۱پنے ربّ کی نعمت کا اظہار۔ دورۂ امریکہ و کینیڈا
خطبہ جمعہ 31؍ مئی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:
وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ(الضحیٰ: 12)اور تُو اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرتا رہ۔
اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دنیاوی بھی ہیں اور دینی بھی اور روحانی بھی۔ دنیاوی نعمتیں تو ہر ایک کو بلا تخصیص عطا ہوتی ہیں۔ جو لوگ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے ہیں، خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کو ہر نعمت کا منبع سمجھنے والے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی دنیاوی نعمتوں کا بھی شکر ادا کرتے ہیں۔ اُس کا اظہار جہاں اپنی ذات پر کرتے ہیں وہاں دنیا کو بھی بتاتے ہیں کہ یہ نعمت محض اور محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ملی ہے۔ لیکن ان دنیاوی نعمتوں کے علاوہ بھی جیسا کہ مَیں نے کہا، دینی اور روحانی نعمتیں ہیں۔ اور ایک مسلمان اور حقیقی مسلمان اور اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے غلام جو یقیناً ہم احمدی ہیں، اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو بھی حاصل کرنے و الے بنے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس فضل اور انعام کو بیان کرنا اور اس کا اظہار ایک احمدی پر فرض ہے۔ جس کا ایک طریق تو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارنا ہے۔ اور دوسرے دنیا میں یہ ڈھنڈورا پیٹنا ہے اور دنیا کو بتانا ہے اور تبلیغ کرنا ہے کہ یہ نعمت، یہ نور جو ہمیں ملا ہے، آؤ اور اس سے حصہ لے کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے یا فضلوں کے وارث بنو کہ یہیں نورِ خدا ہے۔ یہیں تمہاری بقا ہے۔ یہیں دنیا کی بقا ہے۔ یہیں تمہیں اور دنیا کو دنیا و عاقبت سنوارنے کے سامان مہیا ہیں۔ اور پھر اس پیغام کو پہنچانے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے جو دروازے کھلتے ہیں، ہماری تھوڑی سی کوششوں کو جو اللہ تعالیٰ بے انتہا نوازتا ہے، ہم اللہ تعالیٰ کے دین کا پیغام پہنچانے کا جو ذریعہ بنتے ہیں، اس پر ہماری توقعات سے بہت زیادہ اللہ تعالیٰ کے کئی گنا بڑھ کر جو فضل ہوتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے ایک اَور پیار اور اُس کی نعمت کا اظہار ہے جو پھر ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر کرنے اور اُس کی شکرگزاری کے اظہار کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
پس ایک حقیقی مومن کو اللہ تعالیٰ کے انعامات کا وارث بنتے چلے جانے کے لئے اس مضمون کے حقیقی ادراک کی ضرورت ہے۔ اس زمانے میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے کے لئے بھیجا تو اپنی خاص تائیدات سے بھی نوازا۔ اپنے نشانات سے بھی نوازا جو روزِ روشن کی طرح ظاہر ہوئے اور ہو رہے ہیں، جس کے نظارے ہم دیکھتے چلے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ یہ تائیدات اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی آپ کو بتا دیا تھا کہ تم میری نعمتوں کا احاطہ نہیں کر سکو گے، اُن کو گن نہیں سکو گے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا: وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا۔ (تذکرہ صفحہ 75ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) کہ اگر تُو خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو گننا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ پھر یہ بھی آپ کو الہاماً فرمایا کہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (تذکرہ صفحہ 82ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) اور اپنے ربّ کی نعمتوں کا ذکر کرتا چلا جا۔
آپ علیہ السلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ: ’’یہ عاجز بحکم وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (الضحیٰ: 12) اس بات کے اظہار میں کچھ مضائقہ نہیں دیکھتا کہ خداوند کریم و رحیم نے محض فضل و کرم سے اِن تمام امور سے اس عاجز کو حصہ وافرہ دیا ہے اور اس ناکارہ کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا اور نہ بغیر نشانوں کے مامور کیا۔ بلکہ یہ تمام نشان دئیے ہیں جو ظاہر ہو رہے ہیں اور ہوں گے اور خدائے تعالیٰ جب تک کھلے طور پر حجت قائم نہ کر لے تب تک ان نشانوں کو ظاہر کرتا جائے گا۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ339-338)
پھر فرمایا: ’’عجز و نیاز اور انکسار… ضروری شرط عبودیت کی ہے۔‘‘(یعنی اگر اللہ تعالیٰ کا صحیح بندہ اور عبد بننا ہے تو پھر عجز اور انکسار بھی ہونا چاہئے۔ یہ ضروری شرط ہے) فرمایا: ’’لیکن بحکم آیت کریمہ وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ۔ نعمائِ الٰہی کا اظہار بھی از بس ضروری ہے۔‘‘ (مکتوبات احمد جلد 2صفحہ66مکتوب نمبر42بنام حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحبؓ مطبوعہ ربوہ)
پس اللہ تعالیٰ کا جب بھی ہم پر فضل ہوتا ہے۔ اُس کا بیان اور اظہار ہم اس حکم کے مطابق کرتے ہیں اور کرنا چاہئے لیکن عاجزی اور انکسار کے ساتھ، نہ کہ اپنی کسی بڑائی کو بیان کرتے ہوئے۔
گزشتہ دنوں مَیں امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر تھا۔ وہاں مختلف پروگرام غیروں کے ساتھ بھی ہوتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسلام کا صحیح پیغام پہنچانے کی توفیق بھی عطا فرمائی اور اتنے وسیع پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پیغام پہنچا کہ وہاں مقامی جماعت کے انتظام کرنے والوں کو خود بھی اس کا تصور نہیں تھا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں میں سے فضل ہے نہ کسی کی کوشش۔ جس کا اظہار پھر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بناتا ہے۔ اس حوالے سے مَیں دورے کے مختلف حالات آج بیان کروں گا۔
میرے دورہ سے اس مرتبہ امریکہ و کینیڈا کے West Coast میں جماعت کا تعارف ہوا۔ چونکہ یہاں پہلے میں نہیں گیا تھا۔ مَیں امریکہ میں Los Angeles گیا ہوں۔ یہ ہسپانوی لوگوں کا علاقہ ہے۔ اس علاقے اور اس شہر کا مختصر ذکر مَیں وہاں اپنے ایک خطبہ میں کر چکا ہوں اور وہ ذکر تو ہوچکا ہے کہ کیسا علاقہ ہے اور جماعت نے وہاں کیا کچھ کام کرنے ہیں۔ غیروں کے ساتھ جو رابطہ ہوا اور اسلام کی جو حقیقی تصویر وہاں کے لوگوں تک پہنچی، اُس کا مختصر ذکر کروں گا۔
وہاں ایک ہوٹل میں جماعت نے ایک Reception بھی رکھی ہوئی تھی جس میں مختلف طبقات کے لوگ خاصی تعداد میں شامل تھے۔ انتظامیہ کا خیال تھا کہ دنیا دار لوگ ہیں شاید زیادہ نہ آئیں۔ کیونکہ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ اتنے ہم دعوت نامے دیں گے تو اتنے لوگ آئیں گے۔ لیکن آخری دن تک آنے والوں کی اطلاع آتی رہی اور اتنے زیادہ لوگوں کی اطلاع تھی اور جو Response تھی وہ اتنی زیادہ تھی کہ انتظامیہ بھی پریشان ہوتی رہی۔ اور پھر انہوں نے اُس ہال میں بیٹھنے کے لئے جو انتظام کیا ہوا تھا اُس میں کچھ مزید اضافہ کرنا پڑا۔ اور آخر میرا خیال ہے کہ شاید بعض کو جو بعض دوستوں نے کہا تھا کہ اچھا اپنے کسی دوست کو لے آئیں، اُن کو پھر معذرت بھی کرنی پڑی۔ اور یہ لوگ ایسے نہیں تھے جو عام لوگ تھے بلکہ بڑا پڑھا لکھا طبقہ تھا اور معاشرہ میں جانا جانے والا اچھا طبقہ تھا۔
اس فنکشن میں مَیں نے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن کی مختصر وضاحت کی اور اس حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انسانیت کے لئے محبت و شفقت اور آپ کے اُسوہ کے بعض پہلو بیان کئے۔ اور یہ بتایا کہ یہ اسلامی تعلیم ہے۔ اور یہ اُسوہ ہمارے لئے بھی نمونہ ہے تو پھر عام مسلمانوں کا شدت پسندی کا یا دہشتگردی کا جو تصور قائم ہے، کس طرح ہوسکتا ہے کہ پھر وہ مسلمان ہوں۔ بہرحال اس تعلیم کے حوالے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کے حوالے سے ماحول پر ایک خاص اثر تھا۔ ہر ایک نے اظہار کیا کہ اسلام کی یہ تعلیم ہے تو یقیناً اس کا پرچار ہونا چاہئے، اس کو پھیلنا چاہئے۔ اس کی آجکل کی دنیا کو ضرورت ہے۔ اور یہ اُن لوگوں کا صرف ظاہری دکھاوا نہیں تھا۔ میرے پاس آ کر بار بار بعضوں نے اظہار کیا۔ پھر بعض نے ایم ٹی اے پر بھی اپنے خیالات کا اظہار ریکارڈ کروایا۔ اُن میں سے چند ایک باتیں مَیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ گیارہ مئی کو یہ فنکشن ہوا تھااور اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ تھے جن کی تعداد دوسو اکاون (251) تھی۔ اور ان کو جب اسلام کی امن کی، باہمی محبت کی، احترام کی اور دنیا میں انصاف کرنے کی تعلیم کے بارے میں بتایا گیا جیسا کہ مَیں نے کہا، یہ پیغام اُن کو بڑا پسند آیا اور انہوں نے سراہا۔
اس تقریب میں یو ایس کانگریس کے پانچ ممبران تھے۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والے، اچھے میڈیا سے تعلق رکھنے والے چودہ (14) تھے۔ کچھ اور پڑھے لکھے مختلف مہمان کافی تعداد میں تھے۔ سترہ (17) جو تھے وہ مختلف شعبوں کے سرکاری افسران تھے۔ ملٹری کے آفیسرز تھے۔ سینتیس (37) یونیورسٹیوں کے پروفیسرز تھے۔ این جی اوز کے لوگ کافی تعداد میں تھے۔ تیرہ (13) ڈپلومیٹس تھے۔ اور چھتیس سینتیس (37-36) کے قریب مختلف پروفیشن کے لوگ تھے۔ انتیس (29) مختلف مذاہب کے لیڈر تھے۔ پھر اسی طرح مختلف پڑھا لکھا طبقہ تھا۔ تھنک ٹینک (Think Tank)کے لوگ تھے۔ پولیس فورسز اور آرمڈ فورسز کے لوگ تھے۔ تو یہ ایک اچھا خاصہ طبقہ تھا جن تک یہ پیغام پہنچا۔
ایک شامل ہونے والی Barbara Goldberg ہیں اُن کا اظہار اس طرح ہوا۔ یہ کہتی ہیں: آپ نے مجھے اور میری فیملی کو استقبالیہ میں مدعو کیا۔ مَیں گہرے محبت کے جذبات سے آپ کی شکرگزار ہوں۔ اس پروگرام میں شمولیت میری زندگی میں ایک تحرک اور بیداری کا موجب ہوئی ہے۔ اس طرح ہماری ملاقات ایک ایسی کمیونٹی سے ہوئی ہے جو ہمارے ہی درمیان تھی مگر ہم اس سے واقف نہ تھے۔
پھر ایک نے میرا ذکر کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ انہوں نے اپنی تقریر میں جو نقطۂ نظر پیش کیا کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ اور دوسروں کے لئے کھلے دل سے قبولیت کے جذبات اور ایک خدا اور ہم سب کا ایک خدا اور ہر لفظ جو اُن کے ہونٹوں سے نکل رہا تھا، سچ تھا۔ اُن کا عالمی امن کا پیغام اور دنیا کو نیوکلیئر جنگ سے بھی متنبہ کرنا ایک ایسی بات ہے جو عالمی لیڈروں کے سننے اور توجہ دینے کے لئے بہت اہم ہے۔ یقیناً اسلام کی جو تعلیم ہے وہ سچ اور روشن ہے جو غیروں کو بھی چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔
پھر ایک شہر کے میئر تھے، انہوں نے کہا کہ آپ نے مجھے پیغام سننے کا موقعہ فراہم کیا جو ہماری دنیا کے لئے پُرامن تعلقات اور برداشت کے رویے اپنانے پر مشتمل تھا۔ فنکشن میں حضرت (میرا حوالہ دیا) کے سٹیٹ اور چرچ کے علیحدگی کے نقطہ نظر کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر میں جن جگہوں پر مذہبی عقائد کی بنا پر لوگوں کی مخالفت کی جاتی ہے اُنہیں اُس کا تحفظ دیا جائے اور عالمی امن کی بنیاد رکھی جائے۔ (یہ عیسائی ہیں اور یہ کہتے ہیں) یہ عالمی امن اور برداشت کا پیغام درحقیقت سچے اسلام کی تعلیمات کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ ہم اپنی نوجوان نسل کو ان تعلیمات کے ذریعہ ایک بہتر مستقبل تعمیر کرنے کا موقع دے سکتے ہیں۔ کہاں وہ ملک امریکہ جہاں اسلام کے خلاف بولا جاتا ہے اور کہاں اسلام کی تعلیم کو سراہا جا رہا ہے۔
پھر Los Angeles کے شیرف تھے جو وہاں اس علاقے میں بڑے مشہور ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دورہ Los Angeles کے دوران تمام مذاہب کے پانچ سو افراد کو محبت، امن اور انصاف قائم کرنے کا پیغام دیا ہے اُن لوگوں میں ممبران کانگریس، افسران سٹی کونسل، پبلک سیفٹی کے ادارے، اعلیٰ افسران اور پروفیسر صاحبان شامل تھے۔ مرزا مسرور احمدنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیمات کے مطابق محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں پر زور دیا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے دی جانے والی یہ دعوت ان کے اعزاز میں تھی۔ اور پھر لکھتے ہیں کہ عالمی امن کو قائم کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔
یہی ملک ہے جیسا کہ مَیں نے کہا جس میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق غلط رنگ میں بہت کچھ کہا جاتا ہے اور یہی ملک ہے جس میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت بیان کی گئی تو سوائے تعریف اور اس تعلیم کے ہر ایک کے لئے ضروری ہونے کے اظہار کے یہ اور کوئی اظہار نہیں کر سکے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم کی خوبصورتی کو اپنے عمل سے دنیامیں قائم کریں۔ پھر سابق گورنر کیلیفورنیا کہتے ہیں کہ یہ پیغام امن، محبت اور باہمی عزت و احترام کا پیغام، غیرمعمولی تھا۔ ہم خدا اور اُس کی مخلوق کی محبت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ہم ایک خدا سے دعا کرنے والے ہیں اور وہ ہم سب کو دیکھتا ہے۔
پھرLos Angeles کونسل کے ایک ممبر (میرا حوالہ دے کر) کہتے ہیں کہ انہوں نے محبت اور احترام کا درس دیااور سمجھایا کہ کس طرح لوگوں کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور آپس میں اتحاد پیدا کیا جا سکتا ہے۔ ان کا امن و آشتی کا پیغام ہر ایک کے لئے متاثر کن تھا اور ہر ایک نے بہت توجہ سے سنا اور اس پیغام کی بازگشت تمام عالم میں اسی طرح سنائی دے گی جس طرح اس کو آج Los Angeles میں سنا گیا۔
پھر امریکن کانگریس کے ایک ممبرDana Rohrabakerنے کہا کہ: جو پیغام آپ نے دیا وہ ہمارے ذہنوں نے قبول کیا۔ یہ میری آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ میں آپ کے حالاتِ حاضرہ اور دیگر اہم امور سے متعلق معلومات اور عقلی اپروچ (Approach)سے بہت متاثر ہوں۔ آپ کا تجزیہ حالاتِ حاضرہ پر حقیقت کے بہت قریب تھا۔ آپ کے منطقی اور پُر اثر بیان کا مجھ پر گہرا اثر ہوا۔ اور یہ پیغام بڑا پُرکشش ہے اور سننے کے لائق ہے اور پھر تمام مذاہب کے لئے قابل قبول ہے۔
اسی طرح یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک شعبہ کی ڈین Dean ، Rachel Moran ہیں یہ خاتون ہیں۔ کہتی ہیں کہ میرے لئے اس میں شامل ہونا بڑا باعث عزت تھا اور جس کا مقصد امن اور آشتی کو فروغ دینا تھا۔ پھر کہتی ہیں کہ اس میں جماعت احمدیہ کے امام کی طرف سے جو پیغام ہمیں ملا وہ روحانیت اور آئیڈل ازم (Idealism) کا ایک حسین امتزاج تھا۔ جو ہمیں مصائب زدہ دنیا جو جھگڑوں اور فساد سے بھری ہوئی ہے کو امن اور سلامتی سے بھرنے کے لئے ایک اہم درس ہے۔ ہمیں یہ اہم سبق ملا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ ہم سب مل کر بھائی چارے کو فروغ دیں۔ آج اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا کہ ہم ایک ایسے فنکشن میں موجود ہیں جو اتنا اہم پیغام دے رہا ہے جس سے ہمارے مسائل اور جھگڑے اور نفرتیں ختم ہو سکتی ہیں اور دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔
مصر کے قونصلیٹ محمد سمیر صاحب جو وہاں آئے ہوئے تھے، وہ کہتے ہیں کہ: میں بہت تقاریر اور ایڈریسز سنتا رہا ہوں۔ گلوبل پیس کے بارے میں اس طرح کا ایڈریس مَیں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا اور یہ خطاب سیدھا میرے دل پر اترا ہے اور مَیں اس سے متاثر ہوا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ تمام حاضرین کی بھی یہی رائے ہو گی۔ یہ پیغام لاکھوں کی تعداد میں دنیا کے لوگوں تک پہنچنا چاہئے اور میں خود یہ آگے پہنچاؤں گا۔
پھر ایک صاحبہ پروفیسر ہیں وہ بھی یہ کہتی ہیں کہ امنِ عالم کے قیام اور انسانیت سے محبت والے حصوں نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ جماعت احمدیہ نے انسانیت کے لئے ایک ایسی شمع روشن کی ہے جس کی آج ساری دنیا کو ضرورت ہے۔
پھر امریکہ کی مشہور مسلم تنظیم “Muslis Public Affairs Council” ہے، اس کی ڈائریکٹر صاحبہ تھیں، وہ کہتی ہیں کہ: اس تقریب میں شمولیت سے بحیثیت مسلمان مجھ میں حرارت پیدا ہوئی ہے۔ آپ سب کو بیحد مبارک ہو۔ اس پروگرام پر جو ہفتے کے روز منعقد ہوا، ایک نئے جذبے اور جوش کے ساتھ تروتازہ ہو کر اس مجلس سے اُٹھی ہوں۔ پھر کہتی ہیں کہ خطاب بڑا فصیح اور مؤثر تھا اور وقت کی ضرورت تھا۔ مجھے اس امر کی خوشی ہے کہ انہوں نے (یعنی میرا حوالہ دے رہی ہیں کہ) خدا کے رسول کے خلاف کئے جانے والے سارے اعتراضات کو نہایت خوبی سے ایڈریس کیا۔ متعدد مقررین اس موضوع سے اپنا دامن کترا کر چلے جاتے ہیں اور کوئی معقول جواب نہیں دیتے۔ مگر انہوں نے نہایت مدلّل طور پر اُن تمام اعتراضات کا براہِ راست جواب دیا اور وہ بھی ایسی تقریب میں جہاں بڑی تعداد میں بہت اعلیٰ حیثیت کے معززین بیٹھے ہوئے تھے۔
پھر ایک مہمان نے کہا کہ: امن کے قیام کے بارے میں ایسا ایڈریس میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا۔ یہ سیدھا ہمارے دلوں تک پہنچا ہے۔
پھرBernardino County کےSheriff نے اظہار کیا کہ: یہ خطاب وقت کی ضرورت تھی اور اس پر چل کر ہم دنیا میں امن قائم کر سکتے ہیں۔ پھر ایک وکیل ہیں، بڑی کمپنی کے ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں کہ بڑا اچھا پروگرام تھا جنگوں کے بارے میں اسلامی تعلیم نے بہت متاثر کیا غیر مسلموں کے ساتھ انتہائی مشکلات میں مفاہمت کا عمل احمدی ہی بجا لا سکتے ہیں۔ پھر وہاں کے ایک ممتاز ڈاکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ: میں جماعت کو زیادہ نہیں جانتا تھا لیکن اس خطاب کے ہر حرف اور ہر لفظ پر میں نے غور کیاہے اور اسے سچاپایا ہے۔ یہ الفاظ کہ دنیا تیسری جنگِ عظیم کے لئے کمر بستہ ہے، بالکل درست ہیں۔ یہ انتباہ دنیا کے تمام لیڈرز کو کیاجانا چاہئے۔
پھر ایک عیسائی پادری Jan Chase نے کہا کہ: یہ ایڈریس قابلِ ستائش تھا۔ آپ نے دہشت گردی کی مذمت کی اور برملا سب کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیم بیان کی۔
پھر ایک مہمان دوست Dr.Fred ہیں، انہوں نے کہا کہ مذہب کی جو تصویر آپ نے پیش کی ہے اس کے متعلق میرا علم بہت کم تھا۔ مذہب کے متعلق آپ کے الفاظ میری سوچ کی عکاسی کر رہے تھے۔ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کا پیغام بہت زبردست تھا۔ ایک دوسرے کو اس طرح قبول کرنا کہ صرف ایک خدا ہے جو اُس کا خدا ہے وہی میرا خدا ہے۔ یہ پیغام امن کی ضمانت ہے۔ پھر کہتے ہیں۔ قیامِ امن کے لئے ان کوششوں اور ایٹمی جنگ کے انتباہ پر دنیا کے حکمرانوں کو کان دھرنے چاہئیں۔ پھر ایک اور شہر کے میئر ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے جماعت احمدیہ کے متعلق بہت کم تجربہ تھا۔ آپ کے چرچ اور حکومت کو الگ الگ رکھنے کے پیغام کو بہت سراہتا ہوں۔ ہمیں اس ملک میں بہت سے حقوق حاصل ہیں لیکن ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اپنے عقائد کی وجہ سے ظلم کا نشانہ بن رہے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ: میں نے اپنی ساری زندگی تعلیم حاصل کرنے میں گزاری ہے۔ اس لحاظ سے مجھ پر ایک نئے پہلو کا انکشاف ہوا ہے کہ کس طرح اسلام کی حقیقی تعلیمات دنیا میں امن اور برداشت پھیلانے میں ممد ہو سکتی ہیں۔ مجھے آپ کی اس بات سے اتفاق ہے کہ امن اُس وقت تک حاصل نہیں کیا جا سکتا جب تک جابرانہ نقطۂ نظر اور ظلم کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ مَیں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور امیدکرتا ہوں کہ میں اس دنیا کو بہتر جگہ بنانے کی خاطر اپنی زندگی آپ کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق گزاروں گا۔
اگر غیروں پر یہ اثر ہے تو ہم جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے غلام ہیں، ہماری بھی کتنی ذمہ داری ہے کہ اس اہم پیغام کو دنیا تک پہنچائیں اور اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کریں۔ پھر ایک کانگریس مَین Dana Rohrabacher جو کہ ریپبلکن ہیں اور یہ بھی وہاں شامل تھے، کیلیفورنیا سے ان کا تعلق ہے، عام طور پر اسلام کے خلاف نظریات رکھتے ہیں اور ایک مہینہ پہلے جو بوسٹن میراتھن پر حملہ ہوا تھا، اُس کے بعد موصوف نے بیان دیا تھاکہ اسلام بچوں کو مارنے کی ترغیب دیتا ہے اور آجکل کے معاشرے کے لئے اسلام ایک خطرہ بن چکا ہے۔ یہ ان کا بیان تھا۔ پھر پاکستان کے حوالے سے بھی ان کا بیان تھا کہ وہاں کے سیاسی معاملات میں کیا کرنا چاہئے اور فلاں فلاں کو علیحدہ کر دینا چاہئے۔ بہر حال یہ خطاب سننے کے بعد انہوں نے جو ریمارکس دئیے وہ یہ تھے کہ آج کا جو خطاب ہے یہ سننے کے بعد مَیں یہ کہتا ہوں کہ یہ ہمارے دلوں کی آواز ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ آپ کا محبت اور ایک دوسرے کے لئے برداشت کرنے اور ایک دوسرے کو قبول کرنے کا پیغام نہایت اہم ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھے گا۔ کہتے ہیں یہ میری ان سے (یعنی میرے سے) پہلی ملاقات تھی اور میں ان کی حالاتِ حاضرہ کے متعلق قابلِ فکر اور حکیمانہ سوچ سے متاثر ہوا ہوں۔ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والا شخص جماعت احمدیہ کے خلیفہ کے اس پیغام کو قبول کر سکتا ہے جو امن کا پیغام ہے اور سننے کے قابل ہے۔ اور نہایت متانت کے ساتھ یہ امن کا پیغام ہمیں ملا۔ پھر بعد میں انہوں نے ہمارے جو وہاں امریکہ کے سیکرٹری خارجہ ہیں اُن کو خط میں لکھا ہے جو انہوں نے بھجوایا۔ لکھتے ہیں کہ مرزا مسرور احمد کے جنوبی کیلیفورنیا کے دورے میں انہوں نے وہ مقصد حاصل کیا ہے جس نے یہاں نیکی، پیار، نرمی کے ایسے بیج کی فصل لوگوں کے دلوں میں لگائی ہے جسے سالوں تک وہ کاٹتے رہیں گے اور فیض پاتے رہیں گے۔
تو یہ جو اسلام کے خلاف تھا، اب وہ یہ بیان دے رہا ہے کہ یہ جو باتیں کر گئے ہیں، ہمارے لوگ اب سالوں تک اس فصل سے فائدہ اُٹھائیں گے، اس کی فصل کاٹیں گے۔ اس طرح اُن کے اسلام کے بارے میں جو شدت پسندی کے خیالات تھے وہ بدلے۔
پھر کیلیفورنیا سٹیٹ کے سابق گورنر کا بھی اظہار ہے۔ یہ میرے ساتھ بیٹھے باتیں کرتے رہے اور ایم ٹی اے کے بارے میں بھی ان کو مَیں نے بتایا کہ جماعت کا کیا مقصد ہے، کس طرح تبلیغ کرتی ہے، کس طرح ایم ٹی اے چلتا ہے۔ تو ان کو بڑی دلچسپی تھی۔ پھر انہوں نے فریکوئینسی بھی لی کہ مَیں ضرور اب یہ دیکھوں گا، سنوں گا۔
Los Angeles میں دو بڑے اخباروں ’’Los Angeles Times‘‘ اور ’’Wall Street Journal‘‘ نے میرے انٹرویو بھی لئے تھے۔ اور وہاں بھی اسلام کے حوالے سے ہی زیادہ باتیں ہوتی رہیں۔ پھر پہلا سوال اُس نے مجھے یہ کیا تھا کہ آپ اسلام کے پُر امن پیغام کو کیسے پھیلا سکتے ہیں جبکہ بعض مسلمانوں کے تشدد اور دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے اسلام کا بہت بُرا تاثر پیدا ہوا ہے۔ آپ اس تأثر کو دور کرنے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اس پر مَیں نے اُن کو جواب دیا تھا کہ حقیقی اسلام تو امن کا پیغام ہے۔ اسلام کے معنی امن اور سلامتی ہیں۔ اور یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آخری زمانے میں مسیح موعود اور امام مہدی نے آناہے اور وہ آگیا جس کو ہم مانتے ہیں۔ اور اس نے صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ ساری دنیا کو اسلام کی سچی اور صحیح تعلیمات سے منور کرنا ہے۔ اسلام کی امن اور آشتی کی تعلیم سے دنیا کو آگاہ کرنا ہے۔ چنانچہ اس زمانے میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام تشریف لائے اور آپ نے اُن پیشگوئیوں کے مطابق سچی تعلیم کو دنیا کو بتایا اور ہم آگے بتا رہے ہیں۔ پھر میں نے اُن کو یہ بھی بتایا کہ جنگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسلام میں جنگیں کیوں لڑی گئیں؟ یہ میں نے تقریر میں بھی ذکر کیا تھا لیکن یہ انٹرویو اُس سے پہلے تھا کہ مسلمانوں نے کبھی پہلے حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں پر مظالم کئے گئے تو تبھی حملے ہوئے اور وہ حملے جواب میں تھے۔ اور اب کیونکہ مسلمانوں کے خلاف ایسی کوئی خاص مذہبی جنگ نہیں لڑی جا رہی اس لئے اس وقت جب تک کہ ایسا موقع نہ ہو اس قسم کا تلوار کا جہاد جو ہے وہ منع ہے۔ اور یہ مسلمان جہادی تنظیمیں اس حوالے سے جو بھی کام کررہی ہیں وہ غلط کر رہی ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین سے کبھی بھی یہ ثابت نہیں ہوا کہ انہوں نے ظلم کیا ہو۔
پھر عربوں کے بارے میں سوال کیا کہ کیا تحریکات جاری ہیں۔ عرب ممالک کی کیا صورتحال ہے؟ تو اس بارے میں بھی مَیں نے اُن کو بتایا کہ پہلے جو عرب حکومتیں ہٹائی گئیں تھیں یا جن کو ہٹائے جانے کی کوشش کی جا رہی ہے ان کو مغربی طاقتیں ہی سپورٹ (Support) کرتی تھیں۔ اب عرب ممالک کی ان تحریکات میں بھی جو مخالفین ہیں یا Rebells ہیں ان کو بھی مغربی طاقتیں سپورٹ کر رہی ہیں۔ اس کے پیچھے کیا نظریات ہیں، کیا سوچ ہے یہ تو وہ بہتر جانتے ہیں اور اس بارے میں میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں، لیکن میرے نزدیک بظاہر یہ لگتا ہے کہ مغربی طاقتیں اسلام اور عربوں کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح میں نے مصر کی مثال دی کہ وہاں کیا تھا اور اب کیا ہو رہا ہے؟ لیبیا میں کیا ہو رہا ہے؟ شکر ہے کہ انہوں نے یہ باتیں کچھ حد تک اسی طرح بیان کیں لیکن عام طور پر پریس والے لکھا نہیں کرتے۔ پھر مَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اگر مغربی طاقتوں نے جمہوریت قائم کرنی ہے تو پھر انصاف سے جسے جمہوریت کہتے ہیں، اُس کو قائم کرنے کی کوشش کریں۔ پھر شام کے حوالے سے بھی انہوں نے بات کی کہ وہاں لڑائیاں ہو رہی ہیں، یہ کیا ہے؟ اُن کو بھی میں نے بتایا کہ پہلے یہ شیعوں اور سنّیوں کا مسئلہ تھا۔ اب اس میں اور بہت ساری باغی تحریکیں شامل ہو گئی ہیں۔ اور ان کے آپس میں بھی تضادات ہیں اور وہاں اب صرف آپس کی مقامی سیاست یا جنگ نہیں رہی بلکہ یہ مغربی ملکوں کے مفادات کا مسئلہ بن چکا ہے۔ اور دوسرے دونوں فریق بددیانت ہیں اور دونوں کو مغربی ممالک سپورٹ کر رہے ہیں۔ ان کو میں نے بتایا کہ دنیا اب ایک گلوبل ویلیج ہے۔ ہر ایک دوسرے کے حالات سے متاثر ہوتا ہے۔ روس شام کی حکومت کی مدد کر رہا ہے۔ دوسری طرف باقی جو مغربی طاقتیں ہیں باغیوں کی مدد کر رہی ہیں۔ بہر حال دونوں کے مفاد میں یہ ہے کہ جنگ بند ہو اور دونوں اب اس کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ تو بہر حال اس بات کو بھی انہوں نے اپنی خبر میں لگایا۔ پھر مجھے کہتی ہیں کہ آپ کا پیغام امن کا ہے، یہ پھیل کیوں نہیں رہا؟ اُس کو میں نے بتایا کہ ہمارا پیغام تو پھیل رہا ہے اور آہستہ آہستہ دنیا اس کو قبول کر رہی ہے۔ اگر موجودہ نسلیں دین کو قبول نہیں کریں گی تو آئندہ نسلیں قبول کر لیں گی۔ ہم تو ہمت سے اس پیغام کو پہنچاتے چلے جا رہے ہیں اور ہم نے ہمت نہیں ہارنی۔ اور اس کو میں نے کہا اگر ہم آپ لوگوں کے دل نہ جیت سکے تو آپ کی اولادوں کے دل انشاء اللہ تعالیٰ ضرور جیتیں گے۔
پھر مذہب کے بارہ میں باتیں ہوئیں۔ اُن کو میں نے یہ بھی بتایا کہ ہر مذہب خدا کی طرف سے تھا۔ خدا کی طرف سے انبیاء آئے۔ سچی تعلیمات لے کر آئے۔ تمام نبیوں پر ہم ایمان رکھتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اُن کی تعلیمات بدل گئیں اور یہی حال مسلمانوں کا بھی ہوا کہ باوجود اس کے کہ قرآنِ کریم تو اپنی اصل حالت میں موجود رہا لیکن قرآنِ کریم پر عمل چھوڑ دیا۔ اس کو بھول گئے۔ اور اسی وجہ سے پھر اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا۔
پھر دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے ایک حوالے سے انہوں نے بات کی کہ اس کی وجہ سے جو امریکن عوام ہیں وہ خاص طور پر اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں اور اسلام کے خلاف کافی نفرت ہے۔ تو اُن کو مَیں نے بتایا کہ ہم اپنا کام کر رہے ہیں۔ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے بہرحال ایک وقت چاہئے۔ جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں کہ اگر یہ نسل نہیں تو اگلی نسل تک ضرور اسلام کی حقیقی تصویر پہنچ جائے گی اور وہ اس کو قبول کریں گے۔ عَمومی طور پر یہ بھی مَیں نے اُنہیں کہا کہ لوگ مذہب سے بیزار ہیں اور لا تعلق ہیں۔ چاہے وہ عیسائیت ہے یا کوئی اور مذہب ہے بلکہ خدا پر بھی یقین نہیں رکھتے اور دہریہ ہوتے جا رہے ہیں۔ اور ایک وقت آئے گا کہ جب وہ پھر ردّ عمل کے طور پر خدا پر یقین کریں گے اور مذہب کی طرف واپس آئیں گے۔ اور جب وہ مذہب کی طرف واپس آئیں گے تو اُس وقت ہم احمدی مسلمان ہیں جو اس خلا کو پُر کرنے والے ہوں گے۔ تو اُسی وقت ان کے سامنے سچی تعلیمات آئیں گی۔ بہر حال یہ ساری باتیں وہ ریکارڈ بھی کرتی رہیں اور نوٹ بھی کرتی رہیں اور پھر بعد میں انہوں نے بڑا اچھا لکھا بھی۔
اسی طرح Wall Street Journal ہے۔ وہ دنیا کا مشہور اخبار ہے اور بڑے اونچے طبقے میں زیادہ پڑھا جاتا ہے بلکہ امریکہ سے باہر بھی بڑے وسیع علاقے میں خاص طور پر چین وغیرہ میں بھی جاتا ہے۔ اس کی بڑی سرکولیشن ہے۔ تو یہاں بھی انہوں نے اسی طرح کے سوال کئے تھے۔ کچھ تو مشترک سوال تھے۔ اُن کے جواب دینے کی تو ضرورت نہیں۔ ایک انہوں نے مجھے یہ کہا کہ آپ کیلیفورنیا کیوں آئے ہیں؟ میں نے اس سے کہا کہ ساری دنیا ہماری ہے اور ہم نے ہر جگہ جانا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ باقی یہاں ہماری جماعت بھی ہے مَیں اُن کو بھی ملنے آیا ہوں۔ پھر ان لوگوں کے دماغوں میں یہ ہوتا ہے کہ شاید ہم بھی سیاسی لیڈروں کی طرح یا جس طرح کہ لوگ عام طور پر امریکہ بھیک مانگنے جاتے ہیں، یا کچھ لینے جاتے ہیں، مدد کے لئے جاتے ہیں، مَیں بھی اسی لئے آیا ہوں۔ کہتے ہیں یہاں امریکہ کے سیاسی لیڈروں سے آپ ملیں گے تو آپ ان سے کیا چاہتے ہیں، آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟ اِس پر میں نے اُسے کہا کہ مَیں ان سے اپنے لئے نہ کچھ لینے آیا ہوں نہ اپنی جماعت کے لئے کچھ لینے آیا ہوں۔ مَیں صرف یہ چاہتا ہوں کہ دنیا میں امن قائم ہو اور ایسے پروگرام بنیں، ایسے اقدام کئے جائیں جو عالمی امن قائم کرنے میں ممد ہوں اور دنیا کو تیسری جنگِ عظیم سے بچا سکیں۔ اور اگر یہ حالات کنٹرول نہ ہوئے تو تیسری جنگِ عظیم کنارے پر کھڑی ہے۔
پھر جو آجکل ڈرون اٹیکس (Drone Attacks) ہو رہے ہیں اس کے حوالے سے بھی انہوں نے بات کی۔ اس پر میں نے بتایا کہ معصوموں کو قتل کیا جا رہا ہے اور اس کی وجہ سے مخالفت بھی بڑھ رہی ہے۔ ان ملکوں میں جہاں جہاں حملے ہوتے ہیں، مغرب کے خلاف مخالفت بڑھتی ہے۔ اسلام کی تعلیم تو یہ نہیں ہے کہ معصوموں کو قتل کیا جائے لیکن تم لوگ ان حملوں سے معصوموں کو بھی قتل کر رہے ہو اور اسی وجہ سے مخالفت بڑھ رہی ہے۔
بہر حال امریکہ میں یہ Wall Street Journal اور Los Angeles Times اور Chicago Times اور دوسرے بہت سارے اخبار تھے، جن کے ذریعہ سے میڈیا میں بہت کوریج ہوئی ہے اور ایک اندازے کے مطابق پرنٹ میڈیا کے ذریعہ سے ساڑھے پانچ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا ہے۔ اور کم از کم پانچ ملین لوگوں تک آن لائن کے ذریعے سے اور ڈیڑھ ملین لوگوں تک ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ سے پیغام پہنچا۔ اور یہ کبھی ہماری کوشش سے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ وہ ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ نے چلا ئی ہے۔ یہ وہ اظہار ہے جو خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کا اظہار ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قادر ہونے کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تمہاری نیت نیک ہو، کوشش کرو تو پھر مَیں اس کے سامان بھی پیدا کرتا ہوں۔ پس اب یہ اُن جماعتوں کا بھی کام ہے کہ اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اسلام کی خوبصورت تعلیم کو آگے بڑھائیں۔ پھر اس کے بعد مسجد بیت الرحمٰن وینکوورVancouver کا افتتاح ہوا تھا۔ وہاں بھی غیروں کو مسجد کے افتتاح میں بلایا ہوا تھا۔ اس کو بھی میڈیا نے کافی کوریج دی ہے اور مجموعی طور پر امریکہ میں اس سے بارہ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا جو ویسے کبھی بھی ممکن نہیں تھا۔ اور کینیڈا میں مسجد کے حوالے سے اور جو میرے مختلف انٹرویو ہوئے ہیں، اُس سے تقریباً ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک پیغام پہنچا ہے۔ سی بی سی (CBC) اُن کا ایک چینل ہے۔ جس طرح یہاں بی بی سی ہے اسی طرح کا نیشنل چینل ہے۔ اُس نے مسجد کی خبر دی اور اندازہ ہے کہ اس کے ذریعہ تقریباً دس لاکھ لوگوں تک، پھر سی ٹی وی (CTV) اُن کا ایک نیوز چینل ہے، اُس کے ذریعے سے بائیس لاکھ لوگوں تک، پھر گلوبل ٹی وی ہے اُس کے ذریعہ سے چھ لاکھ لوگوں تک، اور پھر ریڈیو کینیڈا (CBC۔ فرانسیسی زبان کا) ہے۔ اس کی چار لاکھ سے زیادہ کوریج ہوئی۔ بہرحال مجموعی طور پر جیسا کہ مَیں نے کہا، ساڑھے آٹھ ملین لوگوں تک مسجد کے حوالے سے اسلام کا پیغام پہنچا۔ اور اخبارات کے ذریعہ سے بھی پیغامات پہنچے۔ گیارہ مختلف اخبارات نے خبریں دیں جس میں تقریباً ساڑھے سات لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ ریڈیو کے ذریعہ سے گیارہ لاکھ لوگوں تک، پھر Ethnic میڈیا جو ہے، اس کے بھی ریڈیو سٹیشنز ہیں ان کے ذریعہ سے تقریباً چھ لاکھ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ تو یہ مختلف ریڈیو چینل تھے۔ پھر وہاں سکھ پرانے آباد ہیں۔ ان میں ایک سکھ دوست من میت بھلر صاحب سیاستدان ہیں اور وہاں البرٹا صوبہ کے منسٹر ہیں۔ وہ مسجد کے افتتاح پر آئے ہوئے تھے۔ کہتے تھے کہ میں نے کچھ دنوں تک جنیوا میں ایک تقریر کرنی ہے جو امن کے متعلق تھی۔ جس کا متن مَیں نے پہلے سے تیار کیا ہوا ہے۔ جب انہوں نے وہاں میری تقریر سنی تو کہتے ہیں کہ اب یہ متن میں دوبارہ تیار کروں گا اور اُن باتوں کو شامل کروں گا جو آپ نے بیان کی ہیں اور مَیں ان سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں۔ پھر اسی طرح وہاں ایک ریڈیو شیرِ پنجاب ہے، اُس کے روندر (Ravinder) سنگھ صاحب ہیں، وہ کہتے ہیں کہ اس نقطہ نظر میں مَیں نے کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں پایا۔ تقریر میں بہت زیادہ جرأت دیکھنے کو ملی۔
پھرایک Christian Beckter صاحب ہیں، انہوں نے کہا کہ ایک بات جو مجھے بہت پسند آئی کہ وہاں جب میں نے یہ فقرہ بولا تھا کہ جب ہم کسی مسجد کا افتتاح کرتے ہیں تو ہم مذہبی آزادی کے ایک نئے باب کو رقم کر رہے ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ آپ کے خطاب سے ثابت ہو گیا کہ احمدی تشدد پسندنہیں بلکہ امن پسند لوگ ہیں۔ احمدی انسانیت کی اقدار پر عمل کرنے والے لوگ ہیں۔ پھر سی بی سی کی نمائندہ صحافی نے میرا کہا کہ انہوں نے میرے تمام سوالوں کا تشفی بخش جواب دیا ہے۔ جس چیز کی مجھے تلاش تھی وہ مجھے مل گئی اور پھر اُس نے شام کو اپنی خبروں میں بھی اُس کو بیان کیا، خبروں میں دیا۔
ہندوستان کے ایک جرنلسٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سارا خطاب مَیں من و عن اپنی اخبار میں چھاپوں گا۔ اس میں حیرت انگیز پیغام ہے۔
ایک بزنس مَین کہتے ہیں کہ آج مجھے علم ہوا ہے کہ امن صرف عیسائیت کا ہی حصہ نہیں بلکہ امن تو ہر مذہب کا حصہ ہے۔ میں نے جو بات آج سیکھی ہے وہ لازماً اپنے بچوں کو سکھاؤں گا۔
پھر مراکش کے ایک مسلمان کہتے ہیں کہ آپ امن کے پیغام کو فروغ دے رہے ہیں۔ امید ہے میڈیا کے ذریعہ اسلام کے متعلق شدت پسندی کے بجائے امن کا پیغام پھیلے گا۔ مَیں خود بھی مسلمان ہوں لیکن آج اس خطاب کے ذریعہ میں نے اسلام کے متعلق بہت سی نئی باتیں سیکھی ہیں۔ مسجد کا جو افتتاحی خطاب تھا وہ لائیو ہی آیا تھا۔ ایک مہمان جو مسلمان نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ خطاب نہایت پُر فکر تھا۔ اس خطاب میں وسیع پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا۔ سب سے خاص بات یہ تھی کہ ایک عام آدمی کے ڈر کو آپ نے اپنے خطاب میں مخاطب کیا اور خطاب انتہائی واضح تھااور اس میں قابلِ تحسین دُور اندیشی تھی۔
ایک صاحب نے کہا آپ کا توحید کا پیغام تمام دنیا کے لئے اپنے اندر اہم معنی رکھتا ہے۔
جیسا کہ مَیں نے کہا اس خبر کو پہنچانے میں بھی مختلف میڈیا نے کردار ادا کیا۔ کیلگری میں جو ہوا، اُس کو بھی CBC نے، سی ٹی وی نے، اومنی ٹی وی نے دیا۔ اور اس طرح تقریباً ساڑھے آٹھ ملین، پچاسی لاکھ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا۔ یعنی کل مجموعی طور پر یہ دیکھیں تو تقریباً دو کروڑ سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا ہے۔ اور اس حساب سے امریکہ کی آبادی کے لحاظ سے چار فیصد سے زیادہ آبادی کو، بلکہ اُس صوبے ویسٹ کوسٹ کے لحاظ سے تو میرا خیال ہے پچیس سے تیس فیصد تک لوگوں کو پیغام پہنچا اور کینیڈا کی کل آبادی کے لحاظ سے پچیس فیصد آبادی کو پیغام پہنچاجو کسی بھی ذریعہ سے پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔
پھر کینیڈا میں ہی اس نے ایک سوال یہ کیا تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ تو کیا آج مسلمانوں کی طرف سے امن ظاہر ہو رہا ہے؟ اُس کو مَیں نے یہ کہا کہ قرآنِ کریم کی تعلیم تو یہی ہے۔ اگر کوئی لیڈر، حاکم یا عوام اس کا اظہار نہیں کر رہے یا مسلمان ملکوں میں یہ نہیں ہو رہا اور اُن کو حقوق نہیں دئیے جا رہے تو یہ اُن کا قصور ہے۔ اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ پھر بار بار یہی حوالہ تھا کہ جو واقعات ہوئے ہیں مثلاً کینیڈا میں ٹرین کا واقعہ، بوسٹن بم بلاسٹ کا واقعہ، لندن کا واقعہ، تو اُس کو میں نے بتایا کہ یہ سب اللہ تعالیٰ سے دور ہٹنے کی وجہ سے ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ نہیں ہے کہ یہ کرو، بلکہ ان لوگوں کی اللہ تعالیٰ سے دوری کی وجہ سے یہ کچھ ہے اور اگر یہ صحیح تعلیم پر عمل کریں تو امن قائم ہو جائے۔ اور اسی حوالے سے مَیں نے ان کو یہ بھی کہا کہ اسلام کے اندر اسلام کے نام پر چند ایک انتہا پسند گروپ ہیں جو کام کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں جو واقعہ ہوا ہے، اس کو میں نے کہا کہ وہاں برطانیہ کی مسلم کونسل ہے، مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم ہے، اُس نے بڑی قوت کے ساتھ اور زور دار طریقے سے اس واقعہ کی مذمت کی ہے کہ یہ غیر اسلامی عمل ہے۔ اور یہ بڑا اچھا کام ہے جو انہوں نے کیا اور بڑا اچھا بیان ہے جو مسلم کونسل نے دیا۔
پھر اسی طرح (یہ سوال تھا) کہ آپ دنیا میں دہشتگردی کو روکنے کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ اُس کو بتایا مَیں نے کہ ہم تو مسلسل کوشش کر رہے ہیں اور دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے وہاں کے مختلف ممالک میں مختلف لوگوں کی خدمت بھی کر رہے ہیں۔ اور طاقت تو ہمارے پاس کوئی ہے نہیں کہ ہم طاقت کے زور سے اس ظلم کو کچھ روک سکیں۔ ہاں اسلام کی سچی تعلیم ہے، جس کو ہم پھیلا رہے ہیں اور پھیلاتے چلے جائیں گے۔
تو پھر اس نے کہا کہ یہ مشہور ہے کہ مسجدوں سے تشدد پھیلتا ہے۔ اُس کو مَیں نے کہا مَیں باقی کا تو نہیں کہتا۔ یہ ہماری جماعت احمدیہ کی جو مساجد ہیں، یہاں سے ہمیشہ امن اور محبت اور پیار کا پیغام ہی بھیجا گیا ہے، اور اسی کے لئے ہم کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عمومی طور پر جماعت احمدیہ میں مجرموں کی تعدادنہ ہونے کے برابر ہے بلکہ نہیں ہے۔ اور اگر ایک آدھ کوئی ایسا ہو تو جماعت اُس پر ایکشن لیتی ہے اور فوراً اُس کو جماعت سے نکال دیتی ہے۔
بیس پچیس منٹ کا انٹرویو تھا۔ یہ سی بی سی کی وہ جرنلسٹ عورت بار بار پھیر کے ایسے سوال کر رہی تھی کہ کسی طرح میں اُس کے قابو آ جاؤں کہ اسلام کی تعلیم امن کی تعلیم نہیں ہے اور ہم کوئی اور بات کر رہے ہیں۔ آخر مَیں نے اُسے کہا کہ تم مختلف زاویوں سے ایک ہی سوال کرتی چلی جا رہی ہو۔ میرا جواب وہی رہے گا۔ تو ہنس پڑی۔ بعد میں کہنے لگی۔ ہمارے آدمیوں کو اس نے کہا کہ یہ میری سٹریٹجی(Strategy) سمجھ گئے تھے۔ میں یہی چاہتی تھی کہ کسی طرح اسلام کے خلاف کوئی بات نکلواؤں۔ بہرحال اسلام کی جو سچی تعلیم ہے وہ تو ظاہر ہے خود ہی نکلتی ہے، کوئی بناوٹ تو ہمارے اندر ہے نہیں۔ پھر کہتی ہے تمہارایہ پیغام پھیلے گا کس طرح؟ اُس کو مَیں نے یہی کہا کہ ہم پیغام پہنچا رہے ہیں اور پہنچاتے چلے جائیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہمت نہیں ہاریں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اکیلے تھے جب آپ نے دعویٰ کیا۔ جب آپ کی وفات ہوئی تو قریباً پانچ لاکھ کے قریب احمدی تھے۔ اس کے بعد خلافت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ایک سو پچیس سال گزرے ہیں تو اب ہم کروڑوں میں ہیں۔ اور مسلمان بھی ہمارے اندر شامل ہو رہے ہیں، عیسائی بھی شامل ہو رہے ہیں، دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ نسلیں اس کو قبول کریں گی اور تب یہ صحیح امن دنیا میں قائم ہو گا اور صحیح اسلام دنیا میں پھیلے گا۔
بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دورہ سے محتاط اندازے کے مطابق بیس ملین سے زیادہ لوگوں تک پیغام پہنچا۔ یا دو کروڑ لوگوں سے زیادہ لوگوں تک یہ پیغام پہنچا۔ اور اتنی بڑی تعداد میں پیغام پہنچانا اور پھر لوگوں کی آوازیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام اور جماعت کے حق میں اُٹھانا۔ جیسا کہ میں نے بعض مثالیں بھی دی ہیں۔ یہ انسانی کوشش سے یقیناً یقیناً نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی چلائی ہوئی ہوا ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی رؤیا کا میں نے Los Angeles کے خطبے میں ذکر کیا تھا۔ وہاں میں نے شاید بیان کیا تھا کہ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، اصل میں لوگ نہیں بلکہ انہوں نے میدان ہی دیکھے تھے اور خالی زمین میں سے اسلام اور احمدیت کے حق میں آوازیں آتی دیکھی تھیں۔ تو یہ آوازیں جو اُٹھ رہی ہیں یقیناً اس کا ایک پہلو اس طرح بھی ہے۔ پس یہ جو لوگوں کی توجہ ہے اور یہ جو مختلف تبصرے ہیں، یہ اس بات کی تصدیق ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ آوازیں اُس علاقے سے اب اُٹھتی چلی جائیں گی اور اسلام کے حق میں بہت شدت سے گونجیں گی۔
مَیں کہتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص توارد ہے کہ ایک مہینہ پہلے مَیں سپین کے دورے پر گیا۔ وہاں سپین میں بڑے وسیع پیمانے پر جماعت کا تعارف ہوا۔ وہ ملک جو ایک زمانے میں اسلام کے تحت تھا، اب عیسائی ہے اور دوبارہ اسلام کا وہاں تعارف ہو رہا ہے۔ اور امریکہ کے علاقے میں بھی ایک مہینہ کے بعد میں اُس علاقے میں گیا جہاں بہت بڑی تعداد میں سپینش لوگ آباد ہیں۔ پس اس کام کو سنبھالنا اب ہمارا کام ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو دونوں طرف کے سپینش میں، مشرق کے سپینش میں بھی اور مغرب کے سپینش میں بھی احمدیت کا اور حقیقی اسلام کا جو پیغام پہنچایا ہے اس کو ہم پوری کوشش سے جاری رکھیں اور ان لوگوں کو اسلام کے جھنڈے تلے لے کر آئیں۔ امریکہ میں تو خاص طور پر جیسا کہ مَیں نے وہاں بھی جمعہ پرکچھ کہا تھا کہ وہاں کے سپینش لوگ کہتے ہیں کہ ہماری بہت بڑی تعداد ہے، سپینش سے دس گنا زیادہ تو ہماری طرف توجہ کریں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ایک ارشاد ایک شوریٰ کے موقع پر تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک مغرب سے سورج نکلنے میں امریکہ کا بھی بہت تعلق ہے۔ پھر ایک جگہ امریکہ میں تبلیغِ اسلام کی خاص مہم کا بھی آپ نے ذکر فرمایا۔ (ماخوذ از خطابات شوریٰ از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدؓ مجلس مشاورت 1924ء جلد سوم صفحہ 108)
پس ہمیں خاص طور پر امریکہ میں تبلیغی پروگرام بنانے چاہئیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تبلیغ کرتے ہوئے اپنی تربیت کو، نئے آنے والے کی تربیت کو بھولنا نہیں چاہئے۔ یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ اور یہ اُس وقت ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نعمت کا اپنے اعمال کے ذریعہ سے بھی ہم اظہار کریں۔ اسی طرح کینیڈا میں بھی اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ مَیں نے کہا ایک چوتھائی آبادی تک اسلام کا تعارف، احمدیت کا تعارف کروایا اور وہاں بھی ان کو تبلیغ کے میدان کو وسعت دے کر اس کام کو سنبھالنا چاہئے۔ اور یہ اپنی تربیت سے، تبلیغ سے، شکرگزاری کے جذبات سے اور عبادت کے معیار حاصل کرنے سے حاصل ہو گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔
اللہ تعالیٰ امریکہ کی اور کینیڈا کی ہر دوجماعتوں کو اور باقی دنیا کو بھی احسن رنگ میں یہ کام سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہاں مَیں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ یہ نئے تعارف اور راستے جو کھلے ہیں ان میں دونوں ملکوں میں نوجوانوں کو یا نسبتاً جوانوں کو زیادہ کام کرنے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے۔ پس آئندہ نسل کو پہلے سے بڑھ کر اپنی ذمہ داری ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دونوں جگہ پر سیکرٹریانِ خارجہ جوان ہیں اور اُن کی ٹیم بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام کرنے والی ہے۔ ان دونوں نے اپنے رابطوں کے ذریعوں سے بڑے وسیع کام کئے ہیں اور یہ جو رستے کھولے ہیں، اب تبلیغ اور تربیت کے شعبوں کا کام ہے کہ ان سے آگے فائدہ اُٹھاتے چلے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزا دے اور عاجزی میں پہلے سے زیادہ بڑھائے۔ یہ نہ ہو کہ ایک کام کر کے اپنے آپ پر کسی قسم کا فخر کرنے لگ جائیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عاجزی اُن میں پیدا ہو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے، انکساری اور عجز جو ہے، وہ بہت ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔
(الفضل انٹرنیشنل مورخہ 21 جون 2013ء تا 27 جون 2013ء جلد 20 شمارہ 25 صفحہ 5 تا9)
فرمودہ مورخہ 31؍ مئی 2013ء بمطابق 31؍ہجرت 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔