شام کی جنگ، مسلمان ممالک اور عالمی حالات کا بصیرت افروز تجزیہ
خطبہ جمعہ 13؍ ستمبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اس وقت دنیا کے حالات بڑی تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خاص طور پر شام کے حالات کی وجہ سے نہ صرف شام بلکہ عرب دنیا میں جو حالات ہیں اُس کی وجہ سے بہت زیادہ تباہی پھیل سکتی ہے۔ اگر شام کی جنگ میں بیرونی طاقتیں شامل ہوئیں تو پھر صرف عرب دنیا ہی نہیں بلکہ بعض ایشین ممالک کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ اس بات کو نہ عرب حکومتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں، نہ دوسرے ممالک اور بڑی طاقتیں سمجھنے کی کوشش کر رہی ہیں کہ یہ جنگ صرف شام کی جنگ تک محدودنہیں رہے گی بلکہ یہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
پس احمدیوں کو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کے ماننے والے ہیں، جو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں دنیا کو خدا تعالیٰ سے جوڑنے اور امن اور بھائی چارہ قائم کرنے کے لئے آئے تھے، دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس دعا کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے ہم دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کر سکیں۔ ظاہری کوشش کے لحاظ سے جو تھوڑی بہت ظاہری کوششیں ہیں، ہم دنیا کو اور بڑی طاقتوں کو ان خوفناک نتائج سے ہوشیار کر سکتے ہیں جو ہم کر بھی رہے ہیں۔ دنیا کے جو سیاستدان اور حکومتیں ہیں ان کو جہاں تک ہو سکتا ہے میں بھی ہوشیار کرتا رہتا ہوں، کر رہا ہوں اور اس پیغام کو افرادِ جماعت نے بھی میرے ساتھ وسیع پیمانے پر دنیا کے ملکوں میں پھیلایا ہے۔ یہ لیڈر اور سیاستدان بڑے زور شور سے اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ کا پیغام عین وقت کی ضرورت ہے اور ہم بالکل آپ کی تائید کرتے ہیں لیکن جب اس پیغام پر عملی اظہار کا موقع آتا ہے تو بڑی طاقتوں کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا یہ تو ظاہری کوشش ہے، اصل ہتھیار تو ہمارے پاس ہر کام کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کے فضل کو سمیٹنے کے لئے دعا کا ہے جس کی طرف احمدیوں کو ان حالات میں بہت زیادہ توجہ دینی چاہئے۔ انسانیت کے لئے عموماً اور امّتِ مسلمہ کے تباہی سے بچنے کے لئے خصوصاً ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آج سے اٹھاسی سال پہلے تقریباً 1925ء میں اُس وقت شام کے جوحالات تھے پر خطبہ دیا تھا اور بتایا تھا کہ دمشق کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ اسلام سے پہلے بھی یہ شہر بہت سے دینوں کا مرکز رہا ہے یا اس کی اہمیت رہی ہے۔ اسلام میں بھی بڑے عرصے تک یہ دارالخلافہ رہا ہے اور اس شہر میں اکثر پرانے مذاہب کی یادگاریں تھیں۔ جیسا کہ مَیں نے کہا 1925ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شہر کے بارے میں یا شام کے بارے میں خطبہ دینے کی وجہ یہ بتائی کہ اُس وقت جو حالات تھے وہ یہ تھے کہ دروزیوں نے جو وہاں ایک قبیلہ ہے، انہوں نے آزادی کی آواز اُٹھائی اور اس آواز پر وہاں کے باقی مسلمان بھی شامل ہو گئے۔ وہ لوگ پہاڑوں میں رہنے والے تھے لیکن باقی مسلمان جو شہروں میں رہنے والے تھے وہ بھی شامل ہو گئے جبکہ اُس وقت وہاں فرانسیسیوں کی حکومت تھی۔ یہ بھی آپ نے تجزیہ کیا کہ انتظامی لحاظ سے فرانسیسی حکومت تھی گو بعض فیصلوں کے لحاظ سے مفتی یا مولوی بھی حاکم تھے اور اس طرح دو تین طرز کے وہاں حکمران تھے، لیکن بہر حال جو سیاسی حکومت تھی وہ فرانس کے تحت تھی۔ اور جو مفتی حاکم تھے وہ یہ کہ اگر کسی لٹریچر کو چھاپنے کی اجازت ہوتی یا کسی مذہبی کتاب کو چھاپنے کی اجازت ہوتی اور اگر مفتی اُس کے بارے میں کچھ کہہ دیتاتو گورنر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مثال دی کہ جماعت احمدیہ نے وہاں لٹریچر شائع کرنے کی گورنر سے اجازت لی اور یہ چَھپ بھی گیا لیکن مفتی نے چھپنے کے بعد اُسے Ban کر دیا۔ گورنر کو شکایت کی گئی تو اُس نے کہا کہ اس معاملے میں میرا کوئی اختیار نہیں۔ یہ اختیار تو مفتی کے پاس ہے۔ تو بہر حال فرانس کی انتظامی حکومت تھی۔ سیاسی طور پر اگر کوئی اُس کے خلاف آواز اُٹھاتا تو اس سے سختی سے نپٹا جاتا۔ اُس وقت اُس کے خلاف بغاوت یا آزادی کی آواز جب مقامی لوگوں نے اُٹھائی تو فرانس کی حکومت نے دمشق پر بہت بڑا ہوائی حملہ کیا۔ کہتے ہیں کہ ستاون اٹھاون گھنٹے تک بم برسائے گئے اور شہر کی تاریخ کو، اُس کی تاریخی عمارات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا گیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئے۔ یہ شہر کیوں برباد کیا گیا؟ کیوں وہ لوگ مارے گئے؟ اس لئے کہ وہ غیر حکومت سے آزادی چاہتے تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ ’’بَلاءُ دِمشق‘‘۔ تو حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اُس وقت اس ہوائی حملے سے جو دمشق کی حالت تھی اس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام بھی پورا ہوا کہ تمام تاریخی عمارات، تمام مذاہب کی تاریخ، سب ملیا میٹ کر دی گئی۔ کیونکہ اس سے بڑی بلا اور تباہی اس سے پہلے کبھی دمشق پر نہیں آئی تھی۔ یہ بلا آئی تھی غیروں کے ہاتھوں، جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فرانس نے حملہ کیا۔ (ماخوذ از خطبات محمود جلدنمبر 9صفحہ نمبر 324 تا 334خطبہ جمعہ 13 نومبر1925ء مطبوعہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
بعض الہامات کئی مرتبہ بھی پورے ہوتے ہیں۔ وہ بَلا جو غیروں کے ہاتھوں آئی اور شہر کو تباہ کر دیا وہ ستاون اٹھاون گھنٹے رہی جس میں کوئی کہتا ہے دوہزار لوگ مارے گئے، کوئی کہتا ہے بیس ہزار لوگ مارے گئے، لیکن کہا جاتا ہے، محتاط اندازہ یہی ہے کہ اُس وقت سات آٹھ ہزار لوگ بہر حال مارے گئے۔ لیکن افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ بلا جو غیروں کے ہاتھوں سے آئی تھی، اُس میں تو یہ نقصان ہوا۔ لیکن ایک بَلا اب بھی آئی ہوئی ہے جو اپنے کے ہاتھ آئی ہے اور گزشتہ تقریباً دو اڑھائی سال سے یہ دمشق میں اور شام میں تباہی پھیلا رہی ہے۔ پورے شام کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاکھ سے اوپر لوگ مارے گئے ہیں، محتاط اندازہ ہے، بعض کہتے ہیں اس سے بھی زیادہ ہے اور ملینز میں لوگ ایسے ہیں جو بے گھر ہوئے ہیں۔ گھر بھی کھنڈر بنے ہیں، بازار بھی کھنڈر بن رہے ہیں، صدارتی محل پر بھی گولے برسائے گئے ہیں، ائیر پورٹس پر بھی گولے برسائے گئے۔ مختلف عمارات پر گولے برسائے گئے، غرض کہ کوئی بھی محفوظ نہیں۔ حکومت کے جو فوجی ہیں وہ شہریوں کو مار رہے ہیں اور شہری حکومتی کارندوں کو مار رہے ہیں، ان میں فوجی بھی شامل ہیں اور دوسرے بھی شامل ہیں۔ علوی جو ہیں وہ سنّیوں کو مار رہے ہیں اور سنّی جو ہیں وہ علویوں کو مار رہے ہیں۔ اور یہ سب لوگ جو ہیں ایک کلمہ پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ آزادی کے نام پر جو کوشش وہاں ہو رہی ہے، جو حکومت کے مخالف ہیں، عوام ہیں جن میں بڑی تعداد سنّیوں کی ہے وہ جو کوشش کر رہے ہیں، اُن میں اس کوشش میں ان کی مدد کے نام پر دہشتگرد گروہ بھی شامل ہو گئے ہیں۔ جو نقصان ان لوگوں سے، ان گروہوں سے، دہشتگرد گروہوں سے ملک کو پہنچنا ہے، اُس کا تو بعد میں پتہ چلے گا۔ بہر حال افسوس یہ ہے کہ یہ بلاجو اس دفعہ آئی ہے، یہ خوفناک شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اور یہ لوگ نہیں جانتے کہ آزادی کے نام پر عوام اور امن قائم کرنے کے نام پر حکومت ایک دوسرے پر ظلم کر کے اور آپس میں لڑ کر اتنے کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اب بڑی طاقتیں آزادی دلوانے، ظلم ختم کرنے اور امن قائم کرنے کے نام پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں گی اور کر رہی ہیں۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ کوششیں دنیا کو بھی تباہی کی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ شام کی حکومت کے ساتھ بھی بعض بڑی حکومتیں ہیں۔ اسی طرح اُس ریجن کی بھی بعض حکومتیں جو شام کی حکومت کی مدد کر رہی ہیں یا پشت پناہی کر رہی ہیں یا اُن کی حمایت کر رہی ہیں۔ اسی طرح جو حکومت کے مخالف گروپ ہیں، اُن کے ساتھ بھی حکومتیں کھڑی ہیں بلکہ بڑی طاقتیں اُن کے ساتھ زیادہ ہیں۔ اس صورتحال نے جیسا کہ مَیں نے کہا بڑے خطرناک حالات پیدا کر دئیے ہیں۔ لیکن افسوس تو مسلمان ممالک پر ہے جو اُس تعلیم پر عمل کرنے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ یہ فرمایا تھا کہ یہ اپنے کمال کو پہنچ چکی ہے، اُس امّت سے وابستہ ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے خیرِ امّت کہا ہے۔ کون سا خیر کا کام ہے جو آج یہ مسلمان ممالک کر رہے ہیں۔ نہ احساسِ ہمدردی ہے، نہ تعلیم کے کسی حصے پر عمل ہے۔ غیرت ہے تو وہ ختم ہو گئی ہے اور غیروں سے مدد مانگی جاتی ہے اور یہ مدد بھی اپنے ہی لوگوں کو مارنے کے لئے مانگی جاتی ہے۔ ایسے حالات میں قرآنِ کریم کی تعلیم کیا کہتی ہے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہوں، دو گروہ اور دو جماعتیں لڑ پڑیں تو اللہ تعالیٰ کیا فرماتا ہے؟ فرماتا ہے کہ وَ اِنۡ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اقۡتَتَلُوۡا فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا ۚ فَاِنۡۢ بَغَتۡ اِحۡدٰٮہُمَا عَلَی الۡاُخۡرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیۡ تَبۡغِیۡ حَتّٰی تَفِیۡٓءَ اِلٰۤی اَمۡرِ اللّٰہِ ۚ فَاِنۡ فَآءَتۡ فَاَصۡلِحُوۡا بَیۡنَہُمَا بِالۡعَدۡلِ وَ اَقۡسِطُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ (الحجرات: 10)اور اگر مومنوں میں سے دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرواؤ۔ پس اگر ان میں سے ایک دوسری کے خلاف سرکشی کرے تو جو زیادتی کررہی ہے اس سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے فیصلہ کی طرف لوٹ آئے۔ پس اگر وہ لَوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو۔ اور اللہ تعالیٰ نے انصاف کا معیار بھی اتنا اونچا مقرر فرمایا ہے، دوسری جگہ فرماتا ہے کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے نہ روکے۔ اگر تمہیں دنیاوی خواہشات کے بجائے اللہ کی محبت چاہئے تو پھر مسلمان کا کام ہے کہ آپس میں انصاف بھی قائم کرے اور غیروں کے ساتھ بھی انصاف قائم کرے۔ فرمایا کہ ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدۃ: 9) یہ تقویٰ کے قریب ہے۔ اور ایک مسلمان کو بار باریہی حکم ہے کہ تقویٰ کی تلاش کرو، تقویٰ کی تلاش کرو۔
قابلِ شرم بات یہ ہے کہ اسرائیلی صدر بڑی طاقتوں کویہ مشورہ دے رہا ہے جو اصل میں تو مسلمانوں کی طرف سے آنا چاہئے تھا، لیکن اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان مسلمان ملکوں کو خیال نہیں آیا، سربراہوں کو خیال نہیں آیا تو جب اسرائیل کے صدر نے مغربی طاقتوں کو مشورہ دیا تھا تو اُس وقت مسلمان ممالک کی جو کونسل ہے، یہ اعلان کرتی کہ ہم اپنے ریجن میں جو بھی فساد ہو رہے ہیں خود سنبھالیں گے اور خصوصاً اُس علاقے کو جو ہمارے ہم مذہب ہیں۔ ہم ایک خدا کو ماننے والے ہیں، ہم ایک رسول کو ماننے والے ہیں، ہم ایک کتاب کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہیں اور اس کتاب کو اپنا رہنما ماننے والے ہیں۔ اگر ہم میں اختلاف پیدا ہو بھی گئے ہیں، اگر ایک ملک میں دو فرقوں کی لڑائی یا عوام اور حکومت کی لڑائی کسی جائز یا ناجائز وجہ سے شروع بھی ہو گئی ہے تو ہم اپنی کامل تعلیم کی رُو سے اس مسئلہ کا حل کر لیں گے۔ اگر ایک گروہ سرکشی پر اُتر آیا ہے تو اس سرکشی کو دور کرنے کے لئے ہمیں اگر غیر کی مدد کی ضرورت ہوئی بھی تو ٹیکنیکل مدد یا ہتھیاروں کی مدد تو لے لیں گے لیکن حکمتِ عملی بھی ہماری ہو گی اور افراد بھی ہمارے ہوں گے جو اس فساد اور فتنے کو ختم کرنے کے لئے استعمال ہوں گے۔ اگر یہ سوچ ہو تو کسی غیر کو جرأت نہ ہو کہ مسلمان ملکوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھیں۔ ہزاروں میل دُور بیٹھے ہوئے کسی کو کسی ملک سے کیا دلچسپی ہے؟ یہی کہ یا تو اُس ملک کی دولت پر قبضہ کیا جائے، یا جودنیا میں اپنی مخالف بڑی طاقت ہے اُس پر اپنی طاقت کا رعب ڈالنے کے لئے اُن ملکوں کو جو غریب ملک ہیں چھوٹے ملک ہیں جن میں فساد ہو رہے ہیں، زیرِ نگیں کر کے اپنی برتری ثابت کی جائے۔
بہر حال مسلمان ممالک کی کمزوری ہے اور اپنی تعلیم کو بھولنا ہے جو غیروں کو اتنی جرأت ہے کہ ایک ملک کی حکومت یہ اعلان کرتی ہے کہ یو این او شام پر حملہ کرنے کی اجازت نہ بھی دے تب بھی ہم حملہ کریں گے، یہ ہمارا حق ہے۔ اور حق کی دلیل نہایت بچگانہ ہے کہ یو این او ہماری فارن پالیسی کو dictate نہیں کروا سکتی۔ یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا؟ جب دشمن کی دشمنی اتنی حد تک بڑھ جائے کہ آنکھوں پر پٹی بندھ جائے تو بظاہر پڑھے لکھے لوگ بھی جاہلانہ باتیں کرتے ہیں۔ ہم ان کی طرف دیکھتے ہیں کہ بڑے عقلمند لوگ ہیں لیکن جاہلوں والی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تم ہزاروں میل دور بیٹھے ہو، تمہارا اس معاملے سے کچھ تعلق بھی نہیں ہے، اگر تعلق ہے جو ہونا چاہئے تو یو این او کا کہ یہ لوگ اُس معاہدے میں، یو این او کے چارٹر میں شامل ہیں۔ کسی انفرادی ملک سے نہ معاہدہ ہے، نہ لینا دینا ہے۔ جس ملک میں فساد ہے اُس سے براہِ راست بھی کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ یہاں فارن پالیسی کا کہاں سے سوال آ گیا۔ بہر حال یہ منطق مجھے تو سمجھ نہیں آئی۔ یہ تو ضد بازی ہے اور ڈھٹائی ہے اور اپنی برتری ثابت کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔ دنیا کے امن اس طرح قائم نہیں ہوتے۔ امن قائم کرنے کے لئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہوتے ہیں اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اسلام کی تعلیم جیسی اور کوئی خوبصورت تعلیم نہیں کہ کسی قوم کی دشمنی بھی تمہیں انصاف سے دُور نہ لے جائے۔ اس حوالے سے بار بار مَیں نے دنیا کے لیڈروں کو توجہ دلائی ہے کہ اگر اس طرح کیا جائے تو پھر امن قائم ہوتا ہے۔ اس آیت کی تعلیم سے جو مَیں نے پڑھی ہے اگر یو این او اس اصول پر انصاف قائم کرے تو انصاف قائم ہو گا۔ جہاں ظلم دیکھیں تمام ممالک مشترک کوشش کریں، یہ نہیں ہے کہ کسی کو ویٹو کا حق ہے اور کسی کو اپنی مرضی کرنے کا حق ہے۔ یہاں کسی ایک ملک کی فارن پالیسی کا سوال نہیں ہے۔
پھر ایک ملک کہتا ہے کہ ہم شام میں امن قائم کرنے کے لئے زمینی فوجیں تو نہیں بھیجیں گے لیکن ہوائی حملے کریں گے۔ یعنی اس شہر اور ملک کو مکمل طور پر کھنڈر بنا دیں گے جیسے پہلے بنایا تھا۔ معصوموں کو بھی ماریں گے، بچوں کو بھی ماریں گے، عورتوں کو بھی ماریں گے جس طرح عراق اور لیبیا میں کیا تھا۔ وہاں کیا حاصل ہوا ہے جو یہاں حاصل ہو گا۔ شہر کھنڈر بن گئے اور امن ابھی تک قائم نہیں ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے انہی میں سے ان کے توڑ بھی کئے ہوئے ہیں۔ رشیا کے پرائم منسٹر صاحب نے کل ہی بیان دیا ہے بلکہ شاید آرٹیکل لکھا ہے کہ یہ کوئی انصاف نہیں ہے جو تم انفرادی طور پرفیصلے کر رہے ہو۔ اگر یہی فیصلے اس طرح کرنے تھے تو پھر یو این او کس لئے بنائی تھی؟ انہوں نے بڑے واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر یہی حال رہا تو یو این او کا حشر بھی لیگ آف نیشنز کی طرح ہو گا۔ اور یقینا اُس نے صحیح کہا ہے۔
پھر عوام کے حق کے حوالے سے مصر میں حکومت کو الٹا دیا۔ کہا یہ گیا کہ عوام کے حقوق ادا نہیں ہو رہے اور حکومت اپنے آپ کو بچانے کے لئے بے دردی سے عوام کو قتل کر رہی ہے۔ یقینا یہ سچ ہے کہ حکومت کا یہ رویّہ غلط تھا لیکن مصر میں حکومت گرانے کے بعد جو حکومت آئی، وہ شدت پسندوں اور مذہبی جنونیوں کی حکومت تھی۔ پھر بڑی طاقتوں کو فکر پیدا ہوئی کہ اب کیا ہو گا؟ امریکہ میں ایک بڑے اخبار کے جرنلسٹ نے مجھے سوال کیا کہ اب مصر میں اس کے بعد امن کے قیام کے کیا امکانات ہیں؟ تو میں نے اُسے یہی کہا تھا کہ تم لوگوں نے شاید اپنا اثر قائم کرنے کے لئے حکومت کو الٹوا دیا تھا لیکن تمہارے اندازے کی غلطی ہو گئی۔ اور جو لوگ آئے ہیں وہ نہ تمہاری مرضی کے ہیں، نہ وہاں کی عوام کی مرضی کے ہیں۔ یعنی اکثریت عوام کی اُن کے خلاف ہے۔ ایک چنگاری ابھی بھی سلگ رہی ہے اور تم دیکھنا کہ چند مہینوں تک دوبارہ اسی طرح خون بہے گا جس طرح پہلے بہہ چکا ہے۔ لیکن میرے اندازے سے بہت پہلے یہ خون بہہ گیا۔ گزشتہ دنوں کے مصر کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ مسلمان ممالک میں بے چینی کی جو بھی وجوہات ہوں، عوام کی طرف سے جائز بھی ہوں گی لیکن جب بڑی طاقتیں غلط رنگ میں دخل اندازی کریں گی تو فساد پیدا ہو گا۔ میں نے 2011ء کے شروع میں جب اس بارے میں خطبات دئیے تھے تو واضح کیا تھا کہ مسلمانوں کے ان حالات کی وجہ سے امن کے نام پر بڑی طاقتیں جو بھی ظاہری اور خفیہ حکمتِ عملی وضع کریں گی وہ آخر کار مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی ہو گی۔ کبھی یہ طاقتیں اپنے مفادات کو متاثر نہیں ہونے دیں گی۔ اور اب یہ دیکھ لیں کہ حسنی مبارک کے زمانے میں جو خون خرابہ ہوا ہے اُس میں عوام کی حمایت کی گئی، اُسے ہٹایا گیا اور کوشش کی گئی، بڑا پراپیگنڈہ ہوا۔ لیکن جب دوسری حکومت نے مفادات کا خیال نہ رکھا اور فوجی حکومت آ گئی اور اُس نے پہلے سے بھی زیادہ خون بہایا تو اُس وقت کسی نے عوام سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا، نہ کوئی کوشش کی۔ آخر یہ دو عملی ہے، یہ فرق ہے۔
بہر حال مسلمان ممالک کی حکومتوں کو اب بھی غیرت دکھانی چاہئے اور اپنے ذاتی مفادات سے بڑھ کر امّتِ مسلمہ کے مفادات کو دیکھنا چاہئے۔ لیکن یہ اُس وقت ہو گا جب دلوں میں تقویٰ پیدا ہو گا، حکومت کرنے والوں کے دلوں میں بھی اور عوام کے دلوں میں بھی۔ یہ اُس وقت ہو گا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے کے ساتھ آپ کے اُسوہ حسنہ پر عمل کرنے کی کوشش بھی ہو گی۔ یہ اُس وقت ہو گا جب حاکم بھی اور رعایا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درد کو محسوس کرتے ہوئے آپ کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے چند ارشادات پیش ہیں جو حاکموں کو بھی اُن کے رویوں اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور عوام کو بھی۔ پہلے حاکموں کے بارے میں چند احادیث پیش کرتا ہوں۔ حضرت ابوھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دن اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا اُس دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا۔ اُن میں سے اول امامِ عادل ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الحدود باب فضل من ترک الفواحش حدیث نمبر6806) یعنی عدل کی یہ اہمیت ہے۔
پھر حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو لوگوں میں سے زیادہ محبوب اور اُس کے زیادہ قریب انصاف پسند حاکم ہو گا۔ اور سخت ناپسندیدہ اور سب سے زیادہ دُور ظالم حاکم ہو گا۔ (سنن الترمذی کتاب الاحکام باب ما جاء فی الامام العادل حدیث 1329)
پھر ایک روایت میں ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کا نگران اور ذمہ دار بنایا ہے، وہ اگر لوگوں کی نگرانی اپنے فرض کی ادائیگی اور اُن کی خیر خواہی میں کوتاہی کرتا ہے تو اُس کے مرنے پر اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت حرام کر دے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الاحکام باب من استرعی رعیۃ فلم ینصح۔ حدیث 7151)
پھر ایک روایت میں آتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی نے سوال پوچھاتو انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں وہ بات بتاتی ہوں جو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اس گھر میں کہتے ہوئے سنا تھا۔ یہ دعا کی قسم ہی بنتی ہے ایک۔ آپ نے فرمایا کہ اے اللہ !میری امت میں سے جسے بھی کسی معاملے کا ولی الامر بنایا گیا اور اُس نے اُمّت پر سختی برتی تو تُو بھی اُس کے ساتھ سختی کا سلوک فرمانا اور جسے میری اُمّت کے کسی معاملے کا ولی الامر بنایا گیا اور اُس نے اُمّت پر نرمی کی تو تُو بھی اُس پر نرمی کرنا۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فضیلۃ الامیر العادل وعقوبۃ الجائر… حدیث نمبر 4722)
تو یہ ہیں حُکّام کے سوچنے کی باتیں، سربراہوں کے سوچنے کی باتیں کہ اللہ کا سایۂ رحمت اگر چاہئے، مسلمان ہونے کا دعویٰ ہے تو یقینا یہ خواہش بھی ہو گی، تو پھر انصاف کرنا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ اگر بننا ہے تو ظلم بند کرنا ہوگا، ذاتی مفادات سے بالا ہو کر اپنے فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر جنت میں جانے کی خواہش ہے تو بِلا تفریق ہر ایک کی خیر خواہی کرنی ہو گی ورنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخ تمہاری جگہ ہے۔ اور پھر یہ جو آخری حدیث ہے، یہ دعا ہے کہ اے اللہ! جو سختی کرنے والا امیر ہے اُس پر سختی کر اور جو نرمی کرتا ہے تُو اُس پر نرمی کر۔ یہ دعا تو ایک ایمان رکھنے والے کو لرزا کے رکھ دیتی ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارے جو مسلمان حکمران ہیں ان کو عقل آئے اور یہ سوچیں اور سمجھیں۔ پھر عوام کو آپؐ نے کیا حکم دیا کہ حکمرانوں کے ساتھ تم نے کیسا سلوک کرنا ہے، کیا رویہ رکھنا ہے؟
حضرت زید بن وہب کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہؓ بن مسعود سے سنا وہ کہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میرے بعد دیکھو گے کہ تمہاری حق تلفی کر کے دوسروں کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ نیز ایسی باتیں دیکھو گے جن کو تم برا سمجھو گے۔ یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! پھر ایسے وقت میں آپؐ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اُس وقت کے حاکموں کو اُن کا حق ادا کرو۔ (یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود حاکموں کو اُن کا حق ادا کرو)اور تم اپنا حق اللہ سے مانگو۔ (صحیح البخاری کتاب الفتن باب قول النبیﷺ سترون بعدی اموراً تنکرونہا حدیث 7052)
پس یہ ہڑتالیں اور خون خرابہ جو ہے، یہ حقوق لینے جو ہیں اس کی تو اجازت نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ سے حق مانگا جائے تو اللہ تعالیٰ پھر ایسے فیصلے فرماتا ہے کہ دنیا کی نظر بھی وہاں نہیں پہنچ سکتی۔
پھر ایک روایت میں ہے، ایک صحابی نے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اگر ہم پر ایسے حکمران مسلط ہوں جو ہم سے اپنا حق مانگیں مگر ہمارا حق ہمیں نہ دیں تو ایسی صورت میں آپؐ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ (مجھ سے بھی جو عرب دنیا کے احمدی ہیں وہ پوچھتے رہتے ہیں ) تو رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض کیا۔ اُس نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ آپ نے پھر اعراض کیا۔ اُس نے دوسری یا تیسری دفعہ پھر اپنا سوال دہرایا جس پر اشعث بن قیس نے اُنہیں پیچھے کھینچا۔ یعنی خاموش کروانے کی کوشش کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سوال پسندنہیں آیا تم پیچھے آ جاؤ، نہ کرو یہ سوال۔ تب رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے حالات میں اپنے حکمرانوں کی بات سنو اور اُن کی اطاعت کرو۔ جو ذمہ داری اُن پر ڈالی گئی ہے اُن کا مؤاخذہ اُن سے ہو گا اور جو ذمہ داری تم پر ڈالی گئی ہے اُس کا مؤاخذہ تم سے ہوگا۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب فی طاعۃ الامراء وان منعوا الحقوق حدیث نمبر4782)
پھر ایک حدیث ہے۔ جنادہ بن ابی امیہ نے کہا کہ ہم عبادہ بن صامت کے پاس گئے۔ وہ بیمار تھے۔ ہم نے کہا اللہ تمہارا بھلا کرے۔ ہم سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سنی ہو، اللہ تم کو اُس کی وجہ سے فائدہ دے۔ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلا بھیجا۔ ہم نے آپ سے بیعت کی۔ آپ نے بیعت میں ہمیں ہر حال میں خواہ خوشی ہو یا نا خوشی، تنگی ہو یا آسانی ہو اور حق تلفی میں بھی یہ بیعت لی کہ بات سنیں گے اور مانیں گے۔ آپ نے یہ بھی اقرار لیا کہ جو شخص حاکم بن جائے ہم اُس سے جھگڑا نہ کریں سوائے اس کے کہ تم اعلانیہ اُن کو کفر کرتے دیکھو جس کے خلاف تمہارے پاس اللہ کی طرف سے دلیل ہو۔ (صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب وجوب طاعۃ الامراء فی غیر معصیۃ…حدیث 4771)
کفر ایسا جس کی دلیل واضح طور پر موجود ہونی چاہئے۔ یہ نہیں کہ کفر کے فتوے لگا دئیے جس طرح آجکل کے علماء لگا دیتے ہیں۔ حضرت ابوذرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، (حدیث قدسی ہے) کہ اے میرے بندو! میں نے اپنی ذات پر ظلم حرام کر رکھا ہے اور تمہارے درمیان بھی اُسے حرام کر رکھا ہے۔ پس تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم کتاب البر و الصلۃ و الآداب باب تحریم الظلم حدیث6572)
پس اگر خداتعالیٰ کے مؤاخذہ سے بچنا ہے تو اپنے فرائض ادا کرتے رہو، باقی حُکّام کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے اور دعاؤں میں لگے رہو۔
اور پھر اسی طرح جیسا کہ مَیں نے کہا حُکّام کا جو کفر ہے، یہ بھی واضح شرعی احکام کی واضح طور پر خلاف ورزی ہو تب نہیں ماننا۔ اپنی توجیہات نہیں دینی۔ جس طرح پاکستان میں مثلاً احمدیوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کلمہ نہیں پڑھنا، نماز نہیں پڑھنی، سلام نہیں کہنا۔ ہم مسلمان ہیں ہم یہ کہتے ہیں اور یہ ہمیں روکنے والے یہ شریعت کے احکام کی، قرآنِ کریم کے احکام کی خلاف ورزی ہم سے کروانا چاہتے ہیں، وہ نہیں کرنی۔ اس کے علاوہ جو ملکی قانون ہیں اُس کی پابندی کرنی ہے۔
پس تمام تعلیم کا خلاصہ یہ آخری حدیث میں ہے کہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ نہ حکام رعایا پر ظلم کریں، نہ رعایاحُکّام سے اپنا حق لینے کے لئے اُن پر کوئی ایسی کارروائی کرے جس سے ظلم ثابت ہوتا ہو۔ اب یہ کام حُکّام اور رعایا دونوں کا ہے کہ دیکھیں کیا وہ اس تعلیم پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا حُکّام جو ہیں انصاف کے اعلیٰ معیاروں کو چھو رہے ہیں؟ کیا اپنے ہر فیصلے پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بنا کر اُس کی تعلیم پر عمل کر رہے ہیں؟ اسی طرح کیا رعایا جو ہے سوائے کسی حاکم کے خدا تعالیٰ کے واضح شرعی احکامات کی خلاف ورزی کرنے کے حکم کے، جو باقی احکام ہیں اُس پر سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا کہہ کر عمل کرنے والی ہے؟ کیا ظالم حکمرانوں کے خلاف صرف اپنے رب کے سامنے رونے والے ہیں؟ اگر آج کوئی یہ کرنے والے ہیں تو شاید احمدیوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہو گا۔ اگر نہیں تو ہم پھر اس حالت میں اور اس زمانے میں واپس چلے جائیں گے جو ظَھَرَ الْفَسَادُ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْر کا زمانہ تھا۔ اور مسلمانوں پر یہ زمانہ آنا بھی تھا۔ قرآنِ کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانے میں بھی ایسے حالات ہی پیدا ہونے تھے۔ پس مسلمان حکمرانوں کو بھی اور رعایا کو بھی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ فسادوں کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کو تلاش کریں اور اُس کے دامن کو پکڑیں۔ شام کے لوگ خاص طور پر اور مسلمان عموماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صرف اسی الہام پر غور کر لیں کہ ’’بَلَاءُ دِمَشق‘‘ (تذکرہ صفحہ نمبر603ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ) تو اُن کو پتہ چل جائے گا کہ یہ پیشگوئی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اُس کی بات سنیں ورنہ اس زمانے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے کے علاوہ کوئی اور نہیں جو رہنمائی کرنے والا ہے۔ ملکوں کے ان رویوں کی وجہ سے جو مذہبی شدت پسند تنظیمیں ہیں یا مذہب کے نام پر اپنی حکومتیں قائم کرنے والی جوتنظیمیں ہیں، یہی فائدہ اُٹھائیں گی اور پھر جو آپس میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گاوہ تصور سے بھی باہر ہے۔
خدا تعالیٰ مسلمان رہنماؤں کو بھی عقل دے اور عوام کو بھی عقل دے۔ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے اس مضمون کو سمجھیں کہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَاتَّقْوٰی (المائدۃ: 3) کہ نیکی اور تقویٰ میں تعاون کرنے والے ہوں۔ نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنے والے ہوں، محبت کے پھیلانے والے ہوں، دلوں کو جیتنے والے ہوں۔ حکومت جوہے کبھی دلوں کو جیتے بغیر نہیں ہو سکتی۔ عوام کے حق ادا کئے بغیر نہیں ہو سکتی۔ ہر مسلمان لیڈر کو اس روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں کہ ایک زمانہ تو وہ تھا کہ جب عیسائی عوام مسلمان حکومت کے عدل و انصاف کو دیکھ کر یہ دعا کرتے تھے کہ ہمیں عیسائی حکمرانوں سے جلد چھٹکارا ملے اور ہم پھر مسلمانوں کی حکومت کے زیرِ سایہ آ جائیں اور کہاں آج یہ زمانہ ہے کہ مسلمان مسلمان سے بے انصافی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ (الفتح: 30) کے بجائے گردنیں کاٹی جا رہی ہیں۔ مسلمان عیسائی ملکوں میں امن سے رہنے کے لئے، پناہ لینے کے لئے دوڑ رہے ہیں، انصاف کے حصول کے لئے دوڑ رہے ہیں، آزادی سے رہنے کے لئے دوڑ رہے ہیں۔ کاش کہ مسلمان ممالک کے حکمران اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔ خدا کرے کہ کسی طرح ان تک ہمارا یہ پیغام پہنچ جائے۔ اسی طرح مغربی ممالک اور بڑی طاقتوں تک بھی یہ پیغام پہنچ جائے جو مَیں نے بتایا۔ جو کہ جیسا میں نے کہا کہ پہلے بھی مختلف ذرائع سے پہنچا چکا ہوں کہ بعیدنہیں کہ شام کے خلاف جو کارروائی ہے، یہ ملک سے نکل کر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے۔ پس ہر ملک میں رہنے والے احمدی کا اپنے ملک سے وفا کا یہ تقاضا ہے اور خاص طور پر ہر وہ احمدی جو ان مغربی ممالک میں رہ رہا ہے کہ ان سیاستدانوں کو آنے والی تباہی سے ہوشیار کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ دنیا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔ حاکموں اور رعایا کو اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ خانہ جنگی کو ختم کر کے اس تباہی سے بچیں۔ یورپ اور مغرب کے حکمرانوں کی بھی آنکھیں کھولے کہ وہ عدل اور انصاف سے کام لیں اور ظلم سے بچیں۔ ہر چھوٹے سے چھوٹے ملک کا بھی حق ادا کرنے کی کوشش کریں اور کسی ملک کی مدد ذاتی مفادات کے لئے نہ ہو، بلکہ حق کی ادائیگی کے لئے ہو۔ اللہ تعالیٰ افرادِ جماعت کو ان حالات کے ہر شر سے محفوظ رکھے۔ خاص طور پر شام میں تو بہت سارے احمدی متاثر ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شام کے بارے میں ایک انذاری الہام فرمایا تھا کہ ’’بلاء دمشق‘‘ تو جلد اس خوشخبری والے الہام کو بھی پورا فرما دے اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان پیدا فرمائے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یَدْعُوْنَ لَکَ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعِبَادُ اللّٰہِ مِنَ الْعَرَبِ یعنی تیرے لئے شام کے ابدال دعا کرتے ہیں اور عرب سے اللہ کے بندے دعا کرتے ہیں۔ (تذکرہ صفحہ نمبر100ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)
اللہ تعالیٰ کرے کہ سارا عرب جلد سے جلدمسیح محمدی کے جھنڈے تلے آنے والا ہو تا کہ عرب دنیا کی بے چینی جسے دنیا نے عرب سپرنگ (Arab Spring) کا نام دیا ہوا ہے یہ دنیاوی نہیں بلکہ روحانی فیض کا چشمہ بن جائے۔ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے دعائیں کرنے والے بن جائیں اور آپ کے ساتھ جڑ کر اسلام کی حقیقی تعلیم کو جو پیار اور محبت اور امن کی تعلیم ہے، دنیا میں پھیلانے والے بن جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ہماری ذمہ داریاں سمجھنے اور اُنہیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت جذب کرنے والے ہوں اور دنیا کی حق کی طرف ہمیشہ رہنمائی کرتے رہنے والے ہوں۔ امن اور انصاف کو قائم کرنے والے ہوں اور اس تعلیم کو پھیلانے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو بھی جنگ کی ہولناکیوں اور تباہیوں سے بچائے۔
اس وقت دنیا کے حالات بڑی تیزی سے تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور خاص طور پر شام کے حالات کی وجہ سے نہ صرف شام بلکہ عرب دنیا میں جو حالات ہیں اُس کی وجہ سے بہت زیادہ تباہی پھیل سکتی ہے۔ اگر شام کی جنگ میں بیرونی طاقتیں شامل ہوئیں تو پھر صرف عرب دنیا ہی نہیں بلکہ بعض ایشین ممالک کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچے گا۔ یہ جنگ صرف شام کی جنگ تک محدودنہیں رہے گی بلکہ یہ عالمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔
ہم احمدیوں کو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے بہت زیادہ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس دعا کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے ہم دنیا کو تباہی سے بچانے کی کوشش کر سکیں۔ ظاہری کوشش کے لحاظ سے ہم دنیا کو اور بڑی طاقتوں کو ان خوفناک نتائج سے ہوشیار کر سکتے ہیں جو ہم کر بھی رہے ہیں۔ مسلمان ممالک کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور عالمی حالات کا بصیرت افروز تجزیہ اور امن عالم کے قیام کے لئے اسلامی تعلیمات کو اپنانے کی طرف توجہ دینے کی تاکید۔
ہر ملک میں رہنے والے احمدی کا اپنے ملک سے وفا کا یہ تقاضا ہے اور خاص طور پر ہر وہ احمدی جوان مغربی ممالک میں رہ رہا ہے کہ ان سیاستدانوں کو آنے والی تباہی سے ہوشیار کریں۔ اسلامی تعلیم اور بالخصوص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات کے حوالہ سے حُکّام اور رعایا کو ظلم سے باز رہنے اور انصاف کو اپنانے کی بابت اہم نصائح کا تذکرہ۔
فرمودہ مورخہ 13ستمبر 2013ء بمطابق 13تبوک 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔