روزہ کی اہمیت، اس کی غرض و غایت اور فوائد و برکات
خطبہ جمعہ 12؍ جولائی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
یَااَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (البقرۃ: 184)
اس آیت کا ترجمہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے اُسی طرح فرض کر دئیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے کَل سے یہاں رمضان شروع ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ ہمیں رمضان کے ایک اور مہینے سے گزرنے کا موقع عطا فرما رہا ہے۔ یہ آیت جو تلاوت کی گئی ہے اس میں خدا تعالیٰ نے ایک مومن کے لئے روزوں کی اہمیت اور فرضیت کی طرف توجہ دلائی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تم سے پہلے جو انبیاء کی جماعتیں گزری ہیں اُن پر بھی روزے فرض تھے، اس لئے کہ روزہ ایمان میں ترقی کے لئے ضروری ہے، روزہ روحانیت میں ترقی کے لئے ضروری ہے۔
آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے اس وقت مختلف مذاہب میں روزہ اُس اصل حالت میں ہے جیسا کہ انبیاء کے وقت میں تھا یا زمانے کے ساتھ روزے کی حالت اور کیفیت بدل گئی ہے لیکن بہر حال کسی نہ کسی رنگ میں، کسی نہ کسی حالت میں روزے کا تصوّر ہر جگہ قائم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روزوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے روزوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ہندوؤں میں بھی روزوں کا تصور ہے، چاہے وہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے پرہیز ہو اور اُس کا روزہ ہو۔ عیسائیوں میں بھی روزے کا تصور ہے۔ بعض فرقے عیسائیوں کے ایسا بھی روزہ رکھتے ہیں کہ گوشت نہیں کھانا، سبزی وغیرہ جتنی چاہے کھا لیں۔ گزشتہ دنوں مجھے ایسے ہی ایک روزہ دار کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے ایک عیسائی دوست ہیں اُن کا نام لینے کاتو سوال نہیں لیکن ملک کا نام بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہر حال یہ دوست ایک دعوت میں میرے قریب بیٹھے ہوئے تھے تو مَیں نے دیکھا کہ کھانے کی پلیٹ اُن کے سامنے نہیں آئی، کیونکہ کھانا پلیٹوں میں سَرو (serve) ہو رہا تھا، ڈال کے دیا جا رہا تھا۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نہیں کھائیں گے؟ کہنے لگے میرا روزہ ہے۔ تو خیر میں اُن کے روزے کے احترام میں خاموش ہو گیا۔ حیرت بھی ہوئی کہ دنیا دار ہیں، سیاسی آدمی ہیں، پھر بھی دین پر عمل ہے۔ تھوڑی دیر بعد مَیں نے دیکھا تو سبزی وغیرہ اُن کے سامنے پڑی ہوئی تھی، چاول بھی تھے۔ تو میں نے کہا کہ آپ کے روزے میں سبزی چاول وغیرہ تو آپ کھا سکتے ہیں؟ کہنے لگے ہاں، کھانے لگا ہوں۔ خیر انہوں نے کھانا شروع کر دیا۔ اُس کے بعد ہمارے سامنے ڈشوں میں چکن وغیرہ بھی آنے لگا۔ ہم نے ڈال کر کھانا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جب اُن کی پلیٹ پر نظر پڑی تو وہاں اُن میں گوشت بھی پڑا ہوا تھا۔ تو اُن سے پوچھا کہ روزے میں یہ مرغی کا گوشت کھانے کی آپ کو اجازت ہے؟ بے تکلفی تھی تو میں نے پوچھ لیا۔ ہنس کے کہنے لگے کہ سَرو (serve) کرنے والے بار بار آ رہے تھے اور مرغی کے سالن کا ڈش میرے پاس لا رہے تھے تو میرا دین یہ بھی کہتا ہے کہ اگر میزبان تمہیں کچھ کھلائے تو کھا لو۔ اس لئے مَیں کھا رہا ہوں۔ تو یہ اُن پرانے دینوں پر عمل کرنے والوں کی روزے کی حالت ہے۔ سب کھا رہے تھے، گوشت تھا، مزیدار تھا، جب ارد گرد لوگوں کو کھاتے دیکھا تو سَرو (serve) کرنے والے جو شاید دو مختلف آدمی تھے، ایک کو اظہار کیا ہو گا، لیکن اگلے سے لے لیا۔ اخلاقاً لے بھی لیا اور پھر کھانا بھی شروع کر دیا۔ تو اخلاق دینی حکم پر غالب آ گئے۔ اس لئے کہ دینی احکام بتانے والی کتب میں واضح نہیں ہے، لیکن قرآنِ کریم کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا، اب تک اپنی اصلی حالت میں ہے اور مومنین کو حکم ہے کہ صرف انبیاء کے روزوں کا ذکر نہیں کیا گیا، صرف بزرگوں کے روزوں کی باتیں نہیں ہیں، بلکہ مومنین کو فرمایا کہ اگر تم مومن ہو تو روزہ تم پر فرض ہے۔ ایک مہینے کے لئے فرض ہے۔ ہر قسم کے کھانے پینے سے صبح سے شام تک پرہیز ضروری ہے۔ اور اس سے مومنین نے حاصل کیا کرنا ہے؟ فرمایا تمہیں تقویٰ حاصل کرنا ہے۔ تمہیں تقویٰ میں ترقی کرنی ہے۔ تم نے روزے سے خدا تعالیٰ کی رضاکو حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے۔ خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول کرنا ہے۔ بیشک بائبل میں بھی حواریوں کو خدا کی رضا کے لئے روزے رکھنے کا حکم ہے، نہ کہ دکھاوے کے لئے۔ پھر یہ بھی ہے کہ روزے سے روحانیت بڑھتی ہے تو اُس روحانیت کے بڑھنے سے بیماریوں کے علاج ہوتے ہیں۔ لیکن وہاں کفّارہ کے نظریہ نے روزے کی روح جو تقویٰ کا حصول ہے، اُسے ختم کر دیا ہے۔ پس جب تقویٰ کا حصول ہی نہیں تو روزے کے فیض کی اہمیت ہی ختم ہو گئی۔ اور جب فیض ہی نہیں تو پھر روزے کا صرف نام رہ گیا۔ یہ نام کا روزہ ہے۔ پھر کچی اور اُبلی ہوئی سبزیوں سے پکے ہوئے گوشت کی طرف بھی ہاتھ بڑھ جاتے ہیں۔ پس یہ اسلام کی خوبصورتی ہے، یہ قرآنِ کریم کی خوبصورتی ہے کہ نہ صرف تعلیم بتائی، ایک حکم دیابلکہ اُس کا مقصد بتایا اور اُس کے بدلے میں انعامات کی خبر بھی دی اور پھر اسلام کی تعلیم کو زندہ رکھنے کے لئے، عملی نمونے قائم کرنے کے لئے مجددین اور اولیاء کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر اس زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود کا ظہور فرما کر مسلمانوں اور غیر مسلموں سب کے لئے اس تعلیم کی روح کو اُس کی اصلی حالت میں زندہ کرنے کے سامان مہیا فرما دئیے جنہوں نے قرآنی تعلیم کی روشنی میں تقویٰ پر چلنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے، روزے کی روح کو سمجھنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’تیسری بات جو اسلام کا رُکن ہے، وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں … روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے، بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اُسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تا کہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے، دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے، اُنہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمداور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا اُنہیں مل جاوے۔‘‘ (ملفوظات جلد 5 صفحہ 102۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اس ارشاد میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو فرمایا کہ جس قدر انسان کم کھاتا ہے اُسی قدر تزکیۂ نفس ہوتا ہے، تو اس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ شاید بھوکا پیاسا رہنا ہی تزکیۂ نفس ہے اس لئے آگے واضح فرما دیا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا تزکیۂ نفس نہیں، نہ اس سے روزے کا مقصد پورا ہو سکتا ہے۔ یہ تو قرآنی ارشاد کے خلاف ہے کیونکہ مقصد تو تقویٰ کا حصول ہے۔ پس فرمایا کہ اگر روزہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے رکھا ہے تو پھر جتنا بھی روزے کا وقت ہے یہ بھی ذکرِ الٰہی میں گزارو۔ ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ بھوکے پیاسے رہنے سے تو بعض جوگیوں میں بھی ایسی حالت پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کو بھی کشف ہو جاتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمان کی زندگی کا مقصدنہیں ہے۔ ایک مومن کی زندگی کا مقصد تبتّل اور انقطاع ہے اور یہ عبادت سے، ذکرِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے اور نمازیں اس کا بہترین ذریعہ ہیں جو روح پر اثر ڈالتی ہیں، جو خدا تعالیٰ کے قرب کا باعث بنتی ہیں۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ696-697۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اصل روزہ وہ ہے جس میں خوراک کی کمی کے ساتھ ایک وقت تک جائز چیزوں سے بھی خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے رُکے رہناہے۔ یہ تقویٰ ہے اور ان چیزوں سے رُکے رہ کر صرف دنیاوی کاموں اور کاروباروں میں ہی وقت نہیں گزارنا بلکہ نمازوں اور ذکرِ الٰہی کی طرف پوری توجہ دینی ہے۔ نمازیں اگر پہلے جمع کرتے تھے یا بعض دفعہ قضا ہو جاتی تھیں تو اِن دنوں میں اس طرف خاص توجہ کہ ذکرِ الٰہی اور عبادت ہر دوسری چیز پر مقدم ہو جائے۔
آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی طرف توجہ ہو۔ اور ہم اَلْحَمْدُ لِلّٰہ جو کہتے ہیں تو یہ صرف منہ سے ہی نہ ہو بلکہ آپ نے اس طرف ہماری توجہ دلائی کہ جب اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کہو تو ہمیشہ یہ بات مدّنظر رکھو کہ حمد صرف ربّ جلیل سے مخصوص ہے۔ یہ ذہن میں ہو کہ ہر قسم کی حمد خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ہے اور اُس کی طرف ہی حمد لوٹتی ہے۔ ہم اُس خدا کی حمد کرتے ہیں جو گمراہوں کو ہدایت دینے والا ہے۔ پس اگر ہم سارا سال خدا کی طرف اُس طرح نہیں جھکے جو اُس کا حق ہے تو اس مہینہ میں ہمیں یہ ہدایت دے تا کہ اس ہدایت کے ذریعہ ہم آئندہ گمراہی سے بھی بچیں اور حمد کے فیض سے فیضیاب ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے بھی ہوں۔ آپ علیہ السلام نے اس طرف بھی رہنمائی فرمائی کہ حمد کرتے وقت یہ سامنے ہو کہ ہر عزت خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ پس اس رمضان میں ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہ نیکیاں کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اُس کا قرب دلانے والی ہوں۔ اور دنیا کی عزت اور تفاخر کی طرف ہم جھکنے والے نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے یہ بھی خیال رہنا چاہئے کہ ہمیشہ ہمارا انحصار خدا تعالیٰ کی ذات پر ہو گا، کسی دنیاوی سہارے پر نہیں ہو گا۔
پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کی طرف رمضان میں توجہ رکھو۔ صرف سبحان اللہ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ جہاں اللہ تعالیٰ کی پاکیزگی بیان ہو وہاں یہ دعا ہو اور درد سے دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا کی ہر قسم کی دنیاوی آلائشوں سے بھی پاک کر دے۔ اور یہ رمضان ہمارے اندر حقیقی تقویٰ پیدا کرنے والا بن جائے۔
پھر فرمایا تہلیل کرو۔ اپنی دعائیں اس یقین کے ساتھ کرو کہ عبادت کے لائق ذات صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اگر ہمیں کوئی کسی قسم کے نقصان سے بچا سکتا ہے تو وہ صرف خدا تعالیٰ ہے۔ جب ہمیں کسی سہارے کی ضرورت ہو تو خدا تعالیٰ کا سہارا ہم نے لینا ہے اور انسان کو ہر وقت خدا تعالیٰ کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اس معبودِ حقیقی کی طرف ہر وقت جھکا رہنے کی کوشش ہو۔ رمضان میں روزوں کے ساتھ یہ دعا کرے کہ خدا تعالیٰ تُو ہمیشہ ہمیں اپنی پناہ میں رکھنا۔ اے اللہ!روزوں کے ساتھ جو تبدیلیاں تُو نے روزوں سے فیض پانے والوں کے لئے مقدر کی ہوئی ہیں اُن سے ہمیں بھی حصہ دے اور ایسا یہ حصہ ہو جو تا زندگی ہمیں فیضیاب کرتا رہے۔ آپ نے فرمایا کہ تمہاری یہ حمد، تسبیح اور تہلیل ایسی ہے جو تبتّل کی حالت پیدا کر دے۔ اور تبتّل الیٰ اللہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر قسم کی دنیاوی خواہشات سے علیحدہ کر لینا۔ خداتعالیٰ کے ساتھ کامل وفا کا تعلق پیدا کر لینا۔
پھر فرمایا کہ انقطاع حاصل ہو۔ یعنی تمام دنیاوی لہو و لعب سے اپنے آپ کو علیحدہ کر لو اور خدا تعالیٰ کی عبادت کی طرف توجہ کرو۔ جب یہ ہو گا تو وہ مقصد حاصل ہو گا جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ روزے دار تقویٰ حاصل کرنے والا ہو گا۔
پس یہ رمضان جو دو دن سے شروع ہوا ہے اور انتیس تیس دن تک چلنا ہے، تبھی ہمیں فائدہ دے سکتا ہے جب ہم اس مقصد کو اپنے سامنے رکھنے والے ہوں گے اور یہ مقصد اتنا بڑا ہے کہ اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے۔ اپنے روزے کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اپنی دوسری عبادتوں کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ ان سب کی مشترکہ ادائیگی کا نام ہی تقویٰ ہے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں نے دوست کا واقعہ بیان کیا ہے، پہلوں نے دین پر عمل چھوڑ دیا، خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی پابندیوں کو جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے تھیں چھوڑ کر ظاہری دنیاوی اخلاق کو اہمیت دی۔ جو روزے جس حالت میں اُن پر فرض کئے گئے تھے یا روزوں کی فرضیت اور روزے رکھنے کا طریق جس حالت میں اُن تک پہنچا تھا اُس کی روح کو بھی چھوڑ دیا۔ تو روزہ جو ایک عبادت ہے اور جس کا مقصد تقویٰ میں ترقی اور خدا تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے وہ بھی ختم ہو گیا۔ اگر ہم باریکی کی نظر سے دیکھیں تو یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے کہ بظاہر دنیاوی اخلاق کے نام پر میزبان کی خاطر خدا تعالیٰ کے حکم کو توڑ دیا جائے، ٹال دیا جائے۔ خداتعالیٰ کے مقابلے پر جس کو بھی اہمیت دیں اُس سے آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کی ذات پیچھے چلی جاتی ہے اور شرک غالب آ جاتا ہے۔
پس فرمایا کہ روزے تم سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں اُن پر بھی فرض تھے، تمہارے لئے خاص نہیں ہیں۔ لیکن دینی لحاظ سے پہلی قوموں کی حالت بگڑتی رہی کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی روح کو بھول گئے اور اُن سے صرف دکھاوا ہی رہ گیا۔ مسلمانوں کو اس مثال میں ایک سبق یہ بھی دیا گیا ہے کہ وہ مسلمان جو روزے کی روح کو سمجھنے اور تبتّل اِلی اللہ کی طرف بڑھنے، روزوں میں حمد و ذکر کی طرف توجہ دینے، اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے کی بجائے صرف اپنے روزے رکھنے پر ہی فخر کرتے ہیں، اُن کے روزے ویسے ہی روزے رہ جائیں گے جیسے پہلوں کے تھے۔ اگر تقویٰ مدّنظر نہیں تو تمہارا بھی وہی حال ہو گا جو پہلے دینوں کے ماننے والوں کا ہوا تھا۔ بعض نام نہاد بزرگ فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے بھی رکھتے ہیں تو اُس کا بھی اظہار کر دیتے ہیں حالانکہ نفل عموماً چھپی ہوئی عبادت ہے۔ ایسے لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ذکر فرمایا ہے کہ مہمان آ جائے تو کھانا منگوا کر کہیں گے کہ آپ کھائیں مجھے کچھ عذر ہے۔ یا کھانے کے وقت کسی کے ہاں پہنچ جائیں گے جب میزبان خاطر مدارت کرنے لگے تو کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، میں کچھ کھا پی نہیں سکتا، کچھ مجبوری ہے۔ یعنی چھپے ہوئے الفاظ میں اپنے روزے کا بتانا مقصود ہوتا ہے۔ (ماخوذ از ملفوظات جلد 4 صفحہ 418-419۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ایسے روزے دار بھی رمضان میں ہیں جو روزے کی لمبائی کا، مثلاً آجکل گرمیوں کی وجہ سے ضرورت سے زیادہ لمبے، کافی لمبے روزے ہیں تو اس کا اظہار کریں گے۔ ضرورت سے زیادہ روزوں کی لمبائی نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ اُن کا اظہار ہوتا ہے۔ پھر اپنی بزرگی جتانے کے لئے اپنی سحری افطاری کی تفصیل بھی بتانے لگ جاتے ہیں کہ تھوڑا کھاتا ہوں، بہت معمولی سحری کھا کے روزہ رکھتا ہوں، بہت معمولی سی افطاری کرتا ہوں۔ بیشک بعض دفعہ ایسا اظہار بے اختیار ہو جاتا ہے اور اُس میں کوئی بناوٹ نہیں ہوتی، لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں جو خاص طور پر اظہار کرتے ہیں تا کہ اُن کے روزے کی اہمیت اور کم کھانے کا دوسروں پر رُعب پڑے۔ بلکہ غیروں میں ہمارے نام نہاد علماء میں سے بعض لوگ تو ایسے بھی ہیں جو دین کے غم میں اپنی کم خوراکی کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک نام نہاد عالم کا ایک غیر از جماعت دوست نے واقعہ سنایا کہ عالم بڑے اچھے مقرر تھے اور جماعت کے خلاف تو اور بھی زیادہ دھوآں دار تقریریں کیا کرتے تھے۔ تو یہ اُس غیر احمدی کے پاس جا کر ٹھہرے، وہ غیر از جماعت اُن کا بڑا معتقد اور مرید تھا، بڑی خاطر تواضع انہوں نے کی، ناشتے کے وقت بھی مرغ روسٹ رکھے، اور کہتے ہیں کہ یہ جو بہت بڑے مقرر و عالم تھے، یہ اُس وقت بھی تین مرغ روسٹ کھا گئے۔ تو یہ علماء بہر حال کھانے کے شوقین تو ہوتے ہیں۔ خیر اس کے بعد جلسہ تھا۔ جلسہ میں تقریر کرنی تھی، وہاں گئے تو مجمع میں رعب ڈالنے کے لئے شروع ہی اس طرح کیا کہ اس دین کے خادم (سیّد تھے) اور نواسۂ رسول کے منہ میں اُمّت کے غم میں صبح سے ایک کِھیل بھی نہیں گئی، یا ایک دانہ بھی نہیں گیا۔ وہ غیر از جماعت کہتے تھے کہ میں سامنے بیٹھا ہوا اور میرے سامنے کہ جس کے گھر سے تین سالم مرغے ہڑپ کر کے آئے ہیں، یہ کہہ رہے ہیں۔ ویسے اُس عالم نے بھی ٹھیک کہا تھا کہ چاول کا دانہ تو انہوں نے کھایا نہیں تھا، تین مرغے کھائے تھے۔
بہر حال ایسے مسلمان ہیں جن کے دین کے درد اور عبادتیں بھی اور روزے بھی جو ایک عبادت ہے، خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے نہیں ہوتے بلکہ دکھاوے کے لئے ہوتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تمہاری ہر عبادت کا مقصد تقویٰ ہونا چاہئے۔ اگر تمہاری عبادتیں صرف ظاہری اظہار ہیں تو نہ پہلوں کو دکھاوے کے روزوں سے اجر ملا، نہ اب ملے گا۔ ہاں اگر روزوں کے اظہار سے مقصد دنیا والوں کو مرعوب کرنا تھا تو پھر وہ تمہاری نیکی سے مرعوب ہو گئے اور یہ تمہارا اجر ہے جو تمہیں مل گیا۔ اللہ کے ہاں تو اس کا کوئی اجر نہیں ہو گا۔ اب اگر اللہ کے ہاں کسی نیکی کا اجر چاہتے ہو، روزوں کا اجر چاہتے ہو تو یہ تقویٰ کے بغیر نہیں ہو سکتا اور تقویٰ کے بارے میں صرف خدا تعالیٰ فیصلہ فرما سکتا ہے کہ کون تقویٰ پر چلنے والا ہے اور کون نہیں۔ پس جب ایک مومن اس نہج پر سوچے گا اور اپنا رمضان گزارنے کی کوشش کرے گا تو یہ روزے خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہوں گے، اس کا ذریعہ بنیں گے۔ یہ روزے تزکیہ نفس کرنے والے بنیں گے۔ یہ روزے آئندہ نیکیوں کے جاری رہنے کا ذریعہ ہوں گے۔ ایسا شخص اُن لوگوں میں شامل ہو گا جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کے روزے ایمان کی حالت اور اپنا محاسبہ نفس کرتے ہوئے رکھے اُس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب صوم رمضان احتسابا من الایمان حدیث نمبر 38)
اور پھر خداتعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ روزہ میری خاطر رکھا جاتا ہے تو میں ایسے روزہ دار کی جزا بن جاتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب التوحید باب ذکر النبیﷺ و روایتہ حدیث نمبر 7538)
یعنی روزہ دار کی جزا، ایسے روزہ دار کی جزا جو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے روزہ رکھے، اُس کا اجر صرف خدا تعالیٰ کو ہی پتہ ہے کہ کیا دینا ہے۔ یعنی بے شمار۔ پھر اللہ تعالیٰ تو ایسا دیالو ہے جب دیتا ہے تو بیشمار دیتا ہے۔
پس یہ وہ روزے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، نہ کہ وہ روزے جن کا مقصد رمضان کی ایک رَو، رمضان میں جو ایکا چلی ہوتی ہے جو تمام لوگ روزے رکھ رہے ہوتے ہیں، سحری کے لئے اُٹھ رہے ہوتے ہیں۔ اس رَو میں بہتے ہوئے روزے رکھے جائیں۔ صرف صبح سے شام تک بھوکا رہنا روزے کا مقصدنہ ہو بلکہ تقویٰ کی تلاش ہو۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ہو۔ وہ روزہ ہو جو ڈھال بن جائے۔ وہ روزہ ہو جو ہر شر سے بچانے والا اور ہر خیر کے راستے کھولنے والا ہو۔ وہ روزہ ہو جو صرف دن کا فاقہ نہ ہو بلکہ ذکرِ الٰہی کے ساتھ راتوں کو نوافل سے سجا ہوا ہو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی راتوں کے نوافل کو بڑی اہمیت دی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کی راتوں میں اُٹھ کر نماز پڑھتا ہے اُس کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ (صحیح البخاری کتاب الایمان باب تطوع قیام رمضان من الایمان حدیث نمبر 37)
پھر روزہ صرف دینی شرور سے بچنے کیلئے اور خیر کے راستے کھولنے والا نہیں ہے بلکہ دنیاوی شر سے بچانے والا اور خیر کے راستے کھولنے والا بھی ہے۔ مثلاً ایک خیر جس کو اب ڈاکٹر بھی تسلیم کرتے ہیں، سائنسدانوں کے ایک طبقہ نے بھی ماننا شروع کر دیا ہے کہ سال میں ایک مہینے کا جو کھانے پینے کا کنٹرول ہے وہ انسانی صحت کے لئے مفید ہے۔ تو یہ خیر ہے، ایک بھلائی ہے جو اس روزے سے انسانی جسم کوحاصل ہوتی ہے۔
پس نیت اللہ تعالیٰ کی رضا ہو تو جسمانی فائدہ بھی خود بخود پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے علاوہ بھی بہت سے فوائد ہیں۔ پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے رکھا جائے، وہ رمضان جس میں سے تقویٰ کے حصول کے لئے گزرا جائے، معاشرے کی خوبصورتی کا باعث بھی بنتا ہے۔ ایک دوسرے کیلئے قربانی کی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ اپنے غریب بھائیوں کی ضروریات کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے اور یہ ہونی ضروری ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ ہمارے سامنے ہے اور اُس سے ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ آپ رمضان کے مہینے میں صدقہ و خیرات تیز آندھی کی طرح فرمایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری کتاب بدء الوحی باب نمبر 5 حدیث نمبر 6)
پس ایک مومن کا بھی فرض ہے کہ اس سنت پر عمل کرے۔ یقینا یہ معاشرے میں بے چینیوں کو دور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک مومن کے دل میں دوسرے مومن کے لئے، اپنے کمزور اور ضرورتمند بھائی کے لئے نرمی کے اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ایک غریب مومن کے دل میں اپنے مالی لحاظ سے بہتر بھائی کے لئے جو روزے کا حق ادا کرتے ہوئے اُس کا بھی حق ادا کر رہا ہے، شکر گزاری اور پیار کے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
پھر روزہ جو تقویٰ کے حصول کے لئے ہو، جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو اُس میں مشقت کی عادت بھی پیدا ہوتی ہے۔ سحری اور افطاری میں کم خوری اس لئے نہیں ہوتی کہ دوسروں پر اظہار ہو، بلکہ اس لئے ہوتی ہے کہ جسمانی روٹی کم کر کے تزکیہ نفس کی طرف زیادہ توجہ ہو۔
پس وہ لوگ جو اس وہم میں ہیں کہ ہم کم کھا کے کمزور نہ ہو جائیں، سحری اور افطاری میں ضرورت سے زیادہ پُر خوری کرتے ہیں، اُن کے لئے بھی سبق ہے کہ اپنی خوراک کو کنٹرول کرو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر ضروری مواقع پر جہاں فتنہ و فساد کا خطرہ ہو، رنجشوں کے بڑھنے کا خطرہ ہو، روزے دار کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تم ’’اِنّیْ صَائِمٌ‘‘ کہ میں روزہ دار ہوں، کہا کرو۔ اس میں تقویٰ کے راستوں کی طرف نشاندہی فرمائی ہے کہ روزے کا حق ادا کرنے کے لئے تقویٰ کے حصول کے لئے اپنے جذبات پرکنٹرول بھی ضروری ہے۔ تم نے اپنے آپ کو جھگڑوں سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو غیبت سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔ تم نے اپنے آپ کو جھوٹ اور غلط بیانی سے بھی بچانا ہے کہ روزے کا مقصد پورا ہو۔
پس روزے دار کے لئے زبان کے غلط استعمال سے رُکنا بھی ضروری ہے۔ ایک مہینہ کی زبان کو قابو میں رکھنے اور غلط استعمال سے روکنے کی یہ عادت جو تقویٰ کے حصول کے لئے ضروری ہے، پھر آئندہ زندگی میں بھی بہت سے گناہوں اور غلطیوں سے بچانے کا باعث بنتی ہے۔ ایک مہینہ کی عادت سے مستقل مزاجی سے ایک مہینہ تک برائیوں سے پرہیز کرنے کی عادت پڑتی ہے۔ تقویٰ پر مستقل پر چلنے کی مستقل عادت پڑ جاتی ہے۔ تقویٰ کی تلاش کی عادت پڑ جاتی ہے اور یہ عادت ہی اصل میں روزہ اور رمضان کا مقصد ہے۔ ورنہ صرف سال میں ایک مہینہ نیکیوں کے عمل اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی کوشش اور گیارہ مہینے اپنی مرضی، دنیا کا اثر، برائیوں میں ملوث ہونا تو کوئی مقصد پورا نہیں کرتا۔
پس اس مہینے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے ہوئے روزے اور رمضان کی روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ حلال اور جائز چیزوں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنے کا جو تجربہ حاصل ہو گا اُسے اپنے اندر عمومی، اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اُسے مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی طرف توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ پس روزوں میں، رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اُسے مستقل اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والوں کی طرف بڑھنے والے ہوں۔ اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ جنت کے دروزے کھول دیتا ہے اور دوزخ کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الصوم باب ھل یقال رمضان او شھر رمضان … حدیث نمبر1899)
ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اس مہینہ میں عبادتوں، تزکیہ نفس اور حقوق العباد کی ادائیگی کے ذریعہ جنت کے ان دروازوں میں داخل ہونے کی کوشش کریں۔ یا جنت کے ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کی کوشش کریں جو پھر ہمیشہ کھلیں رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہوئے جھکیں اور اُن خوش قسمتوں میں شامل ہو جائیں جن کی توبہ قبول کر کے اللہ تعالیٰ کو اُس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی ایک ماں کو اپنا گمشدہ بچہ ملنے سے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے اُس پیار کو حاصل کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کو اس رمضان میں وہ خوشی پہنچانے والے ہوں جو گمشدہ بچہ کے ماں کو مل جانے سے زیادہ ہے۔ لیکن جیسا کہ اس کا پہلے بار بار ذکر ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ خوشی پہنچانے کے لئے ہمیں تقویٰ پر چلتے ہوئے ان عبادتوں جن میں فرائض بھی ہیں اور نوافل بھی، ان کے معیاروں کو بلند کرنا ہوگا۔ اپنے روزوں کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے یہ سب کچھ اس رمضان میں ہمیں حاصل کرنے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
نمازِ جمعہ کے بعد میں کچھ جنازے بھی پڑھاؤں گا جس میں حاضر اور غائب دونوں ہیں۔ جنازہ حاضر جو ہے یہ عرفانہ شکور صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میاں عبدالشکور صاحب کا ہے جو 9؍جولائی 2013ء کو مختصر علالت کے بعد 62 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا للّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
آپ مکرم شیخ ذکاء اللہ صاحب کی بیٹی تھیں جنہوں نے حضرت مصلح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ مرحومہ کی شادی جماعت کی معروف اور بہت مخلص فیملی میں ہوئی۔ حضرت منشی عبدالعزیز صاحب اوجلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے میاں کے نانا اور حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق صدر، صدر انجمن احمدیہ اور حضرت مولوی رحمت علی صاحب۔ (یہ مولوی محمد دین صاحب بھی صحابی تھے۔ حضرت مولوی رحمت علی صاحب بھی صحابی تھے اور مبلغ انڈونیشیا رہے ہیں۔ ) آپ کے سسرالی تھے۔ شوہر کے خالو تھے۔ مرحومہ بہت نیک، صالح اور نماز روزے کی پابند اور اپنے حلقے میں بہت ہر دلعزیز خاتون تھیں۔ اپنی فیملی اور بچوں کو ہمیشہ جماعت کے ساتھ وفا داری اور پختہ تعلق قائم رکھنے کی نصیحت کیا کرتی تھیں۔ موصیہ تھیں اور پسماندگان میں شوہر کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ کے ایک بیٹے مکرم ڈاکٹر عمر احمد صاحب کو 28؍ مئی 2010ء کے سانحہ لاہور میں دار الذکر میں شہادت کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔
دوسرا جنازہ حاضر جو ہے ایک بچی کا ہے۔ عزیزہ ملیحہ انجم بنت مکرم نصیر احمد انجم صاحب والتھم سٹو (Walthamstow)۔ 9؍جولائی 2013ء کو لمبی علالت کے بعد پانچ سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ اِنَّا للّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ عزیزہ واقفۂ نو تھی۔
اور جنازہ غائب جو ہے وہ مکرم مولانا عبدالکریم شرما صاحب کا ہے۔ کچھ چند ہفتے پہلے ان کی وفات ہوئی تھی، تدفین ہو چکی ہے۔ آپ 26؍ مئی 1918ء میں قادیان میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد حضرت شیخ عبدالرحیم شرما صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور ہندوؤں سے مسلمان ہوئے تھے، ان کا پہلا نام کشن لال تھا۔ 1904ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کی والدہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہ تھیں جو حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پروردہ تھیں اور آپ کی والدہ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بچوں کو دودھ پلایااس لئے اُن کی رضاعی والدہ بھی تھیں۔ والد کے بعد آپ کی دادی کو بھی اللہ تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی توفیق بخشی۔ وہ بھی ہندو تھیں۔ مولوی عبدالکریم شرما صاحب کے نانا حضرت کرم داد خانصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے۔ اسی طرح ان کی نانی محترمہ سلطان بی بی صاحبہ بھی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی رضاعی والدہ تھیں۔ ان کے دو بھتیجے جو شیخ عبدالرشید شرما صاحب کے بیٹے تھے، شیخ مظفر اور شیخ مبارک، ان کو پاکستان شکار پور میں شہادت کا اعزاز بھی ملا۔
شرما صاحب نے بنیادی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ مولوی فاضل اور میٹرک کے بعد جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ اس دوران آپ کو دفتر الفضل میں خدمت کی توفیق ملی۔ 1939ء کی خلافت جوبلی میں حضرت مصلح موعودنے عبدالکریم شرما صاحب کو اُن نوجوانوں میں منتخب کیاجنہیں لوائے احمدیت کی پاسبانی کا شرف حاصل ہوا۔ 26؍سال کی عمر میں آپ نے زندگی وقف کی تھی۔ شروع میں کچھ سال تین چار سال برٹش آرمی میں انہوں نے سروس کی۔ پھر دوسری جنگِ عظیم کے فوراً بعد حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر آپ فوراً قادیان آ گئے اور افریقہ کے لئے تیاری شروع کی۔ جنوری 1948ء کو آپ پانچ مبلغین کے قافلہ میں ایسٹ افریقہ کے لئے روانہ ہوئے اور مجموعی طور پر 29سال وہاں خدمت دین میں مشغول رہے۔ 1961ء میں جب ایسٹ افریقہ تین ممالک میں منقسم ہوا تو آپ یوگنڈا کے امیر اور مشنری انچارج مقرر ہوئے۔ اسی طرح آپ کو دو بار امیر و مشنری انچارج کینیا کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق ملی۔ 1978ء سے آپ یوکے میں ہی تھے۔ اس دوران دس سال آپ کو نیشنل مجلس عاملہ میں بطور سیکرٹری تبلیغ اور سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری رشتہ ناطہ خدمت کی توفیق ملی۔ صد سالہ جوبلی کے موقع پر برطانیہ کی جوبلی پلاننگ کمیٹی کے ممبر رہے۔ مجلسِ انتخابِ خلافت کے بھی ممبر تھے۔
اپنی ایک خودنوشت میں یہ ایسا واقعہ لکھتے ہیں جو ان کے والد کے اخلاص اور ان کی طرف سے والد کے جذبات کا احترام بھی اس میں پایا جاتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں مدرسہ احمدیہ کی چوتھی یاپانچویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ بعض وجوہ کی بنا پر میرا دل مدرسہ سے اُچاٹ ہو گیا۔ مَیں چاہتا تھا کہ مدرسہ چھوڑ کر ہائی سکول میں تعلیم حاصل کروں۔ اُنہی دنوں میرے دو کلاس فیلو جو حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحب کے فرزند تھے، مدرسہ احمدیہ کو چھوڑ کر ہائی سکول چلے گئے۔ اس وجہ سے میں بھی پُر شوق ہو گیا۔ میں نے ایک دو مرتبہ اس خواہش کا اظہار حضرت والد صاحب سے کیا لیکن انہوں نے توجہ نہ دی۔ ایک دن ہم صبح صحن میں چولہے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے بہت اصرار کیا اور کہا۔ ’’آپ نے دوسرے بھائیوں کو تو ہائی سکول میں داخل کروایا ہے اور مجھے کیوں مدرسہ احمدیہ میں پڑھاتے ہیں؟‘‘ والد صاحب نے فرمایا دیکھو! میں ہندؤوں سے مسلمان ہوا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اُس نے اسلام کی نعمت سے مجھے نوازا۔ لیکن میں افسوس کرتا ہوں کہ میں اسلام کی کوئی خدمت نہ کر سکا۔ میرے دل میں خواہش ہے کہ میرا بیٹا خدمت کرے۔ اس نیت سے میں نے تمہیں مدرسہ احمدیہ میں داخل کروایا تھا کہ دینی علوم حاصل کر کے اس قابل ہو جاؤ کہ خدمتِ اسلام کر سکو لیکن تم کہتے ہو کہ مدرسہ احمدیہ میں نہیں پڑھنا چاہتا۔ یہ کہہ کر وہ دلگیر ہو کر کھڑے ہو گئے اور کمرے میں جا کر نماز پڑھنا شروع کردی۔ کہتے ہیں کہ جس جذبے سے ان کے والد صاحب نے بات کی اور جو کیفیت اُس وقت اُن کی ہوئی، اُس کا میرے دل پر خاص اثر ہوا۔ رات کو نیندنہیں آئی۔ والد صاحب کے لئے دعائیں کرتا رہا۔ صبح میں نے عہدکیا کہ والد صاحب کی خواہش کے مطابق مدرسہ احمدیہ میں تعلیم جاری رکھوں گا اور زندگی بھی وقف کروں گا۔ چنانچہ حضرت مصلح موعودنے جب وقفِ زندگی کی تحریک فرمائی تو میں نے حضور کی خدمت میں ایک خط لکھ کر درخواست کی کہ حضور ازراہِ کرم میرا وقف منظور فرمائیں۔ تو اس طرح انہوں نے اپنے والد کی خواہش بھی پوری کی۔ دین کی خدمت کا جذبہ بھی پیدا ہوا۔
ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ مبلغین کے بارے میں فرمایا تھا کہ ہمارے مبلغین (اُن میں سے ایک نام ان کا بھی تھا۔ مسجد میں مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے) جو یہاں اس وقت ربوہ کی گلیوں میں پِھررہے ہیں اِن کو کوئی پوچھتا نہیں۔ کوئی سمجھتا نہیں، لیکن یہی لوگ ہیں جو جن ممالک میں مبلغ ہیں، وہاں جاتے ہیں تو وہاں کے صدران اور وزراء بھی ان کو ملتے ہیں اور ان کو جو بڑے بڑے فنکشن ہوتے ہیں اُن میں بلایا جاتا ہے، بڑی عزت اور احترام دیا جاتا ہے۔
جب واپس آ گئے تو کینیا میں اپنے ایک احمدی دوست کو ایک خط لکھتے ہوئے یہ لکھتے ہیں کہ میں مغربی افریقہ میں قریباً انتیس سال رہا ہوں۔ میں ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت کے نا اہل اور کوتاہ پاتا تھا۔ رات دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلتی تھی اور اپنی کمزوریوں اور نا اہلیوں کو سوچ کر بے کَل ہوتا تھا اور اللہ تعالیٰ کو مدد کے لئے پکارتا تھا اور اگلے دن کا پروگرام بنایا کرتا تھا۔
پس سارے مبلغین کو اس نہج پر اپنی سوچوں کو لانا چاہئے۔ خدمت کا یہ جذبہ ہو، درد ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہو۔ اللہ تعالیٰ سب مبلغین کو وفا کے ساتھ اپنے وقف کو پورا کرنے کی اور خدمات ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور شرما صاحب کے بھی درجات بلند فرمائے۔
پھر اسی طرح قادیان میں جب پارٹیشن کے وقت فسادات ہوئے ہیں تو ان کے والد اور بھائی وہاں تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو لکھا اور والد کو لکھا کہ آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ یہاں ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے۔ حالات ایسے ہیں کہ زندگی کا پتہ کوئی نہیں کہ کون زندہ واپس آتا ہے یا نہیں لیکن دین کی خاطر شہید ہونا بھی ایک اعزاز ہے۔ کاش کہ میں وہاں ہوتا تو یہ شہادت مجھے ملتی لیکن آپ لوگ وہاں ہیں تو یہ نہ ہو کہ خوفزدہ ہو جائیں کیونکہ زندگی آنی جانی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ مرکز کی حفاظت کر سکیں۔ یہ اُن کے جذبات تھے جو انہوں نے اُس وقت لکھے۔ بہر حال بہت نیک اور مخلص انسان تھے۔ جب تک چلنے کے قابل تھے، باقاعدہ مجھے ملنے آتے رہے۔ جب چلنے کے قابل نہیں رہے، تو wheel chair پر آ کے ملتے تھے۔ یہ مسجد فضل میں جمعہ پڑھا کرتے تھے توجب مَیں یہاں آنے کے لئے، کار میں بیٹھنے کے لئے باہر نکلتا تھا تو ہمیشہ wheel chair پر بیٹھے ہوتے تھے۔ جب تک یہ آ سکے، آتے رہے اور اُس وقت بڑی وفا اور پیار ان کے چہرے سے چھلک رہا ہوتا تھا۔ ملتے تھے، سلام علیک ہوتی تھی۔ اُس کے بعد بھی ان کے نواسے نے ذکر کیا کہ خلافت سے ان کا بڑا تعلق تھا اور بڑا اظہار کیا کرتے تھے۔ یہ نواسہ ان کا واقفِ زندگی ہے اور آجکل سویڈن میں مربی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کو بھی اپنے نانا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بہر حال یہ جنازے ہیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا جنازہ حاضر بھی ہے۔ اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد میں باہر جا کے نمازِ جنازہ ادا کروں گا۔ احباب یہیں مسجد میں ہی صفیں درست کر لیں۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ ہمیں رمضان کے ایک اور مہینے سے گزرنے کا موقع عطا فرما رہا ہے۔
اس مہینے میں ہر ایک کو اپنے جائزے لیتے ہوئے روزے اور رمضان کی روح کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ تقویٰ کے راستوں کی تلاش کی ضرورت ہے۔ حلال اور جائز چیزوں کے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے چھوڑنے کا جو تجربہ حاصل ہو گا اُسے اپنے اندر عمومی، اخلاقی تبدیلی پیدا کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی ضرورت ہے۔ حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اپنے غریب بھائیوں کی مدد کی طرف جو توجہ پیدا ہو گی، اُسے مستقل زندگی کا حصہ بنانے کی طرف توجہ اور کوشش کی ضرورت ہے۔ پس روزوں میں، رمضان کے مہینے میں عبادات اور قربانی کا جو خاص ماحول پیدا ہوتا ہے اُسے مستقل اپنانے کی ضرورت ہے تا کہ ہم متقیوں کے گروہ میں شامل ہونے والوں کی طرف بڑھنے والے ہوں۔ اس رمضان میں ہمیں اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
(روزہ کی اہمیت، اس کی غرض و غایت اور فوائد و برکات کا قرآن مجید، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تذکرہ اور افراد جماعت کو اہم نصائح)
مکرم عرفانہ شکور صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر میاں عبدالشکور صاحب اور عزیزہ ملیحہ انجم بنت مکرم نصیر احمد انجم صاحب کی نماز جنازہ حاضر اور مکرم مولانا عبدالکریم شرما صاحب(مرحوم)کی نماز جنازہ غائب اور مرحومین کا ذکر خیر۔
فرمودہ مورخہ 12جولائی 2013ء بمطابق12 وفا 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔