مساجد کی تعمیر
خطبہ جمعہ 17؍ مئی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہَ فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(سورۃالتوبۃ: 18)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ: اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یومِ آخرت پر ایمان لائے اور نماز قائم کرے اور زکوۃ دے اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔ پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کے اس صوبے میں جو برٹش کولمبیا کہلاتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے۔ گو یہاں آپ میں سے بعض خاندانوں کو آئے چالیس سال سے اوپر شاید پچاس سال بھی ہو گئے ہوں، بہر حال پچیس سال سے تیس سال کے عرصہ سے یہاں رہنے والے تو شاید کافی تعداد میں ہیں، لیکن مسجد بنانے کی توفیق آپ کو اب مل رہی ہے۔ گو ایک سینٹر قائم تھا، نمازیں پڑھنے کا ہال اور مشن ہاؤس تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ مسجد کی طرف توجہ کم رہی۔ گو کچھ حد تک تربیت کے لحاظ سے اور جماعت کے ایک جگہ جمع ہونے کے لحاظ سے ضرورت تو پوری ہوتی رہی، لیکن مسجد کی ایک اپنی اہمیت ہے۔ مسجد کے مناروں اور گنبد اور عمارت کا ایک الگ اثر افرادِ جماعت پر بھی اور ارد گرد کے ماحول پر بھی اور غیروں پر بھی ہوتا ہے۔ اسلام کے تعارف کے نئے نئے راستے کھلتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے نئے رابطے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مساجد کی تعمیر کی طرف بہت توجہ دلائی ہے کہ اس طرح جہاں جماعت کی اکائی قائم ہو گی وہاں تبلیغ میں بھی وسعت پیدا ہو گی۔ بیشک آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ چاہے غریبانہ سی، چھوٹی سی مسجد ہو، لیکن یہ مسجد بنانا ضروری ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 4 صفحہ93 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اس لئے شاید بعض ذہنوں میں خیال آئے کہ ہم اتنی بڑی مسجد یا مساجد کیوں بناتے ہیں؟ کیونکہ اب بعض جماعتوں کی طرف سے مساجد کا مطالبہ بڑھ رہا ہے۔ بعضوں کے وسائل پورے نہیں اور مرکزی طور پر فنڈ مہیا کئے جاتے ہیں، تو خیال ہو سکتا ہے کہ چھوٹی مساجد ہوں تو اس رقم میں زیادہ مسجدیں بن سکتی ہیں۔ لیکن ایک بنیادی اصول اگر ہم اپنے مدّ نظر رکھیں تو شاید یہ سوال نہ اُبھرے۔ اور وہ ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ وینکوور برٹش کولمبیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ احمدیوں کی تعداد بھی میرے خیال میں اس صوبے میں اسی شہر میں سب سے زیادہ ہے۔ اور آپ کی تعداد کے لحاظ سے یہ کوئی بڑی مسجدنہیں ہے۔ اور پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جو تبلیغ کے راستے کھول رہا ہے وہ بھی ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ ہماری جگہیں بھی وسیع ہونی چاہئیں۔ پھر ہماری جگہوں میں وسعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام کے تحت بھی ضروری ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا ہے کہ ’’وَسِّعْ مَکَانَکَ‘‘ کہ تُو اپنے مکان کو وسیع کر۔ (تذکرہ صفحہ 246 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
مکانیت کی وسعت صرف گھروں میں مہمان ٹھہرانے کے لئے نہیں ہے۔ لوگوں کے آنے کی وجہ سے، جلسہ کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ مساجد کی وسعت کے لئے بھی یہ ضروری ہے، یہ الہام ہے۔ اور مساجد کی وسعت بھی اسی زمرہ میں آتی ہیں۔ پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ابراہیم کہہ کر مخاطب فرمایا (ماخوذ از براہین احمدیہ ہر چہار حصص روحانی خزائن جلد 1 صفحہ 666 حاشیہ درحاشیہ نمبر 4)
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی۔ خدا تعالیٰ کے سب سے پہلے گھر کو توحید کے قیام کے لئے دوبارہ اُس کی بنیادوں پر استوار کیا گیا اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی یہ دنیا جانے گی اور جان بھی رہی ہے، اور یقینا اس میں کوئی شک کی بات نہیں کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ آپ کے ذریعہ سے ہوئی اور روحانی لحاظ سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے مقاصد کو اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی پورا ہونا ہے اور دنیا نے اس کو جاننا ہے۔ مساجد جو اُن مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ خدائے واحد کی عبادت کے لئے لوگ جمع ہوں۔ اس لحاظ سے بھی ہمیں مساجد کی تعمیر کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ اصل چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وہ نیت ہے جس کے تحت کوئی کام کیا جاتا ہے۔ اور ہماری نیت اللہ تعالیٰ کی توحید کو قائم کرنا، اُس کے پیغام کو پھیلانا، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے جھنڈے تلے لانا ہے۔ اپنی حالتوں اور اپنی نسلوں کی حالتوں میں روحانی انقلاب پیدا کرنا ہے۔ اور یہ انقلاب پیدا کرتے ہوئے، اپنے آپ کو اور اپنی نسلوں کو خدائے واحد کے آگے جھکنے والا بنانا ہے۔ نمازوں کے قیام کے لئے اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لانا ہے۔ مساجد کو اس غرض کے لئے اس طرح بھر دینا ہے کہ وہ اپنی مکانیت کے لحاظ سے چھوٹی نظر آنے لگیں۔ پس جب یہ نیت ہو تو بظاہر بڑی مساجد جو ہیں وہ دکھاوا نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والی ہوتی ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ مجھے یقین ہے کہ آپ لوگ جو اس علاقے میں رہتے ہیں، جنہوں نے اس مسجد کو آباد کرنا ہے اگر اس نیت سے مسجد کا حق ادا کرنے والے بنیں گے تو جہاں اسلام اور احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والے ہوں گے، اپنی روحانی ترقیات میں آگے بڑھنے والے ہوں گے، اپنی نسلوں کو خدائے واحد سے جوڑ کر اُن کی دنیا و عاقبت سنوارنے کا ذریعہ بنیں گے، وہاں اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرتے ہوئے اُس کے انعامات کی بارش اپنے پر برستا دیکھنے والے بھی ہوں گے، انشاء اللہ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی بارش برستی ہے، جب نیت صرف اور صرف اُس کی رضا کا حصول ہوتی ہے تو پھر ایک ایک شہر میں کئی مساجد بنانے کی بھی توفیق اللہ تعالیٰ دیتا ہے۔
پس اب آپ کی نیت یہ ہونی چاہئے کہ اگلی مسجد کی تعمیر کے لئے ہم نے تیس چالیس سال انتظار نہیں کرنا بلکہ اس مسجد اور اس جیسی کئی مساجد کی مکانیت کو چھوٹا کرتے چلے جانا ہے۔ ہم نے مسجدیں آباد کر کے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کر کے اور اُ س کے حکم کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال کر مساجد کی تنگی کو اپنے پر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وسعت کا ذریعہ بنانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے بڑھاتے چلے جانے کا ذریعہ بنانا ہے۔
پس اگر آج ہم اس نیت سے اپنی مسجد کا افتتاح کر رہے ہیں تو یقینا ہم اب تک اپنی باقاعدہ مسجدنہ بنانے کی کمزوری کا مداوا کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اور اس ملک میں جن علاقوں میں مسجدیں نہیں ہیں وہاں بھی اس مسجد کے افتتاح کے ساتھ اس کی طرف توجہ پیدا ہو گی، تو یہی مداوا ہو گا۔
ہمیشہ یاد رکھیں جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ مسجد اپنی ایک اہمیت رکھتی ہے اور سینٹرز اور ہال وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو مسجد کا ہے۔ بیشک جماعت کو ایک جگہ جمع ہو جانے کے لئے جگہ میسر آ جاتی ہے لیکن مسجد کے نام کے ساتھ جو ایک روحانی تعلق پیدا ہوتا ہے، جو جذبات کی کیفیت ہوتی ہے، وہ بغیر باقاعدہ مسجد کے نہیں ہوتی۔ یہ انسانی نفسیات بھی ہے۔ پس یہاں اب زمینیں خریدی گئی ہیں، وہاں بجائے صرف سینٹر بنانے کے، ہال بنانے کے، باقاعدہ مسجد بنائیں۔ کینیڈا میں ایک جماعت کے بارے میں مجھے پتہ چلا کہ اُن کے پاس زمین ہے۔ جو رقم ہے اُس سے وہ چاہتے ہیں کہ ہال تعمیر کرنا چاہئے لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ جب دوبارہ اُن کی رائے لی گئی تواُن میں سے اکثریت اس بات کی طرف زیادہ رجحان رکھتی ہے کہ مسجد بنائی جائے۔ اللہ تعالیٰ اُن سب جماعتوں کو اپنی مساجد بنانے کی توفیق دے جہاں جہاں مسجدوں کی تعمیر کے منصوبے زیرِ نظر ہیں۔ یقینا مساجد کی تعمیر کے بعد تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے اور کھلتے ہیں۔ گزشتہ ماہ بلکہ مارچ کے آخر میں میں نے ویلنشیا کی مسجد کا افتتاح کیا تھا۔ تو اب جو رپورٹس آ رہی ہیں اُس کے مطابق جہاں غیر مسلموں کی اس طرف توجہ پیدا ہو رہی ہے، اسلام کے بارے میں وہ لوگ جان رہے ہیں وہاں غیر از جماعت مسلمان بھی نمازیں پڑھنے کے لئے آتے ہیں اور جماعت کا تعارف حاصل کر رہے ہیں۔ انشاء اللہ تعالیٰ انہی میں سے سعید فطرت لوگوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہونے کی اللہ تعالیٰ توفیق بھی عطا فرمائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذمہ خدا تعالیٰ نے جوکام لگائے ہوئے ہیں اُن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو حقیقی اسلام کی تعلیم دی جائے۔ اُس اسلام پر جمع کیا جائے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے۔ اُس شریعت کو لاگو کیا جائے جو آپ پر اُتری تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً فرمایا کہ: ’’سب مسلمانوں کو جو رُوئے زمین پر ہیں جمع کرو، عَلَیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ‘‘۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ:
’’یہ امر جو ہے کہ سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرو عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ۔ یہ ایک خاص قسم کا امر ہے۔‘‘ پھر آپ علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال دے کر فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کے لئے بھڑکائی ہوئی آگ کو فرمایا تھا کہ کُوْنِیْ بَرْداً وَ سَلَاماً کہ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی کا باعث بن جا۔ اور وہ بعینہٖ اسی طرح پورا ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ: ’’یہ امر جو میرے اس الہام میں ہے یہ بھی اسی قسم کا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ مسلمانانِ رُوئے زمین عَلیٰ دِیْنٍ وَاحِدٍ جمع ہوں اور وہ ہو کر رہیں گے۔ ہاں اس سے یہ مرادنہیں ہے کہ اُن میں کوئی کسی قسم کا بھی اختلاف نہ رہے۔ اختلاف بھی رہے گا، مگر وہ ایسا ہو گا جو قابلِ ذکر اور قابلِ لحاظ نہیں۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 490 مع حاشیہ ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
پس مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے راہِ ہدایت اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ہے۔ اس ملک میں بھی اور اس شہر میں بھی لاکھوں ہزاروں مسلمان رہتے ہیں۔ یقینا یہ مسجد اُن کی توجہ کھینچنے والی بھی ہو گی۔ اس مسجد کی تعمیر سے منفی اور مثبت دونوں رنگ میں غیر از جماعت اور غیر مسلموں میں ذکر ہو گا۔ اور اس ذکر کی وجہ سے آپ کی تبلیغ کے راستے بھی مزید کھلیں گے۔ اس کے لئے بھی آپ کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔ پس مسجد کے بننے سے ایک کے بعد دوسری ذمہ داری آپ پر پڑتی چلی جائے گی۔ تبلیغ کے لئے ظاہر ہے کہ جب آپ اپنے آپ کو تیار کریں گے تو جہاں علمی لحاظ سے تیار کریں گے وہاں اپنے اخلاق کو بھی اعلیٰ معیاروں تک پہنچانے کی کوشش کریں گے اور کرنی چاہئے، ورنہ تو قول و فعل میں تضاد کی وجہ سے آپ کے قریب بھی کوئی نہیں آئے گا۔ پس مساجد کی تعمیر سے ذاتی طور پر بھی برکات کے دروازے کھلتے ہیں جو ایک مومن کو اُس کے ایمان میں بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور جماعتی برکات تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح نازل ہوتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں مسجد کے حوالے سے مختلف جگہ پر ذکر فرمایا ہے۔ مسجد کے احترام کے معیار قائم کرنے کے لئے بھی ذکر ہے۔ مسجد کے مقاصد کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ مسجدیں آباد کرنے والوں کی خصوصیات کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ اس وقت جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اُس میں مسجد آباد کرنے والوں کا ذکر ہے۔ پہلی بات یہ بیان کی کہ مسجدوں کو آباد کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں، کافی نہیں۔ اس ایمان کے بھی کچھ معیار خدا تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان کے یہ معیار قائم کرو گے تو پھر ہی کامل مومن ہو، ورنہ ایمان کامل نہیں ہے۔ مثلاًاللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا(الحجرات: 15)۔ کہ اعرابی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے۔ یعنی وہ لوگ جو بظاہر تعلیم و تمدّن سے محروم ہیں یا کم درجے کے ہیں اور اس وجہ سے اسلام کی حقیقی تعلیم اور اللہ تعالیٰ سے تعلق میں اُن کی ترقی نہیں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ جواب میں فرماتا ہے کہ یہ نہ کہو کہ ہم ایمان لے آئے۔ فرمایا قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا(الحجرات: 15)۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا کہ ان کو بتا دے کہ تم ایمان نہیں لائے، لیکن تم یہ کہو کہ ہم نے ظاہری فرمانبرداری قبول کر لی ہے، جو کسی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔
پس کلمہ پڑھنے کے بعد پھر ایمان میں ترقی، اللہ تعالیٰ سے تعلق، اُس کی عبادت کی طرف توجہ، اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنا اور دینا، اُس کے احکامات پر عمل کرنا، یہ ہے اصل چیز جو اسلام قبول کرنے کے بعد ایک مومن میں ہونی چاہئے، جو اس زمانے کے امام کو ماننے کے بعد ایک احمدی میں ہونی چاہئے۔ یعنی روحانی ترقی کا ہر روز ایک نئی شان دکھانے والا ہو، انسان کو اپنے اندر محسوس ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:
’’مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال اُن کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں۔ جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا تعالیٰ کے لئے اختیار کرتے ہیں اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے، خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا غفلت اور کسل ہو، سب سے اپنے تئیں دور لے جاتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 653-654 اشتہار نمبر 270بعنوان ’’تبلیغ الحق‘‘مطبوعہ ربوہ)
پس یہ معیار ہیں جو ہم نے اختیار کرنے ہیں۔ اور جب یہ معیار ہوں گے، تبھی ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے کہلا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ تعریف فرمائی ہے کہ تقویٰ کی باریک راہوں کو خدا تعالیٰ کے لئے اختیار کرتے ہیں، تقویٰ کی باریک راہوں کی تعریف آپ نے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کے بھی حق ادا کرنا اور اُس کی مخلوق کا بھی حق ادا کرنا۔ اپنے جسم کے ہر حصے اور ہر عضو کو اللہ تعالیٰ کے احکامات کا تابع کرنا۔ جہاں اپنے اعضاء کو غلط کاموں سے بچانا وہاں اپنی سوچ کو بھی ہر لحاظ سے پاک رکھنا۔ تبھی نمازوں کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ کی طرف توجہ رہے گی۔ تبھی نمازوں کا قیام بھی ہو گا۔ اگر سوچوں کا محور صرف دنیا اور دنیا کے لذات ہیں تو نمازوں میں توجہ نہیں قائم رہ سکتی۔ بظاہر انسان نماز پڑھ رہا ہوتا ہے لیکن خیالات کہیں اور پھر رہے ہوتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اُس کی یعنی خدا تعالیٰ کی محبت میں محو رہنے والے اصل مومن ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن کی یہ نشانی بتائی کہ اُس کا دل ایک نماز سے دوسری نماز تک مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔ وہ اس انتظار میں ہوتا ہے کہ اگلی نماز کا وقت ہو تو میں مسجد جاؤں۔ (سنن النسائی، کتاب الطہارۃ، باب الفضل فی ذالک حدیث نمبر 143)
دنیاوی کام بھی انسان کے لئے ضروری ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہی بات واضح کر کے فرمائی ہے کہ جو اپنے کاموں کا جو اُس کے ذمہ ہیں اُن کا حق ادا نہیں کرتا، وہ بھی قابلِ مؤاخذہ ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد اول صفحہ 118ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
چاہے وہ تجارت ہے، چاہے وہ ملازمت ہے، چاہے وہ کھیتی باڑی ہو، کچھ بھی ہو۔ لیکن ان دنیاوی کاموں کے دوران بھی خدا تعالیٰ یاد رہنا چاہئے۔ اور جب خدا تعالیٰ یاد ہو گا، یہ احساس ہو گا کہ یہ دنیاوی کام بھی خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق مَیں بجا لا رہا ہوں تو پھر ایمانداری سے اپنے کام کا حق ادا کرنے کی بھی انسان کوشش کرے گا اور پھر انسان کسی قسم کے غلط اور ناجائز فائدہ سے بھی بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر ایک مومن کا جو دنیا داری کا کاروبار ہے وہ بھی پھر دین بن جاتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کی رضا ہر وقت پیشِ نظر رہتی ہے۔ صحابہ جو ہمارے سامنے نمونے قائم کر گئے، وہ صرف ہمارے لئے وقتی حظّ اُٹھانے کے لئے نہیں تھے۔ تعریف کرنے کے لئے نہیں تھے، اُن کو ہماری تعریف کی ضرورت نہیں ہے، اُن کی تو خدا تعالیٰ نے تعریف کر دی۔ اُن کو اللہ تعالیٰ سے یہ سند مل گئی کہ اللہ اُن سے راضی ہوا۔ پس جس سے خدا تعالیٰ راضی ہو جائے اُس کو کسی بندہ کی حاجت نہیں رہتی کہ اُس کی تعریف کی جائے۔ ہاں یہ نمونے ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اگر تم اُن کے نمونوں پر چلو گے، اللہ تعالیٰ کی محبت کو سامنے رکھتے ہوئے کاروبارِ زندگی سرانجام دو گے تو خدا تعالیٰ تمہیں بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلنے والوں میں شمار کرے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر ایمان کے معیار حاصل کرنے ہیں تو اپنے اخلاق بھی بلند کرو۔ اخلاق کی بلندی کا حقوق العباد کی ادائیگی سے صحیح پتہ چلتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 216 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ) گویا صرف نمازیں پڑھ لینا اور اپنے زعم میں خدا تعالیٰ کا حق ادا کر دینا ہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے اور ایمان لانے والا نہیں بناتا بلکہ اپنے معاشرے کے جو حقوق ہیں اُن کی ادائیگی بھی ایک ایمان کا دعویٰ کرنے والے کے لئے انتہائی ضروری ہے۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ سستی اور کسل کی حالت سے بھی بچو کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ سے دور لے جاتی ہے۔ (ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 654 اشتہار نمبر 270بعنوان ’’تبلیغ الحق‘‘مطبوعہ ربوہ)
اکثر پانچ وقت نمازیں نہ پڑھنے والوں سے جب وجہ پوچھو، مَیں پوچھتا رہتا ہوں، تو یہی جواب ہوتا ہے۔ سستی اور لاپرواہی کا ہی بتاتے ہیں۔ پھر یہ سستیاں جو ہیں خدا تعالیٰ کی محبت سے بھی غافل کرتی ہیں اور یہ غفلت آہستہ آہستہ دین سے بھی دُور لے جاتی ہے۔ آخرت کا خوف، اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کا خوف، پھر یہ بھی نہیں رہتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسجدوں کو آباد کرنے والوں کی نشانی آخرت پر ایمان بھی بتائی ہے کہ اس زندگی میں کئے گئے جو اعمال ہیں اُن کا بدلہ آخرت میں ملنا ہے۔ خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کی گئی عبادتیں اور اس دنیا میں اللہ تعالیٰ پر ایمان، ہدایت یافتوں میں شمار کروا کر خدا تعالیٰ کی جنتوں کا وارث بنائے گا۔
پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مساجد آباد کرنے والے جہاں نمازوں میں باقاعدگی اختیار کرتے ہیں، پنج وقت مسجد میں آتے ہیں، اُس کا حق ادا کرتے ہیں، وہاں مالی قربانیاں کرنے والے بھی ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے مالی قربانی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ مالی قربانی کے لحاظ سے غیر معمولی قربانی کرنے والی ہے۔ کم از کم ایک طبقہ ایسا ہے جو غیر معمولی قربانی کرنے والا ہے۔ اس مسجد کی تعمیر میں بھی کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے لاکھ بلکہ لاکھوں ڈالر تک قربانی دی ہے۔ مساجد کے لئے تو بعض غیر احمدی مسلمان بھی بڑھ چڑھ کر قربانیاں دے لیتے ہیں لیکن احمدی کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ مستقل چندوں کی ادائیگی بھی کرتے ہیں اور پھر تحریکات میں بھی حصہ ڈالتے ہیں۔ اس لحاظ سے اور خاص طور پر آجکل کے مادی دور میں اور معاشی حالات میں اُن کی قربانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بھی بے انتہا برکت ڈالے۔
لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ایک عمل تقویٰ کا معیار حاصل نہیں کرواتا، یا اُس سے ایمان کامل نہیں ہوتا بلکہ ایک مومن کے لئے حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ضروری ہے۔
قرآنِ کریم نے ایمان لانے والوں کی بعض نشانیوں کا اَور جگہوں پر بھی ذکر کیا ہے۔ جن میں ایک آدھ کو میں مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔ کیونکہ ان باتوں کو اختیار کر کے ہی انسان حقیقی ہدایت یافتہ کہلا سکتا ہے اور انسان مسجدوں کا حق ادا کرنے والا بن سکتا ہے۔ فرمایا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ (سورۃ البقرۃ: 166)۔ کہ جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’محبت کا انتہا عبادت ہے۔ اس لئے محبت کا لفظ حقیقی طور پر خدا سے خاص ہے‘‘۔ (سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب۔ روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 369)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’عبادت کے دو حصے تھے۔ ایک وہ جو انسان اللہ تعالیٰ سے ڈرے جو ڈرنے کا حق ہے۔ خدا تعالیٰ کا خوف انسان کو پاکیزگی کے چشمہ کی طرف لے جاتا ہے اور اُس کی روح گداز ہو کر اُلوہیت کی طرف بہتی ہے اور عبودیت کا حقیقی رنگ اُس میں پیدا ہو جاتا ہے‘‘۔ ایک تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے دل پگھلتا ہے، انسان اُس کے آگے سجدہ ریز ہوتا ہے، اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صحیح عابد بننے کی کوشش کرتا ہے۔ فرمایا: ’’دوسرا حصہ عبادت کا یہ ہے کہ انسان خدا سے محبت کرے جو محبت کرنے کا حق ہے۔ اسی لئے فرمایا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہ (سورۃ البقرۃ: 166)۔ اور دنیا کی ساری محبتوں کو فانی اور آنی سمجھ کر حقیقی معبود اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا جائے۔ یہ دو حق ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنی نسبت انسان سے مانگتا ہے۔ ان دونوں قسموں کے حقوق کے ادا کرنے کے لئے یوں تو ہر قسم کی عبادت اپنے اندر ایک رنگ رکھتی ہے مگر اسلام نے دو مخصوص صورتیں عبادت کی اس کے لئے مقرر کی ہوئی ہیں۔ خوف اور محبت دو ایسی چیزیں ہیں کہ بظاہر اُن کا جمع ہونا بھی محال نظر آتا ہے کہ ایک شخص جس سے خوف کرے اُس سے محبت کیونکر کر سکتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کا خوف اور محبت ایک الگ رنگ رکھتی ہے۔ جس قدر انسان خدا کے خوف میں ترقی کرے گا اُسی قدر محبت زیادہ ہوتی جاوے گی۔ اور جس قدر محبتِ الٰہی میں وہ ترقی کرے گا، اُسی قدر خدا تعالیٰ کا خوف غالب ہو کر بدیوں اور برائیوں سے نفرت دلا کر پاکیزگی کی طرف لے جائے گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2 صفحہ 224-225۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ مقام ہے جو ایک مومن کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے۔ پھر آگے آپ نے ان محبتوں کی تفصیل بیان فرمائی ہے کہ خوف کے لئے نمازیں ہیں اور محبت کے اظہار کے لئے حج کی عبادت ہے۔ وہ ایک لمبامضمون ہے۔ تو بہر حال یہ مقام ہے جو ایک مومن کو حاصل کرنا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اُس کی محبت کے حصول کا ذریعہ بن جائے اور جب یہ درجہ اور مقام حاصل ہوتا ہے تو پھر انسان صحیح عابد بنتا ہے اور مسجد کا حق ادا کرنے والا بنتا ہے۔ اور یہ مقام ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے ہر ماننے والے میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ کس حد تک ہم خدا تعالیٰ سے محبت کے دعوے میں پورا اُترنے والے ہیں؟ کس حد تک ہم آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں؟ کیونکہ عبادت کا حق تقویٰ کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔ اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ نے ہماری اصلاح کے لئے قرآنِ کریم میں بے شمار احکامات نازل فرمائے ہیں جن کے بجالانے کا ایک مومن کو حکم ہے اور تبھی وہ ہدایت یافتہ کہلا سکتا ہے۔ مَیں بعض، ایک دو احکامات کا ذکر کروں گا لیکن اُس سے پہلے یہ وضاحت کر دوں کہ اس آیت میں جو مَیں نے پہلے تلاوت کی تھی اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ فَعَسٰٓی اُوْلٰئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْن۔ یعنی پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔ اس سے یہ مرادنہیں کہ یہ عمل کریں گے تو شاید ہدایت یافتہ قرار پائیں۔ اگر نیک نیتی سے عمل کئے جائیں تب بھی شاید والی بات ہو۔ بلکہ اہلِ لغت کے نزدیک ’’عَسٰی‘‘ جب خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے تو اُس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو ہر لحاظ سے ایمان میں پختہ ہیں، زکوۃ اور مالی قربانیوں میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے شامل ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دنیاوی چیز سے اُنہیں خوف نہیں ہے تو وہ یقینا اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ ہیں، اور ان کا مسجد میں آنا، نمازیں پڑھنا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا اُن کو تقویٰ اور ایمان میں بڑھاتا رہے گا۔ اور اُن کے تقویٰ کے معیار بلند ہوتے چلے جائیں گے۔
پس خوش قسمت ہیں ہم میں سے وہ جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہدایت یافتہ بن کر اُس کے قرب میں ترقی کر رہے ہیں۔ مَیں بعض ایک دو ذمہ داریوں کے متعلق بھی عرض کر دوں جو خدا تعالیٰ نے ہم پر ڈالی ہیں، یا وہ باتیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ (سورۃ آل عمران: 111)۔ کہ تم سب سے بہتر جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔ پس اس آیت میں ایک حقیقی مسلمان کی خوبیاں بیان کی گئی ہیں کہ بدی سے روکنے والا ہے، نیکی کی تلقین کرنے والا ہے۔ اور یہ کام اُس وقت تک نہیں ہو سکتاجب تک انسان اپنے قول و فعل میں ایک جیسا نہ ہو۔ اگر ہمارے عمل ہماری باتوں سے مختلف ہیں تو ہمارے اپنے جو لوگ ہیں اُن پر بھی ہماری باتوں کا اثر نہیں ہو گا۔ اور غیروں کی تو بات ہی الگ ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا اس مسجد کے بننے سے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے لیکن اگر ہمارے عمل ایسے نہیں کہ جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں تو نہ ہم خیرِ اُمّت ہیں، نہ ہمارا ایمان اللہ تعالیٰ پر ہے اور نہ ہی ہماری نمازیں کسی کام کی ہیں، نہ ہماری مالی قربانیاں خدا تعالیٰ کے ہاں قبول ہیں، نہ ہمارا یہ دعویٰ سچا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا ہمارا سب سے اوّلین فرض ہے اور پہلی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ایک حکم ہے کہ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا (سورۃ البقرۃ: 84)۔ کہ لوگوں سے نرمی اور ملاطفت سے بات کریں۔ اس کا سب سے پہلا اظہار تو ہمارا آپس میں ہونا چاہئے اور خاص طورپر عہدیداروں کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ تبلیغ سے پہلے تو ہم نے اپنی مسجدوں کو ایسے لوگوں سے، عباد صالحین سے بھرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ لیکن بعض دفعہ شکایات آتی ہیں کہ بعض عہدیدار اپنے رویّے ایسے رکھتے ہیں یا بعض لوگ جو اپنے زعم میں اپنے آپ کو نیکی کے اعلیٰ معیار پر سمجھ لیتے ہیں اس طرح دوسروں سے باتیں کرتے ہیں جو دوسروں کو جذباتی تکلیف پہنچانے کا باعث بن جاتی ہے اور اُنہیں پھر جماعت سے دور لے جاتی ہے۔ اور پھر ایسے لوگ مسجدوں کو آباد کرنے کی بجائے اُن کو ویران کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ پس خیرِ اُمّت کے لئے سب سے پہلے تو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ پھر جیسا کہ ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ مسجدوں کے ساتھ تبلیغ کے نئے راستے بھی کھلتے ہیں۔ یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ کھلیں گے۔ مسجد دیکھنے کے لئے آنے والے لوگوں میں، اپنے حلقۂ احباب میں، اپنے ماحول میں بھی جب یہ لوگ آئیں اس اثر کو قائم کریں اور اسے مضبوط تر کرتے چلے جائیں کہ احمدی کا ہر کام دوسروں کی بھلائی کے لئے ہوتا ہے۔ یہ اثر ہے جو ایک احمدی سے دنیا میں قائم ہونا چاہئے۔ یہ اسلام اور قرآنِ کریم کی تعلیم ہے کہ ہم اپنے فائدے کی بجائے دوسروں کا فائدہ سوچتے ہیں اور نہ صرف سوچتے ہیں بلکہ عملی رنگ میں اس کا اظہار کرتے ہیں اور اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ لوگ یہ اظہار مزید دیکھیں گے۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تبلیغ کے راستے کھول رہا ہے۔ بعض ایسے ایسے حیرت انگیز رابطے ہوتے ہیں کہ جو اپنی کوششوں سے نہیں ہو سکتے۔ اور یہاں بھی آپ دیکھیں گے کہ ایسے رابطے ہوں گے۔
پس اپنے قول و فعل سے ان رابطوں کو اسلام کی خوبصورت تعلیم کا گرویدہ بنا لیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کے آپس کے تعلقات، محبت اور پیار جو ہے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے بڑھتے چلے جانے والا ہونا چاہئے۔ اس طرف بھی خاص توجہ دیں کہ تبلیغ کے لئے یہ بھی ضروری ہے اور جماعت کی مضبوطی کے لئے بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے بھی یہ بات ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس مسجد کے بننے سے جماعت اندرونی طور پر بھی مضبوط ہو۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والی ہو۔ مسجدوں کو آباد کرنے والی ہو۔ آپ میں سے ہر ایک کا دل اُس طرح مسجد میں اٹکا رہے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مومن سے توقع فرمائی ہے۔ یہ مسجد اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کو سمیٹنے والی ہو جس کا اظہار یہاں آنے والے ہر شخص پرہو۔ اور تبلیغ کے بھی نئے دروازے اس مسجد کے بننے سے کھلتے چلے جائیں۔ مَیں مسجد کے کچھ کوائف پیش کر دیتا ہوں جو یہاں جاننے والوں کے لئے تو شاید اتنی دلچسپی نہ رکھتے ہوں لیکن باہر کی دنیا کے لئے دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کا اعلان تو 1997ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے ہی فرمایا تھااور بیت الرحمن نام بھی رکھا تھا۔ اس کا کُل رقبہ تقریباً پونے چار ایکڑکا ہے اور مسقف حصہ (covered area) جو ہے تینتیس ہزار چار سو انیس (33419) مربع فٹ ہے۔ دو منزلیں ہیں۔ گنبد کی اونچائی سینتالیس فٹ ہے۔ مینار کی اونچائی چھہتر (76) فٹ ہے۔ اس وقت تومسجد کے لئے، دونوں ہال جو ہیں مردوں اور عورتوں کے ملے ہوئے ہیں اور دونوں ہالوں کی گنجائش کا ایریا چھ ہزار آٹھ سو مربع فٹ ہے۔ multi purpose ہال بھی ہے۔ گیارہ سو بتیس (1132) افراد مسجد میں اور دس سو پچاس (1050) ملٹی پرپز (multi purpose) ہال میں نماز پڑھ سکتے ہیں۔ یعنی تقریباً دوہزار سے زیادہ۔ پارکنگ بھی کافی وسیع ہے۔ 140 کاروں کی جگہ ہے۔ لائبریری بھی ہے، تبلیغ کا ایک سینٹر ہے، کچن ہے، فیونرل (Funeral) ہوم سروس کے لئے بھی انتظام ہے۔ چار عدد کلاس روم ہیں۔ دفاتر ہیں۔ بورڈ روم ہے۔ مشنری کی رہائش گاہ ہے۔ مشن ہاؤس ہے۔ گیسٹ ہاؤس ہے۔ اور بڑی خوبصورت باہر کی کیلی گرافی بھی یہاں ہوئی ہے۔ جو خاص خاص باتیں ہیں وہ مَیں نے بتا دی ہیں۔ اس کا خرچ بعض زائد خرچ شامل ہونے کی وجہ سے تقریباً ساڑھے آٹھ ملین ڈالر آیا ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ آپ کو یہ مسجد ہر لحاظ سے مبارک فرمائے۔
آخر میں ایک چھوٹا سا اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پڑھنا چاہتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:
’’مسجدوں کی اصل زینت عمارتوں کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اُن نمازیوں کے ساتھ ہے جو اخلاص کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں، ورنہ یہ سب مساجد ویران پڑی ہوئی ہیں۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد چھوٹی سی تھی۔ کھجور کی چھڑیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی اور بارش کے وقت چھت میں سے پانی ٹپکتا تھا۔ مسجد کی رونق نمازیوں کے ساتھ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں دنیاداروں نے ایک مسجد بنوائی تھی، وہ خدا تعالیٰ کے حکم سے گرا دی گئی۔ اُس مسجد کا نام مسجد ضرار تھا یعنی ضرررساں۔ اس مسجدکی زمین خاک کے ساتھ ملا دی گئی تھی۔ مسجدوں کے واسطے حکم ہے کہ تقویٰ کے واسطے بنائی جائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ491 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ ہر احمدی کو سامنے رکھنا چاہئے۔
پھر فرماتے ہیں: ’’جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے۔ اور جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ سب مل کر اسی مسجد میں نماز باجماعت ادا کیا کریں۔ جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے۔ پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتحاد اور اتفاق کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنیٰ ادنیٰ باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے جو کہ پھوٹ کا باعث ہوتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4 صفحہ93 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے کینیڈا کے اس صوبے میں جو برٹش کولمبیا کہلاتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مسجد بنانے کی توفیق مل رہی ہے۔ گو ایک سینٹر قائم تھا، نمازیں پڑھنے کا ہال اور مشن ہاؤس تھا، اور شاید یہی وجہ ہے کہ باقاعدہ مسجد کی طرف توجہ کم رہی۔ گو کچھ حد تک تربیت کے لحاظ سے اور جماعت کے ایک جگہ جمع ہونے کے لحاظ سے ضرورت تو پوری ہوتی رہی، لیکن مسجد کی ایک اپنی اہمیت ہے۔
سینٹرز اور ہال وہ مقام حاصل نہیں کر سکتے جو مسجد کا ہے۔ بیشک جماعت کو ایک جگہ جمع ہو جانے کے لئے جگہ میسر آ جاتی ہے لیکن مسجد کے نام کے ساتھ جو ایک روحانی تعلق پیدا ہوتا ہے، جو جذبات کی کیفیت ہوتی ہے، وہ بغیر باقاعدہ مسجد کے نہیں ہوتی۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے راہِ ہدایت اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہی ہے۔ یقینا یہ مسجد اُن کی توجہ کھینچنے والی بھی ہو گی۔ اس مسجد کی تعمیر سے منفی اور مثبت دونوں رنگ میں غیر از جماعت اور غیر مسلموں میں ذکر ہو گا۔ اور اس ذکر کی وجہ سے آپ کی تبلیغ کے راستے بھی مزید کھلیں گے۔ اس کے لئے بھی آپ کو اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔
پس مساجد کی تعمیر سے ذاتی طور پر بھی برکات کے دروازے کھلتے ہیں جو ایک مومن کو اُس کے ایمان میں بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور جماعتی برکات تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس طرح نازل ہوتی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔
اگر ایمان کے معیار حاصل کرنے ہیں تو اپنے اخلاق بھی بلند کرو۔ اخلاق کی بلندی کا حقوق العباد کی ادائیگی سے صحیح پتہ چلتا ہے۔
ہمیں اس مسجد کی تعمیر کے ساتھ اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ کس حد تک ہم خدا تعالیٰ سے محبت کے دعوے میں پورا اُترنے والے ہیں؟ کس حد تک ہم آپس میں ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں؟ کیونکہ عبادت کا حق تقویٰ کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔ اور تقویٰ اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر عمل کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔
(وینکوور کینیڈا میں تعمیر ہونے والی مسجد بیت الرحمن کا خطبہ جمعہ سے افتتاح اور احباب جماعت کو اس پہلو سے اہم نصائح۔ )
فرمودہ مورخہ 17؍ مئی 2013ء بمطابق 17؍ہجرت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الرحمن۔ وینکووَر (کینیڈا)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔