توحید اور تقویٰ کے اعلیٰ معیار
خطبہ جمعہ 3؍ مئی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوااللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ۔ وَاتَّقُوْاللّٰہَ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ۔ وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْااللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ۔ اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ (سورۃ الحشر 19۔ 20)
ان آیات کا ترجمہ ہے کہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کا تقوی اختیار کرو اور ہر جان یہ نظر رکھے کہ وہ کل کے لئے کیا آگے بھیج رہی ہے۔ اور اللہ کا تقوی اختیار کرو۔ یقینا اللہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے انہیں خود اپنے آپ سے غافل کردیا۔ یہی بدکردار لوگ ہیں، فاسق لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے بنیادی شرط تقویٰ رکھی ہے۔ اس بارے میں قرآنِ کریم میں بیشمار آیات ہیں جن میں تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ پر قائم رہو کی تلقین مختلف حوالوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے، مختلف احکامات دئیے ہیں۔ اور ان احکامات پر عمل کرنے والوں کو تقویٰ پر چلنے والا یا متقی کہا ہے۔ اور عمل نہ کرنے والوں کو اُن کے انجام سے خوف دلایا۔
تقویٰ کیا ہے؟ اس کی جو تعریف یا مختصر الفاظ میں خلاصہ جو قرآنِ کریم سے ہمیں ملتا ہے، وہ یہ لیا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے، خدا تعالیٰ کو واحد و یگانہ اور سب طاقتوں کا منبع سمجھتے ہوئے اُس کے حقوق ادا کرنا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے کہ:
’’خدا تعالیٰ کی اَمانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قویٰ اور اعضاء ہیں، جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں، ان کو جہاں تک طاقت ہو، ٹھیک ٹھیک محلِّ ضرورت پر استعمال کرنا اور ناجائز مواضع سے روکنا اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبّہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا، یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے‘‘۔ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ 209-210)
پس یہ وہ معیار ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بیان فرمایا اور اس کی ہم سے توقع بھی کی۔ چند جمعے پہلے بھی میں نے امانتوں اور عہدوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی کہ ان کی ادائیگی ایمان سے وابستہ ہے اور عہدیداروں کے حوالے سے باتیں ہوئی تھیں۔ آج میں اس کی کچھ مزید بات کرتا ہوں۔ آج کے اس دور میں ایمان لانے والوں میں سے احمدی وہ خوش قسمت ہیں جن کو اس باریکی سے خدا تعالیٰ سے تعلق کی طرف توجہ دلائی گئی۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہم پر احسان ہے کہ کھول کھول کر اُن اعلیٰ مدارج کے راستے دکھاتے ہیں جن سے ایک مومن خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکتا ہے۔ یقینا ہر انسان کا معیار، نیکی کا معیار بھی، فراست کا معیار بھی، سمجھ کا معیار بھی، علم کا معیار بھی مختلف ہوتا ہے، ہر ایک کا معیار ایک جیسا نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ہر ایک کو یہ حکم ہے کہ اپنی استعدادوں اور صلاحیتوں کی انتہا تک اللہ تعالیٰ سے کئے گئے عہد اور اُس کی امانتوں کی ادائیگی کو پہنچاؤ۔ اگر کوشش کر کے ہر مومن یہ انتہا حاصل کرنے کی طرف متوجہ رہے گا تو تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا شمار ہو گا۔ ہاتھ، پیر، کان، آنکھ کا استعمال ہے تو ان کے صحیح استعمال کا حکم ہے۔ جن باتوں کے کرنے سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اُن سے رُکنا فرض ہے۔ یہ ظاہری اعضاء صرف مخلوق کے حق کی ادائیگی کے لئے نہیں ہیں کہ ان سے مخلوق کا حق ادا کرو، یا اگر حق ادا نہیں کرتے، عدم ادائیگی ہے تو تم پوچھے جاؤ گے۔ بلکہ بہت سے ایسے کام ہیں جن کا مخلوق سے براہِ راست تعلق نہیں ہوتا اور اُن سے مخلوق کو کوئی نقصان یا فائدہ بھی نہیں پہنچ رہا ہوتا۔ اگر ہم گہری نظر سے دیکھیں تو جو بعض عمل انسان کرتا ہے انسان کی اپنی ذات کو ہی اُس کا فائدہ اور نقصان پہنچ رہا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اُس کے کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ جن کے نہ کرنے کا حکم ہے اُن کو کر کے انسان اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدوں کو پھلانگ رہا ہوتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حق قائم کئے ہیں اُن کو توڑ رہا ہوتا ہے اور پھر جن کے کرنے کا حکم ہے انہیں نہ کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے انسان باہر نکل رہا ہوتا ہے۔ پس انسان کسی بھی کام کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے خلاف کر کے یا نہ کر کے خدا تعالیٰ کی حدوں کو توڑ کر تقویٰ سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اور جوں جوں تقویٰ سے دوری ہوتی ہے انسان شیطان کی جھولی میں گرتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ ایک مومن نہ صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف کام نہ کرے بلکہ شیطان جو چھپ کر حملہ کرتا رہتا ہے اُن حملوں سے بھی آگاہ رہے۔ ہر وقت اس کی نظر شیطان کے حملوں کی طرف ہو کہ کہیں وہ اُس پر حملہ آور نہ ہو جائے اور پھر اس آگاہی کی وجہ سے شیطان کے پوشیدہ حملوں سے اپنے آپ کو بچائے۔
شیطان کے حملے مختلف طریقوں سے ہوتے ہیں۔ اس زمانے کی ایجادات میں بھی بہت سی ایسی ہیں جو خود انسان کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہیں۔ اُن کے اچھے مقاصد کی بجائے وہ ایسے کاموں کے لئے استعمال ہو رہی ہوتی ہیں جہاں شیطان کے حملے کا خطرہ ہے یا شیطان کا حملہ ہو رہا ہوتا ہے۔ عبادتوں سے دور لے جا رہی ہوتی ہیں۔ اخلاق پر برا اثر ڈال رہی ہوتی ہیں۔ بظاہر انسان سمجھتا ہے کہ یہ میرے ذاتی معاملات ہیں اور کسی کو کیا کہ میں جؤا کھیلتا ہوں۔ یا رات گئے تک انٹرنیٹ پر فلمیں دیکھتا ہوں اور ٹی وی دیکھتا ہوں یا اس قسم کے اور کام کرتا ہوں۔ بہت سارے ایسے غلط کام انسان کرتا ہے اور اُس کے خیال میں کسی کو اُن سے غرض نہیں ہونی چاہئے کیونکہ وہ کسی کو براہِ راست نقصان نہیں پہنچا رہے۔ لیکن جو غلط کام ہے، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق نہیں ہے، اُس کی مرضی کے خلاف ہے، وہ اسے پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت سے بھی دُور لے جاتا ہے، اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے سے بھی دُور لے جاتا ہے اور بندوں کے حق ادا کرنے سے بھی دُور لے جاتا ہے۔ ان ملکوں میں شرابیں، جؤا، انٹرنیٹ، گندی اور لغو فلمیں ہیں، غلط دوستیاں ہیں۔ یہ جہاں گھروں کو اُجاڑ رہی ہوتی ہیں وہاں نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈال کر خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان سے بھی ہٹا کر معاشرے کا ناسور بنا رہی ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ایک مستقل بیماری بن رہے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے ہر عضو کا اور ہر سوچ کا اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق اور بر محل استعمال تمہیں تقویٰ میں بڑھائے گا اور اس کے خلا ف عمل تمہیں شیطان کی گود میں پھینک دے گا اور جو شیطان کی گود میں گرتا ہے وہ یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوتا ہے۔
ان آیات میں، جن کا ترجمہ بھی آپ نے سن لیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان لانے کے بعد تقویٰ اختیار کرو۔ اے مومنو جو ایمان لائے ہو، اللہ کا تقویٰ اختیار کرو۔ یہ دنیا اور اس کی رنگینیاں اور آسانیاں اور آسائشیں تمہارا سب کچھ نہ ہوں، بلکہ یہ دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر تم نے کیا عمل کئے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کئے گئے عمل ہی ہیں جو اگلے جہان میں کام آنے ہیں یا اگلے جہان میں کام آتے ہیں۔ دنیا کی تمام رنگینیاں اور مزے اور لذتیں اور آسائشیں اسی دنیا میں رہ جانی ہیں۔ پس اپنے جائزے لیتے رہو۔ کیونکہ گناہوں کی جڑ یہی ہے کہ انسان اپنے عملوں سے لاپرواہ ہو جاتا ہے۔ خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ پس اگر اگلے جہان کی دائمی زندگی میں اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا وارث بننا ہے تو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان رکھتے ہوئے اُس کی رضا کی راہوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے مقصدِ پیدائش کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
یہ پہلی آیت جو میں نے پڑھی تھی، یہ نکاح پر پڑھی جانے والی آیتوں میں سے بھی ایک آیت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں جہاں انسان کو خود آئندہ زندگی کی فکر کی طرف توجہ دلا رہا ہے، وہاں آئندہ پیدا ہونے والی نسل کی تربیت اور اُن کو دنیا کے بجائے نیکیوں میں آگے بڑھنے کی طرف توجہ دلانے کا بھی ارشاد فرما رہا ہے۔ خاص طور پر جو آیات نکاح میں پڑھی جانے والی ہیں یہ اُن میں سے ایک آیت ہے۔ کیونکہ نیک اولاد، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی اولاد جہاں اپنی عاقبت سنوارنے والی ہو گی، وہاں نیک اولاد کے عمل اور اُن کی دعائیں جو وہ والدین کے لئے کر رہے ہیں، والدین کے درجات اگلے جہان میں بھی بلند کرنے کا باعث بن رہی ہوں گی۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی شادی کے موقع پر بھی یہ بات یاد رکھو کہ دنیا اور اس کی تمام آسائشیں، آسانیاں، مزے اور لذتیں عارضی چیز ہیں۔ شادی اور دنیاوی ملاپ یہ سب عارضی لذات ہیں۔ اصلی لذت خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول میں ہے جو اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس کے پھل ایک مومن پھر اگلے جہان میں بھی کھاتا ہے۔ پس ایک مومن کو بار بار مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ تنبیہ اور تلقین فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو کبھی نہ بھولو، تقویٰ پر قائم رہو، ایسے اعمال بجا لاؤ جو اس جہان کو بھی اور اگلے جہان کو بھی سنوارنے والے ہوں۔ اِس جہان میں بھی تم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو اور آئندہ زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بنو اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ہر عمل کی خبر رکھنے والا ہے۔ اُس کی نظر سے انسان کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر عمل کا حساب کتاب رکھا جا رہا ہے۔ اس لئے انسان کو بہت پھونک پھونک کے اس دنیا میں اپنے قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ ایمان لانا اور ایمان کا دعویٰ کرنا صرف کافی نہیں ہے بلکہ تقویٰ کی راہوں کی تلاش اور اُن پر عمل ضروری ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مجلس میں فرماتے ہیں کہ
’’اسلام میں حقیقی زندگی ایک موت چاہتی ہے جو تلخ ہے۔ لیکن جو اُس کو قبول کرتا ہے آخر وہی زندہ ہوتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ انسان دنیا کی خو اہشو ں اور لذّتو ں کو ہی جنّت سمجھتا ہے حالانکہ وہ دوزخ ہے۔ اور سعید آدمی خدا کی راہ میں تکالیف کو قبول کرتا ہے اور وہی جنّت ہوتی ہے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ دنیا فا نی ہے اور سب مر نے کے لیے پیدا ہو ئے ہیں۔ آخر ایک وقت آجا تا ہے کہ سب دو ست، آشنا، عز یز واقارب جد اہو جا تے ہیں۔ اس وقت جس قد ر نا جائز خو شیوں اور لذّتوں کو را حت سمجھتا ہے وہ تلخیو ں کی صو رت میں نمو دا ر ہو جا تی ہیں۔ سچّی خو شحالی اور راحت تقویٰ کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور تقویٰ پر قائم ہونا گویا زہر کا پیالہ پینا ہے۔‘‘ (یعنی بظاہر بہت مشکل کام ہے) ’’متقی کے لیے خدا تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے‘‘۔ (لیکن جب انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ساری راحتوں کے سامان مہیا کر دیتا ہے) فرمایا: ’’مَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہُ مَخْرَجًا وَ یَرْ زُ قْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ (سورۃ الطلاق3-4) پس خوشحالی کا اصول تقویٰ ہے۔ لیکن حصولِ تقوی کیلئے نہیں چاہئے کہ ہم شرطیں باندھتے پھریں۔ تقویٰ اختیار کرنے سے جو مانگو گے ملے گا۔ خد اتعالیٰ رحیم وکریم ہے۔ تقویٰ اختیار کرو جو چاہو گے وہ دے گا‘‘۔ (ملفوظات جلدسوم صفحہ 90۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
یعنی شرط یہ نہیں رکھنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ دے تو ہم نیکیاں کریں۔ بلکہ نیکیاں کرو، تقویٰ اختیار کرو، اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرو، پھر اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو مانگو وہ دیتا بھی ہے۔
پس تقویٰ پر چلنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعامات کو حاصل کرنے والا بن سکتا ہے، بن جاتا ہے۔ لیکن ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لیتے رہنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہوا ہے۔ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے تقویٰ پر چلنے کا عہد کیا ہے۔ اس لئے ہم نے اپنے قول و فعل کو ایک کرنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’تقویٰ کا مرحلہ بڑا مشکل ہے۔ اُسے وہی طے کر سکتا ہے جو بالکل خدا تعالیٰ کی مرضی پر چلے۔ جو وہ چاہے وہ کرے۔ اپنی مرضی نہ کرے۔ بناوٹ سے کوئی حاصل کر نا چاہے تو ہر گر نہ ہو گا۔‘‘ (تقویٰ ایسی چیزنہیں کہ بناوٹ سے حاصل ہو جائے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا) ’’اس لیے خدا کے فضل کی ضرورت ہے اور وہ اسی طرح سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو دعا کرے اور ایک طرف کوشش کرتا رہے۔ خدا تعالیٰ نے دعا اور کوشش دونو کی تا کید فرمائی ہے‘‘۔ (ملفوظات جلدسوم صفحہ 492۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’کو ئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بناوے۔ جب خدا تعالیٰ کے دروازہ پر تذلّل اور عجزسے اس کی روح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کر ے گا اور وہ متقی بنے گا اور اس وقت وہ اِس قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو سمجھ سکے‘‘۔ (عاجزی اور تذلّل اختیار کرو۔ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل چاہئے۔ فضل ہو گا تو یہ ملے گا۔ اور جب یہ ملے گا تو تقویٰ حاصل ہو گا۔ اور جب تقویٰ حاصل ہو گا تو تبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دین یا اسلام کی حقیقت کو انسان سمجھ سکے گا)۔ فرمایا: ’’اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کرکے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سن سنا کر بجالا تا ہے۔‘‘ (کہ باپ دادا یہ کر رہے ہیں، مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوا، مسلمان ہوں۔ احمدی کے گھر میں پیدا ہوا، احمدی مسلمان ہوں۔ تو اُس کی تقلید میں یہ کام کر رہا ہے۔ یہ نہیں، اصل چیز تقویٰ ہے اور تقویٰ حاصل ہوتی ہے کوشش اور عمل سے، عاجزی اور انکساری اختیار کرنے سے، دعا کرنے سے۔ فرمایا کہ یہ جو آبائی تقلید سے سن سنا کر بجا لاتا ہے۔ ’’کوئی حقیقت اور روحانیت اس کے اندر نہیں ہو تی‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 493۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
صرف نری تقلید جو ہے، اُس سے روحانیت پیدا نہیں ہوتی۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں۔ متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 572۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ کے فضل سے من حیث الجماعت بیشک اللہ تعالیٰ کے بیشمار فضل ہم جماعت پر دیکھتے ہیں، جماعت کی ترقی بھی ہم دیکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ ایک خاص سلوک بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انتہائی نامساعد حالات میں بھی جماعت کو اللہ تعالیٰ دشمن کے منہ سے نکال لاتا ہے۔ جماعت کی ایک اچھی تعداد یقینا تقویٰ پر چلنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں کی بھی ہے۔ لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت باندھ کر ہم میں سے ہر ایک وہ معیارِ تقویٰ حاصل کرے، وہ خدا تعالیٰ کا قرب ہمیں حاصل ہو جو ایک حقیقی مسلمان کا ہونا چاہئے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ اور وہ کیا ہے؟ وہ یہی ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کو ہمیشہ یاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ کا تو کچھ حرج نہیں کرو گے۔ اللہ کا تو اس میں کوئی نقصان نہیں ہے، ہاں یہ غفلت خود تمہیں نقصان پہنچانے والی ہو گی۔ خدا تعالیٰ کو بھلانے والے وہ لوگ ہیں جو ایمان میں کمزور ہیں، کامل ایمان نہیں رکھتے، یا بھول جاتے ہیں کہ ہم نے ایک دن اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونا ہے اور اس وجہ سے پھر ایسے عمل ہونے لگتے ہیں جن سے اُن کی اخلاقی اور روحانی حالت انحطاط پذیر ہو جاتی ہے، گرنے لگ جاتی ہے، دنیا دین پر مقدم ہو جاتی ہے، نہ یہ کہ دین دنیا پر مقدم ہو۔ ایسے دنیا دار اگلے جہان میں خدا تعالیٰ کا کیا سلوک دیکھیں گے وہ تو خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ لیکن اس دنیا میں بھی اُن کے دنیا میں پڑنے کی وجہ سے اُن کا ذہنی سکون برباد ہو جاتا ہے۔ کئی لوگ ہم دیکھتے ہیں ذرا سے مالی نقصان پر دنیاوی نقصان پر ایسے روگ لگاتے ہیں کہ پھر کسی قابل نہیں رہتے۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایمان کا دعویٰ ہے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی کوشش نہیں ہے۔ ایمان کے دعوے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اُس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ نہیں ہے۔ تو یہ بات صاف ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کامل نہیں ہے۔ جب ایمان میں کمزوری ہے اور اصلاح کی طرف توجہ نہیں ہے تو پھر دنیا میں بے سکونی کی زندگی ہو گی۔ اور یہی نہیں، ایسا شخص پھر فاسقوں میں شمار ہو گا۔ فاسق کے یہاں یہ معنی ہوں گے کہ احکامِ شریعت کو اپنے اوپر لاگو کرنے کا عہد کر کے پھر بعض یا تمام احکام کی خلاف ورزی کرنا۔ پھر قرآنِ کریم میں اَور جگہوں پر اگر ہم دیکھیں، اُن آیتوں کی رُو سے یہ معنی بھی ملتے ہیں کہ نعمتِ الٰہی کی ناشکری کر کے دائرہ اطاعت سے خارج ہونا۔ یا جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کی ناشکری کرے گاوہ دائرہ اطاعت سے باہر نکلا ہوا سمجھا جائے گا اور یوں فاسقوں یا بدکرداروں میں شمار ہوگا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر کے ہم نے یہ عہد کیا ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھیں گے۔ جو بھی حالات ہوں، کبھی بھی خدا تعالیٰ کے احکامات کو نہیں بھلائیں گے۔ دوسرے ایک احمدی پر اللہ تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اُسے اُس نعمت سے حصہ دیا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کو آگے بڑھانے اور اسلام کی تجدید کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صورت میں بھیجی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے تو سب سے بڑی نعمت نبوت کی نعمت ہے جس کے لئے مسلمانوں میں عجیب دو عملی دیکھتے ہیں کہ دعا بھی مانگتے ہیں اور انکار بھی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ ہم وہ خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمیں اُس نے اس نعمت کو قبول کرنے کی توفیق دی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں اور آپ کے طفیل ملنے والی نعمت تھی اور ہم اُن لوگوں میں شمار ہوئے جو اس انعام میں سے حصہ پانے والے ہیں اور حقیقت میں انعام سے حصہ پانے والے اور اس کی شکر گزاری ادا کرنے والے ہم تبھی ہو سکتے ہیں جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات اور توقعات پر پورا اترنے والے ہوں، اس کے لئے کوشش کرنے والے ہوں۔ ورنہ ہم اللہ تعالیٰ کو بھلانے والے اور اپنی غفلتوں میں ڈوب جانے والے ہوں گے اور نتیجۃً خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے ہوں گے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں توحید کے قیام کے لئے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے آئے تھے اور حقیقی تقویٰ بھی اُسی وقت قائم ہوتا ہے جب خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر کامل یقین ہواور اُس کی رضا مقصود و مطلوب ہو اور خدا تعالیٰ کی توحید میں انسان کھویا جائے اور جب یہ ہو جائے تو حقیقی تقویٰ انسان میں پیدا ہوتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’توحید صرف اِس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہیں اور دل میں ہزاروں بُت جمع ہوں۔ بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بُت پرست ہے۔ بُت صرف وہی نہیں ہیں جو سونے یا چاندی یا پیتل یا پتھر وغیرہ سے بنائے جاتے ہیں اور اُن پر بھروسہ کیا جاتا ہے بلکہ ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دی جائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں بُت ہے‘‘۔ فرمایا: ’’یاد رہے کہ حقیقی توحید جس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بُت ہو، خواہ انسان ہو، خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس، یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو، منزّہ سمجھنا اور اُس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا۔ کوئی رازق نہ ماننا۔ کوئی مُعِز اور مُذِل خیال نہ کرنا‘‘۔ یعنی یہ ہمیشہ یاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بالا ہے اور دنیا کی کوئی چیز، ہر عزت اور ذلت جو انسان کو ملتی ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، کوئی انسان نہ کسی کو معزز بنا سکتا ہے نہ ذلیل کر سکتا ہے۔ پس یہ ہے توحید کا اصل کہ اللہ تعالیٰ ہی کو عزت دینے والا اور ذلّت دینے والا سمجھنا۔ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو انسان کو عزتوں کا مالک بھی بناتا ہے اور اگر اُس کے غلط کام ہوں تو اُس کو ذلیل و رسوا بھی کرتا ہے۔
پھر فرمایا کہ: ’’کوئی ناصر اور مددگار قرار نہ دینا‘‘۔ خدا تعالیٰ کے علاوہ کوئی مددگار نہ ہو۔ ’’اور دوسرے یہ کہ اپنی محبت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنی عبادت اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا تذلّل اُسی سے خاص کرنا‘‘۔ بعض لوگ جو انسانوں کے آگے جھکتے ہیں، فرمایا نہیں، ہر قسم کی عاجزی اور تذلّل صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہو۔ ’’اپنی امیدیں اُسی سے خاص کرنا۔ اپنا خوف اُسی سے خاص کرنا‘‘۔ فرمایا: ’’پس کوئی توحید بغیر اِن تین قسم کی تخصیص کے کامل نہیں ہو سکتی۔ اوّل ذات کے لحاظ سے توحید۔ یعنی یہ کہ اُس کے وجود کے مقابل پر تمام موجودات کو معدوم کی طرح سمجھنا‘‘۔ یعنی اُن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ’’اور تمام کو ہالکۃ الذات اور باطلۃ الحقیقت خیال کرنا‘‘۔ یعنی ہر چیز اپنی ذات میں فنا ہونے والی ہے اور حقیقت میں کسی چیز کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ’’دوم صفات کے لحاظ سے توحید۔‘‘ یعنی یہ کہ ربوبیت اور الوہیت کی صفات بجز ذاتِ باری کے کسی میں قرار نہ دینا‘‘۔ پالنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہے اور عبادت کے لائق بھی صرف وہی ہے۔ ’’اور جو بظاہر ربّ الانواع یا فیض رسان نظر آتے ہیں‘‘۔ جو لوگ بظاہر فائدہ دیتے ہیں، دنیاوی فائدے لوگوں سے پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ذریعہ بنایا ہوا ہے اُن سے فائدے بھی پہنچتے ہیں، وہ پرورش کا ذریعہ بھی بن جاتے ہیں ’’یہ اُسی کے ہاتھ کا ایک نظام یقین کرنا‘‘۔ اُن کے بارے میں یہ سمجھنا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذریعہ بنایا ہے، نہ کہ وہ خود اُس چیز کو دینے کے مالک ہیں۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے اور یہ لوگ ذریعہ ہیں۔ فرمایا: ’’تیسرے اپنی محبت اور صدق اور صفا کے لحاظ سے توحید۔ یعنی محبت وغیرہ شعار عبودیت میں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا‘‘۔ یعنی یہ جو توحید اور محبت ہے اس میں عبودیت کے جو شعار ہیں دوسرے کو خدا تعالیٰ کا شریک نہ گرداننا ’’اور اسی میں کھوئے جانا‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 349-350)۔ صرف یہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کا شریک نہیں بنانا بلکہ اس میں کھوئے جانا، اس میں ڈوب جانا، خدا تعالیٰ کی ذات میں اپنے آپ کو فنا کر لینا۔
پس یہ باتیں اگر ایک مومن میں ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کو یاد رکھنے کا حق ادا کرنے والا کہلا سکتا ہے، تقویٰ پر چلنے والا کہلا سکتا ہے۔ تقویٰ کے کمال کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ یہ فرمایا ہے کہ کمال تقویٰ کا یہی ہے کہ انسان کا اپنا وجود ہی نہ رہے۔ پھر فرمایا کہ اصل میں یہی توحید ہے۔ جب انسان اس کمال کو حاصل کر لیتا ہے کہ اپنا وجودنہیں رہتا، اللہ کے وجود میں کھویا جاتا ہے، تو یہ تقویٰ کا کمال ہے اور اصل میں یہی توحید ہے۔ جب اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ حقیقی توحید کا ماننے والا کہلاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہر چیز پر مقدم کر لینا یہی تقویٰ ہے اور یہی توحید پر قائم ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَیں سفر پر بھی جا رہا ہوں، دعا کریں اللہ تعالیٰ اس کو ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے۔
اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے بنیادی شرط تقویٰ رکھی ہے۔ اس بارہ میں بیشمار آیات قرآن کریم میں ہیں جن میں تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ پر قائم رہوکی تلقین مختلف حوالوں سے اللہ تعالیٰ نے فرمائی ہے۔
تقویٰ کی جو تعریف یا مختصر الفاظ میں خلاصہ جو قرآنِ کریم سے ہمیں ملتا ہے، وہ یہ لیا جا سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہوئے، خدا تعالیٰ کو واحد و یگانہ اور سب طاقتوں کا منبع سمجھتے ہوئے اُس کے حقوق ادا کرنا اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اُس کی مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنا ہے۔
تقویٰ پر چلنے سے انسان اللہ تعالیٰ کے ہر قسم کے انعامات کو حاصل کرنے والا بن سکتا ہے۔
جماعت کی ایک اچھی تعداد یقینا تقویٰ پر چلنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والوں کی بھی ہے۔ لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہدِ بیعت باندھ کر ہم میں سے ہر ایک وہ معیارِ تقویٰ حاصل کرے، خدا تعالیٰ کا وہ قرب ہمیں حاصل ہو جو ایک حقیقی مسلمان کو ہونا چاہئے اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تقویٰ کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ اور تقویٰ کے اعلیٰ معیارکو حاصل کرنے کی تاکید ی نصائح۔
فرمودہ مورخہ 03مئی 2013ء بمطابق 03ہجرت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔