انصاف اور سچائی کی اعلیٰ اسلامی تعلیم

خطبہ جمعہ 26؍ اپریل 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا۔ (سورۃ النساء 136)

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ۔ (سورۃ المائدۃ آیت 9، 10)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر گواہ بنتے ہوئے انصاف کو مضبوطی سے قائم کرنے والے بن جاؤ خواہ خود اپنے خلاف گواہی دینی پڑے یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے خلاف۔ خواہ کوئی امیر ہو یا غریب، دونوں کا اللہ ہی بہترین نگہبان ہے۔ پس اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرو، مبادا عدل سے گریز کرو۔ اور اگر تم نے گول مول بات کی یا پہلوتہی کرگئے تو یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے بہت باخبر ہے۔

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہ تقوی کے سب سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو۔ یقینا اللہ اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے جو تم کرتے ہو۔

اللہ نے اُن لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے کہ اُن کے لئے مغفرت اور بہت بڑا اجر ہے۔

مخالفینِ اسلام وقتاً فوقتاً اسلام اور مسلمانوں پر شدت پسندی اور غیرمسلموں کے لئے دلوں میں بغض و کینہ رکھنے یا پیدا کرنے کا الزام لگاتے رہتے ہیں۔ ہر دہشت گردی کا واقعہ جو ہوتا ہے دنیا میں، چاہے جو مسلمان کہلانے والے ہیں، اُن کی طرف سے ہوا ہو یا کسی اور کی طرف سے، یا جو کارروائی بعض نام نہاد اسلام پسند گروہ یا جہادی تنظیمیں کرتی ہیں، اُنہیں اسلامی تعلیم کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اور پھر قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو انتہائی لغو اور بیہودہ الفاظ میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے زمانے کے امام اور عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے جو مخالفینِ اسلام کے ہر الزام کو قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں ردّ کرتی ہے، اور ہر بیہودہ گوئی کا جواب دے کر مخالفینِ اسلام کو اُن کا آئینہ دکھاتی ہے۔ ہماری طرف سے علاوہ قرآنِ کریم کی مختلف آیات کے جو اس شدت پسندی وغیرہ کے لئے پیش کی جاتی ہیں، یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، یہ بھی پیش کی جاتی ہیں کہ اسلام کی انصاف پسند اور انتہائی اعلیٰ معیار کی تعلیم کیا ہے؟

یہ ایسی اعلیٰ تعلیم ہے کہ ہر انصاف پسند غیر مسلم اس تعلیم کو سن کر اس تعلیم کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی کرتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل کہاں ہے؟ جو غیر مسلم لوگ افرادِ جماعت کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں، وہ جانتے بھی ہیں اور عموماً کہتے بھی ہیں کہ ٹھیک ہے تمہاری جماعت کے افراد میں اس تعلیم کی جھلک نظر آتی ہے لیکن تم تو مسلمانوں میں ایک بہت قلیل جماعت ہو، بہت تھوڑی سی جماعت ہو۔ اسلام کی عمومی تصویر تو ہم نے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں میں ہی دیکھنی ہے۔ ان لوگوں کو افرادِ جماعت جن سے بھی ان کا واسطہ ہے اپنے اپنے فہم کے مطابق جواب دیتے ہیں اور عموماً غیروں پر اس کا اچھا اثر بھی ہے۔ لیکن ہمیں حقیقت پسند ہونے کی بھی ضرورت ہے اور اپنے جائزے لینے کی بھی ضرورت ہے۔ ہم بیشک قرآنی تعلیم کی رو سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے مخالفین کی تسلی کروانے کی کوشش کرتے ہیں اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب دنیا میں مختلف اخباروں میں لکھنے والے جب بھی اسلام کے بارے میں لکھتے ہیں تو بعض دفعہ نام لے کر اور بعض دفعہ بغیر نام کے اشارۃً یہ بات کرتے ہیں کہ اسلام میں اقلیتی جماعت ہے جو اُس شدت پسندی کے خلاف ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ اور یہ جماعت ہے جو انصاف کو دنیا میں قائم کرنا چاہتی ہے اور یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والے صرف ہم ہیں۔ جب مَیں غیروں کے جماعت کے حق میں ایسے تبصرے سنتا ہوں اور جب بھی غیر مسلموں کے سامنے اسلام کی خوبصورت تعلیم پیش کرتا ہوں تو ساتھ ہی یہ فکر بھی پیدا ہوتی ہے، اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے کہ ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہم کس حد تک اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔ صرف یہی تو نہیں کہ ہم دنیا کے سامنے یہ خوبصورت تعلیم رکھ کر عارضی طور پر اعتراض کرنے والوں کا منہ بند کر رہے ہیں اور اسی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور جب وقت آئے اور دنیا ہمیں پرکھے تو اس تعلیم کا اعلیٰ معیار ہم میں موجودنہ ہو۔

کسی بھی جماعت کی سچائی کا پتہ یا کسی بات کی صداقت کا ثبوت اُس وقت ملتا ہے جب اپنی ذات پر ایسے حالات آئیں جو ہمیں مشکل میں ڈالنے والے ہوں اور پھر ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات کو مشکل میں ڈال کر خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اُس کی تعلیم پر اُس کے احکامات پر عمل کرنے والا ہو۔ اور اس معیار کا عمل کرنے والا ہو کہ عمل کرتے ہوئے اُس حالت سے کامیاب ہو کر نکلے۔ ورنہ تعلیم کی خوبصورتی کا بغیر عمل اظہار کسی جماعت کو من حیث الجماعت خوبصورت نہیں بنا دیتی۔ کئی غیر احمدی مسلمان ہیں جو غیروں کے سامنے یہ تعلیم پیش کرتے ہوں گے لیکن اُن کا اس تعلیم کو اسلام کی خوبصورتی کی دلیل کے طور پر پیش کرنا صرف اُن کی ذات کو شاید غیر مسلموں کی نظر میں اچھا بناتا ہوگا اور وہ اُس شخص کے اخلاق کی وجہ سے یا تعلق کی وجہ سے مذہب پر اعتراض کرنے سے رُک جاتے ہوں۔ لیکن ایک احمدی کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب وہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو ساتھ ہی اپنا تعارف ایک احمدی مسلمان کی حیثیت سے کرواتا ہے۔ اور ایسے انسان کی حیثیت سے کرواتا ہے جو اس زمانے میں اسلام کی نشأۃ ثانیہ کا دعویٰ لے کر کھڑے ہونے والے کے پیروکار ہیں۔ یہ اس بات کا تعارف کرواتا ہے کہ ہم اُس مسیح موعود اور مہدی معہود کے ماننے والے ہیں جو اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پیش کرنے آیا اور ایک جماعت قائم کی ہے۔

احمدی کی طرف سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کا بیان صرف ایک احمدی کی ذات کو تعریف کے قابل نہیں بناتا بلکہ ایک امن پسند، انصاف پر قائم رہنے والی اور سچائی کا اظہار کرنے والی، اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کرنے والی جماعت کا تصور غیروں کے سامنے اُبھرتا ہے اور اُبھرنا چاہئے۔ اور اگر کوئی احمدیوں کے قول و فعل میں تضاد دیکھتا ہے تووہ یہ نہیں کہے گا کہ فلاں شخص کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے، یااُس میں سچائی کا فقدان ہے یا وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔ بلکہ فوری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو فلاں احمدی ہے، دعوے تو اپنی نیکیوں کے یہ لوگ بڑے کرتے ہیں، جماعت اس زمانے میں اپنے آپ کو بڑا انصاف کے قیام کا علمبردار سمجھتی ہے لیکن اس میں شامل لوگ ایسے ایسے ظلموں میں ملوث ہیں۔ کئی غیر از جماعت لوگ جو احمدیوں کے ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں، جب اُن کے سامنے کاروباری مسائل اُٹھتے ہیں، مقدمے چلتے ہیں تو وہ مجھے یہی باتیں لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی تھا، ہم نے اعتبار کیا اور اب یہ یہ مسائل ہمارے پیدا ہو رہے ہیں اور انصاف سے جو گواہی دینی چاہئے وہ نہیں وہ دے رہا۔ انصاف کرتے ہوئے جو میرا حق ادا کرنا چاہئے وہ ادا نہیں کر رہا۔

پس ایک احمدی اپنے عمل سے جماعت احمدیہ کا ایک image یا تصور خراب کر رہا ہوتا ہے، ایک غلط تأثر قائم کر کے جماعت کی بدنامی کا باعث بن رہا ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ زیادہ گناہگار ٹھہرتا ہے کہ دعویٰ نیکیوں کا ہے اور عمل کچھ اَور ہے۔ یہ فکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی تھی جس وجہ سے آپ نے فرمایا تھا کہ ہماری طرف منسوب ہو کر پھر ہمیں بدنام نہ کرو۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 145 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

یہ خلاصہ آپ کے الفاظ کا میں نے بیان کیا ہے۔ یعنی کسی احمدی سے، کسی بھی سطح پر ایسا فعل سرزدنہ ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کی جماعت کی بدنامی کا موجب بنے۔

ان آیات میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ اُن پر عمل ہر سطح پر کیا جانا ضروری ہے۔ تبھی یہ باتیں فطرت کا حصہ بن کر برائیوں سے روکنے والی بنتی ہیں۔ ہر سطح پر ان باتوں کا خیال رہتا ہے کہ ہمارے عمل کیا ہونے چاہئیں؟ اور اگر اس پر صحیح طرح عمل ہو اور یہ فطرت کا خاصہ بن جائے تو کبھی کسی قسم کا غلط کام، بے انصافی یا سچائی سے دوری یا دوسرے کو نقصان پہنچانے کی سوچ انسان میں پیدا ہی نہیں ہوسکتی۔

پس اللہ تعالیٰ کی خوبصورت تعلیم اور اسلام کی خوبصورت تصویر کا اظہار اُس وقت ہو گا جب ہر احمدی ہر سطح پر اس تعلیم کا اظہار اپنے قول اور اپنے عمل سے کرے گا۔ ان آیات میں بیان شدہ معیاروں کے حصول کی کوشش ہر سطح پر اپنے گھروں میں بھی، اپنے معاشرے میں بھی، اپنوں کے ساتھ بھی، غیروں کے ساتھ بھی اور دشمنوں کے ساتھ بھی تعلقات میں ہونی چاہئے۔ تبھی ہم حقیقی مومن بن سکتے ہیں۔ تبھی اس زمانے کے امام کے ساتھ جڑنے کے دعوے اور اعلان میں ہم حق بجانب کہلا سکتے ہیں ورنہ ہمارے دعوے کھوکھلے ہوں گے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ہمارے متعلق فکر تھی کہ کہیں بدنام کرنے والے نہ بن جائیں، اُس فکر کو بڑھانے والے ہوں گے۔ پس ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آپ علیہ السلام کی اس فکر کوکم سے کم کرنے والے ہوں بلکہ ختم کرنے والے ہوں۔ پہلی بات جس کا یہاں حکم دیا گیا ہے یہ ہے کہ ہمارے ہر معاملے میں گواہی خدا تعالیٰ کی خاطر ہونی چاہئے۔ خدا تعالیٰ کے احکامات کے مطابق ہونی چاہئے۔ ہمارے دل و دماغ میں یہ خیال نہ آئے کہ اس گواہی سے یا کوئی بھی گواہی جو مَیں نے دینی ہے اُس سے کوئی ذاتی مفاد حاصل کرنا ہے۔ بلکہ صرف اور صرف یہ خیال ہو کہ مَیں نے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے اور صرف اور صرف خدا تعالیٰ کو خوش کرنا ہے۔

پھر فرمایا کہ اس کا حصول انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرنے سے ہے۔ اور انصاف کے اعلیٰ معیار سچائی پر قائم ہوئے بغیر ہو ہی نہیں سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم پر عمل کئے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتے کہ جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہ دوسرے کے لئے پسند کرو۔ اپنے لئے تو ہماری کوشش ہو کہ ہمارا حق ہمیں ملے۔ کہیں ذرا سی بھی ہماری حق تلفی ہو رہی ہو تو ہم چیخنے چلّانے لگ جاتے ہیں لیکن دوسرے کے حق کا معاملہ آئے تو کئی قسم کے عذر تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ اگر انصاف کا معاملہ آئے تو اپنے لئے تو ہم انصاف کے بارے میں تمام قرآنی احکامات فیصلہ کرنے والے کے سامنے رکھ دیں گے۔ بڑی محنت سے احادیث تلاش کر کے ان کے حوالے سے حق تلفی کرنے والے اور فیصلہ کرنے والے کو خوفِ خدا دلاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ لیکن جب خود ہم سے انصاف پر قائم ہوتے ہوئے سچی گواہی کا مطالبہ ہو تو سچی گواہی دینے کی بجائے، حق بات کہنے کی بجائے، پیچدار اور الجھی ہوئی باتیں کر کے معاملے کو بگاڑنے کی یا اپنے حق میں کرنے کی یا اپنے قریبیوں کے حق میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو یہ چیز ایک مومن، حقیقی مومن میں نہیں ہونی چاہئے۔

پس حقیقی مومن کو حکم ہے کہ خدا کی رضا کو مقدم کرو اور باقی سب باتیں اُس کے تابع کرو۔ اور یہ اُس وقت ہو گا جب اتنی جرأت پیدا ہو جائے کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینے سے انسان گریز نہ کرے۔ اس کی کچھ بھی پرواہ نہ ہو کہ حق بات بتانے کی وجہ سے سچی گواہی کی وجہ سے میں خود کتنی مشکلات میں گرفتار ہو سکتا ہوں۔ یا میرے عزیز رشتہ دار، میرے بچے، اگر میں اُن کے خلاف گواہی دوں تو کس مشکل میں گرفتار ہو سکتے ہیں یا میرے اپنے والدین یا بچوں یا عزیزوں، دوستوں کے خلاف گواہی سے مجھے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہماری سوچ یہ ہونی چاہئے کہ حق بات پر قائم رہنے کے لئے، انصاف پر قائم رہنے کے لئے ہمیں اپنے ماحول اور اپنے عزیزوں، بزرگوں کی ناراضگی بھی مول لینی پڑے تو ہم لے لیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہاری امارت یا غربت تمہارے فائدے یا نقصان اور تمہاری چالاکیوں یا جھوٹی گواہیوں یا انصاف سے دور جانے سے نہیں ہے بلکہ یہ فائدے نقصان اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر منحصر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو تمہیں فائدہ دے۔ نہیں تو تمہاری کوشش بھی ہو تو تم فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ جھوٹی گواہیاں تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتیں۔ ہاں ایک عارضی دنیاوی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اُس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے اُس کے نقصان اتنے زیادہ ہوں گے جو برداشت سے باہر ہوں گے۔ فرمایا کہ اس لئے اللہ تعالیٰ کو دوست بناؤ اور اُسی کا قرب حاصل کرو۔ اور ہمیشہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے صاف اور سیدھی بات کرو۔ اپنے عائلی معاملات میں، گھریلو معاملات میں بھی، معاشرتی معاملات میں بھی، دنیاوی معاملات میں بھی سچائی کو ہمیشہ پکڑے رکھو۔ انصاف کے قیام کی ہمیشہ کوشش کرو۔ اپنی خواہشات کی پیروی کر کے عدل اور انصاف سے دور جانے کی بجائے، گھماؤ پھراؤ والی باتیں کر کے معاملے کو الجھانے کی بجائے یا سچی گواہی کو چھپانے کی بجائے اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے کی بجائے ایک مومن کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی رضا کو اپنا محور بنانا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایک واقعہ آتا ہے جہاں آپ کو گواہی دینی پڑی۔ زمینداری کا معاملہ تھا اور جو مزارعین تھے اُن کے ساتھ درختوں کا جھگڑا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہمیشہ سچائی پر قائم رہتے ہوئے گواہی دیں گے حالانکہ آپ کے والد کا اور آپ کے خاندان کی جائیداد کا معاملہ تھا، زمین کا معاملہ تھا، کوئی درختوں کی ملکیت کا معاملہ تھا۔ جب گواہی دی گئی، آپ کو بلایا گیا تو آپ نے جج کے سامنے یہی کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں کا ہی حق بنتا ہے اور ان کو ان کا یہ حق ملنا چاہئے۔ اس کی وجہ سے آپ کے خاندان والے، آپ کے والدناراض بھی ہوئے لیکن آپ نے کہا جو میں نے حق سمجھا، جو سچی چیز سمجھی وہ میں نے گواہی دے دی۔ (تاریخ احمدیت جلداول ص 72-73، رجسٹرروایات (غیر مطبوعہ) جلدنمبر9 صفحہ 192تا 194 روایت حضرت میاں اللہ یار صاحب ٹھیکیدار)

تو یہ معیار ہیں جو زمانے کے امام نے ہمارے سامنے پیش کئے۔ اور یہ معیار ہیں جو ہمیں اب قائم کرنے چاہئیں اور یہی معیار ہیں جن کو حاصل کرنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین فرمائی ہے۔

فرماتا ہے یاد رکھو کہ تمہاری جھوٹی گواہیوں سے تم دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کو نہیں۔ فرمایا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا۔ کہ یقینا اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل اور ہر بات سے اچھی طرح باخبر ہے۔ اُس سے کچھ چھپایا نہیں جا سکتا۔ پس ایک طرف یہ دعویٰ کہ ہم معاشرے میں امن اور سلامتی پھیلانا چاہتے ہیں۔ سچائی پر قائم ہوتے ہوئے دنیا کو ہدایت کے راستے دکھانا چاہتے ہیں۔ اور دوسری طرف اگر ہم اپنے قول و فعل میں معمولی دنیاوی فائدوں کے لئے تضاد رکھنے والے ہوں تو ہم سچائی پر قائم ہونے والے نہیں، انصاف کو قائم کرنے والے نہیں، امن اور سلامتی کو پھیلانے والے نہیں بلکہ معاشرے کے فتنہ و فساد کا حصہ بن رہے ہوں گے۔

پس ایک مومن کا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا دعویٰ اور ظلم روکنے کا دعویٰ تبھی سچا ہو سکتا ہے جب وہ انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ اپنی گواہیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے یہ معیار کن بلندیوں پر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لئے سورۃ مائدہ کی جو آیت مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں فرمایا کہ صرف تمہارے معاشرے میں، تمہارا جو چھوٹا ماحول ہے، اُسی میں تمہاری گواہیاں انصاف کے قائم کرنے کے لئے نہ ہوں بلکہ تمہارے دشمن بھی اگر تمہارے سے انصاف حاصل کرنا چاہیں تو وہ بھی انصاف حاصل کرنے والے ہوں۔ اُن کو بھی یہ یقین ہو کہ تم جو بات کہو گے حق و انصاف کی کہو گے۔ یا دشمن پر یہ ظاہر کر دو کہ ایک مومن ہر کام تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرتا ہے۔ کسی کی دشمنی ہمیں انصاف اور سچائی سے دور نہیں ہٹا سکتی۔ ہمارے دل تو دشمنی سے پاک ہیں۔ ہم تو یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہمیں کسی سے نفرت یا دشمنی نہیں ہے۔ لیکن دشمن کے دل کے کینے، بغض اور دشمنی بھی ہمیں اس بات کی طرف مائل نہیں کرے گی کہ ہم غلط طور پر اُسے نقصان پہنچانے کے لئے انصاف سے ہٹی ہوئی بات کہیں گے۔ یہ خوبصورت تعلیم ہے جو ہم غیروں کے سامنے پیش کرتے ہیں اور اُن پر اسلامی تعلیم کی خوبیاں واضح کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہماری باتیں سن کر اسلام کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہماری باتیں بیشک دنیا کو ہماری طرف متوجہ کرتی ہیں لیکن ہماری سچی گواہی دینے کی باتیں، ہماری انصاف کے قائم کرنے کی باتیں، ہماری معاشرے میں دشمنیاں دور کرنے کی باتیں، ہماری امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی باتیں حقیقت میں دنیا کو اُس وقت اپنی طرف متوجہ کریں گی جب ہمارے عملی اظہار بھی اُس کے مطابق ہو رہے ہوں گے۔

پس اللہ تعالیٰ نے یہ فرماکر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی ہے کہ قَوَّام بن کر کھڑے ہو جاؤ۔ یعنی انتہائی گہرائی میں جا کر (کام کرو)۔ قَوَّام کا مطلب ہے کہ انتہائی گہرائی میں جا کر اور مسلسل اور مستقل مزاجی سے کوشش کرتے ہوئے انصاف قائم کرو یا کوئی بھی کام کرو۔ یہاں کیونکہ انصاف کا ذکر ہے اس لئے گہرائی میں جا کر انصاف کے تمام تقاضے پورے کرو اور پھر مسلسل اور مستقل مزاجی سے اس کو قائم کرنے کی کوشش کرو۔ یہ گہرائی میں جا کر اور انتھک اور مسلسل کوشش ہے جس کے نتیجہ میں دنیا میں انصاف بھی قائم ہو گا اور سلامتی کا اور امن کا پیغام بھی دنیا کو ملے گا۔

پس آج دنیا میں انصاف قائم کرنے، سچائی کو پھیلانے، امن اور سلامتی کی ضمانت بننے کا کام مسلسل اور باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا ایک مومن کا کام ہے، ایک حقیقی احمدی کا کام ہے۔ اس زمانے میں احمدی مسلمان ہی ہیں جو اس دعوی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں، ہم حقیقی مومن ہیں کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔ کیونکہ ہم نے اسلام کی حقیقی تعلیم سے آگاہی حاصل کی ہے اور زمانے کے امام کو مان کر صرف ذوقی اور علمی آگاہی اللہ تعالیٰ کے احکامات کی حاصل نہیں کی بلکہ ہم ان احکامات پر کاربند ہونے کا عملی نمونہ بننے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا ہمیں یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم انصاف پر قائم ہیں۔ کس حد تک ہم سچائی پر قائم ہیں۔ ہم اپنے دلوں کو ٹٹولیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جس طرح اپنے خلاف اور اپنے والد کے خلاف گواہی دے کر دنیاوی فائدے کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی، آج ہم آپ سے جڑنے کا دعویٰ کر کے یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اگر ہم حقیقت میں یہ معیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہوں تو پھر یہ دیکھنے اور سوچنے والی بات ہے کہ ہمارے گھروں میں بے اعتمادی کی فضا کیوں ہے؟ جن گھروں میں یہ بے اعتمادی کی فضا ہے وہ جائزے لیں میاں بیوی کے تعلقات میں پیارو محبت کیوں نظر نہیں آتا۔ بچے کیوں اس وجہ سے ڈسٹرب ہیں؟ بھائی بھائی کے رشتے میں دراڑیں کیوں پڑ رہی ہیں؟ بدظنیوں کی وجہ سے یا سچائی کی کمی کی وجہ سے تعلقات کیوں ٹوٹ رہے ہیں؟ دوستی کی بنیاد پر شروع کئے گئے کاروبار ناراضگیوں اور مقدموں پر کیوں منتج ہو رہے ہیں؟ قضاء میں مقدمات کی تعداد میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ یا عدالتوں میں کیوں زیادہ مقدمات احمدیوں کی طرف سے بھی جانے لگ گئے ہیں؟ ظاہر ہے دلوں کی حالت اور ظاہری حالت یا قول میں تضاد ہے۔ اپنے لئے کچھ اور معیار ہیں اور دوسروں کے لئے کچھ اَور۔ پس ہر احمدی کو، چاہے وہ جماعتی خدمات پر مامور عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے اس بارے میں فکر کی ضرورت ہے کہ ہمارے سامنے جو دنیا کو انصاف دینے اور سچائی پھیلانے کا اتنا بڑا کام ہے، اُس کو ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے کس طرح سرانجام دے سکتے ہیں تاکہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اُس کی مغفرت کی چادر میں لپٹ سکیں تاکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر پانے والے ٹھہر سکیں۔ یقینا اس کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے احکامات پر نظر رکھنی ہو گی۔ اُن پر عمل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ کی حفاظت جیسا اور کوئی محفوظ قلعہ اور حصار نہیں۔ لیکن ادھوری بات فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ جب پیاس لگی ہوئی ہو تو صرف ایک قطرہ پی لینا کفایت کرے گا یا شدتِ بھوک سے ایک دانہ یا لقمہ سے سیر ہو جاوے گا؟ بالکل نہیں۔ بلکہ جب تک پورا سیر ہو کر پانی نہ پئے یا کھانا نہ کھا لے، تسلّی نہ ہو گی۔ اسی طرح جب تک اعمال میں کمال نہ ہو وہ ثمرات اور نتائج پیدا نہیں ہوتے جو ہونے چاہئیں۔ ناقص اعمال اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کرسکتے اور نہ وہ بابرکت ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا یہی وعدہ ہے کہ میری مرضی کے موافق اعمال کرو۔ پھر مَیں برکت دوں گا‘‘۔ (ملفوظات جلد چہارم صفحہ 639 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذمہ دنیا کو امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کی جو ذمہ داری ڈالی ہے اُس کے لئے ہر سطح پر ہمیں انصاف کو قائم کرنا ہو گا۔ سچائی کو قائم کرنا ہوگا۔ انصاف اللہ تعالیٰ کے احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور عمل کرنے سے قائم ہوتا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی میں بھی گہرائی میں جا کر اُن کو جاننے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات کو گہرائی میں جا کر جاننے اور اُن پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے تا کہ جہاں ہم اپنے گھروں اور اپنے معاشرے کو انصاف پر قائم رکھتے ہوئے جنت نظیر بنائیں، وہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کی روشنی میں تبلیغ کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں۔ دنیا پر حقیقی انصاف کی تعلیم واضح کر کے اُسے تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے والے ہوں۔ دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بے خبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 26؍ اپریل 2013ء شہ سرخیاں

    حقیقی مومن کو حکم ہے کہ خدا کی رضا کو مقدم کرو اور باقی سب باتیں اُس کے تابع کرو۔ اور یہ اُس وقت ہو گا جب اتنی جرأت پیدا ہو جائے کہ اپنے خلاف بھی گواہی دینے سے انسان گریز نہ کرے۔ اس کی کچھ بھی پرواہ نہ ہو کہ حق بات بتانے کی وجہ سے، سچی گواہی کی وجہ سے میں خود کتنی مشکلات میں گرفتار ہو سکتا ہوں۔ یا میرے عزیز رشتہ دار، میرے بچے، اگر میں اُن کے خلاف گواہی دوں تو کس مشکل میں گرفتار ہو سکتے ہیں یا میرے اپنے والدین یا بچوں یا عزیزوں، دوستوں کے خلاف گواہی سے مجھے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    ایک مومن کا ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے کا دعویٰ اور ظلم روکنے کا دعویٰ تبھی سچا ہو سکتا ہے جب وہ انصاف کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ سچائی کے اعلیٰ معیار قائم کرتا ہے۔ اپنی گواہیوں کو خدا تعالیٰ کے احکامات کے تابع کرتا ہے۔

    آج دنیا میں انصاف قائم کرنے، سچائی کو پھیلانے، امن اور سلامتی کی ضمانت بننے کا کام مسلسل اور باریک در باریک پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے کرنا ایک مومن کا کام ہے، ایک حقیقی احمدی کا کام ہے۔ اس زمانے میں احمدی مسلمان ہی ہیں جو اس دعوی کا اظہار کرتے ہیں کہ ہم حقیقی مسلمان ہیں، ہم حقیقی مومن ہیں کیونکہ ہم نے زمانے کے امام کو مانا ہے۔

    ہر احمدی کو چاہے وہ جماعتی خدمات پر مامور عہدیدار ہے یا عام احمدی ہے اس بارے میں فکر کی ضرورت ہے کہ دنیا کو انصاف دینے اور سچائی پھیلانے کا جو اتنا بڑا کام ہمارے سامنے ہے، اُس کو ہم اپنی اصلاح کرتے ہوئے کس طرح سرانجام دے سکتے ہیں تاکہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کر سکیں۔

    فرمودہ مورخہ 26اپریل 2013ء بمطابق 26 شہادت 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور