حضرت مصلح موعودؓ کا خطبہ جمعہ: اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مضامین کا روح پرور بیان

خطبہ جمعہ 22؍ فروری 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کے خطبہ کے لئے مَیں پیشگوئی مصلح موعودؓ کے حوالے سے کوئی موضوع سوچ رہا تھا تو خیال آیا کہ عمومی طور پر ہم پیشگوئی مصلح موعودؓ بیان کرتے ہیں۔ اُس کی تھوڑی سی مختصر وضاحت کرتے ہیں۔ مجملاً بعض کاموں کا ذکر کرتے ہیں جو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو خدا داد علم، ذہانت اور فراست عطا فرمائی تھی اُس کے بہت سے پہلو ہیں۔ خلافت سے پہلے بھی آپ کی تحریرات اور تقریریں علم و معرفت سے بھری ہوئی ہیں۔ آپ کی کتب، تقریریں اور مضامین انوار العلوم کے نام سے کتاب میں، مختلف جلدوں میں چھپی ہوئی ہیں۔ اب تک تیئس جلدیں اس کی شائع ہو چکی ہیں اور ہر جلد 600 سے اوپر صفحات پر مشتمل ہے۔ مزید بھی انشاء اللہ چھپیں گی۔ یہ مکمل نہیں ہوئیں۔ اسی طرح آپ کے خطباتِ جمعہ ہیں یہ بھی بہت سے ہیں۔ جس کی 24جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ بھی اسی طرح ہر جلد جو ہے 600سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔ ابھی خطبات کی 1942-43ء تک کی جلدیں چھپی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا مزید انشاء اللہ چھپیں گی۔ فضل عمر فاؤنڈیشن جو آپ کے کام کو، خطبات کو، تقاریر کو جمع کرنے کے لئے، پھیلانے کے لئے بنائی گئی تھی وہ ان تقاریر اور مضامین وغیرہ کے ترجمے بھی مختلف زبانوں میں کروا رہی ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ انگریزی میں توبعض کتابوں کے شاید جلد ہی مہیا ہو جائیں، کچھ موجود بھی ہیں۔ اور پھر باقی زبانوں میں بھی ہوں گے۔ کچھ عربی میں بھی ترجمہ ہو چکے ہیں اور شائع بھی ہو چکے ہیں۔ میرا خیال ہے اردو کے بعد زیادہ تر کام عربی میں ہوا ہے۔ ہمارے مختلف ممالک کے جامعات کے طلبہ بھی ان کے ترجمے کر رہے ہیں۔ شاھد پاس کرنے کے لئے جومقالہ لکھا جاتا ہے اُن کو بھی ان کتب کا ترجمہ کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔ بہرحال ایک خزانہ ہے جو آپ نے اپنی زندگی اور 52سالہ دورِ خلافت میں جماعت کو دیا۔ لیکن اس کی اشاعت چندہزار کی تعداد میں ہوتی ہے۔ جو احباب خریدتے ہیں وہ بھی شاید ہی تفصیل سے پڑھتے ہوں۔ اور پھر اب لاکھوں نومبائعین اور نئی نسل ایسی ہے جو اردو میں نہ پڑھ سکتی ہے، نہ اُن کی زبان میں اُنہیں مہیا ہے۔ جو مہیا ہے وہ بھی جیسا کہ میں نے کہا بہت تھوڑی تعداد میں ہے۔ اس لئے نئی نسل کی اکثریت اور نومبائعین کو آپ کے اندازِ تحریر و تقریر کا پتہ ہی نہیں۔ نہ ہی آپ کے علم و معرفت کا کچھ اندازہ ہے۔ بلکہ میری عمر کے لوگ جو پیدائشی احمدی ہیں اور مجھ سے چند سال بڑے بھی، اُن کو بھی آپ کے اندازِ خطیبانہ اور تقریروں کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم یہ مجموعے اور خزانے پڑھیں تو تبھی ہم آپ کی علمی وسعت اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کئے جانے کی جو پیشگوئی تھی اُس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اور اپنے علم میں بھی، جیسا کہ مَیں نے کہا، اضافہ کر سکتے ہیں۔ ویڈیو آڈیو کی اُس زمانے میں ایسی سہولت نہیں تھی۔ آپ کے دورِ خلافت کے آخری سالوں میں لوپ (Loop) پر ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ ایک دوجو تقریریں تھیں ان کی جو ریکارڈنگ کی گئی اس میں آواز امتدادِ زمانہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی حد تک اتنی اچھی نہیں رہی۔ اور آپ کا جو انداز تھا، یہ ریکارڈنگ اس کی اصل شان و شوکت نہیں رکھتی۔

بہر حال یہ شکر ہے کہ تحریرات کا، تقاریر کا، خطبات کا ریکارڈ کافی حد تک موجود ہے۔ ’کافی حد تک‘ اس لئے مَیں نے کہا ہے کہ اُس زمانے میں زُودنویس لکھا کرتے تھے اور بعض جگہ یہ احساس ہوتا ہے کہ زُودنویس جب لکھتے تھے تو انہوں نے مکمل طور پر بعض خطبات اور تقاریر اور تحریرات نوٹ نہیں کئے یا مکمل فقرے نہیں لکھے گئے۔ بعض باتیں لکھنے سے رہ گئی ہیں۔ بہرحال آج بجائے اس کے کہ اس پیشگوئی کے بارے میں کچھ بیان کروں، میں نے سوچا کہ آپ کا ایک خطبہ جتنا زیادہ آپ کے الفاظ میں بیان ہو سکتا ہے، وہ وقت کی رعایت کے ساتھ بیان کردوں۔ جو خطبہ مَیں نے چنا ہے یہ بھی دعا کے طریق اور خدا تعالیٰ پر یقینکے مضمون پر مشتمل ہے۔ یہ یقین کہ وہی تمام قدرتوں کا مالک ہے اور وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ یہ مضمون میں نے اس لئے بھی چنا ہے کہ آجکل بھی اگر ہم خارق عادت نتائج دیکھنا چاہتے ہیں تو اس مضمون کے صحیح ادراک اور اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ یہ خطبہ 10؍اپریل 1942ء کا ہے۔ آپ نے اس طرح فرمایا کہ:

’’مَیں نے احباب کو متواتر دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے اور اب جو دوستوں کی طرف سے رقعے اور خطوط ملتے ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ جماعت کے ایک حصہ میں موجودہ زمانہ فتن کے لئے دعا کی تحریک پائی جاتی ہے۔ مگر ایک حصہ کی دعا کافی نہیں‘‘۔ یہاں مَیں یہ بھی بتا دوں کہ آج کل بھی یہی صورتحال ہے۔ میرے بار بار کہنے کے باوجود دعا کی طرف توجہ دینے اور اپنی حالتوں کو بدلنے کے لیئے جو توجہ ہونی چاہئے وہ نہیں ہو رہی۔

بہرحال پھر آپ آگے فرماتے ہیں کہ:

’’ضرورت ہے کہ مَردوں اور عورتوں اور بچوں سب کی ذہنیت کو دعا کے لئے بدلہ جائے اور یہ ذہنیت اس رنگ میں بدلی جاتی ہے کہ سب سے پہلے دعا پر یقین اور ایمان پیدا ہو۔ جو شخص بغیر یقین کے دعا مانگتا ہے اُس کی دعا خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا کرتی۔ ہو سکتا ہے کبھی ایسے شخص کی دعا قبول ہو جائے صرف نمونہ کے طور پر اور اُس کے دل میں یقین پیدا کرنے کے لئے لیکن قانون کے طور پر اُس شخص کی دعا قبول ہوتی ہے جس کے دل میں یقین ہوتا ہے کہ خدا میری سنے گا۔ چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (سورۃ النمل آیت :63) کہ مُضطر کی دعا کون سنتا ہے؟ اور پھر فرماتا ہے اللہ ہی سنتا ہے۔ اور مُضطر کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ کسی کو چاروں طرف سے دھکے دے کر کسی طرف لے جائیں، جو چاروں طرف سے راستہ بند پا کر کسی ایک طرف جاتا ہے اُس کو مُضطر کہتے ہیں۔ یعنی وہ ہر طرف آگ دیکھتا ہے۔ اپنے دائیں دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے۔ اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے۔ اپنے پیچھے دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے۔ اپنے نیچے دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے۔ اپنے اوپر دیکھتا ہے تو اُسے آگ نظر آتی ہے۔ صرف ایک جہت اُس کے سامنے خدا تعالیٰ والی باقی رہ جاتی ہے اور اس پر اُس کی نظر پڑتی ہے اَور سب جگہ اُسے آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے مگر صرف ایک طرف اُسے امن نظر آتا ہے۔ اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ مُضطر کے معنوں میں یقین پایا جانا ضروری ہے۔ مُضطر کے صرف یہی معنی نہیں ہیں کہ اُس کے دل میں گھبراہٹ ہو کیونکہ گھبراہٹ میں بعض دفعہ ایک شخص بے تحاشا کسی طرف چل پڑتا ہے بغیر اس یقین کے کہ جس طرف وہ جا رہا ہے وہاں اُسے امن بھی حاصل ہو گا یا نہیں۔ بلکہ بعض لوگ گھبراہٹ میں ایسی طرف چلے جاتے ہیں جہاں خود خطرہ موجود ہوتا ہے اور وہ اس سے نہیں بچ سکتے۔ پس محض اضطراب کا دل میں پیدا ہونا اضطرار پر دلالت نہیں کرتا۔ اضطرار پر وہ حالت دلالت کیا کرتی ہے جب چاروں طرف کوئی پناہ کی جگہ انسان کو نظر نہ آتی ہو اور ایک طرف نظر آتی ہے۔ گویا اضطرار کی نہ صرف یہ علامت ہے کہ چاروں طرف آگ نظر آتی ہو بلکہ یہ علامت بھی ہے کہ ایک طرف امن نظر آتا ہو اور انسان کہہ سکتا ہو کہ وہاں آگ نہیں ہے۔ تو وہی دعا خدا تعالیٰ کے حضور قبول کی جاتی ہے جس کے کرتے وقت بندہ اس رنگ میں اُس کے سامنے حاضر ہوتا ہے۔ اُسے یقین ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے میرے لئے اور کوئی پناہ کی جگہ نہیں۔ یہی وہ مُضطر کی حالت ہے جسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔ کہ اے خدا! لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ۔ تیرے عذاب اور تیری طرف سے آنے والے ابتلاؤں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں، کوئی نجات کی جگہ نہیں، سوائے اس کے کہ میں سب طرف سے مایوس ہو کر اور آنکھیں بند کر کے تیری طرف آ جاؤں۔ تو لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ والی جو حالت ہے، یہی اضطرار کی کیفیت ہے۔ اور جب خدا نے قرآن میں کہا کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (سورۃ النمل آیت: 63) کہ بتاؤ مُضطر کی کون سنتا ہے تو مُضطر کے معنی یہی ہوئے کہ ایسے شخص کی دعا جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ملجا و ماوی نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا ملجا و منجا قرار نہیں دیتا اور اس آیت میں کہ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (سورۃ النمل آیت :63) درحقیقت اس کیفیت اضطرار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے…‘‘۔

مُضطر کے لفظ پر یہ علمی روشنی ڈالنے اور اس آیت کی وضاحت کرنے کے بعد پھر آپ کا تقریر کاجو اسلوب تھا، طریق تھا، آپ نے مُضطر کی مختلف ضرورتوں اور حالتوں کا ذکر فرما کر مثالیں اور واقعات پیش کئے۔ آپ کی ہر تقریر واقعات اور مثالوں سے بھری ہوتی تھی۔ آپ فرماتے ہیں کہ: ’’…اضطرار دنیا میں کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ اس لئے یہاں ’’اَلْمُضْطَرّ‘‘ کا لفظ رکھا گیا ہے جس کے معنی تمام قسم کے مُضطر کے ہیں۔ بعض بندے دنیا میں ایسے ہوتے ہیں جو مُضطر ہوتے ہیں اور گو حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی ہر مُضطر کا علاج ہے۔ مگر اُس کے دئیے ہوئے انعام کے ماتحت کوئی بندہ بھی اُن کے اضطرار کو بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ مثلاً ایک غریب آدمی ہے، اُس کے کپڑے پھٹ جاتے ہیں، اُسے نظر نہیں آتا کہ وہ نئے کپڑے کہاں سے بنوائے۔ ایک امیر آدمی جو بعض دفعہ ایک ہندو ہوتا ہے، سکھ ہوتا ہے، پارسی ہوتا ہے، دہریہ ہوتا ہے، کوئی بھی ہو، وہ اُس کو بنوا دیتا ہے…‘‘۔

یہاں مَیں بعض باتیں مختصر کر رہا ہوں کیونکہ یہ خطبہ کافی لمبا تھا۔ تو فرمایا کہ’’… اب گو ہمارے یقین کے مطابق خدا نے ہی اس امیر آدمی کے دل میں یہ تحریک پیدا کی ہو گی کہ وہ اُسے کپڑے بنوا دے مگر جو کامل الایمان نہیں ہوتا وہ سمجھتا ہے کہ میرے اضطرار کی حالت میں فلاں آدمی کام آیا ہے۔ مگر وہی آدمی جس نے اُسے کپڑوں کا جوڑا بنوا کر دیا تھا جب یہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے کہ اُس کے لئے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے، پانی تک اُسے ہضم نہیں ہوتا، تمام جسم کی صحت کی حالت خراب ہو جاتی ہے، چل پھر بھی نہیں سکتا تو ایسی حالت میں وہ امیر آدمی اُس کی مددنہیں کر سکتا بلکہ اگر کوئی اچھا طبیب (ڈاکٹر ہو) اچھالائق اور رحمدل ہوتا ہے اور وہ اُسے اس حالت میں دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ تمہیں علاج پر روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں، میں تمہیں مفت دوائی دینے کے لئے تیار ہوں …‘‘۔ فرمایا کہ اس اضطرار کی حالت میں امیر اُس کے کام نہیں آیا بلکہ طبیب اُس کے کام آیا۔ ’’… پھر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اُس پر کوئی مقدمہ بن جاتا ہے وہ بے گناہ ہوتا ہے، اُس کا دشمن زبردست ہو تاہے اور وہ کسی وجہ سے ناراض ہو کر کسی مقدمہ میں ماخوذ کرا کے عدالت تک پہنچاتا ہے۔ اب اُسے نہ وکیل کرنے کی توفیق ہے، نہ خود اُسے مقدمہ لڑنے کی قابلیت ہے اور وہ حیران ہوتا ہے کہ کیا کرے۔ آخر کوئی رحمدل وکیل اُسے مل جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ مَیں بغیر فیس کے تمہاری وکالت کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اب اس موقع پر اور کوئی کام نہیں آیا، صرف وکیل اُس کے کام آیا۔

پھر اسی طرح ایک زمیندار کی مثال دی ہے۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ’’… ایک ہی انسان کے مختلف اضطراروں میں مختلف لوگ اُس کے کام آ سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (سورۃ النمل آیت: 63)۔ مطلق مُضطر جس کے لئے کوئی شرط نہیں کہ وہ کس قسم کا مُضطر ہو، خواہ وہ بھوکا ہو، ننگا ہو، پیاسا ہو، بیمار ہو، بوجھ اُٹھائے جا رہا ہو، کسی قسم کا اضطرار ہو، اُس کی ساری ضرورتوں کو پورا کرنے والی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے…‘‘۔

کچھ حصہ میں چھوڑ رہا ہوں۔ پھر فرمایا کہ’’… ہر قسم کے مُضطرین کی ضرورتیں پوری کرنے والی خدا کی ہی ذات ہوتی ہے۔ انسان کے اضطرار کی ہزاروں حالتیں ہوتی ہیں۔ بھلا ان حالتوں میں تو کوئی بادشاہ بھی کسی کے کام نہیں آ سکتا۔ فرض کرو ایک شخص سخت بیمار ہے۔ اب بادشاہ کا خزانہ اُس کے کام نہیں آ سکتا۔ بادشاہ کی فوجیں اُس کے کام نہیں آ سکتیں۔ بادشاہ کا قُرب اُس کے کام نہیں آ سکتا۔ اُس کے کام تو اللہ تعالیٰ ہی آ سکتا ہے جو ہر قسم کی بیماریوں کو دُور کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ یا ایک جنگل میں گزرنے والا شخص جس پر بھیڑیا یا شیر اچانک جھپٹ کر حملہ کردیتا ہے، وہ چاہے بادشاہ کا کتنا ہی منہ چڑھا ہو یا بادشاہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو، بادشاہ اُ س کے کیا کام آ سکتا ہے؟… فرمایا… جنگل میں وہ تن تنہا جا رہا ہوتا ہے کہ شیر چیتا یا بھیڑیا اُس کے سامنے آ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ہے جو کام آتی ہے۔ کوئی انسان کام نہیں آ سکتا۔ تو جب تک انسان کے اندر یہ یقین پیدا نہ ہو کہ ہر قسم کے اضطراب کی حالت میں اللہ تعالیٰ ہی کام آتا ہے اُس وقت تک وہ مُضطر نہیں کہلاسکتا…۔

یہ اُس زمانے کی بات ہے جب انڈیا پاکستان اکٹھے تھے اور ہندوستان پر برطانیہ کی حکومت تھی۔ اُس کی ایک مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’… انگریزوں کے ماتحت ہی ہندوستان میں کئی بزدل قومیں ہیں، مگر انگریز اُن کو بہادر نہیں بنا سکے۔ صرف اتنا کہہ دیا کہ اُنہیں فوج میں بھرتی نہ کیا جائے۔ گویا بجائے اس کے کہ وہ اُن کی ترقی کا باعث بنتے، انہوں نے اُن کو اسی بزدلی کے گڑھے میں گرائے رکھا جس میں وہ پہلے گرے ہوئے تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات کو دیکھو، اُس کے ساتھ تعلق رکھنے سے بڑے بڑے بزدل، بہادر بن جاتے ہیں اور بڑی بڑی غیرمنظم قومیں، منظم ہو جاتی ہیں …۔‘‘ فرمایا کہ ’’… خدا جن قوموں کو ترقی دیتا ہے اُن کی کایا پلٹ کر رکھ دیتا ہے اور اُن کے دل بالکل بدل جاتے ہیں۔ اُن کی کمزوری اور بزدلی جاتی رہتی ہے اور اُن کے اندر ایسی طاقت اور قوت آ جاتی ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے…‘‘۔ اب مسلمان کی مثال دی کہ ’’مسلمانوں کو ہی دیکھ لو۔ عرب ایک ایسا ملک تھا جس کے باشندے کسی ایک بادشاہ کے ماتحت رہنا اور باقاعدہ کسی نظام کے ماتحت آنا گوارا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ قبائل کے سردار عوام سے مشورہ لے کر کام کرتے تھے اور ہر قبیلہ اپنی اپنی جگہ آزاد سمجھا جاتا تھا مگر اُن کی اتنی حیثیت بھی نہ تھی جتنی آجکل چھوٹی سے چھوٹی ریاستوں کی ہوتی ہے۔ کوئی قبیلہ ہزار افراد پر مشتمل تھا، کوئی قبیلہ دو ہزار افراد پر مشتمل تھا، کوئی قبیلہ تین ہزار افراد پر مشتمل تھا۔ … مکہ کی آبادی بھی اُس وقت صرف دس پندرہ ہزار تھی(جس میں کئی قبائل تھے)۔ پھر اُن میں کوئی نظام نہ تھا۔ اُن کے پاس کوئی خزانہ نہ تھا، کوئی سپاہی نہ تھا، کوئی ایسا محکمہ نہ تھا جس کے ماتحت باقاعدہ فوجیں رکھی جاتی ہوں اور سپاہی بھرتی کئے جاتے ہوں … غرض وہ ایک ایسی قوم تھی جو بالکل بے راہ رَو تھی۔ کوئی طریقہ اور کوئی صحیح نظام اُن میں نہیں پایا جاتاتھا۔ ایسی حالت میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا مگر بہت ہی تھوڑے لوگ آپ پر ایمان لائے۔ محققین کے نزدیک ساری مکّی زندگی میں جو لوگ مکّہ میں اسلام لائے، اُن کی تعداد سو کے قریب بنتی ہے۔ غرض یہ تھوڑے سے آدمی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ مکّہ کے لوگ اول تو خود ہی دنیاوی لحاظ سے نہایت حقیر تھے اور ان میں کوئی طاقت و قوت نہ تھی۔ (گو ویسے جنگجو تھے۔ اپنے قبیلہ کے رَکھ رکھاؤ رکھنے والے تھے لیکن دنیاوی لحاظ سے تو کوئی طاقت نہیں تھی۔) پھر اُن کمزور لوگوں میں سے بھی ایسے لوگ اسلام میں داخل ہوئے جو مکّہ والوں کی نگاہ میں بھی کمزور سمجھے جاتے تھے۔ مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اُن کے دلوں میں کتنی بہادری پیدا کر دی اور بے نظامی کی جگہ کیسی اعلیٰ درجہ کی تنظیم کا نظارہ نظر آنے لگا۔ یہی مکّہ کے لوگ یا عرب کے باشندے کسی کی بات ماننا گوارا نہیں کیا کرتے تھے۔ یعنی اطاعت جو دنیا میں مہذب قوموں کا شعار سمجھا جاتا ہے وہ ان کے نزدیک سخت ذلت کی بات تھی۔‘‘

پھر عرب کا ایک پرانا قصہ مشہور ہے اُس کی مثال دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

دیکھو’’عربی ادب کی کتب میں لکھا ہے کہ عرب میں ایک بادشاہ عمرو بن ہند تھا۔ اُس نے ایک علاقے پر جو شام اور عراق کی طرف تھا، حکومت قائم کی اور عرب کے لحاظ سے اس قدر شوکت حاصل کر لی کہ اُسے خیال پیدا ہوا کہ سارا عرب میری بات مانتا ہے۔ ایک دن درباریوں سے اُس نے بات کرتے ہوئے کہا۔ کیا عرب میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو میری بات ماننے سے انکار کر سکے… انہوں نے کہا کہ ایک شخص عمرو بن کلثوم ہے جو اپنے قبیلے کا سردار ہے۔ ہمارے خیال میں وہ ایسا شخص ہے جو آپ کی اطاعت نہیں کرے گا۔ اُس نے کہا بہت اچھا۔ میں اس کی تصدیق کرنے کے لئے اُسے بلواتا ہوں۔ چنانچہ بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو دعوت دی اور اُسے خط لکھا کہ آپ یہاں تشریف لائیں۔ آپ سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں کو لے کر آگیا جیسے عرب کا دستور تھا۔ بادشاہ اُس وقت کسی جگہ خیموں میں ٹھہرا ہوا تھا۔ وہیں اُس نے آ کر اپنے خیمے لگا دئیے۔ اُس بادشاہ نے عمرو بن کلثوم کو یہ بھی لکھا تھاکہ اپنی والدہ اور دوسرے عزیزوں کو بھی لیتے آنا۔ چنانچہ وہ اس کے مطابق اپنی والدہ کو بھی لے آیا۔ عمرو بن ہندنے یعنی بادشاہ نے اپنی والدہ سے کہا۔ کام کرتے کرتے عمرو بن کلثوم کی ماں سے کوئی چھوٹا سا کام لے کر دیکھنا تا پتہ لگ سکے کہ ان لوگوں کی کیا حالت ہے۔ چنانچہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو عرب کے دستور کے مطابق گو وہ بادشاہ کہلاتا تھا مگر اُس کی ماں خود کھانا برتانے میں بیٹھ گئی۔ اپنے بیٹے کے لئے بھی اور عمرو بن کلثوم کیلئے بھی۔ گویا عمرو بن ہند کی والدہ (بادشاہ کی والدہ) اُس وقت عملاً عمرو بن کلثوم اور اُس کے دوسرے عزیزوں کا کام کر رہی تھی۔ پس ایسے وقت میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا کسی کام میں ہاتھ بٹاناہرگز اُس کی ہتک کا موجب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ جب بادشاہ کی ماں خود ایک کام کر رہی تھی تو اسی کام میں عمرو بن کلثوم کی ماں کا ہاتھ بٹانا ہرگز کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اُس کی شان اور عزت کے منافی ہوتی۔ مگر واقعہ کیا ہوتا ہے، کھانا برتاتے وقت ایک تھال کچھ فاصلے پر پڑا تھا۔ عمرو بن ہند کی والدہ کھانا برتاتے برتاتے اُسے کہنے لگی کہ بی بی ذرا وہ تھال تو سرکا کر ادھر کر دینا۔ اُسے یہ بھی جرأت نہ ہوئی کہ اس سے زیادہ اُس سے کام لے سکے، کام کرنے کے لئے کہے۔ مگر تاریخوں میں لکھا ہے کہ جونہی بادشاہ کی ماں نے اُس کی اُس عرب قبیلہ کے سردار عمرو بن کلثوم کی والدہ سے یہ بات کہیوہ کھڑی ہو گئی۔ (قبیلہ کے سردار کی ماں کھڑی ہو گئی) اور اُس نے زور سے پکارنا شروع کر دیا کہ او ابن کلثوم! تمہاری ماں کی ہتک ہو گئی ہے۔ عمرو بن کلثوم اُس وقت بادشاہ کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا اور کھانا کھانے کی وجہ سے اُس نے اپنی تلوار ایک طرف لٹکائی ہوئی تھی مگر جونہی اُس نے اپنی ماں کی آواز کو سنا، اُس نے اپنی ماں سے جا کر یہ نہیں پوچھا کہ تمہاری کیا ہتک ہوئی ہے۔ وہ گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور اِدھر اُدھر دیکھنے لگ گیا۔ خیمہ میں بادشاہ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ اُس نے اُچک کر تلوار کو میان سے نکالا اور بادشاہ کو قتل کر دیا اور باہر نکل کر اُس نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ بادشاہ کا سب مال و متاع لوٹ لو۔‘‘

’’…تو عرب لوگ کسی کی اطاعت برداشت نہیں کر سکتے تھے… لیکن پھر انہی عربوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کس طرح اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل بدل ڈالے۔ اُنہی عربوں میں سے ایک سمجھدار اور پڑھے لکھے اور اپنی قوم کے معزز فرد حضرت عبداللہ بن مسعود گلی میں سے گزر رہے تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں وعظ فرما رہے تھے۔ وہ اسی وعظ کو سننے کے لئے مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ وہاں مسجد میں کسی وجہ سے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو فرمایا کہ لوگ بیٹھ جائیں تو آپ کیونکہ رستہ میں تھے، جا رہے تھے، آپ نے آواز سنی، آپ بھی بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر انہوں نے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا۔ کوئی دوست جو پاس سے گزرا اُس نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود! یہ تم نے کیا مضحکہ خیز حرکت شروع کر دی ہے کہ زمین پر بیٹھے بیٹھے چل رہے ہو۔ سیدھی طرح کیوں نہیں چلتے۔ انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ مجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ۔ میں نے اپنے دل میں سوچا کہ مجھے کیا پتہ کہ مَیں وہاں تک زندہ پہنچوں یا نہ پہنچوں۔ ایسا نہ ہو میرا خاتمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں ہو۔ اس لئے میں یہیں بیٹھ گیااور میں نے بیٹھے بیٹھے مسجد کی طرف جانا شروع کر دیا۔ اب ذرا مقابلہ کرو، اس واقعہ کا، عمرو بن کلثوم کے واقعہ سے کہ ایک بادشاہ کی دعوت پر وہ جاتا ہے اور اُس کی ماں کو بادشاہ کی ماں کوئی بڑا کام نہیں بتاتی بلکہ وہ کام بتاتی ہے جو وہ خود کر رہی ہوتی ہے اور اپنے بیٹے سے کم درجہ رکھنے والے شخص کے لئے کر رہی ہے۔ پھر وہ کام کوئی بہت بڑا کام بھی نہیں بلکہ جو کچھ کر رہی تھی اُس میں سے بھی ایک نہایت معمولی اور چھوٹا سا کام کرنے کے لئے اُسے کہتی ہے۔ مگر اُس کی طبیعت اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اور اِدھر وہ بات کہتی ہے اُدھر وہ شور مچانے لگ جاتی ہے کہ میری ہتک ہو گئی۔ مگر اسی گروہ کا ایک فرد گلی میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتا ہے اور گلی میں سن کر ہی بیٹھ جاتا ہے اور ایسی حرکت کرتا ہے جو دنیا میں عام طور پر ذلیل سمجھی جاتی ہے۔‘‘

پھر لکھتے ہیں کہ ’’تم یقینا اسے پاگل سمجھو گے مگر صحابہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے آپ کو پاگل ہی بنا بیٹھے تھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔‘‘

پھر آگے مصلح موعود لکھتے ہیں کہ’’پھر مدینہ کے لوگ لڑائی کے کام میں نہایت ادنیٰ اور ذلیل سمجھے جاتے تھے۔ جیسے ہمارے ملک میں بعض قومیں لڑائی کے فن کی اہل نہیں سمجھی جاتیں۔ … مدینہ کے لوگ بیشک مالدار تھے اور وہ اچھے زمیندار تھے مگر جیسے ہمارے ملک میں بعض قومیں بعض پیشوں کی وجہ سے ذلیل سمجھی جاتی ہیں اسی طرح وہ ذلیل سمجھے جاتے تھے کیونکہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے اور کھیتی باڑی کو عرب لوگ پسندنہیں کرتے تھے۔ عرب لوگ اس بات پر ناز کرتے تھے کہ اُن کے پاس اتنے گھوڑے ہیں، اتنے اونٹ ہیں، وہ اس طرح ڈاکے مارتے ہیں اور اس اس طرح لوگوں پر حملے کرتے ہیں۔ مگر مدینہ کے لوگ ایک گاؤں میں بستے اور کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ وہ نہ ڈاکہ مارتے تھے، نہ اونٹ اور گھوڑے کثرت سے رکھ سکتے تھے، کیونکہ اگر وہ اونٹ اور گھوڑے رکھتے توانہیں کھلاتے کہاں سے۔ اس لئے وہ دوسرے عربوں کی نگاہ میں نسبتاً ادنیٰ سمجھے جاتے تھے۔ عرب کے لوگ تو اُن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ تو سبزی ترکاری بونے والے ہیں۔ … اس میں کیا شبہ ہے کہ جو لوگ تَرَفُّہ میں پڑ جائیں (یعنی آسودگی وغیرہ میں پڑ جائیں) باغات بنا لیں، کھیتی باڑی میں مشغول ہو جائیں اور مال و دولت جمع کرنے میں لگ جائیں۔ اُنہوں نے کیا لڑنا ہے اور وہ تو کئی پُشتوں سے نسلاً بعدنسلٍ یہی کام کرتے چلے آ رہے تھے اس لئے وہ لڑائی کے قابل نہیں سمجھے جاتے تھے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں کہ’’… عرب کی نگاہ میں مدینہ کے لوگ کمزور سمجھے جاتے تھے اور حقارت سے وہ اُن کے متعلق کہا کرتے تھے کہ یہ تو کھیتی باڑی کرنے والے لوگ ہیں مگر انہی لوگوں کو دیکھو کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے بعد ان میں کتنا عظیم الشان فرق پیدا ہو گیا کہ وہی سبزی ترکاری بونے اور کھیتی باڑی کرنے والے لوگ دنیا کے بہترین سپاہی بن گئے۔ بدر کے موقع پر مکہ کے بڑے بڑے سردار جمع تھے اور وہ خیال کرتے تھے کہ آج مسلمانوں کا خاتمہ کر دیں گے۔ اُس دن ایک ہزار تجربہ کار سپاہی جو بیسیوں لڑائیاں دیکھ چکا تھا اور جن کا دن رات کا شغل لڑائیوں میں شامل ہونا اور دشمنوں پر تلوار چلانا تھا، مسلمانوں کے مقابلے میں صف آراء تھا اور مسلمان صرف تین سو تیرہ تھے۔ بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ ان تین سو تیرہ مسلمانوں میں سے بعض کے پاس تلواریں تک نہ تھیں اور وہ لاٹھیاں لے کر آئیہوئے تھے۔ ایسی بے سروسامانی کی حالت میں جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کے لئے چلے تو دوانصاری لڑکے بھی بضد ہو گئے کہ ہم نے بھی ساتھ چلنا ہے۔ آخر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو ساتھ چلنے کی اجازت دے دی…۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف جو نہایت ہی بہادر اور تجربہ کار سپاہی تھے، کہتے ہیں کہ اُس دن ہمارے دلوں کے ولولے کوئی شخص نہیں جان سکتا۔ ہم سمجھتے تھے کہ آج جبکہ خدا نے ہمیں لڑنے کی اجازت دے دی ہے، ہم مکّہ والوں سے ان مظالم کا بدلہ لیں گے جو انہوں نے ہم پر کئے۔ مگر کہتے ہیں کہ اچھا سپاہی تبھی اچھا لڑ سکتا ہے جب اس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو۔ (وہاں بھی کوئی اچھے لڑنے والے موجود ہوں۔) جب وہ حملہ کرے اور دشمنوں کی صفوں میں گھس جائے تو وہ دونوں اس کی پشت کو دشمنوں کے حملے سے محفوظ رکھیں۔ … اس لئے بہادر سپاہی ہمیشہ درمیان میں کھڑے کئے جاتے ہیں تا اُن کے دائیں بائیں حفاظت کا خاص سامان رہے اور جب وہ دشمن کی صف کو چیر کر آگے بڑھیں تو اُن کی پیٹھ کی حفاظت ہوتی رہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اسی خیال کے ماتحت اپنے دائیں بائیں دیکھا کہ دیکھوں میرے دائیں بائیں کون ہے؟ کہتے ہیں میری جو نظر پڑی تو میں نے دیکھا وہی دو انصاری لڑکے پندرہ پندرہ سال کی عمر کے میرے دائیں بائیں کھڑے تھے۔ … اول تو یہ مدینہ کے رہنے والے ہیں۔ …(کہتے ہیں مجھے خیال ہوا، دل بیٹھ گیا۔) …جہاں کے لوگ لڑائی کے فن سے ناآشنا ہیں۔ پھر یہ پندرہ پندرہ سال کے لڑکے ہیں۔ انہوں نے میری کیا حفاظت کرنی ہے۔ تو آج میرے دل کے جوش کی جو حالت ہے وہ دل میں ہی رہے گی اور میں اپنی حسرت نہیں نکال سکوں گا۔

بہرحال اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ یہ خیال ابھی میرے دل میں آ رہا تھاکہ مجھے دائیں طرف سے میرے پہلو میں کہنی لگی میں نے مڑکر اُس لڑکے کی طرف دیکھا کہ وہمجھے کیا کہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب لایا اور اُس نے آہستگی سے مجھے کہا کہ چچا وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا کرتا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے آج اُس سے بدلہ لوں۔ ابھی کہتے ہیں مَیں نے اُس کا جواب دینا ہی تھا تو دوسری طرف سے مجھے ایک کُہنی لگی اور اُس نے بھی میرے کان کے قریب اپنا منہ لا کر کہا کہ چچا وہ ابوجہل کونسا ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیا کرتا تھا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آج اُس سے بدلہ لوں۔ آپ کہتے ہیں کہ میرے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ ابوجہل جو سردار ہے اور لشکر کے درمیان میں ہے اس کے بڑے کُہنہ مشق، جنگجو قسم کے لوگ اُس کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ اُس تک مَیں پہنچوں اور قتل کروں۔ لیکن ان بچوں کو یہ خیال آ گیا۔ بہر حال کہتے ہیں میں نے اشارہ کیا اور دونوں بچوں کی خواہش تھی کہ میں ہی اسنعمت کو بجا لاؤں یعنی یہ انعام مجھے ہی ملے کہ میں ابوجہل کو قتل کرنے والا بنوں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ عبدالرحمنؓ بن عوف کی تو یہ حالت تھی کہ وہ پریشان تھے مگر ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان دونوں کے دلوں میں ایمان نے ایک ہی جذبہ پیدا کر رکھا تھا۔ ’’عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ ان دونوں کے سوال سے میرے دل پر حیرت طاری ہو گئی اور مجھے اُن کے ایمان کو دیکھ کر بہت ہی تعجب ہوا۔ چنانچہ میں نے انگلی اُٹھا کر یہ بتانے کے لئے کہ تمہارا خیال کیسا ناممکن ہے، کہا کہ وہ قلبِ لشکر میں (یعنیبالکل درمیان میں ) جو شخص گھوڑے پر سوار ہے اور سر سے پیر تک مسلح ہے اور جس کے آگے دو جرنیل ننگی تلواریں لے کر پہرہ دے رہے ہیں، وہ ابوجہل ہے۔ اس وقت ابوجہل کے سامنے ایک تو عکرمہ ننگی تلوار لے کر پہرہ دے رہا تھا اور ایک اور مشہور جرنیل تھا۔‘‘کہتے ہیں اور عکرمہ بھی کوئی معمولی انسان نہیں تھا بلکہ اُس وقت دنیا کے بہترین سپاہیوں میں سے تھا اور وہ دونوں اُس وقت ننگی تلواریں لے کر ابوجہل کے سامنے کھڑے تھے۔ غرض عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے انگلی اُٹھا کر اُنہیں بتایا کہ ابوجہل کونسا ہے۔ میری غرض یہ تھی کہ اُنہیں معلوم ہو جائے، ان کا خیال کیسا ناممکن ہے۔ مگر وہکہتے ہیں کہ ابھی میری انگلی نیچے نہیں آئی تھی، جس طرح باز چڑیا پر حملہ کرتا ہے، اسی طرح انہوں نے یکدم حملہ کر دیا اور پیشتر اس کے کہ کفار کے لشکر کو ہوش آئے کہ یہ ہو کیا گیا ہے، انہوں نے ابوجہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا۔ ان میں سے ایک کا ہاتھ کٹ گیا تو وہ کٹے ہوئے ہاتھ کو الگ پھینک کر پھر آگے بڑھا اور دونوں نے ابوجہل کو زخمی کر کے نیچے گرا دیا اور اس طرح… بدر کی جنگ بے جرنیل کے لڑی گئی۔‘‘

فرمایا کہ ’’دیکھو وہ قوم جو اتنی ذلیل سمجھی جاتی تھی کہ اس کے افراد کو لڑائی کے قابل ہی خیال نہیں کیا جاتا تھا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے طفیل اُن میں کتنا تغیر پیدا ہوا کہ ابوجہل مرتا ہے تو اس حسرت کے ساتھ کہ مجھے مدینہ کے دو لڑکوں نے مارا۔ وہ کہتا ہے مرنے کی پرواہ نہیں، سپاہی لڑائی میں مرا ہی کرتے ہیں۔ مجھے حسرت اور افسوس ہے تو یہ کہ مدینہ کے دو لڑکوں نے مجھے مارا۔ گویا وہ لوگ جنہیں عرب سپاہی تک نہیں سمجھتے تھے جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تو خدا جس کے قبضہ میں دل ہیں اور جو کمزور کو قوی بنانے کی طاقت رکھتا ہے، اُس نے اُن کو ایسا بہادر اور جری بنا دیا کہ ایک تجربہ کار جرنیل جس بات کو ناممکن سمجھتا تھا، خدا نے وہ کام اُس قوم کے دو بچوں کے ہاتھ سے کروا دیا۔

پھر عرب لوگوں کے اندر اس قدر غیرت ہوا کرتی تھی کہ وہ غیرت میں اپنی ہر چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، مگر دیکھو پھر کس طرح خدا نے اُن کے دل بدل ڈالے اور ان کے دلوں سے جھوٹی غیرت کا احساس تک جاتا رہا‘‘۔ اور پھر آپ نے اس شخص کا واقعہ بیان فرمایاجو ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اُس کے باپ کے پاس گیا۔ اُس نے کہا کہ مجھے لڑکی دکھا دو۔ اُس نے کہا نہیں۔ لڑکی مَیں نہیں دکھا سکتا۔ ’’وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر اُس کا باپ لڑکی کی شکل مجھے نہیں دکھاتا۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ غلطی کرتا ہے، اُسے لڑکی دکھا دینی چاہئے۔ وہ پھر اُس کے پاس پہنچا اور کہنے لگا تم نے انکار کیا تھا اور کہا تھا مَیں لڑکی نہیں دکھاتا۔ میں نے اس بارے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہے اور آپ نے فرمایا ہے کہ نکاح کے موقع پر لڑکی کو دیکھ لینا جائز ہے۔ باپ کہنے لگا جائز ہو گا مگر مَیں تمہیں نہیں دکھاتا۔ (اپنی غیرت دکھائی اُس نے۔) تم کسی اور جگہ رشتہ کر لو۔ لڑکی اندر بیٹھی ہوئی یہ باتیں سن رہی تھی۔ جونہی اُس نے یہ بات سنی وہ فوراً ننگے منہ باہر نکل آئی اور کہنے لگی کہ باپ! آپ کیا کہتے ہیں۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ لڑکی کو نکاح سے قبل دیکھ لینا جائز ہے تو آپ کو اس سے کیا انکار ہو سکتا ہے۔ پھر وہ اس نوجوان سے کہنے لگی۔ لو میں تمہارے سامنے کھڑی ہوں مجھے دیکھ لو۔ اُس نوجوان نے کہا مجھے دیکھنے کی ضرورت نہیں، مجھے ایسی ہی لڑکی پسند ہے جو خدا اور اُس کے رسول کی ایسی فرمانبردار ہے۔ تو دیکھو کس طرح اہلِ عرب کے قلوب کو بظاہر دنیاوی عزتیں قربان کرنے کیلئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار کر دیا کہ اُن کے مدّنظر سوائے اس کے اور کوئی بات نہ رہی کہ خدا اور اُس کے رسول کا کیا حکم ہے۔ تو قلوب کو دنیا کی کوئی حکومت نہیں بدل سکتی۔ قلوب کو اللہ تعالیٰ ہی بدلتا ہے۔ بزدل بہادر بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت۔ اور بہادر بزدل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت۔ کنجوس سخی بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور سخی کنجوس بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت۔ جاہل عالم بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت اور عالم جاہل بن جاتے ہیں خدا کے حکم کے ماتحت۔ جب خدا کسی قوم کے متعلق حکم دیتا ہے کہ اُس کو مٹا ڈالو تو اُس کے عالم جاہل ہو جاتے ہیں، اُس کے بہادر بزدل ہو جاتے ہیں، اُس کے سخی کنجوس ہو جاتے ہیں اور اُس کے طاقتور کمزور ہو جاتے ہیں۔ مگر جب خدا کسی قوم کے متعلق فیصلہ کرتا ہے کہ اُسے بڑھایا جائے تو اُس کے کمزور بہادر بن جاتے ہیں، اُس کے جاہل عالم بن جاتے ہیں، اُس کے بخیل سخی بن جاتے ہیں اور اُس کے بیوقوف عقلمند بن جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگیوں میں اس قسم کی کئی مثالیں دیکھی ہیں‘‘۔

فرماتے ہیں کہ ’’احمدیوں میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ ایک شخص اخلاص کے ساتھ احمدی ہوتا ہے، وہ اَن پڑھ اور جاہل ہوتا ہے مگر احمدی ہوتے ہی اُس کی زبان اس طرح کھل جاتی ہے کہ بڑے بڑے مولوی اُس کے ساتھ بات کرنے سے گھبرانے اور کترانے لگ جاتے ہیں۔ مگر ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض علم والے آدمی ہماری جماعت میں داخل ہوتے ہیں مگر چونکہ اُن کے دلوں میں احمدیت کے متعلق اخلاص نہیں ہوتا، اس لئے وہ اسی طرح جاہل رہتے ہیں جس طرح غیر احمدی ہونے کی حالت میں علمِ دین سے جاہل ہوا کرتے تھے۔ جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ ہمارا علم ذاتی نہیں بلکہ خدا کا دیا ہوا علم ہے۔ ہماری بہادری اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی بہادری ہے۔ ہماری قربانیاں اپنی نہیں بلکہ خدا کی دی ہوئی توفیق کا نتیجہ ہیں۔ اگر وہ خدا کی دی ہوئی بہادری نہ ہوتی، اگر وہ خدا کا دیا ہوا علم نہ ہوتا، اگر وہ خدا کی دی ہوئی جرأت نہ ہوتی تو اس کا اخلاص سے کیا تعلق ہوتا۔ پھر تو عادات سے اور محنت سے اور ذاتی جدوجہد اور کوشش سے ہی اُس کا تعلق ہوتا۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو دنیاوی لحاظ سے ان باتوں سے بالکل نابلد ہوتے ہیں مگر ان کے دلوں میں اخلاص ہوتا ہے‘‘۔

پھر آپ نے مثال دی ہے اس کا خلاصہ بیان کر دیتا ہوں۔ پِیرا ایک شخص ہوا کرتا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خادم تھا۔ بڑی موٹی عقل کا آدمی تھا۔ سمجھ نہیں سکتا تھا کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اُس کا ذاتی لگاؤ تھا۔ وہ بیمار تھا۔ اُس کے والدین اُس کو علاج کرانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس چھوڑ گئے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اُس کا علاج کیا۔ ٹھیک ہو گیا اور وہ ڈیوڑھی پر پڑا رہتا تھا۔ اُس کے رشتہ دار جب واپس لینے کے لئے آئے تواُس نے کہا نہیں۔ اب جس نے میرا علاج کیا تھا مَیں تو اُس کے پاس ہی رہوں گا۔ تمہارے ساتھ نہیں جاتا۔ وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈیوڑھی میں بیٹھا رہتا تھا۔ پیغام لانا، پیغام رسانی کرنا، مہمانوں کو کھانا پہنچانا، یہ کام تھا لیکن نمازیں نہیں پڑھتا تھا۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہاں بیٹھا رہتا ہے۔ بعض لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ بن جائے کہ نمازیں نہیں پڑھتا۔ اُسے کہا کہ نماز پڑھا کرو۔ خیر اُس کو بڑا سمجھایا سمجھوایا، اس کو لالچ بھی شاید دیا۔ ایک دن وہ پانچوں نمازیں پڑھنے کے لئے چلا گیا۔ اس عرصے میں جب وہ صاحب مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے تو اندر سے جو خاتون مہمانوں کے لئیکھانا لے کے آئیں، اس نے آوازیں دیں۔ آواز نہیں پہنچی تو زور سے آواز دی کہ کھانا لے کے جاؤ۔ نہیں تو مَیں تمہاری شکایت کروں گی۔ اُس وقت نماز ہو رہی تھی۔ ’’التحیات‘‘ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ تشہد میں سارے بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نیجب اونچی آواز دی تو پیرا صاحب کوپہنچ گئی، تو انہوں نے وہیں مسجد سے بیٹھے بیٹھے آواز دی کہ ’’ٹھہر جا التحیات پڑھ لَوَاں تے آنداں واں۔‘‘ تو یہ اُن کی دماغی حالت کی حالت تھی۔ لیکن حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ اُس وقت قادیان میں پوسٹ آفس نہیں ہوتا تھا، نہ ریل تھی، تارگھر وغیرہ کچھ نہیں تھا اور سٹیشن بھی نہیں تھا۔ جو لوگ بٹالہ میں سٹیشن پر اترتے تھے تو مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب وہاں جا کے لوگوں کو ورغلایا کرتے تھے کہ قادیان نہ جاؤ۔ تمہارا ایمان خراب ہو جائے گا۔ ایک دن اُن کو سارا دن سٹیشن پر پھرنے سے اور کوئی شکار نہیں ملا۔ پِیرا کو کسی کام سے کوئی بلٹی چھڑانے کے لئے، تار دینے کے لئیوہاں بھیجا گیا تھا تو انہوں نے اُس کو پکڑ لیا۔ وہ کہنے لگے کہ پِیرے! تیرا تو ایمان خراب ہو گیا۔ مرزا صاحب کافر اور دجال ہیں نعوذ باللہ۔ تو اپنی عاقبت اُن کے پیچھے لگ کر کیوں خراب کرتا ہے۔ پِیرا ان کی باتیں سنتا رہا۔ جب ساری باتیں کر لیں تو پھر پِیرے سے پوچھا کہ بتاؤ میری باتیں کیسی ہیں؟ پِیرا کہنے لگا مولوی صاحب! میں تو اَن پڑھ اور جاہل ہوں۔ مجھے نہ علم ہے اور نہ مسئلے سمجھ سکتا ہوں۔ لیکن ایک بات ہے جو مَیں آپ کی سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ میں سالہا سال سے بلٹیاں لینے اور تاریں دینے کے لئے یہاں آتا ہوں اور مَیں دیکھتا ہوں کہ آپ ہمیشہ سٹیشن پر آ کر لوگوں کو قادیان جانے سے منع کرتے ہیں۔ آپ کی اب تک شاید اس کوشش میں کتنی ہی جوتیاں گھِس گئی ہوں گی مگر مولوی صاحب! پھر بھی آپ کی کوئی نہیں سنتا اور مرزا صاحب قادیان میں بیٹھے ہیں اور پھربھی لوگ اُن کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہ فرق ہے۔ تو دیکھو یہ کیسا لطیف اور صحیح جواب ہے‘‘۔ اُس کو کوئی دلیل نہیں آتی تھیلیکن یہ قدرتی جواب تھا جو اللہ تعالیٰ نے پِیرے کو سکھایا جس کی نماز کی حالت میں نےآپ کو بتائی۔ تو فرمایا’’تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں اور اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کو بعض دفعہ ایسی باتیں سمجھا دیتا ہے کہ انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے کیونکہ اُس کے پاس یعنی اللہ تعالیٰ کے پاس سارے سامان ہیں اور جس چیز کی کمی ہو وہ اُس کے پاس موجود ہوتی ہے۔ عقل کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے۔ جرأت کی کمی ہو تووہ اُس کے پاس موجود ہے۔ سخاوت کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے۔ صحت کی کمی ہو تووہ اُس کے پاس موجود ہے۔ عزت کی کمی ہو تو وہ اُس کے پاس موجود ہے، مال کی کمی ہو تووہ اُس کے پاس موجود ہے۔ غرض ہر چیز کے خزانے اُس کے پاس موجود ہیں اور وہ اپنے بندوں کو ان خزانوں میں سے ایسے رنگ میں حصہ دیتا ہے کہ انسان حیران ہوجاتے ہیں …‘‘۔

پھر فرماتے ہیں کہ یہیں قادیان میں ایک دفعہ پادری زویمر آیا جو دنیا کا مشہور ترین پادری ہے اور امریکہ کا رہنے والا تھا۔ وہاں ایک بہت بڑے تبلیغی رسالے کا ایڈیٹر بھی تھا اور یوں ساری دنیا کی عیسائی تبلیغی سوسائٹیوں میں نمایاں مقام رکھتا تھا۔ اُس نے قادیان کا بھی ذکر سنا ہوا تھا۔ جب وہ ہندوستان میں آیا تو اور مقامات کو دیکھنے کے بعد وہ قادیان آیا۔ اُس کے ساتھ ایک اور پادری گارڈن نامی بھی تھا۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم اُس وقت زندہ تھے۔ انہوں نے اُس وقت قادیان کے تمام مقامات دکھائے مگر پادری صاحب اپنی نیش زنی سے باز نہیں آ سکے۔ اُن دنوں میں ابھی قادیان میں بھی ٹاؤن کمیٹی نہیں بنی تھی اور گلیوں میں بہت گند پڑا رہتا تھا۔ پادری زویمر باتوں باتوں میں ہنس کر کہنے لگا کہ ہم نے قادیان بھی دیکھ لیااور نئے مسیح کے گاؤں کی صفائی بھی دیکھ لی۔ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب اُسے ہنس کر کہنے لگے۔ پادری صاحب! ابھی پہلے مسیح کی حکومت ہندوستان پر ہے اور یہ اُس کی صفائی کا نمونہ ہے۔ نئے مسیح کی حکومت قائم نہیں ہوئی۔ اس پر وہ شرمندہ ہوا۔

پھر حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ انہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ ہم ملنا چاہتے ہیں۔ طبیعت میری ٹھیک نہیں تھی بہرحال کہتے ہیں میں نے مل لیا۔ پادری زویمر کہنے لگے کہ میں ایک دو سوال کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا فرمائیے۔ کہنے لگے اسلام کا عقیدہ تناسخ کے متعلق کیا ہے؟ آیا وہ اس مسئلہ کو مانتا ہے یا اس کا انکار کرتا ہے۔ جونہی اُس نے یہ سوال کیا۔ معاً اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈال دیا کہ اس کا سوال سے منشاء یہ ہے کہ تم جو مسیح موعود کو مسیح ناصری کا بروز اور اس کا مثیل کہتے ہو تو آیا اس سے یہ مطلب ہے کہ مسیح ناصری کی روح اُن میں آ گئی ہے۔ اگر یہی مطلب ہے تو یہ تناسخ ہوا اور تناسخ کا عقیدہ قرآنِ کریم کے خلاف ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُن سے ہنس کر کہا۔ پادری صاحب! آپ کو غلطی لگی ہے۔ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ مرزا صاحب میں مسیح ناصری کی روح آ گئی ہے بلکہ ہم ان معنوں میں آپ کو مسیح ناصری کا مثیل کہتے ہیں کہ آپ مسیح ناصری کے اخلاق اور روحانیت کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے ہیں۔ میں نے جب یہ جواب دیا تو کہنے لگا کہ آپ کو کس نے بتایا کہ میرا یہ سوال ہے؟ (سوال تو indirect اور طرح تھا) بہرحال کہنے لگا کہ میرا منشاء یہی معلوم کرنا تھا کہ آپ کس طرح کہتے ہیں۔ پھر کہا کہ میں نے اُس سے کہا کہ تمہارا دوسرا سوال کیا ہے؟ کہنے لگے کہ دوسرا سوال یہ ہے کہ نبی کی بعثت کیسے مقام پر ہونی چاہئے۔ یعنی اُس کو اپنا کام سرانجام دینے کے لئے کس قسم کا مقام چاہئے۔ جونہی اُس نے یہ دوسرا سوال کیا۔ معاً دوبارہ خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی کہ اس سوال سے اُس کا یہ منشاء ہے کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ یہ دنیا کا مرکز کیسے بن سکتا ہے؟ اور اس چھوٹے سے مقام سے ساری دنیا میں تبلیغ کس طرح کی جا سکتی ہے؟ اگر حضرت مرزا صاحب کی بعثت کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ پہنچانا ہے تو آپ کو ایسی جگہ بھیجنا چاہئے تھا جہاں سے ساری دنیا میں آواز پہنچ سکتی، نہ یہ کہ قادیان جو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، اُس میں آپ کو بھیج دیا۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اس سوال کے معاً بعد یہ بات میرے دل میں ڈال دی اور میں نے پھر اس کو مسکرا کر کہا کہ پادری صاحب! ناصرہ یا ناصرۃ سے بڑا کوئی شہر ہو، وہاں نبی آ سکتا ہے، حضرت مسیح ناصری جس گاؤں میں ظاہر ہوئے تھے اُس کا نام ناصرہ تھا اور ناصرہ کی آبادی بمشکل دس بارہ گھروں پر مشتمل تھی۔ میرے اس جواب پر پھر اُن کا رنگ فق ہو گیا اور حیران ہوئے کہ میں نے اس کو اسی بات کا جواب دے دیا ہے۔ اسی طرح کوئی تیسرا سوال بھی کیا تھا جو یادنہیں۔ فرماتے ہیں کہ بہر حال اس نے تین سوال کئے اور تینوں سوالات کے متعلق قبل از وقت اللہ تعالیٰ نے القاء کر کے مجھے بتا دیا کہ اُس کا ان سوالات سے اصل منشاء کیا ہے؟ اور باوجود اس کے کہ وہ چکر دے کر پہلے اور سوال کرتا تھا، پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اُس کا اصل منشاء مجھ پر ظاہر کر دیا اور وہ بالکل لاجواب ہو گیا۔ تو اللہ تعالیٰ قلوب پر عجیب رنگ میں تصرف کرتا اور اس تصرف کے ماتحت اپنے بندوں کی مدد کیا کرتا ہے اور یہ تصرف صرف خدا کے اختیار میں ہوتا ہے بندوں کے اختیار میں نہیں ہوتا۔

فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک کج بحث مُلّاں مسجد میں مجھے ملا اور کہنے لگا۔ مجھے مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت دیجئے۔ مَیں نے کہا قرآن موجود ہے۔ سارا قرآن حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ کہنے لگا کونسی آیت؟ مَیں نے کہا قرآنِ کریم کی ہر آیت مرزا صاحب کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اب یہ تو صحیح ہے کہ قرآنِ کریم کی ہر آیت ہی کسی نہ کسی رنگ میں نبی پر چسپاں ہو سکتی ہے مگر بعض آیتیں ایسی ہیں کہ اُن کو سمجھنا اور یہ بتانا کہ کس رنگ میں اُس سے نبی کی صداقت کا ثبوت نکلتا ہے، بہت مشکل ہے۔ فرض کرو کسی آیت میں لڑائی کا واقعہ بیان ہو تو اب گو اس سے بھی نبی کی صداقت ثابت کی جا سکتی ہے مگر وہ ایسا رنگ ہے جو عام طبائع کی سمجھ سے بالا ہوتا ہے۔ مگر کہتے ہیں کہ مجھے اُس وقت یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ تصرف فرما کر اُس کی زبان سے وہی آیت نکلوائے گا جس سے نہایت وضاحت کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت ثابت ہو جائے گی۔ تو بہر حال کہتے ہیں اُس نے یہ آیت پڑھی کہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَبِالْیَوْمِ الْاٰ خِرِ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْن (البقرۃ: 9)۔ مَیں نے سمجھ لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہی تصرف ہے کہ اُس نے اُس کی زبان سے یہ آیت نکلوائی ہے۔ چنانچہ مَیں نے اُس سے کہا۔ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے؟ مسلمانوں کے متعلق ہے یا غیر مسلموں کے متعلق ہے؟ اُس کا اصلسوال یہ تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں، (پہلے سوال یہ کر چکا تھا کہ جب مسلمان نمازیں پڑھتے ہیں،) روزے رکھتے ہیں، حج کرتے ہیں اور خدا اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں تو اُن کے لئے کسی نبی کی کیا ضرورت ہے؟ جب اُس نے یہ آیت پڑھی تو میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق ہے۔ اُس نے کہا مسلمانوں کے متعلق۔ میں نے کہا تو پھر یہ آیت بتاتی ہے کہ مسلمانوں میں بھی بعض لوگ خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم مومن ہیں مگر درحقیقت وہ مومن نہیں ہوتے اور قرآن یہ بتاتا ہے کہ خالی اپنے آپ کو مومن کہہ لینا کافی نہیں جبتک انسان اپنے عمل سے بھی ایمان کا ثبوت نہ دے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں تو کیا خدا اُن کی اصلاح کے لئے کسی نبی کو بھیجے گا یا نہیں۔ فرمایا کہ دلوں کی تسلی تو بہر حال اللہ کا کام ہے لیکن بہر حال اس بات پروہ چپ ہو گیا۔

پھر آخر میں آپ فرماتے ہیں ’’تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی سب کچھ آتا ہے، انسانی طاقت کچھ نہیں کر سکتی۔ اس لئے یاد رکھو دعائیں جب تک مُضطر ہو کر نہ کی جائیں، یعنی اس یقین کے ساتھ کہ دنیا کی ہر ضرورت کو پورا کرنے والی ہستی صرف اور صرف خدا کی ذات ہے، اُس وقت تک قبول نہیں ہوتیں۔ بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئیے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہرحال وہ انسان کو کپڑا ہی دے سکتے ہیں۔ بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئیے ہوئے میں سے دیتے ہیں مگر بہر حال وہ دوسرے کو مکان ہی دے سکتے ہیں۔ بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو خدا کے دئیے ہوئے علم میں سے دوسروں کو فائدہ پہنچاتے ہیں مگر بہر حال وہ بیماروں کا علاج ہی کر سکتے ہیں۔ بیشک دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو گو خدا کے دئیے ہوئے علم سے دوسروں کی حفاظت کے لئے مقدمہ مفت لڑ سکتے ہیں مگر بہرحال وہ مقدمہ بغیر فیس کے لینے کے ہی لڑ سکتے ہیں۔ مگر کوئی انسان دنیا کا ایسا نظر نہیں آ سکتا جس کے ہاتھ میں یہ ساری چیزیں ہوں۔ کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں دلوں کی تبدیلی ہو، کوئی انسان ایسا نہیں جس کے ہاتھ میں جذبات کی تبدیلی ہو۔ یہ صرف خدا کی ذات ہے جس کے قبضہ اور تصرف میں تمام چیزیں ہیں اور جو دلوں اور اُس کے نہاں در نہاں جذبات کو بھی بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔ پس جب تک مُضطر ہو کر دعا نہ کی جائے اور جب تک چاروں طرف سے مایوس ہو کر اور خدا پر کامل ایمان رکھ کر دعا نہ کی جائے، اُس وقت تک دعا قبول نہیں ہوتی لیکن جب اس رنگ میں دعا کی جائے تو وہ خدا کے عرش پر ضرور پہنچتی ہے اور قبول ہو کر رہتی ہے۔

تو آپ کا جو انداز خطاب تھایہ اُس کی بعض جھلکیاں تھیں جو مَیں نے پیش کیں۔ پس آج اس کے حوالے سے مَیں بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آج بھی اگر ہم نے حالات کو بدلنا ہے تو تمام طاقتوں کے مالک خدا کے آگے جھکنا ہو گا اور اس طرح جھکنا ہو گا جس طرح ہم نے اس میں یہسنا کہ تمام طاقتوں کا سرچشمہ وہی ہے، تمام قسم کی مدد اُسی سے مل سکتی ہے۔ دلوں کو پھیرنے والا وہی ہے۔ دلوں کو قابو کرنے والا وہی ہے۔ لوگوں کی طاقتوں کو قابو کرنے والا وہی ہے۔ اللہ کرے کہ ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں۔

یہاں ہمارے ایک بڑے مخلص کارکن مکرم عظیم صاحب جو شعبہ ضیافت یوکے میں کام کرتے تھے اور پہلے جرمنی میں بھی بڑا لمبا عرصہ کام کرتے رہے، دو تین دن پہلے اُن کی وفات ہو گئی، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔ آج جنازہ اُن کا ہونا تھا لیکن کیونکہ ابھی سرٹیفکیٹ وغیرہ حاصل کرنے میں دقت تھی، اس لئے جنازہ نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ایک دو دن تک جب ان کی نعش ہسپتال سے ساری قانونی کارروائیاں کرنے کے بعد مل جائے گی توجنازہ بھی انشاء اللہ مسجد فضل میں ہو جائے گا۔ بہرحال یہ بہت فدائی کارکن تھے۔ مخلص تھے۔ وفادار تھے۔ ہر ایک کا درد رکھنے والے تھے۔ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے سارے بچے ابھی زیرِ تعلیم ہیں۔ تین بچے ہیں، دو بیٹیاں ایک بیٹا اور بڑے اخلاص والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ان کی اہلیہ کو بھی صبر اور حوصلہ دے اور بچوں پر بھی ایسا ہاتھ رکھے کہ اُن کو اُن کے باپ کیجو کمی ہے وہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہی پورا فرماتا رہے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 22؍ فروری 2013ء شہ سرخیاں

    حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے جو خداداد علم، ذہانت اور فراست عطا فرمائی تھی اس کے بہت سے پہلو ہیں۔ خلافت سے پہلے بھی آپ کی تحریرات اور تقریریں علم ومعرفت سے بھری ہوئی ہیں۔ آپ کی کتب، تقریریں اور مضامین انوارالعلوم کے نام سے شائع ہو رہی ہیں۔ اسی طرح خطبات جمعہ بھی شائع ہو رہے ہیں۔ فضل عمر فاؤنڈیشن مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی کروا رہی ہے۔ بعض انگریزی میں شائع بھی ہوچکی ہیں۔ اگر ہم یہ مجموعے اور خزانے پڑھیں تو تبھی ہم آپ کی علمی وسعت اور اللہ تعالیٰ کی طر ف سے علوم ظاہری وباطنی سے پُر کئے جانے کی جو پیشگوئی تھی اس کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ اور اپنے علم میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

    حضرت مصلح موعودؓ کے 10؍ اپریل 1942ء کے خطبہ جمعہ کے حوالہ سے  اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مضامین کا نہایت دلکش اور روح پرور بیان۔

    آج بھی اگر ہم نے حالات کو بدلناہے تو تمام طاقتوں کے مالک خدا کے آگے جھکنا ہوگا۔ اللہ کرے کہ ہم ایسی دعائیں کرنے والے ہوں۔

    شعبہ ضیافت یوکے کے ایک کارکن مکرم عظیم صاحب کی وفات اور مرحوم کا ذکرخیر۔

    فرمودہ مورخہ22؍ فروری 2013ء بمطابق22؍ تبلیغ 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور