اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے

خطبہ جمعہ 14؍ جون 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

وَقَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُھُمْ قُلْ ھَاتُوْا بُرْھَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (البقرۃ: 112۔ 113)

ان آیات کا ترجمہ ہے: اور وہ کہتے ہیں کہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوگا سوائے اُن کے جو یہودی یا عیسائی ہوں۔ یہ محض اُن کی خواہشات ہیں۔ تو کہہ کہ اپنی کوئی مضبوط دلیل تو لاؤ، اگر تم سچے ہو۔ نہیں نہیں۔ سچ یہ ہے کہ جو بھی اپنا آپ خدا کے سپرد کر دے اور احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

گزشتہ دنوں مجھے کسی نے لکھا کہ پاکستان میں جو نئی حکومت بنی ہے، یہ بھی حسبِ سابق احمدیوں کے ساتھ وہی کچھ کرے گی جیسے پہلے بھی یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ اور ایک وزیر کا نام لیا کہ وہ تو پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ اچھا نہیں رہا۔ اب پھر ایسے حالات ہو جائیں گے۔

لکھنے والے نے اس پر اپنی بڑی فکر کا اظہار کیا ہوا تھا۔ یہ تو اللہ بہتر جانتا ہے کیا ہوتا ہے، لیکن چاہے یہ حکومت ہو یا کوئی اور حکومت ہو جب پاکستان میں ایک قانون احمدیوں کے خلاف ایسا بنا ہوا ہے جس میں ظلم کے علاوہ کچھ نہیں تو پھر اس قسم کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اگر کوئی فکر کرنی ہے تو وہ پاکستان میں احمدیوں کے لئے ہمیشہ کی اور مستقل فکر ہی ہے۔ اور پاکستانی احمدیوں کو خود بھی اس لحاظ سے دعاؤں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ اگر تو ہم نے دنیاوی حکومتوں سے کچھ لینا ہے تو بیشک یہ سوچ رکھیں اور فکر کریں۔ لیکن اگر ہمارا تمام تر انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے اور یقینا خدا تعالیٰ کی ذات پر ہے تو پھر اس قسم کی فکر ضرورت نہیں۔ یا اس قسم کی امید کی ضرورت نہیں کہ فلاں آئے گا تو ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے اور فلاں آئے گا تو حالات خراب ہو جائیں گے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے، اگر ہمارا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے تو پھر اس قسم کی پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان دنیاوی حکومتوں نے تو دنیا کے لحاظ سے جو چاہنا ہے کرنا ہے۔ اور ماضی میں جب سے احمدیوں کے خلاف اسمبلی میں یہ قانون پاس ہوا ہے، گزشتہ تقریباً اڑتیس سال سے یہ کر رہے ہیں۔ بلکہ اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے یہ مخالفت ہے۔ اُس وقت سے بھی اگر حکومت کے لیول پر نہیں تو حکومتی کارندے کچھ نہ کچھ مخالفین کے ساتھ شامل ہو کر جماعت احمدیہ کے خلاف یا بعض احمدیوں کے خلاف منصوبے بناتے رہے ہیں۔ بہر حال چاہے ایک نظریہ رکھنے والی حکومت ہو یا دوسرا، اپنے زعم میں تو انہوں نے احمدیوں کو دائرہ اسلام سے خارج کیا ہوا ہے۔ اور یہی ایک وجہ ہے مخالفت کی، یہی ایک وجہ ہے مُلّاں کو کھلی چھوٹ دیئے جانے کی۔ اور جو بھی حکومت آئے وہ ظلموں کی انتہا بھی ایک طرح سے ہر حکومت میں ہو رہی ہے بلکہ بڑھ رہی ہے۔

پس ہمیں نہ تو ان دنیاوی حکومتوں سے کسی بھلائی کی امید ہے اور نہ رکھنی چاہئے اور نہ ہمیں دائرہ اسلام میں شامل ہونے کے لئے یا مسلمان کہلانے کے لئے کسی سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے، کسی سند کی ضرورت ہے۔ اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے۔ وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی مانتا ہوں، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ ا ور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں۔ پس اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیر مسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں یقینا ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں۔ ہر احمدی کو اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قرب اور اس قرب میں مزید بڑھنا یہی الٰہی جماعتوں کا شیوہ ہوتا ہے اور ہونا چاہئے۔ یہاں ابھی میں نے آئینی مسلمان کہا تو جن کو اس بات کا پوری طرح پتہ نہیں اُن کے علم کے لئے بتا دوں کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ احمدی آئینی اور قانونی اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ بھی ایک عجیب المیہ ہے بلکہ مضحکہ خیز بات ہے کہ ایک جمہوری سیاسی اسمبلی اور جمہوری سیاسی اسمبلی کا دعویٰ کرنے والی اسمبلی اور حکومت مذہب کے بارے میں فیصلہ کر رہی ہے۔

بہر حال اس حوالے سے 1974ء میں جو قانون پاس کیا گیا تھا اس کے بعد پھر فوجی آمر نے اس قانون میں مزید سختیاں پیدا کیں۔ اس وقت مَیں اُن کی تفصیلات میں تو نہیں جاؤں گا۔ بہر حال اس آئینی فیصلے کے مطابق احمدی تو آئین اور قانون کی نظر میں غیر مسلم ہیں۔ باوجود اس کے کہ دنیا میں اسلام کی صحیح تصویر احمدی ہی پیش کر رہے ہیں۔ اور غیر احمدی پاکستانی شہری آئین اور قانون کی رُو سے مسلمان ہیں باوجود اس کے کہ اسلام کی غلط تصویر ان میں سے بعض گروہ یا اکثر گروہ پیش کر رہے ہیں، اسلام کو بدنام کر رہے ہیں۔ مجھ سے اکثر دنیا والے پوچھتے ہیں اور اس دورہ میں جو میرا امریکہ اور کینیڈا کا ہوا ہے، مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس میں بھی ہر جگہ پریس نے یہ پوچھا کہ تم جو اسلام پیش کرتے ہو ٹھیک ہے بہت اچھا ہے لیکن مسلمان اکثریت تو تمہیں مسلمان نہیں سمجھتی اور اُن کے عمل جو سامنے آ رہے ہیں یہ تو اس سے بالکل الٹ ہیں جو تم کہتے ہو۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی تم کرتے ہو کہ احمدی دنیا میں صحیح اسلامی انقلاب لائیں گے۔ یہ کس طرح ہو گا؟ بہر حال اُن کو تو مَیں یہی بتاتا ہوں کہ یہ ’’ہوگا‘‘ والی بات نہیں بلکہ ہو رہا ہے۔ اور لاکھوں سعید فطرت مسلمان اس حقیقی اسلام کو سمجھ کر ہر سال اسلام میں، احمدیت میں شامل ہو رہے ہیں، اس حقیقی اسلام میں شامل ہو رہے ہیں۔ اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اُس وقت تک یہ کام کرتے چلے جائیں گے جب تک دنیا کو یہ نہ منوا لیں کہ اسلام ایک پُر امن مذہب ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امن کے وہ پیغامبر ہیں جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اور آپؐ کے جھنڈے تلے ہی دنیا کی نجات ہے۔ باقی مَیں اُن کو یہ بھی کہتا ہوں کہ کسی کے مذہب کا فیصلہ کرنا یا کسی مذہب کا ماننے والا یا نہ ماننے والا سمجھنا کسی دوسرے شخص کا کام نہیں ہے بلکہ ہر انسان اپنے مذہب کا فیصلہ خود کرتا ہے۔ بعض شدت پسند حکومتیں یا مُلّاں ہمیں مسلمان سمجھیں یا نہ سمجھیں اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں مسلمان ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے وہ سب مسلمان ہیں اور اُن سے بہتر مسلمان ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہیں مانا۔ اور یہی ہر احمدی جو ہے، سمجھتا ہے۔ اس قسم کی حرکتیں کر کے یہ لوگ احمدیت کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ہاں اگر کوئی حکومت یا وزیر یا اُن کے چیلے احمدیوں پر ظلم کریں گے تو دنیا میں اپنی حکومت کو اور ملک کو بدنام کریں گے۔ جو بھی حکومت آتی ہے اس حکومت کے بدنام ہونے سے ہمیں فرق نہیں پڑتا۔ گو ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے شرمندگی بہر حال ہوتی ہے۔ لیکن ملک کی بدنامی سے ہر احمدی کا دل خون ہوتا ہے۔ کیونکہ اس ملک کی خاطر ہم نے بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں۔ یہاں مذہب کے نام پر خون کر کے یہ لوگ نہ صرف ملک کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور اسلام جو امن، صلح، بھائی چارے اور محبت کا مذہب ہے اُسے بھی بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ دشمنوں سے بھی حسنِ سلوک کرو۔ جہاں انصاف کا سوال آئے، انصاف بہر حال مقدم ہے۔ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی۔ وَاتَّقُوا اللّٰہَ۔ (المائدۃ: 9) یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یعنی کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا تقویٰ اختیار کرو۔ پس یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ مخالفین اسلام جو اسلام پر اعتراض کرتے ہیں ہم قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم بتا کر اور یہ باتیں کہہ کر ان کا منہ بند کرواتے ہیں کہ حقیقی مسلمان اللہ تعالیٰ کا خوف اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو سامنے رکھتا ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک حقیقی مسلمان بے انصافی اور ظلم کی باتیں کرے۔ لیکن مسئلہ یہاں یہ ہے کہ جن لوگوں کے پیچھے قوم چل رہی ہے اُن میں تقویٰ تو ویسے ہی نہیں ہے۔ اور جب تقویٰ ہی نہیں تو پھر اُن سے ظلم اور بے انصافی کی توقع ہی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تو اُن سے کچھ اور توقع نہیں ہو سکتی۔

ابھی دو دن پہلے یوکے (UK) جماعت کے سو سال پورے ہونے پر یہاں پارلیمنٹ ہاؤس میں ایک فنکشن تھا جس میں بیالیس پارلیمینٹیرین (Parliamentarian) شامل ہوئے، جن میں سے ڈپٹی پرائم منسٹر صاحب بھی آئے ہوئے تھے اور چھ وزراء بھی آئے ہوئے تھے اور بیس دوسرے ڈپلومیٹ اور دوسرا پڑھا لکھا ہوا طبقہ تھا۔ تو اُن کے سامنے بھی مَیں نے اسلام کی خوبصورت تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ کی روشنی میں یہ بتایاکہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ تو سب کا یہی کہنا تھا کہ تمہارے ایڈریس تو ہمیشہ کی طرح یہی ہوتے ہیں اور جماعت احمدیہ امن اور صلح کی باتیں کرتی ہے لیکن دوسرے مسلمان گروپ جو کچھ کر رہے ہیں اس سے بہر حال ہمیں پریشانی ہے۔ بعض یہ سیاستدان لوگ جو ہیں، کھل کر اظہار کر دیتے ہیں، بعض سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ڈر ڈر کر بات کرتے ہیں۔ لیکن بہر حال جب میں قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے حوالے سے بات کرتا ہوں تو یہ بہر حال اُن کو پتہ چل جاتا ہے کہ اصل اسلام کی تعلیم کیا ہے؟ بعض اتنے متاثر ہوتے ہیں، کل پرسوں کی بات ہے، ایک ملک کے سفیر مجھے کہنے لگے کہ تمہارا ہر ہر لفظ جو تھا، جو تم quote کر رہے تھے قرآن اور اُسوہ کے حوالے سے، میرے دل کے اندر جا رہا تھا۔ وہ عیسائی ہیں، اُن سے تھوڑی سی بے تکلفی بھی ہے۔ کیونکہ وہ فنکشن میں اکثر آتے ہیں، اُنہیں مَیں نے کہا کہ یہ صرف آپ کے دل میں بٹھانے کے لئے نہیں بلکہ اس پیغام کو اپنے حلقے میں بھی پھیلائیں۔ تو کہنے لگے یہ تو مَیں کرتا ہوں اور اب آئندہ بھی کروں گا۔ تو غیروں کے دلوں میں تو اثر ہوتا ہے لیکن پتھر دل مولوی ایسے ہیں جو اس پیغام کو سن کر اور ہمارے منہ سے سن کر اُن کے دل مزید پتھر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اسلام کا غلط تاثر دینے والوں کے تاثرات کو زائل کر رہے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا میں دکھائیں، اس لئے ہم انشاء اللہ تعالیٰ کرتے چلے جائیں گے۔ لیکن پھر بھی مسلمان ممالک کے سیاستدان اور بعض پڑھے لکھے لوگ مُلّاں کے پیچھے چل کر احمدیوں پر اسلام کے نام پر ظلم کرتے ہیں۔ اور یہ ان کا کام ہے۔ بہر حال جس طرح ہم اپنا کام کرتے چلے جائیں گے انہوں نے بھی اپنا کام کرتے رہنا ہے اور اس بات سے ہمیں کوئی ایسی فکر نہیں ہونی چاہئے۔ جیسا کہ میں نے کہا، ہمیں تو ان سے نہ کوئی امید ہے اور نہ ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں۔ اگر یہ انصاف سے حکومت چلائیں گے اور ظلم کو روکیں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم کو مان کر اُس کے اجر کے مستحق ٹھہریں گے۔ ہمارا خدا تو ہمارے ساتھ ہے۔ وہ تو ہمیں تسلی دلانے والا ہے اور دلاتا ہے اور حفاظت کرتا ہے۔ ورنہ جیسا کہ پہلے بھی کئی دفعہ میں کہہ چکا ہوں ان کے منصوبے تو بڑے خطرناک ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو ہمیں اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی اپنے وعدے کے مطابق نوازے گا، انشاء اللہ۔ لیکن ظلم کرنے والوں کی پکڑ کے سامان بھی ہوں گے اور ضرور ہوں گے۔ انشاء اللہ۔ پس ہمیں کسی دنیاوی حکومت کی طرف دیکھنے کی بجائے خدا تعالیٰ کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اُس کے منہ کی طرف دیکھتے ہوئے، اُس کے حکموں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ باقی رہا یہ کہ مذہب کے ٹھیکیداروں کا یہ اعلان کہ جو ہمارے کہنے کے مطابق نہیں کرتا اور ہمارے پیچھے نہیں چلتا، وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دھتکارا ہوا ہے اور جہنمی ہے۔ اس لئے اپنے لوگوں کو یہ کھلی چھٹی دیتے ہیں کہ جو چاہے ان لوگوں سے کرو۔ تم جو چاہے احمدیوں سے کرو، تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اور یہی کچھ عملاً ہو بھی رہا ہے کہ حکومت جو قانون کی بالا دستی کا دعویٰ کرتی ہے احمدیوں پر ظلموں پر نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں کرتی بلکہ اُلٹا ظالم کا ساتھ دیتی ہے۔

ابھی دو دن پہلے ہی ایک احمدی کو کراچی میں شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ایک کو جہلم میں بھی مارنے کی غرض سے حملہ کیا گیا۔ وہ شدید زخمی ہوئے، ہسپتال میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صحت و سلامتی سے شفا عطا فرمائے۔ اور بیچارے جو بعض غیر از جماعت احمدیوں کے دوست ہیں وہ بھی اُس ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ یہ کراچی میں جو واقعہ ہوا شہادت کا، ان کے ساتھ کار میں بیٹھے ہوئے ان کے دو غیر از جماعت دوست تھے وہ بھی شدید زخمی ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی صحت دے۔ ہسپتال میں داخل ہیں، ان میں سے ایک کی تو کریٹیکل (Critical) حالت ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے مذہب کے ٹھیکیداروں کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی یہی کچھ کہتے رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کا تابع بنا دے اور احسان کرنے والا ہو، تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے۔ یہ دوسرے دوست جو زخمی ہوئے ہیں، ایک تو کراچی میں ہوئے ہیں، دوسرے سرائے عالمگیر جہلم کے ہیں۔ ان کی حالت اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے۔ تو بہر حال یہ جو مَیں کہہ رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، جو بھی اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کا تابع بنا دے اور احسان کرنے والا ہو تو اُس کا اجر اُس کے رب کے پاس ہے۔ جنت اور جہنم میں جانے کا سرٹیفکیٹ کسی مذہب یا مذہب کے نام پر خون کرنے والوں نے نہیں دینا، یا کسی دوسرے شخص نے نہیں دینا، کسی اسمبلی نے نہیں دینا۔ پس اللہ تعالیٰ جو دلوں کا حال جانتا ہے وہ اعلان فرماتا ہے کہ جو نیک عمل کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے کرے، زمانہ کے امام کی بیعت میں آئے اور اس لئے آئے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کا حکم ہے تو پھر نہ ایسے شخص کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے، نہ غمگین ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے اُس کی تعلیم کے مطابق کیا گیا ہر عمل اُسے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنائے گا۔

پس ہر احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہے۔ مسلمان بھی یقینا ہے اور پکّا مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا بھی ہے۔ اُس کے مسلمان ہونے پر کسی اسمبلی یا سیاسی حکومت کی مہر کی ضرورت نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ مسلمان ہے جو ان آیات کے مطابق جو مَیں نے تلاوت کی ہیں یہ اعلان کرے کہ مَیں مسلمان ہوں۔ فرمایا کہ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ۔ جو کوئی بھی اپنی تمام تر توجہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر کر اس کا اعلان کر دے کہ میں مسلمان ہوں تو یہی لوگ مسلمان ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ کوئی دوسرا یہ اعلان کرے کہ تم مسلمان ہو یا نہیں ہو، بلکہ ہر فرد اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کا تابع بنا کر پھر اعلان کرے کہ مَیں اپنی مرضی سے مسلمان ہونے کا اعلان کرتا ہوں اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے جو ذمہ داری خدا تعالیٰ نے مجھ پر ڈالی ہے اُسے اُٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ اور پھر دعویٰ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ وَھُوَمُحْسِنٌ۔ وہ احسان کرنے والا ہو۔ وہ تمام اعمال احسن طریق پر بجا لائے جن کے کرنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیاہے۔ یہ ذمہ داری ہے جو اُٹھانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ہے۔ اور ہر اُس برائی سے بچے جس سے رکنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اگر یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر پھر ایسے شخص پر پڑے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم ایسے ہو تو تم میں کسی قسم کا خوف اور غم نہیں ہونا چاہئے۔ نیک اعمال پچھلے گناہوں سے بھی مغفرت کے سامان کر رہے ہوں گے اور نیک اعمال کا تسلسل اور باقاعدگی، برائیوں سے بچنا اور دین کو دنیا پر مقدم کرنا، آئندہ کی غلطیوں سے بھی ایک مومن کو بچا رہے ہوں گے۔ خوف اور غم سے دُور رکھنے والے ہوں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ:

’’واضح ہو کہ لغت عرب میں اسلام اس کو کہتے ہیں کہ بطور پیشگی ایک چیز کا مول دیا جائے اور یا یہ کہ کسی کو اپنا کام سونپیں اور یا یہ کہ صلح کے طا لب ہوں اور یا یہ کہ کسی امر یا خصومت کو چھوڑ دیں۔‘‘ اسلام یہ ہے۔ یہ چار چیزیں ہیں کہ کسی چیز کی قیمت پیشگی کے طور پر دی جائے، کسی کو اپنا کام سپرد کیا جائے، صلح کے لئے کوشش کی جائے اور ہر قسم کے جھگڑے والی باتوں کو چھوڑ دیا جائے اور فرمایا کہ ’’اور اصطلاحی معنے اسلام کے وہ ہیں جو اِس آیت کریمہ میں اس کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ بَلٰی مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَمُحْسِنٌ فَلَہٗٓ اَجْرُہٗ عِنْدَرَبِّہٖ وَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (البقرۃ: 113) یعنی مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے تمام وجود کو سونپ دیوے یعنی اپنے وجود کو اللہ تعالیٰ کے لئے اور اس کے ارادوں کی پیروی کے لئے اور اس کی خوشنودی کے حاصل کرنے کے لئے وقف کر دیوے اور پھر نیک کاموں پر خدا تعالیٰ کے لئے قائم ہو جائے اور اپنے وجود کی تمام عملی طاقتیں اس کی راہ میں لگا دیوے۔ مطلب یہ ہے کہ اعتقادی اور عملی طور پر محض خدا تعالیٰ کا ہوجاوے۔‘‘ فرمایا ’’اعتقادی طور پر اس طرح سے کہ اپنے تمام وجود کو درحقیقت ایک ایسی چیز سمجھ لے جو خدا تعالیٰ کی شناخت اور اس کی اطاعت اور اس کے عشق اور محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کے لئے بنائی گئی ہے۔ اور عملی طور پر اس طرح سے کہ خالصاً لِلّٰہحقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوّت سے متعلق اور ہریک خداداد توفیق سے وابستہ ہیں بجا لاوے۔ مگر ایسے ذوق و شوق و حضور سے کہ گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے معبودِ حقیقی کے چہرہ کو دیکھ رہا ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 57-58)

پس یہ وہ مقام ہے جو ہمیں اعتقادی اور عملی طور پر حاصل کرنا ہے۔ اگر ہماری اپنی اصلاح ہے، اگر ہم اپنے ایمان میں مضبوط ہیں، اگر ہم اپنے اعمال پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ یہ خدا کی رضا کے مطابق ہیں یا نہیں اور اُنہیں خدا کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں، دعاؤں پر زور دے رہے ہیں تو پھر دنیا داروں کے دنیاوی قانون یا قانون کی آڑ میں ظلم ہمیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے یا ظاہری طور پر شاید دنیاوی لحاظ سے نقصان پہنچا دیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہم مقبول ہوں گے۔

قرآنِ کریم نے ان ظلم کرنے والوں کی مثالیں دے کر پہلے ہی ہمارے دلوں کو مضبوط فرما دیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ماننے والوں میں ساحر تھے یا بن کے جو آئے تھے اور پھر قائل ہو گئے، انہوں نے یہی جواب دیا تھا کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍ  (طہ: 73) کہ پس تیرا جو زور لگتا ہے لگا لے۔ اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا  (طہ: 73)۔ تو صرف اس دنیا کی زندگی کے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے اسے ختم کر سکتا ہے۔ پس اگر کوئی بھی حکومت ظلم کرنا چاہتی ہے تو اُن کے سامنے مومنوں کا انجام بھی ہے اور فرعونوں کا انجام بھی ہے۔ آخری فتح ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مومنوں کی ہی ہوتی ہے اور یہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ ہو گی۔

پس ہم نے تو اس ایمان کا مظاہرہ کرنا ہے جو دنیا والوں سے خوف کھانے والا نہ ہو بلکہ اگر کوئی خوف اور غم ہو تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا ہے، اُس کے قرب کو کس طرح حاصل کرنا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایمان اور مسلمان ہونے کی اعلان کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والوں کے جس معیار کا ذکر فرمایا ہے، وہ سورۃ نساء کی اس آیت میں ہے کہ وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا۔ وَاتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرَاھِیْمَ خَلِیْلاً۔ (النساء: 126) اور دین میں اس سے بہتر کون ہو سکتا ہے جو اپنی تمام تر توجہ اللہ کی خاطر وقف کر دے۔ ا ور وہ احسان کرنے والا ہو اور اُس نے ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کی ہو۔ اور اللہ نے ابراہیم کو دوست بنا لیا تھا۔ پس ابراہیم کی ملّت کی پیروی کی ضرورت ہے، اگر اللہ تعالیٰ کا دوست بننا ہے۔ ملّت کے مختلف معنی ہیں۔ ایک معنی طریق اور راستے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی مذہب کے بھی ہیں۔ (اقرب الموارد زیرمادہ ’’ملل‘‘) اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خصوصیت بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی(النجم: 38)۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ:

’’خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اُس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اُس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایاہے۔ وَاِبْرَاھِیْمَ الَّذِیْ وَفّٰی (النجم: 38)۔ ابراہیمؑ وہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفا داری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا داری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے۔ جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذّتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہوجاوے اور ہر ذلّت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو یہ صفت پیدا نہیں ہو سکتی۔ …‘‘ فرمایا ’’جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اُس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں ہوتا۔ صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔‘‘ فرمایا ’’… اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے۔ اور عمل دُکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دُکھ اُٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اُس کو دُکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔‘‘ (ملفوظات جلد 2صفحہ 703۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

فرمایا ’’اپنے دل کو غیر سے پاک کرنا اور محبتِ الٰہی سے بھرنا، خدا تعالیٰ کی مرضی کے موافق چلنا اور جیسے ظلّ اصل کا تابع ہوتا ہے ویسے ہی تابع ہوناکہ اس کی اور خدا کی مرضی ایک ہو، کوئی فرق نہ ہو۔ یہ سب باتیں دعا سے حاصل ہوتی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 3صفحہ 457۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

اور یہی خصوصیات تھیں، ابراہیم کی۔

پھر آپ نے فرمایا کہ: ’’اسلام کی حقیقت تب کسی میں متحقق ہو سکتی ہے کہ جب اُس کا وجود معہ اپنے تمام باطنی و ظاہری قویٰ کے محض خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کی راہ میں وقف ہو جاوے۔ اور جو امانتیں اُس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملی ہیں پھر اسی مُعطی حقیقی کو واپس دی جائیں۔ اور نہ صرف اعتقادی طور پر بلکہ عمل کے آئینہ میں بھی اپنے اسلام اور اُس کی حقیقتِ کاملہ کی ساری شکل دکھلائی جاوے۔ یعنی شخص مدعی اسلام‘‘ جو اسلام کا دعویٰ کرتا ہے’’یہ بات ثابت کر دیوے کہ اُس کے ہاتھ اور پیر اور دل اور دماغ اور اُس کی عقل اور اُس کا فہم اور اُس کا غضب اور اُس کا رحم اور اُس کا حلم اور اُس کا علم اور اُس کی تمام روحانی اور جسمانی قوتیں، اور اُس کی عزت اور اُس کا مال، اور اُس کا آرام اور سرور، اور جو کچھ اُس کا سر کے بالوں سے پیروں کے ناخنوں تک باعتبار ظاہر و باطن کے ہے، یہاں تک کہ اُس کی نیّات اور اُس کے دل کے خطرات‘‘دل کے خطرات بہت ہوتے ہیں۔ فرمایا ’’نیّات اور اُس کے دل کے خطرات اور اس کے نفس کے جذبات سب خدا تعالیٰ کے ایسے تابع ہو گئے ہیں کہ جیسے ایک شخص کے اعضاء اُس شخص کے تابع ہوتے ہیں۔ غرض یہ ثابت ہو جائے کہ صدق قدم اس درجہ تک پہنچ گیا ہے کہ جو کچھ اُس کا ہے وہ اُس کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہو گیا ہے۔ اور تمام اعضاء اور قُویٰ الٰہی خدمت میں ایسے لگ گئے ہیں کہ گویا وہ جوارح الحق ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام۔ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 59-60)

یعنی اب اعضاء بھی اللہ تعالیٰ کے ہو گئے ہیں۔ پس یہ ہے وہ مقام جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو ہم میں سے ہر ایک کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب یہ مقام ہم حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو تبھی حقیقی مسلمان ہونے کا اعلان کر سکتے ہیں، تبھی ہم خدا تعالیٰ کی پناہ میں آنے والے بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ بحیثیت جماعت، جماعت کی کثرت اس مقام کو حاصل کرنے والی ہو۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والی ہو۔ ہم حقیقت میں اسلامی رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرتے ہوئے اُن لوگوں میں شمار ہوں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ (النحل: 90) کہ فرمانبرداری کے لئے خالص ہو کر اسلام کے احکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے بشارت ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ملتی ہے تو دشمن کی بیخ کنی اور خاتمہ کے نظارے بھی نظر آتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہم میں سے اکثریت کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو جائے، بلکہ ہر ایک احمدی کی دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو اور اللہ تعالیٰ سے خاص تعلق پیدا ہو اور جلد ہم مخالفین کے انجام کو بھی دیکھنے والے ہوں۔

اس کے بعد اب مَیں، جیسا کہ مَیں نے کہا، کراچی میں ایک شہید کئے گئے ہیں، اُن کے کچھ کوائف پیش کرتا ہوں۔ انشاء اللہ نمازِ جمعہ کے بعد اُن کا جنازہ غائب بھی ہو گا۔ اُن کا نام مکرم چوہدی حامد سمیع صاحب تھا۔ چوہدری عبدالسمیع خادم صاحب مرحوم کے بیٹے تھے۔ گلشن اقبال کراچی میں ہی رہتے تھے۔ 11؍جون کو ان کی شہادت ہوئی ہے۔ ان کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ ان کے دادا محترم چوہدری عبدالرحیم صاحب کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ ان کے دادا مکرم چوہدری عبدالرحیم صاحب کا تعلق گورداسپور انڈیا سے تھا۔ اسی طرح آپ کی دادی سردار بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی چوہدری محمد اسماعیل صاحب کی صاحبزادی تھیں۔ ان کے دادا چوہدری عبدالرحیم صاحب نے 1924ء میں بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد انہیں اپنے والدین کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مخالفت کوئی آج سے نہیں ہے، یہ ہمیشہ سے ہے۔ یہاں تک کہ اُن کے والد اس طرح اِن کے دادا کو سزا دیا کرتے تھے کہ اُن کی ہتھیلیوں پر چارپائی کے پائے رکھ کے باندھ دیا کرتے تھے اور خود چارپائی پر سو جایا کرتے تھے۔ اور اس طرح آپ کے دادا ساری رات اسی حالت میں بندھے رہتے تھے۔ ان کی وجہ سے ان کی ہتھیلیوں میں نشان بھی پڑ گئے تھے۔ آخر 1929ء میں پھر یہ لاہور آ گئے اور وہیں رہائش اختیار کر لی۔ اور حامد سمیع صاحب کی پیدائش بھی لاہور میں ہوئی۔ تعلیمی لحاظ سے یہ چارٹڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کے والد بھی چارٹڈ اکاؤنٹنٹ تھے اور ان کی اپنی چارٹڈ اکاؤنٹینسی کی فرم تھی، وہ چلایا کرتے تھے۔ ان کی عمر شہادت کے وقت اڑتالیس سال کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔

یہ عصر کی نماز کی ادائیگی کے بعد تقریباً ساڑھے چھ بجے اپنی فرم سے جو جناح روڈ کراچی میں تھی کار کے ذریعہ سے جا رہے تھے اور غیر از جماعت دوست بھی ان کے ساتھ گاڑی میں سوار تھے۔ کہتے ہیں یہ اپنے دفتر سے کچھ آگے نکلے ہیں تو نامعلوم حملہ آوروں نے جو کہ موٹر سائیکلوں پر سوار تھے ان پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی اور زخموں کی نوعیت سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آور دو موٹر سائیکلوں پر سوار تھے اور گاڑی کے دونوں طرف سے انہوں نے حملہ کیا تھا۔ کم و بیش چھ گولیاں آپ کے ماتھے پر لگی تھیں اور پھر کمر پر، چہرے پر، جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اور دو دوست بھی جیسا کہ مَیں نے کہا زخمی ہیں اور ایک کی حالت کافی تشویشناک ہے۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اُن پر بھی۔ بہرحال یہ لگتا ہے کہ وہ جو دو دوست زخمی تھے، اُن کو براہِ راست گولیاں نہیں لگیں بلکہ ان سے گولیاں گزر کر اُن کو جا کے لگتی رہی ہیں۔ یہ شہید مرحوم اپنے حلقے کے سیکرٹری مال بھی تھے۔ اس کے علاوہ پہلے خدام الاحمدیہ اور اب انصار کے شعبہ مال میں بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ بڑے خوش طبع تھے، ہمدرد تھے۔ بااخلاق انسان تھے اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے۔ انتہائی خیال اور محبت کرنے والے شخص تھے۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ بھی، بچوں کے ساتھ بھی، دوسروں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت کا سلوک کرنے والے تھے۔ ان کے صدر صاحب حلقہ کہتے ہیں کہ شہید مرحوم انتہائی اطاعت گزار طبیعت کے مالک تھے۔ کہتے ہیں کہ خاکسار نے مئی میں تحریک کی کہ مئی میں ہی چندے کی ادائیگی مکمل ہو جائے تو انہوں نے فوراً اپنی ادائیگی کر دی بلکہ کچھ زیادہ دے دیا اور گیارہ جون کو شہادت سے ایک دن قبل موصیان کی میٹنگ کا انعقاد کیا اور بڑے پُر اثر انداز میں وصایا اور چندوں کے نظام کی اہمیت بیان کی۔ اچھے بولنے والے بھی تھے۔ انٹرن شپ کے لئے احمدیوں کی کافی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کی اہلیہ محترمہ صبا حامد صاحبہ اور دو بیٹیاں ہیں، عروسہ حامد چودہ سال کی، بارعہ حامد سات سال کی۔ اور بیٹا راسخ احمدنو سال کا۔ اللہ تعالیٰ ان کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور ہر موقع پرخود ان کا حامی و ناصر ہو۔ ان کے باقی بھائی اور بہنیں وغیرہ پاکستان سے باہر ہی مقیم ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 14؍ جون 2013ء شہ سرخیاں

    اصل مسلمان وہ ہے جو خدا تعالیٰ کی نظر میں مسلمان ہے۔ وہ مسلمان ہے جو اعلان کرے کہ مَیں خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہوں اور ایمان لاتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری شرعی نبی مانتا ہوں، خاتم الانبیاء یقین کرتا ہوں۔ ا ور اس تعریف کے مطابق احمدی مسلمان ہیں اور عملاً بھی اور اعتقاداً بھی دوسروں سے بڑھ کر مسلمان ہیں۔ اس اعلان کے بعد ہمیں زبردستی غیر مسلم بنا کر کچھ بھی ظلم یہ آئینی مسلمان ہم پر کریں یا وہ مسلمان جو آئین کی رو سے مسلمان ہیں، ہم پر کریں، یا حکومتیں اور اُن کے وزراء کی اشیر باد پر ان کے کارندے ہم پر کریں، یہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں گنہگار بن رہے ہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لا رہے ہیں۔ ان کی یہ حرکتیں یقینا ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب لانے والی ہونی چاہئیں۔ اگر کوئی حکومت یا وزیر یا اُن کے چیلے احمدیوں پر ظلم کریں گے تو دنیا میں اپنی حکومت کو اور ملک کو بدنام کریں گے۔ ملک کی بدنامی سے ہر احمدی کا دل خون ہوتا ہے۔ کیونکہ اس ملک کی خاطر ہم نے بڑی قربانیاں دی ہوئی ہیں۔ یہاں مذہب کے نام پر خون کر کے یہ لوگ نہ صرف ملک کو بدنام کر رہے ہیں بلکہ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اور اسلام جو امن، صلح، بھائی چارے اور محبت کا مذہب ہے اُسے بھی بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو اسلام کا غلط تاثر دینے والوں کے تاثرات کو زائل کر رہے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ اسلام کی خوبصورتی کو دنیا میں دکھائیں، اس لئے ہم انشاء اللہ تعالیٰ کرتے چلے جائیں گے۔

    ہر احمدی جو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو کر مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آیا ہے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کا تابع فرمان ہے۔ مسلمان بھی یقینا ہے اور پکّا مسلمان ہے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے والا بھی ہے۔ اُس کے مسلمان ہونے پر کسی اسمبلی یا سیاسی حکومت کی مہر کی ضرورت نہیں ہے۔

    ہم نے تو اس ایمان کا مظاہرہ کرنا ہے جو دنیا والوں سے خوف کھانے والا نہ ہو بلکہ اگر کوئی خوف اور غم ہو تو یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو کس طرح حاصل کرنا ہے، اُس کے قرب کو کس طرح حاصل کرنا ہے؟

    پس یہ ہے وہ مقام جو ہر احمدی کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ بحیثیت جماعت، جماعت کی کثرت اس مقام کو حاصل کرنے والی ہو۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والی ہو۔ ہم حقیقت میں اسلامی رنگ میں رنگین ہونے والے ہوں۔

    مکرم چوہدری حامد سمیع صاحب آف کراچی کی شہادت۔ شہید مرحوم کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 14جون 2013ء بمطابق 14احسان 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور