عبادت الٰہی، والدین سے حسن سلوک اور تربیت اولاد سے متعلق قرآنی احکامات
خطبہ جمعہ 26؍ جولائی 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَاِیَّاھُمْ۔ وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔ وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ۔ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ۔ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ۔ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی۔ وَبِعَھْدِ اللّٰہِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ۔ وَاَنَّ ھَذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ۔ وَلَا تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ۔ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔ (الانعام: 152۔ 154)
یہ سورۃ انعام کی آیات ہیں۔ 152 سے 153، 154 تک۔ ترجمہ ان کا یہ ہے کہ تُو کہہ دے آؤ مَیں پڑھ کر سناؤں جو تمہارے رب نے تم پر حرام کردیا ہے یعنی یہ کہ کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور لازم کردیا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان سے پیش آؤ اور رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی۔ اور تم بے حیائیوں کے جو اُن میں ظاہر ہوں اور جو اندر چھپی ہوئی ہوں، دونوں کے قریب نہ پھٹکو۔ اور کسی جان کو قتل نہ کرو جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہومگر حق کے ساتھ۔ یہی ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم عقل سے کام لو۔ اور سوائے ایسے طریق کے جو بہت اچھا ہو یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورے کیا کرو۔ ہم کسی جان پر اس کی وسعت سے بڑھ کر ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ اور جب بھی تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لو خواہ کوئی قریبی ہی کیوں نہ ہو۔ اور اللہ کے ساتھ کئے گئے عہد کو پورا کرو۔ یہ وہ امر ہے جس کی وہ تمہیں سخت تاکید کرتا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ اور یہ بھی تاکید کرتا ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے۔ پس اس کی پیروی کرو اور مختلف راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹادیں گی۔ یہ ہے وہ جس کی وہ تمہیں تاکیدی نصیحت کرتا ہے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
گزشتہ خطبہ میں اس بات کا ذکر ہوا تھا کہ رمضان کے مہینے میں قرآنِ کریم نازل ہونا شروع ہوا۔ اس لحاظ سے قرآنِ کریم کا اور رمضان کے مہینے کا ایک خاص تعلق ہے، لیکن اس تعلق کا فائدہ تبھی ہے جب ہم رمضان کے مہینے میں قرآنِ کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے احکامات پر غور کریں اور اُن کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کریں۔ ورنہ جس مقصد کے لئے قرآنِ کریم نازل ہوا وہ مقصد پورا نہیں ہوتا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’قرآن کا مقصد تھا وحشیانہ حالت سے انسان بنانا۔ انسانی آداب سے مہذب انسان بنانا تا شرعی حدود اور احکام کے ساتھ مرحلہ طے ہو اور پھر باخدا انسان بنانا۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 53، ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ قرآنِ کریم میں عملی اور علمی تکمیل کی ہدایت ہے۔ چنانچہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ (الفاتحہ: 6) میں تکمیل علمی کی طرف اشارہ ہے اور تکمیل عملی کا بیان صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ(الفاتحہ: 7) میں فرمایا کہ جو نتائج اکمل اور اتم ہیں وہ حاصل ہوجائیں۔ جیسے ایک پودا جو لگایا گیا ہے جب تک پورا نشوونما حاصل نہ کرے اس کو پھل پھول نہیں لگ سکتے۔ اسی طرح اگر کسی ہدایت کے اعلیٰ اور اکمل نتائج موجودنہیں ہیں۔ وہ ہدایت مردہ ہدایت ہے۔ جس کے اندر کوئی نشوونما کی قوت اور طاقت نہیں ہے…‘‘ فرمایا کہ ’’قرآن شریف ایک ایسی ہدایت ہے کہ اُس پر عمل کرنے والا اعلیٰ درجہ کے کمالات حاصل کرلیتا ہے اور خداتعالیٰ سے اس کا ایک سچا تعلق پیداہونے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کے اعمالِ صالحہ جو قرآنی ہدایتوں کے موافق کیے جاتے ہیں وہ ایک شجرِ طیب کی مثال جوقرآن شریف میں دی گئی ہے، بڑھتے ہیں اور پھل پھول لاتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی حلاوت اور ذائقہ اُن میں پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 121-122۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس اگر قرآنِ کریم کا حق ادا کرتے ہوئے قرآنِ کریم کو پڑھا جائے اور پھر اُس کے احکامات پر عمل کرنے کی طرف توجہ ہو تو عملی طور پر بھی ایک نمایاں تبدیلی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی قدریں پیدا ہو جاتی ہیں۔ فرمایا کہ وحشیانہ حالت سے نکل کر ایسا شخص جس نے قرآنی تعلیم کو اپنے اوپر لاگو کیا ہو، مہذب اور باخدا انسان بنتا ہے اور باخدا انسان وہ ہوتا ہے جس کا خدا تعالیٰ سے ایک خاص اور سچا تعلق پیدا ہو جاتا ہے، جس کی مثال اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شجرہ طیبہ کی دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَصْلُھَا ثَابِتٌ وَ فَرْعُھَا فِی السَّمَآءِ (ابراھیم: 25)کہ اُس کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور اُس کی شاخیں آسمان کی بلندی تک پہنچ رہی ہوتی ہیں۔ اس کی وضاحت ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں فرمائی ہے۔ فرمایا کہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے کھول دیا کہ وہ ایمان جو ہے وہ بطور تخم اور شجر کے ہے اور اعمال جو ہیں وہ آبپاشی کے بجائے ہیں۔ یعنی آبپاشی کی جگہ ہیں، اعمال ایسے ہیں جس طرح کہ پودے کو پانی دیا جائے۔ فرمایا: قرآنِ شریف میں کسان کی مثال ہے کہ جیسا وہ زمین میں تخم ریزی کرتا ہے، ویسا ہی یہ ایمان کی تخم ریزی ہے۔ وہاں آبپاشی ہے، یہاں اعمال۔ فرمایا: پس یاد رکھنا چاہئے کہ ایمان بغیر اعمال کے ایسا ہے جیسے کوئی باغ بغیر انہار کے۔ یعنی اُس میں پانی اور نہریں نہ ہوں، دریا نہ ہو۔ فرمایا: جو درخت لگایا جاتا ہے اگر مالک اُس کی آبپاشی کی طرف توجہ نہ کرے تو ایک دن خشک ہو جائے گا۔ اسی طرح ایمان کا حال ہے۔ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا (العنکبوت: 70)۔ یعنی تم ہلکے کام پر نہ رہو بلکہ اس راہ میں بڑے بڑے مجاہدات کی ضرورت ہے۔ (ماخوذ ازملفوظات جلد 5 صفحہ 649 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اس لئے آپ نے شروع میں فرمایاکہ قرآنِ شریف جوتمہیں بنانا چاہتا ہے، وہ تم اُس وقت بن سکتے ہو جب شرعی حدود جو لگائی ہیں، قرآنِ کریم نے جو احکامات دئیے ہیں، اُن کو مرحلہ وار اپنے اوپر لاگو کرو۔ اور اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ آرام سے نہیں ہو جاتا ہے، اس کے لئے مجاہدات کی ضرورت ہے۔
پس جیسا کہ مَیں پہلے بھی ذکر کر آیا ہوں، رمضان شریف کا مہینہ یا قرآنِ کریم کا اس مہینے میں نزول کا اس صورت میں ہمیں فائدہ ہو سکتا ہے یا ہمیں فائدہ دے گا جب ہم اس کے احکامات کو اپنے اعمال کا حصہ بنائیں گے۔ اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالیں گے۔ اس راستے میں مجاہدہ کریں گے۔ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر بھی ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے، تبھی ہم خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتے ہیں، تبھی ہم قرآنِ کریم کے نازل ہونے کے مقصد کو سمجھنے والے ہو سکتے ہیں۔ پس یہ رمضان جہاں ہمیں مجاہدات کی طرف توجہ دلاتا ہے، (بہت سارے مجاہدات ہیں جو ظاہری طور پر ہم کرتے ہیں جیسے کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکنا ہے اور بعض جائز کاموں سے روکنا ہے) وہاں اس بات کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ان دنوں میں جب ہم قرآنِ کریم کو سمجھنے کی طرف ایک خاص توجہ دے رہے ہیں تو پھر ان احکامات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنائیں تا کہ وہ سرسبز شاخیں بن جائیں جن کا آسمان سے تعلق ہوتا ہے، جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق ہوتا ہے، جن کی دعائیں خدا تعالیٰ سنتا ہے۔ اپنے ایمان کی جڑیں مضبوط کریں۔ اپنے اعمال کو وہ سرسبز شاخیں بنائیں جو آسمان تک پہنچتی ہیں تا کہ ہماری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے ہاں مقبول ہوتی چلی جائیں۔ یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں، ان دو تین آیات میں بھی اُن احکامات میں سے چند احکامات بیان ہوئے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے چند باتوں کی طرف، چند احکامات کی طرف توجہ دلائی ہے جو خدا تعالیٰ کا قرب دلانے والے ہیں، تقویٰ پر چلانے والے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ جیسا کہ میں نے ترجمہ میں پڑھ کر سنا دیا تھا ہر ایک پر واضح ہو گیا ہو گا کہ کیا احکامات ہیں۔ یاددہانی کیلئے دوبارہ بتا دیتا ہوں۔ فرمایا کہ سب سے پہلے تو یہ بات یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ پھر فرمایا والدین سے حسنِ سلوک کرنا انتہائی اہم چیز ہے اس کو کبھی نہ بھولو اور بدسلوکی تم پر حرام ہے۔ تیسری بات یہ کہ رزق کی تنگی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ پھر یہ کہ مخفی اور ظاہر ہر قسم کی بے حیائیوں سے بچو، بلکہ اُن کے قریب بھی نہیں جانا۔ پانچویں بات یہ کہ کسی جان کو قتل نہ کرو، سوائے اس کے کہ جسے اللہ نے جائز قرار دے دیا ہو۔ اور اُس کی بھی آگے تفصیلات ہیں کہ کیا، کس طرح جائز ہے۔ پھر فرمایا کہ یتیموں کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ ساتویں بات یہ کہ جب یہ لوگ بلوغت کو پہنچ جائیں تو پھر اُن کے مال اُنہیں لَوٹا دو۔ پھر کوئی بہانے نہ ہوں۔ آٹھویں بات یہ کہ ماپ تول میں انصاف کرو۔ پھر یہ کہ ہر حالت میں عدل سے کام لو۔ کوئی عزیز داری، کوئی قرابت داری تمہیں عدل سے نہ روکے، انصاف سے نہ روکے۔ دسویں بات یہ کہ اپنے عَہدوں کو پورا کرو۔ جو عہد تم نے کئے ہیں اُن کو پورا کرو۔ اور پھر یہ کہ ہر حالت میں صراطِ مستقیم پر قائم رہنے کی کوشش کرتے چلے جاؤ۔ تو یہ وہ خاص اہم باتیں ہیں اور پھر ان کی جزئیات ہیں۔ ان باتوں پر چل کر انسان تقویٰ کی راہوں پر چلنے والا کہلا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرنے والا کہلا سکتا ہے۔
سب سے پہلے خدا تعالیٰ نے جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے، بلکہ حکم دیا کہ ایسی بات کبھی تم سے سرزدنہ ہو۔ تم پریہ حرام ہے کہ خدا تعالیٰ کا شریک کسی کو ٹھہراؤ۔ اُس ہستی کے ساتھ تم شریک ٹھہراؤ جو تمہارا رب ہے، جو تمہارا پیدا کرنے والا ہے، جو تمہاری دماغی، جسمانی، مادّی، روحانی صلاحیتوں کی پرورش کرنے والا ہے، جو تمام نعمتوں کو مہیا کرنے والا ہے۔ پس کون عقلمند ہے جو ایسی طاقتوں کے مالک خدا اور ایسی نعمتیں مہیا کرنے والے خدا کا کسی کو شریک بنائے۔ لیکن لوگ سمجھتے نہیں اور شریک بناتے ہیں۔ گہرائی میں جا کر شرک کے مفہوم کو نہیں سمجھتے اور ایسے عظیم خدا کے مقابلے پر خدا کھڑے کرتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ ہر زمانے میں لوگوں میں یہ حالت پیدا ہوتی رہی ہے۔ اسی لئے انبیاء جب آتے ہیں تو سب سے پہلے شرک کی تعلیم کے خلاف بات کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ شرک ایسا گناہ ہے کہ اس کو مَیں نہیں بخشوں گا۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہر ایک گناہ بخشنے کے قابل ہے مگر اللہ تعالیٰ کے سوا اَور کو معبود و کار ساز جاننا ایک ناقابل عفو گناہ ہے۔‘‘ یعنی یہ معاف نہیں ہو گا۔ ’’اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان: 14) لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ(النساء: 49) یہاں شرک سے یہی مرادنہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے۔ بلکہ یہ ایک شر ک ہے کہ اسباب کی پر ستش کی جاوے اور محبوبات ِدنیا پر زور دیا جاوے۔‘‘ دنیا میں جو بہت ساری چیزیں، جن سے انسان فائدہ اُٹھاتا ہے، اُن کی طرف توجہ ہو جائے۔ ’’اسی کا نام شرک ہے۔ اور معاصی کی مثال‘‘ یعنی گناہ جو ہیں، عام گناہ اُن کی مثال ’’تو حُقّہ کی سی ہے کہ اس کے چھوڑدینے سے کوئی دقّت و مشکل کی بات نظر نہیں آتی۔ مگر شرک کی مثال افیم کی ہے کہ وہ عادت ہو جاتی ہے جس کا چھوڑنا محال ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 344۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر ہمیں توجہ دلاتے ہوئے ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔ آپ نے مزید گہرائی میں جا کر بتایا کہ:
’’شرک تین قسم کا ہے۔ اوّل یہ کہ عام طور پر بت پرستی، درخت پرستی وغیرہ کی جاوے۔‘‘ (بعض لوگ درختوں کی پوجابھی کرتے ہیں۔ ) ’’یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے۔ دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فلاں کام نہ ہوتا تو مَیں ہلاک ہوجاتا۔ یہ بھی شرک ہے۔ تیسری قسم شرک کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے وجود کے سامنے اپنے وجود کو بھی کوئی شے سمجھا جاوے‘‘۔ یعنی مَیں بھی کچھ کر سکتا ہوں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم کچھ نہیں کر سکتے، ایک مومن کوہر کام کرنے سے پہلے انشاء اللہ ضرور کہنا چاہئے) فرمایا کہ’’موٹے شرک میں توآج کل اس روشنی او ر عقل کے زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا۔‘‘ یعنی درختوں کی پوجا کریں یا بعض ایسے ہوں جو پہلی قسم کا شرک کرتے ہوں ) ’’البتہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘(اسباب پر انحصار، چیزوں پر انحصار، لوگوں پر انحصار بہت زیادہ ہو گیا ہے۔) (ملفوظات جلد 2 صفحہ215-216۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
اسباب میں جیسا کہ مَیں نے کہا لوگوں پر بھی انحصار ہے، دولت پر اور سامان پر انحصار ہے، جہاں اپنے کام کر رہے ہیں اُن کے مالکوں پر انحصار ہے، بعض افسروں کی خوشامد کر رہے ہوتے ہیں۔ جب یہ حالت ہو جائے کہ اسباب پر یا کسی ذات پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہو جائے تو پھر انسان اُس مقصد کو بھول جاتا ہے جو اُس کی پیدائش کا مقصد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انتہا درجہ تک کسی کا وجود ضروری سمجھا جائے تو وہ معبود ہو جاتا ہے۔ جب ایک شخص سمجھے کہ اس کے بغیر میرا گزارہ ہی نہیں ہے تو پھر وہ خدا کے مقابلے پر آ جاتا ہے۔ پھر ایسی چیز بن جاتا ہے جس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اُس کے ساتھ تعلق بھی عبادت بن جاتا ہے۔ اور عبادت کے لائق صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۔ (الذاریات: 57) یعنی جنّوں اور انسان کی پیدائش کی غرض عبادت ہے۔ اور عبادت کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں:
’’یعنی اے لوگو! تم اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ یعنی اُسی کو اپنے کاموں کا کارساز سمجھو۔‘‘ جتنے بھی تمہارے کام ہیں اُن کو کرنے والا، اُن کی تکمیل کرنے والا، اُن کو انتہا تک پہنچانے والا، کامیابی دینے والا صرف خدا تعالیٰ ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی پرستش اور عبادت ہے۔ ’’اور اُس پر توکل رکھو۔‘‘ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 340)
پھر فرمایا یعنی اے لوگو! اُس خدا کی پرستش کرو جس نے تم کو پیدا کیا۔ ’’عبادت کے لائق وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ یعنی زندہ رہنے والا وہی ہے اس سے دل لگاؤ۔‘‘ باقی خدا جو ہیں، باقی جو دنیا کے معبودہیں، اُنہوں نے ختم ہو جانا ہے۔ زندہ رہنے والی ذات صرف خدا تعالیٰ کی ہے اس لئے اُسی سے دل لگاؤ۔ فرماتے ہیں کہ ’’پس ایمانداری تو یہی ہے کہ خدا سے خاص تعلق رکھا جائے اور دوسری سب چیزوں کو اس کے مقابلہ میں ہیچ سمجھا جائے۔ اور جو شخص اولاد کو یا والدین کو یا کسی اور چیز کو ایسا عزیز رکھے کہ ہر وقت اُنہیں کا فکر رہے تو وہ بھی ایک بُت پرستی ہے۔ بُت پرستی کے یہی تو معنی نہیں کہ ہندوؤں کی طرح بُت لے کر بیٹھ جائے اور اُس کے آگے سجدہ کرے۔ حد سے زیادہ پیارو محبت بھی عبادت ہی ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد5 صفحہ 602۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ فرماتے ہیں کہ: ’’اے لوگو! تم اُس خدائے واحد لاشریک کی پرستش کرو جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا۔ چاہیئے کہ تم اُس قادر توانا سے ڈرو جس نے زمین کو تمہارے لئے بچھونا اور آسمان کو تمہارے لئے چھت بنایا۔ اور آسمان سے پانی اُتار کر طرح طرح کے رزق تمہارے لئے پھلوں میں سے پیدا کئے۔ سو تم دیدہ دانستہ اُنہیں چیزوں کو خدا کا شریک مت ٹھہراؤ جو تمہارے فائدہ کے لئے بنائی گئی ہیں۔‘‘ (براہین احمدیہ حصہ چہارم روحانی خزائن جلد 1صفحہ 520 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)
پھر آپ عبادت کی حقیقت بیان فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’انسان کی پیدائش کی علتِ غائی یہی عبادت ہے…۔‘‘(یعنی پیدائش کا مقصد عبادت ہے۔ جیسا کہ پہلے آیت آ چکی ہے) فرماتے ہیں کہ ’’عبادت اصل میں اس کو کہتے ہیں کہ انسان ہر قسم کی قساوت، کجی کو دُور کرکے دل کی زمین کو ایسا صاف بنادے جیسے زمیندار زمین کو صاف کرتا ہے۔ عرب کہتے ہیں مَوْرٌ مُعَبَّدٌ۔ جیسے سُرمہ کو باریک کرکے آنکھوں میں ڈالنے کے قابل بنالیتے ہیں۔ اسی طرح جب دل کی زمین میں کوئی کنکر، پتھر، ناہمواری نہ رہے اور ایسی صاف ہوکہ گویا رُوح ہی رُوح ہو اس کا نام عبادت ہے۔ چنانچہ اگر یہ درستی اور صفائی آئینہ کی کی جاوے تو اس میں شکل نظر آجاتی ہے اور اگر زمین کی کی جاوے تو اس میں انواع و اقسام کے پھل پید اہوجاتے ہیں۔ پس انسان جو عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اگر دل صاف کرے اور اس میں کسی قسم کی کجی اور ناہمواری، کنکر، پتھر نہ رہنے دے، تو اس میں خدانظرآئے گا۔ مَیں پھر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے درخت اُس میں پیدا ہوکر نشوونما پائیں گے‘‘۔ اگر دل صاف ہو جائے، خالصۃً خدا تعالیٰ کی خاطر سب کچھ کرنے لگ جاؤ، اُسی کو سب کچھ سمجھو، اُسی پر انحصار کرو تو پھر اُس میں خدا نظر آتا ہے اور اُس میں پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے درخت نشوونما پائیں گے۔ ’’اور وہ اثمارِ شیریں وطیب ان میں لگیں گے جو اُکُلُھَادَآئِمٌ (الرعد: 36)کے مصداق ہوں گے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 347۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر دوسری جگہ آپ نے اس کی یوں وضاحت فرمائی کہ:
’’حضرتِ عزّت کے سامنے دائمی حضور کے ساتھ کھڑا ہونا بجز محبتِ ذاتیہ کے ممکن نہیں۔‘‘ کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک خاص حالت میں عاجزی اور انکساری سے اُسی وقت انسان کھڑا ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ سے ایک خاص ذاتی تعلق اور محبت ہو۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے اور فرمایا ’’اور محبت سے مراد یک طرفہ محبت نہیں بلکہ خالق اور مخلوق کی دونوں محبتیں مراد ہیں۔‘‘ جب انسان ایسی محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی محبت کا جواب ملتا ہے ’’تا بجلی کی آگ کی طرح جو مرنے والے انسان پر گرتی ہے اور جو اس وقت اس انسان کے اندر سے نکلتی ہے، بشریت کی کمزوریوں کو جلا دیں اور دونوں مل کر تمام روحانی وجود پر قبضہ کر لیں۔‘‘ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 218)
یعنی جب گرج چمک والی بجلی انسان پر گرتی ہے تو وہ جل جاتا ہے۔ انسان خاک ہو جاتا ہے۔ اسی طرح محبت جو ہے یہ ایسی محبت ہونی چاہئے، ایسی آگ ہونی چاہئے، ایسی تپش ہونی چاہئے، رمضان کے بھی ایک معنی تپش اور گرمی ہے، کہ جو انسان کی کمزوریاں ہیں، بد عادتیں ہیں اُن سب کو جلا دے اور تمام وجود پر روحانیت کا قبضہ ہو جائے۔ یہ انسان کا مقصد ہے اور یہ مقصدہے جس کے لئے رمضان کے مہینے میں سے ہمیں گزارا جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کی عبادت کایہ معیار ہے جو ہمارے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمایا ہے۔ اور جب یہ معیار حاصل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت سب محبتوں پر غالب آ جاتی ہے تو پھر تمام قسم کے شرکوں سے انسان آزاد ہو جاتا ہے۔ اللہ کرے کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ ایسی عبادت کی توفیق عطا فرمائے کہ اُس کی محبت ہم میں قائم ہو اور وہ دائمی محبت ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ نے جو اگلا حکم فرمایا، وہ یہ ہے کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو۔ یہ ترتیب بھی وہ قدرتی ترتیب ہے جو انسان کی زندگی کا حصہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد اس دنیا میں والدین ہی ہیں جو بچوں کی پرورش اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھتے ہیں۔ غریب سے غریب والدین بھی اپنے دائرے میں یہ بھر پور کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے بچوں کی صحیح پرورش ہو، اس کے لئے وہ عمومًابے شمار قربانیاں بھی کرتے ہیں۔ پس فرمایا کہ والدین سے احسان کا سلوک کرو۔
ایک دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْااِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدَھُمَا اَوْکِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا (بنی اسرائیل 24: ) یعنی تمہارے رب نے یہ تاکیدی حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، اور نیز یہ کہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔ اگر اُن میں سے کسی ایک پر یا اُن دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آ جائے تو اُنہیں اُن کی کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اُف تک نہ کہو اور نہ اُنہیں جھڑکو اور اُن سے ہمیشہ نرمی سے بات کرو۔
بعض دفعہ شکایات آ جاتی ہیں، جاہل بچوں کے ماں باپ کی طرف سے نہیں، بلکہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے بچوں کے ماں باپ کی طرف سے کہ بچے ناخلف ہیں۔ نہ صرف یہ کہ حق ادا نہیں کرتے بلکہ ظلم کرتے ہیں۔ بعض بہنیں اپنے بھائیوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ ماں باپ پر ہاتھ اُٹھا لینے سے بھی نہیں چُوکتے۔ خاص طور پر ماں باپ سے بدتمیزی ہوتی ہے جب ایسے معاملات آئیں جہاں جائیداد کا معاملہ ہو۔ والدین کی زندگی میں بچوں کو جب ماں باپ کی جائیداد کی طرف توجہ پیدا ہو جائے تواُس وقت یہ بدتمیزیاں بھی شروع ہوتی ہیں اور جب والدین اپنے بچوں کو جائیداد دے دیتے ہیں تو پھر اُن سے اور سختیاں شروع ہو جاتی ہیں اور وہی والدین جو جائیداد کے مالک ہوتے ہیں پھر بعض ایسے بچے بھی ہیں کہ اُن کو دینے کے بعد وہ والدین دَر بدر ہو جاتے ہیں اور ایسی مثالیں ہمارے اندر بھی موجود ہیں۔ یہاں بھی، اس ملک میں بھی آزادی کے نام پر وہ بچے جو نوجوانی میں قدم رکھ رہے ہیں وہ بدتمیزی میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بچے ایک عمر کو پہنچ کے آزاد ہیں۔ تو یہ تعلیم جو ماں باپ کا احترام نہیں سکھاتی یا یہ آزادی جو یہاں بچوں کو ہے، جو حفظ مراتب کا خیال نہیں رکھتی، یا ماں باپ کی عزت قائم نہیں کرتی، یہ تعلیم اور ترقی نہیں ہے بلکہ یہ جہالت ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے جو خوبصورت تعلیم ہے کہ ماں باپ سے احسان کا سلوک کرو، اُن کی عزت کرو، اُن کو اُف تک نہ کہو۔ یہ ماں باپ کا احترام قائم کرتی ہے۔ ماں باپ کے احسانوں کا بدلہ احسان سے اتارنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور احسان کا مطلب یہ ہے کہ ایسا عمل کرو جو بہترین ہو، ورنہ ماں باپ کے احسان کا بدلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اتار ہی نہیں سکتے۔ اس احسان کے بدلے کے لئے بچوں کو اللہ تعالیٰ نے کیا خوبصورت تعلیم دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ والدین کیلئے یہ بھی دعا کرو۔ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا (بنی اسرائیل25: )کہ اے میرے رب! ان پر رحم فرما۔ جس طرح یہ لوگ میرے بچپن میں مجھ پر رحم کرتے رہے ہیں۔ اور انہوں نے رحم کرتے ہوئے میری پرورش کی تھی۔ پس یہ اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام ایک مسلمان کو اپنے والدین سے حسنِ سلوک کے بارے میں سکھاتا ہے۔ یہ وہ اعلیٰ معیار ہے جو ایک مسلمان کا اپنے والدین کے لئے ہونا چاہئے۔ یہ دعا صرف زندگی کی دعا نہیں ہے بلکہ والدین کی وفات کے بعد بھی اُن کے درجات کی بلندی کے لئے دعا ہو سکتی ہے۔ یعنی ایک تو زندگی میں دعا ہے کہ جو ہماری طرف سے کمی رہ گئی ہے اُس کمی کو اس دعا کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ پورا فرمائے اور اپنے خاص رحم میں رکھے۔ دوسرے اس رحم کا سلسلہ اگلے جہان تک بھی جاری رہے اور اللہ تعالیٰ اُن کے درجات بلند فرماتا رہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ’’خدا نے یہ چاہا ہے کہ کسی دوسرے کی بندگی نہ کرو۔ اور والدین سے احسان کرو۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے پہلے یہی فرمایا ناں کہ صرف اللہ کی عبادت کرو اور پھر اگلا حکم یہ کہ والدین سے احسان کرو۔ فرمایا کہ ’’حقیقت میں کیسی ربوبیت ہے کہ انسان بچہ ہوتا ہے اور کسی قسم کی طاقت نہیں رکھتا۔ اس حالت میں ماں کیا کیا خدمات کرتی ہے اور والد اس حالت میں ماں کی مہمّات کا کس طرح متکفّل ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ناتواں مخلوق کی خبر گیری کے لئے دو محل پیدا کر دئیے ہیں اور اپنی محبت کے انوار سے ایک پَرتو محبت کا اُن میں ڈال دیا۔ مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ ماں باپ کی محبت عارضی ہے اور خدا تعالیٰ کی محبت حقیقی ہے۔‘‘ یہاں بہر حال ایک فرق ہے۔ ’’اور جب تک قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا القاء نہ ہو تو کوئی فردِ بشرخواہ وہ دوست ہو یا کوئی برابر کے درجہ کا ہو، یا کوئی حاکم ہو، کسی سے محبت نہیں کر سکتا۔ اور یہ خدا کی کمال ربوبیّت کا راز ہے کہ ماں باپ بچوں سے ایسی محبت کرتے ہیں کہ اُن کے تکفّل میں ہر قسم کے دُکھ شرح صدر سے اُٹھاتے ہیں یہاں تک کہ اُن کی زندگی کے لئے مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔‘‘ (ملفوظات جلد 1 صفحہ 315۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پھر آپ نے فرمایا:۔ ’’فَلَا تَقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا (بنی اسرائیل24: )یعنی اپنے والدین کو بیزاری کا کلمہ مت کہو اور ایسی باتیں اُن سے نہ کر جن میں اُن کی بزرگواری کا لحاظ نہ ہو۔ اس آیت کے مخاطب تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن دراصل مرجع کلام اُمّت کی طرف ہے۔‘‘ (یعنی گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے لیکن اصل میں اُمّت مخاطب ہے۔) ’’کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے والد اور والدہ آپ کی خورد سالی میں ہی فوت ہو چکے تھے۔ اور اس حکم میں ایک راز بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس آیت سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ تُو اپنے والدین کی عزت کر اور ہر ایک بول چال میں اُن کے بزرگانہ مرتبہ کا لحاظ رکھ تو پھر دوسروں کو اپنے والدین کی کس قدر تعظیم کرنی چاہیئے۔ اور اسی کی طرف یہ دوسری آیت اشارہ کرتی ہے۔ وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْااِلَّا اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (بنی اسرائیل: 24) یعنی تیرے ربّ نے چاہا ہے کہ تُو فقط اُسی کی بندگی کر اور والدین سے احسان کر۔ اس آیت میں بت پرستوں کو جو بت کی پوجا کرتے ہیں، سمجھایا گیا ہے کہ بُت کچھ چیز نہیں ہیں اور بتوں کا تم پر کچھ احسان نہیں ہے۔ اُنہوں نے تمہیں پیدا نہیں کیا اور تمہاری خورد سالی میں وہ تمہارے متکفّل نہیں تھے۔ اور اگر خدا جائز رکھتا کہ اُس کے ساتھ کسی اَور کی بھی پرستش کی جائے تو یہ حکم دیتا کہ تم والدین کی بھی پرستش کرو کیونکہ وہ بھی مجازی ربّ ہیں۔ اور ہر ایک شخص طبعاً یہاں تک کہ درند چرند بھی اپنی اولاد کو اُن کی خورد سالی میں‘‘ یعنی چھوٹے ہوتے ’’ضائع ہونے سے بچاتے ہیں۔ پس خدا کی ربوبیت کے بعد اُن کی بھی ایک ربوبیت ہے اور وہ جوش ربوبیت کا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔‘‘ (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 213-214)
یعنی وہ جو پالنے کا جوش ہے، بچوں کی طرف نگہداشت کا جوش ہے، بچوں سے محبت اور پیارہے، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھ دیا گیا ہے۔ پس یہ وہ مقام ہے جو والدین کا ہے جسے ہمیشہ ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’مٹی میں ملے اُس کی ناک، مٹی میں ملے اُس کی ناک۔‘‘ یہ الفاظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ دہرائے۔ یعنی ایسا شخص بدقسمت اور قابل مذمّت ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ وہ کونسا شخص ہے؟ آپؐ نے فرمایا: وہ شخص جس نے بوڑھے ماں باپ کو پایا اور پھر اُن کی خدمت کر کے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔‘‘ (صحیح مسلم کتاب البرو الصلۃ و الآداب باب رغم انف من ادرک… حدیث نمبر2551)
پھران آیات میں جو اگلا حکم ہے اُس میں فرمایا کہ وَلَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُم خَشْیَۃَ اِمْلَا قٍ (بنی اسرائیل: 32)ہ رزق کی تنگی کی وجہ سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔ اس کے بھی کئی معنی ہیں۔ یہاں قرآنِ کریم کے احکام کی ایک اور خوبصورتی بھی واضح ہوتی ہے کہ پہلے اولاد کو کہا کہ تم نے والدین کی خدمت کرنی ہے، اُن سے احسان کا سلوک کرنا ہے، اُن کی کسی بات پر بھی اُف نہیں کرنا۔ انسان کو اعتراض تو اُسی صورت میں ہوتا ہے جب کوئی بات بری لگے۔ تو فرمایا کہ کوئی بات والدین کی بری بھی لگے تب بھی تم نے جواب نہیں دینا بلکہ اس کے مقابلے پر بھی تمہاری طرف سے رحم اور اطاعت کا اظہار ہونا چاہئے۔ اب والدین کو حکم ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرو۔ کوئی امر اس تربیت میں مانع نہ ہو۔ غربت بھی اس میں حائل نہ ہو۔ پس یہ والدین پر فرض کیا گیا ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کا ایسا خیال رکھو کہ وہ روحانی اور خلاقی لحاظ سے مردہ نہ ہو جائیں۔ اُن کی صحت کی طرف توجہ نہ دے کر اُنہیں قتل نہ کرو۔ بعض ناجائز بچتیں کر کے اُن کی صحت بربادنہ کرو۔ پس ماں باپ کو جب ربوبیت کا مقام دیا گیا ہے تو بچوں کی ضروریات کا خیال رکھنا اُن پر فرض کیا گیا ہے۔ بچوں کو معاشرے کا بہترین حصہ بنانا ماں باپ پر فرض کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر یہ نہ کیا جائے تو یہ اولاد کے قتل کے مترادف ہے۔ کوئی عقل رکھنے والا انسان ظاہری طور پر تو اپنی اولاد کو قتل نہیں کرتا۔ سوائے چند سر پھروں کے یا وہ جو خدا تعالیٰ کو بھول گئے ہیں، جن کی صرف اپنی نفسانی خواہشات ہوتی ہیں، جن کی مثالیں یہاں ملتی رہتی ہیں، جن کا ذکر وقتاً فوقتاً اخبارات میں آتا رہتا ہے کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کو قتل کر دیا یا پھر ایسے واقعات غریب ممالک میں بھی ہوتے ہیں کہ ماں یا باپ نے بعض حالات سے تنگ آ کر بچوں سمیت اپنے آپ کو جلا لیا تو وہ ایک انتہائی مایوسی کی کیفیت ہے اور جنونی حالت ہے لیکن عام طور پر اس طرح نہیں ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا اس آیت کے مختلف معنے ہیں، قتل کے مختلف معنے ہیں۔ ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اپنی اولاد کی اگر صحیح تربیت نہیں کر رہے، اُن کی تعلیم پر توجہ نہیں ہے تویہ بھی اُن کا قتل کرنا ہے۔ بعض لوگ اپنے کاروبار کی مصروفیت کی وجہ سے اپنے بچوں پر توجہ نہیں دیتے، اُنہیں بھول جاتے ہیں جس کی وجہ سے بچے بگڑ رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ شکایات اب جماعت میں بھی پائی جاتی ہیں۔ مائیں شکایت کرتی ہیں کہ باپ باہر رہنے کی وجہ سے، کاموں میں مشغول رہنے کی وجہ سے، گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں پر توجہ نہیں دیتے اور بچے بگڑتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر جب بچے teenage میں آتے ہیں، جوانی میں قدم رکھ رہے ہوتے ہیں تو اُنہیں باپ کی توجہ اور دوستی کی ضرورت ہے۔ مَیں پہلے بھی کئی دفعہ اس طرف توجہ دلا چکا ہوں، ورنہ باہر کے ماحول میں وہ غلط قسم کی باتیں سیکھ کر آتے ہیں اور یہ بچوں کا اخلاقی قتل ہے۔ باپ بیشک سو تاویلیں پیش کرے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں بچوں کے لئے ہی کر رہے ہیں لیکن اُس کمائی کا کیا فائدہ، اُس دولت کا کیا فائدہ جو بچوں کی تربیت خراب کر رہی ہے۔ اور پھر اگر یہ دولت چھوڑ بھی جائیں تو پھر کیا پتہ یہ بچے اُسے سنبھال بھی سکیں گے یا نہیں۔ دولت بھی ختم ہو جائے گی اور بچے بھی۔ پھر اس کی ایک صورت یہ بھی ہے اور یہ مغربی ممالک میں بھی پھیل رہی ہے، ہماری جماعت میں بھی کہ مائیں بھی کاموں پر چلی جاتی ہیں یا گھروں پر پوری توجہ نہیں دیتیں۔ کسی نہ کسی بہانے سے ادھر اُدھر پھر رہی ہوتی ہیں۔ عموماً کام ہی ہو رہے ہوتے ہیں کہ نوکریاں کر رہی ہوتی ہیں۔ بچے سکولوں سے گھر آتے ہیں تو اُنہیں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ماؤں کا بہانہ یہ ہوتا ہے کہ گھر کے اخراجات کے لئے کمائی کرتی ہیں لیکن بہت ساری تعداد میں ایسی بھی ہیں جو اپنے اخراجات کے لئے یہ کمائی کر رہی ہوتی ہیں۔ اور جب تھکی ہوئی کام سے آتی ہیں تو بچوں پر توجہ نہیں دیتیں۔ یوں بچے بعض دفعہ عدمِ توجہ کی وجہ سے، احساسِ کمتری کی وجہ سے ختم ہو رہے ہوتے ہیں۔ بیشک ایسی بیویاں اور مائیں بھی ہیں جن کے بارے میں اطلاعات ملتی رہتی ہیں جن کے خاوندنکمّے ہیں اور خاوندوں کے نکمّے پن کی وجہ سے مجبور ہوتی ہیں کہ کام کریں۔ پس ایسے خاوندوں کو اور ایسے باپوں کو بھی خوفِ خدا کرنا چاہئے کہ وہ اپنے نکمے پن کی وجہ سے اپنی اولاد کے قتل کا موجب نہ بنیں۔ پھر خاوند اگر اپنی بیویوں کا مناسب خیال نہیں رکھ رہے تو یہ بھی ایک قتل ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی ایک بڑی اچھی مثال دی ہے۔ فرمایا کہ حمل کے دوران اگر عورت کی خوراک کا خیال نہیں رکھا جا رہا اور اولاد بھی کمزور ہو رہی ہے تو یہ بھی اولاد کا قتل ہے۔ پھر اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ غربت کے خوف سے فیملی پلاننگ کرنا، یا بچوں کی پیدائش کو روکنا۔ بچوں کی پیدائش کو صرف ماں کی صحت کی وجہ سے روکنا جائز ہے۔ یا بعض دفعہ ڈاکٹر بچے کی حالت کی وجہ سے یہ مشورہ دیتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں اور بچہ ضائع کرنے کو کہتے ہیں کیونکہ ماں کی صحت داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس لئے بچے کو ضائع کرانا اُس صورت میں جائز ہے لیکن غربت کی وجہ سے نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَاِیَّاکُمْ (بنی اسرائیل: 32) ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور اُن کو بھی۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْراً (بنی اسرائیل: 32) کہ یہ قتل بہت بڑا جرم ہے۔
پس سچے مسلمان جو ہیں، پکے مسلمان جو ہیں وہ کبھی ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔ کبیرہ گناہ کی بات نہیں بلکہ وہ چھوٹے گناہوں سے بھی بچتے ہیں۔ پس ہمیں اس طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ دیں۔ اُن کو وقت دیں۔ اُن کی پڑھائی کی طرف توجہ دیں۔ اُن کو جماعت کے ساتھ جوڑنے کی طرف توجہ دیں۔ اپنے گھروں میں ایسے ماحول پیدا کریں کہ بچوں کی نیک تربیت ہو رہی ہو۔ بچے معاشرے کا ایک اچھا حصہ بن کر ملک و قوم کی ترقی میں حصہ لینے والے بن سکیں۔ اُن کی بہترین پرورش اور تعلیم کی ذمہ داری بہر حال والدین پر ہے۔ پس والدین کو اپنی ترجیحات کے بجائے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ باپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بچوں کی تربیت کا کام صرف عورتوں کا ہے اور نہ مائیں صرف باپوں پر یہ ذمہ داری ڈال سکتی ہیں۔ یہ دونوں کا کام ہے اور بچے اُن لوگوں کے ہی صحیح پرورش پاتے ہیں جن کی پرورش میں ماں اور باپ دونوں کا حصہ ہو، دونوں اہم کردار ادا کر رہے ہوں۔ یہاں ان ملکوں میں دیکھ لیں، طلاقوں کی وجہ سے سنگل پیرنٹس (Single Parents) بچے کافی تعداد میں ہوتے ہیں اور وہ برباد ہو رہے ہوتے ہیں۔ جن سکولوں میں یہ پڑھ رہے ہوتے ہیں اُن سکولوں کی انتظامیہ بھی تنگ آئی ہوتی ہے۔ اُن سکولوں کے ارد گرد کے ماحول میں پولیس بھی تنگ آئی ہوتی ہے۔ جرائم پیشہ لوگوں میں اس قسم کے بچے ہی شامل ہوتے ہیں جو شروع سے ہی خراب ہو رہے ہوتے ہیں، جن کو ماں باپ کی صحیح توجہ نہیں مل رہی ہوتی۔ یہاں مَیں یہ قابلِ فکر بات بھی اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ہاں بھی طلاقوں کا رجحان بہت زیادہ بڑھ رہا ہے۔ اس لئے بچے بھی برباد ہو رہے ہیں۔ بعض دفعہ شروع میں طلاقیں ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ بچوں کی پیدائش کے کئی سال بعد، تو ماں اور باپ دونوں کو اپنی اَناؤں اور ترجیحات کے بجائے بچوں کی خاطر قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآنی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یہ تین (احکامات) بیان ہوئے ہیں، باقی انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ بیان کروں گا۔
قرآن کریم اور رمضان کے مہینے کا ایک خاص تعلق ہے۔ اس تعلق کا فائدہ تبھی ہے جب ہم رمضان کے مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ اس کے احکامات پر غور کریں اور ان کو اپنی زندگیوں کا حصّہ بنانے کی کوشش کریں۔ عبادت الٰہی، والدین سے حسن سلوک اور تربیت اولاد سے متعلق قرآنی احکامات کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تشریح اور احباب جماعت کو اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ 26جولائی 2013ء بمطابق26 وفا 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔