دعا کی حقیقت اور فلاسفی اور حالات حاضرہ میں ان دعاؤں کی اہمیت کا تذکرہ
خطبہ جمعہ 8؍ مارچ 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: 202)
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا۔ لَھَا مَاکَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَااکْتَسَبَتْ۔ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا۔ رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا۔ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ۔ وَاعْفُ عَنَّا۔ وَاغْفِرْلَنَا۔ وَارْحَمْنَا۔ اَنْتَ مَوْلٰنَا فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن (البقرہ: 287)
پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اُس کا ترجمہ ہے: اور انہی میں سے وہ بھی ہے جو کہتا ہے اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ: اللہ کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اُس کا وبال بھی اسی پر ہے جو اس نے بدی کا اکتساب کیا۔ اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائے۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پران کے گناہوں کے نتیجہ میں تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب!ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تُو ہی ہمارا والی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔
یہ دو قرآنی دعائیں ہیں جن کے بارے میں مَیں کچھ کہوں گا لیکن اس سے پہلے دعا کی حقیقت کیا ہے؟ اُس کی فلاسفی کیا ہے؟ اِس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’جو شخص مشکل اور مصیبت کے وقت خدا سے دعا کرتا ہے اور اس سے حلِّ مشکلات چاہتا ہے وہ بشرطیکہ دعا کو کمال تک پہنچا دے خداتعالیٰ سے اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔ اور اگر بالفرض وہ مطلب اس کو نہ ملے تب بھی کسی اور قسم کی تسلّی اور سکینت خداتعالیٰ کی طرف سے اس کو عنایت ہوتی ہے۔ اور ہرگز ہرگز نامرادنہیں رہتا۔ اور علاوہ کامیابی کے ایمانی قوت اس کی ترقی پکڑتی ہے اور یقین بڑھتا ہے۔ لیکن جو شخص دعا کے ساتھ خداتعالیٰ کی طرف مونہہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے‘‘۔ فرمایا ’’ہماری اس تقریر میں اُن نادانوں کا جواب کافی طور پر ہے جو اپنی نظرِ خطاکار کی وجہ سے‘‘ (یعنی غلط سوچ رکھنے اور ظاہری طور پر دیکھنے کی وجہ سے) ’’یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ بہتیرے ایسے آدمی نظر آتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے حال اور قال سے دعا میں فنا ہوتے ہیں‘‘ (یعنی اُن کی اپنی حالت بھی یہ ہوتی ہے، اور کہتے بھی یہی ہیں کہ دعا کر رہے ہیں اور دعا کی کیفیت بھی ہوتی ہے، اُس میں فنا ہوتے ہیں) ’’پھر بھی اپنے مقاصد میں نامراد رہتے اور نامراد مرتے ہیں۔‘‘ (یعنی اُن کے مقاصد، جو وہ چاہتے ہیں، اُن کو نہیں ملتے) ’’اور بمقابل ان کے ایک اور شخص ہوتا ہے کہ نہ دعا کا قائل نہ خدا کا قائل وہ ان پر فتح پاتا ہے۔‘‘ (یعنی اُس کو سب کچھ مل جاتا ہے) ’’اور بڑی بڑی کامیابیاں اس کو حاصل ہوتی ہیں۔ سو جیساکہ ابھی میں نے اشارہ کیا ہے۔ اصل مطلب دعا سے اطمینان اور تسلی اور حقیقی خوشحالی کا پانا ہے۔ ظاہر بین تو یہ دیکھتا ہے کہ ایک شخص جس مقصد کے لئے دعا کر رہا تھا اُس کو حاصل نہیں ہوئی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک تو پہلی شرط یہ رکھی ہے، دعا کو کمال تک پہنچانا۔ اور جو حقیقت میں دعا کرتا ہے وہ صرف ظاہری چیز کو نہیں دیکھتا۔ جو مومن ہے، جس میں مومنانہ فراست ہے جو خدا تعالیٰ کے تعلق کو جانتا ہے وہ صرف یہ نہیں دیکھتا کہ میں جو مانگ رہا ہوں مجھے مل گیا بلکہ فرمایا کہ اطمینان اور حقیقی خوشحالی پاتا ہے۔
فرمایا: ’’اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ ہماری حقیقی خوشحالی صرف اُسی امر میں میسر آسکتی ہے جس کو ہم بذریعہ دعا چاہتے ہیں۔ بلکہ وہ خدا جانتا ہے کہ ہماری حقیقی خوشحالی کس امر میں ہے؟ وہ کامل دعا کے بعد ہمیں عنایت کر دیتا ہے۔‘‘ (اگر دعا کامل ہو، صحیح ہو، حقیقی رنگ میں ہو، اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق ہو تو اللہ تعالیٰ جو سمجھتا ہے کہ حقیقی خوشحالی کس چیز میں ہے، وہ عطا فرما دیتا ہے) فرمایا کہ ’’جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے بلکہ وہ خوشحالی جو نہ صرف دولت سے مل سکتی ہے اور نہ حکومت سے اور نہ صحت سے بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے جس پیرایہ میں چاہے وہ عنایت کر سکتا ہے۔ ہاں وہ کامل دعاؤں سے عنایت کی جاتی ہے۔ اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے تو ایک مخلص صادق کو عین مصیبت کے وقت وہ لذت حاصل ہو جاتی ہے جو ایک شہنشاہ کو تختِ شاہی پر حاصل نہیں ہو سکتی۔ سو اسی کا نام حقیقی مرادیابی ہے جو آخر دعا کرنے والوں کو ملتی ہے۔‘‘ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد 14صفحہ 237)
دعا کرنے والے کو جو لذت ملتی ہے وہ مشکل کے وقت میں ہی مل سکتی ہے۔ فرمایا کہ جو ایک بادشاہ کو نہیں مل سکتی۔
پس یہ دعا کی حقیقت ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ اس کی مختصر فلاسفی ہے۔ یہ دعا کی روح ہے اور ایک حقیقی مومن کی یہ سوچ ہے اور ہونی چاہئے اور ہمیں اسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔
پس جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ دعا کی قبولیت کے لئے دعا کو کمال تک پہنچانا ضروری ہے۔ اور اس مقام تک پہنچ کر یا تو دعا قبول ہو جاتی ہے جو انسان اللہ تعالیٰ سے مانگ رہا ہے، اُس کی قبولیت کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں یا پھر دل کی ایسی تسلّی اور سکینت ہوتی ہے کہ انسان کا جو غم ہے جس وجہ سے دعا مانگ رہا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے، وہ دور ہو جاتا ہے۔ ایک خاص قسم کا سکون ملتا ہے کہ اب جو بھی خدا تعالیٰ کے نزدیک میرے لئے بہتر ہو گا وہ ظاہر ہوگا۔ یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی مومن کی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ مقام حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ توفیق بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے۔ اس لئے اس کے حصول کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے۔
اس وقت مَیں دو قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ مَیں نے کہا یہ دعائیں ان آیات میں ہیں۔ ہم پڑھتے بھی ہیں۔ بہت سے جانتے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک دعا ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرۃ: 202)کہ اے ہمارے ربّ! ہمیں اس دنیا میں بھی حسنہ عطا فرما اور آخرت میں بھی۔
یہ دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاص طور پر پڑھا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب الدعوات باب قول النبیﷺ ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ حدیث 6389)
اور صحابہ کو بھی اس طرف توجہ دلائی اور صحابہ بھی خاص توجہ سے پڑھا کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ جلد 7 صفحہ 52 کتاب الدعا باب من کان یحب…حدیث 3مطبوعہ دارالفکر بیروت)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ایک وقت میں جماعت کے افراد کو یہ کہا تھا کہ خاص طور پر ہر نماز کی آخری رکعت میں رکوع کے بعد جب کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں یہ دعا پڑھا کریں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 1صفحہ 6 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے بھی خاص طور پر اس دعا کی طرف اپنے ایک خطبہ میں بلکہ مختلف خطبات میں توجہ دلائی اور جماعت کو پڑھنے کی تلقین فرمائی اور اس کی تفسیر بھی بیان فرمائی۔ پس اس دعا کی بہت اہمیت ہے۔
ویسے تو ہر دَور اور ہر وقت کے لئے یہ دعا ہے لیکن آجکل خاص طور پر جب دنیا میں ہر طرف فتنہ و فساد کا دَور دَورہ ہے یہ دعا خاص طور پر ہمیں پڑھنی چاہئے۔ حَسَنَہ کا مطلب ہے کہ نیکی اور اچھائی، فائدہ جس میں کوئی برائی اور نقصان نہ ہو، ایسا کام ہو جس کا ہر پہلو سے اچھا نتیجہ نکلتا ہو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق ہو۔ احمدیوں کے لئے تو بعض مسلمان ملکوں میں بحیثیت احمدی بھی ایسے حالات ہیں کہ اس دعا کے پڑھنے کی خاص طور پر ضرورت ہے۔ مخالفینِ احمدیت چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی ہر نعمت سے احمدی کو محروم کر دیا جائے۔ حتی کہ اُسے اُس کے جینے کے حق سے بھی محروم کر دیا جائے۔ ایسے میں یہ دعا کہ اے اللہ! ہمیں دنیا داروں کے سارے منصوبوں کے مقابلے میں اس طرح سنبھال لے کہ یہ جو تیری ہر قسم کی حَسَنَہ سے ہمیں محروم کرنا چاہتے ہیں، ہم ان کو تیرے فضلوں کی وجہ سے حاصل کرنے والے بن جائیں۔ ہمارے دنیا کے اعمال بھی تیری رضا کے حصول کی وجہ سے ہمیں آخرت کی حَسَنَہ سے بھی نوازنے والے ہوں۔ اور ہر عمل جو ہم یہاں دنیا میں کرتے ہیں وہ تیری رضا کو حاصل کرنے والا ہو۔ دشمن ہمارے کاروباروں کو نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق پر حَسَنَہ سے نواز کہ دشمن کے تمام منصوبے ناکام ہو جائیں۔ وہ ہمیں ایمان سے پھیرنے کے لئے ہمارے رزق ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے تو ہمیں ایسے طریق سے حَسَنَہ سے نواز کہ پہلے سے بڑھ کر طیب اور حلال رزق میں حاصل ہو۔ ہمارے ہمسائے ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے محلہ دار ایسے ہوں جو ہمیں دکھ دینے والے نہ ہوں۔ ہمارے شہروں کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے ملک کو ہمارے لئے حَسَنَہ بنا دے۔ ہمارے خلاف کاروائیاں کرنے والوں کے شرور جو ہیں اُن کی طرف پلٹ جائیں۔ ہمارے حاکموں کو ایسا بنا دے جو رحم دل ہوں، تقویٰ سے کام لینے والے ہوں، انصاف کرنے والے ہوں۔ بعض ملکوں میں، مسلمان ملکوں میں آجکل ہم دیکھ رہے ہیں کئی جگہ حاکم ہی ہیں، حکمران ہی ہیں جو عوام کے لئے عذاب بنے ہوئے ہیں۔ ماتحتوں کے حق ادا کرنے والے حاکم ہوں، افسر ہوں۔ اور پھر موجودہ حاکم تیرے نزدیک اصلاح کے قابل نہیں تو ایسے حاکم دے جو ان خوبیوں کے مالک ہوں تاکہ اُن کے ذریعہ سے ہمیں جو دنیا کے فوائد ملنے ہیں وہ حَسَنَہ ہوں۔ ہر فائدہ ایسا ہو جو تیری رضا حاصل کرنے والا ہو۔ پھر دوست ہوں تو ایسے ہوں جو خیر خواہ ہوں، محبت کرنے والے ہوں، دکھوں میں کام آنے والے ہوں، نیکیوں کا جواب نیکیوں سے دینے والے ہوں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی اس بارے میں بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔
پاکستان میں آجکل بیشک ایک طبقہ مولویوں کے پیچھے لگ کر احمدیوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے لیکن ایک بہت بڑا حصہ ایسا بھی ہے جو دوستی کا حق نبھانے والے بھی ہیں۔ ہم ہر پاکستانی کو برا نہیں کہہ سکتے۔ یا مختلف ملکوں میں جہاں جماعت کی مخالفت ہے ہر شخص کو بُرا نہیں کہہ سکتے۔ ایسے لوگ ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا جو دوستی کا حق نبھانے والے ہیں، ہمدرد ہیں، خیر خواہ ہیں، مشکل اور مصیبت میں کام آنے والے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک احمدی نے جو پاکستان میں اغوا ہو گئے تھے، مجھے خط میں بتایا کہ اغوا کرنے والوں نے اُن سے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا اور جس کا انتظام فوری طور پر ممکن نہیں تھا۔ اُن کے بھائی کوشش کرتے رہے لیکن جتنی رقم اغوا کرنے والے مانگ رہے تھے وہ انتظام نہیں ہو رہا تھا اور اُن میں جرأت اتنی ہے، اُن کو پتہ ہے قانون ان تک نہیں پہنچ سکتا۔ انہوں نے کہا اچھا ایک خاص رقم اتنی ہمیں ادا کر دو، باقی کی ضمانت دو۔ اور ضمانت بھی کسی احمدی کی نہیں ہو سکتی۔ تو ان کے غیر احمدی دوست نے ان کی ضمانت دی جس کی وجہ سے اُ ن کی رہائی عمل میں آئی۔ اب اس غیر احمدی دوست نے بھی اپنی زندگی کو داؤ پر لگا لیا۔ اُن اغوا کنندگان نے اب جو رقم لینی ہے ان کے ذریعہ سے لینی ہے۔ تو ایسے بھی لوگ ہیں جو احمدیوں کی خاطر قربانیاں کرنے والے ہیں۔ اس ماحول میں رہنے کے باوجود جو آجکل وہاں بنا ہوا ہے، نیکی کرنے والے لوگ ہیں، دوستی کا حق نبھانے والے ہیں۔ دہشت گردوں اور مُلّاؤں کے خلاف ہیں۔ دنیا کی حَسَنَہ میں سے یہ بھی ایک حَسَنَہ ہے کہ اچھے دوست مل جائیں۔ اسی طرح مشنز کی جو رپورٹس آتی ہیں مَیں ان میں ایک رپورٹ دیکھ رہا تھا۔ مالی میں ہمارے ریڈیو اسٹیشنز نئے قائم ہوئے ہیں، اُن کی وجہ سے بڑے وسیع پیمانے پر تبلیغ ہو رہی ہے۔ اس کو سن کر بعض مخالف مولوی جو ہیں، جو مسلمان ملکوں سے عرب ملکوں سے مدد لیتے ہیں، تاکہ احمدیت کی تبلیغ کو روکیں اور اُنہیں جس حد تک ہو سکتا ہے دنیاوی نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کریں۔ تو ایسے مولویوں نے ہمارے مبلغین کو دھمکیاں بھی دیں، دیتے بھی رہتے ہیں، فون بھی کرتے رہتے ہیں۔ ہم یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے۔ ہمارے خلاف پراپیگنڈہ بھی کرتے ہیں کہ ان کی باتیں نہ سنو، یہ کافر ہیں اور فلاں ہیں اور فلاں ہیں۔ بعض اپنی انتہا کو بھی پہنچ جاتے ہیں تو وہاں ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی جو بے انتہا تھی یعنی مخالفت اور دشمنی بہت زیادہ بڑھی ہوئی تھی۔ اُس پر وہاں کے بعض اچھے، سلجھے ہوئے، اثر و رسوخ رکھنے والے غیر از جماعت لوگوں کو جب پتہ لگا تو انہوں نے ہمارے مبلغ کو پیغام بھیجا کہ بالکل فکر نہ کرو اور اپنا کام کئے چلے جاؤ۔ یہی اسلام حقیقی اسلام ہے جو تم لوگ پھیلا رہے ہو اور کوئی تمہیں اس سے روک نہیں سکتا۔ تو یہ اچھے دوست اللہ تعالیٰ ہر جگہ عطا بھی فرماتا رہتا ہے جو گو خود احمدی نہ بھی ہوں تو احمدیت کے پھیلانے میں، پیغام پہنچانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا یہ بھی حَسَنَہ ہے۔
پس حَسَنَہ کو جتنی وسعت دیتے جائیں اُتنا ہی یہ کھلتا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اس دنیاوی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کے لئے اُس کے جتنے فضل اور بہتر انجام والی چیزیں مانگتے جائیں یہ سب حَسَنَہ میں آتے چلے جاتے ہیں۔ ذاتی زندگی میں اچھی بیوی ہے، اچھا خاوند ہے، نیک بچے ہیں، بیماریوں سے محفوظ زندگی ہے۔ غرض کہ ہر چیز جس میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے لئے بہتری اور فائدہ ہے، وہی دنیا کیحَسَنَہ ہے۔ اور یہی ایک مومن کا منشاء اور خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے ہر وہ چیز دے جو اُس کی ضرورت ہے۔ ہر لحاظ سے اچھی ہو، ظاہری بھی اور باطنی لحاظ سے بھی۔ کیونکہ غیب اور حاضر کا تمام علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اس لئے وہی بہتر فیصلہ کرسکتا ہے کہ ہمارے لئے ظاہری اور باطنی لحاظ سے کیا چیز بہتر ہے۔ ہم تو کسی چیز کے چناؤ میں غلطی کھا سکتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ تو کسی قسم کی غلطی نہیں کھا سکتا۔ ظاہر طور پر ہم کسی کو اچھا دوست سمجھتے ہیں لیکن وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے۔ کئی ایسے معاملات آتے ہیں جہاں لوگوں نے اپنے دوستوں پر بڑا اعتبار کیا، کاروباروں میں شریک بنایا، لیکن وہی اُن کو نقصان پہنچانے والے بن گئے۔ ہم کسی کو حاکم بنا دیتے ہیں وہی نقصان پہنچانے والا بن جاتا ہے۔ علاوہ جماعتی رنگ کی پریشانیوں کے روز مرّہ کے معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ بعض باتیں ایسی کرتے ہیں جو پریشانی اور مشکل کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس صحیح رنگ میں رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً کی دعا ہے جو اللہ تعالیٰ قبول فرما لے تو جماعتی بھی اور ذاتی پریشانیوں سے بھی انسان بچ سکتا ہے۔ نہ صرف بچ سکتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا بھی وارث بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بن سکتا ہے۔
پھر فرمایا کہ وَفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً کہ آخرت میں بھی ہمیں ہر وہ چیز دے جو حَسَنَہ ہو۔ یعنی وہاں بھی ظاہر و باطن کی اچھی چیز دے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی وضاحت ایک جگہ اس طرح فرمائی ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ آخرت میں تو حَسَنَہ ہی ہے۔ جب انسان آخرت کی دعا مانگ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اگر قبول کر لی تو حَسَنَہ ہے۔ تو وہاں کی ظاہر و باطن کی اچھائی سے کیا مراد ہے۔ اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ آخرت میں تو سب چیزیں گو اچھی ہیں لیکن آخرت میں بھی بعض چیزیں ایسی ہیں جو باطن میں اچھی ہیں مگر ظاہر میں بری ہیں۔ مثلاً دوزخ ہے۔ قرآنِ کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ انسان کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔ ایک لحاظ سے وہ بری چیز بھی ہے۔ پس جب آخرت کے لئے بھی خدا تعالیٰ نے حَسَنَہ کا لفظ رکھا تو اس لئے کہ تم یہ دعا کرو کہ الٰہی! ہماری اصلاح دوزخ سے نہ ہو بلکہ تیرے فضل سے ہو۔ اور آخرت میں ہمیں وہ چیز نہ دے جو صرف باطن میں ہی اچھی ہے۔ جیسے دوزخ باطن میں اچھا ہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے۔ مگر ظاہر میں برا ہے کیونکہ وہ عذاب ہے۔ آخرت میں حَسَنَہ صرف جنت ہے جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 2صفحہ 446)
یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس دنیا کی حَسَنَہ آخرت کی حَسَنَہ کا بھی باعث بنتی ہے۔ اگر اس دنیا میں ہر چیز جس کا ظاہر بھی اچھا ہے اور باطن بھی اچھا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا دلانے والا ہے تو آخرت میں بھی ایسی حَسَنَہ ملے گی جس کا ظاہر بھی اچھا ہو اور باطن بھی اچھا ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے۔ ایک دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں جو کچھ مصائب، شدائد، ابتلاء وغیرہ اسے پیش آتے ہیں ان سے امن میں رہے۔ دوسرے فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو اُسے خدا تعالیٰ سے دور کرتی ہیں ان سے نجات پاوے۔ تو دنیا کا حَسَنَہ یہ ہے کہ کیا جسمانی اور کیا روحانی طور پر یہ ہر ایک بلا اور گندی زندگی اور ذلت سے محفوظ رہے۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا (النساء: 29)۔‘‘ (یعنی انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے)۔ فرمایا کہ ’’ایک ناخن ہی میں درد ہو تو زندگی بیزار ہوجاتی ہے‘‘۔ فرمایا: ’’اسی طرح جب انسان کی زندگی خراب ہوتی ہے۔ (مثلاً) جیسے بازاری عورتوں کا گروہ (ہے) کہ اُن کی زندگی کیسے ظلمت سے بھری ہوئی (ہے) اور بہائم کی طرح ہے‘‘ (جانوروں کی طرح کی زندگی ہے) ’’کہ خدا اور آخرت کی کوئی خبر نہیں۔ دنیا کا حَسَنَہ یہی ہے کہ خدا ہر ایک پہلو سے خواہ وہ دنیا کا ہو، خواہ آخرت کا، ہر ایک بلا سے محفوظ رکھے۔ اور فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً میں جو آخرت کا پہلو ہے، وہ بھی دنیا کی حَسَنَہ کا ثمرہ ہے۔‘‘ (اُسی کا پھل ہے۔) ’’اگر دنیا کا حَسَنَہ انسان کو مل جاوے تو وہ فال نیک آخرت کے واسطے ہے۔ یہ غلط ہے جو لوگ کہتے ہیں کہ دنیا کا حَسَنَہ کیا مانگنا ہے۔ آخرت کی بھلائی ہی مانگو‘‘۔ فرمایا کہ ’’صحت جسمانی وغیرہ ایسے امور ہیں جس سے انسان کو آرام ملتا ہے اور اسی کے ذریعہ سے وہ آخرت کے لئے کچھ کر سکتا ہے اور اس لئے ہی دنیا کو آخرت کا مَزْرَعَۃ کہتے ہیں (یعنی آخرت کی کھیتی کہتے ہیں۔ دنیا میں جو بوؤگے وہی وہاں جاکے کاٹوگے۔ ) اور درحقیقت جسے خدا دنیا میں صحت، عزت، اولاد اور عافیت دیوے اور عمدہ عمدہ اعمالِ صالح اُس کے ہوویں تو امید ہوتی ہے کہ اُس کی آخرت بھی اچھی ہوگی۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 600 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر اسی آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ یہ دعا کرو کہ ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ اس میں صرف آخرت کے عذاب نار کی طرف ہی توجہ نہیں دلائی گئی بلکہ اس سے بچنے کی دعا کرو جو اس دنیا کی بھی آگ ہے۔ اس دنیا میں بھی آگ کا عذاب ہوتا ہے۔ پس اس دعا میں دنیا اور آخرت دونوں کے عذابِ نار سے بچنے کے لئے دعا سکھائی گئی ہے۔ دنیا کے عذابِ نار جو ہیں وہ بھی قسما قسم کے ہیں، مصیبتیں ہیں اور دکھ ہیں جو اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو عذاب کے بجائے حَسَنَہ بن جاتے ہیں۔ اس دنیا میں عذابِ نار کی ایک مثال جیسا کہ میں نے ذکر کیا آجکل بعض ملکوں کے جو حالات ہیں وہ بھی ہیں۔ کوئی پتہ نہیں کہ گھر بیٹھے یا بازار میں پھرتے ہوئے کہاں سے بندوق کی گولی آئے اور کوئی گولہ پھٹے اور انسان کو لہو لہان کر دے یا اُس کی زندگی لے لے۔ کئی جانیں اسی طرح ضائع ہو جاتی ہیں۔ جہاں ایسی باتیں ہورہی ہوں، عمل ہو رہے ہوں، اس طرح کی زندگی ہو تو وہاں جب کوئی عذابِ نار سے بچاؤ کی دعا مانگے تو اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول کرتے ہوئے ان چیزوں سے بچا لیتا ہے۔ آجکل کے شرور جو دہشت گردوں نے پیدا کئے ہوئے ہیں، اُن سے بچنے کے لئے بھی یہ وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کی دعا ہے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں ہمارے ایک احمدی جوان آدمی، چالیس پینتالیس سال کی عمر تھی، سودا لینے کے لئے گھر سے نکلے اور دو چار منٹ کے بعد ہی وہاں بم دھماکہ ہوا جس میں پچھلے دنوں میں پچاس آدمیوں کی جان ضائع ہوئی ہے اُس میں وہ بھی شہید ہوگئے۔
پس آجکل تو جگہ جگہ آگ کے پھندے ان دہشت گردوں نے لگائے ہوئے ہیں۔ ان کے عذاب سے بچنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ کس وقت کہاں کیا ہونا ہے۔ اس لئے انسان اُس سے مانگے کہ میرا گھر میں رہنا اور میرا باہر نکلنا تیرے فضل سے میرے لئے حَسَنَہ کا باعث بن جائے اور ان عذابوں سے مجھے بچا لے۔ اسی طرح آخرت کے عذاب سے بھی مجھے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور اقتباس پڑھتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس کے دَر کے نہ ہو۔ اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے…‘‘۔
گزشتہ سے پہلے خطبہ میں مَیں نے اس کی حضرت مصلح موعود کے حوالے سے تھوڑی وضاحت بھی کی تھی۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ دعا کی حاجت تو اُسی کو ہوتی ہے جس کے سارے راہ بند ہوں اور کوئی راہ سوائے اُس دَر کے نہ ہو، اُسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ ’’غرض رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا۔ الخ ایسی دعا کرنا صرف اُنہیں لوگوں کا کام ہے جو خدا ہی کو اپنا رب جان چکے ہیں۔ اور اُن کو یقین ہے کہ اُن کے رب کے سامنے اَور سارے اربابِ باطلہ ہیچ ہیں‘‘۔ فرمایا کہ ’’آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیامت کو ہو گی۔ بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہیں۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں موجود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، خون، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلت و ادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ، اولاد، بیوی وغیرہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں، بچائے رکھ‘‘۔ (ملفوظات جلد 3صفحہ 145ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
دوسری دعا جس کی ہمیں بہت ضرورت ہے اس کی بھی بڑی اہمیت ہے، وہ سورۃ بقرۃ کی آخری آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ یہ دعا مانگو کہ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا۔ کہ اے ہمارے رب! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھول جائیں یا ہمارے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔
بھول جانے کے معنی ہیں کہ کوئی کام کرنا ضروری ہے لیکن نہ کیا جائے۔ ایک تو یہ کہ جان بوجھ کر نہیں چھوڑا بلکہ بھول گئے۔ دوسرے یہ کہ ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ اگر اس کو نہ کیا اور وقت پر نہ کیا تو اس کی ہمارے لئے کتنی اہمیت ہے۔ اور اس خیال میں رہیں کہ کوئی بات نہیں۔ نہیں کیا تو کیا ہوا، معمولی سا کام ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی ہے کہ ہمیں بھولنے اور خطا کرنے سے بچا۔ لیکن یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک اہم کام ہے، انسان کو تو علم نہیں کہ کونسا اہم ہے اور کونسا نہیں، اس کے نہ کرنے سے ہماری روحانی ترقی میں فرق آ سکتا ہے، ہمارے خدا تعالیٰ سے تعلق میں فرق آ سکتا ہے۔ پس اے اللہ تُو ہمیں ایک تو ایسی غلطیاں کرنے سے بچا۔ دوسرے اگر غلطیاں ہو گئی ہیں تو اس پر پکڑ نہ کر۔ اسی طرح کسی کام کے غلط طریق سے کرنے سے یا ایسا کام کرنے سے جو ہمیں نہیں کرنا چاہئے، ہمیں پکڑ میں نہ لے۔ ہمارا مؤاخذہ نہ کر۔ بلکہ ہماری خطاؤں کو معاف فرما اور معاف فرماتے ہوئے اُن کے بد اثرات سے اور اپنی ناراضگی سے ہمیں بچا لے۔ لیکن اگر ہم جان بوجھ کر ایک غلط کام کرتے جائیں یا غلط طریق پر کرتے چلے جائیں۔ اپنی اصلاح کی طرف کوشش نہ کریں اور پھر یہ دعا بھی مانگتے ہیں تو پھر یہ دعا نہیں ہو گی بلکہ اللہ تعالیٰ اور دعا کے ساتھ ایک مذاق بن جائے گا۔ پس دعائیں بہتر نتائج کے لئے ہوتی ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کو آزمانے کے لئے۔ اس لئے جہاں اپنے عمل ہوں گے وہیں دعا بھی حقیقی دعا بنے گی۔ اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اُس پر اُس کو کمال تک پہنچاؤ۔
پھر آتا ہے: رَبَّنَا وَلَاتَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا۔ یعنی ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جو پہلوں پر ڈالا گیا اور اُس کی وجہ سے اُنہیں سزا ملی۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کا نمازیں پڑھنے یا قرآنِ کریم کے جو احکامات ہیں ان سے اس کا تعلق نہیں۔ اس میں یہ نہیں کہا کہ یہ ہمارے غیر معمولی بوجھ ہیں۔ خدا تعالیٰ نے تو پہلے ہی فرما دیا۔ لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا کہ اللہ تعالیٰ اپنے احکامات انسان کی طاقت اور وسعت کے مطابق دیتا ہے۔ اس بوجھ نہ ڈالنے کے یہ معنی ہیں کہ بعض جرموں کی وجہ سے پہلے لوگوں کو سزائیں دی گئیں، وہ سزائیں ہم پر نازل نہ ہوں۔ اور ہم سے وہ غلطیاں سرزدنہ ہوں جو پہلے لوگوں سے سرزد ہوئیں اور وہ تباہ ہو گئے۔ اگر ہم غلطیاں بھی کرتے رہیں اور پھر کہیں کہ ہمیں سزا بھی نہ ملے جو پہلوں کو ملی تو یہ تو نہیں ہو سکتا۔ یہ اللہ کے عمومی قانون کے خلاف ہے۔ پس یہ دعا اور ساتھ برے اعمال سے بچنے کی کوشش ہی انسان کو اُس سزا سے بچاتی ہے۔ پہلے لوگوں کی خطاؤں کی وجہ سے اُن پر ایسی حکومتیں مسلّط کر دی گئیں جو اُن کے حقوق کا خیال نہیں رکھتی تھیں۔ پس ہمیں ایسے حکمرانوں سے بچا جو ہمارے لئے سزا بن گئے ہیں اور تیری ناراضگی کی وجہ سے یہ سزا ہم پر مسلّط ہے۔ اگر تو ناراضگی کی وجہ سے ہے تو بہت زیادہ درد سے دعائیں کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ صرف امتحان ہے تو اس امتحان کو بھی ہم سے ہلکا کر دے۔
پھر یہ دعا سکھائی کہ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ۔ بعض دفعہ دوسروں کی سزا کا بھی اثر انسان پر پڑتا ہے۔ یا کسی نہ کسی طریقے سے اثر پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اس لئے اس سے بچنے کی بھی دعا سکھائی کہ اللہ تعالیٰ دوسروں کے قصور کی سزا کے اثرات سے بھی بچائے رکھے۔ لڑائی اور جنگ میں دہشت گردی کے حملوں میں جن کو مارنا مقصودنہیں ہوتا، وہ بھی مارے جاتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے، کسی خاص گروپ کو مارنا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی گیا وہ مر گیا۔ معصوم بچے بھی مرجاتے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بیان فرمایا ہے کہ مَالَا طَاقَۃَ لَنَابِہٖ کی شرط اس لئے ہے کہ یہاں ناراضگی کا سوال نہیں، بلکہ دنیاوی مسائل اور ابتلاؤں کا ذکر ہے۔ ناراضگی تو خدا تعالیٰ کی چھوٹی بھی برداشت نہیں ہوتی لیکن چھوٹی تکلیف برداشت کر لی جاتی ہے۔ پس روحانی سزا میں یہ دعا ہے کہ ہمیں تیری کسی ناراضگی کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں۔ مگر جب دنیاوی تکالیف کا ذکر آیا تو وہاں یہ دعا سکھائی کہ مجھے چھوٹے موٹے ابتلاؤں پر اعتراض نہیں۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ ہمیشہ پھولوں کی سیج پر چلتا رہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی آزمائش کے لئے فرمایا ہے کہ میں امتحان لوں گا۔ البتہ وہ ابتلاء جو دنیا میں تیری ناراضگی کا موجب نہیں ہیں اور دنیا میں آتے رہتے ہیں، اُن کے بارے میں میری یہ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ابتلا میری طاقت سے بالا ہو۔ مومن ابتلاؤں کی خواہش نہیں کرتا۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں مومن کو آزماتا ہوں، اس لئے آزمائش کو آسان کرنے کی دعا بھی سکھا دی۔ (ماخوذ ازتفسیر کبیر جلد 2صفحہ 659)
اور پھر فرمایا کہ یہ دعا کرو کہ وَاعْفُ عَنَّا۔ مجھ سے عفو کر اور بدنتائج سے مجھے بچا لے وَاغْفِرْلَنَا جو غلط کام میرے سے ہو گئے ہیں اُن کے نتائج اور اثرات سے مجھے بچا لے۔ میرے غلط کاموں پر پردہ ڈال دے اور یوں ہو جائے جیسے میں نے غلط کام کیا ہی نہیں۔ عفو کے معنی رحم کے بھی ہوتے ہیں اور جو چیز کسی انسان سے رہ جائے، اُس کا ازالہ اسی صورت میں ہوتا ہے کہ وہ مہیا کر دی جائے۔ پس وَاعْفُ عَنَّا میں یہ فرمایا کہ میرے عمل میں سے جو چیز رہ گئی ہے، یا میرے کام میں جو چیز رہ گئی ہے، تُو اُسے اپنے رحم اور فضل سے مہیا فرما دے۔ وَارْحَمْنَا۔ یعنی جو بھی میرے سے غلطیاں ہوئی ہیں اور میری ترقی کے راستے میں روک ہیں یا میری وجہ سے جماعتی ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں اُن غلطیوں کے متعلق مجھ پر رحم کر اور ترقیات کے راستے میں تمام روکوں کو دور فرما دے۔
اَنْتَ مَوْلٰنَا۔ کہ تو ہمارا مولیٰ ہے۔ ہمارا آقا ہے۔ لوگوں نے ہماری کمزوریاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں۔ آج دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ ہم جماعت ہیں۔ کوئی فردِ جماعت بھی جب کوئی حرکت کرتا ہے تو اُس کا اثر مجموعی طور پر بعض دفعہ جماعت پر ہی پڑ جاتا ہے۔ پس اے خدا! جب لوگوں نے کمزوریاں تیری طرف منسوب کرنی ہیں، لوگوں نے یہ کہنا ہے کہ یہ الٰہی جماعت کہلاتی ہے، دعویٰ کرتی ہے، اُسے بھی دوسروں کی طرح تکلیفیں پہنچ رہی ہیں اور سزائیں بھی مل رہی ہیں۔ پس اے مولیٰ! تُو ہمارا آقا ہے، ہم تیرے خادم ہیں۔ تُوہم پر رحم کر۔ ہماری کمزوریاں تیری طرف منسوب ہوں گی، لوگ سمجھیں گے کہ یہ صرف ان کے دعوے ہیں ورنہ خداتعالیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور جو ہدایت اور تبلیغ کا کام ہم کر رہے ہیں اُس میں روکیں پیدا ہوں گی، اُس پر اثر پڑے گا اور لوگ ہدایت سے محروم ہو جائیں گے۔ پس ہم رحم کی بھیک مانگتے ہیں۔ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اقرار کرتے ہیں۔ تیرے سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہیں۔ فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْن۔ پس اپنی خاص نظر ہم پر ڈالتے ہوئے ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔ اور جو لوگ ایسے کام کر رہے ہیں جس سے اسلام کی ترقی میں روک واقع ہو رہی ہے اُن پر تُو ہمیں غالب کر۔ اور تیرے نام اور تیری تبلیغ کو ہم دنیا میں پھیلانے والے ہوں۔ آجکل صرف غیر مسلم ہی نہیں یا وہ لوگ جو خدا کو نہیں مان رہے وہی اسلام کے خلاف باتیں نہیں کر رہے بلکہ مسلمانوں میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو اسلام کی تبلیغ کے راستے میں روک بن رہا ہے۔ بلکہ مسلمانوں میں سے زیادہ ایسے ہیں جو اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ اور غیر مسلم دنیا میں ہماری تبلیغ میں روک بن رہے ہیں۔ اسلام کے نام پرجو بعض شدت پسند گروہ بنے ہوئے ہیں، یہ لوگ شدت پسندی والا اسلام پیش کر رہے ہیں، اُس کا اثر ہماری تبلیغ پر بھی ہوتا ہے، ہو رہا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ سے خاص شدت کے ساتھ اس لحاظ سے بھی دعا کی ضرورت ہے۔
پھر دعاؤں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا جو الہامی دعا ہے کہ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ۔ (تذکرہ صفحہ 363ایڈیشن چہارم شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)
کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے۔ ہماری مدد فرمائے اور ہم پر رحم فرمائے۔ دنیا و آخرت کے حَسَنَہ سے ہمیں نوازتا رہے۔ یہ دعا بھی آجکل بہت زیادہ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ مجھے بھی اس دعا کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے۔ اس لئے یہ دعا خاص طور پر ہر احمدی کو پڑھنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہر شر سے محفوظ رکھے۔ دین اور دنیا اور آخرت کی حَسَنَہ سے ہمیں نوازے۔ نیکیوں پر قائم فرمائے۔ لغزشوں اور گناہوں کو معاف فرمائے اور آئندہ اُن سے ہمیشہ بچائے۔
پاکستان کے احمدیوں کو بھی خاص طور پر کہتا ہوں کہ اپنے جائزے لیتے ہوئے اس طرف خاص توجہ دیں۔ اپنی نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص جگہ دیں۔ اور ہر احمدی دعاؤں کی وہ روح اپنے اندر پیدا کرے جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے دعا کو کمال تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا کہ کراچی میں ایک بم دھماکے سے ایک احمدی شہید ہو گئے۔ اسی طرح پاکستان میں ایک اور وفات بھی ہوئی ہے جو ہمارے ایک دیرینہ خادمِ سلسلہ تھے۔ تو ان دونوں کے جنازہ غائب میں نمازوں کے بعد پڑھاؤں گا۔ ان کے مختصر کوائف پیش کر دیتا ہوں۔ جو شہید ہوئے ہیں اُن کا نام مکرم و محترم مبشر احمد عباسی صاحب ابن مکرم نادر بخش عباسی صاحب ہے۔ 3؍مارچ 2013ء کو ان کی شہادت ہوئی۔ مبشر احمدعباسی صاحب مرحوم کے خاندان میں آپ کے پڑدادا مکرم و محترم تونگر علی عباسی صاحب کے ذریعہ احمدیت آئی۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت کی۔ ان کا خاندان کا تعلق علی پور کھیڑا یا کِھیڑا یوپی انڈیا سے تھا۔ آپ کے خاندان میں آپ کے دو پھوپھا محمد صادق عارف صاحب اور مکرم محمد یوسف صاحب گجراتی درویش قادیان تھے۔ آپ کے دادا انڈین پولیس میں تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے زندگی وقف کر دی اور قادیان میں بطور انسپکٹر بیت المال کے خدمت کی توفیق پائی۔ مبشر احمد عباسی صاحب جو شہید ہیں، 1968ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ 45سال کی ان کی عمر تھی۔ ملازمت کی غرض سے 1982ء میں کراچی چلے گئے۔ شہادت کے وقت کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کررہے تھے۔ 3؍مارچ 2013ء کی شام نماز مغرب کے وقت عباس ٹاؤن کراچی میں ایک بم دھماکہ ہوا جس کے نتیجہ میں 50 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے اور متعدد افراد زخمی ہوئے۔ ان کی رہائش بھی عباس ٹاؤن میں ہی تھی۔ واقعہ سے پانچ منٹ پہلے کچھ ادویات وغیرہ لینے کے لئے گھر سے نکلے اور دھماکے کی زد میں آ گئے۔ شنید ہے کہ مبشر عباسی صاحب دھماکے کی جگہ کے بہت قریب تھے اور موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ ابتدائی طور پر آپ کے لا پتہ ہونے کی اطلاع ملی تھی۔ بعد میں ٹیلی فون پر اطلاع کے ذریعہ سے ہسپتال جا کر آپ کی شناخت ہوئی۔ مبشر عباسی صاحب انتہائی اچھی اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے۔ بچوں اور اہلیہ کے ساتھ اور بہن بھائیوں کے ساتھ اچھا تعلق تھا۔ ان کی اہلیہ کے علاوہ ایک بیٹی خدیجہ مبشر بارہ سال کی اور ایک بیٹا نادر بخش دس سال کی عمر کے ہیں۔ ان کے علاوہ تین بہن بھائی ہیں۔
دوسرا جنازہ جو ہے وہ جماعت کے ایک دیرینہ خادم مکرم ڈاکٹر سید سلطان محمود شاہد صاحب کا ہے جن کی 3؍ مارچ 2013ء کو نوّے سال کی عمر میں وفات ہوئی۔ انّا للّہ وانّا الیہ راجعون۔ آپ 16؍ اکتوبر1923ء کو شاہ مسکین ضلع شیخو پورہ میں پیدا ہوئے۔ اور ان کے والد حضرت سید سردار احمد شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ انہوں نے آپ کو پیدائش سے پہلے ہی وقف کر دیا تھا۔ آپ نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی ایس سی کرنے کے بعد 1946ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑ ھ سے ایم ایس سی کیمسٹری کا امتحان پاس کیا۔ ایم ایس سی کرنے کے فوراً بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت مصلح موعودنے کیمسٹری کے لیکچرار کے طور پر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں ان کا تقرر کر دیا۔ اور ان کو یہ شرف بھی حاصل تھا کہ کالج کے ابتدائی اساتذہ میں سے تھے۔ ہجرت کے بعد یہ پہلے لاہوراور پھرجب ٹی آئی کالج ربوہ منتقل ہوا ہے تو وہاں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ 1956ء میں آپ یہاں لندن آئے اور 1958ء میں یونیورسٹی آف لندن سے آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ربوہ واپسی پر ٹی آئی کالج ربوہ میں 1963ء تک کیمسٹری پڑھاتے رہے۔ 1963ء میں پھر آپ لندن آئے اور 1964ء میں لندن یونیورسٹی سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کیا۔ رائل انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سوسائٹی کے فیلو بنے اور اسی طرح 64ء سے 78ء تک تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں پروفیسر، ہیڈ آف کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ اور کچھ عرصہ تک انچارج پرنسپل کے طور پر کام کیا۔ 1972ء میں جب کالج اور جماعت کے تعلیمی ادارے حکومت نے زبردستی لے لئے تو پھر ان کی وہاں سے گورنمنٹ کالج راولپنڈی ٹرانسفر کر دی گئی۔ پھر دوسرے دو کالجوں میں پرنسپل رہے۔ بہرحال 1986ء میں یہ ریٹائر ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے ربوہ کے تعلیمی اداروں کی حالت دیکھتے ہوئے اپنے سکول کھولے، پرائمری سکول بھی اور نرسری سکول بھی اور ہائی سکول بھی۔ اور کافی دیر تک جب تک کہ جماعت کے سکول دوبارہ وہاں نہیں کھلے ان کے سکول بڑا اچھا کام کرتے رہے اور بچوں کو سنبھالتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب انتہائی سادہ ہمدرد طبیعت کے مالک تھے ضرورتمندوں کی خدمت کرنے والے، اُن کی مدد کرنے والے تھے۔ جو تعلیم نہیں حاصل کر سکتے تھے اُن کی تعلیم میں مدد کرتے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ بڑا پیار و محبت کا سلوک تھا۔ مشورے بڑے مخلصانہ اور بڑے صائب ہوتے تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے وقت میں جامعہ نصرت کالج برائے خواتین ربوہ میں سائنس بلاک کی تعمیر بھی آپ نے فرمایا تھا تو شاہ صاحب نے ہی کروائی تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد آپ سیکرٹری اصلاح و ارشاد لاہور مقرر ہوئے۔ 56ء تا 58ء لندن میں خدام الاحمدیہ کے قائد بھی رہے ہیں۔ اسی دوران سیکرٹری مال جماعت لندن کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔ خلافت سے ان کا بڑا گہرا تعلق تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ ان کا پڑھانے کا طریقہ بھی بڑا سادہ تھا۔ میں نے بھی کچھ دن ان سے پڑھا ہوا ہے، طلباء کو دوست بنا کر پڑھاتے تھے۔ بڑی سادگی تھی۔ ان کے بارہ میں مجیب اصغر صاحب نے مجھے لکھا ہے کہ لنگر خانے میں پاکستان میں ڈیوٹیاں تھیں توایک دفعہ یہ لنگر خانے میں آئے۔ ان کے کچھ مہمان آ گئے تھے۔ روٹی لینی تھی۔ تو انہوں نے کہاکہ اچھا۔ اور گرم گرم روٹیاں وہ دینے لگے تو انہوں نے کہا کپڑا لائیں۔ کپڑے میں روٹی ڈال دوں۔ تو انہوں نے کہا کپڑا تو میں لایا نہیں، شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی، قمیض کا پلّو آگے کر دیا کہ اس میں ڈال دو اور لے کے چلے گئے۔ کوئی کسی قسم کا عار نہیں تھا کہ میں اس طرح روٹی اُٹھا کے جا رہا ہوں کیونکہ حضرت مسیح موعودؑ کے مہمانوں کو کھلانی تھی اور اس لحاظ سے بڑی سادگی تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ مغفرت کا سلوک فرمائے۔ اسی طرح شہید کے بھی درجات بلند فرمائے۔ ان کے بچوں کو صبر، ہمت اور حوصلہ عطا فرمائے۔
رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202) اور سورۃالبقرہ کی آیت 287 میں مذکور دعاؤں اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ ان دنوں میں خاص طور پر کثرت کے ساتھ پڑھنے کی تحریک۔
دعا کی حقیقت اور فلاسفی کا بیان اور مذکورہ بالا قرآنی دعاؤں کی پُرمعارف تشریح اور حالات حاضرہ میں ان دعاؤں کی اہمیت کا تذکرہ۔
اپنی نمازوں میں ان دعاؤں کو خاص جگہ دیں۔ اور ہر احمدی دعاؤں کی وہ روح اپنے اندر پیدا کرے جو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے دعا کو کمال تک پہنچا دے۔
مکرم مبشر احمد عباسی صاحب آف کراچی کی شہادت اور مکرم ڈاکٹر سید سلطان محمود شاہد صاحب (ربوہ) کی وفات۔ مرحومین کا ذکرخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 8؍مارچ 2013ء بمطابق 8؍ امان 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔