معبود نہ بنالیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 161 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ ہی روایت کرتے ہیں کہ کچھ دن ہوئے ایک خواب دیکھا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو چھٹیاں دے رہے ہیں۔ وہ چھٹیاں اُن آدمیوں کی ہیں جن کے مقام آسمان میں ہیں۔ ان کے درجہ کے مطابق ہر ایک کو چھٹی دیتے ہیں۔ مَیں نے خیال کیا کہ مَیں بھی حضور سے پوچھتا ہوں کہ آیا میرے لئے آسمان میں کوئی مقام ہے۔ چنانچہ مَیں نے پوچھا کہ حضور! میرے لئے بھی آسمان پر مقام ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں تمہارے لئے بھی آسمان میں جگہ ہے۔ ان سب باتوں سے مَیں نے یہی سمجھا ہے کہ جو کچھ خاکسار کو نظر آ چکا ہے یا نظر آ رہا ہے، یہ سب کچھ نورِ نبوّت کی شعاعوں سے ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 161 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ سکنہ جموں فرماتے ہیں۔ دسمبر 1891ء کی ان کی بیعت ہے کہ مجھے 1931ء میں کشفی حالت میں ایک بچہ دکھایا گیا جس سے سب لوگ بہت پیار کرتے تھے۔ مَیں نے بھی اُسے گود میں اُٹھا لیا اور پیار کیا۔ اگرچہ وہ چھوٹا سا بچہ ہے مگر لوگ کہتے ہیں کہ اس کی عمر تینتالیس سال کی ہے۔ مجھے القاء ہوا کہ اس کشف میں جو بچہ دکھایا گیا ہے وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح ہیں۔ 1931ء میں آپ کی عمر تینتالیس سال کی تھی۔ اور یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی اشعار میں درج ہے کہ ؎
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا ایک دن محبوب میرا
اس میں لفظ ’’ایک‘‘ میں بھی اشارہ 1931ء کی طرف ہے کیونکہ بحساب ابجد ’’ایک‘‘ کے عدد31 ہیں۔ یعنی الف، ی، ک۔ ایک جو ہے اُس کے عدد جو ہیں وہ ابجد کے حساب سے 31 بنتے ہیں اور روحانی ترقی کا کمال بھی چالیس سال کے بعد شروع ہوتا ہے اس لئے اس کشف میں بچہ 43کا دکھایا گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 84-85 از روایات حضرت خلیفہ نور الدینؓ صاحب سکنہ جموں)
حضرت رحم الدین صاحبؓ ولد جمال دین صاحب فرماتے ہیں، ان کی بیعت 1902ء کی ہے کہ خلافتِ ثانیہ کے وقت مَیں نے رؤیا دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب ایم اے کرسی پر بیٹھے ہیں اور میاں صاحب حضرت خلیفہ ثانی پاس کھڑے ہیں۔ تب میرے دیکھتے دیکھتے مولوی محمد علی صاحب کا چہرہ اور جسم چھوٹا ہونا شروع ہوا اور بالکل چھوٹا ہو گیا جیسے بچہ کا جسم ہوتا ہے اور حضرت میاں صاحب کا جسم بڑھتے بڑھتے بہت لمبا(یعنی آپ کے قد سے بھی زیادہ قد وغیرہ ہو گیا) اور بڑے رعب و جلال والا ہوگیا۔ تب مَیں بہت متعجب ہوا اور جس وقت صبح ہوئی تو تمام شکوک و شبہات دل سے نکل گئے اور میں نے آپ کی بیعت کر لی۔ (پہلے ان کے دل میں کچھ شکوک تھے۔ ) الحمدللہ علیٰ ذالک۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 34 از روایات حضرت رحم الدین صاحبؓ)
پھر حضرت امیر محمد خان صاحبؓ کی ہی روایت ہے۔ کہتے ہیں جن دنوں قبل از خلافت حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی حج کو تشریف لے گئے تھے، اُن ایام میں مَیں نے خواب کے اندر مسلمانوں کو کفار کے ہاتھ گھرے ہوئے دیکھا۔ (یعنی کفار نے مسلمانوں کو گھیرا ہوا ہے) جب کوئی صورت چارۂ کار نہ رہی تو ہم میں سے ایک شخص آسمان کی طرف اُڑا اور وہ آسمان سے قوی ہیکل مخلوق کو ساتھ لایا جس نے آتے ہی کفار کو بھگا دیا۔ چنانچہ مَیں نے یہ خواب حضرت اولوالعزم کی خدمتِ بابرکت میں آپ کے حج کے سفر میں مکہ مدینہ میں تحریر کیا اور عرض کیا کہ حضور کا یہ سفر خدا کی رضا اور اُس کے قرب کے حصول کا ذریعہ ہو۔ اور خواب میں مَیں نے جو کسی کو آسمان پر جاتے دیکھا اس سے مراد آپ کا سفرِ حج ہو۔ اور قوی ہیکل مخلوق کے نزول سے آپ کی دعاؤں کے ذریعہ فرشتوں کا نزول ہو جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کفّار کو نیست و نابود کرے۔ چنانچہ میرا خیال ہے کہ حضور نے حج سے واپسی پر مسجد نور میں تقریر فرماتے ہوئے میرے اس خط کا ذکر بھی فرمایا تھا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 141 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
پھر حضرت امیر محمد خان صاحبؓ ہی فرماتے ہیں کہ 20؍ جنوری 1913ء کو مَیں نے نمازِ عشاء میں دعا کی کہ اے اللہ! تو مجھے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دیگر بزرگوں کی زیارت خواب کے اندر نصیب فرما۔ جب مَیں سو گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں بہت سے بزرگانِ دین جمع ہیں اور سب کے سب دعا میں مشغول ہیں جن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی ہیں اور آپ کے اور میرے آگے چمبیلی کے پھول ہیں جن کی ہم خوشبو لے رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجھے فرمایا کہ پھولوں کو سونگھتے وقت ناک سے نہیں لگانا چاہئے بلکہ ذرا ناک سے فاصلے پر رکھنے چاہئیں تا کہ پھولوں کی خوشبو نفاست سے آئے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 143-144 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
حضرت امیر محمد خان صاحب ہی کہتے ہیں کہ دسمبر 1913ء کی رات مَیں نے خواب میں حضرت میاں صاحب اولوالعزم کے ہمراہ ایسے گھروں کا نظارہ دیکھا جن کے نیچے سمندر گھس آیا ہے اور وہ بے خبری میں تباہی کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جن کی تعبیر منکرینِ خلافت کے انکارِ خلافت سے پوری ہوئی۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 149 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
پھر کہتے ہیں کہ 13، 14 فروری 1930ء کی درمیانی رات کو میں نے خواب میں دیکھا کہ مَیں ایک زینہ پر چڑھ رہا ہوں اور میرے پیچھے حضرت اُمّ المومنینؓ صاحبہ بھی چڑھ رہی ہیں۔ جب مَیں نے حضورکی طرف دیکھا تو مَیں بوجہ آپ کے ادب کے گھبرا گیا۔ (یعنی حضرت امّ المومنینؓ کی طرف دیکھا تو گھبرا گیا۔ ) مگر حضرت امّ المومنینؓ صاحبہ نے ازراہِ شفقت فرمایا کہ ڈرو مت۔ تم بھی ہمارے بچے ہی ہو۔ پھر مَیں ایک زینہ سے ہو کر ایک اور مکان کے اندر چلا گیا اور وہ مکان بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی مکان ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام میں مجھے ملازمت ملتی ہے مگر تنخواہ میری سب انسپکٹری کی تنخواہ سے بہت کم ہے جسے مَیں نے مشورہ کے بعد قبول کر لیا۔ پَر مجھے ایک شخص پوچھتا ہے کہ تم نے پہلی ملازمت کس لئے چھوڑ دی۔ مَیں نے کہا کہ فلاں شخص نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ پھر ایک اور شخص یا وہی شخص مجھے پوچھتا ہے کہ تم دیر سے کیوں آئے؟ مَیں نے کہا کہ میرے جو مہمان آئے ہوئے تھے وہ بیمار تھے اُن کی تیمارداری کی وجہ سے دیر ہو گئی۔ جس پر حضرت ام المومنینؓ صاحبہ نے فرمایا کہ تیمار داری کی وجہ سے دیرہو ہی جایا کرتی ہے۔ پھر اس کے بعد مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ چند آدمی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے مکان میں گھس آئے ہیں اور وہ شورش کرنا چاہتے ہیں۔ میرے ہاتھ میں تلوار ہے۔ مَیں نے تلوار سے سب کو بھگا دیا۔ پھر جب مَیں واپس اندر آیا تو دیکھا کہ ایک شخص پھر تلوار لئے اندر گھس آیا ہے۔ مَیں نے اپنی تلوار سے اُس کی تلوار کاٹ دی اور وہ عاجز سا ہو گیا۔ اتنے میں اور چند آدمی حضرت خلیفہ ثانی کو گھیرے میں لئے جا رہے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجھے آواز دی۔ مَیں نے اس ہجوم کو بھی منتشر کیا اور ایک اور شخص کو جو کہ فتنہ کا بانی مبانی تھا، اُسے تلوار سے قتل کرنا چاہا مگر وہ میری طرف منہ کر کے پیچھے کی طرف ہٹتا گیا اور مَیں بھی اُسے آگے رکھ کر اُس کی طرف بڑھتا گیا یہاں تک کہ مَیں نے اُس کو گھیر کر قتل کر دیا اور پھر جب مَیں اندر واپس آیا تو حضرت اُمّ المومنین صاحبہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجھے دودھ پلایا۔ ایک شخص مجھے دودھ پیتے دیکھ کر کہنے لگا کہ تم دودھ کیوں پیتے ہو؟ مَیں نے کہا کیا دودھ برا ہے۔ دودھ پینا تو بہت اچھا ہے۔ پھر میری آنکھ کھل گئی اور مَیں نے یہ خواب بذریعہ خط حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت بابرکت میں ارسال کیا۔ حضور نے 05/03/30کو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کے ذریعہ جواب تحریر فرمایا کہ خواب اچھی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے کوئی سلسلہ کی خدمت لے لے گا۔ اس کے بعد اپریل ؍30ء کو پھر مَیں نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھا کہ بحضور سیدنا و امامنا حضرت امیر المؤمنین۔ السلام علیکم۔ (یہ شعر لکھا ہے اُس پہ کہ)
ہر بلا کیں قوم را حق دادہ است
زیر آں گنج کرم بنہادہ است
مستریوں کی فتنہ انگیزی اور پولیس کی ناجائز کارروائی سن کر دل قابو سے نکلا جا رہا ہے۔ تھوڑا ہی عرصہ ہوا تو مَیں نے خواب میں شریروں کا ایک گروہ حضور کے گرد جمع دیکھا جسے مَیں نے بذریعہ تلوار کے منتشر کیا اور ان کے سرغنہ کو قتل کیا۔ یہ خواب مَیں نے حضور کی خدمت میں تحریر کیا تھا۔ جس پر حضور نے رقم فرمایا تھا کہ ’’خدا تعالیٰ تم سے کوئی خدمتِ دین لے لے گا‘‘۔ سو مَیں اس خدمت کی ادائیگی کے لئے نہایت بے تابی سے چشم براہ ہوں لیکن مَیں نہیں جانتا کہ یہ کس طرح ادا ہو گی۔ سوائے دعا اور خدا کی استمداد کے اَور کوئی ذریعہ نہیں پاتا۔ حضور سے التجا ہے کہ میرے لئے دعا فرمائی جائے کہ خدا میری کمزوریوں سے درگزر فرما کر میری دعاؤں کو قبول فرمائے اور مجھے خدمتِ دین کے حصول کا عملی موقع عطا کرے۔ والسلام امیر محمد خان، سب انسپکٹر اشتمال اراضیات، ضلع جالندھر۔ کہتے ہیں کہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ سات سال کے بعد میری یہ خواب حرف بحرف پوری ہوئی یعنی 1924ء میں مَیں نے ایک اعلیٰ افسر کے ایماء پر ملازمت سے استعفیٰ دیا جو بعد میں اُس کی دھوکہ دہی ثابت ہوئی کیونکہ اُس نے بعض وجوہات کی بناء پر مجھے کہا تھا کہ مَیں بھی ملازمت چھوڑ رہا ہوں، تم بھی چھوڑ دو۔ لیکن پتہ لگا کہ اُس نے خود اب تک ملازمت نہیں چھوڑی اور اشتمال اراضیات میں مجھے 90 روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی اور اب قادیان میں صرف 20 روپے لے رہا ہوں ’جیسا کہ خواب میں بتلایا گیا تھا‘ اور ملازمت بھی انجمن کی نہیں بلکہ تحریکِ جدید کی ہے جو خاص حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک ہے اور 1934ء سے ملازمت سے برطرف ہو کر آخر 1936ء تک بوجہ خانگی کاروبارگھر پر رہا اور اب یہاں آ کر خوارج کے فتنہ کو بچشمِ خود دیکھا اور دعاؤں کی توفیق پائی اور فخر الدین صاحب بانی سرغنہ کے قتل کا واقعہ بھی بچشمِ خود دیکھا۔
عطا کیں تُو نے میری سب مرادات
کرم سے تیرے دشمن ہو گئے مات
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 6 صفحہ 152-156 از روایات حضرت امیر محمد خان صاحبؓ)
حکیم عطا محمد صاحبؓ جن کی بیعت 1901ء کی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی بیعت کے غالباً ایک ماہ بعد حکیم احمد دین صاحب شاہدرہ سے لاہور میرے مکان پر آئے اور فرمانے لگے کہ چلو آج محمد علی صاحب سے مسئلہ نبوت پر کچھ گفتگو کرنی ہے۔ مَیں بھی اُن کے ساتھ ہو گیا۔ وہاں مسجد میں دوستانہ طور پر حکیم احمد دین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے گفتگو شروع کر دی۔ کوئی پندرہ بیس منٹ تک سلسلہ جاری رہا۔ اس بات پر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی تھے کہ نہیں تھے۔ کہتے ہیں بعد میں ہم سب اپنے اپنے گھر آ گئے۔ رات کو مَیں نے دعا کی کہ الٰہی! مولوی محمد علی نے جو بیان کیا ہے وہ کچھ سچ معلوم ہوتا ہے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت کے بارے میں کچھ شبہ ڈال دیا) میرے دل کو تُو خود ہی سنبھال۔ مَیں نے رات کو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تیزی سے گھبرائے ہوئے آئے ہیں اور فرمایا کہ وہ دیکھو۔ مَیں نے دیکھا کہ ایک کبوترباز نہایت غصّہ سے بھرا ہوا اُس کبوتر کی طرف دیکھ رہا ہے جو کہ دوسرے کبوترباز کی چھتری پر جا بیٹھا ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ دیکھو! کبوترباز کو جو کہ دوسرے کی چھتری پر جا بیٹھے، نہایت حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے تم بھی کبھی پیغام بلڈنگ میں نہ جایا کرو۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضرت! مَیں کبھی نہیں جاؤں گا۔ پھر میری نیند کھل گئی اور اللہ کے فضل کا شکریہ ادا کیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر7 صفحہ 179 از روایات حضرت حکیم عطا محمد صاحبؓ)
ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑکؓ جنہوں نے 1907ء میں بیعت کی فرماتے ہیں کہ زمانہ گزرتا گیا اور حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات ہو گئی۔ نیروبی کے تمام احمدیوں نے اُس وقت حضرت خلیفہ ثانی کی بیعت کر لی مگر مَیں اور محمد حسین صاحب بٹ مرحوم اور خواجہ قمر الدین صاحب مرحوم محروم رہے۔ اور ہم نے بیعت نہ کی۔ بعد ازاں مجھے ہندوستان جانے کا موقع ملا تو مَیں ملازمت سے الگ ہو گیا تھا۔ لڑائی شروع ہو گئی اور مَیں ہندوستان میں رہا اور پھر وہیں ہندوستان میں مجھے میڈیکل کالج لاہور میں ہیڈ لیبارٹری اسسٹنٹ کی ملازمت مل گئی۔ اُن دنوں مَیں پیغام بلڈنگ بہت جایا کرتا تھا اور طبیعت کا رجحان اور خیالات اہلِ پیغام کے ساتھ ہی تھے۔ وہاں نماز پڑھا کرتا اور درس بھی وہیں سنا کرتا اور وقتاً فوقتاً اختلافی مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوتا رہتا تھا۔ جناب ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب مرحوم سے مَیں نے ایک دفعہ دریافت کیا کہ اس اختلاف میں کون حق بجانب ہے۔ اس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کہا کہ سمجھدار لوگ تو سب ہمارے ساتھ ہیں۔ (جتنے بڑے بڑے سمجھدار ہیں وہ تو ہمارے ساتھ آ گئے ہیں۔ ) اُنہی دنوں مَیں حاجی محمد موسیٰ صاحبؓ کی دوکان پر بھی جایا کرتا تھا۔ وہاں منشی محبوب عالم صاحبؓ جو آجکل راجپوت سائیکل ورکس کے پروپرائٹر ہیں اُن سے بھی ملا کرتا تھا اور اختلافی مسائل پر گرما گرم گفتگو ہوا کرتی تھی۔ منشی صاحب کچھ سخت الفاظ بھی استعمال کیا کرتے تھے مگر مَیں سمجھتا تھا کہ منشی صاحب سخت کلامی کرتے ہیں۔ (یعنی عادت ہے، عادتاً کرتے ہیں ) چنانچہ منشی صاحب نے ایک دفعہ مجھے کہا کہ تم پیغام بلڈنگ میں کیا کرنے جاتے ہو؟ مَیں نے کہا کہ قرآنِ مجید کا درس دینے جاتا ہوں۔ (میرا خیال ہے ’سننے جاتا ہوں ‘، ہونا چاہئے) کہنے لگے روزانہ وہاں جاتے ہو آج ہمارے ساتھ بھی قرآنِ مجید سننے کے لئے چلو۔ اُن دنوں نماز میاں چراغ الدینؓ صاحب مرحوم کے مکان پر ہوا کرتی تھی اور درس بھی وہیں ہوتا تھا جو حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ دیا کرتے تھے۔ جب مَیں پہلی دفعہ گیا تو پارہ ’’سَیَقُوْلُ‘‘ کے پہلے ہی رکوع کا درس تھا۔ (دوسرے پارے کا۔ ) مولانا راجیکیؓ صاحب ایک روانی کے ساتھ مستحکم اور مدلل طور پر قرآنِ مجید کی تفسیر کر رہے تھے جو مَیں نے اس سے پیشتر کبھی نہ سنی تھی۔ اُس وقت مولوی صاحب کی شکل کو جب مَیں نے دیکھا تو میرا خیال تھا کہ یہ شخص تو کوئی جاٹ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے کیا درس دینا ہے؟ مگر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی جب مَیں نے دیکھا کہ مولوی صاحب سے نکات و معارف کا دریا رواں ہے۔ چنانچہ مَیں نے منشی محبوب عالمؓ صاحب کے پاس بھی مولوی صاحب کی تعریف کی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تمہارے مولوی محمد علی صاحب نے بھی ان سے قرآن کا علم حاصل کیا ہے۔ اُن دنوں میں کچھ تذبذب کی حالت میں تھا کہ مَیں نے ایک رؤیا دیکھی کہ ایک مسجد ایسی ہے جیسی کہ بٹالہ کی جامع مسجد اور اس مسجد کے عین وسط میں بیٹھے ہوئے مجھے خیال آ رہا ہے کہ پانی کہیں سے لے کر وضو کر کے نمازپڑھیں۔ ادھر ادھر دیکھ کر مَیں نے خیال کیا کہ پانی وہاں نہیں ہے۔ (مسجد میں بیٹھے ہوئے یہ سوچا کہ اس مسجد میں پانی نہیں ہے۔ ) اس لئے مَیں بالمقابل پانی کی تلاش میں گیا تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ایک مسجد ہے جیسا کہ وہ پیغام بلڈنگ کی مسجد ہے جس میں پانی کی نلکیاں لگی ہوئی ہیں۔ مَیں وہاں پر وضو کرنے کے لئے نلکی کھولتا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صاف پانی آیاہے مگر معاً بعد گدلا سا پانی جس میں میل کی سی کثافت ہے، جس کو پنجابی میں پنہ اور انگریزی میں Algae کہتے ہیں، (کائی جو کہتے ہیں، وہ پانی میں سے) نکلا ہے اور میرے ہاتھوں پر پڑ گیا جس سے مَیں نے خیال کیا یہ تو بڑا میلا پانی ہے اور وہ ختم بھی ہو گیا۔ اس کے بعد مَیں نے اُسی مسجد کی طرف(یعنی جو پہلی مسجد تھی، جہاں بیٹھا ہوا تھا) واپسی کا ارادہ کیا اور وہ دیوار جو کہ اونچی معلوم ہوتی ہے اس پر مَیں چڑھ رہا ہوں تو ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب نے میرے پیچھے سے آ کر ٹانگ پکڑ لی ہے کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا۔ (غالباً یہ دوبارہ اُسی مسجد کا ذکر کر رہے ہیں جس میں ابھی وضو کررہے تھے) کہ تم یہاں کیوں آئے تھے؟ پھر یہاں نہ آنا۔ مَیں کہتا ہوں کہ مجھے آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے بعد جب مَیں اسی مسجدکی طرف واپس گیا ہوں تو وہاں پر نہایت مصفٰی پانی کا ایک حوض ہے۔ (یعنی جہاں بیٹھے ہوئے تھے، وہاں واپس گئے تو مصفّٰی پانی کا ایک حوض نظر آیا) اور حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ ایک حدیث کی کتاب کا درس دے رہے ہیں جو حنائی کاغذ پر چَھپی ہوئی ہے اور اُس کے حاشیوں پر بھی گنجان چھپا ہوا ہے۔ مَیں یہ خیال کرتا ہوں کہ یہاں تو پانی کثرت کے ساتھ ہے اور مَیں پہلے بھولا ہی رہا۔ خیر جس وقت مَیں وضو کر کے ہاتھ اُٹھاتا ہوں تو مستری محمد موسیٰؓ صاحب کا لڑکا محمد حسین تلوار لے کر میرے سر پر کھڑا ہے اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ اس کو حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے میرے متعلق یہ حکم ہے کہ مَیں منافق ہوں اور مجھے قتل کر دیا جائے۔ مَیں نے محمد حسین صاحب کی طرف مڑ کر دیکھا کہ تم ایک مومن کو قتل کے لئے تلوار اُٹھاتے ہو۔ تمہیں معلوم نہیں کہ مَیں مومن ہوں ؟ اُس کے بعد نظارہ بدل گیا اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مَیں ہاتھ میں تلوار لئے ہوئے ہوں اور چھوٹے چھوٹے لڑکے سرخ اور سفید رنگ کی وردیاں پہنے ہوئے جیسا کہ مولی ہوتی ہے ماتم کر رہے ہیں اور محرم کے دن معلوم ہوتے ہیں۔ مَیں تلوار لے کر ان لڑکوں کی طرف جاتا ہوں اور کہتا ہوں چلے جاؤ۔ چنانچہ وہ لڑکے بھاگ گئے۔ اُس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میرے لڑکے عبدالغفور خان کا مکان ہے اور مَیں اُس کمرے میں داخل ہونے کے لئے جب جاتا ہوں تو پولیس کے سپاہی تلاشی لینے کے لئے آتے ہیں اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ میرے پاس جو تلوار بغیر لائسنس ہے، اس کی تلاشی کے لئے آئے ہیں۔ مگر مَیں دل میں خیال کرتا ہوں کہ یہ تلوار تو مَیں افریقہ سے لایا ہوں۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا کو مَیں نے شاید چند ایک دوستوں کے پاس بھی بیان کیا اور شاید مجھے مستری محمد موسیٰ ؓ صاحب نے کہا کہ کاش کہ خواب میں قتل کر دئیے جاتے تو بہت اچھا ہوتا کہ منافقت بالکل مٹ جاتی۔ (اسے دیکھنے کے بعد بھی انہوں نے بیعت نہیں کی تھی) یہ کہتے ہیں اس کے بعد پھر مَیں نے حضرت خلیفہ ثانیؓ کی بیعت کر لی اور پھر مَیں خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ سے اخلاص و محبت میں ترقی کرتا گیا۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 221 تا 227 از روایات حضرت ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑکؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ فرماتے ہیں کہ جب احرار کا فتنہ بھڑکا تو خاکسار نے دیکھا کہ حضرت امیر المومنین کے ایک طرف یوسف نامی شخص لیٹا ہوا ہے اور دوسری طرف حضور کے شیر محمد لیٹا ہوا ہے۔ تو اس میں جنابِ الٰہی نے یہ بتایا کہ واقع میں یہ یوسف تو ہے مگر بعض لوگ حضور کی ترقی کو دیکھ کر جل رہے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ کیونکہ غیر معمولی خدائی طاقت ہے اس لئے جلنے والے کچھ نہیں کر سکیں گے۔ گویا یہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس شعر کے مطابق ہے۔
یوسف تو سن چکے ہو اِک چاہ میں گرا تھا
یہ چاہ سے نکالے جس کی صدا یہی ہے
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت ڈاکٹر نعمت خان صاحبؓ بیان کرتے ہیں۔ 1896ء کی ان کی بیعت ہے کہ جب خلافتِ ثانیہ کا وقت آیا تو مَیں نے بیعت کا خط حضرت امیر المومنین کی خدمت میں لکھا اور اُن دنوں میں شاید رخصت پر ریاست نادون ضلع کانگڑہ میں اپنے گھر پر تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ان کا خط آیا۔ (یعنی یہ حضرت مولوی غلام حسین صاحب پشاوری کا ذکر کر رہے ہیں کہ ان کا خط آیا۔ یہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے سسر تھے لیکن انہوں نے پہلے شروع میں بیعت نہیں کی تھی بلکہ پیغامیوں کے ساتھ چلے گئے تھے۔ ) کہتے ہیں اُن کا مجھے خط آیا اور اُس میں بیعت فسخ کرنے کے متعلق یہ لکھا ہوا تھا کہ فسخ کر دو۔ حضرت خلیفہ ثانی کی جو بیعت ہے وہ فسخ کر دو۔ چونکہ میرا تعلق اُن سے بہت عرصہ رہا تھا اس لئے اصلیت کو نہ سمجھا اور مَیں نے فسخ بیعت کے متعلق پیغامِ صلح میں لکھ دیا۔ اعلان ہو گیا اور اُن کے ساتھ یعنی پیغامیوں کے ساتھ میں ہو گیا۔ لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ خاندانِ نبوت کے متعلق میرے وہی خیالات رہے جو پہلے تھے اور کبھی مجھ سے بے ادبی کے الفاظ نہ نکلے۔ (یعنی حضرت مسیح موعود کی جو اولاد تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی وغیرہ، ان کے متعلق کوئی بے ادبی کے الفاظ نہیں نکلے) یہی حالت مدت تک رہی۔ ان کے ایک دو جلسوں میں بھی شامل ہوا۔ (یہ جو مَیں نے شروع میں ان کایعنی مولوی غلام حسین صاحب کا ذکر کیا ہے ناں، تو انہوں نے بیعت نہیں کی تھی لیکن 1940ء میں انہوں نے پھر بیعت کر لی تھی اور مبائعین میں شامل ہو گئے تھے پھر قادیان ہی آ کر رہے ہیں۔ ) بہرحال یہ کہتے ہیں کہ مَیں جلسوں میں بھی شامل ہوا۔ 1930ء یا اس سے پہلے، ایک رات مَیں نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑی حویلی سمندر کے کنارے پر ہے اور پانی کی لہریں زور شور سے اس کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور بہت شور ہوتا ہے۔ اُس حویلی کے اندر سے مولوی محمد علی نکلے توکیا دیکھتا ہوں کہ اُن کے چہرے کا نصف حصہ سفید اور نصف سیاہ تھا۔ معاً میرے دل میں خیال ہوا کہ ان کی پہلی زندگی یعنی پہلی حالت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کی اچھی تھی اور اُس کے بعد کی سیاہ ہو گئی۔ اُس کے بعد جب اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ہدایت کی طرف لاتا ہے تو اُس کے اسباب بھی ایسے پیدا کر دیتا ہے جو اس کی ہدایت کا موجب ہو جاتے ہیں۔ مَیں 1932ء میں اپنے گھر پر تھا۔ میرے اہلِ خانہ سرگودھا میں تھے کہ ڈاکٹر محمد یوسف صاحب امریکہ والوں کا، جو میرے رشتہ دار ہیں، خط پہنچا کہ آپ بہت جلد قادیان آجاویں۔ کیونکہ مَیں نے امریکہ جانا ہے اور مکان کا بنوانا آپ کے ذمہ ہے۔ (قادیان میں جو مکان بنوانا تھا، اُس کی نگرانی آپ کریں ) کہتے ہیں اس پر مَیں اپریل 1932ء میں قادیان آ گیا اور مکان تیار کرایا۔ میرے اہلِ خانہ بھی یہاں آ گئے۔ یہاں آ کر دیکھا تو عجیب ہی کیفیت نظر آئی۔ نیا آسمان اور نئی دنیا نظر آنے لگی۔ نمازوں میں شامل ہونا، حضرت صاحب کے خطبات کا سننا اور تقریروں کا سننا، اس نے ایسا اثر ڈالا کہ جو مغالطے دئیے گئے تھے وہ آہستہ آہستہ دور ہونے لگے۔ اتفاق سے مَیں قادیان سے نادون گیا تو مہاشہ محمد عمر تبلیغ کے واسطے وہاں آئے ہوئے تھے۔ اثنائے گفتگو مجھے کہنے لگے کہ آپ بیعت کا فارم بھر دیں۔ مَیں نے بیعت کا فارم بھر دیا اور دل کی سب کدورتیں دور ہو گئیں اور خداوند تعالیٰ نے اپنے فضل کے سائے میں لے لیا اور مجھ جیسے عاصی کو دوبارہ زندگی بخشی ورنہ میرے ساتھی ابھی تک نخوت کی ذلت میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دل تو اُن کا اندر سے محسوس کرتا ہے کہ ہم نے بڑی غلطی کی لیکن ظاہراً امارت اُن کے حق کے قبول کرنے میں مانع ہے اور یہی اُن کا جہنم ہے جس میں وہ ہر وقت پڑے جلتے ہیں۔ دل تو اُن کا چاہتا ہے کہ مان لیں لیکن ناک کے کٹنے کا خوف ہے۔ خداوند تعالیٰ ہدایت دے۔ میرے حال پر تو اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کیا۔ قریباً دو سال کا عرصہ ہوا کہ ایک رات خواب میں دیکھتا ہوں کہ آسمان سے ایک سنہری صندوق منقش ہوئے بہت ہی چمکدار اور روشن اترا اور معلق ہوا میں آ کر ٹھہر گیا۔ اتنے میں ایک تاج منقش سنہری اترا اور وہ صندوق پر ٹھہرنا چاہتا ہی تھا کہ مَیں نے پرواز کر کے اُس کو اپنے دونوں بازوؤں سے تھام لیا۔ اس کا تھامنا تھا کہ تمام دنیا کے کناروں سے یک زبان آواز سنائی دی کہ ’’اسلام کی فتح‘‘ اور ایسا شور ہوا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اور اُسی وقت میرے دل میں یہ ڈالا گیا تھا کہ تاج برطانیہ کا ہے۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 4 صفحہ 4 تا 6 از روایات حضرت ڈاکٹر نعمت خان صاحبؓ)
حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ فرماتے ہیں کہ مئی 1938ء(میں) جس وقت احرار کا بہت زور تھا، اُس وقت مَیں نے دعا کرنی شروع کی اور درود شریف کثرت سے پڑھنا شروع کر دیا۔ (احرار نے جماعت کے خلاف بہت زیادہ شورش اُٹھائی تھی) کہ یا ربّ! میرے پیر کی عزت رکھیں، دشمن کا بہت زور ہے۔ تو مجھ کو سرورِ کائنات محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ تین اونٹ ہیں۔ ایک اونٹ پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر بھی اُس کے اوپر ہیں۔ اور صحابی دوسرے اونٹوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب نے فرمایا کہ سوہنے خاں ! تم آ گئے ہو؟ جاؤ اور قدم آہستہ آہستہ چلنا تا کہ دشمن پر رعب ہو جاوے۔ حضور کا غلام آگے آگے چلا۔ جب دس قدم چلا تو حکم ہوا کہ سوہنے خاں ! تم پیچھے ہو جاؤ، تمہارا پاؤں شور کرتا ہے۔ سرورِ کائنات اونٹ سے اُتر کر پیادہ ہو کر آگے چلنے لگے۔ جب مسجد مبارک کے(قادیان کی مسجد مبارک کے) پاس پہنچے تو سب صحابی اونٹوں سے اُتر کر اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد مبارک میں بھی چلے گئے۔ سب صحابیوں کو مسجد مبارک میں چھوڑ کر(صحابی بھی ساتھ تھے، مسجد مبارک میں چلے گئے) پھر مسجد مبارک کی جو کھڑکی لگی ہوئی ہے، وہاں سے گزر کر خلیفہ ثانی کے گھر پہنچ گئے۔ (یہاں ان کی خواب ختم ہوتی ہے)۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 200-201 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)
حضرت خیر دین صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیں نے دیکھا کہ امیر کابل کہتا ہے کہ مَیں نے اپنا پیسہ بھیج دیا ہے۔ پیچھے آپ بھی آ رہا ہوں۔ جب مستریوں نے ایک فتنہ برپا کیا(یہ مستریوں کا جو فتنہ تھا، یہ وہاں قادیان میں ایک اندرونی فتنہ تھا، انہوں نے بڑا شور مچایا تھا) تو اُس وقت مَیں نے دیکھا کہ حضرت خلیفہ ثانی آسمان پر ٹہل رہے ہیں۔ گویا اس میں یہ بتایا کہ اُن کا اتنا اونچا مقام ہے کہ اُن کے مقام تک پہنچنا نہایت ہی مشکل ہے، گویا محال ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ دنیا کے لوگ جتنا چاہیں زور لگا لیں خدا کے فضل سے ان کا کوئی نقصان نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ اُن کا قدمِ مبارک بہت بلندی پر ہے۔ یہ حضور علیہ السلام کے اس شعر کے ماتحت ہے کہ ؎
آسماں کے رہنے والوں کو زمیں سے کیا نقار
(ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 7 صفحہ 160 از روایات حضرت خیر دین صاحبؓ)
حضرت میاں سوہنے خان صاحب فرماتے ہیں کہ اب مَیں صداقت خلیفہ ثانی بیان کرتا ہوں جو میرے پر ظاہر ہوئی۔ جس وقت احرار کا بہت زور تھا اور مستریوں نے بھی حضور پر بہت تہمت لگائی تھی۔ مَیں نے دعا کرنی شروع کر دی کہ اے اللہ! میرے پیر کی عزت رکھ۔ وہ تو میرے مسیح کا بیٹا ہے۔ بہت دعا کی اور بہت درود شریف اور الحمد شریف پڑھا اور دعا کرتا رہا۔ خواب عالمِ شہود میں ایک شخص میرے پاس آیا۔ اُس نے بیان کیا کہ مشرق کی طرف بڈھا گاؤں میں مولوی آئے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم نے جڑ سے اکھیڑ دینا ہے۔ اور بندہ(یعنی یہ میاں سوہنے خان صاحب) کہتے ہیں کہ میں، برکت علی احمدی اور فتح علی احمدی کو اپنے ساتھ لے کر خواب میں ہی اُن کی طرف روانہ ہوا۔ جہاں مولوی آئے ہوئے تھے۔ جب وہ موضع پنڈدری قد پہنچے، اُس وقت نماز عصر کا وقت ہو گیا۔ مَیں نے امام بن کر ہر دو احمدیوں کو نماز پڑھانی شروع کر دی۔ اتنے میں خِرد خان اور غلام غوث احمدی پھگلانہ بھی آ گئے۔ مَیں نے آسمان کی طرف دیکھا۔ آسمان پر دو چاند ہیں۔ ایک چاند بہت روشن ہے۔ دوسرا جو مربع شکل اُس کے ساتھ لگا ہوا ہے، وہ بے نور ہے۔ روشنی نہیں ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس میں روشنی ہونی شروع ہو گئی۔ غرضیکہ وہ چاند دوسرے چاند کے برابر روشن ہو گیا۔ مَیں نے دعا کی، یہ دونوں ایک قسم کے روشن ہو گئے۔ اُس وقت مجھے آواز آئی کہ پہلا چاند مرزا صاحب مسیح موعود ہیں اور یہ دوسرا چاند جو اب روشن ہوا ہے یہ میاں بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی ہیں۔ (ماخوذ از رجسٹر روایاتِ صحابہ۔ غیرمطبوعہ جلد نمبر 12 صفحہ 199-200 از روایات حضرت میاں سوہنے خان صاحبؓ)
جیسا کہ مَیں نے کہا مستریوں کا بھی قادیان میں بڑا فتنہ اُٹھا تھا، جس میں حضرت خلیفہ ثانیؓ پر بڑے غلیظ الزامات بھی ان لوگوں نے لگائے تھے اور مقدمہ بھی قائم کیا تھا۔ اس کا خلاصۃً کچھ ذکر کر دیتا ہوں، اکثر کو شاید نہیں پتہ ہو گا۔ ویسے تو یہ تفصیل پڑھنے والی ہے۔ حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ایک مقدمہ پچھلے دنوں میرے خلاف کیا گیا کہ گویا مَیں نے آدمی مقرر کئے تھے کہ بعض لوگوں کو مروا دوں۔ یہ وہ لوگ تھے جو مشین سویّاں کی دوکان سے تعلق رکھتے ہیں اور اُنہی کی طرف سے یہ مقدمہ کیا گیا تھا اور دوسرا مقدمہ یہ تھا کہ آئندہ کے لئے میری ضمانت لی جائے‘‘۔ پھر آگے فرماتے ہیں ’’ان لوگوں کوقتل کروانا تو بڑی بات ہے۔ مَیں نے اُن کے لئے کبھی بددعا بھی نہیں کی۔ مگر انہوں نے اپنے اوپر قیاس کیا۔ پچھلے دنوں بعض وجوہ سے جو خیالی طور پر گھڑی گئیں (بعض ایسی وجوہات جو خیالی تھیں ) اُن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اُن کے خلاف کوشش کی جا رہی ہے۔ (اُن کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اُن کے خلاف کوئی کوشش کر رہے ہیں ) ان لوگوں نے بعض ایسی وجوہات سے جو اخبار میں بھی بیان کر دی گئی ہیں، کئی قسم کی ناجائز حرکات کیں ‘‘۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ ’’جو لوگ اخلاق میں گر جاتے ہیں وہ اپنے بُغض کا بدلہ غیراخلاقی طور پر لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نے ایسی باتیں کرنی شروع کیں جو الزامات اور اتہامات سے تعلق رکھتی ہیں ‘‘۔ اور بڑے گندے گندے الزامات لگائے تھے لیکن آپ نے اُس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ تاریخ احمدیت میں جو لکھا ہوا ہے۔ اُس کا بھی خلاصۃً بیان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کی کامیابیوں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہر حلقے میں بڑھتی ہوئی مقبولیت دیکھ کر بعض لوگوں نے جن سے سلسلہ کی عظمت اور آپ کی شہرت دیکھی نہیں جاتی تھی، آپ کی زبردست مخالفت شروع کر دی۔ چنانچہ اس غرض کے لئے قادیان کے بعض مستری جو مشین سویّاں کی دوکان چلاتے تھے آلہ کار بنائے گئے جنہوں نے حضرت خلیفہ ثانی پر اقدامِ قتل کا مقدمہ کرنے کے علاوہ ایک اخبار ’’مباہلہ‘‘ نامی جو قادیان سے جاری ہوتا تھا، جاری کر کے آپ کی ذات مقدس پر شرمناک حملے کئے اور اپنی دشنام طرازی اور اشتعال انگیزی سے جماعت کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کر دیا۔ یہ فتنہ دراصل ایک گہری سازش کا نتیجہ تھا جس کے پیچھے سلسلہ احمدیت کے مخالف عناصر کام کر رہے تھے اور جنہوں نے احمدیوں کو بدنام کرنے بلکہ کچلنے کے لئے پوری کوشش سے ہر قسم کے اوچھے ہتھیار استعمال کئے۔ اس فتنہ نے جہاں دشمنانِ احمدیت کی گندی اور شکست خوردہ ذہنیت بالکل بے نقاب کر دی، وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی یوسفی شان کا اظہار ہوا اور آپ نے صبر اور تحمل کا ایک ایسا عدیم النظیر نمونہ دکھایا کہ ملک کا سنجیدہ اور متین طبقہ ورطۂ حیرت میں پڑ گیا اور انہوں نے گند اُچھالنے والوں کے خلاف نفرت اور بیزاری کا کھلا اظہار کیا اور کئی اخباروں نے پھر اس بات کو لکھا بھی۔ (ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ627مطبوعہ ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جلسہ سالانہ 1927ء میں اپنی تقریر میں اس فتنہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ ایسی باتیں الٰہی سلسلوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی سنت کے ماتحت لگی رہتی ہیں۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ ہمارا فرض کام کرنا ہے۔ دشمنوں کی شرارتوں سے گھبرانا ہمارا کام نہیں۔ جو چیز خدا تعالیٰ کی ہو اُسے وہ خود غلبہ عطا کرے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنی چیزوں کی آپ حفاظت کرتا ہے۔ اگر سلسلہ احمدیہ کسی بندہ کا سلسلہ ہوتا تواتنا کہاں چل سکتا تھا۔ یہ خدا کا ہی سلسلہ ہے وہی اُس کی پہلے حفاظت کرتا رہا ہے اور وہی آئندہ کرے گا‘‘۔ (انشاء اللہ) ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بتلایا ہے کہ شوکت و سلامتی، سعادت اور ترقی کا زمانہ عنقریب آنے والا ہے۔ کہنے والے نے کہا ہے، دیکھوں گا کس طرح جماعت ترقی کرتی ہے۔ مگرمَیں بھی دیکھوں گا کہ میرے خدا کی بات پوری ہوتی ہے یا اُس شخص کی‘‘۔ (تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ628-629 مطبوعہ ربوہ)
چنانچہ وہ فتنہ بھی عجیب طرح ختم ہوا کہ وہ لوگ جس کو بعض حکومتی کارندے بھی مدد کر رہے تھے، وہ حکومت کے خلاف ہی بدل گیا اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ خدا کی بات پوری ہوئی اور یہ فتنہ آپ مر گیا اور بہت بری طرح مرا۔
اب بھی جو، کبھی بھی جماعت کے خلاف Planning کی جاتی ہے، سکیمیں بنائی جاتی ہیں، منصوبے بنائے جاتے ہیں، اگر اُن کو حکومتیں مدد کریں تو وہ حکومتوں کے خلاف ہی ہو جاتے ہیں، یہی ہم نے دیکھا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں ترقیات دکھاتا چلا جائے۔ ان صحابہ کا جن کا ذکر ہوا ہے ان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیشہ ان کی نسلوں کو بھی ان کی دعاؤں کا بھی وارث بنائے اور اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جماعت کے تمام افراد کو بھی ہر قسم کے شر اور فتنہ سے بچائے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ مضبوط تعلق قائم کرنے کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔
آج بھی نماز جمعہ کے بعد نمازِ جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو مکرم سردار محمد بھروانہ صاحب جھنگ کا ہے جن کی 7؍ فروری2013ء کو 73 سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے والد احمد خان بھروانہ صاحب تھے۔ چنڈ بھروانہ ٹھٹھہ شیرے کا، کے رہنے والے تھے۔ حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں پچاس کی دہائی میں انہوں نے بیعت کی تھی۔ اُس وقت اُن کی عمر قریباً دس سال کی تھی اور تبلیغ کا ان کو چھوٹی عمر سے ہی بڑا شوق تھا جو آخر تک قائم رہا۔ آپ کی دنیاوی تعلیم تو کوئی خاص نہیں تھی، صرف پرائمری تھی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اور خلفاء کی کتب خاص طور پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی کتب کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ جھنگ کے دیہاتی ماحول میں لوگوں کی طبائع کے لحاظ سے آپ نے صداقتِ احمدیت کے دلائل تیار کر رکھے تھے جو مقامی جھنگوی زبان میں پیش کرتے تھے جن کا سننے والوں پر بہت اثر ہوتا تھا۔ آپ کو جماعت جھنگ کی طرف سے بھی مختلف جگہوں پر مناظروں کے لئے بھجوایا جاتا تھا۔ تبلیغ کے سلسلہ میں اس قدر نڈر تھے کہ لوگوں اور جگہ کی کبھی پرواہ نہیں کی اور دشمنوں کے درمیان بھی بلا جھجک چلے جایا کرتے تھے۔ احمدیت کی سچائی کا اظہار کرتے تھے۔ کئی دفعہ مدّ مقابل چیں بجبین ہو کر اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے لیکن یہ بات کبھی بھی اُن کی تبلیغ اور اظہارِ حق کے راستے میں روک نہیں بنی۔ ان کی عادات سے علاقے کے اکثر لوگ واقف تھے۔ ان کی موجودگی میں کبھی کسی کو احمدیت پر اعتراض کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی۔ انہیں تبلیغ کے لئے کسی بھی جگہ کسی بھی وقت بلایا جاتا تو کبھی انکار نہ کرتے بلکہ یہ سب مصروفیات چھوڑ کر وہاں پہنچ جاتے۔ ان کے ایک بیٹے عبدالشافی بھروانہ صاحب سیرالیون میں مبلغ سلسلہ ہیں اور ان کے ایک ہی اکلوتے بیٹے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور تمام رات اپنے ایک دوست کو جو ان دنوں جھنگ آیا ہوا تھا صداقتِ احمدیت کے دلائل سمجھاتے رہے۔ اُس کے تمام سوالوں کا نہایت تحمل سے جواب دیتے اور پھر اُس سے کہتے اور کوئی بات بتاؤ جو تمہیں احمدیت قبول کرنے سے روکتی ہو اور پھر اُس کے سوال کے ہر پہلو کاکافی شافی جواب دیتے۔ یہ سلسلہ صبح تک چلا۔ ساری رات اس طرح رہا۔ جب وہ دوست اپنے علاقے میں واپس چلے گئے تو واپس جانے کے بعد اس دوست نے بیعت کر لی اور اپنے گھر ایک خط لکھا جو اُن کے گھر والوں نے مجھے دکھایا۔ اُس میں تحریر تھا کہ مَیں ایک دیہاتی شخص سے ملا جو تمام دن مجھے مویشیوں میں الجھا نظر آتا تھا۔ لیکن ایک رات مَیں نے اُس کی باتیں سنیں تو مجھے علم کا ایک دریا نظر آیا۔ بیشک یہ سب علم انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ سے اور بار بار مطالعہ سے حاصل ہوا تھا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ ان کے ایک ہی بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے۔ اکلوتے بیٹے مبلغ سلسلہ ہیں۔ سیرالیون میں آجکل کام کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتہ وہاں جلسہ بھی ہو رہا تھا اور اُس کی مصروفیت کی وجہ سے بھی اور مجبوریوں کی وجہ سے بھی یہ جا نہیں سکے، اپنے باپ کے جنازے میں شامل نہیں ہو سکے اور بلکہ انہوں نے مجھ سے اس وجہ سے جانے کا پوچھا تک بھی نہیں کہ جلسہ کی مصروفیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے والد کی خواہش کے مطابق ان کو بے لوث خدمتِ سلسلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور اس واقفِ زندگی کو اپنے والد کی دعاؤں کا وارث بنائے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے ساتھ مغفرت کا سلوک فرمائے، درجات بلند فرمائے اور ان کے جو لواحقین ہیں سب کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل مورخہ8 مارچ2013ء تا 14مارچ2013ء جلد20شمارہ10صفحہ5تا9)
فرمودہ مورخہ15؍ فروری 2013ء بمطابق15؍ تبلیغ 1392 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح ۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔