جلسہ سالانہ یوکے ۲۰۱۳ء
خطبہ جمعہ 30؍ اگست 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
گزشتہ خطبہ جمعہ میں مَیں نے مہمان نوازی کے حوالے سے ایک میزبان کی ذمہ داریوں کے بارے میں کچھ کہا تھا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی ایک جوش اور جذبے سے خدمت کریں۔ آج مختصراً مَیں مہمانوں کو، شاملینِ جلسہ کو بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں تا کہ جلسے کے ماحول کے تقدس کا اُنہیں بھی خیال رہے۔ اُنہیں بھی پتہ ہو کہ یہاں شامل ہو کر اُن کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور اسی طرح انتظامیہ سے تعاون کی طرف بھی اُن کی توجہ رہے۔ دو ذمہ داریاں ہیں۔ ایک یہ کہ جس مقصد کے لئے یہاں آئے ہیں اُس کو پورا کرنا۔ روحانی، علمی اور تربیتی لحاظ سے اپنے آپ کو بہتر کرنا۔ دوسرے جو انتظامیہ ہے اُس سے تعاون کرنا۔ ہم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں، ہمیں ہمیشہ اس بات کا خیال رہنا چاہئے کہ ہم نے صرف اپنے حقوق لینے کی ہی خواہش نہیں رکھنی بلکہ دوسرے کے حقوق بھی دینے ہیں اور اپنے ذمّہ جو فرائض ہیں اُنہیں بھی ادا کرنا ہے۔ اور مہمانوں کی جو ذمہ داریاں ہیں اُنہیں بھی ادا کرنا ہے۔
سب سے بڑی ذمہ داری تو اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری ہے جو اس بات پر کرنی ہے کہ اُس نے ہمارے لئے، جلسے میں شامل ہونے والوں کے لئے، اس جگہ اور ان حالات میں جہاں عام حالات میں کوئی سہولت بھی نہیں ہوتی سہولت مہیا فرمائی، اس کا انتظام فرمایا۔ اور پھر اللہ تعالیٰ کے شکر کے بعد اُن تمام کارکنان کے شکر گزار ہوں اور اُن کے لئے دعائیں کریں جو دن رات کام کر کے آپ کو سہولت مہیا کرنے کے لئے محنت کرتے رہے اور اپنی اَنتھک محنت اور کوشش سے آپ لوگوں کے لئے آرام پہنچانے کے یہاں سامان کئے۔
گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ایک حدیث کے حوالے سے کارکنان کو کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آؤ اور اس کی بہت ہدایت فرمائی اور اسے بڑی نیکی قرار دیا ہے کہ ایک دوسرے سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بہت بڑی نیکی ہے۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب استحباب طلاقۃ الوجہ عند اللقاء حدیث نمبر 6690)
پس یہ ہدایت ہر احمدی کے لئے ہے۔ ہر آنے والے مہمان اور جلسے میں شامل ہونے والے کا بھی فرض ہے کہ وہ اس بات کو اپنے پلّے باندھے، اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے۔ آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ اگر کارکنوں سے کوئی غلطی ہو جائے تو صَرفِ نظر سے کام لیں اور عارضی انتظام کی مجبوری کو سمجھیں۔ ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں کیونکہ آپ کا یہاں آنا نیکیوں کے حصول کے لئے ہے اور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے۔ اسی طرح آپس میں مہمان جو ہیں، جو یہاں آنے والے ہیں وہ بھی ایک دوسرے کا احترام کریں۔ بعض دفعہ ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں کہ آپس کی رنجشیں، جو پرانی رنجشیں ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کو یہاں آمنے سامنے دیکھ کر بھڑک جاتی ہیں۔ بعض دفعہ ایسے موقعے بھی پیدا ہوتے ہیں جو ایک احمدی ماحول میں نہیں ہونے چاہئیں کہ جلسوں پہ آپس میں دو گروہوں کی، دو لوگوں کی تُو تکار بھی ہو جاتی ہے، بعض دفعہ ہاتھا پائی ہو جاتی ہے، تو ایسے لوگوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ ایسے ماحول میں آ کر پھر ایسی حرکتیں کریں۔ ایسے لوگ اس پاکیزہ ماحول کو گندہ کرنے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ پس بہتر ہے کہ ایسے لوگ جن کے دل ایک دوسرے کے لئے کینوں اور بغضوں سے بھرے ہوئے ہیں جلسے پر نہ آئیں اور جو آئے ہوئے ہیں ان میں سے کسی کے دل میں اگر ایسی رنجش ہے تو آج یہ عہد کرے کہ اس کو دُور کر دے گا۔ اس ماحول میں جو نیکیاں پھیلانے کا ماحول ہے، جو اپنی حالتوں کو بدلنے کا ماحول ہے، اس میں اگر اپنے دلوں کو بغض اور کینوں سے بھر کر رکھنا ہے تو یہاں آنے کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہاں آنے کا مقصد تو نیکیاں کرنا ہے۔ یہاں آنے والے کو اُس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواہش کی ہے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں۔ صرف اور صرف ربّانی باتوں کا سننا اپنا مقصد رکھیں۔ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں خاص طور پر سب کے پیشِ نظر ہو۔ پھر جلسہ کی کارروائی کو سنجیدگی سے اور غور سے سننا بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے۔ اس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الفاظ میں ہی توجہ دلا دیتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے‘‘ یعنی یہ جلسے کی کارروائی ’’پورے غور اور فکر کے ساتھ سنو۔ کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے۔ اس میں غفلت، سستی اور عدمِ توجہ بہت بُرے نتائج پیدا کرتی ہے۔ جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیں اور جب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جائے تو غور سے اُس کو نہیں سنتے اُن کو بولنے والے کے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجے کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں مگر سنتے نہیں۔ اور دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اُسے توجہ اور بڑی غور سے سنو۔ کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اُسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔‘‘ (ملفوظات جلد دوم صفحہ104۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس جلسے پر آنے والوں کو صرف اس طرف متوجہ رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے ان دنوں میں جلسے کے جو مقاصد ہیں اُن کو حاصل کرنا ہے۔ جلسے کی کارروائی کو غور سے سننا ہے۔ اپنی ذاتیات سے بالا تر ہو کر رہنا ہے اور اپنے ایمانوں کی ترقی کے لئے جلسے کے پروگرام سننے ہیں۔ انہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے دلوں کو ہر قسم کی کدورتوں سے پاک کرنا ہے۔ آپ علیہ السلام نے بڑا واضح طور پر فرمایا ہے کہ مسلمانوں میں تنزل اور گراوٹ اور کمزوریاں اس لئے پیدا ہوئی ہیں کہ جہاں دینی مجلسیں لگتی ہیں وہاں جاتے تو ہیں مگر اخلاص لے کر نہیں جاتے، یعنی نہ تقریریں کرنے والوں میں اخلاص ہے، نہ سننے والوں میں۔ لیکن ہمارے جلسے ان باتوں سے پاک ہیں اور ہونے چاہئیں۔ ماشاء اللہ مقررین بڑے اخلاص سے تیاری کر کے آتے ہیں۔ بڑی اچھی تقریریں ہوتی ہیں اور سننے والوں کی اکثریت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اخلاص سے پُر ہے اور جلسے کی برکات کے حصول کے لئے آتی ہے۔ لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مقصد صرف اکٹھے ہونا اور باتیں کرنا اور مجلسیں لگانا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایسا حصہ ہے جس میں کمی ہے تو انہیں اس طرف توجہ دینی چاہئے تا کہ ہمارا یہ ماحول سو فیصد خالصۃً لِلّٰہ آنے والوں کا ماحول بن جائے۔
پھر جلسے کی کارروائی کے دوران ایک بات ضمناً مَیں یہ بھی کہہ دوں کہ بعض لوگوں کو تقریروں کے دوران نعرے لگانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ تقریروں کو غور سے سنیں۔ بعض تقریریں ایسی سنجیدہ ہوتی ہیں، ایسا مضمون ہوتا ہے کہ اُس میں اُس وقت نعرے کی ضرورت نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کہیں دلی جوش سے کوئی نعرہ نکل رہا ہو۔ لیکن یہاں بعض ایسے بھی لوگ ہیں جو ہر وقت، ہر بات پر جوش میں آنے والے ہیں اور نعرے لگا دیتے ہیں۔ اُن کو احتیاط کرنی چاہئے۔
مہمان یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ تمام کارکنان، یہ تمام خدمت کرنے والے خوشی سے اپنے کاموں کا حرج کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے آئے ہیں اس لئے ان سے ہر موقع پر بھرپور تعاون کریں۔ خاص طور پر سیکیورٹی چیکنگ کے وقت اس کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بار بار کی چیکنگ اور وقت زیادہ لگنے سے آپ کو تکلیف بھی ہو لیکن یہ انتظام بھی آپ لوگوں کی حفاظت کے لئے کیا گیا ہے۔ اس لئے اسے برداشت کریں اور کارکنوں سے بھرپور تعاون کریں۔ سکیننگ وغیرہ پر بھی بعض دفعہ وقت لگ جاتا ہے اُس پر بھی برداشت سے اپنا سامان چیک کروانا ہے یا اپنے آپ کو چیک کروانا ہے تو کروائیں۔ اسی طرح ٹریفک کا انتظام ہے۔ اس میں ہر سال گو بہتری لانے کی کوشش کی جاتی ہے اور مجھے امید ہے اس سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ مزید بہتری آئی ہو گی لیکن پھر بھی کمیاں رہ جاتی ہیں۔ بعض دفعہ آنے والوں کو اپنی پارکنگ کا، یا پارکنگ پاس کا صحیح پتہ نہ ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ رَش کی وجہ سے وقت لگتا ہے، دقّت بھی پیش آتی ہے۔ بعض دفعہ گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں۔ تو جس طرح حوصلے سے کارکنان آپ کی رہنمائی کر رہے ہیں اسی طرح حوصلے سے آنے والے مہمانوں کو بھی تعاون کرنا چاہئے۔ اگر ایک شخص کی بے حوصلگی بھی ہو تو اُس کی وجہ سے ہی لمبے کِیو (Queue) لگ جاتے ہیں۔ ایک کار والا بھی اگر مسئلہ پیدا کر دے تو پیچھے ایک لمبی لائن لگ جاتی ہے۔ اس لئے ہر ایک کو احساس ہونا چاہئے کہ کسی کے لئے بھی مشکل کا باعث نہ بنے۔
میں نے سیکیورٹی کی بات کی تھی تو اس بارے میں بھی ہر شامل ہونے والے کو یہ خیال رکھنا چاہئے کہ اُس نے اپنے ماحول پر نظر رکھنی ہے۔ اس بات پر تسلّی نہ پکڑ لیں کہ اتنی چیکنگ ہے، اتنا انتظام ہے، اب پہلے سے بہت بہتر انتظام ہو چکا ہے اس لئے کوئی فکر کی بات نہیں ہے، کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اپنے ماحول پر نظر رکھی جائے۔ مومن کو ہمیشہ چوکس اور ہوشیار رہنا چاہئے۔ اس لئے ماحول پر نظر رکھنے کی ہر وقت ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ کی سیکیورٹی کا انتظام اس لئے مؤثر ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے اور سمجھنی چاہئے۔
پھر ایک اہم بات یہ ہے کہ ایک تو نمازوں کی پابندی ہونی چاہئے اور پھر نمازوں پر آنے کے لئے وقت سے پہلے آئیں یا کم از کم نماز سے ایک دو منٹ پہلے تو ضرور پہنچیں۔ جب نماز شروع ہو جائے تو اُس وقت آنے سے جو باقی نمازی ہیں اُن کی نماز ڈسٹرب ہوتی ہے، مستقل ایک شور ہو رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح گو یہاں میرا خیال ہے انتظامیہ نے اعلان کر دیا ہوگا لیکن مَیں بھی واضح کر دوں کہ جب لوائے احمدیت لہرایا جاتا ہے تو اُس وقت ایک بہت بڑی تعداد مارکی سے باہر جا کر اس تقریب کو دیکھتی ہے اور دعا میں شامل ہوتی ہے اور پھر یہ لوگ واپس مارکی میں آتے ہیں۔ تقریباً ایک تہائی مارکی تو خالی ہو جاتی ہے۔ اور اُن کے آنے میں اور بیٹھنے میں پھر وقت لگتا ہے جس سے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے میں دس پندرہ منٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس مرتبہ یہ تجویزکیا گیا ہے کہ احباب مارکی کے اندر ہی بیٹھے رہیں، سوائے اُن کے جن کو انتظامیہ نے کہا ہوا ہے کہ وہ باہر آئیں، اور یہاں سکرین پر لوائے احمدیت لہرانے کی تقریب کو دیکھ لیں اور دعا میں شامل ہو جائیں تا کہ وقت بچے اور اجلاس وقت پر شروع ہو سکے۔
جلسے کے دنوں میں ماحول کی عمومی صفائی کا غیروں پر بڑا اثر پڑتا ہے اور اس کا اکثر لوگ اظہار کرتے ہیں۔ اس لئے ہمیشہ ہر ایک کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔ ضروری نہیں کہ صفائی صرف صفائی کے کارکنان جو ہیں اُنہوں نے ہی کرنی ہے۔ آپ میں سے ہر ایک کو اس طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہر ایک اگر اس طرف توجہ رکھے اور کوئی چھوٹا موٹا گند، چیز، گلاس، پلیٹ، لفافے وغیرہ پڑے دیکھیں تو اُٹھا کر ڈبے میں ڈال دیں تو اس طرح پھر جہاں آپ ماحول کو صاف رکھ رہے ہوں گے، وہاں آپ ثواب بھی کما رہے ہوں گے۔ ویسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ (صحیح مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل الوضوء حدیث نمبر 534) اگر کوئی بڑا تھیلا یا کوئی ایسی چیز دیکھیں جو مشکوک ہو تو پھر اُس کو بجائے ہاتھ لگانے کے انتظامیہ کو بتا دیں، جو کارکن قریب ہوں اُن کو بتا دیں۔ پھر یہ اُن کا کام ہے کہ وہ اُس کو وہاں سے اُٹھوائیں۔ گزشتہ خطبہ میں مَیں نے ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا لنگر جلسے کے انتظام کے لئے اب مستقل یہاں حدیقۃ المہدی میں بھی قائم ہو گیا ہے، روٹی پلانٹ بھی لگا دیا گیا ہے۔ ابھی تک روٹی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھی پک رہی ہے۔ بعض دفعہ عارضی طور پر کچھ کوالٹی میں اونچ نیچ ہو بھی جاتی ہے اس لئے اگر ایسی کوئی صورتحال ہو تو پہلی بات تو یہ ہے کہ برداشت کرنی چاہئے اور اگر نہ کھا سکیں تو بدلا کے کھا سکتے ہیں اور انتظامیہ کو پھر اُس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔ عموماً روٹی جو یہاں پک رہی ہے وہ پانچ چھ گھنٹے کے وقفے کے بعد مہمانوں تک پہنچتی ہے کیونکہ اتنے بڑے انتظام میں تازہ تازہ روٹی کھلانا تو بہت مشکل ہے۔ بہرحال اب تک جو رپورٹ ہے اُس کے مطابق تو مہمان نے بھی اور ہر کھانے والے نے اس روٹی کو پسند کیا ہے۔ خدا کرے کہ یہ پلانٹ بھی صحیح طور پر چلتا رہے اور مہمانوں کو تکلیف نہ ہو، نہ انتظامیہ کو کسی قسم کی پریشانی ہو۔ ضمناً یہاں ذکر کر دوں کہ گزشتہ جمعہ مَیں نے جرمنی کی روٹی کا ذکر کیا تھا اور مَیں نے کہا تھا کہ وہ لوگ فوری جواب بھی دے دیتے ہیں اور شام تک ہی اُن کا جواب تیار تھا کہ ہماری روٹی تازہ ہوتی ہے اور صرف پانچ چھ گھنٹے کا وقفہ ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ایک خاتون کی فیکس بھی آئی ہوئی تھی کہ آپ نے بڑا صحیح کہا روٹی باسی تھی اور کھانے کے قابل نہیں تھی۔ لیکن بہرحال لگتا ہے دونوں طرف کچھ تھوڑا سا مبالغہ ہوگیا۔ روٹی اتنی باسی بھی نہیں ہوتی اور اللہ کے فضل سے کھانے کے قابل بھی ہوتی ہے۔ اس لئے مہمانوں کو بھی برداشت کرنا چاہئے۔
ویسے تو عام ہر احمدی کو پتہ ہی ہے لیکن یہ بات مَیں نے اس لئے کر دی ہے تا کہ انتظامیہ کو مزید علم ہو جائے کہ ہر چھوٹی سی جو بات ہے، کوئی بھی چھوٹی چھوٹی اونچ نیچ جو ہے وہ احمدی فوراً مجھے پہنچا دیتے ہیں۔ ایک اہم بات جو عموماً مہمانوں کے لئے کم و بیش ہر سال کہی جاتی ہے لیکن اب حالات کی وجہ سے ایسے مسائل سامنے آنے لگ گئے ہیں۔ اس لئے خاص طور پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ برطانوی حکومت جلسے کے لئے جو ویزے دیتی ہے، عموماً یہ ویزا چھ مہینے کے لئے لگتا ہے اور اس پر double entry یا multiple entry لگا دی جاتی ہے اور جلسے کا ویزا اس سوچ کے ساتھ یا اس شرط کے ساتھ دیا جاتا ہے کہ اس ویزے کو اسائلم کے لئے استعمال نہیں کرنایاجماعتی طورپر جب ہم اپنے نمائندے کے لئے ویزا لیتے ہیں تو ہمارے سے یہی understanding ہوتی ہے کہ یہ لوگ دوسری مرتبہ ویزے کو استعمال نہیں کریں گے اور اسائلم کے لئے استعمال نہیں کریں گے۔ اس دفعہ بعض جماعتی نمائندوں کو ویزے دینے سے انکار کیا گیا اور جب ہم نے رابطہ کیا تو گو وہ ویزا دینے پر مان تو گئے لیکن انہوں نے شکوہ کیا کہ ایک دو ایسے تھے اور اس کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو جلسے کا ویزا لے کر آتے ہیں اور پھر اس کو دوبارہ استعمال کر کے اسائلم لے لیتے ہیں۔ کیونکہ اُس پر double entry لگی ہوتی ہے۔ ایک دفعہ تو چلے جاتے ہیں لیکن دوبارہ آ جاتے ہیں۔ بہرحال ان سرکاری محکموں کی تو ہم نے تسلی کروائی ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ویزے مل بھی گئے ہیں لیکن پریشانی کا سامنا بہرحال اُنہیں کرنا پڑا اور بہت سارے ایسے لوگوں کی وجہ سے کرنا پڑا جن کی نیت ہی یہ ہوتی ہے کہ جائیں گے تو اُس ویزے کو اسائلم کے لئے استعمال کر لیں گے۔ ایسے لوگوں کو گو جماعتی طور پر تعزیر بھی ہو جاتی ہے لیکن جماعت کی جو ساکھ ہے وہ تو بہرحال خراب ہوتی ہے۔ اس کا ہر احمدی کو خیال رکھنا چاہئے۔ اور پھر جو لوگ خالصۃً جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنا چاہتے ہیں اور یہ اُن کی نیت ہوتی ہے تو اُن کے لئے بھی ایسے لوگوں کے عمل روک بن جاتے ہیں۔ بے شک پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ احمدی انتہائی مشکل کی زندگی وہاں گزار رہے ہیں۔ ملازمتوں میں تنگ کیا جاتا ہے۔ مالکان باوجود اس کے کہ احمدی ملازم کے کام پر اُنہیں تسلی بھی ہو تو دوسرے ورکر اور مُلّاں کے خوف سے اُنہیں ملازمتوں سے فارغ کر دیتے ہیں یا پھر مستقل ٹارچر اُن کو دیا جاتا ہے، ذہنی اذیتیں دی جاتی ہیں، ساتھ کام کرنے والے ساتھی دیتے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے رہتے ہیں اور برداشت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے اور اسی وجہ سے پھر بعض لوگوں کو مجبوراً ملازمت چھوڑنی پڑتی ہے۔ کئی احمدی ایسے ہیں جن کے کاروبار ہیں، دوکانداری ہے تو انہیں ماحول میں بدنام کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو گرانے والے ہیں اور آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتے۔ حالانکہ احمدی ہی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ ختم نبوت کا سب سے زیادہ اِدراک رکھنے والے ہیں اور ہر اُس شخص کو کافر سمجھتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتا۔ اس کے بغیر تو احمدیت کی بنیاد ہی کوئی نہیں۔ پھر سکولوں میں احمدی بچوں کو ٹارچر دیا جاتا ہے۔ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُنہیں ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ بہرحال ان سب مشکلات کے باوجود ہر احمدی کو جماعتی وقار کا خیال رکھنا ہر صورت میں ضروری ہے۔ اگر حالات کی وجہ سے اسائلم کرنا ہے تو اس کے اور بھی بہت سارے طریقے ہیں، بیشک آئیں۔ لیکن یہاں مَیں پھر اس بات کا دوبارہ اعادہ کروں گا اور پہلے بھی بہت مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اسائلم کے وقت غلط اور لمبے چوڑے بیان دینے کے بجائے اگر مختصر اور سچائی پر مبنی بات ہو تو یہاں جو افسران کی اور ججوں کی بھی اکثریت ہے وہ ایسے ہیں جو انسانی ہمدردی کے لئے بہت نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اُن میں انسانی ہمدردی بہت زیادہ ہے اور اسائلم قبول کر لیتے ہیں۔ بعض ضدّی بھی ہیں اگر ایک دفعہ اَڑ جائیں تو اُن کو قائل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ لوگ پھر ایسے ہیں کہ چاہے جتنی مرضی کہانیاں بنا لی جائیں اُن پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اور پھر ایک انسان ایک احمدی اس غلط بیانی کا گناہگار بھی بن رہا ہوتا ہے۔ بہرحال ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ سچی بات کہیں، مختصر بات کریں، اس سارے ٹارچر کا ذکر کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ ڈائریکٹ Threat ہو تب ہی کوئی کیس پاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کیس پاس ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اگر سچائی پر بنیاد رکھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ کیس بھی پاس ہوتے چلے جائیں گے۔ بہرحال یہ ہماری ذمہ داری ہے، ہر احمدی کی ذمہ داری ہے، خاص طور پر باہر رہنے والوں کی کہ ہمیں ان لوگوں کے لئے جو مشکل میں گرفتار ہیں، ان احمدیوں کے لئے جو ہر لحاظ سے بڑی پریشانی اور تنگی کی زندگی گزار رہے ہیں، دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مشکلات دور فرمائے اور اُن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔
اللہ تعالیٰ جلسے پر آنے والوں کو بھی جلسے کی برکات اور ماحول سے فیضیاب فرمائے۔ جو دور دراز سے جلسے میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں اُن کی دعائیں بھی قبول فرمائے۔ جو آنے کے انتظار میں بیٹھے تھے مگر اُن کو ویزے نہیں مل سکے۔ اللہ تعالیٰ اُن کی بھی نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور اُن کی دعائیں قبول فرمائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں بھی اُن کے حق میں قبول ہوں۔ آخر میں مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک ارشاد پیش کرتا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ: ’’نیکی کو محض اس لئے کرنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ خوش ہو اور اُس کی رضا حاصل ہو اور اس کے حکم کی تعمیل ہو۔ قطع نظر اس کے کہ اُس پر ثواب ہو یا نہ ہو۔ ایمان تب ہی کامل ہوتا ہے جبکہ یہ وسوسہ اور وہم درمیان سے اُٹھ جاوے‘‘۔ یہ کامل ایمان اُس وقت ہو گا جب خالصۃً اللہ تعالیٰ کی رضا پیشِ نظر ہو گی اور یہ نہیں کہ ثواب ملتا ہے یا نہیں۔ پھر فرمایا کہ ’’اگرچہ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کی نیکی کو ضائع نہیں کرتا۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (التوبہ: 120) مگر نیکی کرنے والے کو اجر مدّنظر نہیں رکھنا چاہئے۔ دیکھو اگر کوئی مہمان یہاں محض اس لئے آتا ہے کہ وہاں آرام ملے گا، ٹھنڈے شربت ملیں گے … تو گویا وہ ان اشیاء کے لئے آتا ہے۔ حالانکہ خود میزبان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور اُن کی مہمان نوازی میں کوئی کمی نہ کرے اور اُس کو آرام پہنچاوے اور وہ پہنچاتا ہے لیکن مہمان کا خود ایسا خیال کرنا اُس کے لئے نقصان کا موجب ہے‘‘۔ (ملفوظات جلداول صفحہ561-562۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس مہمانوں کو بھی اور میزبانوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ کیا اُن کے مقاصد ہیں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ میزبان بھی اپنا فرض ادا کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے یہ فرض ادا کرنے والے ہوں۔ اور مہمان بھی خالصۃً لِلّٰہ اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آنے والے ہوں اور کوئی ذاتی اغراض اُن کے شاملِ حال نہ ہوں۔
یہاں آنے والے کو اُس مقصد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواہش کی ہے۔ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا وارث بننے کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں۔ صرف اور صرف ربّانی باتوں کا سننا اپنا مقصد رکھیں۔ اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ان دنوں میں خاص طور پر سب کے پیشِ نظر ہو۔ پھر جلسہ کی کارروائی کو سنجیدگی سے اور غور سے سننا بھی ایک بہت بڑا مقصد ہے۔
جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مہمانوں کو جلسہ کی کارروائی کو غور سے سننے، نمازوں کی پابندی، سیکیورٹی، صفائی اور انتظامیہ سے تعاون وغیرہ امور سے متعلق تاکیدی نصائح۔
اللہ تعالیٰ جلسے پر آنے والوں کو بھی جلسے کی برکات اور ماحول سے فیضیاب فرمائے۔ جو دور دراز سے جلسے میں شمولیت کی نیت سے آئے ہیں اُن کی دعائیں بھی قبول فرمائے۔ جو آنے کے انتظار میں بیٹھے تھے لیکن اُن کو ویزے نہیں اُن کو مل سکے، اللہ تعالیٰ اُن کی بھی نیک خواہشات کو پورا فرمائے اور اُن کی دعائیں قبول فرمائے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعائیں بھی اُن کے حق میں قبول ہوں۔
فرمودہ مورخہ 30اگست 2013ء بمطابق30 ظہور 1392 ہجری شمسی، بمقام حدیقۃالمہدی۔ (آلٹن) برطانیہ
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔