دعاؤں کی مقبولیت کے لئے عاجزی اور انکساری

خطبہ جمعہ 7؍ جون 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ۔ اَلَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَاِنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔ (البقرۃ: 46۔ 47)

ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقینا یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے۔ یعنی وہ لوگ جو یقین رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ربّ سے ملنے والے ہیں اور یہ کہ وہ اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘

خدا تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے جس بنیادی بات کی طرف اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت میں توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنِ کریم میں اَور جگہوں پر بھی ہے، وہ عاجزی اور انکساری ہے۔ یعنی قرآنِ کریم کے تمام احکامات، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیاد عاجزی اور انکساری ہے۔ یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا عاجزی اور انکساری کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک حقیقی مومن اگر احکامات پر عمل کررہا ہے تو یقینا اُس میں عاجزی اور انکساری پیدا ہوتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ’’وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعاً‘‘ (بنی اسرائیل: 110) کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام اُن میں فروتنی اور عاجزی کو بڑھاتا ہے۔ (ماخوذ از براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ578)

پس ایک مومن جب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ مَیں خدا تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانے والا، اُس کو پڑھنے والا اور اُس پر عمل کرنے والا ہوں تو پھر لازماً قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق اُس کی عبادتیں بھی اور اُس کے دوسرے اعمال بھی وہ اُس وقت تک نہیں بجا لا سکتا جب تک اُس میں عاجزی اور انکساری نہ ہو یا اُس کی عاجزی اور انکساری ہی اُسے ان عبادتوں اور اعمال کے اعلیٰ معیاروں کی طرف لے جانے والی نہ ہو۔ انبیاء اس مقصد کا پرچار کرنے، اس بات کو پھیلانے، اس بات کو لوگوں میں راسخ کرنے اور اپنی حالتوں سے اس کا اظہار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں آتے رہے جس کی اعلیٰ ترین مثال ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں نظر آتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ:

’’اﷲ تعالیٰ بہت رحیم و کریم ہے۔ وہ ہر طرح انسان کی پرورش فرماتا اور اس پر رحم کرتا ہے اور اسی رحم کی وجہ سے وہ اپنے ماموروں اور مُرسَلوں کو بھیجتا ہے تا وہ اہلِ دنیا کو گناہ آلود زندگی سے نجات دیں۔ مگر تکبر بہت خطرناک بیماری ہے جس انسان میں یہ پیدا ہو جاوے اس کے لیے روحانی موت ہے‘‘۔ فرمایا: ’’مَیں یقینا جانتا ہوں کہ یہ بیماری قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ متکبّر شیطان کا بھائی ہو جاتا ہے۔ اس لیے کہ تکبّر ہی نے شیطان کو ذلیل و خوار کیا۔ اس لیے مومن کی یہ شرط ہے کہ اُس میں تکبر نہ ہو بلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصّہ ہوتا ہے‘‘۔ (یعنی سب سے زیادہ خدا تعالیٰ کے ماموروں اور مرسلوں میں یہ بات ہوتی ہے کہ اُن کی عاجزی انتہا کو پہنچی ہوتی ہے) فرمایا: ’’اُن میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے۔‘‘ (یعنی آپؐ کیسا سلوک کرتے ہیں؟) تو ’’اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِک وَسَلِّم‘‘۔ فرمایا: ’’یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا۔ اور یہ بات سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لیے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد4صفحہ437-438مطبوعہ ربوہ)

پس یہ ہے اُس شارع کامل کا نمونہ جس کا اُسوہ اپنانے کی امّت کو بھی تلقین کی گئی ہے۔

قرآنِ کریم جب ہمیں احکامات پر عمل کرنے کے لئے کہتا ہے تو اس کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمارے سامنے کھڑا ہوتا ہے۔ آپ کی عبادتیں ہیں تو اُس کے بھی وہ اعلیٰ ترین معیار ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اعلان کردے کہ میرا اپنا کچھ نہیں، میری عبادتیں بھی صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لئے ہیں۔ مَیں اپنی ذات کے لئے کچھ حاصل نہیں کرتا؛ نہ کرنا چاہتا ہوں بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی رضا میرے پیشِ نظر ہے۔ میری زندگی کا مقصد خدا تعالیٰ کی ذات کے گرد گھومتا ہے۔ قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ (الانعام: 163) کا اعلان ایک ایسا اعلان ہے جس کے اعلیٰ معیاروں تک آپ کے علاوہ کوئی اور پہنچ نہیں سکتا۔ اور پھر صبر کی بات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کہ وَمَا یُلَقّٰھَا اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوا وَمَا یُلَقّٰھَا اِلاَّ ذُوْ حَظٍّ عَظِیْم (حٰم السجدۃ: 36) اور باوجود ظلموں کے سہنے کے یہ مقام اُنہیں عطا کیا جاتا ہے جو بڑا صبر کرنے والے ہیں یا پھر اُن کو جنہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی نیکی کا حصہ ملا ہو۔ جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پڑھتے ہیں تو گھریلو مشکلات اور تکالیف میں بھی، اپنی ذات پر جسمانی طور پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی، اپنی جماعت پر آنے والی مشکلات اور تکلیفوں میں بھی صبر کی اعلیٰ ترین مثال اور صبر کے اعلیٰ ترین معیار ہمیں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں نظر آتے ہیں۔ ذاتی طور پر دیکھیں طائف میں کس اعلیٰ صبر کا مظاہرہ کیا۔ اور یہ صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ نے ایک شہر کو تباہ ہونے سے بچا لیا۔ باوجودکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار دیا تھا لیکن آپ کے صبر کی انتہا تھی کہ باوجود زخمی ہونے کے، باوجود شہر والوں کی غنڈہ گردی کے آپ نے کہا، نہیں اس قوم کو تباہ نہیں کرنا۔ (شرح العلامہ الزرقانی جلد2صفحہ52-53باب خروجہﷺ الی الطائف دارالکتب العلمیۃ ایڈیشن1996)

پھر اگر آپؐ کے ماننے والوں نے قوم کے ظلموں سے تنگ آ کر آپؐ کو ایک خاص قوم کے لئے بددعا کے لئے درخواست کی تو آپ نے اُن کی اس درخواست پر یہ نہیں کہا کہ اب میں بددعا کرتا ہوں بلکہ اُس قوم کی ہدایت کے لئے دعا کی۔ (ماخوذازصحیح بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام۔ حدیث نمبر3612)

اور یوں اپنے ماننے والوں کو بھی اپنے نمونے سے، اپنے عمل سے، اپنی دعا سے صبر کی تلقین فرما دی کہ صحیح بدلہ بددعاؤں سے نہیں ہے، صحیح بدلہ ہدایت کی دعاؤں سے ہے۔ صحیح بدلہ صبر کے اعلیٰ نمونے دکھانے سے ہے۔ پھر عاجزی اور انکساری کی مثال ہے تو ہر موقع پر ہر جگہ، آپ کی ذات میں یہ ہمیں نظر آتی ہے۔ اس کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اقتباس میں میں نے دی ہے۔ پس ایک کامل نمونہ خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کا ہمیں ملا جس کو اپنانے کا خدا تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا۔ اور مختلف احکامات بھی دئیے کہ ان کو بجا لاؤ تو میرا قرب حاصل کرو گے۔ لیکن ان احکامات کے ساتھ، اس نمونے کے ساتھ اس ایک اصول کی بھی نشاندہی فرما دی کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قرب اور اس اُسوہ پر چلنا اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب عاجزی اور انکساری اختیار کرو گے۔ یہ مقام اُن کو ملتا ہے جو عاجزی اور انکساری اختیار کرنے والے ہیں۔ اُس شخص کے اُسوہ پر چلنے سے ملتا ہے جس نے اپنے رعب سے متاثر ہوئے ہوئے ایک کمزور آدمی کو کہا تھا کہ گھبراؤ نہیں، میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں۔ ایک عورت کا ہی دودھ پیا ہے اور وہ ایسی عورت جو عام کھانا کھایا کرتی تھی۔ عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتی تھی۔ (ماخوذ از سنن ابن ماجہ کتاب الاطعمۃ باب القدید حدیث 3312)

پس آپؐ کے ماننے والوں کو بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم بھی عاجز انسان بنو تا کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔

یہ آیات جو مَیں نے تلاوت کی ہیں ان میں عاجزی اختیار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ فرمایا: خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں ہو سکتا اگر اپنے آپ کو لا شیٔ محض سمجھتے ہوئے عاجزی کے انتہائی معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلا جا سکتا اور اُس کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا اگر عاجزی سے اُس کے فضل کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔ اس لئے فرمایا کہ عاجز ہو کر اُس کی مدد، اُس کے فضل کے حصول کے لئے مانگو۔ اللہ تعالیٰ مختلف قوموں کے ذکر میں بھی جو مثالیں بیان فرماتا ہے، بعض دفعہ براہِ راست حکم دیتا ہے، بعض دفعہ قوموں کا ذکر کرتا ہے، لوگوں کے پرانی قوموں کے حالات بیان کرتا ہے۔ بعض لوگوں کے حالات بیان کرتا ہے کہ وہ ایسے ہیں، اگر ایسے نہ ہوں تو اُن کی اصلاح ہو جائے۔ اُس میں مومنین کے لئے بھی سبق ہے کہ براہِ راست صرف تمہیں جو حکم دیا ہے، وہی تمہارے لئے نصیحت نہیں ہے بلکہ ہر ایک ذکر جو قرآنِ کریم میں آتا ہے وہ تمہارے لئے نصیحت ہے۔

پس یہاں بھی فرماتا ہے کہ عاجزی اختیار کرو اور اُس کے فضل کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو۔ فرمایا کہ اُس کے فضل کے حصول کے لئے عاجز ہو کر اُس کی مدد مانگو۔ جب تک ’’وَاسْتَعِیْنُوْا‘‘ کی روح کو نہیں سمجھو گے، نیکیوں کے راستے متعین نہیں ہو سکتے اور ’’وَاسْتَعِیْنُوْا‘‘کی روح اُس وقت پیدا ہو گی جب خشوع پیدا ہو گا، جب عاجزی پیدا ہو گی، جب صرف اور صرف یہ احساس ہو گا کہ میری کوئی خوبی مجھے کسی انعام کا حق دار نہیں بنا سکتی۔ صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اگر مجھ پر ہوا تو میری دنیا و عاقبت سنور سکتی ہے۔ پس خدا تعالیٰ سے یہ مددنہایت عاجز ہو کر مانگنی ہے کہ اے خدا! تو اپنی رحمت و فضل سے ہماری مدد کو آ اور وہ طریق ہمیں سکھا جس سے تو راضی ہو جائے۔ عبادتوں کے بھی اور صبر کے بھی وہ طریق ہمیں سکھا جو تجھے پسند ہیں۔ پھر فرمایا کہ ان فضلوں کے حصول کے لئے تم مجھ سے مدد مانگ رہے ہو تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے صبر کے معیار بھی بلند کرو۔

اہلِ لغت کے نزدیک صبر کے معنی ہیں ’’وقار کے ساتھ، بغیر شور مچائے تکالیف کو برداشت کرنا، کسی قسم کا حرفِ شکایت منہ پر نہ لانا‘‘ بلکہ بعض کے نزدیک تو ’’تکالیف اور مشکلات کی حالت اور آرام و آسائش کی حالت میں کوئی فرق ہی نہ رکھنا۔ ہر حالت میں راضی برضا رہنا‘‘۔ (مفردات امام راغب ’’حرف الصاد‘‘ زیر مادہ ’’صبر‘‘)۔ راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تیری رضا ہے، یعنی مکمل قناعت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی ہونا۔ ہر حالت میں اپنی وفا اور مضبوطی ایمان کو خدا تعالیٰ کے لئے قائم رکھنا۔ صرف اور صرف خدا تعالیٰ سے جڑے رہنا اور اُس پر بھروسہ کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم پر مضبوطی سے قائم رہنا۔

پس یہ وہ صبر کی حالت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم قائم رہو گے تو میرے فضلوں کو حاصل کرنے والے بنو گے۔ ایسی صبر کی حالت میں کی گئی دعائیں میرے فضلوں کا وارث بنائیں گی۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کو ضائع ہونے کے لئے نہیں چھوڑتا۔ جب مکمل انحصار خدا تعالیٰ پر ہوتا ہے تو وہ ایسے صبر کا بدلہ بھی ضرور دیتا ہے۔ فرمایا جب ایسا صبر اور استقلال پیدا ہو جائے تو پھر تمہاری دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے۔ صبر کر کے بیٹھ نہیں جانا بلکہ صلوۃ کا بھی حق ادا کرنا ہے اور صلوٰۃ کیا ہے؟ صلوٰۃ نماز بھی ہے، دعائیں بھی ہیں جو آدمی چلتے پھرتے کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کے آگے جھکنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر درخواست کرنا بھی ہے، عاجزانہ طور پر خدا تعالیٰ کا فضل مانگنا بھی ہے۔ فرمایا اس قسم کی صلوٰۃ کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جو مکمل طور پر عاجزی کی راہوں پر چلنے والا ہو۔ جس میں تکبر کی کچھ بھی رمق نہ ہو۔ جس کے اندر انانیت اور بڑائی کا کچھ بھی حصہ نہ ہو۔ اُس کی صلوٰۃ، صلوٰۃ نہیں ہے جس میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں۔ بیشک ایسا شخص نمازیں پڑھ رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو اُس کی پرواہ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ اُنہی صبر کرنے والوں اور نمازیں پڑھنے والوں اور دعائیں کرنے والوں کی پرواہ کرتا ہے جو عاجزی میں بھی بڑھے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق پیدا کئے ہوئے ہیں جو کبھی نہ ٹوٹنے والا ہے۔ اس زمانے میں تو خاص طور پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’تیری عاجزانہ راہیں اُسے پسند آئیں‘‘۔ (تذکرہ صفحہ595ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)۔

یہ عاجزانہ راہیں تھیں جنہوں نے ترقی کی نئی راہیں کھول دیں۔ پس ہم جو آپ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں، ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے، ہم نے اگر خدا تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینا ہے، ہم نے اگر اپنے صبر کے پھل کھانے ہیں، ہم نے اگر اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے اور مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ضروری ہے۔ یہی چیز ہے جو ہمیں شیطانی اور طاغوتی طاقتوں سے بھی بچا کے رکھے گی اور یہی چیز ہے جو ہمارے ایمانوں میں مضبوطی پیدا کرے گی اور یہی چیز ہے جو ہمیں اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا بنائے گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ عاجزی کوئی آسان کام ہے۔ بہت سی اَنائیں، بہت سی ضدیں، بہت سی سستیاں، بہت سی دنیا کی لالچ، بہت سی دنیا کی دلچسپیاں ایسی ہیں جو یہ مقام حاصل کرنے نہیں دیتیں۔ فرمایا اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ۔ یہ آسان کام نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے۔ وہ تمام باتیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں ہیں جو صبر اور صلوۃ کو اُس کی صحیح روح کے ساتھ اور عاجزی دکھاتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے بجا لانے سے روکتی ہیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ تو چاہتا ہے کہ اُس کا بندہ اُس صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرے اور ایسی عبادت کے معیار بنائے جس میں ایک لحظہ کے لئے بھی غیر کا خیال نہ آئے۔ دنیاوی کاموں کے دوران بھی دل خدا تعالیٰ کے آگے جھکا رہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا کہ ایسی حالت پید کرنا آسان نہیں ہے، یہ بہت بوجھل چیز ہے۔ اور اس بوجھل چیز کو اُٹھانا بغیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس کی مدد چاہو، اُس کے فضل کو حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے جھکو، کوشش کرو۔ لیکن یہ مدد اُس وقت ملے گی جب عاجزی اور انکساری بھی ہو گی۔ جب اس یقین پر قائم ہوں کہ اَنَّھُمْ مُلٰقُوْا رَبِّھِمْ (البقرۃ: 47) یعنی کہ وہ اپنے ربّ سے ملنے والے ہیں۔ جب یہ یقین ہو گا تو پھر ہم صبر اور دعا کا حق ادا کرنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والے بھی ہوں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو اپنے سامنے رکھنے والے بھی ہوں گے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کو صرف اپنے فائدے کے لئے نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت کی وجہ سے اپنانے والے ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کی آگ کو اپنے سینے میں لگاتے ہوئے آپ کے ہر عمل پر عمل کرنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے۔ اور یہی حقیقی حالت ہے جو ایک مومن کو مومن بناتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ پر چلنے کی یہی حقیقی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا کہ جو اُس پر چلے گا تو یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ (آل عمران: 32)کہ جو اس کو یُحْبِبْکُمُ اللّٰہ کا حقیقی مصداق بناتی ہے۔ یہی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں بھی بڑھاتی ہے اور یہی محبت ہے جو پھراِنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔ کہ وہ اُس کی طرف لَوٹ کر جانے والے ہیں، کا حقیقی ادراک بھی پیدا کرتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی کوشش کرنے والا انسان پھر ایک انسان بن سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے جب ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہم کچھ چیز نہیں ہیں اور تُو ہی ہے جو ہماری دعاؤں کو سن لے، اور ہم میں عاجزی اور انکساری پیدا کر، ہمیں اس معیار پر لے کر آ، تو پھر صبر اور صلوۃ پر قائم رہنے کی بھی ہم نے کوشش کرنی ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ سے یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اگر کہیں اس میں، ہماری دعاؤں میں، ہماری کوششوں میں یا ہماری ظاہری عاجزی میں ہمارے نفس کی ملونی ہے تو ہمیں معاف کر دے۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ ہماری یہ عاجزی کا احساس ہمارے نفس کا دھوکہ ہو۔ پس ہمیں اُن خٰشِعِیْن میں شمار کر جو حقیقی خٰشِعِیْن ہیں۔ ہمیں اُن عاجزی اور انکسار دکھانے والوں میں شمار کر جن کے بارے میں تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس عاجزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُنہیں ساتویں آسمان تک اُٹھا لیتا ہے۔ ہمیں اس طرز پر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرما جس پر تیرے محبوب رسول کے عاشقِ صادق ہمیں چلانا چاہتے ہیں، اُن توقعات پرپورا اترنے کی توفیق عطا فرما جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت سے کی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ ایک جگہ آپ اپنی جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

’’ہماری جماعت کو اس پر توجہ کرنی چاہئے کہ ذرا سا گناہ خواہ کیسا ہی صغیر ہ ہوجب گردن پر سوار ہو گیا تو رفتہ رفتہ انسان کو کبیرہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ طر ح طرح کے عیوب مخفی رنگ میں انسان کے اندر ہی اندر ایسے رَچ جاتے ہیں کہ ان سے نجات مشکل ہو جاتی ہے۔ انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامتِ اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے، چھٹکارا نہیں پاسکتا۔ کبیرؔ نے سچ کہا ہے۔

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام

جے ہوتے گھر اُونچ کے ملتا کہاں بھگوان

یعنی اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہو ئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہو تے تو خدانہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی ذات با فندہ پر نظر کر کے شکر کرتا‘‘۔ فرمایا: ’’پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ مَیں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ‘‘ (یعنی ہر طریق سے) ’’کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کوضرور با لضرور ناقابل وہیچ جان لے گا۔ انسان جب تک ایک غریب وبیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا بر تنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچا وے وہ ہر گز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جس قدر نیک اخلاق ہیں تھوڑی سی کمی بیشی سے وہ بداخلاقی میں بدل جاتے ہیں۔ اللہ جلّشانہٗ نے جودروازہ اپنی مخلوق کی بھلا ئی کے لیے کھو لا ہے وہ ایک ہی ہے یعنی دعا۔ جب کوئی شخص بکا و زاری سے اس دروازہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ مولائے کریم اُس کو پاکیزگی و طہارت کی چادر پہنا دیتا ہے اور اپنی عظمت کا غلبہ اُس پر اس قدر کردیتا ہے کہ بیجا کا موں اور نا کارہ حرکتوں سے وہ کوسوں بھاگ جاتا ہے۔ کیا سبب ہے کہ انسان باوجود خدا کو ماننے کے بھی گناہ سے پر ہیز نہیں کرتا؟ درحقیقت اس میں دہر یت کی ایک رگ ہے اور اس کو پورا پورا یقین اور ایمان اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو تا۔ ورنہ اگر وہ جا نتا کہ کو ئی خدا ہے جو حساب کتاب لینے والا ہے اور ایک آن میں اس کو تباہ کر سکتا ہے تو وہ کیسے بدی کر سکتا ہے۔ اس لیے حدیث شریف میں وارد ہے کہ کو ئی چور چوری نہیں کرتا درآنحالیکہ وہ مومن ہے اور کو ئی زانی زنا نہیں کرتا درآنحا لیکہ وہ مومن ہے۔‘‘ (یعنی چور بھی اور زانی بھی بیشک ایک وقت میں ایمان کی حالت میں ہوتے ہیں لیکن ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ وہ غلط کاموں کی طرف رغبت کرلیتے ہیں ) فرمایا: ’’بدکرداریوں سے نجات اُسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جبکہ یہ بصیرت اور معرفت پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کا غضب ایک ہلاک کر نے والی بجلی کی طرح گرتا اور بھسم کر نے والی آگ کی طرح تباہ کردیتا ہے۔ تب عظمت الٰہی دل پر ایسی مستولی ہو جاتی ہے کہ سب افعال بد اندر ہی اندر گداز ہو جاتے ہیں‘‘۔ (یعنی یہ معرفت اور بصیرت پیدا ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب ہلاک کرنے والا ہے اور جب یہ معرفت پیدا ہو جائے گی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں پیدا ہو جائے گی، ایسی (عظمت) پیدا ہو جائے کہ بالکل دل کو اپنے قبضے میں لے لے تو پھر جو غلط افعال ہیں یا غلط خیالات ہیں، اُن میں پھر بہتری آنی شروع ہوتی ہے۔ وہ ختم ہونا شروع ہو جاتے ہیں) فرمایا: ’’پس نجات معرفت میں ہی ہے۔‘‘(اللہ تعالیٰ کی یہ معرفت حاصل کرو) فرمایا: ’’معرفت ہی سے محبت بڑھتی ہے۔ اس لیے سب سے اول معرفت کا ہو نا ضروری ہے۔ محبت کے زیادہ کر نے والی دو چیز یں ہیں۔ حسن اور احسان۔ جس شخص کو اللہ جلّشانہ کا حُسن اور احسان معلوم نہیں وہ کیا محبت کرے گا؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَلِجَ الْجَمَلُ فِیْ سَمِّ الْخِیَاطِ (الاعراف: 41) یعنی کفار جنت میں داخل نہ ہوں گے جبتک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے نہ گزر جائے۔‘‘ فرمایا کہ: ’’مفسّرین اس کا مطلب ظاہر ی طور پر لیتے ہیں۔ مگر مَیں یہی کہتا ہوں کہ نجات کے طلبگار کو خدا تعالیٰ کی راہ میں نفس کے شُتر بے مہار کو مجاہدات سے ایسا دُبلا کر دینا چاہئے کہ وہ سوئی کے ناکہ میں سے گزر جائے۔ جب تک نفس دنیوی لذائذ وشہوانی حظوظ سے مو ٹا ہوا ہوا ہے تب تک یہ شریعت کی پاک راہ سے گزر کر بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ دنیوی لذائذ پر موت واردکرو اور خوف وخشیت الٰہی سے دبلے ہو جاؤ تب تم گزرسکو گے اور یہی گزرنا تمہیں جنت میں پہنچا کر نجات اخروی کا موجب ہو گا۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ314تا316مطبوعہ ربوہ)

اللہ تعالیٰ کرے کہ جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فردِ جماعت بھی عاجزی اور انکساری کے اُس مقام پر پہنچے جہاں اُن کا صبر بھی حقیقی صبر بن جائے، اُن کی عبادتیں بھی حقیقی عبادتیں بن جائیں جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں۔ ان صبر اور دعاؤں کے پھل اگلے جہان میں نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لگیں کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ یہ جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے حاضر ہونے والی، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر نہایت عاجزی سے عمل کرنے والی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کی کوشش کرنے والی ہے۔ صبر اور دعا کے ساتھ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنے والی ہے۔ مشکلات اور مصائب کے وقت دنیا والوں کی طرف جھکنے والی نہیں بلکہ اُس خدا کی طرف جھکنے والی ہے جو سب طاقتوں کا مالک ہے، جو دشمن کو اُس کے تمام تر سازو سامان اور ظاہری قوت کے باوجود زیر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ جب یہ نظارے دنیا کو ہم میں نظر آئیں گے تو دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ حقیقی مومن یہی ہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق والے اگر دیکھنے ہیں تو یہی لوگ ہیں جن میں خدا نظر آتا ہے۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کا پیار حاصل کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو دنیا کو خدا سے ملنے کے راستے دکھا سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس حالت کو حاصل کرنے والا ہو اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی فرمایا ہے کہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت میں بڑھتے چلے جانے والا ہو تاکہ نجاتِ اُخروی حاصل کرنے والا ہو۔

جماعت پاکستان کے لئے جو وہاں پاکستان میں حالات ہیں، اُن کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اُن کے ایمانوں کو مضبوط رکھے اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں اللہ تعالیٰ اُن کو بڑھاتا چلا جائے۔ پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے ایمان اور ایقان کے لئے خاص طور پر بہت دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے قرب کا مقام ہر ایک کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 7؍ جون 2013ء شہ سرخیاں

    قرآنِ کریم کے تمام احکامات، تمام اوامر و نواہی جو خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے ضروری ہیں، اُن کی بنیاد عاجزی اور انکساری ہے۔

    اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چلا جا سکتا اور اُس کے احکامات پر عمل نہیں ہو سکتا اگر عاجزی سے اُس کے فضل کے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو۔

    ہم نے اگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنا ہے، ہم نے اگر خدا تعالیٰ کی مدد سے حصہ لینا ہے، ہم نے اگر اپنے صبر کے پھل کھانے ہیں، ہم نے اگر اپنی دعاؤں کی مقبولیت کے نظارے دیکھنے ہیں تو پھر عاجزی دکھاتے ہوئے اور مستقل مزاجی سے خدا تعالیٰ کے حضور جھکے رہنا ضروری ہے۔

    اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ یہ عاجزی کوئی آسان کام ہے۔ بہت سی اَنائیں، بہت سی ضدیں، بہت سی سستیاں، بہت سی دنیا کی لالچ، بہت سی دنیا کی دلچسپیاں ایسی ہیں جو یہ مقام حاصل کرنے نہیں دیتیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ جماعت بحیثیت جماعت بھی اور ہر فردِ جماعت بھی عاجزی اور انکساری کے اُس مقام پر پہنچے جہاں اُن کا صبر بھی حقیقی صبر بن جائے، اُن کی عبادتیں بھی حقیقی عبادتیں بن جائیں جو خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوں۔ ان صبر اور دعاؤں کے پھل اگلے جہان میں نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایسے لگیں کہ دنیا کو نظر آ جائے کہ یہ جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیدا کی ہے جو اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی سے حاضر ہونے والی، اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر نہایت عاجزی سے عمل کرنے والی ہے۔ جب یہ نظارے دنیا کو ہم میں نظر آئیں گے تو دنیا یہ کہنے پر مجبور ہو گی کہ حقیقی مومن یہی ہیں۔ جماعت پاکستان کے لئے جو وہاں پاکستان میں حالات ہیں، اُن کے لئے بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اُن کے ایمانوں کو مضبوط رکھے اور خدا تعالیٰ سے تعلق میں اللہ تعالیٰ اُن کو بڑھاتا چلا جائے۔ پاکستان میں رہنے والے احمدی بھی اپنے ایمان اور ایقان کے لئے خاص طور پر بہت دعا کریں۔

    فرمودہ مورخہ 07جون 2013ء بمطابق 07احسان 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور