جلسہ سالانہ یوکے کا تجزیہ

خطبہ جمعہ 6؍ ستمبر 2013ء

فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز


أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ

أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

الحمد للہ، اس سال پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے (UK) کا جلسہ سالانہ اپنی تمام تر برکات کے ساتھ اور شکر کے مضمون کو مزید اجاگر کرتے ہوئے گزشتہ اتوار کو ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہر ایک نے دیکھے اور محسوس کئے۔ جو جلسہ گاہ میں بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے بھی اور جو ایم ٹی اے کے ذریعہ سے دنیا میں بیٹھے ہوئے کہیں بھی دیکھ رہے تھے، انہوں نے بھی۔ پھر ایم ٹی اے کے علاوہ انٹرنیٹ سٹریمنگ (streaming) کے ذریعہ سے بھی تقریباً ایک لاکھ سے اوپر لوگوں نے جلسے کی کارروائی دیکھی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا بیشمار فضل ہے کہ ان جدید ذرائع سے دنیا میں بیٹھے ہوئے لاکھوں لوگ یہاں کے جلسے کو دیکھ اور سن سکتے ہیں۔ جلسے کے بعد احبابِ جماعت کے جلسے کے بارے میں تاثرات اور مبارکباد کا سلسلہ جاری ہے۔ روزانہ کئی خطوط مجھے آتے ہیں۔ اور اکثر لکھنے والے لکھتے ہیں کہ دور درازبیٹھے ہوئے ہم بھی یہ محسوس کر رہے تھے کہ جلسہ میں براہِ راست شامل ہیں اور اب جلسہ ختم ہونے کے بعد اداسی چھا گئی ہے۔ یہ احمدی دنیا بھی عجیب دنیا ہے جس کا اخلاص و وفا بالکل نرالی قسم کا ہے اور اس اخلاص و وفا کا غیروں پر بھی اثر ہوتا ہے۔

میں بعض مہمانوں کے بعض تأثرات سناؤں گا۔ بعض معززین تو یہاں سٹیج پر آ کر جلسہ میں اپنے کچھ تأثرات بیان کرتے رہے اور اظہارِ خیال کیا۔ وہ خیالات تو آپ نے سن لئے کہ دنیا پر اللہ تعالیٰ نے کس طرح جماعت احمدیہ کا رعب قائم کیا ہوا ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ رعب قائم کرتا ہے۔ دنیاوی لحاظ سے بظاہر کمزور سی جماعت ہے لیکن خلافت کی لڑی میں پروئے ہونے کی وجہ سے، ایک اکائی میں ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے لیڈر آتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہاں آنے پر فخر ہے اور ہم جماعت کے شکر گزار ہیں۔ بہرحال بہت سے ایسے بھی تھے جو یہاں آئے اور اُن کو سٹیج پر کچھ کہنے کا موقع نہیں ملا، غیر ازجماعت مہمان تھے۔ بعض ایسے ہیں جنہوں نے اپنے پیغام تو دے دئیے لیکن دلی کیفیت کا اظہار انہوں نے بعد میں کیا اور وہ ایسے اظہار ہیں جن میں کوئی بناوٹ نہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں بینن کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آئے ہوئے تھے اور انہوں نے وہاں اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔ یہ موصوف جو ہیں یہ فرانکو فون ممالک کے سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں اور اس ایسوسی ایشن میں افریقہ کے 58 ممالک شامل ہیں۔ یہ وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ جلسے میں کام کرنے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے میں اُن نوجوانوں اور بچوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کو میں نے دن رات اخلاص، محنت اور محبت سے کام کرتے دیکھا۔ سب کی مسکراہٹیں بکھرتی دیکھیں۔ اتنے بڑے اجتماع میں کوئی ناخوشگوار واقعہ نہ ہوا۔ ہر چیز بڑی اچھی تھی۔ ڈسپلن کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ مَیں اس جلسہ سے اخلاص اور روحانیت کو لے کر جا رہا ہوں اور اخلاص اور روحانیت کا یہ اعلیٰ نمونہ صرف احمدیت کا ہی خاصّہ ہے۔ یہاں آ کر اور اس ماحول کو دیکھ کر مجھے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں کثیر لوگوں کی شرکت کے باوجود انتظام نہایت متاثر کن اور منظم تھا۔ اس جلسہ میں ہر قوم کے مقامی اور غیر ملکی ایسے لوگ شامل تھے جو معاشرے میں اعلیٰ مقام رکھنے والے ہیں۔ جلسہ میں ہونے والی تمام تقاریر انتہائی اچھے طریق سے پیش کی گئیں۔ پھر جب یہ اپنے ملک بینن میں واپس پہنچے تو وہاں ائیر پورٹ پر انہوں نے VIP لاؤنج میں پرنٹ میڈیا کے نمائندوں سے پریس کانفرنس کے دوران اپنے تاثرات کا اظہار کیا جو وہاں کے نیشنل اخباروں میں بھی چھپا۔ کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ نے لندن سے باہر ایک سو بیس ایکڑ زرعی زمین میں، (ایک سو بیس ایکڑ اُن کا اندازہ تھا، اصل زمین حدیقۃ المہدی کی دو سو آٹھ ایکڑ ہے)۔ بہرحال کہتے ہیں زرعی زمین میں اپنا ایک شہر آباد کیا ہوا تھا۔ یہاں انسانی ضروریات کی ہر چیز مہیا تھی۔ وہاں پر کام کرنے والے نوجوان، بچے اور دوسرے، سب بڑی محنت سے انتظامات کرتے نظر آئے۔ مہمانوں کی خدمت کے جذبے سے بھری اتنی منظم جماعت میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی۔ اگر کسی مہمان کو کسی چیز کی ضرورت پڑتی تو فوراً اُس مہمان کی ضرورت پوری کرتے۔ اگر کسی ایسے نوجوان سے ضرورت بیان کی جاتی جس کا اس چیز سے تعلق نہ ہوتا تو وہ متعلقہ شعبہ سے رابطہ قائم کر کے وہ چیز مہیا کر دیتا۔ پھر کہتے ہیں کہ جلسے کے دوران امام جماعت احمدیہ جب تقریر کرتے تو اتنے بڑے مجمع میں سے میں نے کسی کو بولتے نہ دیکھا۔ سب خاموشی کے ساتھ ان تقاریر کو بڑے انہماک سے سنتے۔ اور اکتیس ہزار سے زیادہ لوگ وہاں موجود تھے لیکن پھر بھی ہر طرف خاموشی ہوتی۔ یہ ایک عجیب نظارہ تھا جو مَیں کبھی نہیں بھول سکتا۔

پھر اسی پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ جب جلسہ ختم ہوا تو میں نے کہیں بھی دھکم پیل نہیں دیکھی۔ جلسہ گاہ سے سب لوگ آرام اور سکون سے ایک ایک کر کے نکل رہے تھے۔ اگر کسی کو کہنی لگ جاتی یا کسی کا پاؤں دوسرے کے پاؤں پر آ جاتا تو وہ فوراً معذرت کرتا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے معذرت کرتے۔ یہ نظارہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔

پھر کہتے ہیں اکتیس ہزار لوگ مل جل کر رہتے۔ سب وہیں کھانا کھاتے، ہر چیز کا وہیں انتظام تھا۔ جلسہ میں مختلف ممالک سے وزراء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی شامل تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اگر ہمارا ملک ترقی کر سکتا ہے تو جماعت کی خدمات کی وجہ سے ترقی کر سکتا ہے۔ میں بینن کے لوگوں کو ہی نہیں بلکہ پورے عَالَمِ اسلام کو کہتا ہوں کہ امن اور رواداری جماعت احمدیہ سے سیکھیں۔ مجھے جماعت کی مخالفت کے بعض واقعات کا علم ہوا ہے۔ میں بینن کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ ان کی مخالفت چھوڑ کر ان سے اسلام سیکھیں۔ (مَیں یہ بتا دوں بینن میں بھی بعض علاقوں میں جماعت کی کافی مخالفت ہے جہاں جماعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے) کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی ایک ہی خواہش ہے کہ دنیا میں امن قائم ہو جائے۔ پھر کہتے ہیں کہ شاملینِ جلسہ کو جس طرح خلیفہ سے محبت کرتے دیکھا، اُن کے خلیفہ کو بھی اُسی طرح اُن سے محبت کرتے دیکھا۔ مَیں نے ان لوگوں کو اپنے خلیفہ کی محبت میں روتے دیکھا ہے۔ کیا ہی عجیب اور روحانی نظارہ تھا جو میں اپنی زندگی میں کبھی بھلا ہی نہیں سکوں گا۔

تو یہ ایک تأثر ہے۔ پھر ایک دامیبا بیاتریس صاحبہ (Damiba Beatrice) ہیں جو بورکینا فاسو سے جلسہ میں شامل ہوئیں اور بورکینا فاسو پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے لئے ہائر اتھارٹی کمیشن کی صدر ہیں۔ دو دفعہ ملک کی فیڈرل منسٹر رہ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ اٹلی اور آسٹریا میں چودہ سال تک بورکینا فاسو کی سفیر بھی رہ چکی ہیں۔ نیز یو این او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ یہ کہتی ہیں کہ اس جلسہ میں شمولیت میرے لئے زندگی میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ میں یواین او میں بھی اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی ہوں جہاں میں نے کئی ملکوں کے نمائندے دیکھے ہیں مگر اس جلسہ میں بھی اسّی سے زائد ملکوں کے نمائندے شامل تھے اور سب ایک لڑی میں پروئے ہوئے تھے۔ موتیوں کی مالا نظر آتے تھے۔ مجھے کوئی شخص کالا، گورا یا انگلش یا فرنچ نظر نہ آیا بلکہ ہر احمدی مسلمان بغیر رنگ و نسل کے امتیاز کے اپنے خلیفہ کا عاشق ہی نظر آیا۔ پھر کہتی ہیں کہ سب سے زیادہ جس بات سے میں متاثر ہوئی وہ یہ تھی کہ ہر شخص خدا کی خاطر ایک commitment کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہوا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سارے ہی مہمان ہیں اور سارے ہی میزبان ہیں۔ مرد، عورتیں، بڑا، چھوٹا غرضیکہ ہر شخص میزبانی کے لئے حاضر تھا اور ان کی محبت دکھاوے کے لئے نہ تھی بلکہ دل کی گہرائیوں سے تھی۔ پھر کہتی ہیں کہ عورتوں کو مردوں سے الگ تھلگ ایک جگہ دیکھنا میرے لئے باعث حیرت تھا اور مجھے یوں لگا کہ شاید یہاں بھی عورتوں سے دوسرے مسلمانوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے۔ لیکن جب میں ان عورتوں کے ساتھ رہی تو کچھ ہی دیر میں میرا یہ تأثر بدل گیا۔ میں نے دیکھا کہ فوٹو اتارنے والی بھی عورت تھی، کیمرے پر بھی عورت تھی، استقبال پر بھی عورتیں تھیں، کھانا تقسیم کرنے والی بھی عورتیں تھیں، غرضیکہ ہر کام عورتیں ہی کر رہی تھیں اور یہ سچ ہے کہ عورت کا پردہ ہرگز اُس کی آزادی کو ختم نہیں کرتا۔ اگر کسی کو اس کا یقین نہ آئے تو احمدیوں کے ہاں آ کر دیکھ لے۔

پھر کہتی ہیں کہ جب مَیں امام جماعت احمدیہ کے دفتر میں گئی تو حیران تھی کہ اتنا چھوٹا سا دفتر بھی دنیا کا محور ہو سکتا ہے۔ پھر کہتی ہیں مجھے مردوں کی مارکی میں بیٹھ کر بھی امام جماعت احمدیہ کا خطاب سننے کا موقع ملا اور جب وہ آتے تو سب لوگوں کا سکون اور بڑے ادب سے کھڑے رہنے کا منظر ایسا تھا کہ بیان نہیں کر سکتی۔ میں نے ایسا تو کبھی کسی ملک کے صدر کے لئے بھی نہیں دیکھا۔

پھر کہتی ہیں کہ ان کے خطاب کے دوران ہزاروں افراد جن میں بچے، بوڑھے اور جوان سب شامل تھے، اتنی خاموشی سے اُن کا بیٹھنا ایک ایسا منظر تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ یہاں انسان نہیں بلکہ شاید انسان نما پتلے بیٹھے ہیں۔ یہ سب عزت و احترام اور ادب میری زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔

پھر سیرالیون سے وزیرِ داخلہ اور امیگریشن جے بی داؤدا صاحب شامل ہوئے۔ کہتے ہیں مختلف شعبوں کا منسٹر ہونے کی وجہ سے ساری دنیا میں سفر کرتا رہا ہوں اور بڑی بڑی کانفرنسوں میں شرکت کرتا ہوں لیکن آج تک ایسی شاندار کانفرنس کبھی نہیں دیکھی جہاں محبت، پیار، بھائی چارا اور روحانیت نمایاں تھی۔

پھر سیرالیون کی ایک مہمان خاتون آنریبل جسٹس موسیٰ دمیبو ہیں۔ یہ ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ہیں۔ یہ بھی جلسہ میں شامل ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ جلسہ بہت اچھے طریقے سے آرگنائز کیا گیا جس میں ہر شعبہ بشمول مہمان نوازی، ٹرانسپورٹ، سیکیورٹی، کمیونیکیشن وغیرہ نے عمدہ طور پر اپنے فرائض ادا کئے۔ یہ جلسہ مختلف ثقافتوں اور سماجوں کے درمیان فاصلہ کم کرنے کے لئے انتہائی اہم فورم ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ integration کرنے کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اصول وضع فرما دیا ہے کہ اسلام میں ہر ایک بھائی بھائی ہے۔ تمام مقررین نے بہترین انداز میں تقاریر کیں جس کی وجہ سے سارے جلسے کے دوران earphone کان سے نہیں اترا۔ کہتی ہیں کہ جلسہ کے دوران لوگ بے لوث ہو کر ایک دوسرے پر فدا ہو رہے تھے۔ مہمان نوازی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ صرف خدمت ہی نہیں کی جا رہی تھی بلکہ واضح طور پر محسوس ہوتا تھا کہ آپ کو انتہائی عزت و احترام کے ساتھ رکھا جا رہا ہے۔ پھر کہتی ہیں کہ کام کرنے والے تمام افراد اپنے چہرے پر مسکراہٹ لئے ہوئے تھے جس میں احمدیت کے موٹو ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کی صحیح معنوں میں عکاسی ہوتی تھی۔

پھر آئیوری کوسٹ سے ایک مہمان تورے علی (Toure Ali) صاحب تھے۔ یہ سپریم کورٹ کے جج ہیں اور پہلے وزارتِ ثقافت میں کیبنٹ ڈائریکٹر کے طور پر لمبا عرصہ کام کرتے رہے ہیں۔ مذہب میں کافی دلچسپی رکھتے ہیں۔ مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق ہے۔ روزانہ قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جلسہ کے دنوں میں جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں روزانہ باقاعدہ فجر کی نماز اور نوافل کی ادائیگی کا اہتمام کرتے اور جلسہ گاہ میں بھی پوچھتے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے کہ نہیں؟ کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ یہاں باجماعت نماز ہوتی ہے اور میں اس سے محروم رہوں۔ جلسہ کی افتتاحی تقریب میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام پڑھا گیا تو فرطِ جذبات سے آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بعد میں کہنے لگے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا کلام سیدھا دل میں اتر رہا تھا۔ میں نے تقویٰ کا یہ دل گداز مضمون پہلی دفعہ سنا تو اپنے آپ کو محض لا شیٔ پایا جس کی وجہ سے اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ آخری دن اختتام پر کہنے لگے کہ مَیں تو تین دن تک اس مادّی دنیا سے بالکل منقطع تھا، کسی اور ہی روحانی ماحول میں پہنچا ہوا تھا جہاں سرور ہی سرور تھا۔ دنیا کے کاموں سے کلیۃً آزاد تھا۔ اب جلسہ ختم ہوا ہے تو اس دنیا میں واپس آیا ہوں اور اپنے عزیز و اقارب کو فون کرنے لگا ہوں۔ غیروں کا بھی یہ حال ہے، روحانی ماحول کا اثر ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہمارا بہت اچھا خیال رکھا گیا۔ شکریہ کے الفاظ ہمارے پاس نہیں ہیں۔ کونگو سے تعلق رکھنے والے ایک دوست جوسابق صدر مملکت کے مشیر اور اس وقت سی آر اے سی (CRAC) جو اُن کی پارٹی ہے اُس کے پریذیڈنٹ ہیں اور آئندہ ہونے والے ملکی انتخابات میں صدارتی امیدوار ہیں۔ جلسہ کے دوسرے روز ایک دن کے لئے آئے تھے اور شام کو جو تبشیر کا ڈنر ہوتا ہے اُس میں بھی شامل ہوئے تھے۔ اور اُس وقت تھوڑی دیر کے لئے مجھے ملے بھی تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے تک مجھے جماعت احمدیہ کا علم نہیں تھا۔ انہوں نے جلسہ میں اپنی آنکھوں سے بعض نظاروں کو دیکھا اور پھر میری جو تقریریں تھیں اُن کو بھی سنا، اس پر وہ کہنے لگے کہ یہاں آنے سے پہلے آپ کے مخالفوں کو دیکھا اور پڑھا بھی ہے اور آج میں صاف طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ باتیں جو میں نے یہاں دیکھیں اور سنی ہیں اور آپ کے خلیفہ کو دیکھا ہے تویہ بات مجھ پر صاف کھل گئی ہے کہ آج کے مخالفوں میں کوئی بھی حقیقت نہیں اور اُس کے مقابل پر جو راہیں اور جو اصول آپ کے خلیفہ بیان کر رہے ہیں، اب دنیا کے لیڈرز کے پاس اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ آپ کے خلیفہ کے بازوؤں میں آجائیں۔ جب انسان حدیقۃالمہدی میں داخل ہوتا ہے تو اس وقت ایک عجیب نظارہ یہ ہوتا ہے کہ سارا شہر ہی جنگل میں آباد ہوتا ہے۔ تو جس وقت وہ داخل ہوئے توکہتے ہیں کہ آپ نے سارا انگلینڈ خریدا ہوا ہے؟ پھر کہنے لگے کم از کم تین چار ہزار آدمی تو یہاں کام کر رہے ہوں گے اور جب اُن کو بتایا گیا کہ سب رضاکارانہ طور پر خدمت کر رہے ہیں تو کہنے لگے بڑی حیرانگی کی بات ہے اور میری سوچ سے بھی بالا ہے۔

پھر کہنے لگے کہ اتنے بڑے مجمع میں کوئی پولیس والا بھی نظر نہیں آ رہا۔ جلسہ کے دوران انہوں نے بعض کارکنان سے بھی بات کی اور جب اُنہیں پتہ چلا کہ ان میں سے بعض بڑے عہدوں پر ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام کر رہے ہیں اور زمین پر سوتے ہیں تو کہنے لگے کہ اس طرح ڈسپلن اور اطاعت کا معیار میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ آپ کی جماعت سے کوئی بھی نہیں جیت سکتا۔ پھر دوسرے روز کے میرے خطاب کے بارے میں کہنے لگے کہ یہ جو آپ کا خطاب تھا، مَیں نے اس میں جو بات سب سے زیادہ محسوس کی ہے اس کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مَیں دنیا کے بڑے بڑے سیاست دانوں سے ملا ہوں، بڑے بڑے جلسوں میں شرکت کی ہے۔ کاش ہم سیاسی لیڈر ہر سال اپنی عوام کے سامنے جو کچھ ہم نے کیا ہے ایمانداری کے ساتھ پیش کریں تو حکومت اور عوام میں بڑی تبدیلی آ جائے۔ لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ دو گھنٹے اس طرح کھڑے رہنا، پُرسکون اور اطمینان کے ساتھ ہر بات واقعات کے ساتھ کھول کر، اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، یہ بہت بڑا کام ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ آج تیس ہزار سے زائد افراد کی موجودگی میں جب آپ کے خلیفہ کو سنا ہے تو مجال ہے کہ اس دوران کسی بھی شخص نے کسی قسم کی کوئی بات کی ہو۔ کہنے لگے کہ عجیب بات ہے جو میں نے دیکھی کہ تقریر کے دوران جب آپ کے خلیفہ چند لمحات کے لئے ٹھہر جاتے تھے تو ایسا لگتا تھا کہ پوری مارکی میں کوئی انسان بھی نہیں بیٹھا ہوا۔ بڑی خاموشی طاری ہوتی۔ کہتے ہیں مَیں نے بعض دفعہ سر اُٹھا کر اوپر دیکھنے کی کوشش بھی کی کہ شاید کوئی تو بول رہا ہو گا لیکن مجھے کوئی شخص بولتا ہوا نظر نہ آیا۔ سب کی آنکھیں بس صرف ڈائس کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ پھر کہا کہ یہ نظارہ مَیں ساری عمر نہ بھولوں گا۔ ایسا ڈسپلن اور اطاعت کا معیار میں نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ سنا۔

بیلجیم سے افریقہ کے ایک دوست جو بڑے عرصے سے وہیں رہ رہے ہیں، بن طیب ابراہیم (Ben Tayab Ibrahim)۔ وہ جلسہ میں شامل ہوئے۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ سے ان کا جماعت سے تعارف ہوا تھا اور پروگراموں میں انہوں نے شرکت کی، یورپین مہمانوں کے لئے علیحدہ مارکی میں کھانے کا انتظام ہوتا تھا لیکن اس کے باوجود وہ جنرل مارکی میں کھانا کھانے کے لئے جاتے تھے اور عالمی بیعت اور باقی سب خطابات سے بڑے متاثر ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعت میں شامل ہو کے جماعت میں داخل ہو گئے۔

بیلجیم سے ایک اور دوست سانی نووہ (Sani Novho) بھی جلسہ میں شامل ہوئے۔ موصوف بیلجیم میں موجودنائیجر کمیونٹی کے ممبر ہیں۔ اس کمیونٹی کا اپنا سینٹر ہے۔ انہوں نے اپنا ایک نمائندہ بھیجا کیونکہ ان کی کمیونٹی کے لوگ احمدیت کی طرف آ رہے ہیں اور احمدیت قبول کر رہے ہیں۔ جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ان کے بائیس افرادنے بیعت کی تھی۔ برسلز میں موجود ان کے سینٹر میں ممبرز کی تعداد اب کم ہوتی جا رہی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ لوگ شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ کمیونٹی کی جو انتظامیہ ہے اُس نے موصوف کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا تھا کہ وہ یہاں آ کر دیکھیں کہ کس طرح کی جماعت ہے اور کیا وجہ ہے کہ ہمارے لوگ ہمیں چھوڑ کر اُن کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ یہ صاحب جب جلسہ میں شامل ہوئے اور جو ذہن لے کر آئے تھے کہ جماعت کی غلطیاں اور خامیاں تلاش کرنی ہیں تا کہ واپس جا کر لوگوں کو کہہ سکیں کہ تم جس جماعت میں شامل ہوتے ہو، اُن کے فلاں فلاں غلط عقائد ہیں اور ان کے اندر فلاں فلاں خامیاں موجود ہیں۔ موصوف نے جلسہ کی تمام کارروائی سنی، روزانہ شام کو مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی تو اس سے اُن کی کافی تسلی ہوتی اور میرے سے بھی تھوڑی دیر کے لئے ان کی بات ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے پورے جلسہ میں کوئی بھی غیر اسلامی بات نظر نہیں آئی۔ اور پھر کہتے ہیں کہ آپ کے خطابات کا مجھ پر بڑا اثر ہوا۔ مَیں جلسہ میں شامل ہو کر بہت خوش ہوں۔ آپ کا جلسہ ایک غیر معمولی ایونٹ (event)ہے اور مَیں تمام کارکنان اور خدمت کرنے والوں کے اخلاص اور محبت سے بہت متأثر ہوں۔ تاجکستان جماعت کے صدر عزّت اَمان کو اس سال جلسہ میں شمولیت کی توفیق ملی۔ یہ شاید پہلے بھی آچکے ہیں۔ بہرحال کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے بارے میں مَیں عرض کرتا ہوں کہ جو دیکھا ہے وہ الفاظ میں بیان ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کسی طرح الفاظ میں جلسہ سالانہ کی تصویر کَشی کی جا سکتی ہے تو صرف یہ ہی الفاظ میرے ذہن میں آتے ہیں کہ ’’ایک سچا معجزہ‘‘۔ دوسرا کوئی لفظ یا الفاظ میرے ذہن میں نہیں آتے۔ جلسہ میں شامل احباب کے دل خلیفہ وقت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق سے پُر ہیں اور یہی محبت اُنہیں دن رات جماعت کی خدمت میں لگائے رکھتی ہے۔ جلسہ سالانہ کے ان چند دنوں میں مجھے جلسے کے انتظامات میں کوئی بھی سقم نظر نہیں آیا۔ تمام انتظامات کا معیار نہایت اعلیٰ تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہے کہ ہزاروں لوگ جلسہ سالانہ دیکھ کر اور اس میں بیان کی جانے والی باتیں سن کر اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے والے بن گئے ہوں گے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہوا ہو۔

تاتارستان کی ایک احمدی خاتون کو جلسہ میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ کہتی ہیں جلسہ سالانہ میں شمولیت پر میرا دل جذباتِ شکر سے معمور ہے۔ جلسے میں شمولیت کی توفیق پانے پر میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات کا شکر ادا کرتی ہوں۔ اُس کے بعد خلیفہ وقت کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ نیز اُن تمام لوگوں کی شکر گزار ہوں جنہیں جلسہ سالانہ کے انتظامات میں دن رات اَنتھک محنت کرنے کی توفیق ملی۔ میری ذات پر اس بات نے گہرا اثر چھوڑا ہے کہ کس طرح ساری دنیا سے آئے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے محبت اور مہمان نوازی کے جذبات سے سرشار، مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں۔ مجھے جلسہ میں پہلی بار شامل ہونے کا موقع ملا۔ تا ہم اس سے قبل اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم ٹی اے پر جلسہ کی کارروائی سے مستفیض ہوتی رہی ہوں۔ جلسہ کے ماحول میں پہنچنے کے بعد بڑی شدت سے مجھے یہ احساس ہونے لگا کہ میں ایک روحانی دنیا میں آ گئی ہوں جو محبت اور امن اور بھلائی والی دنیا ہے۔ کہتی ہیں بہت گہرائی کے ساتھ مَیں یہ محسوس کر رہی تھی کہ اپنی ایک بڑی اور متحد فیملی میں ہوں جہاں خدائے واحد و یگانہ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت نیز آپ کے عاشقِ صادق حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام سے محبت دلوں پر راج کرتی ہے۔ جہاں افرادِ جماعت آپس میں محبت و شفقت اور عزت کے جذبات ایک دوسرے کے لئے رکھتے ہیں۔ مَیں بڑی ہی خوش قسمت ہوں کہ مَیں احمدیہ مسلم جماعت سے تعلق رکھتی ہوں۔ مجھ پر جلسہ سالانہ کا ایسا گہرا اثر ہے کہ مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال جلسہ سالانہ پر میں اپنے سارے بچوں اور والدہ کو بھی لے کر آؤں گی، انشاء اللہ۔

ترکمانستان سے ایک دوست شامل ہوئے، کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہونا ہماری خوش نصیبی تھی اور اللہ کا فضل تھا۔ ہم اس جلسے سے اس حد تک مستفیض ہوئے ہیں کہ ان جذبات کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے لیکن مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس جلسے نے اسلام کے بارے میں ہمارے علم کو تازہ کر دیا ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں بڑھایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنے بہن بھائیوں سے محبت کرنے کی تعلیم کے مطابق ہمیں اس میں زیادہ کیا ہے۔ نیز احمدی مسلم کے طور پر ہماری ایمانی بنیادوں کو پہلے سے مضبوط کیا ہے اور اس طرح ہمارے برداشت کے مادے کو بڑھایا ہے۔

تو یہ جو نئے احمدی ہونے والے ہیں وہ اس طرح ایمان و اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں۔ چلّی سے ایک نوجوان دوست کائیفل توریس صاحب (Jussuf Caifl Torres) جلسہ میں شامل ہوئے۔ یہ پہلی بار آئے تھے۔ کہنے لگے کہ جلسہ سالانہ یوکے(UK) میں شمولیت میرے لئے روحانی مسرت اور خوشی کا باعث تھی۔ اگرچہ میرے والد مصری مسلمان تھے مگر والدہ چلّی سے تھیں۔ میرے والد صاحب نے بچپن میں جو اسلام سکھایا تھا وہ میں بھول چکا تھا اور مَیں بالکل مایوس ہو چکا تھا۔ (یہ خاندان کئی نسلوں سے چلّی میں آباد ہے۔ ) کہتے ہیں کہ احمدی مبلغ وہاں چلّی میں پمفلٹ تقسیم کر رہا تھا۔ اس دوران میری اس مبلغ سے ملاقات ہوئی۔ مبلغ نے مجھے احمدیت حقیقی اسلام سے تعارف کروایا اور میں نے بیعت کر لی۔ اب جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت میرے لئے بہت زیادہ ازدیادِ ایمان کا باعث بنی ہے۔ میں اب اپنے آپ کو حقیقی مسلمان یقین کرتا ہوں اور اس جذبے کے ساتھ واپس جا رہا ہوں کہ اپنے ملک میں احمدیت کی تبلیغ کروں گا۔

پانامہ سے ایک نو مبائع دانتے ارنستو گارسیا صاحب (Dante Ernesto Garcia) آئے تھے اور پانامہ سے جلسہ میں اس دفعہ پہلی دفعہ نمائندگی ہوئی ہے۔ کہتے ہیں کہ جلسہ میں بہت کچھ سیکھا۔ اس جلسہ میں شمولیت کر کے میرے ایمان میں اضافہ ہوا۔ جو بھائی چارہ میں نے یہاں دیکھا ہے وہ اسلام میں کہیں نہیں دیکھا۔ میں یہاں آ کر بہت مطمئن ہوا ہوں اور دل کو تسلی ہوئی ہے۔ مَیں اس بات پر فخر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے احمدیت قبول کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ جلسہ کے دوران مجھے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے افراد سے ملاقات کا موقع ملا جن کا تعلق مختلف اقوام سے تھا۔ ان سے ایمان افروز واقعات سن کر میرے ایمان میں اضافہ ہوا اور مَیں اس بات کا وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے ملک پانامہ میں دعوتِ الی اللہ کر کے لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کروں گا۔ کہتے ہیں جلسہ میں بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ لوگ تو بے شمار تھے لیکن لگتا تھا کہ سب کا ایک ہی دل دھڑک رہا ہے۔ جسم تو تیس ہزار ہیں لیکن دل ایک تھا۔

گوئٹے مالا سے وہاں کے ممبر نیشنل پارلیمنٹ سَرخی اَوسے لیس صاحب (Sergio Celis) شامل ہوئے۔ یہ عیسائی ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں جماعت احمدیہ کی بلند اخلاقی قدروں، اُن کی باہمی محبت و اخوت اور یگانگت نیز اُن کے مضبوط جذبہ ایمان سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ایسا محبت و پیار مَیں نے کہیں نہیں دیکھا۔ جماعتی تنظیم قابلِ ستائش ہے۔ بہت شاندار اور مثالی جلسہ تھا۔ ہر انتظام سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ اسلام کی خوبصورت تصویر جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ دوسروں سے بالکل مختلف ہے۔ اگرچہ مختلف ممالک اور متفرق اقوام کے افراد تھے مگر ایسے محسوس ہوا جیسے سب کا دل ایک ہے۔ مَیں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مجھے جلسہ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔

جاپان سے ایک خاتون، مینے ساکی ہیرو کو (Minesaki Hiroko) صاحبہ تشریف لائی تھیں۔ موصوفہ پی ایچ ڈی ہیں۔ جاپان میں ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور جاپانی کے علاوہ انگریزی اور عربی زبان بھی جانتی ہیں۔ مسلمان نہیں ہیں۔ موصوفہ نے بتایا کہ جلسہ سالانہ میں شامل ہو کر بیحد خوش ہیں اور عرب احمدیوں سے مل کر اور جلسہ کے ماحول سے بیحد متاثر ہوئی ہیں۔ کہتی ہیں سونامی طوفان کے نتیجہ میں جاپان میں آنے والی تباہی کے موقع پر جماعت احمدیہ نے مذہب و نسل سے بالا ہو کر انسانیت کی بے انتہا خدمت کی ہے۔ جماعت کے عقیدے اور عمل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ گیانا سے ممبر آف پارلیمنٹ جو مسلمان ہیں، منظور نادر صاحب، یہ بھی شامل ہوئے تھے اور کافی پرانے پارلیمنٹیریئن ہیں۔ لیبر کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ انڈسٹری اکاؤنٹس کے منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت صدر گیانا کے پولیٹیکل افیئرز کے ایڈوائزر ہیں۔ کہتے ہیں کہ جلسہ سالانہ کے انتظامات سے بہت متأثر ہوا ہوں۔ یہ تینوں دن یہاں شامل ہوتے رہے۔ اور دوسرے دن جماعت کی ترقیات کی جو رپورٹ پڑھی جاتی ہے، اسے سن کر کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کی دورانِ سال ترقی اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات سے بھی بہت متأثر ہوا ہوں۔ بیلجیم سے ایک غیر احمدی مہمان خاتون Miss Sels Annie Maria جلسے میں آئی تھیں۔ آئی ٹی کنسلٹنٹ ہیں اور کہتی ہیں کہ لوکل جماعت کے ایک ممبر کے ذریعہ سے ان کو جماعت کا تعارف حاصل ہوا۔ بقیہ معلومات جماعت کی ویب سائٹ سے حاصل کیں۔ ان کی دلچسپی کے مدّنظر بیلجیم جماعت نے اُن کو جلسہ سالانہ یوکے (UK) میں شمولیت کی دعوت دی۔ وہ یہاں آئیں۔ کہتی ہیں جلسہ کے دوران سارے پروگرام میں نے دیکھے، بھر پور شرکت کی اور اسی طرح یورپین احمدی خواتین کے ساتھ گھل مل گئیں۔ جامعہ احمدیہ میں ان کی رہائش تھی۔ ایک دن وہاں نماز تہجد ہو رہی تھی۔ وہ اکیلی اور پریشان حال بیٹھی تھیں۔ اُن کو نماز پڑھنی نہیں آتی تھی۔ اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نماز پڑھنا چاہتی ہیں؟ کہنے لگیں کہ ہاں مَیں نماز پڑھنا چاہتی ہوں۔ پھر ایک نو مبایعہ نے اُن کو وضو کرنا سکھایا اور نماز کا طریق بتایا جس پر وہ نماز میں شامل ہو گئیں۔ پہلے دن انہوں نے جِین اور شرٹ پہنی ہوئی تھی، جب جلسہ گاہ میں عورتوں کا لباس دیکھا تو اُن پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے مبلغ بیلجیم کی اہلیہ سے کہا کہ میں تو ایسا ہی لباس پہننا چاہتی ہوں۔ چنانچہ اُس خاتون نے جلسہ گاہ کے بازار سے زنانہ لباس خریدا اور وہ پہنا۔ میرے خطابات سننے کے بعد کہنے لگیں کہ حقیقی اسلام اور متقی کی صفات کے بارے میں جو خطبات دئیے ہیں یا خطابات کئے ہیں اُن کا مجھ پر گہرا اثر ہوا ہے۔ یہ خطابات سننے کے بعد مَیں نے فیـصلہ کیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں۔ چنانچہ یہ عالمی بیعت میں شامل ہوئیں اور بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئیں اور مجھے ملی بھی تھیں۔ اللہ کے فضل سے بڑے ڈھکے ہوئے لباس میں تھیں۔ پس یہ جلسہ اپنوں اور غیروں سب پر روحانی ماحول کا اثر ڈالتا ہے۔ ایک سعید فطرت کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اسلام کی خوبیوں کا معترف ہو کر اُسے قبول کر لے۔ لیکن ہمارے مخالفین کو، اُن لوگوں کو جن کو دوسروں سے پہلے یہ حکم تھا، غیروں سے پہلے یہ حکم تھا کہ امام مہدی کو جا کر میرا سلام کہنا، برف کے پہاڑوں پر سے گزرنا پڑے تو گزر کر جانا اور سلام کہنا، اُن لوگوں کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ اُنہیں بھی عقل دے۔

پھر یہ دیکھیں کہ اکثریت نے، خاص طور پر جو غیرمہمان تھے، انہوں نے بچوں اور نوجوانوں اور بوڑھوں اور عورتوں کو جو مہمان نوازی کرتے ہوئے دیکھا ہے تو اُس کا اُن پر بڑا گہرا اثر ہوا ہے اور ان سب نے تقریباً اس کا ذکر کیا ہے۔ پس یہ خدمت کا جذبہ جو جماعت احمدیہ کے افراد میں ہے یہ بھی ایک خاموش تبلیغ ہے۔ ایک بچہ ہے اُس نے پانی پلایا اور آگے گزر گیا لیکن وہ ایک دل میں جو اثر قائم کر گیا اُس نے اُس دل کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا ڈالا۔ اسی طرح کوئی نوجوان ہے، کسی کو کھانا کھلا رہا ہے، کوئی کار پارکنگ میں ہے تو خوش خلقی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور ایسے مظاہرے کرتے ہوئے پارکنگ کروا رہا ہے۔ لڑکے، لڑکیاں سکیننگ اور چیکنگ کر رہی ہیں تو بڑی خوش اخلاقی سے کر رہی ہیں۔ لجنہ نے ہر شعبہ میں اپنے انتظامات کئے جیسا کہ واقعات میں ذکر بھی ہوا ہے اور بڑے اچھے کئے۔ سہولت پہنچانے میں مصروف رہیں۔ تو یہ باتیں جہاں سب کارکنان کے لئے اپنوں کی دعاؤں کو حاصل کرنے والا بناتی ہیں، غیروں کو اسلام اور احمدیت کی حقیقت سے آگاہ کر رہی ہوتی ہیں اور اس خوبصورت تعلیم کا گرویدہ کر رہی ہوتی ہیں۔ پس ان تمام کارکنات اور کارکنان کا میں بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ سالوں کی نسبت اِس سال خاص طور پر نسبتاً زیادہ بہتر رنگ میں اور خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹیاں اور فرائض سرانجام دئیے۔ مجھے لوگوں کے جو تأثرات مل رہے ہیں اس میں اس سال پارکنگ کے شعبہ کے بڑے اچھے تاثرات ہیں۔ خدام پارکنگ کرواتے تھے، خوش اخلاقی سے حال پوچھتے تھے، تکلیف پر معذرت کرتے تھے۔ گرمی کی وجہ سے پانی وغیرہ کا پوچھتے تھے۔ ایک لکھنے والا یہ لکھتا ہے کہ کسی کو مَیں جانتا نہیں تھا لیکن یہ اخلاق دیکھ کر سفر کی آدھی تھکان اور کوفت جو تھی وہ دور ہو جاتی تھی۔ تو بس یہی ایک احمدی کا طرّہ امتیاز ہے اور ان اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہم میں سے ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ان اعلیٰ اخلاق کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

اسی طرح تبشیر کی مہمان نوازی کا بھی اس مرتبہ بہت اچھا معیار رہا ہے۔ جامعہ کے طلباء، واقفینِ نَو اور واقفاتِ نَو نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ہر مہمان ان کی تعریف کر رہا ہے۔ لیکن خود کارکن کو اپنا یہ جائزہ لیتے رہنا چاہئے کہ اگر کہیں کوئی کمی ہے تو اُس کو آئندہ سال کس طرح بہتر کیا جا سکتا ہے۔

پھر اس دفعہ عرب مہمانوں کا بھی بڑا وفد آیا تھا۔ وہ بھی 110 سے اوپر آدمی تھے۔ اُن کا عمومی انتظام بھی گزشتہ سال سے بہت بہتر تھا۔ عرب ڈیسک یوکے اور ان کے نائب سیکرٹری تبلیغ اس سال انچارج تھے۔ انہوں نے بھی اور اُن کی ٹیم نے بھی ماشاء اللہ بڑا اچھا کام کیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی جزا دے۔ یہ گزشتہ سال بھی تھے لیکن اتنا بہتر انتظام نہیں تھا جتنا اس سال ہوا ہے۔

پھر بہت سارے مہمان جو مجھے ملے ہیں، اُن کو جو چیز متأثر کرتی ہے، وہ یہ کہ اپنے عمومی تأثرات دیتے ہوئے وہ تصویری نمائش کا بڑا ذکر کرتے ہیں۔ عمومی طورپر احمدیوں میں بھی اس کا اچھا feedback ہے کہ اس سے احمدیوں کو اپنی تاریخ کا پتہ لگا، غیروں کو بھی ہماری تاریخ کا پتہ لگا اور اس سے وہ متأثر بھی ہوئے۔ لنگر خانے کے نظام میں بھی گزشتہ سال کی نسبت بہتری ہوئی ہے۔ روٹی بھی عمومی طور پر پسند کی گئی ہے۔ اسی طرح سالن بھی۔ لیکن ایک صاحب ہیں جنہوں نے کھانے پر خوب اعتراض کیا ہے کہ بُو آ رہی تھی اور باسی تھا اور یہ تھا اور وہ تھا۔ بہرحال مَیں نے تو جن لوگوں سے بھی پوچھا ہے اور لوگ خود ہی مجھے لکھ رہے ہیں اور مختلف وقت میں خود مَیں نے بھی کھانا دیکھا ہے مجھے تو باسی کھانا نہیں لگا۔ ہو سکتا ہے کہ ان کو کسی نے باسی کھانا کھلا دیا ہو۔ لیکن یہ شخص جس نے مجھے لکھا ہے مَیں جانتا ہوں ان کو اپنے علاوہ کسی کا کام اچھا بھی نہیں لگتا۔ اور یہ ہر ایک کا کام غیر معیاری سمجھتے ہیں اور ان کا لکھا ہوایہ فقرہ بھی اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ مَیں جرمنی میں کچن میں ڈیوٹی دے رہا تھا تو خلیفہ رابع نے مجھے کہا کہ تم کچن میں ہو تو مجھے کوئی فکر نہیں۔ لیکن اگر انہوں نے کہا بھی تھا، پتہ نہیں کہا تھا کہ نہیں کہا تھا لیکن کہا تھا تو اُن کی یہ خودنمائی کی باتیں سن کر یہ ضرور انہوں نے کہہ دینا تھا کہ میں الفاظ واپس لیتا ہوں۔ یہ خود پسندی، خودنمائی اور اپنی تعریف اور دوسروں پر اعتراض کی جو عادت ہے ہم میں سے ہر ایک کو اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ جماعت احمدیہ کے کام نہ ایک شخص سے مخصوص ہیں، نہ ہی کسی شخص پر اس کا انحصار ہو سکتا ہے۔ یہی جماعت کی خوبی ہے اور اسی کی غیروں نے بھی تعریف کی ہے کہ ایک ٹیم ورک تھا، سب بڑے چھوٹے مل کے کام کرتے ہیں اور بڑے اعلیٰ معیار کے کام ہو رہے تھے۔ اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں یوکے (UK) میں بھی سینکڑوں ہزاروں ایسے مخلص کارکن اللہ تعالیٰ نے مہیا کر دئیے ہیں کہ ایک کو اگر ہٹاؤ تو دس نئے کام کرنے والے آ جاتے ہیں جو خودنمائی کی بجائے عاجزی دکھانے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والے ہیں۔ تو بہرحال مجھے تو ایسوں کی ضرورت ہے جو اس طرح عاجزی سے کام کرنے والے ہوں اور ایسے کارکنوں کے لئے مَیں دعا بھی کرتا ہوں۔ بعض ڈیوٹی دینے والوں کی یہ شکایت ملی ہے اور یہ نہیں کہ اِدھر اُدھر سے ملی ہے، خدام الاحمدیہ نے خود ہی محسوس کیا ہے کہ بعض سیکیورٹی ڈیوٹی دینے والے بعض دفعہ بعض لوگوں پر سختی کرتے رہے، مثلاً ایک retarded لڑکا تھا اُس کو بلا وجہ سختی سے زور سے پیچھے ہٹایا تو اُس کو چوٹ بھی لگ گئی یا اُس کو تکلیف ہوئی، پیٹ پر ہاتھ پڑا تھا، تو جو ڈیوٹی دینے والے ہیں اُن کو ہوشیار بھی رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیکیورٹی کا خاص طور پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اعصاب کو قابو میں رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر سیکیورٹی ڈیوٹی نہیں دی جا سکتی۔ پس خدام الاحمدیہ آئندہ سال کے لئے، سارا سال یہ سروے کرے کہ سارے ملک میں سے کون سے ایسے لڑکے ہیں جو مضبوط اعصاب والے بھی ہیں اور ہوش حواس بھی قائم رکھنے والے ہیں تا کہ اگر کوئی ہنگامی صورت ہو اُس میں کام بھی آ سکیں اور آئندہ سال ایسے لوگوں کو لیا جائے۔

اور ایک اعتراض یہ بھی مجھے مل رہا ہے اور شاید کسی حد تک صحیح ہے کہ مردانہ مارکی اور لجنہ کی مارکی کے درمیان ایم ٹی اے کی مارکی تھی جہاں دفاتر اور ٹرانسمشن وغیرہ کا انتظام تھا۔ اس کی وجہ سے اگر ایمر جنسی میں نکلنا پڑے تو روک پڑ سکتی ہے۔ اس لئے جلسہ گاہ کے دونوں طرف کھلے راستے ہونے چاہئیں۔ علاوہ اس اعتراض کے جو انہوں نے نہیں لکھا لیکن میرے خیال میں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ گرمی کی وجہ سے بعض دفعہ دَر کھولنے پڑتے ہیں تو ہوا بھی اچھی آئے گی۔ اس لئے ایم ٹی اے کی مارکی کو آگے پیچھے کیا جا سکتا ہے۔

ایک خاتون جرمنی سے آئی تھیں، جلسہ کی انتظامیہ کو اُن کی بھی بات بتا دوں کہ انتظام بڑا صحیح تھا، صفائی صحیح تھی، ٹائلٹس وغیرہ بڑے اچھے تھے، لیکن ٹائلٹس میں لوٹوں کی جگہ جگ رکھے ہوئے تھے۔ تو کہتی ہیں میں انتظام کر سکتی ہوں کہ جرمنی سے لوٹے لا دوں یا کہیں سے منگوا دوں۔ بیشک بڑی خوشی سے انتظام کریں اور میرا خیال ہے یوکے (UK) والے اُن کی اس offer کو قبول بھی کر لیں گے۔ اسی طرح paper towel اور بڑے ڈسٹ بن جو ہیں ان کا انتظام بھی کھلا ہونا چاہئے۔

ایک شکایت یہ ہے کہ جلسہ ختم ہوتے ہی غسل خانوں میں پانی ختم ہو گیا تھا۔ جلسہ کی انتظامیہ اس کا آئندہ خیال رکھے۔

بہرحال یہ چند چھوٹی موٹی باتیں ہیں اس کے علاوہ مجموعی طور پر جلسہ کے انتظامات اور تقاریر کے معیار بھی جیسا کہ مہمانوں نے ذکر کیا اور عمومی ماحول بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اعلیٰ تھا۔ ہر شامل ہونے والے نے، جو ہر سال شامل ہوتے ہیں انہوں نے بھی اس کا اظہار کیا ہے کہ پہلے کی نسبت یہ اعلیٰ معیار ہے اور تمام کارکنان اور انتظامیہ بہرحال اس کے لئے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزا دے۔

پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعا کریں۔ کل 7؍ستمبر ہے اور جو ہمارے مخالفین ہیں یہ دن بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ ان دنوں میں اپنے آپ کو انہوں نے اکٹھا کر کے ایک تو حدیث پوری کر دی، لیکن بہرحال یہ اُن کا جو بھی فعل ہے اور جماعت احمدیہ مسلمہ ان فرقوں سے علیحدہ ہو گئی، خود انہوں نے حدیث پوری کردی۔ تو یہ دن بڑے زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ جلسے ہوتے ہیں، جلوس نکلتے ہیں، جماعت کو گالیاں دی جاتی ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلاف انتہائی بیہودہ دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ختمِ نبوت کے نام پر ہوتا ہے اور اس دفعہ ان کا یہ ارادہ ہے کہ پورا ہفتہ عشرہ اپنے ان مذموم مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کے لئے منائیں گے۔ جو لوگ خدا تعالیٰ کے حبیب، محسنِ انسانیت اور رحمۃ للعالمین کو اپنے غلط مقاصد کے لئے بدنام کر رہے ہیں خدا تعالیٰ جلد اُن کی پکڑ کے بھی سامان بھی پیدا فرمائے گا۔

اس ہفتہ میں کراچی میں پھر دو شہادتیں ہوئی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ جلد احمدیوں کے لئے بھی پاکستان میں آزادی کے اور سہولت کے سامان پیدا فرمائے۔

آج یہاں ہمارے ایک گھانین بزرگ کا جنازہ حاضر بھی ہے۔ اُن کا جنازہ بھی میں پڑھاؤں گا اور ان دو شہداء کا جنازہ غائب بھی ساتھ پڑھا جائے گا۔ کیونکہ ایک جنازہ حاضر ہے مَیں باہر جا کر جنازہ پڑھاؤں گا اور احباب یہیں مسجد میں صفیں درست کر لیں اور جنازہ میرے پیچھے پڑھیں۔ یہ ہمارے گھانین دوست، بزرگ جن کی وفات ہوئی ہے ان کا نام آدم بن یوسف صاحب ہے اور ان کو کینسر کی بیماری تھی۔ 3؍ستمبر کو 84سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ 1956ء میں 27 سال کی عمر میں انہوں نے بیعت کی تھی اور بیعت کے بعد انہوں نے اپنی ملازمت چھوڑ دی اور تبلیغ شروع کر دی۔ آپ نے گھانا کے تمام علاقوں میں تبلیغ کی اور اکثر مقامات میں جماعتیں قائم کیں۔ پرانی جماعتوں کو فعال کرنے میں خصوصی کردار ادا کیا۔ ان کی تبلیغ سے سینکڑوں احباب نے احمدیت قبول کی۔ ان کی تبلیغ کے شوق کی وجہ سے ان کا نام ہی وہاں گھانا میں یوسف preacher پڑ گیاتھا۔ مرحوم 2003ء میں یوکے (UK) آئے تھے، یہاں بھی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں اور خصوصی طور پر ریڈیو پروگراموں میں تبلیغ کیا کرتے تھے جن میں voice of Africa اور WVLS ریڈیو قابلِ ذکر ہیں۔ اپنے ریجن کے سیکرٹری تبلیغ بھی تھے۔ 2001ء میں ان کو حج کی سعادت بھی ملی۔ 2005ء میں جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کی توفیق پائی۔ بہت نیک، صالح، نماز روزے کے پابند اور مخلص انسان تھے۔ خلافت کے ساتھ گہرا محبت کا تعلق تھا۔ مرحوم موصی تھے۔ ان کے پسماندگان میں دو بیویاں اور دس بیٹیاں یادگار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں میں بھی احمدیت ہمیشہ قائم رہے۔

جو شہداء ہیں اُن میں سے ایک شہید ڈاکٹر سید طاہر احمد صاحب ابن ڈاکٹر سید منظور احمد صاحب لانڈھی کراچی ہیں۔ ان کی شہادت 31؍اگست کو ہوئی تھی۔ 31؍اگست کو یہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے، مریضوں کو چیک کر رہے تھے اسی دوران دو مرد اور دو خواتین مریض کے روپ میں کلینک میں داخل ہوئے اور ان میں سے ایک مردنے ڈاکٹر صاحب پر فائرنگ کر دی۔ ڈاکٹر صاحب کو چھ گولیاں لگیں۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے گولیوں کی آواز سنی تو معمول کی فائرنگ سمجھی۔ وہاں کراچی میں تو ہر وقت فائرنگ ہوتی رہتی ہے مگر ان کے پڑوسی فائرنگ کی آواز سن کر باہر نکلے تو کلینک سے چار افراد کو بھاگتے ہوئے دیکھا۔ وہ فوراً کلینک کی طرف آئے تو دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب خون میں لت پت زمین پر گرے ہوئے ہیں۔ وہ ڈاکٹر صاحب کو فوراً ایک گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے گئے مگر ڈاکٹر صاحب راستے میں ہی جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے دادا مکرم حکیم فضل الٰہی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا جنہیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے دورِ خلافت میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ کے دادا کا تعلق تلونڈی ضلع گوجرانوالہ سے تھا اور 1970ء میں ان کے دادا کراچی شفٹ ہو گئے تھے۔ شہادت کے وقت شہید مرحوم کی عمر 55 سال تھی۔ آپ نے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ اُس کے بعد مکینیکل انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹنگ انجینئر کا ڈپلومہ حاصل کیا۔ پھر کراچی یونیورسٹی سے ڈی ایچ ایم ایس کی ڈگری حاصل کی۔ نیشنل آئل ریفائنری میں کم و بیش تیس سال ملازمت کی اور اب تین سال کے بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔ شہید مرحوم شہادت کے وقت بطور سیکرٹری دعوتِ الی اللہ حلقہ لانڈھی خدمات کی توفیق پا رہے تھے۔ اس سے پہلے بھی مختلف عہدوں پر یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ مرحوم انتہائی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ بڑے ہنس مکھ، صلح جُو، ملنسار۔ آپ کا حلقہ احباب انتہائی وسیع تھا۔ اپنے علاقے میں ایک معزز شخصیت تھے۔ آپ کی شہادت کے بعد محلے داروں کی ایک کثیر تعداد تعزیت کی غرض سے آپ کے گھر میں جمع ہو گئی۔ عزیز رشتہ داروں کے ساتھ بھی بہت اچھا تعلق تھا۔ اگر کوئی زیادتی بھی کر جاتا تو درگزر کرتے اور خود آگے بڑھ کر صلح کا ہاتھ بڑھاتے۔ آپ ایک کامیاب ہومیو پیتھی ڈاکٹر بھی تھے۔ مستقل مریضوں کی تعداد بھی بہت وسیع تھی۔ کئی مرتبہ یہ ہوا کہ دفتر سے تھکے ہوئے آئے ہیں اور گھر آتے ہی مریض آ گئے تو فوراً اُن کا علاج شروع کر دیا۔ نمازوں کے پابند اور باقاعدگی کے ساتھ تہجد کا التزام بھی کیا کرتے تھے۔ اور بے انتہا مصروفیت کے باوجود حلقے میں دورہ جات کے لئے حتی الوسع اپنی بیوی کی، جو صدر لجنہ ہے، معاونت کرتے۔ اُن کے ساتھ دورہ کیا کرتے تھے۔ انتہائی شفیق باپ اور بچوں کی پڑھائی اور تربیت پر توجہ دینے والے۔ ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ طاہرہ طاہر صاحبہ اور تین بیٹے عزیزم رضوان طاہر عمر 32سال، فرحان طاہر 29سال، مجتبیٰ طاہر 19سال اور بیٹیاں صبوحی عثمان اور عزیزہ رباب طاہرہ انہوں نے سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ شہید مرحوم کے درجات بلند کرے۔

دوسرے شہید ہیں مکرم ملک اعجاز احمد صاحب ولد مکرم ملک یعقوب احمد صاحب اور نگی ٹاؤن کراچی کے۔ ان کی شہادت 4؍ ستمبر کو ہوئی ہے۔ 4؍ستمبر کو تقریباً پونے گیارہ بجے ان کی شہادت ہوئی۔ شہید مرحوم گارمنٹ فیکٹری میں اپنے بھائی مکرم ملک رزاق احمد صاحب کے ہمراہ سٹیچنگ (stiching) کی ٹھیکیداری کا کام کیا کرتے تھے۔ دونوں گھر سے فیکٹری جانے کے لئے اپنی علیحدہ علیحدہ موٹرسائیکلوں پر نکلے تو اپنے بھائی سے پیچھے کچھ فاصلے پر تھے کہ رستے میں کھڑے دو نامعلوم افرادنے اُن کے قریب آ کر بائیں سائڈ سے کان کے قریب فائر کیا۔ گولی سر سے آر پار ہو گئی جس سے آپ موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ وقوعہ کے بعد حملہ آور موٹرسائیکل پر فرار ہو گئے۔ پیچھے آنے والی ایک کار کے ڈرائیور نے بتایا کہ حملہ آور دو نوجوان تھے، موٹر سائیکل چلانے والے نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا جبکہ پیچھے بیٹھا ہوا شخص جس نے حملہ کیا ہے، ہلکی داڑھی والا نوجوان تھا۔ شہید مرحوم کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پردادا میاں احمد صاحب کے ذریعہ ہوا جنہوں نے خلافتِ ثانیہ کے دور میں مکرم و محترم چوہدری غلام رسول بسراء صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ سے متاثر ہو کر بیعت کی۔ آپ کے پردادا بیعت کے وقت جوڑا کلاں خوشاب میں رہائش پذیر تھے مگر مخالفت کی وجہ سے مکرم چوہدری غلام رسول بسراء صاحب کے مشورے سے چک 99 شمالی سرگودھا شفٹ ہو گئے جہاں پر خاندان کو جماعت کی نمایاں خدمت کی توفیق ملی۔ وہاں کی مسجد کی تعمیر میں بھی ان کے والدنے بڑا کردار ادا کیا۔ مرحوم کے والد ملک یعقوب احمد صاحب، ان کی عمر 90 سال ہے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے حیات ہیں۔ ان کی والدہ وفات پاچکی ہیں۔ 1990ء میں یہ لوگ سرگودھا سے کراچی شفٹ ہو گئے تھے اور اپنے بہنوئی مکرم نواز صاحب شہید (ان کے بہنوئی بھی شہید کئے گئے تھے گزشتہ سال ستمبر میں ) اُن کے پاس شفٹ ہو گئے تھے۔

شہید مرحوم انتہائی مخلص اور محبت کرنے و الے ہمدرد انسان تھے۔ ہر ایک سے خوش ہو کر ملتے۔ کسی کی دل شکنی ان کو پسندنہ تھی۔ بچوں کے ساتھ انتہائی محبت کے ساتھ پیش آتے۔ اپنے بچوں کے علاوہ اپنے بھائی کے بچوں کے ساتھ بھی انتہائی شفقت سے پیش آتے جو آپ کے ساتھ رہائش پذیر تھے۔ جماعت کے لئے بہت ایمانی غیرت رکھتے تھے۔ جب کسی شہادت کا ذکر سنتے تو اپنے دل پر گہرا اثر لیتے۔ نظامِ جماعت کی آپ کامل اطاعت کرتے۔ جب کسی کام کے لئے کہا جاتا تو فوراً بشاشت کے ساتھ کرتے۔ گزشتہ سال اپنے بہنوئی محمدنواز صاحب شہید کی شہادت کے موقع پر بار بار اس بات کا اظہار کرتے کاش یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی۔ شہید مرحوم کی عمر 36 سال تھی۔ پسماندگان میں والد مکرم ملک یعقوب احمد صاحب کے علاوہ اہلیہ محترمہ راشدہ اعجاز صاحبہ، ایک بیٹی عزیزہ ماہ نور اعجاز عمر 12 سال اور دو بیٹے عزیزم جواد احمد عمر 10 سال اور عزیزم منظور اعجازعمر 8 سال سوگوار چھوڑے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کو بھی صبر اور حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے اور ان کا حامی و ناصر ہو۔


  • خطبہ کا مکمل متن
  • English اور دوسری زبانیں

  • 6؍ ستمبر 2013ء شہ سرخیاں

    اللہ تعالیٰ کے فضل سے یوکے (UK) کا جلسہ سالانہ اپنی تمام تر برکات کے ساتھ اور شکر کے مضمون کو مزید اجاگر کرتے ہوئے ختم ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے نظارے ہر ایک نے دیکھے اور محسوس کئے۔

    جلسہ سالانہ کے حسن انتظام، بے لوث خدمت خلق اور پُر خلوص مہمان نوازی اور روحانیت سے معمور ماحول کا مہمانوں پر غیر معمولی اثر۔ مختلف ممالک سے آنے والے غیر از جماعت معززین اور احمدی مہمانوں کے جلسہ سے متعلق نیک تاثرات کا تذکرہ۔

    مکرم آدم بن یوسف صاحب آف گھانا کی وفات اور مکرم ڈاکٹر سید طاہر احمد صاحب (لانڈھی کراچی) اور مکرم ملک اعجاز احمد صاحب (اورنگی ٹاؤن کراچی) کی شہادت۔ مرحومین کا ذکر خیر۔ مکرم آدم بن یوسف صاحب کی نماز جنازہ حاضر اور ہر دو شہداء کی نماز جنازہ غائب۔

    فرمودہ مورخہ 06ستمبر 2013ء بمطابق 06تبوک 1392 ہجری شمسی،  بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن

    قرآن کریم میں جمعة المبارک
    یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِذَا نُوۡدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنۡ یَّوۡمِ الۡجُمُعَۃِ فَاسۡعَوۡا اِلٰی ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ ذَرُوا الۡبَیۡعَ ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (سورة الجمعہ، آیت ۱۰)
    اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔

    خطبات خلیفة المسیح

  • تاریخ خطبہ کا انتخاب کریں
  • خطبات جمعہ سال بہ سال
  • خطبات نور
  • خطبات محمود
  • خطبات ناصر
  • خطبات طاہر
  • خطبات مسرور