رمضان اور قرآنِ کریم

خطبہ جمعہ 19؍ جولائی 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ۔ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ۔ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ۔ وَلِتُکْمِلُوْا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرۃ: 186)

اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرنا دوسرے ایام میں ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم سہولت سے گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو۔

رمضان کا مہینہ ایک مسلمان کی زندگی میں کئی بار آتا ہے اور ایک عمل کرنے والے مسلمان کو یہ بھی علم ہے کہ رمضان کے مہینے میں قرآنِ کریم کا نزول شروع ہوا۔ ایک باعمل اور کچھ علم رکھنے والے مسلمان کو یہ بھی پتہ ہے کہ رمضان کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہر سال اُس وقت تک جتنا بھی قرآن نازل ہوا ہوتا تھا، اُس کا دَور حضرت جبرئیل علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا کرتے تھے، سوائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری سال کے، جب قرآنِ کریم مکمل نازل ہو چکا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری مل گئی تھی کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (المائدۃ: 4) کہ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور اسلام کو دین کے طور پر تمہارے لئے پسند کر لیا۔

اس آخری سال میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس دفعہ جبرئیل نے قرآنِ کریم کا دَور دو مرتبہ مکمل کروایا ہے۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام حدیث 3624)

پس قرآنِ کریم کی رمضان کے مہینے کے ساتھ ایک خاص نسبت ہے۔ ہر سال جب رمضان آتا ہے ہمیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآنِ کریم نازل ہوا۔ گویا رمضان اپنے اَور فیوض کے ساتھ ہمیں اس بات کی بھی یاددہانی کے لئے آتا ہے کہ اس مہینے میں قرآنِ کریم کا نزول ہوا۔

مَیں نے جو آیت تلاوت کی ہے، اس وقت اُس کے صرف پہلے حصے کے میں بارے میں کچھ کہوں گا، آخری حصے کے بارے میں نہیں۔ پس یہ رمضان اس بات کی بھی یاددہانی کرواتا ہے کہ اس عظیم کتاب میں انسانوں کے لئے ہدایت و رہنمائی کی تعلیم ہے۔ اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ اس میں حق اور باطل میں روشن نشانوں کے ساتھ فرق ظاہر کیا گیا ہے۔ اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے کہ روزوں کی فرضیت کی کتنی اہمیت ہے اور کس طرح رکھنے ہیں؟ اس بات کی بھی یاددہانی کرواتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم مکمل اور جامع ہے۔ لیکن ان سب باتوں کی یاددہانی کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اس یاددہانی کی روح کو سمجھنے والے ہوں، ورنہ رمضان تو ہر سال آتا ہے اور آتا رہے گا انشاء اللہ۔ اور رمضان اور قرآن کے تعلق کی یاددہانی جب بھی آئے گا، اور جب بھی آتا ہے کرواتا ہے اور کرواتا رہے گا۔ اور ہم اس کی اہمیت سن کر خوش ہوتے رہیں گے۔ اس یاددہانی کا فائدہ تو تب ہو گا جب ہم اپنے عمل پر اس اہمیت کو لاگو کریں گے۔

پس یہ مقصد تب پورا ہو گا جب شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن کے الفاظ سنتے ہی قرآنِ کریم ہمارے ہاتھوں میں آ جائے گا اور ہم زیادہ سے زیادہ اُس کے پڑھنے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ رمضان کی اس یاددہانی کا مقصد تب پورا ہو گا جب ہم ان دنوں میں قرآنِ کریم کے مطالب کو سمجھنے اور غور کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘کی حقیقت ہم پر واضح ہو۔ رمضان اور قرآن کی آپس میں جو نسبت ہے اس کی یاددہانی اُس وقت ہم پر واضح ہو گی جب ہم کوشش کر کے قرآنِ کریم کے حکموں کو خاص طور پر اس مہینے میں تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

پس رمضان ہمیں یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ قرآنی احکامات کی تلاش کرو۔ رمضان ہمیں اس بات کی یاددہانی کرواتا ہے اور اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ قرآنی احکامات کی تلاش کرنے کے بعد اُنہیں اپنی زندگیوں پر لاگو کر کے اُس کا حصہ بناؤ۔ رمضان ہمیں قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی پہلے سے بڑھ کر سعی اور کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا ہوتا ہے اُس کی عبادت کا حق ادا کرنے سے۔ اور عبادت کا یہ حق نمازوں کو سنوار کر اور باقاعدہ اور وقت پر پڑھنے سے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے پڑھنے سے، پھر نوافل اور ذکرِ الٰہی پر زور دینے سے ادا ہوتا ہے۔

پس یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرو تا کہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ، تا کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے قریب کر لو۔ تا کہ خدا اور بندے کے درمیان جو دُوری ہے اُسے ختم کر دو۔ رمضان یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ اُس رسّے کو مضبوطی سے پکڑنے والے بن جاؤ جس کا ایک سِرا خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سِرا اُس نے اپنے قرب کی تلاش کرنے والے بندوں کے لئے زمین پر لٹکایا ہوا ہے جو اُسے پکڑے گا وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جائے گا۔ رمضان ہمیں یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’فَاِنِّیْ قَرِیْب‘‘(البقرۃ: 187)۔ پس اپنی عبادتوں کے معیار اونچے کر کے اس قرب سے فیض پا لو۔ رمضان ہمیں یہ یاددہانی کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی پہلے سے بڑھ کر کوشش کرو۔ قرآنِ کریم میں بندوں کے جتنے بھی حقوق بیان ہیں اُن سب حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اللہ تعالیٰ نے تو غیروں کے حقوق کی ادائیگی پر بھی بہت توجہ دلائی ہے اور مسلمانوں کے لئے تو آپس میں بہت زیادہ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ(الفتح: 30) اور حقوق کی ادائیگی کا ذکر ہے۔

بعض لوگ اپنوں کے حقوق بھول جاتے ہیں بلکہ قریبیوں کے خونی، رشتوں کے حقوق بھول جاتے ہیں۔ مجھے بعض دفعہ بچیوں کے خط آ جاتے ہیں کہ لڑکوں اور لڑکیوں سے ماں باپ کا جو سلوک ہے اُس میں فرق کرتے ہیں۔ اگر جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنے لگیں تو بعض دفعہ بعض خاندانوں میں لڑکیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے اور لڑکوں کو دے دیتے ہیں۔ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے بچیوں سے پوچھتے تو ہیں کہ اگر جائیداد بیٹے کو دے دوں تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں؟ بعض بچیاں لکھتی ہیں کہ ہم شرم میں کہہ دیتی ہیں کہ کوئی حرج نہیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ تو بس اتنا ہی سمجھ لیتے ہیں کہ انصاف ہو گیا۔ جبکہ یہ انصاف نہیں ہے بلکہ ظلم ہے اور قرآنِ کریم کے واضح حکم کی خلاف ورزی ہے۔ حیرت ہے اس زمانے میں بھی ایسے والدین ہیں جو یہ ظلم کرتے ہیں۔ اور خوشی بھی اس بات کی ہے کہ اس زمانے میں ایسی بچیاں بھی ہیں جو ماں باپ کی خوشی کی خاطر قربانی دے دیتی ہیں۔ لیکن اُنہیں بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اس میں ان کی دلی خوشی شامل نہیں ہے تو پھر جو بچیاں یا بچے یہ قربانی دے رہے ہیں وہ ماں باپ کو گناہگار بنا رہے ہیں۔ مَیں پھر ایسے ظالم ماں باپ سے کہوں گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کریں اور ایسے بھائی بھی جو خود غرضی میں بڑھے ہوئے ہیں اور ماں باپ پر دباؤ ڈال کر جائیدادوں پر قبضہ کر لیتے ہیں اور بہنوں کو محروم کر دیتے ہیں، وہ بھی اپنے پیٹوں میں آگ کے گولے بھر رہے ہیں۔ پس ہمیشہ خدا تعالیٰ کا خوف کرنا چاہئے اور اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ بہر حال یہ تفصیل میں نے اس لئے بیان کر دی کہ اس کا بیان کرنا ضروری تھا۔

مَیں دوبارہ پھر اُسی طرف آتا ہوں کہ رمضان ہمیں کن باتوں کی طرف یاددہانی کرواتا ہے۔ جب ہم رمضان کو پاتے ہیں تو رمضان ہمیں یہ یاددہانی کروانے کے لئے آتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم کی روشنی میں ہر مسلمان اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کرے۔ خدا تعالیٰ اور خدا تعالیٰ کی جماعت کی خاطر، خلافتِ احمدیہ کے قائم رکھنے کی خاطر جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کا جو عہد کیا ہے، اُس کو نبھانے کے لئے اپنے جائزے لے کر اس کو نبھانے کی کوشش کریں۔ یہ جائزے لیں کہ کس حد تک اپنے عہدوں کو نبھا رہے ہیں اور کس حد تک یہ عہدنبھانے کا جذبہ دل میں موجود ہے۔ اس قربانی کے لئے قرآنِ کریم میں کیا احکامات ہیں اُنہیں تلاش کریں۔ پھرایک دوسرے کی خاطر قربانی ہے، اس کے بارے میں کیا احکامات ہیں انہیں تلاش کریں۔ رمضان ہمیں اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے بھی آتا ہے کہ ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کو تباہی اور خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے بچانے کے لئے کتنا درد تھا اور اُس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی درد بھری دعائیں اپنے خدا کے حضور گریہ و زاری کرتے ہوئے کیں اور ہم نے اُس کا حق ادا کرنے کی کس طرح کوشش کرنی ہے؟ ہمیں رمضان اس بات کی یاددہانی کے لئے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غارِ حرا میں سپرد کر کے پھر غار سے باہر نکل کر انجام دینے کے لئے دیا تھا، یعنی اُن درد بھری دعاؤں کے ساتھ قرآنِ کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا کام، اس کام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے اور حکم کے مطابق ہم نے کس طرح انجام دینا ہے۔ ہم نے کس طرح قرآنِ کریم کی اس تعلیم پر عمل کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو پھیلاؤ، خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں پھیلاؤ اور پھیلاتے چلے جاؤ۔ ھُدًی لِّلنَّاس کا پیغام عام کرنے کی کوشش کرو۔ ہمیں رمضان یہ یاد دہانی کرواتا ہے کہ غارِ حرا کی تنہائی کو سامنے رکھو گے تو پھر ہی تمہیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی حقیقت کا صحیح فہم حاصل ہو گا۔ یہ مہینہ ہمیں یہ یاددہانی کروانے کے لئے ہے کہ اگر حُبّ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اُسوہ کے ہر پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ یہ یاددہانی کروانے یہ مہینہ آیا ہے کہ اس بات کی تلاش کرو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘ (المائدۃ: 120) کا مقام کس طرح پایا؟ کیونکہ یہ صحابہ بھی ہمارے لئے اُسوہ ہیں۔ پس یہ مہینہ ہمیں اس بات کی یاددہانی کے لئے بھی آیا ہے کہ اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لے جانے کی کوشش کرو۔ زمانے کے لحاظ سے تو ہم نہیں جا سکتے لیکن قرآنِ کریم کی تعلیم تو ہمارے سامنے اصل حالت میں موجود ہے جو اُس زمانے میں پہنچانے کے راستے آسان کرتی ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اس بات کی یاددہانی کروانے آیا ہے کہ دنیا کو بتاؤ کہ دنیا کے امن کی ضمانت اور دنیا میں امن قائم کرنے کی حقیقی تعلیم قرآنِ کریم ہی ہے۔ دنیا کو بتاؤ کہ دنیا میں امن کے قیام کا کامل نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی ہے۔ یہ مہینہ ہمیں یہ یاددہانی کروانے آتا ہے کہ قرآنِ کریم ہی وہ کتاب ہے جو اپنے ہر حکم کے بارے میں دلیل سے بات کرتی ہے۔ اس کے لئے ہمیں خود بھی قرآنِ کریم پر غور اور اس کی تفسیر کو پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اُن لوگوں میں شامل ہونے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے کہ اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ (البقرۃ: 122) یعنی وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی، اُس کی اس طرح تلاوت کرتے ہیں جس طرح اُس کی تلاوت کا حق ہے۔ یعنی پڑھنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں، غور کرنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں اور جو پڑھا یا سنا اور غور کیا، اُس پر عمل کرنے کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ اگر یہ حق ادا نہیں ہو رہے تو ہمارے مسلمان ہونے کے دعوے صرف زبانی دعوے ہیں اور ہم اُن لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کو بڑھایا۔ وہ لوگ جو آخری زمانے میں پیدا ہونے تھے جنہوں نے قرآنِ کریم کی تلاوت اور اُس پر عمل کا حق ادا نہیں کرنا تھا۔ جن کے بارے میں قرآنِ کریم میں اس طرح اظہار ہوا ہے کہ وَقَالَ الرَّسُوْلُ یَا رَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَھْجُوْرًا(الفرقان: 31)اور رسول کہے گا کہ اے میرے رب! یقینا میری قوم نے اس قرآن کو متروک کر چھوڑا ہے۔ پس یہ مہینہ جہاں ہمیں بہت سی خوشخبریاں دیتا ہے وہاں بہت سی ذمہ داریاں بھی ڈالتا ہے اور ہوشیار بھی کرتا ہے۔ ہمیں یاددہانی کرواتا ہے کہ اپنے جائزے لیتے رہو کہ کس حد تک قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کر رہے ہو۔ اپنے جائزے لیتے رہو کہ کس حد تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکروں کو دُور کرنے کا باعث بن رہے ہو۔ ورنہ نہ رمضان ہمیں کوئی فائدہ دے سکتا ہے نہ ہی قرآنِ کریم ہمیں کوئی فائدہ دے گا۔

خدا تعالیٰ ہمیں جس قسم کا انسان اور مومن بنانا چاہتا ہے اُس کے لئے اُس نے قرآنِ کریم میں سینکڑوں کی تعداد میں احکامات دئیے ہیں اور اس زمانے میں پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اپنی اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قرآنِ کریم کی خوبصورت تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنے پر آپ کے ذریعہ سے زور دلوایا ہے۔ میں نے ان چند باتوں کی طرف مختصرا ً توجہ دلائی ہے کہ رمضان اور قرآن ہمیں کن باتوں کی یاددہانی کرواتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے کہا، قرآنِ کریم میں سینکڑوں احکامات ہیں جن کی تلاش کر کے ہمیں اُن کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی ضرورت ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ممکن ہو سکتا ہے اور اُس کے فضل کے حصول کے لئے اُس نے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

اس وقت میں اُن سینکڑوں احکامات میں سے جو قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دئیے ہیں دو باتوں کا ذکر کروں گا جو اللہ تعالیٰ نے ایک مومن کی خصوصیات بیان کی ہیں۔ کیونکہ یہ باتیں ہمارے آپس کے تعلقات اور معاشرے کے امن کے لئے ضروری ہیں۔ اور ان کاجو اصل فائدہ ہے، وہ تو ہے ہی کہ جس طرح باقی احکامات پر عمل کر کے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے، اُسی طرح ان باتوں پر بھی عمل کر کے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوگا۔

اُن میں سے پہلی بات تو عاجزی اور انکساری ہے۔ یہ بہت سے مسائل کا حل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی، اُن بندوں کی جو کہ حقیقی مسلمان ہیں، اُن بندوں کی جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہیں، اُن بندوں کی جو خدائے رحمان کے فضلوں اور رحم کی تلاش کرنے والے ہیں، جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں اُن میں سے ایک بہت بڑی خصوصیت یہ ہے۔ فرمایا وَعِبَادُالرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا (الفرقان: 64) اور رحمان کے سچے بندے وہ ہوتے ہیں جو زمین پر عاجزی سے چلتے ہیں اور پھر فرماتا ہے۔

وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْاَرْضِ مَرَحاً۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ۔ (لقمان: 19) اللہ تعالیٰ یقینا ہر شیخی کرنے والے اور فخر کرنے والے سے پیار نہیں کرتا اور جب خدا تعالیٰ کا پیار نہ ملے تو انسان کی کوئی نیکی قابلِ قبول نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہیں ہوتی۔ پس کون انسان ہے کہ جو ایک طرف تو خدا تعالیٰ پر ایمان کا دعویٰ کرے، اپنے مومن ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسری طرف یہ کہے کہ مجھے خدا تعالیٰ کی محبت کی پرواہ نہیں۔ یقینا کوئی عقلمند انسان، خرد والا انسان اور مسلمان یہ بات نہیں کر سکتا۔ لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں اور روزمرّہ معاملات میں بہت سے مسائل کی وجہ، بہت سے جھگڑوں کی بنیاد یہ تکبر ہی ہے۔ جس میں تکبر نہیں اور تکبر کی وجہ سے جھوٹی اَنا نہیں اُس کے معاملات بھی کبھی نہیں الجھتے۔ یہ تکبر ہے جو ضِد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور اَنا اور ضد پھر معاملات کو سلجھانے کی بجائے طُول دینا شروع کر دیتے ہیں، الجھانا شروع کر دیتے ہیں۔ آجکل بہت سے جھگڑے جو میرے سامنے آتے ہیں، اُن معاملات میں سے اکثریت صرف اس لئے نہیں سلجھ رہی ہوتی کہ تکبر، اَنا اور ضد آڑے آ رہی ہوتی ہے۔ پس اگر انسان کو خدا تعالیٰ کی محبت کی ضرورت ہے، اگر ایک مسلمان یہ سمجھتا ہے اور جب میں مسلمان کہتا ہوں تو سب سے پہلے ہم احمدی مسلمان اس کے مخاطب ہیں، تو پھر ان باتوں سے بچنا ہو گا۔

رمضان کا فیض اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل ہو۔ روزے تبھی فائدہ دیں گے جب قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل ہو۔ پس وہ لوگ جن کے آپس کے جھگڑے صرف اَناؤں اور تکبر کی وجہ سے طول پکڑے ہوئے ہیں، واضح ہو کہ جو جھگڑے ہوتے ہیں یہ ہوتے ہی تکبر کی وجہ سے ہیں، یا اَنا کی وجہ سے ہیں۔ اُنہیں اس رمضان میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے چاہئیں۔ اُن عباد الرحمان میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جو اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے کے لئے زمین میں عاجزی سے چلتے ہیں۔ ہر وقت اس بات کے حریص رہتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے راضی ہو جائے چاہے دنیاوی نقصان برداشت کرنا پڑے۔

دوسری بات جو بیان کرنا چاہتا ہوں، وہ بھی اس سے متعلقہ ہی ہے اور وہ ہے صبر۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ (البقرۃ: 46)۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے صبر اور دعا کے ذریعہ سے مدد مانگو۔ اب کون ہے جس کو ہر لمحے اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت نہیں ہے؟ لیکن یہ مدد ملتی ہے صبر اور دعا سے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صبر اور دعا کا حق بھی وہی ادا کر سکتے ہیں جو عاجز ہوں۔ فرمایا وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ (البقرۃ: 46)۔ اور عاجزی اور فروتنی اختیار کرنے والوں کے علاوہ یہ باقی لوگوں کے لئے بہت مشکل امر ہے۔

پس یہاں عاجزی کو صبر اور دعا کے ساتھ ملا کرپھر اللہ تعالیٰ کی مدد کے حصول کا ذریعہ بنایا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد دعاؤں کی طرف توجہ سے اور صبر سے ملتی ہے اور یہ خصوصیت صرف اُنہی لوگوں میں ہوتی ہے جو عاجزی دکھانے والے ہیں۔ اور یہ عاجزی خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ یہ عاجزی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کا شیوہ ہے۔ پس جب ہر سطح پر عاجزی ہو، اللہ تعالیٰ نے جو اپنے حقوق بتائے ہیں، اُن کی بھی دعا اور مستقل مزاجی سے، کوشش سے ادائیگی ہو اور انتہائی عاجز ہو کر انسان خدا تعالیٰ کے دَر پر گرے تو خدا تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہوتی ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے جو بندوں کے حقوق بتائے ہیں اُن کی ادائیگی کی طاقت بھی خدا تعالیٰ سے مانگو اور وسعتِ حوصلہ دکھاؤ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ٹھہرو گے۔

پس ہر سطح کے معاملات میں اور عبادات کی ادائیگی میں اللہ تعالیٰ کا فضل جذب کرنے کے لئے عاجزی انتہائی ضروری ہے۔ جب یہ ہو گا تو خدا تعالیٰ دنیاوی نقصانوں سے بھی بچائے گا، دشمنوں کے خلاف بھی مدد دے گا، روحانیت میں بھی ترقی ہو گی، معاشرتی تعلقات میں بھی حسن پیدا ہو گا اور انسان خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بھی بنے گا اور یہی ایک مومن کی خواہش ہوتی ہے اور ہونی چاہئے۔

پس ہمیں چاہئے کہ اس رمضان میں ہم اپنے جائزے لیں اور اُن تمام باتوں اور عنوانات کے تحت اپنے جائزے لیں جو میں نے بتائے ہیں کہ کس حد تک اس رمضان میں ہم نے اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور اس طرف قدم بڑھانے شروع کر دئیے ہیں۔ ورنہ جیسا کہ مَیں نے کہا رمضان ہر سال آتا ہے اور آتا رہے گا اور جب تک زندگی ہے، ہم ہر سال اس میں سے گزرتے ہوئے قرآنِ کریم کے اس مہینے میں نازل ہونے کی علمی بحث سنتے رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’ھُدًی لِّلنَّاس‘‘ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی ہے کہ صرف اس کی سطح تک ہی نہ رہو، اپنے آپ کو صرف سطح پر ہی نہ رکھو، صرف علمی بحثوں میں نہ اُلجھے رہو کہ قرآنِ کریم نازل ہوا تو اُس کا کیا مطلب ہے یا کیا نہیں ہے؟ بلکہ گہرائی میں جا کر اس ہدایت کے موتی تلاش کر کے اُنہیں اپنی دنیا اور آخرت سنوارنے کا ذریعہ بناؤ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’یاد رکھو قرآنِ شریف حقیقی برکات کا سرچشمہ اور نجات کا سچا ذریعہ ہے۔ یہ اُن لوگوں کی اپنی غلطی ہے جو قرآنِ شریف پر عمل نہیں کرتے۔ عمل نہ کرنے والوں میں سے ایک گروہ تو وہ ہے جس کو اس پر اعتقاد ہی نہیں اور وہ اس کو خدا تعالیٰ کا کلام ہی نہیں سمجھتے۔ یہ لوگ تو بہت دُور پڑے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور نجات کا شفابخش نسخہ ہے، اگر وہ اس پر عمل نہ کریں تو کس قدر تعجب اور افسوس کی بات ہے۔ اُن میں سے بہت سے تو ایسے ہیں جنہوں نے ساری عمر میں کبھی اُسے پڑھا ہی نہیں۔ پس ایسے آدمی جو خدا تعالیٰ کے کلام سے ایسے غافل اور لاپروا ہیں اُن کی ایسی مثال ہے کہ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں چشمہ نہایت ہی مصفّٰی اور شیریں اور خُنک ہے اور اُس کا پانی بہت سی امراض کے واسطے اکسیر اور شفاء ہے، یہ علم اُس کو یقینی ہے لیکن باوجود اس علم کے اور باوجود پیاسا ہونے اور بہت سی امراض میں مبتلا ہونے کے وہ اُس کے پاس نہیں جاتا تو یہ اُس کی کیسی بدقسمتی اور جہالت ہے۔ اُسے تو چاہئے تھا کہ وہ اس چشمہ پر منہ رکھ دیتا اور سیراب ہو کر اُس کے لطف اور شفا بخش پانی سے حظّ اُٹھاتا مگر باوجود علم کے اُس سے ویسا ہی دُور ہے جیسا کہ ایک بے خبر، اور اُس وقت تک اُس سے دور رہتا ہے جو موت آ کر خاتمہ کر دیتی ہے۔ اُس شخص کی حالت بہت ہی عبرت بخش اور نصیحت خیز ہے۔ مسلمانوں کی حالت اس وقت ایسی ہی ہو رہی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ساری ترقیوں اور کامیابیوں کی کلید یہی قرآنِ شریف ہے۔ جس پر ہم کو عمل کرنا چاہئے۔ مگر نہیں، اس کی پروا بھی نہیں کی جاتی……۔‘‘ فرمایا ’’مسلمانوں کو چاہئے تھا اور اب بھی اُن کے لئے یہی ضروری ہے کہ وہ اس چشمہ کو عظیم الشان نعمت سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اس کی قدر یہی ہے کہ اُس پر عمل کریں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح اُن کی مصیبتوں اور مشکلات کو دُور کر دیتا ہے۔ کاش مسلمان سمجھیں اور سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے یہ ایک نیک راہ پیدا کر دی ہے اور وہ اس پر چل کر فائدہ اُٹھائیں۔‘‘ (ملفوظات جلد 4صفحہ 140-141۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

کاش آج جو دنیا میں، اسلامی دنیا میں ہو رہا ہے کہ لیڈر بھی اور رعایا بھی جو ایک دوسرے کی گردنیں مارنے پر تلے بیٹھے ہیں، سینکڑوں موتیں واقع ہو رہی ہیں۔ مسلمان ایک دوسرے کی جانیں لے رہے ہیں۔ اگر قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں اور اس زمانے کے مہدی کی بات سننے والے ہوں تو یہ فتنہ اور فساد خود بخود ختم ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں کو بھی عقل دے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں بھی فرماتے ہیں کہ:

’’قرآنِ شریف پر تدبر کرو۔ اس میں سب کچھ ہے۔ نیکیوں اور بدیوں کی تفصیل ہے اور آئندہ زمانہ کی خبریں ہیں وغیرہ۔ بخوبی سمجھ لو کہ یہ وہ مذہب پیش کرتا ہے جس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کے برکات اور ثمرات تازہ بتازہ ملتے ہیں۔ انجیل میں مذہب کو کامل طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اُس کی تعلیم اُس زمانہ کے حسبِ حال ہو تو ہو لیکن وہ ہمیشہ اور ہر حالت کے موافق ہرگز نہیں۔ یہ فخر قرآنِ مجید ہی کو ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس میں ہر مرض کا علاج بتایا ہے اور تمام قویٰ کی تربیت فرمائی ہے اور جو بدی ظاہر کی ہے اُس کے دُور کرنے کا طریق بھی بتایا ہے۔ اس لئے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے رہو اور دعا کرتے رہو اور اپنے چال چلن کو اس کی تعلیم کے ماتحت رکھنے کی کوشش کرو۔‘‘ (ملفوظات جلد 5صفحہ 102۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

پس یہ وہ نصیحت ہے جو ہمیں بھی ہے۔ صرف غیروں کو نہیں دیکھنا۔ کیونکہ ہم نے بھی قرآنِ کریم پر عمل کرنا ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کرنا ہے۔ اس تعلیم کے ماتحت اپنے آپ کو رکھنے کی کوشش کرنی ہے تا کہ ہماری دنیا اور عاقبت سنور سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم کتاب کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں اور یہ رمضان ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآنِ کریم کا علم و عرفان عطا کرنے والا بھی ہو اور خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والا بھی ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 19؍ جولائی 2013ء شہ سرخیاں

    رمضان کا فیض اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل ہو۔ روزے تبھی فائدہ دیں گے جب قرآنِ کریم کی تعلیمات پر عمل ہو۔ پس وہ لوگ جن کے آپس کے جھگڑے صرف اَناؤں اور تکبر کی وجہ سے طول پکڑے ہوئے ہیں، اُنہیں اس رمضان میں عاجزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صلح کی طرف ہاتھ بڑھانے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد ملتی ہے دعاؤں کی طرف توجہ سے اور صبر سے اور یہ خصوصیت صرف اُنہی لوگوں میں ہوتی ہے جو عاجزی دکھانے والے ہیں۔ اور یہ عاجزی خدا تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے والوں کا شیوہ ہے۔

    ہمیں چاہئے کہ اس رمضان میں ہم اپنے جائزے لیں کہ کس حد تک ہم نے اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اور اس طرف قدم بڑھانے شروع کر دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اس عظیم کتاب کی تعلیم کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنا کر خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے بن سکیں اور یہ رمضان ہمیں پہلے سے بڑھ کر قرآنِ کریم کا علم و عرفان عطا کرنے والا بھی ہو اور اپنا قرب دلانے والا بھی ہو۔

    فرمودہ مورخہ 19جولائی 2013ء بمطابق19 وفا 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور