خدا تعالیٰ کے فرمانبردار اور حقیقی مسلمان
خطبہ جمعہ 19؍ اپریل 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْاللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ (آل عمران: 103)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا اس کے تقویٰ کا حق ہے اور ہرگز نہ مرو مگر اس حالت میں کہ تم پورے فرمانبردار ہو۔
اس آیت میں ایک حقیقی مومن کی حالت بیان کی گئی ہے۔ ایک حقیقی مومن کو تقویٰ کی تمام شرائط کو پورا کرنے والا ہونا چاہئے اور تقویٰ کا حق یا اُس کی تمام شرائط کیا ہیں؟ اس کی جو وضاحت ہمیں قرآنِ کریم سے ملتی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے تمام حقوق اور بندوں کے تمام حقوق کا خیال رکھنا، ہر قسم کی نیکی کو بجا لانے کے لئے تیار رہنا، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو زندگی کے آخری لمحات تک بجا لانے کی کوشش کرنا۔ اللہ اور رسول نے جو حکم دئیے ہیں، جو باتیں کی ہیں، جو پیشگوئیاں کی ہیں اُن پر ایمان لانا اور اُن پر یقینِ کامل رکھنا اور اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنا۔ صرف مسلمان کا نام اپنے ساتھ لگانا یا اپنے آپ کو مسلمان کہنا ایمان لانے والوں میں شمار نہیں کرواتا۔ بلکہ یہ عمل ہے اور مسلسل عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل ہے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر چلنا ہے جو تقویٰ کی شرائط کو پورا کرنے والا بنا سکتا ہے اور حقیقی مسلمان بھی وہی کہلاتا ہے جو یہ عمل کرنے والا ہو۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پہلے مذاہب اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے نکل گئے کیونکہ انہوں نے ان باتوں کا خیال نہیں رکھا۔ اگر تم نے بھی تقویٰ کا خیال نہ رکھا، اللہ تعالیٰ کے احکامات پر توجہ نہ دی، اپنے فرائض کی ادائیگی پر غور نہ کیا، تو تم بھی ایسے لوگوں میں شمار ہو گے جو خدا تعالیٰ کی سزا کے مورد بنے۔ اور تمہاری موت بھی ایسی موت ہو گی جو نیک اعمال بجا نہ لانے والوں کی موت ہوتی ہے۔ مسلمان ہونا کامل فرمانبرداری چاہتا ہے۔ پس ایک مسلمان کو ان باتوں کو اپنے مدّنظر رکھنا چاہئے۔ ایک حقیقی مومن کو خدا کا خوف ہمیشہ رہنا چاہئے اور اُن باتوں کی تلاش رہنی چاہئے جو خدا تعالیٰ کا فرمانبردار بنائیں، حقیقی مسلمان بنائیں۔ اس کے لئے خواہ دنیاوی نقصان اٹھانا پڑے، ایک حقیقی مسلمان کو اس کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔ ماں باپ، عزیز، رشتہ دار، معاشرہ، لیڈر، سیاسی لیڈر، مذہبی لیڈر غرض کہ کوئی بھی ہو، ایک حقیقی مسلمان کو اللہ تعالیٰ کے احکام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے دور کرنے والا نہیں ہونا چاہئے۔ ہر شخص نے خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اپنا حساب خود دینا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر، کوئی عزیز، کوئی مولوی کسی کوبچانے والا نہیں ہو گا۔ کوئی پیر، کوئی گدی نشین کسی کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔
پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کو سمجھنا، اُس کے نشانات کو دیکھ کر اُن پر غور کرنا، اُس کے رسول نے جو تقویٰ کے راستے بتائے ہیں اُن پر چلنا، ظلموں اور زیادتیوں میں اپنے آپ کو شامل ہونے سے بچانا، اسلام کی حقیقی روح کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا، یہ ہے ایک حقیقی مسلمان کی حالت۔ ورنہ ایمان لانے کا دعویٰ صرف دعویٰ ہے جو تقویٰ سے خالی ہے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات سے دور ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ایسے تقویٰ سے عاری لوگوں کی نہ عبادتیں قبول ہوتی ہیں، نہ قربانیاں، بلکہ ظاہری نمازیں بھی خدا تعالیٰ کا قرب دلانے کی بجائے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں۔ اور جو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہوتے ہیں، اُس کے احکامات پر عمل کرنے والے ہوتے ہیں، اُس کی رضا کی خاطر ہر کام بجا لانے والے ہوتے ہیں اُن کے دشمنوں کا بھی خدا تعالیٰ دشمن ہو جاتا ہے اور اُن کے دوستوں کا دوست ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جو بھی کام کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُس میں برکت ڈالتا ہے اُن کو کامیابیاں عطا فرماتا ہے۔
پس خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو اس کوشش میں رہتے ہیں کہ جب موت آئے تو ایسی حالت میں آئے کہ خدا تعالیٰ کے فرمانبردار اور حقیقی مسلمان بننے کی کوشش ہو۔ ہم احمدیوں کے لئے تو یہ نصیحت ہے ہی اور ہمیں اس کی کوشش میں لگا رہنا چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرماتے ہوئے زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے کہ آخرین میں جو اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لئے نبی مبعوث ہو گا اُسے مان لینا اور ہم نے مان لیا تو اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانا اور ڈھالنا اور اس پر قائم رہنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ اس کے لئے ہمیں کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہم نے یہ ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ہر احمدی کو یہ سامنے رکھنا چاہئے لیکن جیسا کہ میرے بعض الفاظ اور بعض فقروں سے ظاہر ہو رہا ہو گا کہ میں عامّۃ المسلمین کو بھی اس حوالے سے توجہ دلانی چاہتا ہوں۔ چنانچہ جب میں نے سیاسی لیڈروں یا مولویوں کا حوالہ دیا تو یہ اُن کے لئے بھی تھا۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے کے ذریعہ ایک طبقہ ایسا ہے جو ہمارے پروگرام دیکھتا اور سنتا ہے اور اس کا اظہار بھی ہوتا رہتا ہے کہ اُن تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچ رہا ہے۔ پس اس حوالے سے مَیں اُن لوگوں تک بھی یہ پیغام پہنچانا چاہتا ہوں جو یہ سنتے ہیں اور دیکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مجھے پاکستان سے ہی ایک خط آیا اور اس طرح کے بعض دفعہ آتے رہتے ہیں۔ چند دوست جو غیر از جماعت ہیں اکٹھے بیٹھ کر ایم ٹی اے دیکھتے ہیں یا انہوں نے احمدیت کا کچھ مطالعہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تمام باتیں جو آپ کرتے ہیں، یہ سن کر اور زمانے کے تمام حالات دیکھ کر ہمیں یقین ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام سچے ہیں اور جماعت احمدیہ حق پر ہے۔ ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں لیکن ہم میں معاشرے کا اور مولوی کا خاص طورپر مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں بزدل سمجھ لیں کہ ہماری تمام ہمدردیوں کے باوجود، ہماری خواہش کے باوجود ہم جماعت میں اس خوف سے شامل نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح ایک شخص نے اپنے غیر از جماعت دوسرے دوست کو کہا کہ اگر یہ جماعت سچی ہوئی تو پھر ہمیں خدا کے عذاب سے بھی ڈرنا چاہئے جس سے اللہ تعالیٰ نے سچوں کے لئے ڈرایا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ پر چلنے کا ارشاد فرما رہا ہے۔ جماعت احمدیہ سچی ہے اور یقینا (سچی) ہے۔ اُس کی سچائی پر خدا تعالیٰ کی 124سالہ فعلی شہادت ہی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اور ہونی چاہئے۔ باوجود منظم مخالفتوں کے جو حکومتوں کی طرف سے بھی کی گئیں اور کی جا رہی ہیں، باوجود علماء کے فتوؤں کے، اُن علماء کے فتوؤں کے جو سچائی سے ہٹے ہوئے ہیں، اُن کے کہنے کی وجہ سے بعض ملکوں میں خاص طور پر پاکستان میں مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ باوجود احمدیوں پر مظالم ڈھائے جانے کے، اُن کے مالوں کو لُوٹنے کے، اغواء اور قتل کرنے کے، گھروں کو جلانے کے، ملازمتوں سے برطرف کرنے کے، بچوں کو سکولوں اور کالجوں میں ٹارچر دینے اور اُنہیں پڑھائی سے روکنے کے یہ لوگ نہ صرف اپنے ایمان پر قائم ہیں بلکہ پہلے سے بڑھ کر قربانیوں کے لئے تیار ہیں۔ پس یہ احمدیت کی سچائی کا، ایمان کا کافی ثبوت ہونا چاہئے۔ اور ساری روکوں کے باوجود بھی جماعت پھر بھی ترقی کر رہی ہے۔ پس ایک دنیاوی لحاظ سے کمزور جماعت کی یہ ترقی اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا جو نعم المولیٰ و نعم النصیر ہے ہمارے ساتھ ہے۔ اور یہی خدا تعالیٰ نے مومنوں کی نشانی بتائی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تائیدات اور نصرت اُن کے شاملِ حال رہتی ہیں۔ اب اگر انصاف کی نظر سے دیکھیں تو اسلام کی خدمت کے نام پر جو بھی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور اپنی طرف سے جو جہادی کارروائیاں بھی کر رہی ہیں، اُن کا نتیجہ سوائے اسلام کی بدنامی کے اور کچھ نہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ مَیں اپنے راستے میں جہاد کے لئے نکلنے والوں کو کامیاب کرتا ہوں، اُنہیں کامیابیاں عطا فرماتا ہوں تو کون سی کامیابی ہے جو انہوں نے حاصل کی ہے؟ مسلمان ہی مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ اسلحہ ہے تو وہ بڑی طاقتوں سے لیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے پاس تو اپنی نہ کوئی فیکٹریاں ہیں، نہ اسلحہ خانے ہیں یا اس کے کارخانے ہیں۔ اب شام میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے، وہاں کے حکومت مخالف جو لوگ ہیں، یا گروپ ہے یا مختلف قسم کے گروہ ہیں جو اکٹھے ہو گئے ہیں، اُن کا مغربی دنیا سے یہی مطالبہ ہے، وہ یہی کہہ رہے ہیں کہ اگر تم حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہو تو ہمیں اسلحہ دو۔ اب یہ اسلحہ حکومت کا بھی اور حکومت مخالف گروہوں کا بھی، دونوں میں سے کسی کے بھی خلاف جو استعمال ہو رہا ہے، یہ کون لوگ ہیں جن کے خلاف استعمال ہو رہا ہے؟ (ظاہر ہے کہ) صرف مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ تقویٰ نہ حکومت میں ہے اور نہ دوسرے گروہ میں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی فرمانبرداری نہ ایک گروہ میں ہے، نہ دوسرے میں ہے۔ پس یہ دونوں طرف سے تقویٰ سے عاری لوگ ہیں اور یہی دین سے دُور ہٹنے والے لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ردّ کرنے والے لوگ ہیں۔ امیر تیمور ایک مسلمان حکمران گزرا ہے جو معمولی حیثیت سے اُٹھا اور دنیا کے بہت بڑے وسیع علاقے میں اُس کی حکومت قائم ہوئی۔ وہ کہتا ہے کہ جب جنگوں کے لئے مَیں نکلتا ہوں یا کسی ملک پر حملہ کرنا ہو تو مَیں یہ دیکھتا ہوں کہ وہاں جو مسلمان بادشاہ ہیں، وہ عوام کا حق ادا کر رہے ہیں یا نہیں۔ اور یا دین پر قائم ہیں کہ نہیں۔ اگر عوام کا حق نہیں ادا کر رہے، نہ ہی وہ دین پر قائم ہیں اور ظلم و بربریت اُن ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے تو میں پھر اُن پر حملہ کرتا ہوں اور اُن کو زیر کر لیتا ہوں اور پھر وہاں ایسا نظام جاری کرتا ہوں جو اسلامی نظام ہو۔ اس وجہ سے جو مجھے کامیابیاں حاصل ہوتی ہیں وہ خدا تعالیٰ کی مددو تائید کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بہرحال جس طرح وہ بیان کرتا ہے، اُس کی بہت سی پالیسیاں انصاف پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے وہ کامیابیاں حاصل کرتا رہا۔ بعض ظلم بھی اُس سے ثابت ہوتے ہیں لیکن لگتا یہ ہے کہ اُس زمانے کے بادشاہوں میں شاید سب سے بہتر وہ تھا تو اللہ تعالیٰ بھی اُس کی مدد فرماتا رہا۔ اُس نے اپنا ایک اصول یہ بتایا کہ حکومت کرنے کے لئے انصاف، حکمت، دانائی، غریبوں کا بھی خیال رکھنا، عوام کا خیال رکھنا، حکومت کے کارندوں کا بھی خیال رکھنا۔ جہاں حملہ کیا اور جن ملکوں کو زیر کیا، اُن کے عوام کا بھی حق ادا کرنا، ظلم نہ کرنا ہے۔ اگر کسی چیز کے دس حصے بنائے جائیں تو کہتا ہے میری کامیابی کے نو حصے ان چیزوں پر مشتمل ہیں اور ایک حصہ صرف تلوار کا ہے۔ (ماخوذ از تزک تیموری مترجم سید ابوالہاشم ندوی صفحہ 20، 73تا 77، 116تا 120۔ سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2001ء)
اب اگر ہم ہر اسلامی ملک میں جھانک کر دیکھیں تو اُن میں صرف اپنے مفادات نظر آتے ہیں۔ رعایا اور عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ صرف اپنے تخت اور اپنی حکومت کی فکر ہے۔ علماء ہیں تو وہ اپنا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی دینی تربیت کرنے کی بجائے اقتدار کی دوڑ میں پڑے ہوئے ہیں۔ یا پھر کچھ ایسے ہیں جو اسلام کے نام پر دہشتگرد تنظیموں کو چلا رہے ہیں یا اُن کی مدد کر رہے ہیں۔ دینی مدرسوں میں جہاد کے نام پر بچوں کی عسکری تربیت کی جاتی ہے۔ اسلحہ کے استعمال اور دہشتگردی کے لئے استعمال ہونے والے بم بنانے کے لئے طریقے سکھائے جاتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ کس کے خلاف استعمال ہونا ہے؟ مسلمانوں کے۔ مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا ہوا ہوا ہے۔ اسلام جو امن اور محبت کا مذہب ہے، جس کا مطلب ہی یہ ہے کہ امن، حفاظت اور تکلیفوں اور مشکلات سے نکالنے والا۔ آج اس مذہب کو ان لوگوں نے اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو تو پہلے مسلمان تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے اور اکثر تنظیمیں اس کو قبول بھی کر لیتی ہیں اور قبول نہ بھی کریں تب بھی اُن پر ہی شک جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں امریکہ میں جو میراتھن (Marathon) ہو رہی تھی۔ ان کے کھلاڑی دوڑ رہے تھے تو وہاں دو بم دھماکے ہوئے ہیں اور جو ظلم ہوا ہے تو فوراً وہ لوگ جو اسلام مخالف ہیں، جو اسلام کو بدنام کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں، انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ یہ مسلمانوں نے کیا ہو گا۔ کسی تنظیم کا نام نہیں لیتے۔ وہ تو مسلمانوں کا بحیثیت مجموعی کہتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ اس دفعہ ان تنظیموں کی طرف سے بھی انکار کیا گیا ہے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اگر صرف یہی بیان دیتے تو کافی تھا لیکن کیونکہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری، اطاعت اور اُس کے احکامات پر عمل کرنے سے یہ لوگ عاری ہیں، اُس سے دور ہٹے ہوئے ہیں، اس لئے ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ ہم نے کیا تو نہیں لیکن جس نے بھی کیا ہے اُس نے بہت اچھا کیا ہے اور ہم اُس کی حمایت کرتے ہیں۔ تو ان نہتّوں پر حملہ کر کے جو دنیا سے جمع ہوئے ہوئے تھے، کیا ملا؟ یا ان حمایت کرنے والوں کو اس سے کیاحاصل ہو گا؟ ایک طرف تو یہ دعویٰ ہے کہ ہم سے زیادہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی اور کو محبت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور تعلیم کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں۔ محبت کرنے والے تو محبوب کی چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو جنگ میں بھی معصوموں، بچوں، عورتوں، بوڑھوں، راہبوں کو نقصان پہنچانے سے منع کیا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ جلد 7صفحہ 654و 656 کتاب الجہاد باب من ینہی عن قتلہ فی دارالحرب حدیث نمبر 7و 21مطبوعہ دارالفکر)
اور قرآنِ کریم نے تو جنگ کی اجازت دے کر بھی خاص طور پر ہر مذہب کی حفاظت کی ہے۔ کجا یہ کہ جنگ کے بغیر کئی جانوں کو تلف کر دیا، کئی لوگوں کو ان کے اعضاء سے محروم کر دیا۔ بہت سارے لوگ جو بچے ہیں ان کے بھی کسی کا بازو کاٹنا پڑا، کسی کی ٹانگ کاٹنی پڑی۔ اس لئے ایک امریکن نے، لکھنے والے جرنلسٹ نے یا کالم لکھنے والا تھا شاید، اخبار میں اُنہیں یہاں تک کہہ دیا کہ اس کا صرف ایک علاج ہے کہ تمام مسلمانوں کو قتل کر دو۔ تو یہ جرأت غیر مسلموں میں کیوں پیدا ہو رہی ہے؟ اس کو ہوا خود مسلمان دے رہے ہیں۔ یہاں مغرب میں تو اِکّا دُکّا یہ واقعہ ہوتا ہے، اُس کے بعد یہ باتیں سننی پڑتی ہیں۔ اسلامی ممالک میں تو بے چینی تقریباًستر فیصد ممالک میں ہے اور روز کا معمول ہے۔ پاکستان میں دیکھ لیں۔ افغانستان میں دیکھ لیں۔ مصر میں دیکھ لیں۔ شام میں دیکھ لیں۔ لیبیا میں دیکھ لیں۔ صومالیہ میں دیکھ لیں۔ سوڈان میں دیکھ لیں۔ الجزائر میں دیکھ لیں۔ ہر جگہ مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور ظلم یہ ہے کہ مذہب کے نام پر کر رہا ہے۔ اگر ظلم کرنے ہی ہیں تو کم از کم مذہب کے نام پر تو نہ کریں۔ اس قتل و غارت کو جہاد کا نام تو نہ دو۔ جن اسلامی ملکوں میں کھل کر دہشتگردی نہیں ہے تو وہاں کے عوام کے حق ادا نہیں کئے جا رہے۔ وہاں انصاف نہیں ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب سعودی عرب میں جو تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہے، بڑا امیر ملک کہلایا جاتا ہے وہاں بھی غریب لوگ ہیں۔ غریب بیوائیں، یتیم بچے دو وقت کی روٹی کو ترستے ہیں۔ کہنے کو تو اسلام کے نام پر عورت کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی ہے۔ کام کرنے پر ان لوگوں نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔ لیکن اُس کی ضرورت کا خیال بھی جو حکومت کو رکھنا چاہئے تھا وہ نہیں رکھا جاتا۔ جو راشن مقرر کیا ہے، اگر کیا بھی ہے تو وہ بھی اتنا تھوڑا ہے کہ کسی کا پیٹ نہیں بھر سکتا۔ بادشاہوں کے اپنے محلوں میں تو دیواروں پر بھی سونے کے پانی پھرے ہوئے ہیں۔ تیل کی دولت کا بے انتہا فائدہ اُٹھایا جا رہا ہے۔ اُسے لٹایا جا رہا ہے اور جو رعایا ہے وہ بھوکی مر رہی ہے۔ کچھ عرصہ ہوا ٹی وی پر ایک پروگرام آیا تھا، ڈوکومنٹری دکھائی گئی تھی جس میں یہ حقائق بیان ہوئے تھے کہ کس طرح اُن سے سلوک کیا جاتا ہے، کس طرح کیسی حالت میں وہ لوگ رہتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک کا حال ہے۔ بے چینی اور بے انصافی، ظلم و تعدی، حکومت کا حق ادا نہ کرنا، یعنی جو اُس کے ذمہ رعایا کا حق ہے۔ اور اسی طرح عوام جو ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور جب عوام کو موقع ملے تو اُن کی طرف سے بھی ظلم کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ سب تقویٰ سے دُور ی ہے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہے۔
کہنے کو تو کہتے ہیں کہ اسلام کی تعلیم کامل اور مکمل تعلیم ہے اور یقینا ہے لیکن ان کی یہ بات کہ اس وجہ سے ہمیں اب کسی مجدد کی ضرورت نہیں ہے، کسی مسیح و مہدی کی ضرورت نہیں ہے، کسی نبی کی ضرورت نہیں ہے، یہ چیزیں غلط ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی ہے کہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمانے کی اصلاح کے لئے ایسا شخص مبعوث ہو گا۔ خود زمانے کے حالات بھی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ مسلمان تعلیم کو بھلا چکے ہیں۔ مساجد تو ہیں لیکن علماء نے اُنہیں سیاسی اکھاڑے بنا لیا ہے۔ قرآنِ کریم تو ہے لیکن وہ بھی صرف خوبصورت الماریوں کی سجاوٹ اور زینت بنا ہوا ہے۔ علماء اپنی مرضی کی تفسیریں کر کے، عوام کو، عامۃ المسلمین کو غلط راستوں پر چلا رہے ہیں۔ پس یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ ضرورت نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی ضرورت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ ضرورت ہو گی۔ پس یہ علماء کسی طرح بھی اس کا انکار نہیں کر سکتے، یا اگر کرتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ عوام الناس کو اس پر غور کرنا چاہئے۔ یہ ضرورت ہے اور یقینا ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہو کر آئے اور مسلمانوں کے اس بگاڑ کی بھی اصلاح کرے اور اسلام کا جو غلط تصور غیر مسلم دنیا میں قائم ہو چکا ہے اُس کو زائل کر کے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو دنیا میں پھیلائے اور دنیا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لائے۔ عوام کو ان علماء نے نبی کی بحث میں الجھا کر اپنے مقصد پورے کرنے شروع کئے ہوئے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ نے اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود اور مہدی معہود کو نبی کے نام سے پکارا ہے تو پھر کسی اور کا کیا حق بنتا ہے کہ اپنی تشریحیں کر کے اُس کے اور اُس کے ماننے والوں کے خلاف ظلم و تعدی کا بازار گرم کریں۔ جیسا کہ میں نے کہا، خود دنیا کے حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ باوجود قرآنِ کریم کے اپنی اصلی حالت میں موجود ہونے کے عموماً مسلمانوں کی دینی، روحانی، اخلاقی حالت جو ہے وہ گر رہی ہے۔ تقویٰ ختم ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی اطاعت اور فرمانبرداری سے مسلمانوں کی اکثریت باہر نکل چکی ہے۔ پس سوچنے والی بات ہے کہ ان حالات میں کوئی ایسا طریق ہونا چاہئے جو اصلاح پیدا کرے۔ کوئی ایسا شخص ہو جو اسلام کی تعلیم کی روح کو سمجھے اور آگے مسلمانوں میں جاری کرے۔
ہم احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق چودھویں صدی میں بھیج دیا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی رہنمائی میں قرآنِ کریم کے علم و عرفان کے خزائن کو وضاحت سے اپنی کتب میں بیان کر کے حق و باطل کے فرق کو ظاہر کر کے، اسلام کی برتری دنیا کے تمام ادیان پر ثابت کر کے، دشمنوں کو کھلے چیلنج دے کر اور اپنے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائیدات کی مہر ثبت کر کے، دشمنوں کے منہ بند کر کے، ایک لمبا عرصہ زندگی گزار کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گیا اور اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی تائیدات سے تا قیامت جاری رہنے والا سلسلہ چھوڑ گیا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کی راہوں پر آگے سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارضی و سماوی تائیدات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں مختلف آفات کی صورت میں بھی ظاہر ہوئیں، اُن کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ کیا اہلِ پاکستان کے لئے اور عامۃ المسلمین کے لئے یہ زلزلے، یہ آفات، یہ سیلاب، یہ دنیا میں مسلمانوں کی بے وقعتی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہے؟اب گزشتہ دنوں جو زلزلہ آیا، وہ صرف ایک ملک میں نہیں تھا۔ پاکستان میں بھی اُس سے نقصان ہوا۔ ایران میں بھی ہوا۔ افغانستان میں، شرکِ اوسط کے ممالک میں، بلکہ انڈونیشیا تک چلا گیا۔ تو یہ اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر چل رہی ہے اس پر مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ توبہ کی ضرورت ہے۔ استغفار کی ضرورت ہے۔ نام نہاد علماء سے ڈرنے کی بجائے اُنہیں آئینہ دکھانے کی ضرورت ہے کہ کیوں ہمیں اسلام کی تعلیم کے خلاف باتیں بتاتے ہو۔ کہیں ایک واقعہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں سے ایسا بیان کر دیں کہ آپ نے ایسا کیا جو یہ تعلیم دیتے ہیں، یا ایسی تعلیم دی جو آجکل کے علماء دے رہے ہیں۔ پس یہ اسلام جو علماء ہمیں بتاتے ہیں، وہ اسلام نہیں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کی تعریف تو محبت، پیار، امن، سلامتی اور تکلیفوں کو دور کرنا ہے، نہ کہ اسلام کے نام پر اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان تکلیفوں کو اَور زیادہ کرنا ہے۔
پس ہر مسلمان کا فرض ہے کہ تقویٰ کو تلاش کر کے اُس پر قدم مارنے کی کوشش کرے۔ موت کو سامنے رکھے جس کا کوئی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میری اتنی زندگی ہے۔ اور وہ عمل کرے جو خداتعالیٰ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کرتا ہوں جن سے آپ کی اہمیت اور مسلمانوں کو آپ کے ماننے کی ضرورت واضح ہو جاتی ہے اور اگر یہ نہیں تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے کہ ترقی وہی لوگ کریں گے جو سچے دل سے عمل کرتے ہوئے مسیح موعود علیہ السلام کو مانیں گے۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’مَیں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں جو خدا تعالیٰ کی بجائے دنیا کے بت کو عظمت دی گئی ہے، اس کی امانی اور امیدوں کو رکھا گیا ہے۔ مقدمات، صلح جو کچھ ہے وہ دنیا کے لیے ہے، اس بُت کو پاش پاش کیا جاوے اور اﷲ تعالیٰ کی عظمت اور جبروت ان کے دلوں میں قائم ہو اور ایمان کا شجر تازہ بہ تازہ پھل دے۔ اس وقت درخت کی صورت ہے مگر اصل درخت نہیں کیونکہ اصل درخت کے لیے تو فرمایا: ألَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ۔ تُؤْ تِیْ اُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا۔ (ابراہیم: 25 تا 26) یعنی کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ کیونکر بیان کی اﷲ نے مثال یعنی مثال دینِ کامل کی کہ وہ بات درختِ پاکیزہ کی مانند ہے جس کی جڑھ ثابت ہواور جس کی شاخیں آسمان میں ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل اپنے پروردگار کے حکم سے دیتا ہے۔ اَصْلُھَا ثَابِتٌ سے یہ مراد ہے کہ اصول ایمانیہ اس کے ثابت اور محقق ہوں اور یقین کامل کے درجہ تک پہنچے ہوئے ہوں اور وہ ہر وقت اپنا پھل دیتا رہے۔ کسی وقت خشک درخت کی طرح نہ ہو۔ مگر بتاؤ کہ کیا اب یہ حالت ہے؟ بہت سے لوگ کہہ تو دیتے ہیں کہ ضرورت ہی کیا ہے؟ اُس بیمار کی کیسی نادانی ہے جو یہ کہے کہ طبیب کی حاجت ہی کیا ہے؟ وہ اگر طبیب سے مستغنی ہے اور اس کی ضرورت نہیں سمجھتا تو اس کا نتیجہ اس کی ہلاکت کے سوا اَور کیا ہوگا؟ اس وقت مسلمان اَسْلَمْنَامیں تو بے شک داخل ہیں مگر اٰمَنَّا کی ذیل میں نہیں اور یہ اس وقت ہوتاہے جب ایک نور ساتھ ہو۔ غرض یہ وہ باتیں ہیں جن کے لیے مَیں بھیجا گیا ہوں اس لیے میرے معاملہ میں تکذیب کے لیے جلدی نہ کرو بلکہ خدا تعالیٰ سے ڈرو اور توبہ کرو کیونکہ توبہ کرنے والے کی عقل تیز ہوتی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 565-566۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے طاعون کے نشان کی مثال دی ہے کہ:
’’طاعون کا نشان بہت خطرناک نشان ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھ پر جو کلام نازل کیا ہے وہ یہ ہے۔ اِنَّ اللّٰہ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْامَا بِاَنْفُسِہِمْ۔ (الرعد: 12) یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس پر لعنت ہے جو خدا تعالیٰ پر افترا کرے۔ خد اتعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے ارادے کی اس وقت تبدیلی ہوگی جب دلوں کی تبدیلی ہوگی۔ پس خدا تعالیٰ سے ڈرو اور اس کے قہر سے خوف کھاؤ۔ کوئی کسی کا ذمہ دار نہیں ہوسکتا۔ معمولی مقدمہ کسی پر ہو تو اکثر لوگ وفا نہیں کرسکتے۔ پھر آخرت میں کیا بھروسہ رکھتے ہو۔ جس کی نسبت فرمایاہے۔ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِیْہِ (عبس: 35)‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 566۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) اُس دن یعنی قیامت والے دن بھائی بھائی سے دور ہٹے گا، بھاگے گا۔
فرمایا: ’’دیکھو جس طرح جو شخص اللہ اور اُس کے رسول اور کتاب کو ماننے کا دعویٰ کر کے اُن کے احکام کی تفصیلات مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تقویٰ، طہارت کو بجا نہ لاوے اور اُن احکام کو جو تزکیۂ نفس، ترکِ شر اور حصولِ خیر کے متعلق نافذ ہوئے ہیں چھوڑ دے، وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں ہے اور اُس پر ایمان کے زیور سے آراستہ ہونے کا اطلاق صادق نہیں آ سکتا۔ اسی طرح سے جو شخص مسیح موعود کو نہیں مانتا، یا ماننے کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بھی حقیقتِ اسلام اور غایتِ نبوت اور غرضِ رسالت سے بے خبر محض ہے اور وہ اس بات کا حق دار نہیں ہے کہ اس کو سچا مسلمان، خدا اور اُس کے رسول کا سچا تابعدار اور فرمانبردار کہہ سکیں کیونکہ جس طرح سے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے قرآنِ شریف میں احکام دئیے ہیں اُسی طرح سے آخری زمانے میں ایک آخری خلیفہ کے آنے کی پیشگوئی بھی بڑے زور سے بیان فرمائی ہے اور اُس کے نہ ماننے والے اور اُس سے انحراف کرنے والوں کا نام فاسق رکھا ہے۔ قرآن اور حدیث کے الفاظ میں فرق (جو کہ فرق نہیں بلکہ بالفاظ دیگر قرآنِ شریف کے الفاظ کی تفسیر ہے) صرف یہ ہے کہ قرآنِ شریف میں خلیفہ کا لفظ بولا گیا ہے اور حدیث میں اسی خلیفۂ آخری کو مسیح موعود کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ پس قرآنِ شریف نے جس شخص کے مبعوث کرنے کے متعلق وعدے کا لفظ بولا ہے اور اس طرح سے اُس شخص کی بعثت کو ایک رنگ کی عظمت عطا کی ہے، وہ مسلمان کیسا ہے جو کہتا ہے کہ ہمیں اس کے ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے؟‘‘ (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 551۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں:
’’اے نادان قوم! مَیں تمہیں کس سے مشابہت دوں۔ تم ان بد قسمتوں سے مشابہ ہو جن کے گھر کے قریب ایک فیّاض نے ایک باغ لگایا اور اُس میں ہر ایک قسم کا پھلدار درخت نصب کیا اور اس کے اندر ایک شیرین نہر چھوڑ دی جس کا پانی نہایت میٹھا تھا۔ اور اس باغ میں بڑے بڑے سایہ دار درخت لگائے جو ہزاروں انسانوں کو دھوپ سے بچا سکتے تھے۔ تب اُس قوم کی اُس فیّاض نے دعوت کی جو دھوپ میں جل رہی تھی اور کوئی سایہ نہ تھا اور نہ کوئی پھل تھااور نہ پانی تھا تا وہ سایہ میں بیٹھیں اور پھل کھاویں اور پانی پئیں۔ لیکن اس بد بخت قوم نے اس دعوت کو ردّ کیا اور اُس دھوپ میں شدتِ گرمی اور پیاس اور بھوک سے مر گئے۔ اس لئے خدا فرماتا ہے کہ ان کی جگہ مَیں دوسری قوم کو لاؤں گا جو ان درختوں کے ٹھنڈے سایہ میں بیٹھے گی اور ان پھلوں کو کھائے گی اور اس خوشگوار پانی کو پیئے گی۔ خدا نے مثال کے طور پر قرآن شریف میں خوب فرمایا کہ ذوالقرنین نے ایک قوم کو دھوپ میں جلتے ہوئے پایا اور ان میں اور آفتاب میں کوئی اوٹ نہ تھی اور اس قوم نے ذوالقرنین سے کوئی مددنہ چاہی۔ اس لئے وہ اُسی بَلا میں مبتلا رہی۔ لیکن ذوالقرنین کو ایک دوسری قوم ملی جنہوں نے ذوالقرنین سے دشمن سے بچنے کے لئے مدد چاہی۔ سو ایک دیوار اُن کے لئے بنائی گئی اس لئے وہ دشمن کی دست برد سے بچ گئے۔ سو مَیں سچ مچ کہتا ہوں کہ قرآنِ شریف کی آئندہ پیشگوئی کے مطابق وہ ذوالقرنین مَیں ہوں جس نے ہر ایک قوم کی صدی کو پایا۔ اور دھوپ میں جلنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں سے مجھے قبول نہیں کیا۔ اور کیچڑ کے چشمے اور تاریکی میں بیٹھنے والے عیسائی ہیں جنہوں نے آفتاب کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اور وہ قوم جن کے لئے دیوار بنائی گئی وہ میری جماعت ہے۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہی ہیں جن کا دین دشمنوں کے دست بُرد سے بچے گا۔ ہر ایک بنیاد جو سست ہے اس کو شرک اور دہریت کھاتی جائے گی۔ مگر اس جماعت کی بڑی عمر ہو گی اور شیطان ان پر غالب نہیں آئے گا۔ اور شیطانی گروہ ان پر غلبہ نہیں کرے گا۔ اُن کی حجت تلوار سے زیادہ تیز اور نیزہ سے زیادہ اندر گھسنے والی ہو گی اور وہ قیامت تک ہر ایک مذہب پر غالب آتے رہیں گے‘‘۔
فرمایا: ’’ہائے افسوس ان نادانوں پر جنہوں نے مجھے شناخت نہ کیا۔ وہ کیسی تیرہ و تاریک آنکھیں تھیں جو سچائی کے نور کو دیکھ نہ سکیں۔ مَیں اُن کو نظر نہیں آ سکتا کیونکہ تعصّب نے ان کی آنکھوں کو تاریک کر دیا۔ دلوں پر زنگ ہے اور آنکھوں پر پردے۔ اگر وہ سچی تلاش میں لگ جائیں اور اپنے دلوں کو کینہ سے پاک کر دیں۔ دن کو روزے رکھیں اور راتوں کو اُٹھ کر نماز میں دعائیں کریں اور روئیں اور نعرے ماریں تو امید ہے کہ خدائے کریم ان پرظاہر کر دے کہ مَیں کون ہوں۔ چاہئے کہ خدا کے استغناء ذاتی سے ڈریں‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 313تا 315) (اللہ تعالیٰ بڑا غنی ہے اُس سے ڈریں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں)
فرمایا: ’’اے لوگو! خدا کی اور خدا کے نشانوں کی تحقیر مت کرو اور اُس سے گناہوں کی معافی چاہو اور اُس کے سامنے اپنے گناہوں کے خوف سے فروتنی کرو۔ کیا تمہیں اُس قوم کا انجام بھول گیا جنہوں نے تم سے پہلے تکذیب کی؟ یا خدائے سزا دہندہ کی کتابوں میں تمہیں بری رکھا گیا ہے؟ پس اپنے بد خطرات سے خدا تعالیٰ کی طرف پناہ لے جاؤ، اگر ڈرنے والے ہو۔ ایک ایک ہو کر کھڑے ہو جاؤ۔ اور عداوت کرنے والوں سے پرہیز کرو۔ پھر فکر کرو کہ کیا تمہیں وہ ثبوت نہیں دئیے گئے جو تم سے پہلے کافروں کو دئیے گئے؟اور کیا تمہارے پاس نشان نہیں آئے؟ کیا تم خدا کی تحقیر کرنے سے حقیر اور ذلیل نہیں ہو چکے؟ کیا تمہارے یہ تمام قرض، قرضداروں کی طرح ادا نہیں کئے گئے؟ پس اُس مُنعِم حقیقی کی قَسم ہے جس نے مجھے اس محل ّ میں وارد کیا اور میری تصدیق کے لئے باندھا اور کھولا اور مجھے اولاد دی۔ اور میرے لئے دشمنوں کو ہلاک کیا۔ اور اپنے نشانوں میں ایجاد اور اعدام کو دکھایا‘‘۔ (بنانے اور بگاڑنے کے، دونوں طرح کے نشان دکھائے)’’اور مذاہب کے جلسہ میں پیدا کرنے کا نشان دکھلایا۔‘‘ (یہ بھی پیشگوئی کے مطابق وہ جلسہ تھا جہاں آپ کی کتاب پڑھی گئی تھی) ’’اور گوسالہ مقتول میں مارنے کا نشان دکھلایا۔ اور قولی نشان اور فعلی نشان دیکھنے والوں کے لئے دکھلایا۔ اور خدا تعالیٰ نے کسوف اور خسوف تم کو رمضان میں دکھلایا۔ اور میری بلاغت کے ساتھ تم کو ملزم کیا اور مجھ کو قرآن سکھلایا۔ …‘‘
فرمایا: ’’اے لوگو! میں ربّ قدیر کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ پس کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جو اُس غیّور کبیر سے خوف کرے، یا غفلت کے ساتھ ہم سے گزر جاؤ گے؟ اور تم نے اپنے مکروں کو انتہا تک پہنچا دیا اور شکاریوں کی طرح حیلہ بازی میں بڑی دیر لگائی۔ پس کیا تم نے بجز خذلان اور محرومی کے کچھ اَور بھی دیکھا؟ اور کیا تم نے وہ امر پایا جس کو ڈھونڈا بغیر اس کے کہ ایمان کو ضائع کرو۔‘‘ (وہ باتیں جو ڈھونڈیں، کیا تم نے پالیں؟ اس کے بغیر کہ تمہارا ایمان بھی ضائع نہ ہو) ’’پس اے مسلمانوں کی اولاد! خدا سے ڈرو۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ خدا نے کیسے میری بات کو پورا کیا۔ اور اپنی بخشش میرے لئے بہت دکھلائی۔ پس تمہیں کیا ہو گیا کہ خدا کے نشانوں کی طرف منہ نہیں کرتے۔ اور میرے لئے ملامت کے تیر پیکان پر رکھتے ہو۔ کیا تم نے اپنے زعم کا بطلان نہیں دیکھا اور اپنے وہم کی خطا تم پر ظاہر نہیں ہوئی؟پس اس کے بعد مذمّت کے لئے کھڑے مت ہو اور بعد آزمائش کے جھوٹ کو مت تراشو، اور زبانوں کو بند کرو اگر تم متقی ہو۔ اُس آدمی کی طرح توبہ کرو جو شرمندہ ہوتا ہے اور اپنے انجام اور بدعاقبت سے ڈرتا ہے اور خدا توبہ کرنے والوں سے پیار کرتا ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 192-193)
اللہ تعالیٰ عامّۃ المسلمین کے دل کھولے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھنے والے ہوں، تا جن حالات و مشکلات سے یہ گزر رہے ہیں اُن سے نجات پائیں۔ آفات کے جو جھٹکے ان کوخدا تعالیٰ لگا رہا ہے اُس کے اشاروں کو سمجھیں اور تکذیب اور ظلموں سے باز آئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی توفیق عطا فرمائے کہ تقویٰ پر چلیں اور اپنے قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں اور دنیا کوہر وقت تباہی سے ہوشیار کرتے رہیں۔ اس وقت میں دو وفات یافتگان کا ذکر بھی کروں گا اور جمعہ کی نماز کے بعد ان کے جنازے بھی ہوں گے۔
پہلا مکرم چوہدری محفوظ الرحمن صاحب کا ہے جو 6؍اپریل 2013ء کو 93سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ چوہدری صاحب نے ایف اے پاس کر کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تحریک پر اپنی زندگی وقف کی تھی، زندگی وقف کرنے کے بعد بطور انسپکٹر بیت المال قادیان میں کام کرتے رہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جب صدر خدام الاحمدیہ تھے، آپ پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ آپ کو چار خدام کے گروپ میں جلسہ دہلی کے دوران خواتین کے پنڈال کی حفاظت کا موقع بھی ملا۔ جماعت کی تاریخ میں یہ مشہور واقعہ ہے اس موقع پر پتھراؤ بھی ہوا تھا جس میں ایک کارکن مکرم مشتاق باجوہ صاحب زخمی بھی ہو گئے تھے جو سوئٹزرلینڈ میں ہمارے مشنری اور مبلغ رہے ہیں۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے ساتھ آخر وقت تک قادیان کی حفاظت کے لئے ٹھہرے رہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے ان کو صرف چار دن پہلے واپس پاکستان بھجوایا تھا۔ پھر آپ ٹی آئی کالج لاہور میں بطور اکاؤنٹنٹ اور ہوسٹل ٹیوٹر کام کرتے رہے۔ پھر ٹی آئی کالج ربوہ میں بطور DPE اور انچارج لائبریری کے طور پر خدمت کی توفیق پائی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ عرصہ خلافت لائبریری میں بھی کام کیا۔ نصرت جہاں اکیڈمی میں انہوں نے بطور استاد کام کیا۔ بعد میں پھر سروس کے دوران ہی بی اے بھی کیا۔ اُس کے بعد ایم اے اسلامیات بھی کیا۔ کوالیفائیڈ DPE بھی تھے۔ 1953ء کے فسادات میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے کوئٹہ میں قیام کے دوران صدر خدام الاحمدیہ کی طرف سے جن خدام کو حفاظت کے لئے بھجوایا گیا اُن میں سے ایک چوہدری صاحب بھی تھے۔ اور جب ربوہ کی آبادی ہوئی ہے تو جماعت کی طرف سے جو پہلے انیس افراد بھجوائے گئے تھے، اس پہلے گروپ میں آپ شامل تھے۔ خدام الاحمدیہ میں صحت جسمانی کے مہتمم بھی رہے ہیں۔ والی بال اور ٹینس اور فٹ بال کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے۔ چندہ جات میں باقاعدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی بھی تھے اور اپنا سب حساب اپنی زندگی میں صاف کر دیا تھا۔ تحریکِ جدید اور وقفِ جدید کا چندہ اپنے والدین، دادا اور پھوپھیوں وغیرہ بلکہ اگلی نسلوں میں دو پوتیوں کے بچوں کی طرف سے بھی ادا کیا کرتے تھے۔ بڑے نمازی، تہجد گزار تھے۔ ربوہ کے جو خاص لوگ ہیں ان کرداروں میں سے ایک تھے۔ جو مرضی ان کو کوئی کہہ دے، مَیں نے نہیں دیکھا کہ کبھی انہوں نے آگے سے جواب دیا ہو۔ خاموشی سے اور ہنستے ہوئے ہر بات کو سنتے۔ انتہائی شریف النفس، درویش صفت، خاموش طبع انسان تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔ یہاں کے ہمارے جو صدر انصار اللہ ہیں، چوہدری وسیم صاحب، ان کے بڑے بیٹے ہیں۔
دوسرا جنازہ جو ہے وہ مکرمہ قیصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کا ہے۔ ان کی وفات 13؍ اپریل کو ہوئی ہے۔ تقریباً 70سال ان کی عمر تھی۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ام ناصر رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہو تھیں۔ ان کا کینسر ایک دم پھیل گیا جس کی وجہ سے ان کی وفات ہوئی۔ بڑے عمدہ اخلاق کی مالک تھیں۔ بڑی ہنس مکھ، ملنسار، خلافت سے بڑا تعلق خاص طور پر میں نے نوٹ کیا۔ خلافت کے بعدان کا مجھ سے بہت زیادہ تعلق بڑھ گیا۔ مالی قربانیوں میں بھی کچھ حصہ لیتی تھیں اور غریبوں کی بہت زیادہ ہمدرد تھیں۔ ان کے بعض غریب رشتہ داروں نے یا کم مالی کشائش والے رشتہ داروں نے بھی مجھے لکھا کہ ہمیشہ ہمارا خیال رکھا اور ان کو عزت دی، احترام کیا۔ ضرورتمندوں اور مستحقین کی خاموشی کے ساتھ مدد کیا کرتی تھیں۔ ملازموں کا بلکہ اُن کے رشۃ داروں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ جلسہ کے دنوں میں مہمانوں کی مہمان نوازی بہت کیا کرتی تھیں۔ آپ کے والد حضرت سعید احمد خان صاحب اور دادا مکرم کرنل اوصاف علی خان صاحب تھے جو حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے خالہ زاد بھائی تھے۔ اور مرحومہ عبدالمجید خان صاحب صحابی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نواسی اور حضرت خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کی پڑنواسی تھیں۔ پہلے آپ کے والد صاحب نے بیعت کی اور بعد میں آپ کے دادا نے۔ آپ کے والد صاحب پوچھنے پر کہ آپ نے پہلے کیوں احمدیت قبول کر لی؟ تو بڑے لہک کے یہ مصرعہ پڑھا کرتے تھے کہ ’پسند آیا ہمیں یہ دیں، ہم ایمان لے آئے‘۔
ان کے جو پڑنانا تھے، حضرت خان محمد خان صاحب، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بہت پرانے صحابہ میں سے تھے۔ اور یکم جنوری 1904ء کو اُن کی وفات ہوئی ہے، تو دوسرے دن نماز کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ آج مجھے الہام ہوا ہے کہ ’’اہلِ بیت میں سے کسی شخص کی وفات ہوئی ہے‘‘ تو غالباً حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے کہا کہ حضورکے اہلِ بیت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے سب خیریت سے ہیں تو پھر یہ الہام کس شخص کے بارے میں ہے؟ آپ نے فرمایا کہ خان محمد خان صاحب کپور تھلوی کل فوت ہوگئے ہیں۔ یہ الہام مجھے اُنہی کے متعلق ہوا ہے۔ گویا خدا تعالیٰ نے الہام میں اُنہیں اہلِ بیت میں سے قرار دیا۔ پھر ان کے بارے میں یہ بھی الہام تھا کہ ’’ان کی اولاد سے نرم سلوک کیا جائے گا۔‘‘ (ماخوذ از تذکرہ صفحہ 418 حاشیہ۔ ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
اتفاق سے مَیں سپین میں ’’تذکرہ‘‘ کسی اور مقصد کے لئے دیکھ رہا تھا تو یہ الہامات بھی میری نظر کے سامنے سے گزرے۔ یہ دو الہامات ہیں جن میں ایک تو وفات کی خبر تھی، دوسرے ان کی اولاد سے نرم سلوک کیا جائے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی شان سے پورا ہوا۔ مکرمہ قیصرہ بیگم صاحبہ کے نانا جو خان محمد خان صاحب کے بیٹے تھے، انہوں نے ریاست کپور تھلہ میں ملازمت کے لئے درخواست دی تھی اور کافی کمپٹیشن (Competition) تھا۔ ان کو بگی خانہ کے لئے افسر بنایا گیا اور پھر وہ وہاں سے ترقی کرتے کرتے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہلِ بیت میں سے قرار دیا اور پھر ان کی پڑنواسی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی بہو بھی بنی۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور درجات بلند فرمائے۔ اور ان کے بچوں کو بھی نیکیوں کی توفیق دے اور جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ ان کے خاوند مکرم میاں اظہر احمد صاحب کو بھی صدمہ برداشت کرنے کی توفیق دے اور صحت و عمر دے۔
جماعت احمدیہ سچی ہے۔ اُس کی سچائی پر خدا تعالیٰ کی 124سالہ فعلی شہادت ہی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے اور ہونی چاہئے۔ دنیاوی لحاظ سے کمزور جماعت کی یہ ترقی اس وجہ سے ہے کہ وہ خدا جو نعم المولیٰ و نعم النصیر ہے ہمارے ساتھ ہے۔
اسلام کی خدمت کے نام پر جو بھی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں اور اپنی طرف سے جو جہادی کارروائیاں بھی کر رہی ہیں، اُن کا نتیجہ سوائے اسلام کی بدنامی کے اور کچھ نہیں۔ اگر ہم ہر اسلامی ملک میں جھانک کر دیکھیں تو اُن میں صرف اپنے مفادات نظر آتے ہیں۔ رعایا اور عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں۔ صرف اپنے تخت اور اپنی حکومت کی فکر ہے۔ علماء ہیں تو وہ اپنا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی دینی تربیت کرنے کی بجائے اقتدار کی دوڑ میں پڑے ہوئے ہیں۔ یا پھر کچھ ایسے ہیں جو اسلام کے نام پر دہشتگرد تنظیموں کو چلا رہے ہیں یا اُن کی مدد کر رہے ہیں۔ مسلمان، مسلمان کے خون کا پیاسا ہوا ہوا ہے۔
آج اس مذہب کو ان لوگوں نے اس قدر بدنام کر دیا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو تو پہلے مسلمان تنظیموں کا نام لیا جاتا ہے اور اکثر تنظیمیں اس کو قبول بھی کر لیتی ہیں۔ اور قبول نہ بھی کریں تب بھی اُن پر ہی شک جاتا ہے۔
ہر جگہ مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے اور ظلم یہ ہے کہ مذہب کے نام پر کر رہا ہے۔
جن اسلامی ملکوں میں کھل کر دہشتگردی نہیں ہے۔ تو وہاں کے عوام کے حق ادا نہیں کئے جا رہے۔ انصاف وہاں نہیں ہے۔ غریب غریب تر ہو رہا ہے اور امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسی طرح عوام جو ہیں وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کرتے اور جب عوام کو موقع ملے تو اُن کی طرف سے بھی ظلم کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ سب تقویٰ سے دُوری ہے اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری سے اپنے آپ کو باہر نکالنا ہے۔
سوچنے والی بات ہے کہ ان حالات میں کوئی ایسا طریق ہونا چاہئے جو اصلاح پیدا کرے۔ کوئی ایسا شخص ہو جو اسلام کی تعلیم کی روح کو سمجھے اور آگے مسلمانوں میں جاری کرے۔ ہم احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ شخص اپنے وعدے کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق چودھویں صدی میں بھیج دیا۔
اللہ تعالیٰ عامّۃ المسلمین کے دل کھولے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو سمجھنے والے ہوں تا جن حالات و مشکلات سے یہ گزر رہے ہیں اُن سے نجات پائیں۔ آفات کے جو جھٹکے ان کوخدا تعالیٰ لگا رہا ہے اُس کے اشاروں کو سمجھیں اور تکذیب اور ظلموں سے باز آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے مسلمانوں کو آپؑ کی بعثت کی ضرورت اور آپؑ کو ماننے کی اہمیت سے متعلق اہم نصائح۔
مکرم چوہدری محفوظ الرحمن صاحب (ربوہ)اور مکرمہ قیصرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب کی وفات۔ مرحومین کا ذکرِخیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 19اپریل 2013ء بمطابق 19 شہادت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔