باہمی امن، محبت اور رحم کا فروغ
خطبہ جمعہ یکم مارچ 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَاِب (الرعد: 22) اور وہ لوگ جو اسے جوڑتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور اپنے ربّ سے ڈرتے ہیں اور برے حساب سے خوف کھاتے ہیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اُن تعلقات کے جوڑنے کا فرمایا ہے جن کے جوڑنے کا صرف یہ حکم نہیں کہ جوڑنا ہے بلکہ قائم رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔ تعلقات جوڑے اور پھر قائم رکھے۔ یعنی ایک مومن، ایک حقیقی مومن جسے اللہ تعالیٰ نے مومنانہ فراست بخشی ہے، اس بات کا تصور ہی نہیں کر سکتا ہے کہ وہ ایسے کام کرے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے خلاف ہوں۔ پس جب وہ ایک حقیقی مومن ہے، اللہ تعالیٰ سے ایک دفعہ تعلق جوڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اُن تعلقوں کو جوڑتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں تو پھر اُن پر دوام اختیار کرتا ہے۔ فرمایا کہ ایک صاحبِ عقل اور حقیقی مومن کی نشانی یہ ہے کہ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ۔ یعنی وہ اُن تعلقات کو قائم کرتے ہیں جن کے قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حصہ آیت کی وضاحت کرتے ہوئے خلاصۃً اس طرح فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت میں کمال حاصل کر کے اُس کے حکم اور اُس کی ہدایت کے ماتحت مخلوق کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور مخلوق سے رشتہ اتحاد و اخوت اور احسان جوڑتے ہیں۔ پھر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اور محبت کا کمال اس لئے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَاِب کہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب سے خوف رکھتے ہیں۔ اپنے ربّ کی خشیت دل میں رکھتے ہیں۔ اور خشیت لغت میں کسی اعلیٰ صفات والی چیز کے کمال و حسن کو پہچاننے کے بعد اُس کے ہاتھ سے جاتے رہنے کے خوف کو کہتے ہیں۔ کہیں میرے ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ یعنی خشیت اُس وقت بولا جاتا ہے جبکہ اُس چیز کی معرفت حاصل ہو جس سے خوف کیا گیا ہے۔ نیز خوف نقصان یا ضرر کا نہ ہو بلکہ اس وجہ سے ہو کہ انسان یقین کرے کہ وہ چیز نہایت اعلیٰ اور عظمت والی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی غفلت کی وجہ سے اُس کا قرب کھو بیٹھوں اور ایک مومن کے نزدیک زمین و آسمان میں سب سے اعلیٰ اور عظمت والی چیز خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر جلد 3صفحہ 409)
پس اس کے علاوہ نہ کوئی چیز ہے اور نہ کوئی ہو سکتی ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا کہ مومن اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اُس کی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے، یہی ایک مومن کی نشانی ہے۔ پس یہ خشیت اور برے حساب کا خوف ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخلوق کے حق ادا نہ کرنے کی وجہ سے دامن گیر ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا یہی مومن کی نشانی ہے۔ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ اُس سے ناراض ہو، اُس کو دھتکار دے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے بلکہ ایک حقیقی مومن نہ بھی ہو، تھوڑا سا بھی ایمان ہو تو وہ یہی چاہتا ہے لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ہیں جو قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ کبھی یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُن کو حقیقی رنگ میں جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ تضاد ہے جو دنیا میں اکثر مسلمانوں کی اکثریت میں نظر آتا ہے۔ ایک خواہش اور دعویٰ کے باوجودنظر آتا ہے۔ اور احمدیوں کے بارے میں بھی ہم سو فیصدنہیں کہہ سکتے کہ وہ اس تعریف کے اندر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومن کی بتائی ہے۔ پس ہمیں بھی اس بارے میں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔
اس وقت مَیں صرف مسلمانوں کے اوصاف میں سے بھی صرف ایک وصف کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا بڑا واضح ارشاد ہے کہ مسلمان کی کیا خصوصیت ہے اور اس میں یہ ہونا چاہئے۔ مومن کی خصوصیت میں سے یہ ایک بہت بڑی خصوصیت ہے جو بیان فرمائی گئی ہے۔
اس کے بارے میں پہلے میں عمومی طور پر مسلمان ممالک کے حوالے سے کچھ کہوں گا جہاں علماء اور حکمرانوں نے اسلام اور ایمان کے نام پر اس فرض یا خصوصیت کی پامالی شروع کی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حقیقی مومنین کی یہ نشانی ہے کہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) آپس میں بے انتہا رحم، ملاطفت اور نرمی کرنے والے ہیں۔ اس حکم کی یا مومنین کی نشانی کی، جیسا کہ مَیں نے کہا، مذہب اور اسلام کے نام پر جس طرح پامالی ہو رہی ہے وہ کسی ایک ملک میں نہیں بلکہ تقریباً تمام مسلم دنیا میں یہی چیز ہمیں نظر آتی ہے۔ کہیں کم ہے کہیں زیادہ ہے۔ اس لئے کہ ہر ایک کے ذاتی مفادات اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش پر حاوی ہو گئے ہیں۔ پاکستان کی حالت دیکھ لیں۔ درجنوں روزانہ قتل ہو رہے ہیں۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ اگر گزشتہ چند سالوں کی قتل و غارت کی تعداد جو آپس کی لڑائیوں اور حملوں کی وجہ سے ہوئی ہے ان کو جمع کیا جائے تو ہزاروں میں ان کی تعداد پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت میرے پاس اس کے حقیقی اعداد و شمار تو نہیں ہیں لیکن اخباروں سے پڑھنے سے پتہ لگتا ہے کہ روزانہ درجنوں میں قتل ہو رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ہر سال خود کش بموں سے سینکڑوں بلکہ شاید سینکڑوں سے بھی تعداد آگے نکلے۔ ہزاروں میں پہنچ گئی ہے۔ لوگ مارے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ خدا کے نام پر اور دین کے نام پر ہو رہا ہے۔ کیونکہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی ایک خصوصیت بھی بتائی ہے کہ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ (سورۃ الفتح: 30) کہ کفار کے خلاف جوش رکھتے ہیں، اُن کے لئے سختی ہے۔ اس لئے علماء سمجھتے ہیں کہ اپنی مرضی سے کسی کو بھی کافر بنا کر اُس کے خلاف جو چاہے کر لو۔ ہمیں لائسنس مل گیا۔ جب ایسی سوچ ہو جائے، ایسے معیار ہو جائیں تو کفر کے فتوے لگانے والے خود اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں کے مطابق کفر کے فتوے کے نیچے آ جاتے ہیں۔ بہر حال پاکستان میں اس لحاظ سے ابھی بظاہر امن کی حالت ہے کہ حکومت اور عوام کی لڑائی نہیں ہے لیکن جن ملکوں میں جنگ کی حالت ہے وہاں جہاں دشمن فوجوں نے بھی ظلم و بربریت کی ہے، وہاں خود مسلمان بھی مسلمان کو مار رہے ہیں۔ مثلاً افغانستان کا جائزہ لیں تو وہاں مسلمانوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی اور خود کش حملے یا عام حملے شروع کئے ہوئے ہیں۔ افغانستان میں کہا جاتا ہے گزشتہ دس سال میں اس وجہ سے تقریباً پچاس ہزار سے زائد اموات ہو چکی ہیں۔ ان میں غیر ملکی فوجی کم ہیں جو مرے بلکہ فوجی چاہے وہ افغانی بھی ہوں کم ہیں۔ شہریوں کی موتوں کی تعداد زیادہ ہے جو معصوم گھروں میں بیٹھے یا بازاروں میں پھرتے اپنے ہی لوگوں کی بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ شام میں، سیریا (Syria) میں تو خالصۃً مسلمان ہی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں اور کہا جاتا ہے (یہ بڑا محتاط اندازہ ہے) کہ ستّر ہزار لوگ اب تک مارے جا چکے ہیں۔ اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔ مصر میں انقلاب لانے کے بہانے ہزاروں قتل کئے گئے، لیبیا میں ہزاروں لوگ مارے گئے اور ابھی تک مارے جا رہے ہیں۔ عراق میں 2003ء سے اب تک کہا جاتا ہے کہ چھ لاکھ سے زائد لوگ مارے گئے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد بھی ابھی تک خود کش حملوں کے ذریعہ سے عراق میں مارے جا رہے ہیں۔ یا ویسے بھی آپس میں لڑائی سے مارے جا رہے ہیں۔ اب اخباروں میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ مسلمان ممالک، باہر کی دوسری حکومتیں بھی طاغوتی اور شیطانی طاقتوں یا قوتوں کا آلۂ کار بن کر آپس میں یہ سب کچھ کر رہے ہیں۔ مثلاً دو دن پہلے شام کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی عرب یورپ کے ایک ملک سے اسلحہ لے کر شام میں جو مخالفین کا حکومت مخالف گروپ ہے، اُس کو سپلائی کر رہا ہے اور ان لوگوں میں شدت پسند لوگ بھی شامل ہیں۔ اگر ان کو حکومت مل گئی تو عوام مزید ظلم کی چکی میں پسیں گے۔ مصر میں بھی آجکل لوگ یہ نظارے دیکھ رہے ہیں۔ نہ صرف ملک کے عوام بلکہ علاقے کا امن بھی برباد ہو گا۔ اور یہی نہیں بلکہ پھر یہ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ (سورۃ الفتح: 30) کے نام پر دنیا کا امن بھی برباد کرنے کی کوشش کریں گے۔ اگر مسلمان ممالک کسی ملک میں ظلم ہوتا دیکھ رہے ہیں تو صحیح اسلامی طریق تو یہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بات چیت کے ذریعہ سے غیروں کو بیچ میں ڈالے بغیر امن اور عوام کے حقوق کی کوشش کرتی اور یہ کر سکتی تھی۔ اگر شام میں پہلے علوی سُنّیوں پر ظلم کر رہے تھے تو اب اُس کا الٹ ہو رہا ہے اور اس وجہ سے مسلمان ملکوں کے آپس میں دو بلاک بھی بن رہے ہیں جو خطے کے لئے خطرہ بن رہے ہیں۔ اب اگر عالمی جنگ ہوتی ہے تو اس کی ابتدا مشرقی ممالک سے ہی ہو گی جو گزشتہ جنگوں کی طرح یورپ سے نہیں ہو گی۔ پس مسلمان ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہئے۔ کاش کہ یہ لوگ اور حکومتیں بھی اور علماء بھی اور سیاستدان بھی قرآنِ کریم کے اس حکم پر عمل کرنے والے ہوتے۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (الحجرات: 11)کہ مومن تو بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تا کہ تم پر رحم کیا جائے۔
یہ لوگ تقویٰ اختیار کرتے تا کہ آپس کے رحم کے جذبات کی وجہ سے رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے رحم سے بھی یہ حصہ لیتے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں مسلمانوں کو رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کا حکم فرمایا ہے تو اس آیت کے آخر پر یہ بھی فرمایا ہے کہ اجرِ عظیم کا وعدہ اُن لوگوں سے ہے، اُن مومنوں سے ہے جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں۔ قتل و غارت کی یہ کیفیت جو مَیں نے بیان کی یہ اُن ملکوں کی ہے جہاں بغاوت یا نام نہاد جنگ کی کیفیت ہے۔ نام نہاد میں نے اس لئے کہا کہ بعض بڑی طاقتیں، بڑے ممالک کی فوجوں نے بھی زبردستی اپنی برتری ثابت کرنے کے لئے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور جنگ کا ماحول بنایا ہوا ہے کہ ہم علاقے کے امن کے لئے آئے ہیں۔ حالانکہ اگر مسلمان پہلے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ پر عمل کرتے، اصلاح کی کوشش کرتے اور اگر کسی وجہ سے فتنہ یا جنگ کی کیفیت ہو ہی جاتی تو فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُم پر عمل کرتے کہ پس اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کروایا کرو۔ توغیروں کو آنے کی نہ ضرورت ہوتی، نہ جرأت ہوتی۔
بہر حال مَیں یہ کہہ رہا تھا کہ ان جنگ اور فساد میں ملوث ملکوں کی حالت تو ظاہر ہی ہے لیکن جن ملکوں میں بظاہر امن نظر آتا ہے، وہاں بھی مسلمان مسلمان کی گردنیں کاٹ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں۔ حکومت اگر کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی کر رہی ہے۔ قانونی طور پر کسی لیڈر کو سزا دی جاتی ہے تو اُس کے ہمدرد یا اُس سے تعلق رکھنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور مار دھاڑ اور ظلم و تعدی شروع ہو جاتی ہے۔ جو معصوم ہیں ان کا بھی قتل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ تو یہ کونسا اسلام ہے؟ کونسی قرآنی تعلیم ہے جس پر یہ مسلمان عمل کر رہے ہیں۔ جائزے لیں تو یہی نظر آئے گا کہ اس وقت ظلم و بربریت مسلمان ملکوں میں سب سے زیادہ ہے۔ یا اسلام کے نام پر مسلمان اس میں ملوث ہیں۔ یہ مسلمانوں کی یا نام نہاد مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر مسلمان کے دوسرے مسلمان سے تعلق میں تو ایک خاص بھائی چارے کا بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی توجہ نیک اعمال کرنے کی طرف اسلام نے دلائی ہے۔ امن، پیار اور محبت کے راستوں کی طرف چلنے کی توجہ اسلام نے دلائی ہے اتنے ہی مسلمان زیادہ بگڑ رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ ان لوگوں میں ظالم پیدا ہو رہے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں دیکھیں تو مسلمانوں کو ہی فتنے کا موجب ٹھہرایا جاتا ہے۔ اُن ملکوں کی جیلوں میں بھی کہا یہ جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر نسبت دیکھیں تو مسلمان قیدی زیادہ ہیں۔ تو یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ہی تھی جس کو سنوارنے کے لئے مسیح موعودنے آنا تھا اور آیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے اور نہ کسی مسیح کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے جو ہماری تعلیم ہے، یہی کافی ہے۔ اگر تعلیم کافی ہے تو علماء نے اپنے ذاتی اَناؤں اور مقاصد کے لئے یہ جو مختلف قسم کے گروہ بنائے ہوئے ہیں یہ کس لئے ہیں؟ ان کو صحیح اسلامی تعلیم پر کیوں نہیں چلاتے۔ کیوں اتنی زیادہ گروہ بندیاں ہیں اور ایک دوسرے کو پھاڑ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں۔ کیوں اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا ادراک نہ خود حاصل کرتے ہیں نہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو کرواتے ہیں کہ وَیَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَیَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَاب۔
پس ان کو نہ اپنے رب کا خوف ہے، نہ آخری دن کے حساب کتاب کا۔ اور معصوم اور دین سے بے بہرہ عوام کو یہ لیڈر بھی اور یہ فتوے دینے والے بھی اپنی من گھڑت تعلیم اور تفسیر سے دھوکہ دیتے چلے جا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عظیم پیغام کو جو رہتی دنیا تک جاری رہنے والا ہے کیونکہ آپ نے یہ فرمایا تھا کہ اس پیغام کو آگے پہنچاتے رہنا۔ یہ پیغام اُمّت کو دیا تھا کہ بھول نہ جانا، اس کو یہ علماء کہلانے والے لوگ بھول جاتے ہیں بلکہ نہیں، بھولتے نہیں۔ یہ کہنا چاہئے کہ اپنے مفادات کی خاطر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو پسِ پشت ڈال کر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو کوئی اہمیت نہ دے کر یقینا یہ توہینِ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر بڑا واضح فرمایا تھا کہ آج کے دن تمہارے خون، مال، تمہاری آبروئیں تم پر حرام اور قابلِ احترام ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے اس شہر میں، تمہارے اس مہینہ میں واجب الاحترام ہے۔ اے لوگو! عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے، وہ تم سے پوچھے گا کہ تم نے کیسے عمل کئے۔ دیکھو میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگ جاؤ۔ اور آگاہ رہو تم میں سے جو یہاں موجود ہے اُن لوگوں کو پیغام پہنچا دے جو کہ موجودنہیں۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس کو پیغام پہنچایا جائے وہ سننے والے سے زیادہ سمجھ دار ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تین بار دہرائے۔ حضرت ابوبکرؓ سے یہ روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام ٹھیک ٹھیک پہنچا دیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ تعالیٰ ! گواہ رہنا۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب حجۃالوداع حدیث نمبر 4406) (سنن ابن ماجہ کتاب المناسک باب الخطبۃ یومالنحر حدیث نمبر 3055)
اب یہ پیغام ہے جو ان کو مل رہا ہے اور یہ عمل ہیں جو ہمیں نظر آ رہے ہیں۔ پس اس واضح ارشاد کے بعدنام نہاد علماء کے پاس کیا رہ جاتا ہے کہ ظلم و تعدی کے بازار گرم کریں اور آپس میں دین کے نام پر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹیں۔ کیا اس ارشاد پر عمل نہ کرکے بلکہ پامال کر کے خود یہ لوگ توہینِ رسالت کے مرتکب نہیں ہو رہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (بخاری کتاب الایمان۔ باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہ)
کیا آجکل کے علماء اپنے آپ کو مسلمان ہونے کی اس تعریف کا حقدار ٹھہرا سکتے ہیں؟ احمدیوں کو تو انہوں نے قانونی اغراض کے لئے اسلام سے باہر نکال دیا جس میں تمام فرقے اکٹھے ہو گئے۔ ہمیں تو بہرحال اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خدا تعالیٰ ہمیں مسلمان کہتا ہے۔ ہم کلمہ پڑھتے ہیں اور دل سے خدّامِ ختم المرسلین ہیں۔ لیکن جو احمدیوں کے علاوہ دوسرے فرقے ہیں اُن پر بھی اب دیکھیں کس قدر ظلم ہو رہے ہیں۔ کیوں کوئٹہ پاکستان میں دو مختلف موقعوں پر جو درجنوں معصوموں، بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیا گیا؟ آخر کس جرم میں؟ اس لئے کہ وہ ایسے فرقے سے تعلق رکھتے ہیں جو اُنہیں پسندنہیں۔ اُن کی تعداد اتنی اکثریت میں نہیں۔ پس جو قانون انہوں نے احمدیوں کے خلاف اپنے ظلم کے ہاتھ لمبے کرنے کے لئے بنایا تھا اور اس میں سارے شامل ہو گئے تھے اب وہی اُن میں سے شیعوں کے اوپر بھی الٹ رہا ہے۔ اب وہ اس کے ٹارگٹ بن رہے ہیں۔ اور پھر یہ ظلم آپس میں ہر فرقے میں دوبارہ ایک دوسرے پر بھی ہو گا۔ ہر فرقہ دوسرے فرقے پر کرے گا۔ دوبارہ اس لئے مَیں نے کہا ہے کہ اس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس میں یہ صرف احمدیوں کے مقابلے میں اکٹھے ہو گئے تھے۔ لیکن جب ایک منہ کو نشے کا ایک مزہ لگ جاتا ہے تو پھر اُس کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ یہ اب ان کے منہ کے مزے ہی لگے ہوئے ہیں۔ منہ کو خون جو لگا ہوا ہے تو اب یہ ایک دوسرے کا خون بھی کریں گے اور یہی کچھ یہاں ہو بھی رہا ہے۔
احمدی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح مقام کو سمجھتے ہیں، ہم تو اس حدیث کو صرف مسلمانوں تک محدودنہیں رکھتے بلکہ ہمارے نزدیک تو اس کی وسعت دنیا کے ہر امن پسند انسان تک ہے۔ عموماً یہی کہا جاتا ہے کہ مسلمان مسلمان سے محفوظ ہے لیکن حضرت مصلح موعودنے اس کی وسعت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ صرف مسلمان تک محدودنہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے ہر سلامتی پسند اور امن پسند شخص محفوظ رہتا ہے۔ پس یہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا حقیقی اِدراک جو تقویٰ سے ملتا ہے۔ اُن علماء کے پاس تو یہ تقویٰ ہے نہیں۔ وہ تو اپنی اَناؤں اور مفادات کے مارے ہوئے ہیں۔ نتیجۃً اس فہم و ادراک سے بھی محروم ہیں۔ پس جب تک ان کے ذاتی مفادات ختم نہیں ہوتے، جب تک ان میں قربانی کا مادہ پیدا نہیں ہوتا اور قربانی کا مادہ پیدا ہوتا ہے رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ کی روح کو سامنے رکھ کر اور اس پر عمل کرتے ہوئے، اُس وقت تک چاہے کوئی جتنا بھی بڑا جُبّہ پوش ہو وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں حقیقی مومن نہیں ہے۔ اور جو حقیقی مومن نہیں ہے اُس نے دوسروں کی رہنمائی کیا کرنی ہے۔
گزشتہ دنوں پاکستان میں ایک مولوی صاحب نے بیان دیا کہ احمدی ناسور ہیں۔ پتہ نہیں کہاں کے ناسور بیان کرنا چاہتا تھا، ملک کے یا کہاں کے؟۔ بہرحال احمدی تو ناسور نہیں ہیں۔ احمدی تو اللہ تعالیٰ کی حقیقی تعلیم سے دنیا کو روشناس کروا کر شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ احمدی وہ ہیں جن کی باتیں سن کر غیر مسلم بھی کہتے ہیں، اسلام کے خلاف لکھنے اور بولنے والے بھی کہتے ہیں کہ تمہارے اسلام اور دوسرے اسلام یا دوسرے علماء کے اسلام میں فرق ہے۔ یہ کیوں ہے؟ تب ہمیں بتانا پڑتاہے کہ ہمارا اسلام وہ ہے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام تھا۔ ہمارا اسلام وہ ہے جو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ہے۔ اس کے مقابلے میں مولویوں کا جو اسلام ہے وہ ان کا خود ساختہ اسلام ہے اور مذہب کے نام پر ذاتی مفادات کا آئینہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلم اُمّہ کی آنکھیں بھی کھولے، اُن کے سینے بھی کھولے اور اُنہیں حقیقی اسلام سے روشناس کروائے جو آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق اور عاشقِ صادق کے ذریعہ سے دنیا میں پھیل رہا ہے۔
بہر حال ان باتوں کے علاوہ جیسا کہ مَیں نے شروع میں کہا تھا کہ ہم اپنے بارے میں بھی سو فیصد ضمانت نہیں دے سکتے کہ ہم ہر طرح، ہر سطح پر یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ پر عمل کرنے والے ہیں یا اس کی مثال کہلانے والے ہیں۔ اگر ہر کوئی اپنے جائزے لے تو اس کی طرف توجہ پیدا ہو گی اور یہ صورت نظر آئے گی کہ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں پڑنا چاہئے۔ بڑے پیمانے پر نہ سہی، چھوٹے پیمانے پر ہی، اپنے ماحول میں ہی ہمیں اپنی یہ حالت نظر نہیں آتی اور جب چھوٹے پیمانے پر اس قسم کی حرکتیں شروع ہو جائیں تو پھر یہی بڑے بگاڑ بن جایا کرتی ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی بخشش اور اُس کی رحمت کے اپنے لئے تو خواہاں ہوتے ہیں لیکن دوسروں پر رحم کرنا اور معاف کرنا نہیں جانتے۔ اگر ہم رحم کے جذبے سے دوسروں کا خیال رکھنے والے ہوں تو جماعت کے بہت سے تربیتی مسائل اور قضائی مسائل بھی خود بخود حل ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے کہ ِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلَاتُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (النور: 23) کہ پس چاہئے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں۔ کیا تم یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس بارے میں ایک جگہ فرمایا ہے کہ:
’’لوگوں کے گناہ بخشو اور اُن کی زیادتیوں اور قصوروں کو معاف کرو۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ خدا بھی تمہیں معاف کرے اور تمہارے گناہ بخشے اور وہ تو غفور و رحیم ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23صفحہ 387)
پس اللہ تعالیٰ کی بخشش کا کون ہے جو خواہشمندنہ ہو۔ ہر وہ شخص جو خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتا ہے جس کو اِس دنیا میں بھی خدا تعالیٰ کے رحم اور فضل کی ضرورت ہے اور اگلے جہان میں بھی، وہ تو اللہ تعالیٰ سے اپنے قصوروں کے معاف کرانے کا ہر وقت حریص ہوتا ہے۔ اگر یہ ٹھیک بات ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو تو پھر تم بھی میری اس صفت کو اپناؤ اور میرے بندوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں رحم کے جذبات کو زیادہ سے زیادہ ابھارو۔
اس ضمن میں مزید کچھ بیان کیے بغیر چند احادیث مَیں آپ کے سامنے رکھوں گا۔ کیونکہ آسان حدیثیں ہی ہیں اور اس مضمون کو مزید اجاگر کرتی ہیں۔ حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص رزق کی فراخی چاہتا ہے یا خواہش رکھتا ہے کہ اُس کی عمر اور ذکرِ خیر زیادہ ہو، اُسے صلہ رحمی کا خُلق اختیار کرنا چاہئے۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا حدیث نمبر 6523) یعنی اپنے رشتہ داروں سے اچھے تعلق رکھنے چاہئیں۔ اپنے قریبیوں سے اچھے تعلق رکھنے چاہئیں۔ اُن کے قصور معاف کرنے چاہئیں۔ حضرت عمرو بن شعیبؓ اپنے باپ اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُس شخص کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں جو چھوٹے پر رحم نہیں کرتا، بڑوں کا شرف نہیں پہچانتا۔ یعنی اُس کی عزت نہیں کرتا۔ (سنن الترمذی کتاب البر و الصلۃ باب ما جاء فی رحمۃالصبیان حدیث نمبر 1920)
اب یہ حدیثیں بچپن میں بھی لوگ پڑھتے ہیں، یہاں بھی کلاسوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ کئی جگہ یہ ذکر ہوتا ہے۔ ہم سنتے ہیں لیکن سننے کے بعد مسجد سے باہر نکل کے یا جلسہ گاہ سے باہر نکل کے بھول جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص پسند ہے جو اُس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے۔ اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ (الجامع لشعب الایمان للبیہقی جلدنمبر 9 صفحہ نمبر 523 کتاب التاسع والأربعون من شعب الایمان و ھو باب فی طاعۃ أولی الأمر بفصولھا حدیث نمبر 7048 مکتبۃ الرشد 2004ء)
ضروریات کا خیال اُسی صورت میں رکھا جا سکتا ہے جب ایک دوسرے کے لئے قربانی کی روح ہو، رحم کا جذبہ ہو، درد ہو، پیار ہو، محبت ہو۔
حضرت عبداللہؓ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمان خدا رحم کرے گا۔ اہلِ زمین پر رحم کرو تو آسمان پر اللہ تم پر رحم کرے گا۔ (سنن الترمذی کتاب لابر و الصلۃ باب ما جاء فی رحمۃ المسلمین حدیث نمبر 1924)
پھر اسی طرح حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اُسے جنت میں داخل کرے گا۔ پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے۔ دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے۔ تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے۔ (سنن الترمذی کتاب القیامۃ و الرقائق باب 113/48حدیث نمبر2494)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے۔ نرمی کو پسند کرتا ہے۔ نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اُتنا سخت گیری کا نہیں دیتا بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر6601) یعنی نرمی سے جو مسائل حل ہو جاتے ہیں اُن کو نرمی سے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ہی روایت فرمائی ہے کہ کسی چیز میں جتنا بھی رِفق اور نرمی ہو اُتنا ہی یہ اُس کے لئے زینت کا موجب بن جاتا ہے۔ اُس میں خوبصورتی پیدا ہوتی ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے۔ سختی جو ہے وہ(عمل کو بھی) بدنما کر دیتی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ والآداب باب فضل الرفق حدیث نمبر6602) اور لوگ پھر اُس سے دور بھاگتے ہیں۔ یعنی رِفق اور نرمی میں حُسن ہی حُسن ہے۔
پھر حضرت ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا مَیں تم کو بتاؤں کہ آگ کس پر حرام ہے؟ وہ حرام ہے ہر اُس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے۔ (سنن الترمذی کتاب القیامۃوالرقائق باب نمبر 110/45حدیث نمبر2488) یعنی لوگوں سے نفرت نہیں کرتا۔ اُن سے نرم سلوک کرتا ہے۔ اُن کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے۔
یہاں اس ضمن میں عہدیداروں کو خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ نیک جذبات اور رحم کا جذبہ ہر عہدیدار میں، خاص طور پر جماعتی عہدیدار میں ہونا چاہئے۔ ویسے تو یہ ہر احمدی کا خاصّہ ہونا چاہئے لیکن عہدیدار جو جماعتی خدمات سرانجام دے رہے ہیں اُن کو خاص طور پر کسی سائل کو یا کسی شخص کو جو دفتر میں بار بار بھی آتا ہے، رابطہ کرتا ہے، اُس سے تنگ نہیں آنا چاہئے اور کھلے دل سے ہمیشہ استقبال کرنا چاہئے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جماعت کے کسی بھی کارکن کو کسی بھی صورت میں جو اعلیٰ اخلاق ہیں اُن سے دُور نہیں ہٹنا چاہئے یا کہیں ایسی صورت پیدا نہیں ہونی چاہئے جہاں ہلکا سا بھی شائبہ ہو کہ اعلیٰ اخلاق کا اظہار نہیں ہوا۔ بلکہ کوشش ہو کہ جتنی زیادہ سہولت میسر ہو سکتی ہے، زیادہ سے زیادہ نرمی سے جتنی بات ہو سکتی ہے، وہ کرنے کی کوشش کریں۔ پھر حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے اور عزت دیتا ہے۔ (مسندالامام احمد بن حنبل جلد3صفحہ23مسند ابی ھریرۃ حدیث نمبر7205عالم الکتب بیروت 1998ء) اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔ اللہ کرے کہ یہ معیار ہماری جماعت کے ہر فرد میں قائم ہو جائے۔
پھر حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک دوسرے سے بُغض نہ رکھو۔ حسدنہ کرو۔ بے رُخی اور بے تعلقی اختیار نہ کرو۔ باہمی تعلقات نہ توڑو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے اور اُس سے قطع تعلق رکھے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب الھجرۃ حدیث نمبر6076)
حضرت ابوہریرہؓ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک دوسرے سے حسدنہ کرو۔ ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر بھاؤ نہ بڑھاؤ۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے پیٹھ نہ موڑو۔ یعنی بے تعلقی کا رویہ اختیار نہ کرو۔ ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اُس کی تحقیر نہیں کرتا۔ اُس کو شرمندہ یا رُسوا نہیں کرتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ تقویٰ یہاں ہے۔ اور یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دہرائے۔ پھر فرمایا۔ انسان کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت کی نظر سے دیکھے۔ ہر مسلمان کا خون، مال اور عزت اور آبرو دوسرے مسلمان پر حرام اور اُس کے لئے واجب الاحترام ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر والصلۃوالآداب باب تحریم ظلم المسلم و خذلہ و احتقارہ و دمہ وعرضہ ومالہحدیث نمبر6541)
اللہ کرے کہ یہ تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں سب سے بڑھ کر تھا، وہ ہم میں سے ہر ایک آپ کے دل، آپ کے اُسوہ پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا۔ کہاں ہیں وہ لوگ جو میرے جلال اور میری عظمت کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ آج جبکہ میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں۔ مَیں اُنہیں اپنے سایہ رحمت میں جگہ دوں۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃوالآداب باب فی فضل الحب فی اللہ تعالیٰ حدیث نمبر6548)
اللہ کرے کہ ہم آپس کے تعلقات میں محبت و مودّت کے جذبات اور ایک دوسرے کے لئے رحم کو بڑھانے والے ہوں۔ وہ جماعت بن جائیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں جس طرح اُن کی خواہش تھی آپ ہمیں بنانا چاہتے تھے۔ دنیا کے امن کی بھی جماعت احمدیہ ضمانت بن جائے۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو مان کر آپس کے پیار و محبت اور مودّت کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں۔ مسلمان لیڈر جو آجکل اپنے ہم وطنوں پر ظلم روا رکھے ہوئے ہیں، اس کو بند کر کے انصاف اور رحم کے ساتھ اپنی رعایا سے سلوک کرنے والے ہوں۔ عوام بھی مفاد پرستوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے، اُن کا آلۂ کار بننے کی بجائے عقل سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے صحیح حکموں کو تلاش کریں اور اُن پر چلنے کی کوشش کریں۔ مسلمان ممالک پر جو خوفناک اور شدت پسند گروہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے، اپنے مفادات کو ہر صورت میں ترجیح دینے والوں نے جو قبضہ کیا ہوا ہے، اللہ تعالیٰ جلد اس سے بھی مسلمان ملکوں کو خصوصاً اور دنیا کو عموماً نجات دلائے تا کہ ہم اسلام کی خوبصورت تعلیم کو زیادہ بہتر رنگ میں اور زیادہ تیزی سے دنیا میں پھیلا سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
آج جمعہ کے بعد بھی مَیں ایک جنازہ غائب پڑھاؤں گا۔ یہ جنازہ غائب مکرمہ ناصرہ سلیمہ رضا صاحبہ کا ہے جو زائن امریکہ کی افریقن امریکن احمدی تھیں۔ 18؍فروری 2013ء کو ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1927ء میں سینٹ لوئس، امریکہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد بیپٹسٹ(Baptist) پادری تھے مگر خود انہوں نے عیسائیت میں دلچسپی نہیں رکھی۔ البتہ یوگا اور بدھ ازم میں دلچسپی رکھتی تھیں لیکن بطور مذہب کے اس کو تسلیم نہیں کیا۔ ان کو 1949ء میں ڈاکٹر خلیل احمد صاحب ناصر مرحوم کے ذریعہ احمدیت کے قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 1951ء میں ان کی شادی محترم ناصر علی رضا صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی جو کئی سال جماعت کنوشا ووکیگن کے صدر جماعت رہے۔ 1955ء میں ان کی فیملی ملواکی منتقل ہو گئی جہاں سیکرٹری تعلیم کی حیثیت سے خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران اپنی فیملی کے علاوہ یہ تین دیگر فیملیز کی تعلیم و تربیت کابھی انتظام کرتی رہیں۔ 1975ء میں آپ ریجنل صدر لجنہ مقرر ہوئیں۔ 81ء سے 85ء تک دوبارہ ریجنل صدر مقرر ہوئیں۔ لجنہ اماء اللہ کی پانچ مجالس کی نگرانی کرتی رہیں اور بطور لوکل صدر بھی کام کرتی رہیں۔ 85ء سے 95ء تک مختلف عہدوں پر مقامی لجنہ اماء اللہ کی خدمات سرانجام دیتی رہیں۔ 95ء میں دوبارہ صدر لجنہ ووکیگن مقرر ہوئیں۔ تبلیغ کا ان کو بہت شوق تھا۔ چنانچہ پمفلٹس اور فلائرز اور نیوز لیٹرچھاپ کر تقسیم کرتی تھیں۔ بسوں میں سفر کے دوران جماعتی لٹریچر رکھتی تھیں۔ اسے تقسیم کرتی تھیں۔ لائبریریوں اور سکولوں میں اسلامی کتب اور قرآنِ کریم کے نسخے رکھوائے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر متعدد انٹرویو دئیے۔ ان کے ذریعہ سے پچاس سے زائد افراد کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت ملی۔ بہت ہنس مکھ طبیعت کی مالک تھیں۔ بہت ذہین اور پڑھی لکھی بھی تھیں۔ آپ کی ان خوبیوں کی وجہ سے بڑی کثرت سے عورتیں ان سے ملنے آیا کرتی تھیں۔ آپ کے دل میں اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اچھی استاد مانی جاتی تھیں۔ وہاں بھی احمدی خواتین ان کو ماں کی طرح سمجھتی تھیں۔ بڑے پیار سے لوگوں کو سمجھاتیں اور غلطیاں درست کیا کرتی تھیں۔ بچیوں کو ہمیشہ پردے کی تعلیم دیتی رہیں اور اس طرح اسلامی اخلاق سکھلاتیں۔ نیز بتاتیں کہ مغربی معاشرے کی بدرسوم کا کیسے مقابلہ کرنا ہے۔ وہیں پلی بڑھی تھیں ان کو سب کچھ پتہ تھا۔ آجکل ذرا سا مغرب کا اثر ہو جاتا ہے تو ہمارے بچے بلکہ بڑے بھی متاثر ہو جاتے ہیں۔ اپنی والدہ کو کئی سال مسلسل تبلیغ کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ پچاسی سال کی عمر میں ان کی والدہ احمدی ہو گئیں جس پر آپ بڑی خوش ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی والدہ کو لمبی عمر دی۔ 98سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی تھی لیکن آخر تک بڑی ایکٹو (Active) رہی ہیں اور نمازِ جمعہ بھی ادا کر لیا کرتی تھیں۔ یہ خود بھی بڑی عمر کے باوجود بڑی مستعدی سے جماعتی کاموں میں حصہ لیتی تھیں۔ خلافت اور نظامِ جماعت سے ان کا بہت محبت کا تعلق تھا۔ گزشتہ سال ان کی میرے سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ ان کے نو بچے اور بائیس پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن سب کو نیکیوں پر قائم رکھے، ان کی دعاؤں کا وارث بنائے۔
دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے ہیں جو قرآنِ کریم پڑھتے ہیں، اُس کا ترجمہ بھی پڑھتے ہیں، خدا تعالیٰ کے خوف کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ وہ کبھی یہ پسندنہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارے جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے حق ادا نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم دیا ہے، اُن کو حقیقی رنگ میں جوڑنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ تضاد ہے جو دنیا میں اکثر مسلمانوں کی اکثریت میں نظر آتا ہے۔ ایک خواہش اور دعویٰ کے باوجودنظر آتا ہے۔ اور احمدیوں کے بارے میں بھی ہم سو فیصدنہیں کہہ سکتے کہ وہ اس تعریف کے اندر آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے مومن کی بتائی ہے۔ پس ہمیں بھی اس بارے میں اپنے جائزے لیتے رہنا چاہئے۔
قرآن مجید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشا دات کے حوالہ سے باہمی امن، محبت اور رحم کے فروغ کی بابت اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ یکم مارچ 2013ء بمطابق یکم امان 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔