خلافتِ احمدیہ
خطبہ جمعہ 24؍ مئی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِناَ الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اِنَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَخْشَ اللّٰہَ وَیَتَّقْہِ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ۔ وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَھْدَ اَیْمَانِھِمْ لَئِنْ اَمَرْتَھُمْ لَیَخْرُجُنَّ۔ قُلْ لَّا تُقْسِمُوْا طَاعَۃٌ مَّعْرُوْفَۃٌ۔ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ۔ قُلْ اَطِیْعُوْااللّٰہَ وَاَطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ۔ وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَھْتَدُوْا۔ وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْامِنْکُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْ فِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْئًا وَمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ وَاَقِیْمُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰـوۃَ وَاَطِیْعُواالرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْن(النور: 52-57)
یہ آیات سورۃ نور کی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
مومنوں کا قول جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ اور یہی ہیں جو مراد پاجانے والے ہیں۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس کا تقوی اختیار کرے تو یہی ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اور انہوں نے اللہ کی پختہ قسمیں کھائیں کہ اگر تُو انہیں حکم دے تو وہ ضرور نکل کھڑے ہوں گے۔ تو کہہ دے کہ قسمیں نہ کھاؤ۔ دستور کے مطابق عمل کرو، طاعت در معروف کرو۔ یقینا اللہ جو تم کرتے ہو اس سے ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔ کہہ دے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔ پس اگر تم پھر جاؤ تو اس پر صرف اتنی ہی ذمہ داری ہے جو اس پر ڈالی گئی ہے اور تم پر بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے جتنی تم پر ڈالی گئی ہے۔ اور اگر تم اس کی اطاعت کرو تو ہدایت پا جاؤ گے۔ اور رسول پر کھول کھول کر پیغام پہنچانے کے سوا کچھ ذمہ داری نہیں۔ تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو، جو اس نے ان کے لئے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔ اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃکو ادا کرو اور رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
مئی کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک خاص دن ہے، یعنی 27؍مئی کا دن جو یومِ خلافت کے طور پر جماعت میں منایا جاتا ہے۔ گو ابھی تین دن باقی ہیں، لیکن اسی حوالے سے مَیں نے اپنا مضمون رکھا ہے۔ 26؍مئی 1908ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک دل ہلا دینے والا دن تھا، بہت سوں کے ایمانوں کو لرزا دینے والا دن تھا۔ بعض طبیعتوں کو بے چین کر دینے والا دن تھا۔ دشمن کے لئے افرادِ جماعت کے دلوں کو اور جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا دن تھا۔ تاریخ احمدیت میں دشمنانِ احمدیت کی ایسی ایسی حرکات درج ہیں کہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اس حد تک بھی گر سکتا ہے جیسی حرکتیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے وقت کیں۔ کجا یہ کہ مسلمان کہلا کر اپنے آپ کو رحمت للعالمین کی طرف منسوب کر کے پھر ایسی حرکات کی جائیں۔ بہر حال ہر ایک اپنی فطرت کے مطابق اُس کا اظہار کرتا ہے لیکن پھر اللہ تعالیٰ کی بھی اپنی قدرت چلتی ہے۔ اُس کے وعدے پورے ہوتے ہیں۔ 27؍مئی کا دن جماعت احمدیہ کے لئے تسکین اور امن کا پیغام بن کر آیا۔ خدا تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے کے پورا ہونے کی خوشخبری لے کر آیا اور دشمن کو اُس کی آگ میں جلانے والا بن کر آیا۔ اُس کی خوشیوں کوپامال کرنے کا دن بن کر آیا۔
پس جماعت احمدیہ کے لئے یہ دن کوئی عام دن نہیں ہے۔ اس دن کی بڑی اہمیت ہے۔ اور اس کی اہمیت اَور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھتے ہیں۔ اُمّت مُسلمہ کی اکثریت بڑی حسرت سے جماعت کی طرف دیکھتی ہے، بلکہ حسرت سے زیادہ حسد سے کہنا چاہئے دیکھتی ہے کہ ان میں خلافت قائم ہے اور اپنے میں یہ قائم کرنے کے لئے کئی دفعہ اپنی سی کوشش کر چکے ہیں اور کرتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ ناکام رہے ہیں۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم اور ہدایت کی نافرمانی کر رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا کہ جب مسیح موعود اور مہدی موعود کا ظہور ہو گا تواپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر برف کے تودوں پر گھٹنوں کے بَل گھسٹتے ہوئے بھی جانا پڑے تو اُس کے پاس جانا (سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب خروج المہدی حدیث نمبر 4084) اور میرا سلام کہنا۔ (مسند احمد بن حنبل مسند ابی ھریرۃ جلد سوم صفحہ 182حدیث نمبر 7957 بیروت 1998ء) پھر آپ نے نشانیاں بھی بتا دیں کہ وہ پوری ہو جائیں تو سمجھنا کہ دعویٰ کرنے والا سچا ہے۔ یہ نشانیاں آسمانی بھی ہیں اور زمینی بھی ہیں۔ کئی دفعہ جماعت کے سامنے بھی پیش ہوتی ہیں۔ افرادجماعت مخالفین کے سامنے بھی پیش کرتے ہیں۔ اس وقت ان کی وضاحت مَیں نہیں کروں گا لیکن نہ ماننے والوں کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے دنیاوی مصلحتوں کی وجہ سے یا نام نہاد دینی علماء کے خوف سے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر کان نہ دھرنے کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دعویٰ کرنے والے کو قبول نہیں کیا بلکہ بعض سخت قسم کے مُلّاں شدید دشمنی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اُن کے خوف سے حکومتیں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرستادے کے خلاف نہایت گندی اور مکروہ قسم کی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ انتہائی کریہہ قسم کے ان کے فعل ہوتے ہیں۔ یہ سب جانتے ہوئے کہ زمانہ پکار پکار کر آنے والے کے وقت کا اعلان کر رہا ہے، خدا تعالیٰ نشان دکھا چکا ہے اور نشان دکھا رہا ہے۔ (پھر بھی)یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کی مخالفت کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ہر مخالفت کے بعد ایک نئے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن ڈھٹائی ایسی ہے کہ مخالفت چھوڑنا نہیں چاہتے۔ پس اس کو ان لوگوں کی بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
بہر حال جیسا کہ مَیں نے کہا، اس دن کی اہمیت ہے اور اس کا اعلان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک پیشگوئی میں فرما چکے ہیں۔ گو معین تاریخ کے ساتھ تو نہیں، لیکن آنے والے اپنے عاشقِ صادق اور مسیح موعود کی بعثت کا پہلے اعلان فرما کر اور پھر خلافت کا ذکر فرما کر آپ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی۔ پس اس سے زیادہ کس چیز کی اہمیت ہو سکتی ہے جس کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج نبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا، اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر اُس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ پھر جب یہ دَور ختم ہو گا تو اُس کی دوسری تقدیر کے مطابق اس سے بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا۔ اس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہو گی اور یہ فرما کرآپ خاموش ہو گئے۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل جلد6صفحہ285حدیث النعمان بن بشیر، حدیث نمبر18596عالم الکتب بیروت لبنان1998)
پس پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کے بارے میں فرمایا، پھر خلافتِ راشدہ کے قیام کا ذکر فرمایا جو منہاج نبوت پر (یعنی نبوت کے طریق پر) آگے بڑھتے چلے جانے والی ہو گی۔ اور دنیا نے دیکھا کہ پہلی چار خلافتیں جو خلافتِ راشدہ کہلاتی ہیں، کس طرح دنیا کی جاہ و حشمت سے دُور اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کو ہر آن سامنے رکھتے ہوئے خالصۃً لِلّٰہ امورِ خلافت سرانجام دیتی رہیں۔ پھر کس طرح حرف بہ حرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پوری ہوئی جس میں بعض دوروں میں کم ایذا رساں اور بعض میں زیادہ ایذا رساں بادشاہت مسلمانوں میں نظر آتی ہے۔ تو خلافتِ راشدہ کے بعد یہ بادشاہت قائم ہوئی۔ یہ بات بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری ہوئی۔ ظلم و جبر جو ہے وہ بھی تاریخ پڑھیں تو ہمیں ان بادشاہتوں میں دیکھنے میں نظر آتا ہے۔ بادشاہت کا دین سے زیادہ دنیا کی طرف رجحان تھا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جس طرح ہمیشہ ہوتا آیا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم کرتا ہے۔ ایک تاریک دَور کے بعد پھر اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور ظلم و ستم کا دَور ختم ہو گا اور پھر خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم ہوگی اور اس کے بعد آپؐ خاموش ہو گئے جیسا کہ حدیث میں ہے۔
اس حدیث پر غور کر کے ہر انسان دیکھ سکتا ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ پھر کم ایذا رساں بادشاہت اور پھر اس کے بعد جابر بادشاہت کے بارے میں بھی آپ کی پیشگوئی پوری ہوئی۔ تو پھر اس کے آخری حصے کے بارے میں باوجود سب نشانیاں پوری ہو جانے اور باوجود خداتعالیٰ کے بھی اس اعلان کے کہ وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (سورۃ الجمعۃ: 4) اور آخرین میں سے بھی، یعنی آخرین میں ایک دوسری قوم میں بھی وہ اُسے بھیجے گا جو ابھی ان سے نہیں ملی۔ یعنی خلافت علیٰ منہاج نبوت کے سامان اللہ تعالیٰ پھر پیدا فرمائے گا۔ فرماتا ہے وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(سورۃ الجمعۃ: 4)۔ اور وہ غالب اور حکمت والا ہے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کی حکمتِ بالغہ نے یہ فیصلہ فرمایا، جب اُس کی رحمت نے جوش مارا، تو اُس نے ملوکیت سے مسلمانوں کی رہائی کے سامان فرمائے اور ایسا کیا کہ خلافت علیٰ منہاج نبوت قائم فرمائے۔
پس ہم احمدی خوش قسمت ہیں کہ جہاں ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی، حدیث کی پیشگوئی کے پہلے حصے کی تصدیق کرتے ہیں، اُس پر ایمان لاتے ہیں اور اُس کو پورا ہوتا ہوا سمجھتے ہیں، وہاں ہم اُس کے آخری حصے پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات پر یقین کامل رکھتے ہیں کہ یہ بات پوری ہوئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (سورۃ الجمعۃ: 4)۔ کہ آخرین میں سے بھی لوگ ہوں گے جو پہلوں سے ملنے والے ہیں، جو ابھی اُن سے ملے نہیں، اس پر ایمان رکھتے ہوئے زمانے کے حالات اور تمام نشانیوں کو ہم پورا ہوتا دیکھتے ہوئے آنے والے مسیح موعود اور مہدی موعود پر بھی ایمان لاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’نَبِیُّ اللّٰہ‘‘ کہہ کر فرمایا۔ (صحیح مسلم کتاب الفتن باب ماجاء فی ذکر الدجال، حدیث نمبر7373) پھر فرمایا میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں (المعجم الصغیر للطبرانی جلد1صفحہ257 باب العین من اسمہ عیسیٰ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان 1983ء)۔ پھر اٰخَرِیْنَ مِنْھُم کی آیت کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آخری زمانے میں مبعوث ہونے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبعوث ہونا قرار دیا۔ گویا آنے والا مسیح موعود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہو کر، آپ کے ظل کے طور پر مبعوث ہو کر نبوت کا مقام پائے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تشریح میں حضرت سلمان فارسیؓ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ بھی فرمایا کہ آنے والا ان لوگوں میں سے ہو گا، غیر عربوں میں سے ہوگا۔ ایمان کے غائب ہونے اور ثریا پر چلے جانے کی نشانی بھی بتا دی جس کو یہ تمام علماء تسلیم بھی کرتے ہیں کہ اُس زمانے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعویٰ فرمایا، مسلمانوں کی ایمانی حالت انتہائی کمزور تھی، گویا ایمان زمین سے اُٹھ گیا تھا۔ (صحیح بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منھم … حدیث نمبر4897)
پس یہ نشانی یا نشانوں کا پورا ہونا بھی دیکھتے ہیں اور یہ نشانوں کا پورا ہونا بتاتا ہے کہ آنے والا مسیح موعود یقیناوقت پر آیا۔ یہاں یہ بھی وضاحت کر دوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاتم الخلفاء ہونے کی حیثیت سے اُس خلافت کی انتہا تک پہنچے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا یا آپ اُس مقام پر فائز ہوئے جو منہاج نبوت کا اعلیٰ ترین معیار تھا۔ اور مسیح موعود ہونے کی حیثیت سے اور اللہ تعالیٰ کے فرمان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا ہونے کی وجہ سے ظلّی نبی بھی بنے اور یوں خلافت کا جو نظام آپ کے ذریعے سے، آپ کے طریق پر آگے چلا وہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی منہاج پر قائم ہے جس کا کام قرآنِ کریم کی شریعت کو مسلمانوں میں جاری کرنا۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے حق ادا کرنے کی کوشش کرنا اور کروانا۔ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا رہنما بنا کر اس پر عمل کرنا اور جماعت کو اس کے مطابق تلقین کرنا اور عمل کرواناہے۔
پس خلافتِ احمدیہ بھی اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں خلافتِ راشدہ کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ایک مدت گزرنے کے بعد ختم ہونے کی اطلاع فرمائی تھی۔ اور دوسرے دَور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ہمیشہ جاری رہنے کی خوشخبری عطا فرمائی۔ لیکن کن لوگوں کو؟ یقینا اُن لوگوں کو جو خلافت کے ساتھ جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ تقویٰ پر چلنے والے ہیں۔ عملِ صالح کرنے والے ہیں۔ عبادتوں میں بڑھنے والے ہیں۔ بہت سے لوگ ہیں جو جماعت احمدیہ میں شامل ہوتے ہیں لیکن چونکہ خلافتِ احمدیہ سے جڑے رہنے کا حق ادا کرنے والے نہیں ہوتے، اس لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر اُن کو جماعت سے باہر کروا دیتی ہے۔ دنیا داری کی خاطر وہ جماعت احمدیہ سے یا تو ویسے علیحدہ کر دئیے جاتے ہیں یا خود ہی علیحدگی کا اعلان کر دیتے ہیں۔ لیکن کیا کبھی ایسے لوگوں کے چلے جانے سے جماعت احمدیہ کی ترقی میں فرق پڑا؟ کبھی روک پڑی؟ ایک کے جانے سے اللہ تعالیٰ ایک جماعت مہیا فرما دیتاہے۔ خشک ٹہنیاں کاٹی جاتی ہیں تو ہری اور سرسبز ٹہنیاں پہلے سے زیادہ پھوٹتی ہیں۔ پس چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلافت کے نظام کو اب جاری رکھنا ہے، اس لئے اُس کی تراش خراش اور نگہداشت کا کام بھی خود اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے سب سے پیارے انسان اور نبی کی پیشگوئی کا پاس نہ کرے۔ یقینا یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہوتی چلی جائے گی۔ گو بعض حالات ایسے آتے ہیں کہ مخالفین اور کمزور ایمان والے سمجھتے ہیں کہ اب ختم ہوئے کہ اب ختم ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ کے تائیدی نشان اُس دَور سے جماعت کو نکال کر لے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا دل ہلا دینے والا دَور تو جماعت پر اُس وقت آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہوا، جیسا کہ مَیں نے کہا۔ دشمن خوش تھے اور احمدی پریشان۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرما کر جماعت کو اس کے لئے پہلے سے تیار کر دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ میرا وقت قریب ہے، لیکن اس بات سے مایوس ہونے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ نے رسالہ الوصیت میں تحریر فرمایا اور یہی کہ پریشان نہ ہوں۔ اس میں جہاں اپنے اس دنیا سے رخصت ہونے کی خبر دی، وہاں جماعت کے روحانی، مالی اور انتظامی طریقے کار کو بھی واضح فرما دیا اور اُس کے قائم ہونے اور ہمیشہ رہنے کی خبر بھی دی۔ فرمایا کہ فکر نہ کرو۔ میرے سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ جماعت کو ترقی دے گا کیونکہ یہی وہ جماعت ہے جس کے ترقی کرنے اور جس میں خلافت قائم ہونے کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔
آپ علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں کہ:
’’خدا کا کلام مجھے فرماتا ہے کہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اُتریں گی۔ کچھ تو ان میں سے میری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی اور وہ اِس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا۔ کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ303-304)
فرمایا کہ:
’’غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے‘‘اللہ تعالیٰ ’’(1) اوّل خودنبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے۔ (2)دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامناپیدا ہو جاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا۔ اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہو جائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور اُن کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کر لیتے ہیں، تب خدا تعالیٰ دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے…۔‘‘ فرمایا’’تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ304-305)
آپ فرماتے ہیں: ’’مَیں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔ جیسا کہ خدا کا براہین احمدیہ میں وعدہ ہے۔ اور وہ وعدہ میری ذات کی نسبت نہیں ہے بلکہ تمہاری نسبت وعدہ ہے جیسا کہ خدا فرماتا ہے کہ مَیں اس جماعت کو جو تیرے پَیرو ہیں قیامت تک دوسروں پر غلبہ دوں گا۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ306-305)
پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ ایک سو پانچ سال سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جماعت پر مختلف دور آئے لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ترقی کی منزل پر نہایت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ایک ملک میں دشمن ظلم و بربریت سے سختیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے، ظلم و بربریت کرتا ہے تو دوسرے ملک میں اللہ تعالیٰ کامیابی کے حیرت انگیز راستے کھول دیتا ہے اور یہی نہیں بلکہ جس ملک میں تنگیاں پیدا کی جاتی ہیں، وہاں بھی افرادِ جماعت کے ایمانوں کو مضبوط فرماتا چلا جاتا ہے۔ اور پھر جب مَیں اپنی ذات میں یہ دیکھتا ہوں میری تمام تر کمزوریوں کے باوجود کہ کس طرح اللہ تعالیٰ جماعت کو ترقی کی شاہراہوں پر دوڑاتا چلا جا رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان میں اور ترقی ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین مزید کامل ہوتا ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کا ہاتھ ہے جو جماعت کو آگے سے آگے لے جاتا چلا جا رہا ہے اور جس کو بھی خدا تعالیٰ خلیفہ بنائے گا، قطع نظر اس کے کہ اُس کی حالت کیا ہے اپنی تائیدات سے اُسے نوازتا چلا جائے گا۔ انشاء اللہ۔
خلافتِ خامسہ کے قائم ہونے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اپنی اس فعلی شہادت کا بھی اظہار فرما دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور آپ کے غلامِ صادق کی یہ بات کہ خلافت اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے دور میں دائمی ہے، یقینا اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے اور آئندہ بھی یہ نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے جاری رہے گا، انشاء اللہ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے والوں کی بعض نشانیاں بتائی ہیں۔ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام باتوں کا نقشہ بھی کھینچ دیا ہے جو خلافت سے فیض پانے والوں کے لئے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں کو فیصلوں کے لئے اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ فرمایا کہ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔ یہی ہیں جو کامیابیاں دیکھنے والے ہیں۔ پس یہاں صرف عبادتوں اور خالص دین کی باتوں کا ذکر نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ قرآنِ کریم کا دعویٰ ہے کہ اس میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حقوق کی تفصیل ہے، وہاں حقوق العباد کی بھی تفصیل ہے، معاشرتی نظام کی بھی تفصیل ہے، حکومتی نظام کی بھی تفصیل ہے۔ قرآنِ کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ پس یہاں اُن لوگوں کے لئے بھی تنبیہ ہے جو اپنے دنیاوی معاملات اور جھگڑے، باوجود جماعت کے نظام کے جہاں جماعتی نظام میں یہ کوشش ہوتی ہے کہ شریعت اور قانون کو سامنے رکھ کر سلجھائے جائیں، نظامِ جماعت کے سامنے (لانے سے) انکار کرتے ہیں اور ملکی عدالت میں لے جاتے ہیں۔ خاص طور پر جو عائلی اور گھریلو میاں بیوی کے مسائل ہیں۔ اسی طرح بعض اور دوسرے معاملات بھی ہیں اور ایسے لوگوں کی بدنیتی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب وہ پہلے انکار کرتے ہیں کہ جماعت میں معاملہ لایا جائے۔ اور جب عدالت میں اُن کے خلاف فیصلہ ہوتا ہے یا وہ کچھ نہ ملے جو وہ چاہتے ہیں تو پھر جماعت کے پاس آ جاتے ہیں۔ یہی باتیں ہیں جو کسی کی کمزوریٔ ایمان کا اظہار کر رہی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہی ہیں جو اپنے معاملات خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق طے کرتے ہیں اور نظامِ جماعت کوشش بھی کرتا ہے اور اُس کو چاہئے بھی کہ اُن کے فیصلے خدا اور اُس کے رسول کے فیصلوں کے مطابق ہوں۔ یہاں میں نظامِ جماعت کے اُس حصہ کو بھی تنبیہ کرنا چاہتا ہوں جو بعض اوقات گہرائی میں جا کر قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ نہیں کر رہے ہوتے۔ وہ بھی گنہگار ہوتے ہیں اور نظامِ جماعت اور خلافت سے کسی کو دور کرنے کی وجہ بھی بن رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خلافت کا ایک کام انصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بھی رکھا ہے۔ آجکل جماعت میں اتنی وسعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے، جماعت اتنی وسعت اختیار کر چکی ہے کہ خلیفۂ وقت کا ہر جگہ پہنچنا اور ہر معاملے کو براہِ راست ہاتھ میں لینا ممکن نہیں ہے۔ اور جوں جوں جماعت کی انشاء اللہ ترقی ہوتی جائے گی اس میں مزید مشکل پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ تو جو کارکن اور عہدیدار مقرر کئے گئے ہیں۔ اگر وہ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ نہیں کریں گے، اپنے کام سرانجام نہیں دیں گے تو وہ خلیفۂ وقت کو بھی بدنام کر رہے ہوں گے۔ اور خدا تعالیٰ کے آگے خود بھی گنہگار بن رہے ہوں گے اور خلیفۂ وقت کو بھی گنہگار بنا رہے ہوں گے۔
پس خاص طور پر قاضی صاحبان اور ان عہدیداران اور امراء کو جن کے سپرد فیصلوں کی ذمہ داری بھی ہے، اُن کو انصاف پر قائم رہتے ہوئے خلافت کی مضبوطی کا باعث بننے کی بھی کوشش کرنی چاہئے اور مضبوطی کا باعث بنیں، ورنہ وہی لوگ ہیں جو بظاہر عہدیدار ہیں اور خلافت کے نظام کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کو کامیاب فرمایا ہے جو خالصۃً اللہ تعالیٰ کے ہو کر اُس کا تقویٰ اختیار کر کے کامیابیاں حاصل کرنے والے ہیں، نظامِ جماعت اور نظامِ خلافت کی مکمل اطاعت کر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں سرخرو ہونے والے ہیں، وہاں مَیں اُن تمام عہدیداروں اور جن کے سپرد بھی فیصلہ(کرنے کا کام) ہے، اُن میں قاضی صاحبان بھی شامل ہیں، اُن کو بھی کہتا ہوں کہ آپ بھی خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکم کے موافق کام کریں۔ ایسی بات نہ کریں جو آپ کو انصاف سے دُور لے جانے والی ہو، جو تقویٰ سے ہٹی ہوئی ہو۔ خلیفۂ وقت کی نمائندگی کا صحیح حق ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر نہیں تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ ضرور پکڑے جائیں گے اور جو دنیاوی کارروائی ہو گی وہ تو ہو گی، خدا تعالیٰ کی سزا کے بھی مورد بن سکتے ہیں۔ پس ہر عہدیدار کے لئے یہ بہت خوف کا مقام ہے۔ عہدیدار بننا صرف عہدیدار بننا نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ ہے، اُس کے رسول پر ایمان کا دعویٰ ہے، مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لانے کا دعویٰ ہے، دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا دعویٰ ہے تو پھر اللہ اور اُس کے رسول کے ہر حکم پر عمل کرو۔ زمانے کے امام نے جو تمہیں کہا ہے اُس پر عمل کرو۔ خلیفۂ وقت کی طرف سے جو ہدایات دی جاتی ہیں اُن پر عمل کرو، ورنہ تمہارا قَسمیں کھانا اور بلند بانگ دعوے کرنا کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے بے معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کا حال جانتا ہے، اُسے پتہ ہے، اُس کے علم میں ہے کہ تم کہہ کیا رہے ہو اور کر کیا رہے ہو۔ ہم ہر اجتماع پر یہ عہد تو کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ فرمائیں گے اُس کی پابندی کرنی ضروری سمجھیں گے لیکن بعض چھوٹی چھوٹی باتوں کی بھی پابندی نہیں کرتے بلکہ قرآنِ کریم کے جو احکامات ہیں اُن کی بھی تعمیل کرنے کی، پابندی کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ جو کم از کم معیار ہیں اُن کو بھی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
اب مَیں ایک مثال دیتا ہوں کہ یہاں آپ کا ویسٹ کوسٹ (West Coast) کا یہ جلسہ ہوا ہے اور بہت ساری باتیں ہوئی ہیں، شاید اور باتیں بھی سامنے آ جائیں لیکن بہر حال اس وقت عورتوں کی مثال میرے سامنے ہے کہ مَیں نے اُن کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ہماری ہر عورت کا جو اس مغربی ملک میں رہتی ہے حیا دار لباس ہونا چاہئے اور حجاب ہونا چاہئے، اپنے آپ کو ڈھانکنا چاہئے۔ یہ قرآنِ کریم کا حکم ہے۔ یہ کوئی معمولی حکم نہیں ہے۔ قرآنِ کریم نے خاص طور پر فرمایا ہے کہ اس پر عمل کریں۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد مَیں نے دیکھا کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں تھی۔ بلکہ بعض عورتیں جن کو شاید لجنہ نے زبردستی نقاب پہنا دئیے تھے، وہ اپنے برقعے جو لجنہ کی طرف سے ملے تھے وہاں مسجد میں چھوڑ کر چلی گئیں اور صفائی کرنے والے اُن کو اکٹھا کر رہے ہیں۔ بیشک اسلام نے حیا کا حکم عورت اور مرد دونوں کو دیا ہے اور یہ دونوں کی بہتری کے لئے دیا گیا ہے۔ لیکن عورت کو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اپنا خیال رکھو کیونکہ مردوں کی نظریں بے لگام ہوتی ہیں۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد4صفحہ104ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)۔ اس پر کسی کا کوئی خرچ نہیں ہے، کوئی محنت نہیں ہے لیکن چونکہ دنیا داری غالب ہے اس لئے اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم عمل کرو گے تو فلاح پانے والے ہو گے۔ اگر نہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ رسول کا کام پیغام پہنچا دینا ہے، خدا تعالیٰ کے احکامات کو کھول کر بیان کر دینا ہے۔ اگر عمل کرو گے تو ہدایت پانے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ بیعت کا حق ادا کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے۔ اگر نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ صرف اس بات پر خوش نہ ہو جاؤ کہ ہم احمدی ہو گئے یا احمدی گھر میں پیدا ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی فرماتے ہیں کہ’’میری بیعت کچھ فائدہ نہیں دے گی اگر اُس کے ساتھ عملِ صالح نہیں۔‘‘ (ماخوذ ازملفوظات جلد4صفحہ184ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر نماز ایک بنیادی حکم ہے جو خدا تعالیٰ نے انسان کی زندگی کا مقصد بتایا ہے۔ لیکن اس میں بھی ہمارے اچھے بھلے کارکن بھی سستی دکھا جاتے ہیں۔ بعض عہدیدار ہیں باہر کام کر رہے ہیں، جماعت میں بڑے ایکٹو (active) ہیں، یہاں آتے ہیں تو شاید بڑے خشوع و خضوع سے نماز بھی مسجد میں پڑھتے ہوں گے، لیکن اُن کی بیویاں بتا دیتی ہیں کہ یہ جب گھر میں ہوں تو گھروں میں نماز نہیں پڑھتے۔ پس جب خدا تعالیٰ کے ایک انتہائی اہم حکم پر عمل نہیں تو پھر یہ دعویٰ بھی فضول ہے کہ ہم یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے۔ پہلے اپنی حالتیں تو سنوارو۔ اور جب ایسی حالت ہو جائے کہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ایک خاص کوشش ہو تو تبھی ایک احمدی، ایک مومن سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کا حق ادا کرنے والا کہلا سکتا ہے۔ اور جب یہ ہو گا، جب ایمان کے بعد اُس میں ترقی کرتے چلے جانے کی کوشش ہو گی، جب اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف توجہ ہو گی تو پھر ایسے لوگ خلافت کے انعام سے فیض پاتے رہیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ اُن لوگوں سے کیا ہے یا خلافت کے مقام سے وہ لوگ فائدہ اُٹھائیں گے، وہ لوگ تمکنت حاصل کریں گے، اُن کے خوف کو امن میں خدا تعالیٰ بدلے گا جو ایمان لانے والے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے والے اور عبادت کرنے والے اور ہر طرح کے شرک سے پرہیز کرنے والے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس انعام کے شکرگزار ہوں گے جو خلافت کی صورت میں اُنہیں ملا ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ احمدیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نظام جاری فرمایا ہے اور اس کے علاوہ اور کہیں یہ نظام جاری نہیں ہو سکتا۔ احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خوش قسمت ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کی وجہ سے خلافت کی نعمت سے حصہ ملا ہے۔ پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے، غیر مشروط نہیں ہے۔ بلکہ بعض شرطوں کے ساتھ ہے اور جب یہ شرطیں پوری ہوں گی، اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر تمکنت بھی حاصل ہو گی۔ خوف کی حالت بھی امن میں بدلتی چلی جائے گی۔
جماعت کے افراد اس بات کا کئی مرتبہ مشاہدہ کر چکے ہیں اور اس دَور میں تو غیروں نے بھی دیکھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ احمدیوں کی سکینت کے سامان فرماتا ہے اور یہ بات غیروں کو بھی نظر آتی ہے۔ پہلے بھی مَیں کئی مرتبہ بیان کر چکا ہوں کہ خلافتِ خامسہ کے انتخاب سے پہلے احمدیوں کی جو حالت تھی اُس کو غیر بھی محسوس کر رہے تھے اور بعض اس امید پر بیٹھے تھے کہ اب دیکھیں جماعت کا کیا حشر ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو وعدہ فرمایا تھا اُس کو اس شان سے پورا فرمایا کہ دنیا دنگ رہ گئی اور ایم ٹی اے کی وجہ سے غیروں نے بھی دیکھا کہ خوف امن میں ایسا بدلا کہ ایک غیر احمدی پیر صاحب نے جو ہمارے ایک احمدی کے واقف تھے، اُن کو کہا کہ مَیں یہ تو نہیں مانتا کہ تم لوگ سچے ہو لیکن یہ سارا نظارہ دیکھ کے مَیں یہ مانتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی فعلی شہادت تمہارے ساتھ ہے۔ خدا تعالیٰ کی مدد تو ضرور تمہارے ساتھ لگتی ہے لیکن مَیں نے ماننا نہیں۔ پس ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو سب کچھ دیکھ کر بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہتے ہیں۔ آجکل پاکستان میں جو ظلم کی لہر چل رہی ہے یہ اس بات کا اظہار ہے کہ یہ احمدی تو ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے ہیں، ان کے میدان تو وسیع سے وسیع تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کو ختم کرنے کی ہم جتنی کوشش کرتے ہیں یہ تو ختم نہیں ہوتے، کس طرح ان کو ختم کریں۔ لیکن ان لوگوں سے میں کہتا ہوں کہ اے دشمنانِ احمدیت! یاد رکھو کہ ہمارا مولیٰ ہمارا ولی وہ خدا ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے۔ وہ کبھی تمہیں کامیاب نہیں ہونے دے گا اور اسلام کی ترقی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب دنیا میں مسیح موعود کے غلاموں نے لہرانا ہے۔ ان لوگوں نے لہرانا ہے جو خلافت علیٰ منہاج نبوت پر یقین رکھتے ہیں، جو خلافت کے ساتھ منسلک ہیں، جو جماعت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جو حبل اللہ کو پکڑے ہوئے ہیں۔ پس تمہاری کوئی کوشش، کوئی شرارت، کوئی حملہ، کسی حکومت کی مدد خلافت احمدیت کو اس کے مقاصد سے روک نہیں سکتی، نہ جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک سکتی ہے۔ افرادِ جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ مَیں نے کہا، تقویٰ پر چلنا، نمازوں کا قیام اور مالی قربانیوں میں بڑھنا اُنہیں خلافت کے فیض سے فیضیاب کرتا چلا جائے گا۔ پس اس کیلئے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ بھرپور کوشش کرے۔ تا کہ اللہ تعالیٰ کے رحم سے وافر حصہ لینے والا ہو۔
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ’’رسالہ الوصیت‘‘ میں سے بعض اقتباسات پڑھتا ہوں جو آپ نے اُن لوگوں کے لئے تحریر فرمائے ہیں جن میں نظامِ خلافت جاری رہنا ہے یا جنہوں نے خلافت سے فیض پانا ہے یا جنہوں نے جماعت سے منسلک رہنا ہے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنی ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’اور چاہئے کہ تم بھی ہمدردی اور اپنے نفسوں کے پاک کرنے سے رُوح القدس سے حصہ لو کہ بجز رُوح القدس کے حقیقی تقویٰ حاصل نہیں ہو سکتی اور نفسانی جذبات کو بکلّی چھوڑ کر خدا کی رضا کے لئے وہ راہ اختیار کرو جو اس سے زیادہ کوئی راہ تنگ نہ ہو۔ دنیا کی لذّتوں پر فریفتہ مت ہو کہ وہ خدا سے جُدا کرتی ہیں اور خدا کے لئے تلخی کی زندگی اختیار کرو۔ وہ درد جس سے خدا راضی ہو اُس لذّت سے بہتر ہے جس سے خدا ناراض ہو جائے۔ اور وہ شکست جس سے خدا راضی ہو اس فتح سے بہتر ہے جو موجبِ غضب الٰہی ہو۔ اُس محبت کو چھوڑ دو جو خدا کے غضب کے قریب کرے۔ اگر تم صاف دل ہو کر اس کی طرف آجاؤ تو ہر ایک راہ میں وہ تمہاری مدد کرے گا اور کوئی دشمن تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ خدا کی رضا کو تم کسی طرح پا ہی نہیں سکتے جب تک تم اپنی رضا چھوڑ کر، اپنی لذّات چھوڑ کر، اپنی عزّت چھوڑ کر، اپنا مال چھوڑ کر، اپنی جان چھوڑ کر، اس کی راہ میں وہ تلخی نہ اُٹھاؤ جو موت کا نظارہ تمہارے سامنے پیش کرتی ہے۔ لیکن اگر تم تلخی اُٹھا لوگے تو ایک پیارے بچے کی طرح خدا کی گود میں آجاؤ گے اور تم اُن راستبازوں کے وارث کئے جاؤ گے جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ اور ہر ایک نعمت کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو ایسے ہیں۔ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے۔ وہی پانی جس سے تقویٰ پرورش پاتی ہے تمام باغ کوسیراب کر دیتا ہے۔ تقویٰ ایک ایسی جڑ ہے کہ اگر وہ نہیں تو سب کچھ ہیچ ہے اور اگر وہ باقی رہے تو سب کچھ باقی ہے۔ انسان کو اس فضولی سے کیا فائدہ جو زبان سے خدا طلبی کا دعویٰ کرتا ہے لیکن قدمِ صدق نہیں رکھتا۔ دیکھو مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ آدمی ہلاک شدہ ہے جو دین کے ساتھ کچھ دنیا کی ملونی رکھتا ہے اور اس نفس سے جہنم بہت قریب ہے جس کے تمام ارادے خدا کے لئے نہیں ہیں بلکہ کچھ خدا کے لئے اور کچھ دنیا کے لئے۔ پس اگر تم دنیا کی ایک ذرّہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ307-308)
فرمایا: ’’اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مر جاؤگے تب تم خدا میں ظاہر ہو جاؤگے اور خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔ اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہوگے اور ان دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا۔ اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہرایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کروگے اور تعلق کو نہیں توڑو گے بلکہ آگے قدم بڑھاؤگے تو مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤگے۔ تم بھی انسان ہو جیسا کہ مَیں انسان ہوں۔ اور وہی میرا خدا تمہارا خدا ہے۔ پس اپنی پاک قوتوں کو ضائع مت کرو۔ اگر تم پورے طور پر خدا کی طرف جھکو گے تو دیکھو مَیں خدا کی منشاء کے موافق تمہیں کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک قوم برگزیدہ ہو جاؤگے۔ خدا کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ۔ اور اس کی توحید کا اقرار نہ صرف زبان سے بلکہ عملی طور پر کرو تا خدا بھی عملی طور پر اپنا لطف و احسان تم پر ظاہر کرے۔ کینہ وری سے پرہیز کرو۔ اور بنی نوع سے سچّی ہمدردی کے ساتھ پیش آؤ۔ ہر ایک راہ نیکی کی اختیار کرو۔ نہ معلوم کس راہ سے تم قبول کئے جاؤ۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ308)
فرمایا: ’’تمہیں خوشخبری ہو کہ قرب پانے کا میدان خالی ہے۔ ہر ایک قوم دنیا سے پیار کررہی ہے اور وہ بات جس سے خدا راضی ہو اس کی طرف دنیا کو توجہ نہیں۔ وہ لوگ جو پورے زور سے اس دروازہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں اُن کیلئے موقعہ ہے کہ اپنے جوہر دکھلائیں اور خدا سے خاص انعام پاویں۔ یہ مت خیال کرو کہ خدا تمہیں ضائع کردے گا۔ تم خدا کے ہاتھ کا ایک بیج ہو جو زمین میں بویا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ یہ بیج بڑھے گا اور پھولے گا اور ہر ایک طرف سے اس کی شاخیں نکلیں گی اور ایک بڑا درخت ہو جائے گا۔ پس مبارک وہ جو خدا کی بات پر ایمان رکھے اور درمیان میں آنے والے ابتلاؤں سے نہ ڈرے کیونکہ ابتلاؤں کا آنا بھی ضروری ہے تا خدا تمہاری آزمائش کرے کہ کون اپنے دعویٔ بیعت میں صادق اور کون کاذب ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ308-309)
فرمایا: ’’خدانے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ مَیں اپنی جماعت کو اطلاع دوں کہ جو لوگ ایمان لائے ایسا ایمان جو اس کے ساتھ دنیا کی ملونی نہیں اور وہ ایمان نفاق یا بزدلی سے آلودہ نہیں اور وہ ایمان اطاعت کے کسی درجہ سے محروم نہیں، ایسے لوگ خدا کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ اور خدا فرماتا ہے کہ وہی ہیں جن کا قدم صدق کا قدم ہے۔‘‘ (رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد20صفحہ309)
اللہ تعالیٰ سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی جماعت کے بارے میں جو توقعات ہیں اُس میں پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خلافت احمدیہ سے سچا اور وفا کا تعلق قائم فرمائے۔ اطاعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ خلافت کے انعام سے ہمیشہ سب فیضیاب ہوتے رہیں۔
مئی کے مہینہ میں جماعت احمدیہ کے لئے ایک خاص دن ہے، یعنی 27؍مئی کا دن جو یومِ خلافت کے طور پر جماعت میں منایا جاتا ہے۔ 26؍مئی 1908ء کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک دل ہلا دینے والا دن تھا، بہت سوں کے ایمانوں کو لرزا دینے والا دن تھاوہاں 27؍مئی کا دن جماعت احمدیہ کے لئے تسکین اور امن کا پیغام بن کر آیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے خدا تعالیٰ کے کئے گئے وعدے کے پورا ہونے کی خوشخبری لے کر آیا اور دشمن کو اُس کی آگ میں جلانے والا بن کر آیا۔
خلافتِ احمدیہ بھی اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں خلافتِ راشدہ کا تسلسل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ایک مدت گزرنے کے بعد ختم ہونے کی اطلاع فرمائی تھی اور دوسرے دَور کی خلافت کی اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر ہمیشہ جاری رہنے کی خوشخبری عطا فرمائی۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم گزشتہ ایک سو پانچ سال سے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ جماعت پر مختلف دور آئے لیکن جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ترقی کی منزل پر نہایت تیزی سے آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے خلافت سے فیض پانے والوں کی بعض نشانیاں بتائی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب مومنوں کو فیصلوں کے لئے اللہ اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ ’’سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا‘‘ ہم نے سنا اور اطاعت کی۔
اللہ تعالیٰ نے خلافت کا ایک کام انصاف کے ساتھ لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا بھی رکھا ہے۔ آجکل جماعت میں اتنی وسعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیدا ہو چکی ہے، جماعت اتنی وسعت اختیار کر چکی ہے کہ خلیفۂ وقت کا ہر جگہ پہنچنا اور ہر معاملے کو براہِ راست ہاتھ میں لینا ممکن نہیں ہے۔ تو جو کارکن اور عہدیدار مقرر کئے گئے ہیں، اگر وہ خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اور تقویٰ سے کام لیتے ہوئے فیصلہ نہیں کریں گے، اپنے کام سرانجام نہیں دیں گے تو وہ خلیفۂ وقت کو بھی بدنام کر رہے ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے آگے خود بھی گنہگار بن رہے ہوں گے اور خلیفۂ وقت کو بھی گنہگار بنا رہے ہوں گے۔
اسلام کی ترقی اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اب دنیا میں مسیح موعود کے غلاموں نے لہرانا ہے۔ ان لوگوں نے لہرانا ہے جو خلافت علیٰ منہاج نبوت پر یقین رکھتے ہیں، جو خلافت کے ساتھ منسلک ہیں، جو جماعت کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں، جو حبل اللہ کو پکڑے ہوئے ہیں۔ افرادِ جماعت کو بھی یاد رکھنا چاہئے جیسا کہ مَیں نے کہا، تقویٰ پر چلنا، نمازوں کا قیام اور مالی قربانیوں میں بڑھنا اُنہیں خلافت کے فیض سے فیضیاب کرتا چلا جائے گا۔ پس اس کیلئے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ بھرپور کوشش کرے۔
فرمودہ مورخہ 24؍ مئی 2013ء بمطابق 24؍ہجرت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت النور۔ کیلگری (کینیڈا)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔