ہر قسم کی فحشاء سے بچنے کے متعلق نصائح
خطبہ جمعہ 2؍ اگست 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں سورۃ الانعام کی آیات 152 اور 153 کے حوالے سے مَیں اُن احکامات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ جو اُس میں بیان کئے ہوئے ہیں۔ تین امور یعنی شرک سے بچنے، والدین سے حسنِ سلوک اور والدین کے لئے اولاد کی تربیت کی اہمیت کے بارے میں بیان ہوا تھا۔
باقی احکامات جو ان آیات میں ہیں اور جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ۔ کہ جو تمہارے رب نے تم پر حرام کئے ہیں۔ ان احکامات کے بارے میں کچھ ذکر کروں گا جو ان آیات میں بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی شاید آج ختم نہیں ہوں گے۔
بہرحال چوتھی بات جو بیان کی گئی وہ یہ ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوْا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ۔ (الانعام: 152) اور فحشاء کے قریب بھی نہ جاؤ، نہ ظاہری فحشاء اور بے حیائیوں کے، نہ چھپی ہوئی بے حیائیوں کے۔ اس ایک حکم میں مختلف قسم کی بے حیائیوں اور برائیوں سے روکا گیا ہے۔ الْفَوَاحِشَ کے مختلف معنی ہیں۔ اس کے معنی زنا بھی ہیں۔ اس کے معنی زیادتیوں میں بڑھنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی اخلاق سے گری ہوئی اور اخلاق کو پامال کرنے والی حرکات کے بھی ہیں۔ اس کے معنی قبیح گناہ اور شیطانی حرکتوں کے بھی ہیں۔ ہر بری بات کہنے اور کرنے کے بھی ہیں۔ اس کے معنی بہت بخیل ہونے کے بھی ہیں۔ پس اس حکم میں ذاتی اور معاشرتی برائیوں کا قلع قمع کیا گیا ہے، یا وہ باتیں جن سے گھر، ماحول اور معاشرے میں بے حیائیاں پھیلتی ہیں اُن کا سدّ باب کیا گیا ہے۔
اگر زنا کے حوالے سے اس کی بات کریں تو یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کی قرآنِ کریم میں دوسری جگہ پر معین سزا بھی ہے۔ بہر حال یہ ایک ایسا گناہ اور بے حیائی ہے جس میں ملوّث انسان اگر شادی شدہ ہے تو اپنے بیوی بچوں کے حقوق بھول جاتا ہے۔ اس کو اس بے حیائی میں پڑ کرخیال ہی نہیں رہتا کہ میرے کیا حقوق ہیں۔ اگر عورت ہے تو اپنے بچوں اور خاوند کے حق اور ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہی ہوتی، اُن کو بھول جاتی ہے۔ اگر غیرشادی شدہ ہے تو معاشرے میں غلاظت اور بے حیائی پھیلانے کا مرتکب ہے۔ غلط وعدے کر کے بعض لوگ ناجائز طور پر تعلقات قائم کرتے ہیں اور جب گھریلو اور خاندانی دباؤ یا معاشرے کے دباؤ یا خود جھوٹے وعدے کی وجہ سے وہ تعلقات بیچ میں ٹوٹ جاتے ہیں تو مَردوں کو تو زیادہ فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہمارا معاشرہ خاص طور پر جو ایشین معاشرہ ہے، وہ مَردوں کی زیادہ پردہ پوشی کرتا ہے لیکن عورت کی زندگی برباد ہو جاتی ہیں۔ اور اس کی مثالیں اخباروں میں عام آتی ہیں۔ اور پھر ایسے تعلقات کی وجہ سے اولاد ہو جائے تو پھر ایسے لوگ جو ہیں وہ اولاد کو اُس کے حق سے محروم کر کے قتل اولاد کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں۔ یا ایسی اولاد قتلِ اولاد کے زُمرہ میں آ جاتی ہے۔
یہاں ان ممالک میں تو اگر پتہ چل جائے تو قانون کچھ نہ کچھ حقوق دلانے کی کوشش کرتا ہے اور دلواتا ہے لیکن بہت سے ایسے ہیں جو اولاد کو عملاً قتل کر دیتے ہیں۔ اور غریب ملکوں میں تو کوئی حق بھی نہیں ہے۔ اگرکوئی امیر آدمی ہے اور یہ بے حیائی اور فحاشی کے مرتکب ہوتے ہیں تو تو پھر کوئی قانون اُسے نہیں پوچھے گا۔ ابھی دو دن پہلے ہی پاکستان کے حوالے سے اخبار میں یہ خبر تھی کہ اس طرح کسی کے ہاں ناجائز بچہ پیدا ہوا اور پھر الٹا پولیس نے اُس غریب عورت پر مقدمہ قائم کیا اور مرد کو کچھ نہیں کہا گیا کیونکہ وہ صاحبِ حیثیت تھا۔ یہ تو اِکّا دُکّا واقعات ہیں جو باہر نکل آتے ہیں۔ یہ پتہ نہیں کہ کتنے ایسے واقعات ہیں جنہوں نے کئی خاندانوں کو برباد کر دیا ہے۔ پس یہ خدا تعالیٰ کے حکموں سے دُوری کی وجہ سے ہے۔ غیروں کو ہم کیا کہیں، خود مسلمان کہلانے والے اور اسلامی قوانین کا نعرہ لگانے والے ملکوں کا یہ حال ہے کہ وہاں اس قسم کی بے حیائیاں ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان فواحش کے قریب بھی نہ جاؤ۔ یعنی ایسی تمام باتیں جو فحشاء کی طرف مائل کرتی ہیں اُن سے رُکو۔ اس زمانے میں تو اس کے مختلف قسم کے ذریعے نکل آئے ہیں۔ اس زمانے میں انٹرنیٹ ہے، اس پر بیہودہ فلمیں آ جاتی ہیں، ویب سائٹس پر، ٹی وی پر بیہودہ فلمیں ہیں، بیہودہ اور لغو قسم کے رسالے ہیں، ان بیہودہ رسالوں کے بارے میں جو پورنوگرافی وغیرہ کہلاتے ہیں اب یہاں بھی آواز اُٹھنے لگ گئی ہے کہ ایسے رسالوں کو سٹالوں اور دکانوں پر کھلے عام نہ رکھا جائے کیونکہ بچوں کے اخلاق پر بھی بُرا اثر پڑ رہا ہے۔ ان کو تو آج یہ خیال آیا ہے لیکن قرآنِ کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ حکم دیا کہ یہ سب بے حیائیاں ہیں، ان کے قریب بھی نہ پھٹکو۔ یہ تمہیں بے حیا بنا دیں گی۔ تمہیں خدا سے دور کر دیں گی، دین سے دور کر دیں گی بلکہ قانون توڑنے والا بھی بنا دیں گی۔ اسلام صرف ظاہری بے حیائیوں سے نہیں روکتا بلکہ چھپی ہوئی بے حیائیوں سے بھی روکتا ہے۔ اور پردے کا جو حکم ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ پردے اور حیا دار لباس کی وجہ سے ایک کھلے عام تعلق اور بے تکلفی میں جو لڑکے اور لڑکی میں پیدا ہو جاتی ہے، ایک روک پیدا ہو گی۔ اسلام بائبل کی طرح یہ نہیں کہتا کہ تم عورت کو بری نظر سے نہ دیکھو بلکہ کہتا ہے کہ نظریں پڑیں گی تو قربت بھی ہو گی اور پھر بے حیائی بھی پیدا ہو گی۔ اچھے برے کی تمیز ختم ہو گی اور پھر ایسے کھلے عام میل جول سے جب اس طرح لڑکا اور لڑکی، مرد اور عورت بیٹھے ہوں گے تو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق تیسرا تم میں شیطان ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث نمبر 117)
یہ جو انٹرنیٹ وغیرہ کی میں نے مثال دی ہے، اس میں فیس بک (Facebook) اور سکائپ (Skype) وغیرہ سے جو چیٹ (Chat) وغیرہ کرتے ہیں، یہ شامل ہے۔ کئی گھر اس سے میں نے ٹوٹتے دیکھے ہیں۔ بڑے افسوس سے مَیں کہوں گا کہ ہمارے احمدیوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کے اس حکم کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے کہ فحشاء کے قریب بھی نہیں پھٹکنا کیونکہ شیطان پھر تمہیں اپنے قبضے میں کر لے گا۔
پس یہ قرآنِ کریم کے حکم کی خوبصورتی ہے کہ یہ نہیں کہ نظر اُٹھا کے نہیں دیکھنا، اور نہ نظریں ملانی ہیں بلکہ نظروں کو ہمیشہ نیچے رکھنا ہے اور یہ حکم مرد اور عورت دونوں کو ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو۔ اور پھر جب نظریں نیچی ہوں گی تو پھر ظاہر ہے یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ جو آزادانہ میل جول ہے اُس میں بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ فحشاء کو نہیں دیکھنا، تو جو بیہودہ اور لغو اور فحش فلمیں ہیں، جو وہ دیکھتے ہیں اُن سے بھی روک پیدا ہو گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ ایسے لوگوں میں نہیں اُٹھنا بیٹھنا جو آزادی کے نام پر اس قسم کی باتوں میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے قصے اور کہانیاں سناتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ ہی سکائپ (Skype) اور فیس بُک (Facebook) وغیرہ پر مرد اور عورت نے ایک دوسرے سے بات چیت کرنی ہے، ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنی ہیں، نہ ہی ان چیزوں کو ایک دوسرے سے تعلقات کا ذریعہ بنانا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سب ظاہر یا چھپی ہوئی فحشاء ہیں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ تم اپنے جذبات کی رَو میں زیادہ بَہ جاؤ گے، تمہاری عقل اور سوچ ختم ہو جائے گی اور انجامکار اللہ تعالیٰ کے حکم کو توڑ کر اُس کی ناراضگی کا موجب بن جاؤ گے۔
پھر آجکل کے زمانے میں ایک ایسی بے حیائی کو ہوا دی جا رہی ہے جو فطرت کے نہ صرف خلاف ہے بلکہ جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک قوم کو تباہ کر دیا تھا۔ حکومتیں اب ایک ہی جنس کی شادی کے قانون بنا رہی ہیں۔ یعنی فحشاء کو ہوا دینے اور پھیلانے کی حکومتی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے اور قانون بنائے جا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حکومتوں کے سربراہ وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ ہم چاہیں گے کہ اب تمام دنیا میں ہم جنسوں کی شادی کا قانون بنے اور ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اس بارے میں دنیا میں کوشش کریں گے۔ ایک وزیراعظم کی طرف سے اس طرح کا بیان آیا تھا۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر خدا تعالیٰ کی پکڑ کو آواز دے رہے ہیں۔ پھر ایک ملک کے بڑے پادری ہیں جو غالباً ساؤتھ افریقہ کے ہیں۔ حالانکہ افریقن اب تک یہی کہتے رہے ہیں کہ اس قسم کی غیر فطری شادیاں جو ہیں وہ نہیں ہونی چاہئیں اور یہ قانون نہیں بننے چاہئیں۔ اور پھر یہ پادری صاحب جو بائبل پڑھنے والے، اُس کا پرچار کرنے والے، اُس کی تعلیم دینے والے ہیں، جس میں خود یہ لکھا ہوا ہے کہ اس کی وجہ سے قوم تباہ ہوئی۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ایسے شادی کرنے والے جوڑے جنت میں نہیں جائیں گے تو پھر میں جہنم میں جانا پسند کروں گا۔ تو یہ ان کا حال ہو چکا ہے۔
یہ آجکل کی دنیا میں فحاشی کی انتہا ہو چکی ہے۔ پس یاد رکھیں کہ یہ جو فحاشی ہے، اگر اسی طرح سرِ عام پھیلتی رہی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی طرف دنیا نے رُخ نہ کیا، اس کی طرف توجہ نہ کی تو پھر یہ قومیں بھی اپنے انجام کو دیکھ لیں گی۔ یہ اس دنیا کو بھی یقینا جہنم بنائے گی اور آخرت میں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اُس نے کیا سلوک کرنا ہے۔ بلکہ اب جو میڈیکل ریسرچ ہے اُس میں واضح طور پر یہ کہا جانے لگا ہے کہ ایڈز کا مرض ایسے لوگوں میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے جو مَردوں مَردوں اور عورتوں عورتوں کی شادیوں کے بھیانک جرم میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سزا دینے کے طریقے مختلف ہیں۔ ضروری نہیں کہ اگر ایک قوم کو پتھروں کی بارش برسا کر سزا دی تھی تو ہر قوم کو اسی طرح سزا دی جائے۔ HIV یا ایڈز کی یہ بیماری ایسی ہے جو دردناک اور خوفناک انجام تک لے جاتی ہے۔
پس جس تیزی سے دنیا میں فحاشی پھیلائی جا رہی ہے، ایک احمدی کا کام ہے کہ اُس سے بڑھ کراپنے خدا سے تعلق پیدا کر کے اپنے آپ کو اور دنیا کو اس تباہی کے خوفناک انجام سے بچانے کی کوشش کرے۔ یہ دنیا دار تو اپنے آپ کو تباہ کرنے پر تلے بیٹھے ہیں۔ دنیا دار اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے ایک ایسے طبقہ کو خوش کرنے کے لئے جو خدا تعالیٰ کے قانون کو توڑ رہا ہے، پوری دنیا کو فحشاء میں مبتلا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جس کا انجام پھر تباہی ہے۔ ان لوگوں کی ہمدردی کے لئے ہمیں انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ بہت رحم کرنے والا اور گناہ معاف کرنے والا بھی ہے، اُس نے مغفرت کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ وہ فرماتا ہے کہ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْظَلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوْاللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِھِمْ۔ وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ۔ (آل عمران: 136)کہ اور وہ لوگ جو کسی بے حیائی کے مرتب ہوں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں، پھر اللہ کو یاد کریں اور اپنے گناہوں کی معافی چاہیں۔ اور اللہ کے سوا کوئی بخش نہیں سکتا۔
فحشاء پر اگر اصرار نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہو تو خدا تعالیٰ بخش دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے۔ پس ہر قسم کے فحشاء جن کا میں نے شروع میں ذکر کیا تھا اس سے خود بھی بچنے اور بچنے کے راستے دکھانے کی ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے اور اُس کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ زیادتی نہ کرنے والوں کو معاف کر دیتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کا کام کریں یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اور پھر اپنے ایسے حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کریں اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں اور اپنے گناہ پر اصرار نہ کریں اُن کا خدا آمرزگار ہو گا۔ (یعنی وہ بخشنے والا خدا ہے) اور گناہ بخش دے گا۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 25۔ 26)
اللہ کرے ہر وہ شخص جو فحشاء میں مبتلا ہے، اُسے عقل آ جائے اور خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بچ جائے۔ اس بات کی وضاحت کی میں بہت ضرورت محسوس کر رہا تھا اس لئے میں نے اس کی کچھ وضاحت کی ہے کیونکہ یہ سوال آجکل بہت عام ہو چکا ہے۔
پھر اگلا حکم خدا تعالیٰ نے ان آیات میں یہ دیا ہے کہ وَلَا تَقْتُلُوْا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہ۔ (الانعام: 152) اور کسی جان کو جسے اللہ تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے، قتل نہ کرو۔ یہ حکم اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ معاشرے کے حقوق ادا کرو۔ اپنے بھائیوں، اپنے دوستوں، اپنے سے واسطہ پڑنے والوں کے حقوق عدل و انصاف سے ادا کرو۔ قتل صرف جان کا قتل نہیں ہے بلکہ تعلقات کو توڑنا، نا انصافی سے دوسروں کے حقوق پامال کرنا، یہ بھی قتل ہے۔ دوسروں کو جذباتی طور پر مجروح کرنا، یہ بھی قتل ہے۔ کسی کو اتنا زیادہ ذلیل و رسوا کرنا کہ گویا عملاً اُسے قتل کر دیا ہے، یہ بھی اسی زمرہ میں آتا ہے۔ اُس کی عزتِ نفس کو برباد کر دینا، یہ بھی قتل ہے۔ اسی طرح روحانی طور پر بھی قتل ہوتا ہے۔ بہر حال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ سب قتل ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے۔ ہر قتل کا آخری نتیجہ معاشرے میں فتنہ و فساد اور محرومیاں ہیں اور یہ چیزیں خدا تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِلَّا بِالْحَق سوائے اس کے جو سزا کا حقدار ہے، لیکن اس کے لئے بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ بدلے لینے کے لئے، اپنے کینے اور بغض نکالنے کے لئے قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ جو سزا کا حقدار ہے اُسے سزا دی جائے تو اس قدر سزا جتنا اُس کا جرم ہے۔ اور اس لئے سزا دی جائے کہ جرم کرنے والے کی اصلاح ہو اور معاشرے کا بہتر حصہ بن کر معاشرے کے فتنہ و فساد کو ختم کرنے کا ذریعہ بن سکے۔ لیکن یہاں بھی یہ بات واضح ہو کہ سزا دینے اور بدلے لینے کا حق ہر ایک کو نہیں ہے بلکہ قانون کو ہے۔ اور قانون انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے سزا دے، نہ کہ ظلم کرتے ہوئے۔ حتی کہ کسی قاتل کی سزا جو ہے اُس کا اختیار بھی کسی شخص یا مقتول کے ورثاء کو نہیں دیا گیا بلکہ یہ حق قانون کا ہے۔ یہ قانون تو آجکل بنائے جا رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت پہلے سے یہ حکم دیا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے تم اپنے مجرم کو سزا دو۔ اور اگر ایک قاتل کو بھی پھانسی کی سزا دینی ہے تو ایک قانون ہی دے گا۔ اسی طرح معاشرے میں قانون کے تحت دوسری سزائیں ہیں، قتل کا اگر ایک مطلب تعلقات کو ختم کرنا یا مقاطعہ کرنا یا بائیکاٹ کرنا ہے تو یہ اختیار بھی ذمہ دار ادارے کو ہے۔ ہماری جماعت میں بھی اگر سزا کا نظام رائج ہے تو اصلاح کے لئے، نہ کہ کسی ظلم اور زیادتی کے لئے۔ یا کسی بھی قسم کی ایسی سزا جو دی جاتی ہے وہ اصلاح کے لئے دی جاتی ہے، کسی ظلم کے لئے نہیں دی جاتی۔ کیونکہ یہ ناحق ظلم و زیادتی جو ہے یہ بھی قتل کے مترادف ہے۔ یہ میں نے دیکھا ہے اور کئی دفعہ نوٹ بھی کیا ہے کہ اگر فریقین میں مسئلہ پیدا ہو جائے، لڑائی ہو جائے، مقدمہ بازی ہو جائے تو ظاہر ہے کہ فیصلہ کرنے والا ادارہ اپنی عقل اور شواہد کے مطابق ایک فریق کو ذمہ دار قرار دے گا، قصور وار قرار دے گا۔ اور اُس کے لئے پھر اس کی سزا کی بھی سفارش ہوتی ہے۔ تو جو دوسرا فریق ہے، جس کو نقصان پہنچا ہوتا ہے وہ بعض دفعہ اس بات پر ناراض ہو جاتا ہے کہ تھوڑی سزا دی ہے، اس سے زیادہ دیں۔ یعنی فیصلہ اُن کے مطابق ہو۔ اگر اسی طرح فریقین کو فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو ایک قتل کے بعد دوسرا قتل ہوتا چلا جائے گا۔ اور قرآن ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم اس سے بچو۔ اصل مقصد سزا کا معاشرے سے ظلم کو ختم کرنا ہے اصلاح کرنا ہے، ظالم کو اپنے ظلم کا احساس دلانا ہے۔ اور دو مومنوں کے درمیان اگر ایسا مسئلہ ہے تو ظاہر ہے اُن کو جب احساس دلایا جائے تو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ پس یہ اصل غرض ہے یا سزا کا اصل مقصد ہے کہ اصلاح کی جائے اور اس ناحق قتل کو روکا جائے جو آپس کے جھگڑوں اور فسادوں کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہوتا ہے۔
اس کے بعد میں اب اگلے حکم پر آتا ہوں جو اُس سے اگلی آیت میں بیان ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ (الانعام: 153) اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ سوائے اس طریق کے جو اچھا ہے۔ اب یہاں خدا تعالیٰ معاشرے کے کمزور ترین طبقہ کے حق کی حفاظت کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ اگر صرف یہی ہو کہ تم نے یتیم کے مال کے قریب بھی نہیں جانا تو یتیم کے سرمائے یا جائیداد کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے فرمایا کہ یتیم کے مال تک تمہاری پہنچ احسن طریق پر ہو۔ اس طرز پر یتیم کے مال کو دیکھو کہ حتی الوسع کسی نقصان کا احتمال نہ ہو۔ یتیم کی جائیداد کو اُجاڑنے اور ختم کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ یتیم کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اُس کی جائیداد اور مال کا استعمال کرو۔
پس یہ لازمی حکم ہے کہ یتیم کے مال کی حفاظت کا انتظام تم نے کرنا ہے۔ ایک امین کی حیثیت سے قریبی عزیزوں نے، یا جس کے سپرد بھی یتیم کی ذمہ داری کی جائے، اُس نے یتیم کے مال کی حفاظت کرنی ہے، اُس کا خیال رکھنا ہے۔ جماعت نے اُس کے مال کی حفاظت کرنی ہے اور خیال رکھنا ہے۔ معاشرے نے اور ملک کے قانون نے اُس کے مال کی حفاظت کرنی ہے اور خیال رکھنا ہے۔ کس طرح حفاظت کرنی ہے؟ اُس کے لئے بہت ساری صورتیں ہیں۔ یتیموں کے مالوں کو اس طرح استعمال کرو یا کاروباروں میں لگاؤ کہ وہ مال بڑھیں تا کہ یتیموں کو، اُس گروہ کو جو ابھی اتنی عقل نہیں رکھتا، اُن بچوں کو جن کے ماں باپ کا سایہ اُن کے سر پر نہیں ہے فائدہ ہو۔ جن کی جائیدادیں ضائع ہونے کا خطرہ ہے، اُن کو احسن طریق پر اس طرح استعمال کرو، اس طرح انویسٹ (Invest) کرو، اس طرح کاروباروں میں لگاؤ کہ وہ مال بڑھے۔ پس ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو یتیم کے مال کی حفاظت کا حکم دے کر عزیزوں اور معاشرے پر ڈالی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ ذمہ داری ادا نہیں کرتے اور بہانے بہانے سے یتیم کے مال کو کھانے کی کوشش کرتے ہو، تو اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ فرمایا اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا (النساء: 11) اور جو لوگ ظلم سے یتیموں کے مال کھاتے ہیں، وہ یقینا اپنے پیٹوں میں آگ بھرتے ہیں۔ اور پھر فرمایا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا (النساء: 11) اور وہ یقینا شعلہ زن آگ میں داخل ہوں گے۔
قرآنِ کریم کے احکامات ایسے نہیں کہ صرف ایک فریق کا حق دلائیں تو دوسرے کا حق غصب کر لیں۔ اگر یہ حکم ہے کہ یتیموں کا مال ناجائز طریقے سے کھا کے اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہو تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے امانت اور دیانت کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر یتیم کے مال میں سے کچھ خرچ کر رہے ہو تو پھر یہ ظلم نہیں ہے۔ فرمایا کہ یتیم کی پرورش پر جو خرچ ہوتا ہے، اُس کی تعلیم پر، اُس کی تربیت پر جو خرچ ہوتا ہے، یہ خرچ کرنے کی تو اجازت ہے لیکن دیکھو ظلم نہ کرنا۔ امانت میں خیانت کرنے والے نہ بننا۔ فرمایا لَا تَاْکُلُوْھَآاِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا (النساء: 7) اُن کے جوان ہونے کے خوف سے اُن کے مال ناجائز طور پر اور جلدی جلدی نہ کھا جاؤ۔ فرمایا وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ (النساء: 7)اور جو کوئی صاحبِ حیثیت اور مالدار ہو، وہ اس مال سے بکلّی اجتناب کرے۔ لیکن اگر کوئی مجبور ہے، تعلیم اور جو دوسرے اخراجات اُس پر ہو رہے ہیں، وہ برداشت نہیں کر سکتا تو اُس کے بارے میں فرمایا کہ فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: 7) پس وہ مناسب طور پر اس مال میں سے لے سکتا ہے۔ اور مناسب کیا ہے؟ اُس یتیم پر جو اصل خرچ ہو رہاہے وہ یا اگر کسی کی بالکل ہی فقیری کی حالت ہے اور گزارہ بھی نہیں ہوتا اور پرورش کی وجہ سے اُس کی ذمہ داری چوبیس گھنٹے اُس کی نگہداشت پر ہے تو معمولی حق الخدمت لیا جا سکتا ہے۔ پس اس مال کے خرچ کی اس حد تک اجازت ہے۔ لیکن جو اُس مال کی حفاظت اور اُسے بڑھانے کا حکم ہے اُسے ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئے اور سچے امین اور سچے نگران کا حق ادا کرنا چاہئے۔ فرمایا حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ (الانعام: 153)یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت اور مضبوطی کی عمر کو پہنچ جائیں اور اپنے مال اور جائیداد کا انتظام و انصرام سنبھال سکنے والے ہوں۔ پس یہ حق ہے جو یتیم کا قائم ہے۔ ایک کمزور طبقے کا قائم ہے کہ اُس کے عاقل بالغ ہونے تک اُس کی جائیداد کی، اُس کے مال کی حفاظت کی جائے اور پھر جب وہ اُسے سنبھالنے کے قابل ہو جائے تو اُسے اُس کا مال لَوٹا دیا جائے۔ یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہئے کہ بعض دفعہ کوئی یتیم بالغ ہونے کے بعد عقل کے لحاظ سے اس سطح پر نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کر سکے۔ تو پھر اُس وقت تک، جب تک وہ اس قابل نہ ہو جائے، یا اگر بالکل ہی غبی ہے تو پھر مستقل طور پر اُس کے مال کی حفاظت فرض بنتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو باوجود غبی ہونے کے شادی کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر اُن کی شادی ہو جاتی ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے تو پھر اولاد کے جوان ہونے تک عزیزوں کا یا معاشرے کا اور جماعت کا یہ کام ہے کہ اس ذمہ داری کو نبھائیں اور ان کے مال کی حفاظت کریں۔ کمزوروں اور یتیموں کے حق اور پرورش کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں، اُن کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’اگر کوئی ایسا تم میں مالدار ہو جو صحیح العقل نہ ہو مثلاً یتیم یا نابالغ ہو اور اندیشہ ہو کہ وہ اپنی حماقت سے اپنے مال کو ضائع کر دے گا تو تم (بطور کورٹ آف وارڈس کے) وہ تمام مال اُس کا متکفل کے طور پر اپنے قبضہ میں لے لو اور وہ تمام مال جس پر سلسلہ تجارت اور معیشت کا چلتا ہے ان بیوقوفوں کے حوالے مت کرو اور اس مال میں سے بقدر ضرورت اُن کے کھانے اور پہننے کے لئے دے دیا کرو اور اُن کو اچھی باتیں قولِ معروف کی کہتے رہو۔ یعنی ایسی باتیں جن سے اُن کی عقل اور تمیز بڑھے اور ایک طور سے اُن کے مناسب حال اُن کی تربیت ہو جائے اور جاہل اور ناتجربہ کار نہ رہیں۔ اگر وہ تاجر کے بیٹے ہیں تو تجارت کے طریقے اُن کو سکھلاؤاور اگر کوئی اَور پیشہ رکھتے ہوں تو اس پیشہ کے مناسبِ حال اُن کو پختہ کردو۔ غرض ساتھ ساتھ اُن کو تعلیم دیتے جاؤ اور اپنی تعلیم کا وقتاً فوقتاً امتحان بھی کرتے جاؤ کہ جو کچھ تم نے سکھلایا انہوں نے سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ پھر جب نکاح کے لائق ہو جائیں یعنی عمر قریباً اٹھارہ برس تک پہنچ جائے اور تم دیکھو کہ اُن میں اپنے مال کے انتظام کی عقل پیدا ہو گئی ہے تو اُن کا مال اُن کے حوالہ کرو اور فضول خرچی کے طور پر اُن کا مال خرچ نہ کرو اور نہ اس خوف سے جلدی کر کے کہ اگر یہ بڑے ہو جائیں گے تو اپنا مال لے لیں گے، ان کے مال کا نقصان کرو۔ جو شخص دولتمند ہو اُس کو نہیں چاہئے کہ اُن کے مال میں سے کچھ حق الخدمت لیوے۔ لیکن ایک محتاج بطور معروف لے سکتا ہے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 346۔ 347)
فرمایا کہ: ’’عرب میں مالی محافظوں کے لئے یہ طریق معروف تھا کہ اگر یتیموں کے کارپرداز اُن کے مال میں سے لینا چاہتے تو حتی الوسع یہ قاعدہ جاری رکھتے کہ جو کچھ یتیم کے مال کو تجارت سے فائدہ ہوتا اُس میں سے آپ بھی لیتے۔ رأس المال کو تباہ نہ کرتے۔ سو اسی عادت کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی ایسا کرو۔ اور پھر فرمایا کہ جب تم یتیموں کو مال واپس کرنے لگو تو گواہوں کے رُوبرو اُن کو اُن کا مال دو اور جو شخص فوت ہونے لگے اور بچے اُس کے ضعیف اور صغیر السِنّ ہوں تو اُس کو نہیں چاہئے کہ کوئی ایسی وصیت کرے کہ جس میں بچوں کی حق تلفی ہو۔ جو لوگ ایسے طور سے یتیم کا مال کھاتے ہیں جس سے یتیم پر ظلم ہو جائے تو وہ مال نہیں بلکہ آگ کھاتے ہیں اور آخر جلانے والی آگ میں ڈالے جائیں گے‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 346۔ 347)
فرمایا: ’’اب دیکھو خدا تعالیٰ نے دیانت اور امانت کے کس قدر پہلو بتلائے۔ سو حقیقی دیانت اور امانت وہی ہے جو ان تمام پہلوؤں کے لحاظ سے ہو اور اگر پوری عقل مندی کو دخل دے کر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہ ہو تو ایسی دیانت اور امانت کئی طور سے چھپی ہوئی خیانتیں اپنے ہمراہ رکھے گی‘‘۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 346۔ 347)
اگر امانتداری میں تمام پہلوؤں کا لحاظ نہیں رکھا گیا تو پھر اس میں چھپی ہوئی خیانت بھی آ جائے گی۔ پس بہت محتاط ہو کر یہ حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ جب تقویٰ کے بارے میں بار بار تلقین فرماتا ہے تو اس لئے کہ اپنے جائزے لو اور دیکھو کہ کمزوروں کے حق ادا ہو رہے ہیں یا نہیں ہو رہے۔ امانت اور دیانت کے معیاروں کو پرکھتے رہو۔ یہ نہ ہو کہ ان کے نیچے چھپی ہوئی خیانتیں ہوں جو آگ کے گولے پیٹ میں بھرنے کا باعث بن جائیں۔ پھر خدا تعالیٰ یہ حکم فرماتا ہے کہ وَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ (الانعام: 153) اور انصاف کے ساتھ ماپ اور تول پورے پورے دو۔ یہاں اب عمومی طور پر اپنے کاروباروں کو انصاف اور ایمانداری کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ادا کرنے کا حکم ہے۔ پہلے یتیموں اور کمزوروں کا حق قائم کیا اور ایمانداری سے اُن کا حق ادا کرنے کا حکم دیا تو اب آپس کے کاروباروں کو صفائی اور ایمانداری سے بجا لانے کا حکم ہے۔ کسی قسم کا دھوکہ نہیں ہونا چاہئے۔ اگر دوسرا فریق لا علم ہے تب بھی دھوکہ نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم کوئی جِنس بیچ رہے ہو تو اگر جنس میں کسی قسم کی کمی ہے تو اُس کو سامنے رکھو تاکہ خریدار کو پتہ ہو کہ جو مال میں خرید رہا ہوں، اُس میں یہ نقص ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب من باع عیبا فلیبینہ حدیث 2246)
ایک دوسری جگہ کاروباری لین دین اور ماپ تول کے صحیح کرنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلاً (بنی اسرائیل: 36) یہ بات سب سے بہتر اور انجام کے لحاظ سے اچھی ہے۔ یعنی اچھے تاجر صحیح ماپ تول کرنے والے تاجر کی شہرت بھی اچھی ہوتی ہے اور اُس کے پاس پھر زیادہ گاہک بھی آتے ہیں۔ نتیجۃً اُس کا کاروبار بڑی تیزی سے ترقی کرتا ہے۔ اگر دھوکہ ہو تو کاروبار ختم ہو جاتا ہے۔
ایک دوسری جگہ یہ بھی خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ جو دھوکہ دہی ہے یہ فساد کا باعث بنتی ہے لیکن مشکل یہ ہے بلکہ افسوس یہ ہے کہنا چاہئے کہ جتنا زیادہ قرآنِ کریم نے احکام کھول کھول کر بیان فرمائے ہیں اتنے ہی مسلمان اُس ایمانداری کے معیار سے نیچے گرتے چلے جا رہے ہیں۔ کہاں تو مسلمانوں کے ایمان کا اور امانت اور دیانت کا یہ حال تھا کہ ایک شخص اپنے گھوڑے کو بیچنے کے لئے بازار میں لایا اور کہا کہ اس کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ اور ایک دوسرے صحابی نے اُسے دیکھا اور پسند کیا اور کہا کہ میں اُسے خریدوں گا، یہ مجھے پسند ہے لیکن اس کی قیمت پانچ سو درہم نہیں ہے۔ وہ آدمی سوچتا ہے کہ شاید کم بتائے بلکہ بالکل الٹ فرمایا کہ یہ ایسا اعلیٰ گھوڑا ہے کہ اس کی قیمت دو ہزار درہم ہونی چاہئے۔ اس لئے میرے سے دوہزار درہم لے لو۔ اب بیچنے والے اور خریدنے والے کی بحث چل رہی ہے۔ بیچنے والا پانچ سو درہم سے اوپر نہیں جا رہا اور خریدنے والا دوہزار درہم سے نیچے نہیں آ رہا۔ (ماخوذ از المعجم الکبیر للطبرانی جلد دوم صفحہ 334-335 ابراہیم بن جریر عن ابیہ حدیث 2395 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
تو یہ معیار تھا جو مسلمانوں کا تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اور آپ کے صحابہ کی صحبت میں رہنے والوں کا تھا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے اپنا بھی ایک واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ 19۔ 20 سال کے تھے تو سیر کے لئے کشمیر گئے۔ وہاں ایک قسم کے اونی قالین بنائے جاتے ہیں جو خاص طور پر بڑے مشہور ہیں۔ وہ اُنہیں پسند آئے۔ کچھ عرصہ انہوں نے ٹھہرنا تھا، سیر کرنی تھی۔ اس لئے سیر کے لئے چلے گئے۔ انہوں نے جس شہر میں قالین دیکھے تھے وہاں قالین بنانے والے ایک شخص نے کہا کہ میں بہت اعلیٰ بناتا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے مجھے تحفہ لے جانے کے لئے تین چار ایسے قالین بنا دو اور اُس کا سائز بتایا۔ کہتے ہیں جب میں واپس آیا تو جو سائز بتائے تھے اُن سے ہر قالین ہر طرف سے، چوڑائی میں بھی، لمبائی میں بھی چھوٹا تھا اور کافی فرق تھا۔ چھ چھ انچ، فُٹ فُٹ چھوٹا تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ تمہیں میں نے یہ سائز بتایا تھا، یہ سامنے گواہ ہیں، ان کے سامنے بتایا تھا، اُس کے باوجود تم نے اس کے مطابق نہیں بنایا اور قیمت تم اتنی مانگ رہے ہو۔ تو بجائے اس کے کہ شرمندہ ہوتا، یہ کہتا کہ ٹھیک ہے قیمت کم کر دیں۔ کہنے لگا میں مسلمان ہوں اور بار بار یہی رَٹ لگائے جائے کہ میں مسلمان ہوں اور آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ تم نے ایسا بنایا ہے اور ویسا بنایا ہے۔ (ماخوذ از تقریر سیالکوٹ انوارالعلوم جلد 5صفحہ 108-109)
تو اب جب بھی غلط کام ہو، مسلمان کہہ کر اُس کو جائز کرنا، یہ عام ہو گیا ہے۔ اور پھر یہ پرانی بات نہیں ہے۔ مجھے بھی ایک شخص جو چاول کے کاروبار میں تھے، بتانے لگے کہ ہم پاکستانی اچھا باسمتی چاول جب باہر بھیجتے ہیں تو اُس میں دوسرا کم درجے کا لمبا چاول کس طرح شامل کرتے ہیں اور وہ طریقِ کار یہ ہے کہ ایک لوہے کا آٹھ نو انچ کا ٹین کا پائپ ہوتا ہے، اُس کو بیگ کے درمیان میں رکھتے ہیں اور اُس پائپ کے اندر کم درجے کا چاول بھرتے ہیں اور اس کے ارد گرد اعلیٰ کوالٹی کا چاول بھیجتے ہیں۔ اور باہر سے جب وہ دیکھتے ہیں تو اعلیٰ کوالٹی ہوتی ہے، باسمتی چاول ہوتاہے، اور کسی کو پتہ نہیں لگتا۔ جب پائپ اُس کے بعدنکال لیتے ہیں وہ مکس (Mix) ہو جاتا ہے، یہ بھی نہیں خیال ہوتا کہ اندر کوئی چیز پڑی ہے۔ چاول بہر حال چاول ہے۔ تو کاروباروں کی یہ حالت ہے۔ اسی وجہ سے ایک عرصہ پہلے سے ہندوستانی مارکیٹ نے چاول کی مارکیٹ پر قبضہ کر لیا ہے، حالانکہ ہندوستان کا چاول پاکستان سے کم کوالٹی کا ہے۔ اور اب شاید کچھ ایکسپورٹر، کیونکہ احمدی بھی ایکسپورٹ کرتے ہیں، خود بہتر کوالٹی کا لے کر آتے ہوں تو لاتے ہوں۔ نہیں تو اس چور بازاری کی وجہ سے باہر کی مارکیٹ نے پاکستانی ایکسپورٹر سے چاول لینا ہی بند کر دیاہے۔ ان کو اب پتہ لگ گیا ہے کہ اس طرح یہ دھوکہ دہی ہوتی ہے۔ اس لئے اب ہندوستانی ایکسپورٹر جو ہے وہی چاول خریدتا ہے، اُس کی گریڈنگ (grading) کرتا ہے اور پھر آگے بھیجتا ہے۔ اور یہ سوچتے ہی نہیں کہ کاروبار میں اس سے برکت بھی نہیں رہتی اور کاروبار بھی ختم ہو گیا۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر خرید و فروخت کرنے والے سچ بولیں اور مال میں اگر کوئی عیب یا نقص ہے اُسے بیان کر دیں تو اللہ تعالیٰ اُن کے سودے میں برکت دے گا۔ اور اگر وہ دونوں جھوٹ سے کام لیں، خریدنے والا بھی اور بیچنے والا بھی اور کسی عیب کو چھپائیں گے یا ہیرا پھیری سے کام لیں گے تو اس سودے میں سے برکت نکل جائے گی۔ (صحیح البخاری کتاب البیوع باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا حدیث 2079)
پس اگر برکت حاصل کرنی ہے تو پھر امانت اور دیانت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے۔ اور یہ تقاضے پورے کرتے ہوئے کاروبار کرنا یہی ایک اچھے مسلمان کا شیوہ ہونا چاہئے۔ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دینے کے لئے کچھ تولو تو جھکتا ہوا تولو۔ یعنی کہ اگر کچھ زیادہ بھی چلا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (سنن ابن ماجہ کتاب التجارات باب الرجحان فی الوزن حدیث 2222)
پس یہ تجارتی امانت کا معیار ہے جو ایک مسلمان کا ہونا چاہئے۔ اگر تاجر امانت دار ہو، صحیح طرح کاروبار کرنے والا ہو تو پھر جو اُس کا مقام ہے وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ کتنا بڑا مقام ہے۔ آپؐ نے فرمایاکہ سچا اور دیانتدار تاجر نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی معیت کا حقدار ہے۔ (سنن الترمذی کتاب البیوع باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبیﷺ ایاھم حدیث نمبر 1209)
اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والوں کو اپنی امانت اور دیانت کے معیار اللہ تعالیٰ کے حکموں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ احمدی بھی بہت سارے کاروباروں میں ملوث ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے بھی جائزے لینے چاہئیں کہ کیا ہم بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگیاں گزار رہے ہیں؟ کیا ہم بھی اپنوں میں کمزوروں کے حقوق ادا کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے کاروباروں میں انصاف اور دیانتداری سے کام لے رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق ادا کرنے والے ہیں؟ کیا ہم اپنے آپ کو برائیوں سے بچانے والے ہیں؟ یہ رمضان جو آتا ہے تو اس میں جب نیکی کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے تو ان باتوں کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ہر قسم کی ان برائیوں سے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے، اُن سے رکنے والے ہوں۔
جس تیزی سے دنیا میں فحاشی پھیلائی جا رہی ہے، ایک احمدی کا کام ہے کہ اُس سے بڑھ کراپنے خدا سے تعلق پیدا کر کے اپنے آپ کو اور دنیا کو اس تباہی کے خوفناک انجام سے بچانے کی کوشش کرے۔
ہر قسم کی فحشاء سے بچنے، ناحق قتل کو روکنے، یتامیٰ کے اموال کی حفاظت کرنے اور ماپ تول میں انصاف سے کام لینے سے متعلق قرآنی احکامات کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کی روشنی میں تشریح و تفسیر اور احباب جماعت کو اہم نصائح۔
فرمودہ مورخہ 02اگست 2013ء بمطابق02 ظہور 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔