عبادتوں اور قربانیوں کے اعلیٰ طریق
خطبہ جمعہ 29؍ مارچ 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
وَاِذْ یَرْفَعُ اِبْرٰھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَاِسْمٰعِیْلَ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم. رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا۔ اِنَّک اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ۔ (سورۃ البقرۃ 128-129)
ان آیات کا ترجمہ یہ ہے: اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو استوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی، یہ دعا کرتے ہوئے کہ اے ہمارے رب! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا تُو ہی بہت سننے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔
اور اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنے دو فرمانبردار بندے بنادے اور ہماری ذریت میں سے بھی اپنی ایک فرمانبردار امت پیدا کردے۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا اور ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ یقینا تُو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
الحمدللہ! آج ہمیں سپین میں دوسری احمدیہ مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے۔ یعنی جماعت احمدیہ مسلمہ کو یہ دوسری مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے۔ تقریباً سات سال پہلے میں نے مسجد بشارت پیدرو آباد میں مزید مساجد بنانے کی اہمیت پر زور دیا تھا اور اُس وقت یہ فیصلہ ہوا تھا کہ ویلنسیا (Valencia) میں مسجد کی تعمیر کی جائے۔ اور احمدی تو شاید اس علاقے میں 130کے قریب ہیں اور دوسری بعض جگہوں پر اس سے زیادہ ہوں گے۔ بہرحال مسجد بشارت کے بعد یہ مسجد تعمیر کرنے کے لئے سوچا گیا۔ احمدیوں کی تعداد سے زیادہ یہاں اس علاقے میں مسجد بنانا میرے پیشِ نظر اس لئے تھا کہ اس علاقے کی اہمیت تاریخی لحاظ سے تھی۔ گو کہ تقریباً تیس سال سے زائد عرصہ کے بعد جماعت احمدیہ کو یہ مسجد بنانے کی توفیق ملی ہے اور اس عرصہ میں مسلمانوں کی اس ملک میں آمد بھی بہت زیادہ شروع ہو گئی اور انہوں نے مسجدیں بھی بنائیں، لیکن بہرحال مسجد بشارت کی وجہ سے ایک راستہ کھلا۔ سات سو سال بعد پہلی مسجد بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ ہی کو عطا فرمائی تھی۔ یہاں کی اہمیت بیان کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دوں کہ مسلمانوں کی تعداد اس وقت یہاں ایک ملین کے قریب ہے اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ 2030ء تک یعنی اگلے بیس سال میں اس میں اسّی یا پچاسی فیصد اضافہ ہو کر یہ تعداد دو ملین کے قریب ہوجائے گی۔ آج سے تیس سال پہلے چند ہزار تھے، جو اب ایک ملین ہیں اور اب دو ملین ہوجائیں گے۔ اور ان میں زیادہ تر تعداد باہر سے آنے والوں کی ہے جو نارتھ افریقہ سے آئے ہیں یعنی مراکو، الجزائر وغیرہ سے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو پرانے مسلمان قبائل کے تھے اور جنہوں نے اپنے اسلام کو کافی لمبے عرصے تک بچا کے رکھا۔ گو آج سے تقریباً سات سو سال پہلے یہ زبردستی مسلمانوں سے عیسائی بنائے گئے تھے یا اُن کے بچے عیسائی بنائے گئے تھے۔ اُن قبیلوں اور خاندانوں میں سے بھی ہزاروں کی تعداد میں دوبارہ مسلمان ہوئے ہیں۔ پس سپین میں گو اسلام دوبارہ نظر آتا ہے اور اللہ کے فضل سے کافی تعداد میں مسلمان نظر آتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا، اس کی ابتدا جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہوئی ہے۔ لیکن حقیقی اسلام اُس وقت نظر آئے گا جب مسیح محمدی کے غلام اپنی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس کی طرف توجہ کریں گے اور اسلام کے خوبصورت پیغام کو یہاں کے ہر فرد تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ شاید میری بات سن کر بعض لوگ آپ میں سے جو مایوس سوچیں رکھنے والے ہیں، کہیں گے کہ یہاں احمدی بہت تھوڑی تعداد میں ہیں، ہم کس طرح ہر ایک کو اور ہر جگہ یہ پیغام پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک عزم اور ہمت سے کوشش ہو تو جس تعداد میں ہیں وہی ایک اچھے حصہ تک پیغامِ احمدیت اور حقیقی اسلام پہنچا سکتی ہے۔ باوجود بار بار کہنے کے اس کے لئے پلاننگ نہیں ہوئی اور پھر کوشش نہیں ہوئی، اور اسی وجہ سے جو مقصد ہم حاصل کر سکتے تھے وہ حاصل نہیں کر سکے۔ جو پلاننگ مرکز نے دی، یا میں نے دی یا مجھ سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے دی، اُس پر عمل نہیں ہوا۔ مسجد بشارت ایسی جگہ واقع ہے جہاں سے یہ قرطبہ اور اگلے علاقوں میں جانے والوں کو نمایاں نظر آتی ہے، عین موٹر وے پر واقع ہے اور اگر تعارف کا کوئی ذریعہ نکالا جاتا تو بہت سے لوگوں تک یہ تعارف پہنچتا۔ اچھا کام کرنے والی بعض جماعتوں نے کم تعداد میں ہونے کے باوجود غیر معمولی طور پر جماعت احمدیہ کے تعارف کا کام کیا ہے اور لیف لیٹنگ کے ذریعہ سے اسلام اور جماعت کا تعارف بہت وسیع تعداد میں لوگوں تک پہنچایا ہے۔ پیدروآباد کی مسجد بیشک غیر لوگ دیکھنے آتے ہیں۔ بعض رپورٹوں میں ذکر ہوتا ہے کہ بعض وفود بھی آتے ہیں، لیکن اگر ایک جذبہ اور شوق سے کام ہوتا تو مسجد کی وجہ سے کہیں زیادہ اُس علاقے میں حقیقی اسلام کا تعارف ہو سکتا تھا۔ اگر دوسرے مسلمان فرقے جن کا باقاعدہ نظام بھی نہیں ہے سپین کے پرانے مسلمان خاندانوں کو جو عیسائیت میں زبردستی دھکیل دئیے گئے تھے، اُن کی نسلوں میں سے تقریباً بیس ہزار کی تعداد میں دوبارہ اسلام میں لا سکتے ہیں تو ہماری تبلیغ سے جو حقیقی اسلام ہے، کیوں بڑی تعداد میں اسلام کی آغوش میں یہ نہیں آ سکتے۔ ہم نے اسلام کے دوبارہ سپین میں اجراء کا راستہ تو کھول دیا لیکن اُس راستے کو ایک عزم اور ایک جذبے کے ساتھ استعمال نہیں کیا۔ اور دوسروں نے اُس سے فائدہ اُٹھالیا۔
پس اب بھی وقت ہے۔ سپین میں رہنے والے احمدی اور عہدیداران، ہر سطح کے عہدیداران، ہر تنظیم کے عہدیداران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور خود اپنے ٹارگٹ مقرر کر کے پھر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ جو خوبصورت اور حقیقی اسلام ہم پیش کرتے ہیں وہ تو آج دنیا کی توجہ کا باعث ہے۔ ہم نے یہ پرانے قبیلے جن کو زبردستی اسلام سے عیسائی بنایا گیا تھا اُنہیں بتانا ہے کہ اپنے باپ دادا پر ظلم کا بدلہ لینے کا وقت اب ہے۔ لیکن یہ بدلہ زبردستی اور ظلم سے نہیں لینا۔ اسلام کی تعلیم تو لَا اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کی تعلیم ہے۔ اس میں کوئی جبر نہیں ہے، کوئی زبردستی نہیں ہے۔ یہ جبر جو تم لوگوں سے ہوا، یہ تو جن لوگوں نے کیا شاید اُن کی تعلیم ہو، اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ نہ ہی اسلام یہ کہتا ہے کہ کسی قوم سے ظلم کے بدلے لو۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی تمہیں انصاف کرنے سے نہ روکے۔ بلکہ فرمایا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ وَاتَّقُوْا اللّٰہ (المائدہ: 9)۔ مطلب تم انصاف کرو، وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ تقویٰ ہی تمہیں خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ تقویٰ اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ اور یہاں تو دشمنی کا سوال نہیں۔ یہاں تو ہم قوم ہیں اس لئے ہم قوموں تک یہ پیغام محبت اور پیار کا پہنچانا ہے۔ پس ہم نے ان کو بتانا ہے کہ پہلے خود اسلام کی خوبصورت تعلیم اختیار کرو اور پھر بدلے اس طرح لو کہ اس خوبصورت تعلیم سے یہاں کے ہر شخص کا دل جیتو۔ اور جن دلوں سے زبردستی یا لالچ یا خوف سے لَآ اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی محبت نکال دی گئی تھی اور زبردستی خدا تعالیٰ کا شریک بننے کی تعلیم دی گئی تھی، اُن کے دلوں میں خدائے واحد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا کرو۔ اُس خدا کی محبت جس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور اُس رسول کی محبت جو رحمت للعالمین تھا۔
پس یہ ذمہ داری ہے کہ جہاں ہم عام تبلیغ کریں اور اسلام کا پیغام پہنچائیں، وہاں ایسے قبائل کا بھی کھوج لگائیں اور پھر اُن میں اُن کے اصل دین کی محبت نئے سرے سے پیدا کر کے اُن کو کامیاب مبلغ بنا دیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ ویلنسیا کی تاریخی اہمیت کی وجہ سے میں نے یہاں مسجد بنانے کو ترجیح دی تھی۔ اس لئے کہ جب سپین میں ظالم بادشاہ اور ملکہ نے زبردستی مسلمانوں کو عیسائی بنانا شروع کیا تھا، ویلنسیا اُس زمانے میں بھی وہ علاقہ تھا جہاں باوجود مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے عربی بولی جاتی تھی، اسلامی رسم و رواج کو قائم رکھا ہوا تھا۔ عملاً مسلمان اپنی عبادات ہی بجا لاتے تھے اور جو بھی اسلامی تعلیم ہے اُس کو قائم رکھے ہوئے تھے۔ جبکہ دوسرے علاقوں میں مسلمان گروپ کی صورت میں تو رہتے تھے لیکن کسی بھی قسم کا ایسا اظہار نہیں کرتے تھے جس سے اسلام کھل کر اُن سے ظاہر ہوتا ہو۔ اسی وجہ سے جب سترھویں صدی کے شروع میں اُس وقت کے بادشاہ نے مسلمانوں کو یا اُن لوگوں کو جن کے خاندان پہلے مسلمان تھے، سپین سے نکالنے کی مہم پھر سے شروع کی تو سب سے پہلے منصوبے کا آغاز ویلنسیا سے کیا۔ کیونکہ یہاں جیسا کہ میں نے کہا مسلمان اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اُس پر عمل کر رہے تھے۔ یا جس حد تک عمل کر سکتے تھے، کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ گو کہ اُس وقت یہاں مسلمانوں کی حالت معاشی لحاظ سے کافی کمزور تھی اور اُن کو آہستہ آہستہ بڑے شہروں سے نکال کر شہروں کے ارد گرد کے علاقوں میں بسا دیا گیا تھا۔ معمولی جائیدادیں اُن کے پاس تھیں، غربت تھی، لیکن پھر بھی ان کا اسلام سے تعلق تھا۔ بہرحال مختلف قسم کی فوجیں یہاں آتی رہیں، اٹلی کی فوجیں بھی آئیں، انہوں نے ظلموں کا نشانہ انہیں بنایا لیکن فیصلہ کے مطابق ان ظلموں کے بعد بالغوں کو ملک بدر کر دیا گیا اور اُن کے بچوں کو عیسائیوں کے سپرد کر دیا گیا جنہوں نے ان بچوں کو اپنے گھروں میں پروان چڑھایا لیکن اپنے بچوں کی طرح نہیں بلکہ نوکروں اور غلاموں کی طرح۔ پس وہ بچے جو اسلام سے چھینے گئے تھے، وہ بچے جو مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے اور مسلمان تھے، اُنہیں اُن کی اور اُن کے ماں باپ کی مرضی کے بغیر خدائے واحد کی عبادت سے روکا گیا اور اس کے بجائے تثلیث کو ماننے پر مجبور کیا گیا۔ آج ہمارا کام ہے کہ اُن بچوں کی نسلوں کو دوبارہ خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بنائیں اور صرف اُنہیں نہیں بلکہ یہاں رہنے والے ہر شخص کو جس سے ہمیں انسانیت سے محبت کی وجہ سے محبت ہے۔ ہر شہری جو یہاں رہتا ہے، اُس سے ہمیں محبت ہے اس لئے کہ ہم انسانیت سے محبت کرنے والے ہیں اور انسانیت کی محبت کی وجہ سے ہم اُن کے لئے وہی پسند کرتے ہیں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو اس وجہ سے خدائے واحد کی عبادت کرنے والا بنا کر اُن کی دنیا اور عاقبت سنوارنے والے بنائیں اور اس علاقے میں خاص طور پر اس کی کوشش کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا یہاں صوبے میں سب سے زیادہ لمبے عرصہ تک اسلام کو محفوظ اور قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ یہاں سے مسلمانوں کے اخراج کی سات صدیاں نہیں منائی جاتیں بلکہ یہی مانا جاتا ہے کہ سب سے آخر میں چار صدیاں پہلے یہاں سے مسلمانوں کو نکالاگیا تھا۔ یا مسلمانوں کی نسل ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ یقینا اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت قائم رہنے کے بعد اُس کا زوال مسلمانوں کی اپنی لالچوں اور سازشوں کی وجہ سے ہوا۔ جو بھی نام کی خلافت تھی، اُس سے بھی وفا نہیں کی گئی۔ نہ خلیفہ یا بادشاہ نے اپنی ذمہ داری کا حق ادا کیا، نہ ہی اُس کے خواص اور امراء جو تھے انہوں نے حق ادا کیا اور پھر ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی تھی۔ اور یہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر مختلف بادشاہتیں قائم کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر وہی نتیجہ نکلا جو ایسے خود غرضانہ کاموں کا نکلتا ہے۔ لیکن اب مسیح محمدی جو خاتم الخلفاء ہیں، جو خلافتِ راشدہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی علمبردار ہیں، جن کے بعد پھر خلافت کا نظام جاری ہے، ان کے ماننے والوں کا کام ہے کہ اس کھوئی ہوئی ساکھ کو دوبارہ اس علاقے میں، اس ملک میں قائم کریں، بلکہ دنیا کو لَآ اِلٰہَ اِلّا اللّٰہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کی حقیقت سے روشناس کروایا جائے، اُس کی حقیقت دنیا کو بتائی جائے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس علاقے میں اپنی مسجد بنانے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ جگہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی باموقع ملی ہے۔ یہ مسجد بھی موٹر وے سے نظر آتی ہے۔ بالکل موٹر وے کے اوپر ہے لیکن شہر کی نئی آبادی میں بھی ہے۔ یہ اچھے شرفاء کا علاقہ ہے۔ ہمسائے بھی اچھے اور شریف ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمسائیگی بھی اچھی عطا فرمائی ہے یہ بھی اُس کا بڑا احسان ہے۔ پس اس موقع سے ہمیں فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ مسجد بنا کر صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ سپین کے ایک اور شہر میں ہماری خوبصورت مسجد بن گئی۔ پس اپنی حالتوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی، اپنی عبادتوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔ اپنی ذمہ داریوں پر بھی نظر رکھنی ہو گی۔
یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر کے بعد اُس کا حق ادا کرنے کا ایک خوبصورت طریق ہمیں بتا دیا۔ اور ساتھ ہی حق ادا کرنے کیلئے دعاؤں کا طریق اور اُس طرف توجہ بھی دلا دی۔ پس اس پر غور کرنے کی ہمیں ضرورت ہے تا کہ نسلاً بعدنسلٍ اللہ تعالیٰ کے گھر کا حق ادا کرنے والے ہم میں سے پیدا ہوتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ خانہ کعبہ کی دیواریں استوار کر رہے تھے تو یہ دعا مانگ رہے تھے کہ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا۔ اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم۔ پس یہ شان ایک حقیقی اللہ والے کی ہے اور سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہی اللہ تعالیٰ کے قریب اور اللہ والے ہوتے ہیں کہ سالوں سے قربانیاں کر رہے ہیں، باپ بھی قربانی کر رہا ہے، بیٹا بھی قربانی کر رہا ہے، بیوی بھی قربانی کر رہی ہے لیکن یہ نہیں کہہ رہے کہ ہمیں اتنا عرصہ ہو گیا ہے قربانیاں کرتے ہوئے، اب ہم تیرے اس گھر کو بنا رہے ہیں، تیری خاطر بنا رہے ہیں، تیرے کہنے پر بنا رہے ہیں، اس لئے ہمارا حق بنتا ہے کہ ہماری ہر قربانی کو آج قبول کر اور قبول کر کے ہمارے لئے آسانیاں اور آسائشیں پیدا فرما۔ جماعت احمدیہ میں تو اس کا رواج نہیں ہے لیکن دوسرے مسلمانوں میں تو یہ رواج ہے کہ ذرا سی قربانی کی اور قربانی کے بعد پھر یہ کوشش ہوتی ہے کہ پھر اعلان کیا جائے۔ ایک روپیہ، دو روپے، چار روپے دے کر پھر مسجدوں میں اعلان ہوتے ہیں اور اگر بڑی قربانی ہو تو بہت زیادہ فخر کیا جاتا ہے۔ لیکن جو نمونہ ہمارے سامنے اللہ تعالیٰ نے ان دو نبیوں کے ذریعہ سے پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ بیٹا خدا تعالیٰ کی خاطر ذبح ہونے کو تیار ہے، باپ بیٹے کو اللہ تعالیٰ کی خاطر ذبح کرنے کو تیار ہے۔ اور یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب بیٹا چھوٹی عمر کا ہے اور بڑھاپے کی اولاد ہے۔ پھر قربانی کا معیار آگے بڑھتا ہے تو ایک لمبا عرصہ بیوی اور بیٹے کو غیر آباد جگہ میں قربانیاں کرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے جہاں اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھوک اور پیاس سے دونوں ماں بیٹا شاید زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ اور پھر وہ وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ بیٹے اور بیوی کی قربانی قبول فرماتا ہے۔ اگر اُن کے لئے پہلے سامان نہیں تھے تو پھر اُن کے لئے کھانے پینے کے سامان مہیا فرماتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے خانہ کعبہ کی تعمیر بھی شروع ہو جاتی ہے اور تعمیر کرنے والے بھی صرف دو اشخاص ہیں جو یہ عہد کر رہے ہیں کہ اس کی تعمیر کے ساتھ اب واپسی کے ہمارے تمام راستے بند ہیں۔ اب ہمارا مقصد خدا تعالیٰ کے گھر کو آباد کرنا ہے۔ یہاں ایسی آبادی بنانی ہے جو مومنین کی آبادی ہو، جو نیک لوگوں کی آبادی ہو، جو خدا تعالیٰ کو یاد کرنے والوں کی آبادی ہو، جو اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والوں کی آبادی ہو۔ ایسی آبادی بنانی ہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کی انتہا کو پہنچنے والی ہو۔
پس یہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے اللہ تعالیٰ کا گھر بنا رہے تھے اور عاجزی اور اللہ تعالیٰ کی محبت کا یہ حال ہے کہ یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری اس قربانی کو، اس کوشش کو قبول فرما لے۔ اپنے خاص رحم سے ہم پر رحم کرتے ہوئے اُسے قبول کر لے کہ یہ قبولیت ہمیں تیرے اور قریب کرنے والی بن جائے۔ پس یہ سبق قربانی کر کے پھر عاجزی سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک کر اُس قربانی کو قبول کرنے کی درخواست اور دعا کا ہے۔ اور یہی اصول ہے جو ہمیں بھی ہر وقت اپنے پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ یہ ابراہیمی اور اسماعیلی سوچ اور دعا ہے جو آج ہمیں اس طرف توجہ دلا رہی ہے۔ ہم جو اس زمانے کے ابراہیم کی طرف منسوب ہونے والے ہیں، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت اور عشق و محبت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے وہ اعزاز بخشا ہے کہ اس زمانے کا ابراہیم بنا دیا، جس نے دین کو اُس کی اصل دیواروں پر دوبارہ استوار کر کے دکھایا اور ہم گواہ ہیں اور ہم روز نظارے دیکھتے ہیں کہ ایسا استوار کیا کہ اگر اُس پر کوئی صحیح طرح عمل کرنے والا ہو تو اُس کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ دینِ اسلام کی خوبصورتی کو اس طرح چمکا کر پُر عظمت اور پُر شوکت بنا کر دکھایا کہ غیر مسلم بھی کہنے لگ گئے کہ اگر یہی اسلام ہے جو تم پیش کرتے ہو تو ہم اسلام کے خلاف اپنے کہے ہوئے الفاظ واپس لیتے ہیں۔ پس آج اس ابراہیم کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد بھی پورے ہو رہے ہیں اور اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی بھی دنیا پر ظاہر ہو رہی ہے۔ اور انہی مقاصد کو پورا کرنے کے لئے دنیا میں ہماری ہر تعمیر ہونے والی مسجد گواہ ہے اور ہونی چاہئے اور آج یہی مسجد جس کا نام بیت الرحمن رکھا گیا ہے، اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بننے کا اظہار کر رہی ہے۔
پس یہ مسجد جہاں ہمیں عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے، وہاں ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اگر ہم اپنے عہدوں اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں گے تو پھر ہی ہم اپنے مقاصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ اے مسیح محمدی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق! ہم نے جو آپ سے عہدِ بیعت باندھاہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے اور توحید کو دنیا میں پھیلائیں گے تو اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے جو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی، تبلیغ کے جو راستے کھلیں گے، اُن کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تو حید کا قیام اور ملک کے باشندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہمارا اوّلین فرض ہو گا۔ انشاء اللہ۔
پس اے خدا! اے سمیع اور علیم خدا! ہماری دعائیں سن لے۔ ہمیں اپنے فرائض نبھانے کی توفیق عطا فرما۔ یہ مسجد جو تیرے گھر کی تتّبع میں بنائی گئی ہے، اس کو اُن مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا جو تیرے گھر بنانے کے مقاصد ہیں۔ تُو علیم ہے، تُو ہماری کمزوریوں اور نا اہلیوں کو بھی جانتا ہے۔ پس ہماری دعائیں سنتے ہوئے ہماری نا اہلیوں سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ہمیں مسجد کی تعمیر کے مقاصد کو پورا کرنے والا بنا۔ مسجد کی خوبصورتی، مسجد کی وسعت، یہ ہمارے اُس وقت کام آ سکتی ہیں جب ہم اُس کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ اور حق ادا کرنے کے لئے جہاں مسجد کو آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہم ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ پیار، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینے والے ہم ہوں تا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم کے عملی نمونوں کا ہم سے اظہار ہو رہا ہو۔ تا کہ لوگوں کی توجہ ہماری طرف ہو، تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کودنیا سمجھنے کی کوشش کرے۔ اے اللہ! تُو سننے والا ہے۔ ہماری یہ دعا بھی سن لے کہ اس مسجد کی ظاہری خوبصورتی سے زیادہ اس مسجد کی آبادی کی روح کو خوبصورت کر کے ہمیں دکھا دے۔ اصل میں تو اس مسجد کی تعمیر کی روح ہے جو اگر حقیقت میں ہم میں پیدا ہو جائے تو اُس مقصد کو ہم حاصل کرنے والے بن جائیں گے جس کے لئے مسجد تعمیر کی گئی تھی۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا جب یہاں صدیوں مسلمانوں کی حکومت رہی تو بڑی بڑی خوبصورت مسجدیں مسلمانوں نے بنائیں۔ مثلاً قرطبہ کی مسجد ہے، دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے اور دوسری جگہوں پر مسجدیں ہیں۔ جہاں جہاں مسلمانوں کی آبادیاں تھیں، بڑی بڑی مسجدیں تھیں، اشبیلیا میں، غرناطہ وغیرہ میں۔ لیکن جب اسلام کی حقیقی تعلیم کی روح اُن مساجد میں آنے والوں میں مفقود ہو گئی تو وہی جگہیں جہاں خدائے واحد کا نام لیا جاتا تھا، یا تو مسمار کر دی گئیں یا شرک کی آماجگاہ بن گئیں۔ قرطبہ کی مسجد دیکھیں، حیرت ہوتی ہے کہ ایسی خوبصورت اور مضبوط عمارت ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اُس کی خوبصورتی اور مضبوطی میں ذرا بھی فرق نہیں آیا۔ لیکن بدقسمتی سے آج وہ گرجے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل چیز عمارت نہیں، اصل چیز وہ روح ہے جو اس عمارت میں آنے والوں اور رہنے والوں کی ہوتی ہے۔ پس جب مسلمانوں میں وہ روح ختم ہو گئی تو مسجدیں غیروں کے قبضے میں چلی گئیں۔ پس اگر اس مسجد کی عظمت کو ہم نے قائم رکھنا ہے اور یقینا قائم رکھنا ہے انشاء اللہ، تو پھر اس کی روح کو قائم رکھنے کی کوشش کریں اور یہ کوشش ہمیں ایک محنت سے کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی ہو گی کہ اے اللہ! اس مسجد کو روح قائم کرنے والے ہمیشہ عطا فرماتا رہ تا کہ قیامت تک یہ توحید کا مرکز رہے۔ توحید کے نعرے یہاں سے بلند ہوں۔ خدا کی نظر میں ہماری قربانی قبول ہو تو پھر ہی یہ مقصد حقیقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔
پھر دوسری آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگ انبیاء نے اپنی دعاؤں کو خدا کے گھر کی تعمیر کے ساتھ صرف اپنے تک محدودنہ رکھا، بلکہ اپنی اولاد اور نسلوں تک وسیع کیا۔ پس یہ ہے دعا کا طریق اور یہ ہے ترقی کرنے والی اور نسل در نسل کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے چلے جانے کی سوچ اور فکر، اور یہ فکر اور سوچ ہو گی تو انشاء اللہ تعالیٰ ہماری کامیابیاں ہی کامیابیاں ہیں۔ اور پھر یہ دعا ہو کہ ہماری ذریت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھ تب اس گھر کی آبادی کا مقصد حاصل ہو گا۔
ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری ذریّت کو بھی نیکیوں پر قائم رکھے تا کہ اس گھر کی آبادی کا مقصد ہمیشہ حاصل ہوتا چلا جائے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ قربانی کی قبولیت تب ہو گی جب حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے والے لوگ ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں گے۔ عبادت کرنے والے ہماری نسلوں میں سے پیدا ہوتے رہیں، اور اس طرح پر عبادت کرنے والے پیدا ہوں جس طرح اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے اور جیسا کہ اے اللہ! تو نے عبادت کا حکم دیا ہے اور طریق سکھایا ہے۔ پس ہم یہ دعا کریں جو دعا انبیاء نے کی تھی کہ ہمیں بھی وہ طریق سکھا۔ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا۔ اور ہمیں اپنی عبادتوں اور قربانیوں کے طریق سکھا۔ یہ دعا ہمیں بھی کرنے کی ضرورت ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ عبادتوں اور قربانیوں کے طریق اللہ تعالیٰ کی راہنمائی سے سمجھ آتے ہیں۔ اس کی روح، اس کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کا اِدراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہوتا ہے۔ بیشک نماز بھی عبادت کا ایک طریق ہے، مسجد میں لوگ آتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں لیکن یہی نمازی ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کی نمازیں اُن کے منہ پر ماری جاتی ہیں اور اُن کے لئے ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے فضل کو مانگتے ہوئے ایسی نمازیں ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جو اُس کی نظر میں مقبول ہوں اور پھر صرف نمازیں ہی نہیں ہیں، ہر کام جو خدا تعالیٰ کے حصول کے لئے کیا جائے وہ عبادت بن جاتا ہے، چاہے وہ حقوق العباد ہوں۔ پس اس روح کو سمجھنا ہمارے لئے ضروری ہے۔
پس یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ عبادت کی روح کو سمجھ کر ہی ہم توحید کے پیغام کو پھیلا سکتے ہیں اور اپنی نسلوں میں اس پیغام کو راسخ کر سکتے ہیں اور اُس کے لئے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے، نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم احمدی اپنے اجلاسوں میں یہ عہد کرتے ہیں کہ ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے تو اس عہد کی روح کو اپنی نسلوں میں پھونکنے کی ضرورت ہے تا کہ دین کی اشاعت کے لئے قربانیاں کرنے والے گروہ پیدا ہوتے رہیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق قربانیوں کے طریق بھی بدلتے رہیں گے اور اس دعا وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا کا یہ بھی ایک مطلب ہے۔ سپین میں اگرچہ پہلے مسلمان جو داخل ہوئے وہ مدد کے لئے آئے، جہاد بھی کیا اور داد رسی کے لئے آئے تھے اور پھر وہ آگے پھیلتے چلے گئے۔ انہوں نے بیشک تلوار کا جہاد کیا لیکن آج کی قربانیاں تبلیغ کے جہاد کے ذریعہ سے ہیں۔ اشاعتِ لٹریچر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں۔ مساجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں کر کے ہیں۔ قربانیوں کی نوعیت حالات کے مطابق بدل جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو کہ ہمیں قربانیوں کے طریق سکھا، یعنی بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنی رضا کے حصول کے لئے قربانیوں اور عبادتوں کے طریق ہمیں سکھا۔ اس دعا کو قرآنِ کریم میں محفوظ کر کے ہمیں یہ اصولی ہدایت اللہ تعالیٰ نے فرما دی کہ قربانیاں حالات کے مطابق دینی ہیں۔ نیکی اس طرح اور اس قسم کی کرنی ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو سمیٹنے والی ہو۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو سب سے بڑی نیکی یہ بیان فرمائی کہ تہجد پڑھا کرو۔ (ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب التہجد باب فضل قیام اللیل حدیث نمبر1122)
کسی کو پھر فرمایا کہ تمہارے لئے سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ جہاد کیا کرو۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب من قال ان الایمان ھو العمل حدیث نمبر26)
پس جس میں جس نیکی کی کمی ہو، وہی اُس کے لئے ضروری ہے اور وہی اس کے لئے بڑی ہے۔ وہی اُس کے لئے مناسبِ حال عبادت کا طریق ہے اور وہی اُس کے لئے مناسبِ حال قربانی ہے۔
پس اس دعا میں اپنے لئے اور اپنی نسلوں کے لئے ہر قسم کی کمزوریوں کو دور کرنے اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کوشش پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انسان اپنی کوشش سے نہ ہی عبادتوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے، نہ قربانیوں کے معیار حاصل کر سکتا ہے۔ اس لئے دعا عرض ہے کہ تُبْ عَلَیْنَا۔ ہم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھک جا۔ ہماری نیکیوں کو قبول کر لے اور پھر نیکی سے نیکی پھوٹتی رہے۔ ایک نیکی سے اگلی نیکی کی جاگ چلتی چلی جائے۔ قربانی سے قربانی پھوٹتی رہے۔ تیری عبادت، تیری رضا چاہتے ہوئے حمد کرنے والے ہوں، نہ کہ دکھاوے کے لئے۔ اور یہ عبادت پھر ہماری سوچوں کا محور بن جائے۔
پس ہم خوش قسمت ہوں گے اگر ہم اپنی عبادتوں اور قربانیوں کو اس نہج پر کرنے والے بن جائیں۔ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں اور زیادتیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنے کی دعائیں کرنے والے ہوں۔ اپنی نسلوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ اور اُس کی عبادت کی محبت پیدا کرنے والے ہوں۔ اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے اپنے دلوں میں یہ محبت ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینے والے ہوں۔ کبرو نخوت کو چھوڑنے والے ہوں۔ نمازوں میں سستیوں کو دور کرنے والے ہوں۔ ہر وہ نماز جو ہمارے لئے ادا کرنی مشکل نظر آتی ہے، اُس کے لئے خاص کوشش کر کے ادا کرنے والے ہوں۔ اگر ہمارے اندر باجماعت نمازیں ادا کرنے میں سستی ہے تو نماز باجماعت ادا کرنے کی طرف توجہ دینے والے بن جائیں۔ یہ ہمارے لئے قربانیاں ہیں۔ جو ماں باپ کا حق ادا کرنے والے نہیں، وہ اُن کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ جو بہنوں بھائیوں اور عزیزوں کے حقوق ادا کرنے والے نہیں، وہ حقوق ادا کرنے والے بن جائیں۔ ہمسائے کو خدا تعالیٰ نے بڑا مقام دیا ہے، ہمسایوں کے حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ یہ کوشش ہر احمدی کی ہونی چاہئے کہ ہمسایوں سے ہر احمدی کا سلوک اُس کو احمدیت اور حقیقی اسلام کا گرویدہ بنانے والا بن جائے۔ غرضیکہ ہم ہر نیکی کو ادا کرنے و الے اور اُس کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نیکیاں کرنے والے ہوں گے تو تب ہی ہم حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کرنے والے بن سکتے ہیں کہ اے اللہ ہماری توبہ قبول کر اور ہم پر رحم کر۔ جب ہم اللہ تعالیٰ کے رحم کے طلبگار بنتے ہیں تو دوسروں پر بھی ہمیں پھر رحم کی نظر ڈالنی ہو گی۔ یہ نہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ سے رحم مانگتے رہیں اور اپنے دائرے میں رحم کرنے والے نہ ہوں۔ پس مسجد کے ساتھ اگر ایک مومن حقیقی رنگ میں منسلک ہوتا ہے تو نیکیوں کے نئے سے نئے دروازے اُس پر کھلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی بخشش کے نئے سے نئے اظہار اُس سے ہوتے ہیں۔ پس آج ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ عطا کردہ مسجد ہمیں اس طرف توجہ دلانے والی ہونی چاہئے اور یہ اظہار ہم سے ہوں۔ اس مسجد کو یہاں کے رہنے والوں نے خود بھی آباد رکھنا ہے اور اپنے بچوں کے ذریعہ سے بھی آباد کروانا ہے، اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے آباد کروانا ہے۔ انشاء اللہ۔ صرف مسجد میں آنا مقصدنہیں ہے بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضل جو مساجد کے ساتھ وابستہ ہیں، ہم اُنہیں حاصل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہماری توبہ قبول کرنے والا اور ہماری غلطیوں کو معاف کرنے والا ہو۔
ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوھریرؓ ۃسے یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے اللہ تعالیٰ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور درجات کو بلند فرماتا ہے۔ صحابہ نے جب عرض کیا کہ جی، فرمائیں۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ جی نہ چاہتے ہوئے بھی کامل وضو کرنا، اچھی طرح وضو کرنا اور مسجد کی طرف زیادہ چل کر جانا۔ نیز ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہ رباط ہے، رباط ہے، رباط ہے۔ یعنی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، سرحدوں پر گھوڑے باندھنا ہے۔ یہ جہاد ہے تمہارے لئے۔ (سنن النسائی، کتاب الطھارۃ، باب الامر باسباغ الوضوء)
پس ہم میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آج ہمیں اپنے نفسوں کے خلاف جہاد کی بھی ضرورت ہے اور اس مقصد کو ہم نے حاصل کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا جو مقصد ہے، یہ بھی ایک جہاد ہے۔ اس کی طرف بھی ہم نے توجہ دینی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ پس اپنی نمازوں کی حفاظت کریں گے تو اُس کے فضل کو حاصل کرنے والے ہم بنیں گے۔ اور اس جہادمیں حصہ لینے والے ہوں گے جو نفس کا بھی جہاد ہے اور خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کا بھی جہاد ہے۔ آج کل کے معاشرے میں انسان کو سب سے زیادہ ضرورت اس جہاد کی ہے۔ یہی جہاد ہے جو ہمیں معاشرے کی برائیوں سے بچا کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر کرنے والا بنائے گا۔ خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بنائے گا۔ اور یہی جہاد ہے جو ہمیں اور ہماری نسلوں کو دنیا کی غلاظتوں سے پاک اور صاف رکھنے والا بنائے گا۔
پس اس انعام سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر کیا ہے، اس سے فائدہ اُٹھائیں۔ اس مسجد کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کرتے ہوئے اُس کی عبادت سے سجائیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنیں۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد ان مقاصد کو پورا کرنے والی ہو اور ہم اپنی ذمہ داریاں بھی ادا کرنے والے بنیں، ورنہ مسجد تو یہاں اس صوبے میں ہمارے سے پہلے مصر اور سعودی عرب کے پیسے سے مسلمانوں نے بنا لی ہوئی ہے۔ لیکن اُن میں مسیح محمدی کو نہ ماننے کی وجہ سے جو کمی ہے وہ کمی صرف اور صرف جماعت احمدیہ کی تعمیر کردہ مساجد سے پوری ہو سکتی ہے۔ پس یہ بات ہر احمدی کو مزید توجہ اور فکر دلانے والی ہونی چاہئے کہ آپ کی ذمہ داری بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اس مسجد کا حق ادا کرنے کے لئے آپ کو بہت زیادہ کوشش کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ اس کو نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسجد کے بارے میں چند کوائف بھی پیش کر دیتا ہوں۔ مسجد کا مسقف حصہ 1350 مربع فٹ ہے اور اس میں خرچ تقریباً ایک اعشاریہ دو ملین یورو کے قریب ہوا ہے اور جس میں سپین کی جماعت نے تھوڑا سا ہی دیا ہے، شاید وہ بھی نہیں دیا، بہرحال جو وعدے کئے ہیں اُن کو پورا کرنا چاہئے اور پھر جیسا کہ میں نے کہاہے اگر مالی لحاظ سے کمزوری ہے تو جو وعدے پورے کرنے ہیں وہ تو کریں لیکن اُس کا حق اس طرح بھی ادا کر سکتے ہیں کہ مسجد کے بعد اب تبلیغ کے میدان میں اتریں۔ یہاں ہالوں کی گنجائش ان کے دئیے ہوئے اعداد و شمار کے مطابق جو ہے، اڑھائی سو (250) ہے، لیکن بہرحال کافی بڑے بھی ہیں۔ دیگر سہولیات بھی یہاں ہیں۔ سات دفاتر ہیں، ایک لائبریری ہے، ایک بک شاپ ہے، کچن بڑا اچھا ہے، سٹور ہے، ٹیکنیکل روم ہے۔ پھر اسی طرح اس ساری عمارت کو ایئر کنڈیشنڈ کیا گیا ہے۔ مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ وضو وغیرہ کی سہولتیں بھی ہیں۔ پھر یہاں پہلے جب جگہ خریدی گئی تھی تو بنگلہ یا گھر اُس وقت تھا، اُس میں مزید دو کمروں کا، بلکہ تین کمروں کا اضافہ کیا گیا۔
ایک اخبار نے یہ گزشتہ دنوں لکھا ہے کہ صوبہ کی سب سے بڑی عبادتگاہ ایک حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔ اب یہ سب سے بڑی عبادتگاہ جو ہے اصل میں حقیقت کا روپ تو اُس وقت دھارے گی جب ہم میں سے ہر ایک اس کا حق ادا کرنے والا ہو گا۔ ایک اور بڑی اچھی بات اُس نے لکھی ہے جو حقوق العباد کا اظہار ہے جو یہاں کے ہر احمدی سے ہونا چاہئے۔ کہتا ہے کہ اسلام سے عقیدت کی وجہ سے احمدی لوگ اللہ کے نام پر خون بہانے والے ہر آدمی کے خلاف ہیں۔ بہرحال اس کے علاوہ اس مسجد کے ساتھ دو ملٹی پرپز (multi-purpose) ہال بھی ہیں جو عورتوں اور مردوں کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں۔ اللہ کرے کہ یہ مسجد علاقے اور صوبے کے لوگوں کو اسلام کی حقیقی تصویر پیش کرنے والی ثابت ہو۔ اور ہم میں سے ہر احمدی جو یہاں اس علاقے میں رہنے والا ہے، یہ کوشش کر کے اس کا حق ادا کرنے والا بنے۔
جیسا کہ میں نے بتایا اس مسجد کی تعمیر میں اکثر مدد تو مرکز کی طرف سے آئی تھی۔ جو ٹیکنیکل مدد ہے وہ بھی مرکز کی طرف سے ہی ہوئی اور چوہدری اعجاز صاحب ہمارے پرانے بزرگ انجینئر ہیں، انہوں نے بڑی محنت سے اس میں بہت سارے کام کروائے ہیں، بڑی تفصیل سے ہر چیز کا جائزہ لیا۔ جہاں جہاں زائد خرچ ہوتے تھے وہاں کمیاں کیں، لیکن اُس کمی کی وجہ سے معیار پر کمپرومائز (compromise) نہیں کیا، کسی قسم کی کمی نہیں آنے دی۔ وہ بیمار بھی ہیں، ہفتہ میں ایک دو دفعہ شاید ڈائلسز (Dialysis) بھی ہوتا ہے، گردے کی بیماری ہے لیکن بڑی ہمت سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزا دے۔ اور اُن کو صحت و تندرستی عطا فرمائے تا کہ آئندہ بھی وہ جماعت کے کام کرتے رہیں۔
ویلنسیا (Valencia) سپین میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی نوتعمیر کردہ مسجد ’بیت الرحمن‘ کا مبارک افتتاح۔ مسجد بشارت (پیدروآباد) کے بعد سپین میں یہ جماعت احمدیہ کی دوسری مسجد ہے۔
یہ مسجد جہاں ہمیں عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس کی تعمیر کے مقصد کو پورا کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہے، وہاں ہمیں اس طرف بھی توجہ دلا رہی ہے کہ ہم اپنے عہد کو پورا کریں۔ اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ اس مسجد کی تعمیر کی وجہ سے جو دنیا کی اسلام کی طرف توجہ پیدا ہو گی، تبلیغ کے جو راستے کھلیں گے، اُن کا حق ادا کرتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوئے تو حید کا قیام اور ملک کے باشندوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لانا ہمارا اوّلین فرض ہو گا۔ انشاء اللہ۔
مسجد کی خوبصورتی، مسجد کی وسعت، یہ ہمارے اُس وقت کام آ سکتی ہیں جب ہم اس کا حق ادا کرنے والے بن جائیں۔ اور حق ادا کرنے کے لئے جہاں ہم مسجد کو آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں، وہاں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے بھی ہوں۔ اگر اس مسجد کی عظمت کو ہم نے قائم رکھنا ہے اور یقینا قائم رکھنا ہے انشاء اللہ، تو پھر اس کی روح کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ اور یہ کوشش ہمیں ایک محنت سے کرنی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرنی ہو گی کہ اے اللہ! مسجد کی روح قائم کرنے والے ہمیشہ پیدا فرماتا رہ تا کہ قیامت تک یہ توحید کا مرکز رہے۔
یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے کہ عبادت کی روح کو سمجھ کر ہی ہم توحید کے پیغام کو پھیلا سکتے ہیں اور اپنی نسلوں میں اس پیغام کو راسخ کر سکتے ہیں اور اس کے لئے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے، نسلوں کے لئے بہت تڑپ کر دعا کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مسجد کو یہاں کے رہنے والوں نے خود بھی آباد رکھنا ہے اور اپنے بچوں کے ذریعہ سے بھی آباد کروانا ہے، انشاء اللہ، اور اس کا حق ادا کرتے ہوئے آباد کروانا ہے۔ صرف مسجد میں آنا مقصدنہیں ہے بلکہ اس کا حق ادا کرنا بھی مقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ وہ تمام برکات اور اللہ تعالیٰ کے فضل جو مساجد کے ساتھ وابستہ ہیں، اُنہیں ہم حاصل کرنے والے ہوں۔
فرمودہ مورخہ 29مارچ 2013ء بمطابق 29 امان 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الرحمن، ویلنسیا (سپین)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔