حضرت مسیح موعودؑ کے الفاظ میں صداقت کا ثبوت، امام الزمان کی ضرورت
خطبہ جمعہ 22؍ مارچ 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ایک شعری کلام میں فرماتے ہیں کہ
وقت تھا وقتِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا
پھر آپ ایک کتاب میں، ایک اشتہار میں فرماتے ہیں کہ
’’بعض نادانوں کا یہ خیال کہ گویا مَیں نے افتراء کے طور پر الہام کا دعویٰ کیا ہے، غلط ہے۔ بلکہ درحقیقت یہ کام اُس قادر خدا کا ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا اور اس جہان کو بنایا ہے۔ جس زمانہ میں لوگوں کا ایمان خدا پر کم ہو جاتا ہے اُس وقت میرے جیسا ایک انسان پیدا کیا جاتا ہے اور خدا اُس سے ہمکلام ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ سے اپنے عجائب کام دکھلاتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ خدا ہے‘‘۔ (کتاب البریّہ، اشتہار واجب الاظہار۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 18)
آج گو 22؍مارچ ہے لیکن 23؍مارچ کا دن جماعت احمدیہ میں یومِ مسیح موعود کے حوالہ سے منایا جاتا ہے۔ کل انشاء اللہ 23؍مارچ ہے۔ آج میں نے اس حوالے سے یہ مناسب سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں آپ کی صداقت کا ثبوت، اللہ تعالیٰ کی تائیدات، امام الزمان کی ضرورت، مسلمانوں کو آپ کو قبول کرنے اور مقام پہچاننے کی دعوت جو آپ نے دی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اپنے الفاظ میں وہ پیش کروں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’وہ حوادثِ ارضی اور سماوی جو مسیح موعود کے ظہور کی علامات ہیں، وہ سب میرے وقت میں ظہور پذیر ہو گئی ہیں۔ مدت ہوئی کہ خسوف کسوف رمضان کے مہینے میں ہو چکا ہے‘‘۔ چاند اور سورج گرہن کا جو نشان تھا وہ ظاہر چکا ہے ’’اور ستارہ ذوالسنین بھی نکل چکا‘‘ دمدار ستارہ ’’اور زلزلے بھی آئے اور مَری بھی پڑی‘‘۔ یعنی ایسی بیماری جو طاعون وغیرہ۔ فرمایا ’’مَری بھی پڑی اور عیسائی مذہب بڑے زور شور سے دنیا میں پھیل گیا اور جیسا کہ آثار میں پہلے سے لکھا گیا تھا، بڑے تشدد سے میری تکفیر بھی ہوئی‘‘۔ یہ بھی پیشگوئی تھی۔ پہلے بزرگ لکھ گئے تھے کہ مسیح موعود آئے گا تو اُس کی تکفیر بھی ہو گی، اُسے کافر کہیں گے، جھوٹا کہیں گے۔ فرمایا کہ ’’غرض تمام علامات ظاہر ہو چکی ہیں اور وہ علوم اور معارف ظاہر ہو چکے ہیں جو دلوں کو حق کی طرف ہدایت دیتے ہیں‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 299-298حاشیہ)
پس یہ آپ نے اپنی صداقت کے بارے میں فرمایا کہ یہ ساری چیزیں ظاہر ہو رہی ہیں، پھر بھی تم لوگ ہوش نہیں کرتے۔
پھر اسی طرح ایک اور جگہ آپ فرماتے ہیں کہ
’’مَیں دیکھتا ہوں کہ وہ لوگ جو نیچر اور صحیفۂ قدرت کے پیرو بننا چاہتے ہوں اُن کے لئے خداتعالیٰ نے یہ نہایت عمدہ موقع دیا ہے کہ وہ میرے دعوے کو قبول کریں۔ کیونکہ وہ لوگ ان مشکلات میں گرفتار نہیں ہیں جن میں ہمارے دوسرے مخالف گرفتار ہیں۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے‘‘۔ جو لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اُن کو مسیح موعود کے دعویٰ پر غور کرنا چاہئے۔ فرمایا ’’اور پھر ساتھ اس کے انہیں یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ مسیح موعود کی نسبت جو پیشگوئی احادیث میں موجود ہے وہ ان متواترات میں سے ہے جن سے انکار کرنا کسی عقلمند کا کام نہیں۔ پس اس صورت میں یہ بات ضروری طور پر انہیں قبول کرنی پڑتی ہے کہ آنے والا مسیح اِسی اُمّت میں سے ہوگا۔ البتہ یہ سوال کرنا اُن کا حق ہے کہ ہم کیونکر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا قبول کریں؟‘‘ یہ تو ٹھیک ہے کہ اس امت میں مسیح موعود ہو گا، لیکن یہ کس طرح صحیح ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے جو دعویٰ کیا ہے، وہ صحیح ہے؟تو فرمایا ’’اوراس پر دلیل کیا ہے کہ وہ مسیح موعود تم ہی ہو؟‘‘ فرمایا ’’اس کا جواب یہ ہے کہ جس زمانہ اور جس ملک اور جس قصبہ میں مسیح موعود کا ظاہر ہونا قرآن شریف اور احادیث سے ثابت ہوتا ہے اور جن افعالِ خاصّہ کو مسیح کے وجود کی علّت غائی ٹھہرایا گیا ہے‘‘ یعنی یہ ضروری چیز ٹھہرایا گیا ہے ’’اور جن حوادث ارضی اور سماوی کو مسیح موعود کے ظاہر ہونے کی علامات بیان فرمایا گیا ہے اور جن علوم اور معارف کو مسیح موعود کا خاصّہ ٹھہرایا گیا ہے، وہ سب باتیں اللہ تعالیٰ نے مجھ میں اور میرے زمانہ میں اور میرے ملک میں جمع کر دی ہیں اور پھر زیادہ تر اطمینان کے لئے آسمانی تائیدات میرے شامل حال کی ہیں‘‘۔ آپ نے یہ فارسی شعر آگے لکھا ہے کہ ؎
’’چوں مرا حکم از پئے قوم مسیحی دادہ اند
مصلحت را ابن مریم نام من بنہادہ اند
آسماں بارد نشان الوقت می گوید زمیں
ایں دو شاہد از پئے تصدیق من استادہ اند‘‘
کہ مجھے چونکہ مسیح کی قوم کے لئے حکم دیا گیا ہے، اس لئے میرا نام ابنِ مریم رکھا گیا ہے۔ آسمان نشان برسا رہا ہے، زمین بھی کہہ رہی ہے کہ یہی وقت ہے۔ یہ دو گواہ میری تصدیق کے لئے کھڑے ہیں۔ فرماتے ہیں: ’’اب تفصیل اس کی یہ ہے کہ اشارات نصّ قرآنی سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مثیلِ موسیٰ ہیں اور آپ کا سلسلۂ خلافت حضرت موسیٰ کے سلسلۂ خلافت سے بالکل مشابہ ہے۔ اور جس طرح حضرت موسیٰ کو وعدہ دیا گیا تھا کہ آخری زمانہ میں یعنی جبکہ سلسلہ اسرائیلی نبوت کا انتہا تک پہنچ جائے گا اور بنی اسرائیل کئی فرقے ہو جائیں گے اور ایک، دوسرے کی تکذیب کرے گا یہاں تک کہ بعض بعض کو کافر کہیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ ایک خلیفہ حامی دینِ موسیٰ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کرے گا۔ اور وہ بنی اسرائیل کی مختلف بھیڑوں کو اپنے پاس اکٹھی کرے گا۔ اور بھیڑئیے اور بکری کو ایک جگہ جمع کر دے گا۔ اور سب قوموں کے لئے ایک حَکَم بن کر اندرونی اختلاف کو درمیان سے اٹھادے گا‘‘۔ مطلب یہ کہ مظلوم قوموں کواور ظالم قوموں کو اکٹھا کرے گا۔ ’’اور بغض اور کینوں کو دور کر دے گا۔ یہی وعدہ قرآن میں بھی دیا گیا تھا جس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ آخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِم۔ (الجمعۃ: 4) اور حدیثوں میں اس کی بہت تفصیل ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ یہ اُمّت بھی اسی قدر فرقے ہو جائیں گے جس قدر کہ یہود کے فرقے ہوئے تھے۔ اور ایک دوسرے کی تکذیب اور تکفیر کرے گا‘‘۔ ایک دوسرے کو جھوٹا اور کافر کہیں گے ’’اور یہ سب لوگ عناد اور بغض باہمی میں ترقی کریں گے‘‘۔ یعنی ایک دوسرے سے بغض میں اور ایک دوسرے سے دشمنی میں بڑھتے چلے جائیں گے ’’اُس وقت تک کہ مسیح موعود حَکم ہو کر دنیا میں آوے۔ اور جب وہ حَکم ہو کر آئے گا تو بغض اور شحناء کو دور کر دے گا۔‘‘ یعنی بغض اور کینہ اور دشمنی جو ہے اُس کو دور کر دے گا ’’اور اس کے زمانہ میں بھیڑیا اور بکری ایک جگہ جمع ہو جائیں گے۔‘‘یہ ظالم اور مظلوم جو ہیں، یا کمزور اور طاقتور جو ہیں وہ اکٹھے ہو کر ایک دین پر قائم ہوں گے اور صرف خدا تعالیٰ کی جو رضا ہے اُس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے’’چنانچہ یہ بات تمام تاریخ جاننے والوں کو معلوم ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے ہی وقت میں آئے تھے کہ جب اسرائیلی قوموں میں بڑا تفرقہ پیدا ہوگیا تھا۔ اور ایک دوسرے کے مکفّر اور مکذّب ہوگئے تھے۔ اسی طرح یہ عاجز بھی ایسے وقت میں آیا ہے کہ جب اندرونی اختلافات انتہا تک پہنچ گئے اور ایک فرقہ دوسرے کو کافر بنانے لگا۔ اس تفرقہ کے وقت میں اُمّت محمدیہ کو ایک حَکَم کی ضرورت تھی۔ سو خدا نے مجھے حَکَم کر کے بھیجا ہے‘‘۔
آج بھی آپ دیکھ لیں کہ کفر کے فتوے ایک دوسرے پر لگاتے ہیں چاہے۔ جماعت احمدیہ کے لئے، کافر بنانے کے لئے، گالیاں دینے کے لئے ایک ہو جائیں، اکٹھے ہو جائیں لیکن پھر بھی ایک دوسرے پر ان کے فتوے جو ہیں وہ قائم ہیں۔ پھر فرمایا: ’’اور یہ ایک عجیب اتفاق ہوگیاہے جس کی طرف نصوص قرآنیہ اور حدیثیہ کا اشارہ پایا جاتا ہے کہ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت موسیٰ سے تیرہ سو برس بعد چودھویں صدی میں پیدا ہوئے اسی طرح یہ عاجز بھی چودھویں صدی میں خداتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسی لحاظ سے بڑے بڑے اہل کشف اسی بات کی طرف گئے کہ وہ مسیح موعود چودھویں صدی میں مبعوث ہوگا‘‘۔ فرمایا ’’اور اللہ تعالیٰ نے میرا نام غلام احمد قادیانی رکھ کر اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا کیونکہ اس نام میں تیرہ سو کا عدد پورا کیا گیا ہے‘‘۔ غلام احمد قادیانی میں حروف ابجد کے لحاظ سے تیرہ سو کا عدد پورا ہوتا ہے ’’غرض قرآن اور احادیث سے اس بات کا کافی ثبوت ملتا ہے کہ آنے والا مسیح چودھویں صدی میں ظہور کرے گا اور وہ تفرقہ مذاہب اسلام اور غلبہ باہمی عناد کے وقت میں آئے گا‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 258-254حاشیہ)
پھر اپنی صداقت کا ایک اور ثبوت دیتے ہیں۔ فرمایا کہ:
’’فصوص الحکم میں شیخ ابن العربی اپنا ایک کشف یہ لکھتے ہیں کہ وہ خاتم الولایت ہے اور تَواَم پیدا ہو گا‘‘۔ (یعنی مسیح موعود)۔ ’’اور ایک لڑکی اُس کے ساتھ متولّد ہو گی۔ اور وہ چینی ہو گا۔ یعنی اُس کے باپ دادے چینی ممالک میں رہے ہوں گے۔ سو خدا تعالیٰ کے ارادے نے ان سب باتوں کو پورا کر دیا۔ مَیں لکھ چکا ہوں کہ میں تَواَم پیدا ہوا تھا‘‘ (جڑواں پیدا ہوا تھا) ’’اور میرے ساتھ ایک لڑکی تھی اور ہمارے بزرگ سمرقند میں جو چین سے تعلق رکھتا ہے رہتے تھے۔‘‘ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 313حاشیہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’مَیں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ قرآنِ شریف کی رُو سے کوئی دعویٰ مامور من اللہ ہونے کا اکمل اور اتم طور پر اُس صورت میں ثابت ہو سکتا ہے جبکہ تین پہلو سے اس کا ثبوت ظاہر ہو۔ اوّل یہ کہ نصوص صریحہ اُس کی صحت پر گواہی دیں، یعنی وہ دعویٰ کتاب اللہ کے مخالف نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ عقلی دلائل اُس کے مؤیّد اور مصدق ہوں۔ تیسرے یہ کہ آسمانی نشان اُس مُدّعی کی تصدیق کریں۔ سو ان تینوں وجوہ استدلال کے رُو سے میرا دعویٰ ثابت ہے۔ نصوصِ حدیثیہ جو طالبِ حق کو بصیرتِ کامل تک پہنچاتی ہیں‘‘۔ یعنی ان کا ثبوت جن سے اگرکوئی حق کا طالب ہے اور حق کا طالب ہونا شرط ہے، یہ نہیں کہ ڈھٹائی اور ضد ہو، تووہ اُس کو کامل بصیرت تک پہنچاتی ہیں، اُس کو حق دکھاتی ہیں ’’اور میرے دعویٰ کی نسبت اطمینانِ کامل بخشتی ہیں، اُن میں سے مسیح موعود اور مسیح بنی اسرائیلی کا اختلافِ حلیہ ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کے صفحہ 485 و 876 و 1055‘‘ (بخاری کی جس کتاب کا آپ نے حوالہ دیا اس میں یہ صفحات لکھے ہوئے ہیں لیکن بہر حال بخاری میں باب نزول عیسیٰ اور کتاب الانبیاء میں اس کا ذکرہے۔ جس میں دونوں کے مسیح بنی اسرائیل اور مسیح محمدی کے، مسیح موعود کے حلیے درج ہیں جو علیحدہ علیحدہ ہیں۔ فرمایا: ان حدیثوں ’’وغیرہ میں جو مسیح موعود کے بارے میں حدیث ہے جس میں یہ بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو عالَمِ کشف میں خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اُس میں اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ گندم گوں تھا اور اُس کے بال گھونگر والے نہیں تھے بلکہ صاف تھے۔ اور پھر اصل مسیح علیہ السلام جو اسرائیلی نبی تھا، اُس کا حلیہ یہ لکھا ہے کہ وہ سرخ رنگ تھا جس کے گھونگر والے بال تھے۔ اور صحیح بخاری میں جا بجا یہ التزام کیا گیا ہے کہ آنے والے مسیح موعود کے حلیہ میں گندم گوں اور سیدھے بال لکھ دیا ہے اور حضرت عیسیٰ کے حلیہ میں جا بجا سرخ رنگ اور گھونگر والے بال لکھتا گیا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو ایک علیحدہ انسان قرار دیا ہے اور اُس کی صفت میں اِمَامُکُمْ مِنْکُمْ بیان فرمایا ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو علیحدہ انسان قرار دیا ہے۔ اور بعض مناسبات کے لحاظ سے عیسیٰ بن مریم کا نام دونوں پر اطلاق کر دیا ہے‘‘۔
فرمایا ’’اَور ایک اَور بات غور کرنے کے لائق ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں مسیح موعود کا ذکر کیا ہے، اُس جگہ صرف اسی پر کفایت نہیں کی کہ اُس کا حلیہ گندم گوں اور صاف بال لکھا ہے بلکہ اُس کے ساتھ دجّال کا بھی جا بجا ذکر کیا ہے۔ مگر جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیلی کا ذکر کیا ہے، وہاں دجّال کا ساتھ ذکر نہیں کیا۔ پس اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں عیسیٰ بن مریم دو تھے۔ ایک وہ جو گندم گوں اور صاف بالوں والا ظاہر ہونے والا تھا جس کے ساتھ دجّال ہے۔ اور دوسرا وہ جو سرخ رنگ اور گھونگریالے بالوں والا ہے اور بنی اسرائیلی ہے جس کے ساتھ دجّال نہیں۔ اور یہ بات بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام شامی تھے اور شامیوں کو آدم یعنی گندم گون ہرگز نہیں کہا جاتا۔ مگر ہندیوں کو آدم یعنی گندم گون کہا جاتا ہے۔ اس دلیل سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ گندم گون مسیح موعود جو آنے والا بیان کیا گیا ہے وہ ہرگز شامی نہیں ہے بلکہ ہندی ہے۔ اس جگہ یاد رہے کہ نصاریٰ کی تواریخ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ گندم گوں نہیں تھے بلکہ عام شامیوں کی طرح سرخ رنگ تھے۔ مگر آنے والے مسیح موعود کا حلیہ ہرگز شامیوں کا حلیہ نہیں ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 299 تا 302 حاشیہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’اس وقت کے مولوی اگر دیانت اور دین پر قائم ہو کر سوچیں تو اُنہیں ضرور اقرار کرنا پڑے گا کہ چودھویں صدی کے مجدد کا کام کسرِ صلیب ہے اور چونکہ یہ وہی کام ہے جو مسیح موعود سے مخصوص ہے اس لئے بالضرورت یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد مسیح موعود چاہئے اور اگرچہ چودھویں صدی میں فسق و فجور بھی مثل شراب خوری و زنا کاری وغیرہ بہت پھیلے ہوئے ہیں‘‘۔ یعنی بہت سارے فسق و فجور پھیلے ہوئے ہیں، مثلاً شراب خوری، زنا کاری ’’مگر بغور نظر معلوم ہوگا کہ ان سب کا سبب ایسی تعلیمیں ہیں جن کا یہ مدّعا ہے کہ ایک انسان کے خون نے گناہوں کی بازپرس سے کفایت کر دی ہے‘‘۔ یہ جو اتنی برائیاں پھیلی ہوئی ہیں، ان کی وجہ یہ ہے کہ یہ نظریہ قائم ہو گیا ہے، یہ تعلیم ہے کہ حضرت عیسیٰ کے کفّارہ کی وجہ سے اُن سے اُن کے گناہوں کی بازپرس نہیں ہوگی، پوچھا نہیں جائے گا۔ فرمایا ’’اسی وجہ سے ایسے جرائم کے ارتکاب میں یورپ سب سے بڑھا ہوا ہے‘‘۔ اس میں سارے مغربی ممالک شامل ہیں اور دوسرے ممالک بھی جہاں چھوٹ ہے، اب تو ہر جگہ یہ پھیلتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا ’’پھر ایسے لوگوں کی مجاورت کے اثر سے‘‘ یعنی اُن کی ہمسائیگی سے، اُن کے ساتھ بیٹھنے اُٹھنے سے ’’عموماً ہر ایک قوم میں بے قیدی اور آزادی بڑھ گئی ہے‘‘۔ اب صرف یہ یورپ کے ساتھ نہیں رہا، بلکہ جہاں بھی یہ پھیل رہے ہیں، جا رہے ہیں، یا آجکل ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع سے آزادی پہنچ رہی ہے، وہاں بھی ہر قسم کی قید سے آزاد ہو رہے ہیں اور بے حیائی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ فرمایا ’’اگرچہ لوگ بیماریوں سے ہلاک ہو جائیں اور اگرچہ وبا اُن کو کھا جائے مگر کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ یہ تمام عذاب شامتِ اعمال سے ہے۔‘‘ بہت سارے عذاب جو آ رہے ہیں، طوفان ہے، زلزلے ہیں، یہ لوگوں کی شامتِ اعمال ہے، کوئی سوچتا نہیں۔ ’’اس کی کیا وجہ ہے؟یہی تو ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت ٹھنڈی ہو گئی ہے اور اُس ذوالجلال کی عظمت دلوں پر سے گھٹ گئی ہے‘‘۔
پس آجکل بھی جو آفات آتی ہیں یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے اور ہمیں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے اور جو نہ ماننے والے ہیں اُن کو بھی سوچنا چاہئے۔
فرمایا: ’’غرض جیسا کہ کفّارہ کی بے قیدی نے یورپ کی قوموں کو شراب خواری اور ہر ایک فسق و فجور پر دلیر کیا۔ ایسا ہی اُن کا نظارہ دوسری قوموں پر اثر انداز ہوا۔ اس میں کیا شک ہے کہ فسق و فجور بھی ایک بیماری متعدی ہے۔ ایک شریف عورت کنجریوں کی دن رات صحبت میں رہ کر اگر صریح بدکاری تک نہیں پہنچے گی تو کسی قدر گندے حالات کے مشاہدہ سے دل اس کا ضرور خراب ہو گا‘‘۔ کیونکہ صحبت اثر ڈالتی ہے، حالات اثر ڈالتے ہیں، ماحول اثر ڈالتا ہے۔
پھر فرمایا: ’’خدا تعالیٰ کی غیرت اور رحمت نے چاہا کہ صلیبی عقیدے کے زہرناک اثر سے لوگوں کو بچاوے اور جس دجّالیت سے انسان کو خدا بنایا گیا ہے، اُس دجّالیت کے پردے کھول دیوے اور چونکہ چودھویں صدی کے شروع تک یہ بَلا کمال تک پہنچ گئی تھی‘‘ یعنی یہ مصیبت اور بلا جو ہے یہ اپنی انتہا کو پہنچ گئی تھی ’’اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل اور عنایت نے چاہا کہ چودھویں صدی کا مجدد کسرِ صلیب کرنے والا ہو۔ کیونکہ مجدد بطور طبیب کے ہے اور طبیب کا کام یہی ہے کہ جس بیماری کا غلبہ ہو اُس بیماری کی قلع قمع کی طرف توجہ کرے۔ پس اگر یہ بات صحیح ہے کہ کسرِ صلیب مسیح موعود کا کام ہے تو یہ دوسری بات بھی صحیح ہے کہ چودھویں صدی کا مجدد جس کا فرض کسرِ صلیب ہے مسیح موعود ہے‘‘۔ (کتاب البریہ۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 303-305 حاشیہ)
پھر کسرِ صلیب کس طرح ہو گی؟ اس بارہ میں آپ فرماتے ہیں:۔ ’’اس جگہ طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسیح موعود کو کیونکر اور کن وسائل سے کسرِ صلیب کرنا چاہئے؟ کیا جنگ اور لڑائیوں سے جس طرح ہمارے مخالف مولویوں کا عقیدہ ہے؟ یا کسی اور طَور سے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مولوی لوگ، (خدا اُن کے حال پر رحم کرے،) اس عقیدہ میں سراسر غلطی پر ہیں۔ مسیح موعود کا منصب ہرگز نہیں ہے کہ وہ جنگ اور لڑائیاں کرے بلکہ اُس کا منصب یہ ہے کہ حُجَجِ عَقْلِیَّہ‘‘یعنی عقلی دلائل سے ’’اور آیاتِ سماویہ‘‘ آسمانی نشانات سے ’’اور دعا سے اس فتنہ کو فرو کرے۔ یہ تین ہتھیار خدا تعالیٰ نے اُس کو دئیے ہیں اور تینوں میں ایسی اعجازی قوت رکھی ہے جس میں اُس کا غیر ہرگز اس سے مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ آخر اسی طور سے صلیب توڑا جائے گا۔ یہاں تک کہ ہر ایک محقق نظر سے اُس کی عظمت اور بزرگی جاتی رہے گی‘‘۔ جو بھی تحقیق کرنے کی نظر سے دیکھے گا، اس پر غور کرے گا، اُس پر صلیب کی عظمت اور بزرگی اور جو اثر پڑا ہوا ہے، وہ ختم ہو جائے گا ’’اور رفتہ رفتہ توحید قبول کرنے کے وسیع دروازے کُھلیں گے۔ یہ سب کچھ تدریجاً ہو گا۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے سارے کام تدریجی ہیں۔ کچھ ہماری حیات میں اور کچھ بعد میں ہوگا۔ اسلام ابتدا میں بھی تدریجاً ہی ترقی پذیر ہوا ہے اور پھر انتہا میں بھی تدریجاً اپنی پہلی حالت کی طرف آئے گا‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 305حاشیہ)
پس اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے والوں کا بھی فرض ہے کہ اس فریضہ کی سرانجام دہی میں مصروف ہوں اور توحید کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ پھر آپ اپنے امام اور حَکم ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رہے کہ امام الزمان کے لفظ میں نبی، رسول، محدّث، مجدّد سب داخل ہیں۔ مگر جو لوگ ارشاد اور ہدایت خلق اللہ کیلئے مامور نہیں ہوئے اور نہ وہ کمالات ان کو دئیے گئے وہ گو ولی ہوں یا ابدال ہوں امام الزمان نہیں کہلا سکتے۔ اب بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور مُلہَموں کو کرنی خداتعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے‘‘۔ یعنی ہر مسلمان کو، ہر نیک آدمی کو، جن کو خوابیں آتی ہیں اُن کو بھی، جن کو الہام ہوئے ہیں مسیح کے آنے کے، امام کے آنے کے، اُن کو بھی’’سو مَیں اِس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ خداتعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان مَیں ہوں اور مجھ میں خداتعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے جس میں سے پندرہ برس گزر بھی گئے اور ایسے وقت میں مَیں ظاہر ہوا ہوں کہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھرگئے تھے۔ اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا۔ ایسا ہی مسیح کے نزول کے بارے میں نہایت غلط خیال پھیل گئے تھے اور اس عقیدے میں بھی اختلاف کا یہ حال تھا کہ کوئی حضرت عیسیٰ کی حیات کا قائل تھا اور کوئی موت کا۔ اور کوئی جسمانی نزول مانتا تھا اور کوئی بروزی نزول کا معتقد تھا۔ اور کوئی دمشق میں ان کو اتار رہا تھا اور کوئی مکّہ میں۔ اور کوئی بیت المقدس میں اور کوئی اسلامی لشکر میں۔ اور کوئی خیال کرتا تھا کہ ہندوستان میں اتریں گے۔ پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حَکَم کو چاہتے تھے سو وہ حَکَم میں ہوں۔ میں روحانی طور پر کسر صلیب کے لئے اور نیز اختلافات کے دُور کرنے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ ان ہی دونوں امروں نے تقاضا کیا کہ مَیں بھیجا جاؤں۔ میرے لئے ضروری نہیں تھا کہ مَیں اپنی حقیّت کی کوئی اور دلیل پیش کروں کیونکہ ضرورت خود دلیل ہے‘‘۔ جو حالات تھے وہ مسیح موعود کے آنے کا تقاضا کر رہے تھے اور ضرورت تھی اور یہی دلیل کافی تھی۔ ’’لیکن پھر بھی میری تائید میں خداتعالیٰ نے کئی نشان ظاہر کئے ہیں۔ اور مَیں جیسا کہ اور اختلافات میں فیصلہ کرنے کے لئے حَکَم ہوں۔ ایسا ہی وفات حیات کے جھگڑے میں بھی حَکَم ہوں۔ اور مَیں امام مالکؒ اور ابن حزمؒ اور معتزلہ کے قول کو مسیح کی وفات کے بارے میں صحیح قرار دیتا ہوں اور دوسرے اہل سنّت کو غلطی کا مرتکب سمجھتا ہوں۔ سو مَیں بحیثیت حَکَم ہونے کے ان جھگڑا کرنے والوں میں یہ حکم صادر کرتا ہوں کہ نزول کے اجمالی معنوں میں یہ گروہ اہل سنّت کا سچا ہے کیونکہ مسیح کا بروزی طور پر نزول ہونا ضروری تھا۔ ہاں نزول کی کیفیت بیان کرنے میں ان لوگوں نے غلطی کھائی ہے‘‘۔ ایک حد تک تو سچا ہے کہ نزول بروزی ہونا تھا، لیکن کیفیت میں غلطی کھائی۔ ’’نزول صفت بروزی تھا، نہ کہ حقیقی۔ اور مسیح کی وفات کے مسئلہ میں معتزلہ اور امام مالک اور ابن حزم وغیرہ ہمکلام اُن کے سچے ہیں کیونکہ بموجب نصِّ صریح آیت کریمہ یعنی آیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کے مسیح کا عیسائیوں کے بگڑنے سے پہلے وفات پانا ضروری تھا۔ یہ میری طرف سے بطورحَکَم کے فیصلہ ہے۔ اب جو شخص میرے فیصلہ کو قبول نہیں کرتا وہ اُس کو قبول نہیں کرتا جس نے مجھے حَکَم مقرر فرمایا ہے۔ اگر یہ سوال پیش ہو کہ تمہارے حَکَم ہونے کا ثبوت کیا ہے؟ اِس کا یہ جواب ہے کہ جس زمانہ کیلئے حَکَم آنا چاہئے تھا وہ زمانہ موجود ہے۔ اور جس قوم کی صلیبی غلطیوں کی حَکَم نے اصلاح کرنی تھی وہ قوم موجود ہے۔ اور جن نشانوں نے اس حَکَم پر گواہی دینی تھی وہ نشان ظہور میں آ چکے ہیں‘‘۔ آسمانی بھی اور زمینی بھی۔ ’’اور اب بھی نشانوں کا سلسلہ شروع ہے۔ آسمان نشان ظاہر کر رہا ہے۔ زمین نشان ظاہر کر رہی ہے اور مبارک وہ جن کی آنکھیں اب بندنہ رہیں۔‘‘ (ضرورۃالامام۔ روحانی خزائن جلد 13 صفحہ496-495)
اللہ تعالیٰ امتِ مسلمہ کی آنکھیں کھولے اور حَکَم کو ماننے والے بنیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں:۔ ’’میرے مخالف اپنے دلوں میں آپ ہی سوچیں کہ اگر مَیں درحقیقت وہی مسیح موعود ہوں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک بازو قرار دیا ہے اور جس کو سلام بھیجا ہے اور جس کا نام حَکَم اور عدل اور امام اور خلیفۃ اللہ رکھا ہے تو کیا ایسے شخص پر ایک معمولی بادشاہ کے لئے‘‘ یا کسی کے لئے بھی ’’لعنتیں بھیجنا، اس کو گالیاں دینا جائز تھا؟‘‘ یہ ترکی کے بادشاہ کا ذکر ہے، لیکن بہر حال اس کو میں چھوڑتا ہوں۔ فرمایا کہ ’’ذرہ اپنے جوش کو تھام کے سوچیں۔ نہ میرے لئے، بلکہ اللہ اور رسول کے لئے کہ کیا ایسے مدّعی کے ساتھ ایسا کرنا روا تھا؟ مَیں زیادہ کہنا نہیں چاہتا۔ کیونکہ میرا مقدمہ تم سب کے ساتھ آسمان پر ہے۔ اگر مَیں وہی ہوں جس کا وعدہ نبیؐ کے پاک لبوں نے کیا تھا تو تم نے نہ میر ابلکہ خدا کا گناہ کیا ہے۔ اور اگر پہلے سے آثار صحیحہ میں یہ واردنہ ہوتا کہ اس کو دُکھ دیا جائے گا اور اس پر لعنتیں بھیجی جائیں گی‘‘۔ جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا ہے ’’تو تم لوگوں کی مجال نہ تھی جو تم مجھے وہ دُکھ دیتے جو تم نے دیا‘‘۔ یہ تو دیا جانا مقدر تھا، مسیح کے لئے پہلے لکھا گیا تھا ’’پر ضرور تھا کہ وہ سب نوشتے پورے ہوں جو خدا کی طرف سے لکھے گئے تھے اور اب تک تمہیں ملزم کرنے کے لئے تمہاری کتابوں میں موجود ہیں جن کو تم زبان سے پڑھتے اور پھر تکفیر اور لعنت کر کے مہر لگا دیتے ہو کہ وہ بد علما اور ان کے دوست جو مہدی کی تکفیر کریں گے اور مسیح سے مقابلہ سے پیش آئیں گے وہ تم ہی ہو‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 329-328)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’پھر یہ بھی سوچو کہ جس حالت میں مَیں وہ شخص ہوں جو اُس مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہوں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا ہے کہ ’’وہ تمہارا امام اور خلیفہ ہے اور اس پر خدا اور اس کے نبی کا سلام ہے اور اس کا دشمن لعنتی اور اس کا دوست خدا کا دوست ہے۔ اور وہ تمام دنیا کے لئے حَکَم ہو کر آئے گا۔ اور اپنے تمام قول اور فعل میں عادل ہوگا‘‘۔ تو کیا یہ تقویٰ کا طریق تھا کہ میرے دعویٰ کو سن کر اور میرے نشانوں کو دیکھ کر اور میرے ثبوتوں کا مشاہدہ کر کے مجھے یہ صلہ دیتے کہ گندی گالیاں اور ٹھٹھے اور ہنسی سے پیش آتے؟ کیا نشان ظاہر نہیں ہوئے؟ کیا آسمانی تائیدیں ظہور میں نہیں آئیں؟ کیا ان سب وقتوں اور موسموں کا پتہ نہیں لگ گیا جو احادیث اور آثار میں بیان کی گئی تھیں؟ تو پھر اس قدر کیوں بیباکی دکھلائی گئی؟ ہاں اگر میرے دعوے میں اب بھی شک تھا یا میرے دلائل اور نشانوں میں کچھ شبہ تھا تو غربت اور نیک نیتی‘‘، عاجزی اور نیک نیتی سے ’’اور خدا ترسی سے اس شبہ کو دور کرایا ہوتا‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد13 صفحہ 328)
آپ فرماتے ہیں: ’’مَیں نے بار بار کہا کہ آؤ اپنے شکوک مٹالو‘‘۔ اپنے شکوک اور شبہات جو ہیں مٹا لو ’’پر کوئی نہیں آیا۔ مَیں نے فیصلہ کے لئے ہر ایک کو بلایا۔ پر کسی نے اس طرف رخ نہیں کیا۔ مَیں نے کہا کہ تم استخارہ کرو اور رو رو کر خداتعالیٰ سے چاہو کہ وہ تم پر حقیقت کھولے پر تم نے کچھ نہ کیا۔ اور تکذیب سے بھی باز نہ آئے۔ خدا نے میری نسبت سچ کہا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔‘‘ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک شخص درحقیقت سچا ہو اور ضائع کیا جائے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کی طرف سے ہو اور برباد ہو جائے؟ پس اے لوگو تم خدا سے مت لڑو۔ یہ وہ کام ہے جو خدا تمہارے لئے اور تمہارے ایمان کے لئے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مزاحم مت ہو۔ اگر تم بجلی کے سامنے کھڑے ہو سکتے ہو مگر خدا کے سامنے تمہیں ہرگز طاقت نہیں۔ اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو تمہارے حملوں کی کچھ بھی حاجت نہ تھی۔ خدا اس کے نیست و نابود کرنے کے لئے خود کافی تھا۔ افسوس کہ آسمان گواہی دے رہا ہے اور تم نہیں سنتے۔ اور زمین ’’ضرورت ضرورت‘‘ بیان کر رہی ہے اور تم نہیں دیکھتے! اے بدبخت قوم اٹھ اور دیکھ کہ اس مصیبت کے وقت میں جو اسلام پیروں کے نیچے کچلا گیا اور مجرموں کی طرح بے عزت کیا گیا۔ وہ جھوٹوں میں شمار کیا گیا۔ وہ ناپاکوں میں لکھا گیا تو کیا خدا کی غیرت ایسے وقت میں جوش نہ مارتی۔ اب سمجھ کہ آسمان جھکتا چلا آتا ہے اور وہ دن نزدیک ہیں کہ ہر ایک کان کو ’’اَنَا الْمَوْجُوْد‘‘ کی آواز آئے‘‘۔ (کتاب البریّہ۔ روحانی خزائن جلد13صفحہ 330-329)
اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے کان کھولے اور یہ آواز سننے والے ہوں۔ اب اس کے بعد اس وقت مَیں ایک افسوسناک خبر بھی بتانا چاہتا ہوں جو مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب کی وفات کی ہے، جو تحریکِ جدید میں آجکل وکیل التعلیم تھے اور پرانے دیرینہ خادمِ سلسلہ تھے۔ 16؍مارچ کو 79سال کی عمر میں اُن کی وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ آپ 21؍جون 1934ء میں مکرم صوفی غلام محمد صاحب کے گھر میں پیدا ہوئے، جو صحابی تھے۔ آپ کے دادا بھی صحابی تھے۔ آپ کے دادا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 313صحابہ میں سے تھے۔ اور 5؍جون1895ء میں اُن کی بیعت تھی۔ تقسیمِ ہند کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان چلے گئے تھے، درویشان قادیان میں شامل ہو گئے تھے، قادیان میں ہی اُن کی وفات ہوئی اور بہشتی مقبرہ قادیان میں ہی دفن ہوئے۔ مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب کے والد صوفی غلام محمد صاحب کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف حاصل تھا۔ اور مکرم صوفی صاحب کو بھی واقفِ زندگی کے طور پر مختلف حیثیتوں سے سلسلہ کی بھر پور خدمت کی توفیق ملی۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور استاد بھی رہے، سپرنٹنڈنٹ بورڈنگ ہاؤس تحریکِ جدید رہے۔ ناظر بیت المال خرچ بھی رہے۔ ناظرِ اعلیٰ ثانی صدر انجمن احمدیہ بھی رہے۔ غرض مختلف عہدوں پر ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ مصلح الدین صاحب کے دادا کا تعلق گجرات سے تھا۔ ان کے والدین نے تو پہلے ہی ان کو وقف کے لئے پیش کیا ہوا تھا۔ 18؍جون 1949ء کو انہوں نے خود اپنی زندگی سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کر دی۔ اور ستمبر 1949ء میں میٹرک کے بعد وقف کرنے والے آٹھ واقفین کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ربوہ میں انٹرویو کے لئے بلایا، اور خود ہی اُن کے پرچے سیٹ کئے اور خود ہی اُن کا امتحان لیا، انٹرویو لیا۔ اُن میں ایک مبارک مصلح الدین صاحب بھی تھے۔ پھر بعض کو فرمایا کہ کالج میں مزید تعلیم حاصل کریں۔ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں نویں تک آپ پڑھے تھے۔ پھر چنیوٹ میں جو تعلیم الاسلام ہائی سکول تھا، یہاں سے انہوں نے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ پھر 1953ء میں تعلیم الاسلام کالج لاہور سے بی ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے 1956ء میں پنجاب یونیورسٹی سے ریاضی میں ایم۔ ایس۔ سی کی۔ اور پھر جیسا کہ یہ وقف تھے، 1956ء کو وکالتِ دیوان میں یہ حاضر ہوئے۔ آپ کا پہلا تقرر امانت تحریکِ جدید میں کیا گیا۔ چند ماہ وہاں کام کیا، پھر وکالتِ مال میں تقرر ہوا۔ پھر آپ کو جماعت کا ایک تجارتی ادارہ تھا، ایشو افریقن، وہاں بھجوایا گیا، چند سال وہاں رہے۔ 1964ء کے آغاز میں واپس تحریکِ جدید میں آئے اور وکالتِ مال ثانی میں 1972ء تک بطور نائب وکیل المال ثانی رہے اور 1972ء سے 2001ء تک وکیل المال کے طور پر کام کیا۔ اُس کے بعد 2001ء سے آپ وفات تک وکیل التعلیم رہے۔ اور اس کے علاوہ بھی جماعت کی مختلف کمیٹیوں اور بورڈ جو تھے ان کے ممبر رہے۔ مجلس کارپرداز بہشتی مقبرہ کے ممبر بھی تھے۔ بڑے صائب الرائے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی سوچ سمجھ کے مشورہ دینے والے اور گہرا علم رکھنے والے، ہر اُس کمیٹی میں جہاں یہ ممبر تھے، ان کی حاضری ایک تو باقاعدہ ہوتی تھی، دوسرے باقاعدہ تحقیق کر کے، علم حاصل کر کے جایا کرتے تھے۔ خلافت سے بھی بے انتہا اخلاص اور محبت کا تعلق تھا۔ قرآنِ کریم کے بھی بہت سے حصے آپ کو حفظ تھے۔ تلاوت بڑی اچھی کیا کرتے تھے۔ اکثر شوریٰ کے موقع پر ان کو تلاوت کا موقع ملتا تھا۔ خدمت کا سلسلہ ستاون سال پر محیط ہے۔ ذیلی تنظیموں میں بھی خدام الاحمدیہ وغیرہ میں بڑا لمبا عرصہ کام کیا۔ 1964ء میں ان کی شادی ہوئی اور ان کی اہلیہ بھی صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی تھیں۔ کھارے کے رہنے والے صوبیدار غلام رسول صاحب ان کے والد تھے۔ ان کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ آپ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں کہ گھر میں آئے مہمان یا کام کرنے والے اگر سلسلہ کے نظام کے خلاف کبھی کوئی بات کرتے تو اُنہیں سختی سے منع فرماتے اور کبھی سلسلہ کے خلاف بات برداشت نہیں کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ لجنہ پاکستان کی نائب صدر ہیں۔ کہتی ہیں جب لجنہ کے کام کے لئے مجھے دورہ جات کے لئے جانا ہوتا تو کبھی مجھے منع نہیں کیا بلکہ جماعتی کاموں کو ہمیشہ اولیت دیتے رہے اور بعض موقعے ایسے بھی آئے کہ کیا ٹھیک ہے لجنہ کا کام کرو، کھانا بھی خود پکانا پڑا تو پکا لیا۔ میں نے کچھ سال پہلے ان کو بنگلہ دیش کے دورے پر بھجوایا تھاان کے بیٹے منصور انجم صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں ان کو شدید دل کی تکلیف شروع ہوئی اور سانس بھی رکنے لگ گیاتکلیف بڑی پرانی تقریباً تیس سال سے چل رہی تھی، تو کہتے ہیں میں نے ان کو فون کیا کہ میں بنگلہ دیش آ جاتا ہوں، میرا کینیڈا سے آنا آسان ہے۔ جواب دیا کہ نہیں، یہاں خلیفہ وقت نے کہا ہوا ہے اور جماعت پورا خیال رکھ رہی ہے، تمہیں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کوئی بات بھی ہوتی تو وہ خلیفہ وقت سے ضرور پوچھتے۔ ان کے بیٹے حافظ ناصر الدین، یہ حافظ قرآن ہیں لکھتے ہیں کہ میرے والد صاحب کے پاس مختلف لوگوں کی امانتیں تھیں اور لوگوں کی امانتوں اور چندوں اور وصیتوں کا حساب بھی آپ کے پاس ہوتا تھا جو آپ باقاعدگی سے ادائیگیاں کرتے اور پھر اُن کو اطلاع کرتے تھے۔ مجد الدین صاحب ان کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ گھر میں کبھی کوئی بات ہوتی، عام معاملات میں بھی بات کر رہے ہوتے تو تھوڑی دیر کے بعد یہ آتے اور کہتے کہ میں نے اس بارے میں مشورے کے لئے اور دعا کے لئے خلیفہ وقت کو خط لکھ دیا ہے۔ ہر بات جو تھی وہ پوچھا کرتے تھے، چاہے وہ گھریلو ہو۔ اور کہا کرتے تھے کہ واقفِ زندگی کبھی بھی کسی چیز کا تقاضا نہیں کرتا۔ کہتے ہیں وقفِ زندگی کے فارم میں اب تو مختلف شرائط بنا دی گئی ہیں۔ ہمارے سامنے تو وقفِ زندگی کاجو فارم تھا اُس میں صرف یہی ایک شرط تھی کہ مطالبہ نہیں کرنا۔ اور ان کے بچے کہتے ہیں کبھی ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ واقفِ زندگی ہونے کی وجہ سے ہمیں کسی چیز کی کمی ہو۔ اپنے اوپر تنگی وارد کرکے بھی ہماری ضروریات پوری کر دیا کرتے تھے۔ مصلح الدین صاحب کے والد بھی واقفِ زندگی تھے اور یہ اُن کے اکلوتے بیٹے تھے۔ ان کو بھی انہوں نے وقف کیا اور کبھی بھی کسی قسم کی تنگی کا شکوہ نہیں کیا۔ مصلح الدین صاحب، سات بہنوں کے اکلوتے بھائی تھے۔ حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی ایس سی اور بی ٹی تھے۔ اُن کی جب سکول سے ریٹائرمنٹ ہوئی تو انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ میری ریٹائرمنٹ ہو گئی ہے اور میں تو وقفِ زندگی ہوں۔ حکم کا انتظار کر رہا ہوں، اب میں نے کیا کرنا ہے۔ تو کافی لمبا عرصہ جواب نہیں آیا۔ مصلح الدین صاحب ہوسٹل میں تھے، وہاں وظیفہ ملا کرتا تھا تو اس لئے کہ والد صاحب کے حالات تنگی کے ہوں گے، یہ ہوسٹل چھوڑ کر آ گئے اور اپنی جو وظیفہ کی رقم تھی، وہ گھر کے خرچ کے لئے چلاتے رہے اور وہاں اُس وقت بڑی تنگی سے گزارہ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا۔
یہ ایک واقعہ لکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ کسی جماعتی کام سے اسلام آباد گیا، تو میرا ایک دوست تھا، اُس کو میں عرصے سے نہیں ملا تھا، اُس کے پاس گیا۔ وہ باتوں میں پوچھنے لگا، آجکل تم نائب وکیل المال بھی ہو، جماعت کے حالات تو اب اچھے ہیں، تمہیں کیا الاؤنس ملتا ہے؟ کتنا ملتا ہے؟ مقصد اُس کے پوچھنے کا یہ تھا کہ اب تمہارا الاؤنس یا تنخواہ جو ہے زیادہ ہونی چاہئے۔ تو کہتے ہیں میں نے اُس کو کہا کہ مجھے جو کچھ ملتا ہے، اُس میں اتنی برکت ہے کہ تم جو گورنمنٹ سروس میں کام کر رہے ہو اور سیکرٹری لیول کے آدمی ہو، تمہیں بھی اُتنی برکت نہیں ہے۔ خیر کہتے ہیں، بحث کے بعد رات کو سو گئے۔ صبح اُٹھ کر تیار ہوئے دفتر جانے کے لئے۔ انہوں نے بھی سیکریٹریٹ میں کسی جماعتی کام میں جانا تھا، جا رہے تھے تو سڑک پر کھڑے ہو کردوست نے کہا، ٹیکسی لے کر جاتے ہیں، انہوں نے کہا، ٹیکسی کا انتظار کیا کرنا ہے، اُتنی دیر ہم پیدل چلتے ہیں۔ سڑک پر چلتے جا رہے تھے تو ایک بڑی سی گاڑی آ کے رُکی جوفلیگ کار تھی اور جو دوست سرکاری افسر تھا، اُس کو گاڑی والے نے نہیں پوچھا اِن کو کہنے لگا کہ آپ فلاں جگہ سیکریٹریٹ میں جانا چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اُس نے کہا کہ ہاں مجھے بڑا دل میں خیال آیا کہ آپ وہاں جانا چاہتے ہیں۔ آپ بیٹھیں۔ انہوں نے کہا یہ گاڑی کس کی ہے؟ کہا کہ یہ فلاں جنرل صاحب کی گاڑی ہے اور میں وہاں جا رہا ہوں۔ تو خیر وہاں اندر گئے اور فلیگ کار تھی، گیٹ بھی کھل گیا، کسی نے پوچھا بھی نہیں۔ تو انہوں نے اپنے دوست کو کہا، دیکھو اگر تم ٹیکسی میں جاتے تو پندرہ سولہ روپے تمہارے خرچ ہونے تھے۔ لیکن اس طرح واقفِ زندگی کی اللہ تعالیٰ مدد فرماتا ہے کہ ایک فلیگ کار رُکی۔ نہ میں اس کو جانتا ہوں، نہ وہ مجھے جانتا ہے۔ اُس نے تمہیں نہیں پوچھا بلکہ مجھے پوچھا۔ اور میری وجہ سے اندر دفتر میں بھی چلے گئے۔ گیٹ پر جو نام لکھنا ہوتا تھا، یا بتانا پڑنا تھا، تعارف کرانا پڑنا تھا، وہ بھی نہیں ہوا اور ہم سیدھے اندر چلے گئے۔ تو یہ فضل ہیں جو واقفِ زندگی کے اوپر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک خطبہ میں اپنی ایک مبشر رؤیا کا ذکر کیا تھا۔ فرمایا کہ ’’میں نے دیکھاکہ جیسے سیاحوں کی بس ہوتی ہے، ویسی ہی کسی بس میں مَیں اور میرے کچھ ساتھی سفر کرتے ہوئے ایک دریا کو عبور کرنے والے ہیں۔ اب یہ جو بس کی حالت کا سفر ہے، یہ مجھے یادنہیں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ بس پل کے پاس آ کر نیچے اُس کے دامن میں رُک گئی ہے۔ اور کوئی وجہ ہے کہ وہ بس خود آگے نہیں بڑھ سکتی۔ تو جیسے ایسے موقع پر مسافر اتر کر چہل قدمی شروع کر دیتے ہیں، اس طرح اس بس سے میں اُترا ہوں‘‘ یعنی خلیفۃ المسیح الرابع اترے ہیں ’’کچھ اور بھی مسافر اترے ہیں‘‘۔ کہتے ہیں ’’لیکن میرے ذہن میں اس وقت اور کوئی نہیں آ رہا مگر یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مبارک مصلح الدین صاحب جو ہمارے واقفِ زندگی تحریکِ جدید کے کارکن ہیں، وہ ساتھ ہیں اور جیسے انتظار میں اور کوئی شغل نہ ہو تو انسان کہتا ہے کہ چلیں اب نہا ہی لیتے ہیں‘‘۔ میں اور وہ ہم دونوں دریا میں چھلانگ لگا دیتے ہیں۔ تو کہتے ہیں ’’میرے ذہن میں اُس وقت یہ خیال ہے کہ ہم تھوڑا سا تیر کے واپس آ جائیں گے۔ لیکن مبارک مصلح الدین مجھ سے تھوڑے سے، دو ہاتھ آگے ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ چلیں اب اسی طرح دریا پار کرتے ہیں۔ تو میرے ذہن میں یہ خیال ہے کہ دریا تو بھر پوربہہ رہا ہے، جیسے دریائے سندھ میں طغیانی کے وقت بہا کرتاہے، اگرچہ کناروں سے چھلکا نہیں لیکن لبالب ہے اور بہت ہی بھرپور قوت کے ساتھ بہہ رہا ہے۔ تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ پتہ نہیں ہم یہ کر بھی سکیں گے کہ نہیں۔ تومبارک مصلح الدین کہتے ہیں کہ نہیں ہم کرسکتے ہیں۔ اور میں کہتا ہوں کہ ٹھیک ہے پھر چلتے ہیں۔ لیکن مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اگرچہ میں کوئی ایسا تیراک نہیں مگر تیراکی کی غیر معمولی طاقت پیدا ہوتی ہے اور چند ہاتھوں میں بڑے بڑے فاصلے طے ہونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب میں مڑ کے دیکھتا ہوں تو وہ پچھلا کنارہ بہت دور رہ جاتا ہے اور پھر دو چار ہاتھ لگانے سے ہی وہ باقی دریا بھی عبور ہو جاتا ہے۔ اور دوسری طرف ہم کنارے لگتے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اگرچہ مبارک مصلح الدین مجھے رؤیا میں اپنے آگے دکھائی دیتے ہیں مگر جب کنارے لگتا ہوں تو پہلے میں لگتا ہوں پھر وہ لگتے ہیں۔ اور اس طرح ہم دوسری طرف پہنچ جاتے ہیں اور پھر یہ جائزہ لے رہے ہیں کہ کس طرح یہاں سے باہر نکل کر دوسری طرف کنارے سے باہر کی عام دنیا میں اُبھریں‘‘۔ تو پھر آپ فرماتے ہیں۔ ’’یہ رؤیا یہاں ختم ہو گئی اور چونکہ یہ ایک ایسی رؤیا تھی جو عام طور پر دستور کے مطابق انسان کے ذہن میں آتی نہیں، اس لئے رؤیا ختم ہونے کے بعد میرے ذہن پر یہ بڑا بھاری اثر تھا کہ یہ ایک واضح پیغام ہے جس میں اللہ تعالیٰ کسی نئی منزل فتح کرنے کی خوشخبری دے رہا ہے اور اگرچہ ایک حصہ اس کا ابھی تک مجھ پر واضح نہیں ہوا کہ وہ ساتھی جوہیں ان کو ہم کیوں پیچھے چھوڑ گئے اور ہم دو کیوں آگے نکل جاتے ہیں لیکن بہر حال ذہن پر یہ تأثر ضرور ہے کہ اس میں کوئی انذار نہیں تھا بلکہ خوشخبری تھی کہ دریا کی موجوں نے اگرچہ بس کو روک دیاہے لیکن ہمارے سفر کی راہ میں حائل نہیں ہو سکیں‘‘۔ (خطبہ جمعہ 12جنوری 1990۔ بحوالہ خطبات طاہر جلد 9صفحہ 28تا30)
تو بہر حال یہ بابرکت رؤیابھی تھی اس میں یہ بھی ساتھ تھے۔ اُنہوں نے اِن کو دیکھا، ان کے نام کے لحاظ سے بھی مبارک خواب ہے۔ جماعت کی ترقیات بھی اس میں ہیں۔ خود بھی کافی دعا گو، تہجد گزار، نیک تھے۔ غریبوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے تھے۔ بلکہ ان کے دفتر کے ایک آدمی نے لکھا کہ میرے سے غریبوں کو ہر سال رمضان میں کچھ راشن وغیرہ جنس وغیرہ دلوایا کرتے تھے اور کسی اور کو پتا نہیں ہوتا تھا۔ ویسے دفتری معاملات میں اصولی آدمی تھے لیکن طبیعت میں انکساری بھی تھی، عاجزی بھی تھی، غریب پروری بھی تھی۔ ان کے بچے اب اللہ کے فضل سے اچھے صاحبِ حیثیت ہیں، کمانے والے ہیں۔ اُن کی جو خدمت ِ خلق کی نیکیاں ہیں انہیں جاری رکھیں۔ ان کی اپنی ایک بیٹی کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش تھی لیکن وہ کہتی ہیں جب ہم حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کوملنے گئے، تو انہوں نے کہا کہ لڑکیاں ڈاکٹر بن جائیں تو پھر بڑا مسئلہ ہوتا ہے، گھریلو کاموں میں مشکل پڑتی ہے۔ بس اتنی بات کی تھی تو انہوں نے ارادہ ترک کر دیا۔ پھر بعد میں خیر اللہ تعالیٰ نے اُس لڑکی پر اس طرح فضل فرمایا کہ کینیڈا جا کے اُس کو پی ایچ ڈی کر کے ڈاکٹر بننے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق دی۔
اب بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں۔ یہاں بھی بچوں کو جو الاؤنس ملتا ہے حکومت کی طرف سے، اُس پر میاں بیوی کے جھگڑے ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ کہتا ہے میں نے لینا ہے۔ وہ کہتی ہے میں نے لینا ہے۔ لیکن اِن کا ایک بچہ لکھتا ہے کہ میں نے اچھے نمبر لئے تو مجھے سکالرشپ ملا۔ تو مجھے میرے والدنے کہا کہ یہ سکالر شپ تمہیں ملا ہے، یہ تمہاری محنت کی وجہ سے ملا ہے۔ لیکن تمہاری جو پڑھائی کا خرچہ اور رہن سہن کا خرچہ ہے وہ میں پورا دوں گا۔ یہ تمہاری اپنی فیس ہے۔ اس پر میرا یا تمہارے گھر کا، کسی کا کوئی حق نہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ بچے مطالبے شروع کر دیں کہ ہمارا حق ہوگیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رقم جس اصل مقصد کے لئے ہو اس پر استعمال ہونی چاہئے۔
نوری صاحب نے لکھا ہے کہ 1985ء سے ان کو دل کی تکلیف تھی اور ایسے حالات آئے کہ لگتا تھا کہ اب زندگی ختم ہوئی، اب ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پر ان کو موت کے منہ سے اس طرح نکالا کہ کہتے ہیں مختلف کانفرنسز میں، سیمینارز میں ان کا کیس مَیں بیان کرتا رہا ہوں اور یہ نشان بتاتا رہا ہوں۔ توڈاکٹر ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ تمہارے مریض کے ساتھ یہ معجزہ ہوتا ہے۔ جب بنگلہ دیش گئے ہیں جیسا کہ میں نے کہا۔ اُس وقت بھی مجھے ان کی بڑی فکر تھی کہ خیریت سے واپس آ جائیں کیونکہ میں نے ان کو باوجود اس کے کہ یہ بیمار تھے بھیجا تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ انہیں نہ صرف خیریت سے لایا بلکہ کئی سال ان کو زندگی بھی عطا فرمائی۔ اور نہ صرف زندگی بلکہ بڑی فعال زندگی انہوں نے گزاری۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ہمارے مربی سلسلہ ھبۃ الرحمن صاحب لکھتے ہیں کہ: یومِ مسیح موعود کے موقع پر 20؍ مارچ کوجامعہ احمدیہ میں ان کی تقریر تھی تو پرنسپل صاحب جب ملنے آئے۔ پرنسپل صاحب نے بھی یہ لکھا تھا کہ چوہدری صاحب نے اشاروں سے کہا کہ میں نے تقریر تو تیار کی۔ کل میں صبح سات بجے سے بارہ بجے تک بیٹھا تقریر تیار کرتا رہا لیکن اب میں ہسپتال میں ہوں تقریر کر نہیں سکوں گا۔ تو بہر حال ہر چیز کی ان کو بڑی فکر رہتی تھی اور پہلے کام کیا کرتے تھے۔ میں نے بھی ان کے ساتھ دفتر وکالتِ مال میں تقریباً آٹھ سال کام کیا ہے۔ بہت کچھ ان سے سیکھا۔ ان کی ڈرافٹنگ وغیرہ بھی بڑی اچھی تھی۔ بجٹ کے بنانے میں ان کو بڑا ملکہ تھا اور بعض دفعہ رات گیارہ بارہ بجے تک دفتر میں کام ہوتا تھا لیکن یہ نہیں تھا کہ دوسروں پر چھوڑ دیا کہ کرواور خود گھر چلے گئے۔ ساری ساری رات ساتھ بیٹھ کے کام کرواتے تھے۔ ان میں بڑا اخلاص اور وفا تھا۔ پہلے میں ان کے ماتحت تھا۔ جب ناظرِ اعلیٰ بنا ہوں تب بھی میں نے دیکھا اطاعت کا جذبہ بے انتہا تھا اور خلافت کے بعد توپھر اخلاص و وفاان میں بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی، نسلوں کو بھی خلافت اور جماعت سے ہمیشہ وابستہ رکھے۔ نمازوں کے بعد میں ان کا جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا انشاء اللہ۔
یوم مسیح موعودؑ کے حوالہ سے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں آپ کی صداقت کا ثبوت، اللہ تعالیٰ کی تائیدات، امام الزمان کی ضرورت، مسلمانوں کو آپ کو قبول کرنے اور مقام پہچاننے کا بیان۔
محترم چوہدری مبارک مصلح الدین احمد صاحب وکیل التعلیم تحریک جدید انجمن احمدیہ پاکستان کی وفات، مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 22مارچ 2013ء بمطابق 22 امان 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔