دورۂ جرمنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان

خطبہ جمعہ 5؍ جولائی 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ

کس طرح تیرا کروں اے ذوالمنن شکر و سَپاس

وہ زباں لاؤں کہاں سے جس سے ہو یہ کاروبار

اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور احسانوں کا شکر ادا کرنا ممکن نہیں۔ ہر سفر جو مَیں کرتا ہوں اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو لئے ہوئے ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں جلسہ سالانہ جرمنی ہوا اور مَیں نے وہاں شمولیت کی۔ وہاں جلسہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ایسے نظارے دیکھے کہ اس بات پر یقین مزید پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہر روز نئی شان سے پورے فرماتا ہے۔ امیر صاحب جرمنی مجھے کہنے لگے کہ جو کچھ مَیں دیکھ رہا ہوں، میری اور میرے ساتھیوں کی سوچ سے بھی بالا ہے۔ جرمنی میں جرمن لوگوں اور جرمن پریس میں اس دفعہ اتنی دلچسپی ظاہر ہوئی ہے کہ جو پہلے نہیں ہوتی تھی۔ مسجدوں کے سنگِ بنیاد کے تقاریب ہوئیں۔ مسجدوں کے افتتاح کی تقاریب ہوئیں۔ پہلے سے بڑھ کر مقامی لوگوں کی دلچسپی نظر آئی۔ انتظامیہ کی بھی دلچسپی نظر آئی، پڑھے لکھے لوگوں کی دلچسپی نظر آئی، بلکہ چرچوں کے پادریوں کی بھی دلچسپی نظر آئی۔ جلسہ سالانہ ہوا تو اُس میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے پہلے سے بڑھ کر دیکھے۔ بہر حال انسانی سوچ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ کم از کم جو کچھ وہاں ہوا، اُس سے پہلے گوجماعت جرمنی کی بہت اچھی توقعات تھیں کہ اس دفعہ انتظامات بہتر ہوں گے، لوگوں کی رسپانس اچھی ہو گی، لیکن یہ خیال بھی نہیں تھا کہ اتنے وسیع طور پر انتظامات سے بڑھ کر اور توقعات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔

اس وقت جیسا کہ میرا طریقہ کار ہے، ایک تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کاکچھ ذکر کروں گا، سفر کے حالات بیان کروں گا، دوسرے جلسہ کے کارکنان کا شکریہ بھی ادا کیا جاتا ہے، تواس سلسلے میں کچھ جلسہ کے انتظامی معاملات اور شکریہ بھی ادا کروں گا۔

دس دن کایہ سفر بہت مختصر تھا۔ یہاں سے جب مَیں وہاں گیا ہوں تو اس عرصے میں انہوں نے دو مساجد کی سنگِ بنیاد رکھوائیں، دو مساجد کا افتتاح ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مساجد کا فنکشن نہایت کامیاب ہوتا رہا۔ اس لحاظ سے اسلام کی تبلیغ کا موقع ملا کہ مسجد کے حوالے سے وہاں کے لوگوں کے جو کچھ تحفّظات ہیں، وہ دُور ہوئے۔ اُن کی مورفیلڈن میں ایک مسجد سُبْحَان ہے، اُس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ مسجد بیت العطاء فلورس ہائم میں ہے اُس کا افتتاح ہوا۔ یہ مسجد جو ہے یہ پہلے سے تعمیر شدہ عمارت تھی اور اس کو خرید کر مسجد میں اس کو تبدیل کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے افرادنے اس عمارت کو مسجد میں بدلنے کے لئے سات ہزار گھنٹے وقارِ عمل کیا ہے۔

پھر نوئے ویڈ کی مسجد بیت الرحیم ہے، اس کا افتتاح ہوا۔ اور بیت الحمید فلڈا کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ ان تمام فنکشنز میں وہاں مختلف مہمان، مقامی لوگ، میئرز، افسران، سیاستدان، مذہبی نمائندے مختلف جگہوں کے آئے ہوئے تھے۔

مسجد بیت العطاء جو ہے، وہاں صوبہ ہیسن کے سیکرٹری آف سٹیٹ، ڈاکٹر اوڈالف نے اپنے ایڈریس میں ایک تو مبارکباد پیش کی، پھر کہتے ہیں کہ مَیں دسمبر میں جامعہ کے افتتاح میں بھی شامل ہوا تھا اور مسجدنور کے افتتاح کا بھی انہوں نے حوالہ دیا جو 1959ء میں ہوا، اور پھر جماعتی تعلیم، اسلام کی تعلیم اور احمدیوں کے رویّے کا ذکر کیا۔ پھر کہتے ہیں کہ میں آپ کی جماعت کا نہایت احترام کرتا ہوں اور ہمارے ساتھ کام کرنے پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اس بات پر بھی آپ کا شکرگزار ہوں کہ آپ نے ایسے مختلف پروگرام رکھے ہیں جن کی وجہ سے اسلام کی اچھی تصویر عوام الناس کے سامنے آئی ہے جس میں چیریٹی واک ہے، گلیوں کی صفائی ہے اور بچوں کی تنظیم کی مدد ہے، وقارِ عمل ہے۔ تو اس طرح کے یہ بہت سارے تأثرات ہیں۔ میں نے بیچ میں چند ایک واقعات لئے ہیں۔ اس مسجد کی افتتاحی تقریب میں 270 کے قریب جرمن مہمان شامل ہوئے تھے اور چار مختلف علاقوں کے میئرز، سیکرٹری آف سٹیٹ، ایک سیاسی پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین، نیشنل پارلیمنٹ کے ممبر، چرچز کے پادری یا اُن کے نمائندے، پولیس کمشنر اور اسی طرح سیکرٹری کونسل کے نمائندے وغیرہ شامل ہوئے۔ اسی طرح مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے جو مختلف احباب ہیں، وہ شامل ہوئے۔

بیت الحمید مسجد جوہے اس میں وہاں کے فرسٹ کونسلر آف سٹی نے اپنے ایڈریس میں کہا کہ جماعت احمدیہ فلڈا شہر کے ماضی کا بھی حصہ ہے، کئی دہائیوں سے یہاں اس جگہ پر مقیم ہے۔ میں آپ لوگوں کے معاشرے کی مثبت سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہوں۔ پھر آپ کا مسجد بنانا اس بات کی نشانی ہے کہ آپ اس شہر کے معاملات میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہماری زبان میں کہاوت ہے کہ باتوں کے بجائے اعمال کے ذریعہ انسان کا اندازہ لگایا کرو۔ اور آپ کی طرف سے اچھی باتیں ہی نہیں بلکہ ہم نے دیکھا ہے کہ آپ کے اعمال بھی بہت اچھے ہیں اور نمایاں ہیں۔ اور یہ فیصلہ کُن بات ہے کہ جماعت اس ملک کے قوانین کو نہ صرف مانتی ہے بلکہ ان کی پابندی بھی کرتی ہے اور اس لئے ہمیں ہر لحاظ سے رواداری کا اظہار کرنا چاہئے۔

اسی طرح ایک لوکل مہمان نے تبصرہ کیا۔ اکیاسی (81) سال ان کی عمر ہے اور انہوں نے وہاں میرا ایڈریس بھی سنا۔ اس کے بعدکہتے ہیں کہ آپ کے خلیفہ نے جو باتیں بیان کی ہیں یعنی اسلام کی ترقی کی باتیں، اپنی زندگی میں تو شایدنہ دیکھ سکوں، لیکن تم دیکھو گے کہ آپ کے بانی جماعت جن کے متعلق میں نے انٹرنیٹ پر پڑھا ہے، ان کے پیغام کو دنیا قبول کرے گی اور حقیقی اسلام ان کے ذریعہ سے پھیلے گا۔ پھر وہ اگلے دن دوبارہ تشریف لے آئے اور کہتے ہیں کہ میں نے اپنے دل میں آپ کے مذہب کی سچائی کو پا لیا ہے۔ مجھے نماز سکھاؤ تاکہ میں دعا کرسکوں۔ پھر اس پروگرام کے آخر پر ضلع کونسل کے صدر وہاں کے مقامی صدر جماعت کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ کے امام ہماری ضلعی کونسل کے ہیڈ آفس آئیں۔ ہم نے خطاب سنا ہے اور بہت سے سیاستدانوں نے اس خطاب کو ایک روشن خطاب قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ آپ کے امام جماعت کے اس خطاب نے ہماری عقلوں کو جِلاء بخشی ہے اور ہمارے دل پر اثر کیا ہے۔

وہاں کے صدر صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے لوگ مسلسل مسجد دیکھنے کے لئے آ رہے ہیں۔ ہمیشہ جہاں مسجدیں تعمیر ہوتی ہیں وہاں تبلیغ کے نئے راستے کھلتے ہیں اور تعارف بڑھتا ہے۔ تو وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک (دو دن کے بعد انہوں نے رپورٹ دی تھی کہ) پانچ سو سے زائد افراد آ چکے ہیں اور بہت ساروں نے اسلام کی تعلیم جاننے سے متعلق بہت دلچسپی دکھائی ہے۔ بلکہ یہ کہتے ہیں کہ بعض افراد کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ یہ باہر سے آنے والے مہمان نہیں ہیں بلکہ ہماری جماعت کے ہی ممبر ہیں۔ ایک خاتون اپنے تأثرات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ مجھے آپ کے امام کو دیکھ کر اور اُن کا خطاب سن کر بہت خوشی محسوس ہوئی، عیسائیت کے بارے میں نہایت کشادہ دلی رکھتے ہیں اور Love for all, Hatred for none کا نعرہ ہم نے بہت بار سنا ہے۔ اور پھر یہ کہتی ہیں کہ بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو ہمیں جوڑتی ہیں نہ کہ جدا کرتی ہیں۔ مذاہب کے بارے میں انسان کے لئے غور کرنا لازمی ہے کہ معلوم ہو جائے کہ ایک دوسرے میں اتنا فرق اور اختلاف موجودنہیں ہے۔

ایک دوست نے اظہار کیا کہ جو پیغام خلیفہ نے پہلے دیا تھا وہ یہ تھا کہ اسلام رواداری کا مذہب ہے اور یہ ایک نہایت ضروری پیغام ہے جس کی آپ کے امام جماعت بار بار وضاحت فرما رہے ہیں (یہ پہلے بھی شامل ہو چکے ہیں فنکشن میں )۔

پھر ایک دوست نے کہا کہ مجھے بہت اچھا محسوس ہوا ہے کہ یہاں محبت اور پیار کا لفظ بار بار استعمال کیا گیا ہے۔ مَیں خود تو فعّال پروٹسٹنٹ عیسائی ہوں اور ہمارے لئے بھی جدید عہدناموں میں لفظ محبت نہایت اہم ہے لیکن مجھے یادنہیں پڑتا کہ میں نے اس لفظ کو چرچ میں اتنی بار سنا ہو۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا ہے۔ مجھے جماعت احمدیہ کے بارے میں اتنا علم تو نہیں تھا لیکن جو محبت مجھے یہاں ملی ہے یہ ہر جگہ نہیں ملتی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تو سب کو معلوم ہے اور مجھے اس کو چھپانے کی ضرورت بھی نہیں کہ اسلام کے بارے میں جرمنی میں لوگوں کو بہت سے تعصبات ہیں اور میڈیا کی وجہ سے غلط تصویر دکھائی جاتی ہے۔ اکثر مسلمانوں کو ذاتی طور پر جانتے ہی نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہر اس جگہ پر جہاں ذاتی تعلق قائم ہو جائیں وہاں معلوم ہو جاتا ہے کہ اصل بات کیا ہے؟

اسی طرح ٹی وی اور اخباری نمائندوں نے بھی میرے انٹرویو لئے جس میں اسلام کی حقیقی تعلیم اور اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ضرورت اور مساجد میں کردار کے بارے میں سوال کئے گئے۔ اور اس طرح تقریباً مجموعی طور پر تیس اخبارات، تین ریڈیو سٹیشنز اور پانچ ٹی وی چینلز نے ہمارے ان فنکشنز کو کوریج دی۔ جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی۔ جرمنی کے دوسرے چینلز زیڈ ایف (ZF)، زیڈ ٹی ایف (ZTF) نے فلڈا کی مسجد کی سنگِ بنیاد کی تقریب کے متعلق 27؍جون کو تقریباً تین منٹ کی خبر نشر کی اور اُس میں مجھے مسجد کی بنیاد رکھتے ہوئے بھی دکھایا گیا اور جماعت احمدیہ کا تعارف کروایا گیا۔

پرنٹ میڈیا کے ذریعہ، اخبارات کے ذریعہ مجموعی طور پر بارہ لاکھ افراد تک جماعت کا پیغام پہنچا۔ اور نیشنل ٹی وی پر کوریج کے ذریعہ پورے جرمنی میں میری تصویر کے ساتھ جماعت کا تعارف اور پیغام پہنچا۔ انٹرنیشنل سیٹ تھری (International SAT 3) جو کہ جرمنی اور آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ کا مشترکہ چینل ہے، اس ٹی وی پر جلسہ کے بارے میں خبر نشر ہوئی۔ اس طرح ٹی وی کے ذریعہ تین ممالک میں جماعت کا پیغام پہنچا ہے جس کی کم از کم جرمنی کی جماعت کو توقع نہیں تھی۔

اخبارMain-Taunus-Kurier نے لکھا کہ خلیفۃ المسیح نے اپنے خطاب میں کہا۔ یہ جگہ جس کو ہم نے اب مسجد میں کنورٹ (convert) کیا ہے یہ پہلے ایک مارکیٹ تھی کہ جہاں بہت ساری چیزیں پیسوں کے عوض دی جاتی تھیں جو کہ جسمانی ضروریات کے لئے ہوتی تھی، مسجد میں بھی کچھ ہوتا ہے، خرید و فروخت ہوتی ہے لیکن مفت چیز ملتی ہے اور وہاں روحانی چیز ملتی ہے۔ یہ اخبار خبر لگا رہا ہے۔ اور پھر چندوں کے بارے میں بتایا۔ وہاں جماعت کو جرمنی میں سرکاری طور پر وہ سٹیٹس (Status) مل گیا ہے کہ اب جماعت وہاں اپنے سکول بھی کھول سکتی ہے بلکہ اور دوسرے پروگرام کر سکتی ہے بلکہ چرچ کی طرح ایک حد تک ٹیکس کی طرز کا ٹیکس وصول کر سکتی ہے۔ اُس پر میں نے اُنہیں کہا تھا کہ جماعت چندے دیتی ہے اور خوشی سے دیتی ہے اور یہ مسجد بھی قربانی کر کے جماعت نے بنائی ہے اس لئے ہمیں کسی ٹیکس کی ضرورت نہیں، نہ اس بنیاد پر گورنمنٹ سے کسی مدد کی ضرورت ہے، نہ لوگوں سے زبردستی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے خود قربانیاں دے کر جماعت کے لئے خرچ کرتے ہیں، مساجد کے لئے خرچ کرتے ہیں۔ خلافت اور جماعت کا جو تعلق ہے یہ غیروں کو بھی بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ ایک مہمان لکھتے ہیں کہ احمدی اپنے خلیفہ سے جو محبت کرتے ہیں اُس کی مثال دنیا کے تعلقات میں نہیں ملتی۔ احمدیوں کا اپنے خلیفہ کا قریب سے دیدار ایک ناقابلِ فراموش(بات) ہے اور اسی طرح خلافت کا جماعت سے اور جماعت کا خلافت سے جو یہ تعلق ہے، یہ غیربھی اب محسوس کر رہے ہیں۔ اور بہت سارے مہمانوں نے اس بات کا اظہار کیا۔

بعض چیزیں اکثر کی مشترک ہیں۔ ایک ہی طرح کی باتیں ہیں۔ بعض اظہار ہیں، جذبات ہیں، اُن کو مَیں چھوڑتا ہوں۔ پھر جب مَیں نے اُن کو یہ کہا کہ ہمیں جماعت کی اور اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مذہب کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں اور یہی ہماری تعلیم ہے اور یہ مسجد اس مقصد کو پورا کرنے والی ہو گی تو اس کو اخباروں نے بہت زیادہ ہائی لائٹ (Highlight) کیا۔ اور درجنوں کے حساب سے انہوں نے جو انٹرنیٹ اپنے پر ویب سائٹس ہیں اُن میں بھی مساجد کی تصاویر دیں اور اس پر عام ہیں۔ یہ تو مساجد کے ذریعہ سے اس بہت سارے علاقے میں تبلیغ ہوئی۔

جلسہ سالانہ جرمنی میں اس دفعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ کے ذریعہ کی جو رپورٹ ہے وہ یہ ہے کہ اس سال فرانس اور بیلجیم سے آنے والے نو مبائعین اور زیرِ تبلیغ دوستوں کے علاوہ مالٹا، اسٹونیا، آئس لینڈ، لیتھوینیا، ہنگری، لیٹویہ، رشیا، تاجکستان، قرغزستان، کوسوو، البانیا، بلغاریہ اور میسی ڈونیا سے بھی وفود آئے تھے اور ان میں غیر مسلم دوست بھی شامل تھے، جو جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ بھی شامل تھے، زیرِ تبلیغ بھی شامل تھے، احمدی بھی شامل تھے۔ بلغاریہ کا ایک بہت بڑا وفد تھا جو اسّی (80) افراد پر مشتمل تھا۔ میسی ڈونیا سے ترپن (53) افراد پر مشتمل وفد آیا تھا جس میں پندرہ عیسائی تھے، دس غیر احمدی تھے اور بائیس احمدی تھے۔ اور یہ لوگ ہزاروں میل سفر کر کے آئے تھے اور ہر ایک کا یہی تأثر تھا کہ جلسہ کے روحانی ماحول سے ہم بے حد متأثر ہوئے ہیں اور احمدیوں نے تو برملا کہا کہ جلسہ نے ہمارے اندر نمایاں تبدیلی پیدا کر دی ہے اور غیروں کے یہ تاثرات تھے کہ ایسے نظارے ہم نے کہیں نہیں دیکھے۔

جرمنی کا جلسہ بھی یورپ اور خاص طور پر مشرقی یورپ اُن علاقوں کے لئے ایک مرکز بن گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سے مختلف ممالک کے لوگوں کا آنا جانا آسانی سے ہے اس لئے تبلیغی میدان بھی وسیع تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس طرح ہمیشہ ہمارے بچوں کے پانی پلانے اور خدمت کرنے کے بارے میں، بوڑھوں کی خدمت کرنے کے بارے میں، ایک نظام کے تحت ہر کام ہونے کے بارے میں تأثرات کا اکثر عموماً اظہار ہوتا ہے تو اس عمومی خیال کا ہر ایک نے وہاں اظہار کیا۔ بلکہ بعضوں نے تو کہاکہ ہمارے لئے تو یہ معجزہ ہے۔

میسی ڈونیا سے آنے والی ایک تراجہ ایمیلیجا (Traja Emilija) صاحبہ عیسائی خاتون ہیں، وہاں انگریزی کی پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جلسہ میں پہلی بار شامل ہوئی ہوں، ہر چیز ایک نظام کے تحت منظم طور پر ہو رہی تھی۔ بچوں سے لے کر بڑی عمر کے افراد تک سب ایک دوسرے کی مدد کر رہے تھے جس سے نظر آیا کہ آپ کی جماعت بہت بلند مقام پر ہے۔ کہتی ہیں کہ یہاں آپ کے امام جماعت کے خطابات سن کر مجھے سمجھ آئی ہے کہ اسلام کیا ہے۔ اور اسلام کا مطلب محبت، عزت افزائی اور سب کے لئے امن ہے۔ کہتی ہیں جلسہ نے ہمیں بدل کے رکھ دیا ہے اور ہم نے اپنے اندر بہت تبدیلی محسوس کی ہے۔ گویا صرف احمدیوں پر اثر نہیں ہوتا، عیسائیوں پر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اثر ہوتا ہے۔

میسی ڈونیا کے ایک ڈاکٹر اور ہام (Orham) صاحب ہیں۔ جلسہ پر وفد کے ساتھ آئے۔ کہتے ہیں کہ مَیں ڈاکٹر ہوں۔ بلقان اور مقدونیہ میں گزشتہ لڑی جانے والی تین جنگوں کے زخمیوں کی خدمت کی توفیق ملی ہے۔ قومیت کے فرق کے بغیر میں نے لوگوں کی خدمت کی ہے۔ اس جلسہ میں مَیں نے دیکھا کہ مختلف قوموں کے افراد میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ یہاں مَیں نے خلیفۂ وقت کی تقریریں سنیں تو مجھے یقین ہو گیا کہ مجھے اپنی اصل جگہ مل گئی ہے اور یہ کہ اب مجھے اس تبدیلی سے گزرنا ہو گا اور انہوں نے بیعت کا فیصلہ کر لیا۔ چنانچہ جلسہ کے آخری دنوں میں انہوں نے بیعت کی۔ کہتے ہیں مَیں حج پر بھی گیا تھا، وہاں مَیں نے دیکھا کہ مسلمان کیا ہوتے ہیں۔ وہاں تو مَیں نے اسلام کے خلاف سیاست ہی دیکھی ہے۔ یعنی مسلمان کے قول اور فعل میں بڑا تضاد تھا اور سیاست زیادہ تھی۔ کہتے ہیں اُن کے ساتھ دل مطمئن نہیں ہو سکتا تھا۔ اور جماعت جو ریفارم پیش کرتی ہے یہ بہت اچھا ہے۔ جماعت کسی کو اسلام سے نہیں نکالتی بلکہ اسلام میں اُسے مضبوط کرتی ہے۔ اور کہتے ہیں اب میں نے احمدیت قبول کر لی ہے اور میرے لئے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ کہتے ہیں کہ حیرت انگیز بات ہے، اتنا بڑا مجمع اور کوئی پولیس والا نہیں۔ یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو بھی تسلّی ہے کہ یہاں کوئی جھگڑا نہیں ہو گا۔ پھر کہتے ہیں خلیفہ وقت نے جو بعض امور پیش کئے وہ کسی مولوی سے کبھی نہیں سنے۔ یہ سب کچھ اتنا واضح تھا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مَیں اب آپ کے ساتھ ہوں جس میں ایک خلیفہ موجود ہے۔ جب مجھے علم ہوا کہ ایک خلیفہ موجود ہیں تو مَیں سمجھا کہ مجھے راستہ مل گیا ہے کیونکہ ہمیں خلیفہ اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔

پھر میسی ڈونیا کے ایک نوجوان بائیرم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ نئے احمدی ہیں اور اس سے پہلے مسلمان تھے بلکہ ایک ایسے کٹّر مسلمان خاندان سے تھے جو مولوی طبع ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں میرے دادا غیر احمدی مولوی ہیں اور اُن کی طرف سے قبولیتِ احمدیت پر بہت مخالفت کی گئی۔ مخالفت کی وجہ سے چھ مہینے کے لئے گھر سے ان کو نکلنا پڑا لیکن یہ ثابت قدم رہے۔ بعد میں ان کی بیوی نے بھی بیعت کر لی اور یہاں جلسہ پر آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک نظم پڑھنے کی بھی اجازت چاہی جو میسی ڈونیا کے لوگوں نے ہی لکھی تھی۔ تو میں نے کہا ہاں آپ پڑھیں۔ یہ نظم انہوں نے اور اُن کے ساتھ کچھ اور بچوں نے ایسے انداز میں پڑھی کہ وہاں ایک عجیب ماحول پیدا ہو گیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ایم ٹی اے والے انشاء اللہ دکھائیں گے۔ ایک تو آواز بھی اُن کی اچھی تھی، پھر وہیں کے لوکل بچے بھی بیچ میں شامل ہوئے اور اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مدح تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی آمد کے بارے میں ذکر تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے کہا تو تھا کہ ہمیں جلسہ پر پڑھنے کاموقع دیا جائے لیکن موقع نہیں ملا۔ تو بہر حال انہوں نے نظم پڑھ کر سنائی۔

جرمنی کی انتظامیہ کو مَیں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں اگر ایسے لوگ نظمیں پڑھنا چاہیں تو اُن کو جلسہ کے بعد میں پڑھنے کے لئے اجازت دیا کریں، بجائے اس کے کہ صرف اردو کی نظمیں پڑھی جایا کریں۔ مختلف لوگ ہوتے ہیں، مختلف قومیتیں ہوتی ہیں اُن کو اجازت ملنی چاہئے۔ لجنہ میں بھی اس دفعہ جرمن نظم پڑھنے والوں کا شکوہ ہے کہ اُن کو بہت تھوڑا موقع ملا اور آخر میں اردو نظمیں زیادہ پڑھی گئیں۔ اس لئے اُن کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔

بیلجیم کے ایک مقامی دوست ہیں، یہ بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ بیان کرتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کی باہمی اخوت، پیارو محبت اور انسانیت کی خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ کہتے ہیں مَیں نے دو سال سے جماعت کی تعلیم پر ریسرچ کی ہے۔ مَیں مسلمان بھی تھا لیکن اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں تھا۔ میں نے ایک روز خواب میں اذان کی آواز سنی تو میں نے سوچا کہ مجھے نماز کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ یعنی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ آج جب میں نے خلیفۂ وقت کا مہمانوں سے خطاب سنا (یہ جرمن مہمانوں سے انگلش میں تھا) تو اس نے میرے اندر تبدیلی پیدا کر دی اور میں نے فیصلہ کیا کہ میں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوجاؤں۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کی۔

پھر ہمارے وہاں کے ایاد عودہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ جلسہ کے پہلے روز شام کو ایک گھانین زیرِ تبلیغ دوست کو صدر صاحب جماعت ایک جگہ کے لے کر آئے تو یہ پتہ لگا کہ نوجوان کا دل جماعت کی طرف سے صاف ہے بلکہ تقریباً احمدی ہیں۔ لیکن پوچھنے پر بتایا کہ بیعت ابھی نہیں کر سکتا کیونکہ بعض مشکلات ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں اُس وقت تو چلے گئے اور رات کو سونے کے لئے جب آئے تو بڑے جوش سے کہنے لگے کہ اب میں نے خلیفہ وقت کا پیغام یعنی تقریر جو جرمن مہمانوں کے سامنے تھی، وہ خطاب سن لیا ہے اب کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ میں احمدی نہ ہوں۔ چنانچہ ابھی بیعت کرکے آ گیا ہوں۔ ایک عیسائی دوست جلسہ میں شامل ہوئے، اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھے خلیفہ کی تقریر سن کر بہت خوشی محسوس ہوئی کیونکہ انہوں نے اختصار کے ساتھ مگر نہایت وضاحت سے بیان کر دیا کہ اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ اور اسلام کی تعلیم کیا سبق دیتی ہے؟ مَیں اپنے عیسائیوں سے بھی ایسے ہی واضح اور سیدھی بات سننا چاہتا ہوں لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا۔ اور ہم بہت ہی کم ہیں جو بالکل واضح اور سیدھی بات کر سکتے ہیں۔ ایک خاتون نے کہا کہ مجھے یہاں آ کر نئی باتیں سیکھنے کا موقع مل رہا ہے۔ بہت سی باتوں کا جن کے بارے میں مَیں سمجھتی تھی کہ مجھے علم ہے، اُن کا مجھے یہاں آ کر نئے انداز سے پتہ چلا ہے۔ اور کہتی ہیں مَیں نے خلیفہ کے خطاب سے بہت کچھ سنا اور بہت متاثر ہوئی۔ انہوں نے پیچیدہ اور مشکل موضوعات کے بارے میں بات کی۔ ایسے موضوعات کے بارے میں بیان کیا جن کے بارے میں تھیولوجیئن (Theologian) بہت سی کتابیں لکھ دیتے ہیں تا کہ ان کو سمجھا جا سکے۔ لیکن انہوں نے یہ ساری باتیں بہت ہی آسان طریق سے اور انتہائی پیارے انداز کے ساتھ بیان کر دیں اور اس کا معیار بھی ایک ہی رکھا تا کہ سب سمجھ سکیں۔ خلیفہ نے اسلام کی تعلیم اور خدا تعالیٰ کے بارے میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ہر شخص اُسے سمجھ سکتا تھا، کسی قسم کی کوئی غلط فہمی پیدا نہیں کی۔ پھر انہوں نے کہا جماعت بھی بالکل مختلف ہے۔

پھر ہمارے ایک احمدی بتاتے ہیں کہ ایک جرمن نوجوان میرے پاس اپنے احمدی دوستوں کے ہمراہ آیا اور کہنے لگا کہ میں عیسائی ہوں۔ جب اُس کے ساتھ بات چیت کا ایک سلسلہ چل نکلا تو وہ مسلمانوں کی طرح بات کرنے لگا۔ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک بہت عقیدت اور احترام کے ساتھ مکمل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہتا۔ اور ساتھ ہی کہنے لگا کہ ابھی نماز کا وقت ہے میں وضو کر کے آیا ہوں اور خلیفہ وقت کے پیچھے نماز ادا کرنی ہے۔ میں نے اُسے کہا کہ لگتا ہے کہ آپ نے شروع میں خود کو عیسائی کہا تھا لیکن جس طرح آپ باتیں کررہے ہیں آپ مسلمان لگتے ہیں۔ کہنے لگا کہ چھ ماہ قبل احمدیت سے تعارف ہوا تھا۔ Life of Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم کتاب میں نے پڑھی ہے اور اپنے پادری سے بات کی تو وہ کوئی جواب نہیں دے سکا۔ میرا دل بدل چکا تھا۔ عیسائیت تو ترک کر ہی چکا تھا، اب پوری توجہ اسلام کی طرف ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کا کچھ اندازہ ہوا ہے۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ باقی روکیں بھی دور کر دے۔

لیتھوینیا سے ایک جرمن زبان کے استاد کارل ہائنس آئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں بہت متاثر ہوا ہوں اور بہت خوش ہوں کہ پہلی مرتبہ جماعت کا اتنا تفصیلی اور اچھا تعارف ہوا ہے۔ جلسہ سے قبل اسلام کے بارے میں منفی خیالات تھے جو کہ مکمل طور پر بدل گئے ہیں۔ میں نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ مذاہب کے مابین بہت ساری باتیں مشترک ہیں۔ مثلاً خدا کا تصور، خدا کی رحمتیں وغیرہ۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ میرے ذہن میں ایک الجھن تھی کہ لوگ تالیوں کے بجائے نعرے کیوں لگا رہے ہیں؟ تالیوں سے خوشی کا اظہار ہونا چاہئے۔ اس الجھن کا نہایت خوش اسلوبی سے امام جماعت نے مجھے جواب دیا، (میرے سے ان کی باتیں بھی ہوئی تھیں ) اور یہ کہہ کر تسلی بخش جواب دیاکہ تالیاں خوشی کے اظہار کے لئے ضرور ہیں مگر نعروں میں خوشی کا اظہار بھی ہے اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی ہے۔

مارک ماؤنٹے بیلو (Mark Montebello)، یہ ایک عیسائی پادری ہیں اور یونیورسٹی آف مالٹا میں فلاسفی پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی اخبارات میں مضامین بھی لکھتے ہیں۔ وہاں نقاد پادری کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ چرچ کی بعض پالیسیوں پر بھی آزادانہ رائے پیش کرتے رہتے ہیں۔ چرچ کی بعض پالیسیوں سے اختلاف بھی رکھتے ہیں اور میڈیا وغیرہ پر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے اسلامی اصول کی فلاسفی کتاب پڑھی تھی اور خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی کتاب ’’Islam’s response to contemporary issues‘‘پڑھی تھی۔ پھر انہوں نے ’’مسیح ہندوستان میں‘‘ پڑھی۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں شمولیت سے جماعت سے متعلق ہمارے مثبت تاثرات میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اب ہم اس بات پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ایک نہایت امن پسند جماعت ہے۔ اور انہوں نے وہاں سے ’’اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ‘‘ کی انگوٹھی بھی خریدی اور پہلے اس کے معنی پوچھے کہ کیا معنی ہیں؟ کہتے ہیں یہ تو ایسی عبارت ہے جس کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنا چاہئے۔ میرے سے ان کی ملاقات بھی ہوئی۔ پوپ کے بارے میں سوالات کرتے رہے کہ آپ نے ان سے کبھی کوئی رابطہ کیا۔ میں نے کہا ہم نے ایک دفعہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، رابطہ تو نہیں ہوا تھا لیکن بہرحال اُن کو میں نے دنیا کے امن کے بارے میں خط لکھا تھا تو باوجود اس کے کہ دستی خط اُن کو دیا گیا تھاانہوں نے اس کو acknowledge تک نہیں کیا۔ اس پر مایوسی سے بیچارے مسکرا کے رہ گئے۔

اس بارے میں ایک پرانا واقعہ بھی بتا دوں، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مسجد فضل کی بنیاد رکھی تو میرا خیال ہے کہ شروع میں انہوں نے ایک وقت جب دورہ کیا تھا تو اٹلی بھی گئے تھے۔ وہاں پوپ سے رابطے کی کوشش کی گئی اور جب رابطہ کیا تو پوپ نے جواب دیا کہ میرا جو محل ہے وہ ابھی زیرِ تعمیر ہے، مرمتیں ہو رہی ہیں اس لئے ملاقات مشکل ہے۔ اخباری نمائندے، پریس والے وہاں آئے ہوئے تھے، انہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے پوچھا کہ آپ پوپ سے ملیں گے؟ انہوں نے کہا ہاں، مَیں نے ملنے کی خواہش کی تھی اور یہ اُس کا جواب ہے۔ اخباری نمائندوں نے اسی طرح اپنے اخبار میں خبر لگا دی کہ پوپ نے امام جماعت احمدیہ کو یہ جواب دیا ہے کہ میرا محل زیرِ تعمیر ہے اس لئے ملاقات مشکل ہے۔ اور نیچے لکھ دیا کہ امید ہے احمدی خلیفہ سے ملنے سے بچنے کیلئے اُن کا محل کبھی تعمیر ہی نہیں ہو گا۔ تو بہر حال ہمارا جو کام ہے ہم نے کئے جانا ہے۔

پھر ایک احمدی ہیں اشیر علی صاحب قرغزستان سے آئے، وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے 2007ء میں بیعت کی تھی لیکن ہمارے پاس مسجدنہیں تو جماعت احمدیہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کی خواہش تھی۔ وہ پہلے آ گئے تھے۔ مساجد کے افتتاح میں بھی شامل ہوتے رہے۔ یہاں آکر یہ بھی اللہ تعالیٰ نے خواہش پوری فرمائی۔ پھر قاراقل اسماعیلو صاحب ہیں، یہ بھی یہاں رہے اور اپنی احمدیت کی قبولیت پر شکر گزاری کرتے رہے۔ جلسے میں شمولیت پر اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے رہے۔

نائیجر کے رہنے والے ایک دوست صالح یحییٰ بیلجیم میں رہتے ہیں، جو مسلمان تھے، یہاں آئے۔ کہتے ہیں کہ میں نے افریقہ میں بہت سے علماء کی تقریریں سنی ہیں لیکن وہ اثر اور فائدہ جو مجھے خلیفہ وقت کی تقریر سن کر ہوا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اور میں نے اس جماعت کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور میں نے اس جلسہ پر احمدیت میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے بیعت کر لی۔

اسی طرح ایک مراکشی دوست جموعی توفیق صاحب تھے۔ کہتے ہیں کہ مَیں نے دوسرے تقلیدی مسلمانوں کی تفاسیر بھی پڑھی ہیں اور جماعت احمدیہ کی لکھی ہوئی تفاسیر بھی پڑھی ہیں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ اصل تفاسیر وہی ہیں جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے احمدیت کی لکھی ہوئی ہیں۔ اور مختلف مسائل ان کے حل ہوتے رہے۔ کہتے ہیں کہ مجھے تو پورا اطمینان تھا۔ میں نے احمدیت قبول کر لی اور یہاں جلسہ پر آ کے میرے بیوی بچوں نے بھی بیعت کر لی ہے۔

نائیجر کے ایک اور دوست ہیں، یہ بھی مسلمان تھے۔ کہتے ہیں: مَیں ہمیشہ سوچا کرتا تھا کہ اگر کوئی نبی زندہ رہنے والا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہنے چاہئیں، نہ کہ عیسیٰ علیہ السلام۔ یہاں بیلجیم آ کے احمدیوں سے رابطہ ہوا تو میرایہ مسئلہ حل ہو گیا۔ اور پھر اس کے بعد میں نے اپنے دوستوں سے ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا کہ جماعت تو سچی لگتی ہے۔ پھر مجھے خلافت اور اُس کی برکات کا مسئلہ جلد ہی سمجھ آ گیا۔ میں اس جماعت کو پا کر جس کا ایک امام اور ایک خلیفہ ہے بہت خوش ہوا۔ کیونکہ اسلام نے تب تک ہی ترقی کی جب تک ان میں خلافت رہی۔ کہتے ہیں مجھے اس جماعت میں جو سب سے اچھی بات لگی وہ یہ ہے کہ جماعت ہمیشہ جو بات پیش کرتی ہے اُس بات کی تائید میں ہمیشہ قرآن اور حدیث کا حوالہ دیتی ہے۔ پہلے بیعت نہیں کی تھی، آخری دن پھر انہوں نے بھی بیعت کر لی۔

پھر بَاخْماتُووْ صاحب ہیں، یہ بھی قرغزستان کے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ پہلے مَیں سوچا کرتا تھا کبھی خلیفہ وقت سے ملاقات ہو گی کہ نہیں۔ یہ پہلے سے احمدی تھے اور پھر جو سب کچھ میں نے دیکھا تو اب میرا ایمان مزید مضبوط ہوا ہے۔

قرغزستان کے احمدیوں کے لئے بھی بہت دعا کریں، اُن کے بھی حالات آجکل کافی سخت ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات کو دور فرمائے۔ اور یہ نام نہاد مُلّاں جنہوں نے وہاں فساد کھڑا کیا ہوا ہے اللہ ان کو یا عقل دے یا خود پکڑ کا سامان کرے۔

ایک نو مبائع لبنانی ہیں، اُس نے بتایا کہ ایک دن میرا ایک تیرہ سال کا بچہ مجھے کہنے لگا کہ آپ ہر وقت ہمیں آخری زمانے کے فتنوں سے ڈراتے رہتے ہیں، یہ تو بتائیں کہ یہ آخری زمانہ کب آئے گا؟ مَیں نے جواب دیا کہ اس زمانے میں تو شاید ابھی سینکڑوں سال رہتے ہیں۔ میرے بیٹے نے جواب دیا کہ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ ہم آخری زمانے میں ہی رہ رہے ہیں۔ (یہ بارہ تیرہ سال کا بچہ اُن کو کہہ رہا ہے)۔ پھر بچے نے اُس کو کہا کہ آپ دجّال کے بارے میں کہتے رہتے ہیں کہ وہ ایک عجیب الخلقت شخص ہو گا، یہ بھی درست نہیں ہے، کیونکہ دجّال کسی ایک شخص کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ایک قوم ہے اور ایسا دجّال ظاہر ہو چکا ہے۔ لہٰذا ہم دجال کے زمانے میں ہی رہ رہے ہیں۔ کہتے ہیں یہ سن کر میں سخت حیران ہوا اور اُس سے پوچھا تمہیں یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں۔ تو اُس نے کہا کہ مختلف ٹی وی چینلز دیکھنے کے دوران ایک دن میں نے ایم ٹی اے کی جرمن نشریات دیکھی ہیں اور اُس کے بعد مَیں مسلسل وہ دیکھتا ہوں اور یہ معلومات مجھے وہاں سے ملی ہیں۔ باپ کہتا ہے کہ چونکہ مجھے جرمن نہیں آتی تھی اس لئے مَیں اکثر اپنے بچے سے کہتا اچھا مجھے پروگرام سناؤ اور ترجمہ کر کے بتاؤ اور میری اس سے بحث ہوتی رہتی تھی۔ بہر حال کہتے ہیں مجھے اس پر ایک دن بڑا غصہ آیا اور میں نے کہا خبردار جو تم نے آج کے بعد اس چینل کو دیکھا۔ لیکن باپ کہنے لگا کہ اندر ہی اندر بیٹے کی باتوں میں معقولیت دکھائی دی۔ پھر مَیں نے اپنے طور پر جماعت کے بارے میں لوگوں سے پوچھنا شروع کیاتو شکر ہے کہ اتفاق سے دو پاکستانی احمدی ان کو مل گئے۔ اور پھر مجھے اُن سے باتیں کر کے سمجھ آئی جو میرا بیٹا کہتا تھا درست تھا۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے پھر بیعت کر لی۔

بوسنیا کے ایک اور دوست ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہاں جلسہ پر آ کے تو میرے پر ایک خاص اثر ہوا ہے۔ دعا کریں کہ جب میں واپس جاؤں تو یہ اثر قائم رہے۔

اسی طرح قرغزستان کے ایک اور دوست تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں جلسہ پر مجھے عجیب نظارہ نظر آیا اور پھر انہوں نے بڑی محبت سے مجھے کہا کہ بڑے عرصے سے میں نے بیعت کی تھی اور کچھ سال پہلے میں حج کے لئے گیا تھا اور آب زمزم وہاں سے لے کے آیا تھا اور سوچا تھا کہ جب بھی خلیفہ وقت سے ملاقات ہو گی تو دوں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنی محبت کا اظہار کیا اور وہ پانی مجھے دیا۔

اسی طرح ایک الجزائری دوست تھے۔ انہوں نے بھی کہا کہ دو افراد ایسے تھے جو مہاجرین کو تبلیغ کر رہے تھے۔ میں نے ان کی باتوں میں امام مہدی کے آنے کی خبر سنی تو سخت برہم ہوا اور بے اختیار کہنے لگا کہ ان شیاطین کے آنے سے یہاں پر موجود فرشتے چلے گئے ہیں۔ کہتے ہیں شروع شروع میں تو اُن کے ساتھ میری گفتگو تمسخرانہ تھی لیکن محسوس ہونے لگا کہ میری ہر بات اُن کے سامنے غلط ثابت ہوتی ہے جبکہ اُن کے پاس ان کے ہر دعوے کی قوی دلیل تھی۔ مجبور ہو کر مَیں نے کہا کہ میں ان کے بارے میں کسی مولوی سے رہنمائی لیتا ہوں۔ یہ سوچ کر میں نے ایک معروف عربی چینل سے رابطہ کیا۔ کہتے ہیں پہلے مَیں اس چینل پر مختلف سوالات اور فتاویٰ کے لئے فون کیا کرتا تھا تو کئی بار فون کرنے کے بعد ہمیں کوئی مناسب جواب ملتا تھا۔ اب جب میں نے جماعت احمدیہ کے بارے میں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ تم فون رکھو ہم خود تمہیں فون کرتے ہیں۔ اور پھر انہوں نے ہمیں فون کر کے کہا کہ احمدی تو پکے کافر ہیں، ان سے بچ کے رہو۔ یہی نہیں بلکہ اب تقریباً ہر روز تین چار دفعہ اس چینل کی طرف سے ہمیں فون آنے لگا اور ہر بار ہمیں جماعت کے کفرکے بارے میں فتویٰ سنایا جاتا۔ کہتا ہے کہ جب افرادِ جماعت کی بات سنتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ یہی سچی جماعت ہے۔ لیکن مولویوں کے فتوے سنتا تو جماعت کے بارے میں شک میں پڑ جاتا۔ پھر کتب اور عربی ویب سائٹ پر مواد کا مطالعہ کرتا رہا جس کی وجہ سے حق واضح ہو گیا۔ اور جلسہ پر آنے کی مجھے دعوت دی۔ یہاں جب میں نے دیکھا کہ مختلف قومیتوں کے لوگ ہیں تو میں نے سوچا کہ کیا مَیں ہی سچا ہوں، یہ سب جھوٹے ہیں۔ اس کے بعد دلی اطمینان ہوا اور بیعت کر لی۔

پھر نائیجر سے ہی ایک دوست تھے ابوزیدی صاحب۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں آنے سے قبل میں احمدی نہیں تھا لیکن جلسہ نے میری کایا پلٹ دی ہے۔ اب میں کہتا ہوں کہ سب کو اس جماعت میں شامل ہو جانا چاہئے۔ کیونکہ یہ جماعت اُسی حقیقی اسلام پر عمل پیرا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دیا۔ اس بات پر میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہو رہا ہوں۔ بوسنیا کے ایک احمدی کہنے لگے کہ احمدیت قبول کرنے سے پہلے وہ ہر قسم کے گناہ اور بدکاری میں گرفتار تھے۔ لیکن یہاں جلسہ میں آ کر انہیں دلی اطمینان ہوا ہے اور اب وہ ایک پاک زندگی اسلامی تعلیمات کے مطابق گزارنا چاہتے ہیں۔ جلسہ کا یہ ماحول دیکھ کر اور خصوصاً خلیفہ وقت کی تقریریں وغیرہ سن کر، نمازیں پڑھ کر یہاں اُنہیں ایک عجیب حیرت انگیز تبدیلی محسوس ہوئی ہے۔ تو بڑے درد سے انہوں نے دعا کے لئے بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک رستوں پر قائم رکھے۔

ایک ترک نوجوان نے جلسہ سالانہ جرمنی میں شرکت کی۔ ہیمبرگ سے روانگی سے پہلے انہوں نے کہا کہ وہ ابھی بیعت نہیں کریں گے کیونکہ اُن کے ساتھ کچھ گھریلو مسائل ہیں۔ جلسہ سالانہ میں شامل ہونے کے بعد تیسرے دن صبح تک وہ بیعت کے لئے پوری طرح تیار نہ تھے لیکن بیعت پروگرام سے پہلے وہ اُس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہو گئے۔ بیعت کے وقت اور بعد میں بھی یہ حالت تھی کہ وہ روتے ہی جا رہے تھے اور اُن سے بات کرنی مشکل تھی۔ وہ کہتے تھے کہ بیعت کا نظارہ دیکھ کر اُن سے رہا نہیں گیا اور کسی غیبی طاقت نے اُنہیں بیعت میں شامل کیا۔

اسی طرح نائیجر کے ایک باشندے کہتے ہیں کہ میں نے جلسہ میں آنے سے پہلے بیعت کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن یہاں آ کر میں نے دیکھا کہ لوگوں میں اپنے خلیفہ کو دیکھنے کے لئے کتنی تڑپ ہے اور لوگوں کے دلوں میں اپنے خلیفہ کے لئے کتنی محبت ہے؟ تو اس بات نے میرے دل پر گہرا اثر ڈالا اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب میں بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو جاؤں گا۔

تو اللہ تعالیٰ مختلف ذریعے لوگوں کی اصلاح کے لئے بناتا رہتا ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بیعت میں سولہ قوموں کے ستاسٹھ افرادنے بیعت کی۔ اڑتالیس مرد اور انیس خواتین تھیں۔ اب مختصراً انتظامی باتیں۔ جرمنی میں جلسہ گاہ میں جو اُن کا مین ہال (Main Hall) ہے، پہلے اُسی کے اندر ایم ٹی اے کی وین کھڑی کرتے تھے اور ٹرانسلیشن کیبن وہیں ہوتے تھے۔ اس دفعہ انہوں نے باہر نکالے ہیں جس کی وجہ سے بعض ترجموں میں شور اور آواز آتی رہی، ڈسٹرب ہوتے رہے۔ تو یہ دقّت تھی۔ اُن کو نوٹ کرنی چاہئے۔ امید ہے آئندہ انشاء اللہ اُسے دور کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسی طرح عورتوں میں بعض ٹرانسلیشنز (Translations)کی سہولت نہیں تھی۔ اس لئے عورتوں کو ٹرانسلیشن کے وقت مردوں کے ہال میں آ کر بیٹھنا پڑتا تھا۔ حالانکہ اب تو ایسا نظام ہے، اس زمانے میں ایسی سہولتیں آچکی ہیں کہ ٹرانسلیشن کی سہولت ہر جگہ ہونی چاہئے، چلتے پھرتے بھی ہونی چاہئے بلکہ یہاں یوکے (UK) میں تو اسی طرح ہے، ہر جگہ آپ لے جا سکتے ہیں۔ پھر آواز میں اس دفعہ بہر حال بہتری تھی، لیکن ابھی بھی کچھ گونج تھی۔ اس کی وجہ سے جمعہ والے دن مجھے پوچھنا پڑا کہ آواز صحیح آ رہی ہے کہ نہیں کیونکہ مجھے اپنی آواز واپس لوٹ آتی تھی۔

تو آواز کے لحاظ سے، انتظامی لحاظ سے اور زبان کے ترجموں کے لحاظ سے یہ چند کمیاں تھیں۔ جرمنی کی جماعت کوان کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار ایک سو کارکن اور تین ہزار سات سو کارکنات نے یہ کام کیا اور اُس سے پہلے وقارِ عمل بھی ہوتا رہا۔ سو سے ڈیڑھ سو خدام نے روزانہ چودہ گھنٹے وقارِ عمل کر کے جلسہ کے انتظامات کو تیار کیا۔ اور اکثر نے یہ لکھا کہ ہمیں پہلی دفعہ وقارِ عمل کر کے پتہ لگاکہ اس میں کتنا سکون اور مزہ ہے اور آئندہ انشاء اللہ ہم ضرور شامل ہوں گے۔

شعبہ ضیافت نے بھی اس سال گزشتہ سال کی نسبت بہتر انتظامات کئے۔ ایک تو کھانے کے موقع پر پانی مہیا تھا۔ یہی مَیں نے کہا تھا کہ کھانے کے وقت میں کھانے کی میزوں پر پانی موجود ہونا چاہئے بجائے اس کے کہ دُور جا کے پانی لے کر آئیں، کیونکہ یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیں حکم ہے کہ کھاتے وقت پانی اپنے پاس رکھو۔

روٹی کی کوالٹی بھی اس دفعہ پچھلی دفعہ سے بہتر تھی۔ انتظامیہ نے بھی یہی کہا ہے اور میں نے بھی لنگر خانہ میں چکھ کے دیکھی تھی۔ لوگوں کی رائے اب سامنے آئے گی تو پتہ لگے گا کہ اُن کو اچھی لگی کہ نہیں۔ بہر حال لگتا ہے کہ اس دفعہ روٹی بہتر تھی۔

صفائی کے انتظامات بھی بہتر تھے۔ جو سکیننگ (Scanning) کے راستے تھے، اُن میں بھی انہوں نے اضافہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہتر انتظام تھا۔ بہرحال مَردوں نے بھی، نوجوانوں نے بھی، عورتوں نے بھی، لڑکیوں نے بھی جلسہ کے انتظامات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کااپنا حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کوجزا دے اور آئندہ پہلے سے بڑھ کر خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اخلاص و وفا میں ان کو بڑھاتا چلا جائے۔

خطبہ ثانیہ کے دوران حضور انور نے فرمایا:

آج کینیڈا، بیلجیم، آئرلینڈ وغیرہ کے بھی جلسہ سالانہ ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو بھی جلسہ کی صحیح روح کے ساتھ جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور خیرو خوبی سے اُن کے بھی جلسے اختتام کو پہنچیں۔ اسی طرح خدام الاحمدیہ یوکے (UK) کا اجتماع بھی ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں بھی نوجوانوں کو صحیح رنگ میں اجتماع کا جو مقصد ہے اُس کوپورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس بات کو ہمیشہ ہر خادم کو اور جماعت کے ہر ممبر کو یاد رکھنا چاہئے کہ اجتماعوں اور جلسوں کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنا، اخلاقی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اس طرف خاص طور پر توجہ دیں۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 5؍ جولائی 2013ء شہ سرخیاں

    ہر سفر جو مَیں کرتا ہوں اپنے رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کو لئے ہوئے ہوتا ہے۔

    جلسہ سالانہ جرمنی پر اور جلسہ کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان کے ایسے نظارے دیکھے کہ اس بات پر یقین مزید پختہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہر روز نئی شان سے پورے فرماتا ہے۔

    جلسہ کے علاوہ دو مساجد کے سنگ بنیاد اور دو مساجد کے افتتاح کی تقاریب ہوئیں۔ جرمنی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیشنل ٹی وی پر جماعت کے متعلق خبر نشر کی گئی۔

    ٹی وی کے ذریعہ جرمنی کے علاوہ آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں بھی جماعت کا پیغام پہنچا۔

    مجموعی طور پر تیس اخبارات، تین ریڈیو اسٹیشنز اور پانچ ٹی وی چینلز نے ہمارے ان فنکشنز کو کوریج دی۔

    جلسہ سالانہ اور دیگر تقاریب میں شامل ہونے والے مختلف افراد کی طرف سے حضرت خلیفۃالمسیح ایدہ اللہ اور اسلام احمدیت سے متعلق نیک جذبات کا اظہار۔

    آج کینیڈا، بیلجیم اور آئرلینڈ کے جلسہ سالانہ کے علاوہ خدام الاحمدیہ یوکے کا سالانہ اجتماع بھی منعقد ہو رہا ہے۔ اس بات کو ہمیشہ ہر خادم کو اور جماعت کے ہر ممبر کو یاد رکھنا چاہئے کہ اجتماعوں اور جلسوں کا مقصد خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنا، اپنی روحانی حالت کو بہتر کرنا، اخلاقی حالت کو بہتر کرنا ہے۔ اس طرف خاص طور پر توجہ دیں۔

    فرمودہ مورخہ 5جولائی 2013ء بمطابق5 وفا 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور