اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اعمال کی توفیق پانے کے لئے نصائح
خطبہ جمعہ 20؍ ستمبر 2013ء
فرمودہ حضرت مرزا مسرور احمد، خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
’’ہر شخص کو چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف کرے اور اللہ تعالیٰ کا خوف اُس کو بہت سی نیکیوں کا وارث بنائے گا‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’اصل بات یہ ہے کہ اچھا اور نیک تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی پرکھ سے اچھا نکلے۔ بہت لوگ ہیں جو اپنے آپ کو دھوکا دیتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ ہم متقی ہیں مگر اصل میں متقی وہ ہے جس کا نام اللہ تعالیٰ کے دفتر میں متقی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد3صفحہ629-630۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)
پس یہ وہ اہم نصیحت ہے جو اگر ہمارے سامنے ہو تو ہم اللہ تعالیٰ کے حقوق کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں اور اُس کے بندوں کے حقوق بھی اُس کا حق ادا کرتے ہوئے ادا کرنے والے ہوں۔ لیکن اگر ہم اپنے زُعم میں اپنے آپ کو عبادتیں کرنے والے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والے سمجھتے ہیں لیکن ان تمام باتوں میں کسی بھی قسم کی بناوٹ یا دکھاوا ہے یا ہم عبادتیں کر تو رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی مخلوق کا حق ادا نہیں کر رہے تو ایسی عبادتیں بھی خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول عبادتیں نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا نہیں بناتی جو ایک انسان کا عبادت کرنے کامقصد ہے۔ اس وقت مَیں آپ کے سامنے ایک لمبی روایت پیش کروں گا جو ایک نصیحت ہے یا وصیت کی صورت میں ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ؓ کو کی تھی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت معاذ سے فرمایا۔ یَا معَاذُ اِنِّیْ مُحَدِّثُکَ بِحَدِیْثٍ اِنْ اَنْتَ حَفَظْتَہٗ نَفَعَکَ۔ اے مُعاذ! میں تجھے ایک بات بتاتا ہوں، اگر تو نے اُسے یاد رکھا تو یہ تمہیں نفع پہنچائے گی اور اگر تم اُسے بھول گئے تو اللہ تعالیٰ کا فضل تم حاصل نہیں کر سکو گے اور تمہارے پاس نجات حاصل کرنے کے بارے میں اطمینان کے لئے کوئی دلیل باقی نہیں رہے گی۔ فرمایا کہ اے معاذ! اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے پہلے سات دربان فرشتوں کو پیدا کیا۔ یعنی روحانی بلندیوں تک پہنچنے کے سات درجے ہیں اور اس کے مطابق انسان وہاں تک پہنچتا ہے۔ اور ان فرشتوں میں سے ایک ایک کو ہر آسمان پر بطور بَوَّاب یعنی دربان کے طور پر مقرر کر دیا ہے۔ اُن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ تم اپنی اپنی جگہ پر رہو اور صرف اُن لوگوں کو یہاں سے گزرنے دو جن کے گزرنے کی ہم اجازت دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کی حفاظت کرتے ہیں اور اُن کا روزنامچہ لکھتے ہیں، خدا کے ایک بندے کے اعمال لے کر جو اُس نے صبح سے شام تک کئے تھے، آسمان کی طرف بلند ہوئے اور ان اعمال کو اُن فرشتوں نے بھی پاکیزہ سمجھا تھاکہ یہ بہت اچھے اعمال ہیں اور ان اعمال کو بہت زیادہ خیال کیا تھا لیکن جب وہ اعمال لے کر پہلے آسمان پر پہنچے تو انہوں نے دربان فرشتے سے کہا کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور ایک بندے کے اعمال پیش کرنے آئے ہیں یہ اعمال بہت پاکیزہ ہیں۔ تو اس فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ تمہیں آگے جانے کی اجازت نہیں۔ تم واپس لَوٹو اور جس شخص کے یہ اعمال ہیں اُنہیں اُس کے منہ پر مارو۔ دربان کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے یہاں یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ مَیں کسی غیبت کرنے والے بندے کے اعمال کو اس دروازے میں سے نہ گزرنے دوں اور یہ شخص جس کے تم اعمال خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے آئے ہو، یہ تو ہر وقت غیبت کرتا رہتا ہے۔ لوگوں کے پیچھے اُن کی باتیں کرتا رہتا ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف چڑھے۔ وہ فرشتے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ یہ اعمال بڑے پاکیزہ ہیں اور یہ بندہ اُنہیں بڑی کثرت سے بجا لا رہا ہے اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی شائبہ نہیں تھا اس لئے پہلے آسمان کے دربان اور حاجب فرشتے نے اُنہیں آگے گزرنے دیا۔ لیکن جب وہ دوسرے آسمان پر پہنچے تو اُس کے دربان فرشتے نے اُنہیں پکارا کہ ٹھہر جاؤ۔ واپس لوٹو اور ان اعمال کو ان کے بجا لانے والے کے منہ پر مارو۔ اُس فرشتے نے کہا کہ مَیں فخر و مباہات کا فرشتہ ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس لئے یہاں مقرر کیا ہے کہ مَیں کسی بندے کے ایسے اعمال کو یہاں سے نہ گزرنے دوں جن میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ ہو اور وہ اپنی مجالس میں بیٹھ کر بڑے فخر سے اپنی نیکی کو بیان کرنے والا ہو۔ یہ شخص جس کے اعمال لے کر تم یہاں آئے ہو، لوگوں کی مجالس میں بیٹھ کر اپنے ان اعمال پر فخر و مباہات کا اظہار کیا کرتا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر فرشتوں کا ایک اَور گروہ ایک اَور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا اور وہ ان فرشتوں کی نگاہ میں بھی کامل نور تھے، ایسے اعمال تھے جو بڑے چمکدار تھے۔ ان اعمال میں صدقہ و خیرات بھی تھا، روزے بھی تھے، نمازیں بھی تھیں اور وہ محافظ فرشتے تعجب کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ کا یہ بندہ کس طرح اپنے رب کی رضا کی خاطر محنت کر رہا ہے۔ اور چونکہ ان اعمال میں غیبت کا کوئی حصہ نہیں تھا، ان میں فخر و مباہات کا بھی کوئی حصہ نہیں تھا، اس لئے پہلے اور دوسرے آسمان کے دربان فرشتوں نے اُنہیں گزرنے دیا۔ لیکن جب وہ تیسرے آسمان کے دروازے پر پہنچے تو اُس کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ۔ اِضْرِبُوْا بِھَذَا الْعَمَلِ وَجْہَ صَاحِبِہٖ۔ کہ جس شخص کے یہ اعمال ہیں، تم خدا تعالیٰ کے حضور جن کو پیش کرنے جارہے ہو، اُس کے پاس واپس لے جاؤ اور ان اعمال کو اُس کے منہ پر مارو۔ فرشتے نے کہا کہ میں تکبر کا فرشتہ ہوں، مجھے تیسرے آسمان کے دروازے پر اللہ تعالیٰ نے یہ ہدایت دے کر کھڑا کیا ہے کہ اس دروازے سے کوئی ایسا عمل آگے نہ گزرے جس کے اندر تکبر کا کوئی حصہ ہو۔ اور یہ شخص جس کے اعمال تم اپنے ساتھ لائے ہو یہ بڑا متکبر ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے اور دوسروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان سے تکبّر اور اِباء کا سلوک کیا کرتا ہے۔ اور وہ اپنی مجالس میں گردن اونچی کر کے بیٹھنے والا ہے۔ اس کے اعمال گو تمہاری نظر میں اچھے نظر آ رہے ہیں لیکن وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک چوتھا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمان کی طرف بلند ہوا۔ وہ اعمال ان فرشتوں کو کَوْکَبٌ دُرِّیٌ ، یعنی روشن ستارے کی طرح خوبصورت معلوم ہوتے تھے۔ اُن میں نمازیں بھی تھیں، تسبیح بھی تھی، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا۔ وہ فرشتے یہ اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازے کے بعد دروازے سے گزرتے چوتھے آسمان کے دروازے پر پہنچے۔ تو اُس کے دربان فرشتے نے اُنہیں کہا ٹھہر جاؤ۔ تم یہ اعمال اُن کے بجا لانے والے کے پاس واپس لے جاؤ اور اُس کے منہ پر دے مارو۔ اُس فرشتے نے کہا کہ مَیں خود پسندی کا فرشتہ ہوں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ مَیں اُس شخص کے اعمال کو جس کے اندر عُجب پایا جاتا ہے، گویا وہ اپنے نفس کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتا ہو اور خود پسندی کا احساس اُس کے اندر پایا جائے اور اُس میں خدا تعالیٰ کی بندگی کا احساس نہ پایا جاتا ہو، اس چوتھے آسمان کے دروازے سے اُسے نہیں گزرنے دیا جا سکتا کیونکہ میرے رب کا مجھے یہی حکم ہے کہ یہ شخص جب کوئی کام کرتا تھا تو خود پسندی کو اُس کا ایک حصہ بنا دیتا تھا، اُس کے اعمال اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مقبول نہیں ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں کا ایک پانچواں گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا۔ ان اعمال کے متعلق ان فرشتوں کا خیال تھا کہ ’’کَاَنَّہُ الْعَرُوْسُ الْمَزْفُوْفَۃُ اِلٰی بَعْلِھَا‘‘ وہ ایک سجی سجائی سولہ سنگھار سے آراستہ دلہن کی طرح ہے جو خوشبو پھیلاتی ہے اور اپنے دولہا کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔ لیکن جب وہ چاروں آسمانوں پر سے گزرتے ہوئے پانچویں آسمان پر پہنچے تو اُس کے دربان فرشتے نے کہا کہ ٹھہر جاؤ، ان اعمال کو واپس لے جاؤ اور اس شخص کے منہ پر مارو اور اُسے کہہ دو کہ تمہارا خدا ان اعمال کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں کیونکہ میں حسد کا فرشتہ ہوں اور میرے خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ ہر وہ شخص جس کو حسد کرنے کی عادت ہو اُس کے اعمال پانچویں آسمان کے دروازے میں سے نہ گزرنے دوں گا۔ یہ شخص ہر علم حاصل کرنے والے اور نیک اعمال بجا لانے والے پر حسد کیا کرتا تھا۔ میں اس کے اعمال کو اس دروازے میں سے نہیں گزرنے دوں گا۔ کسی بھی عالم کو دیکھتا تھا، کسی بھی اچھے کام کرنے والے کو دیکھتا تھا تو حسد کرتا تھا۔ اس لئے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ یہاں سے گزر سکے۔
پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فرشتوں کا ایک چھٹا گروہ ایک اور بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوا اور پہلے پانچ دروازوں میں سے گزرتا ہوا چھٹے آسمان تک پہنچ گیا۔ یہ اعمال ایسے تھے جن میں روزہ بھی تھا، نماز بھی تھی، زکوٰۃ بھی تھی، حج اور عمرہ بھی تھا اور فرشتوں نے سمجھا کہ یہ سارے اعمال خدا تعالیٰ کے حضور میں بڑے مقبول ہونے والے ہیں لیکن جب وہ چھٹے آسمان پر پہنچے تو وہاں کے دربان فرشتے نے کہا ٹھہر جاؤ آگے مت جاؤ۔ اِنَّہٗ کَانَ لَا یَرْحَمُ اِنْسَانًا مِنْ عِبَادِاللّٰہِ۔ کہ یہ شخص خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے کسی بندے پر رحم نہیں کیا کرتا تھا اور خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں اس لئے کھڑا کیا ہے کہ جن اعمال میں بے رحمی کی آمیزش ہو میں اُنہیں اس دروازے سے نہ گزرنے دوں۔ تم واپس لوٹو اور ان اعمال کو اس شخص کے منہ پر یہ کہہ کر مارو کہ تمہارا اپنی زندگی میں یہ طریق ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے بندوں پر رحم کرنے کی بجائے ظلم کرتے ہو۔ خدا تعالیٰ تم پر رحم کرتے ہوئے تمہارے یہ اعمال کیسے قبول کرے۔ جب تم رحم نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ بھی تم پر رحم نہیں کرے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمان کے بعد آسمان اور دروازے کے بعد دروازے سے گزرتے ہوئے ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ ان اعمال میں نماز بھی تھی، روزے بھی تھے، فقہ اور اجتہاد بھی تھا اور وَرَع بھی تھا، (یعنی پرہیز گاری بھی تھی) اور فرمایا کہ لَھَا دَوِیٌّ کَدَوِیِّ النَحْلِ وَ ضَوْءٌ کَضَوْءِ الشَّمْسِ۔ کہ ان اعمال سے شہد کی مکھیوں کی آواز جیسی آواز آتی تھی یعنی وہ فرشتے گنگنارہے تھے کہ ہم بڑی اچھی چیز خدا تعالیٰ کے حضور میں پیش کرنے کے لئے جا رہے ہیں اور وہ اعمال سورج کی روشنی کی طرح چمک رہے تھے۔ اُن کے ساتھ تین ہزار فرشتے تھے۔ گویا وہ اعمال اتنے زیادہ اور بھاری تھے کہ تین ہزار اُن کے خوان کو اُٹھائے ہوئے تھے۔ جب وہ ساتویں آسمان کے دروازے پر پہنچے تو دربان فرشتے نے جو وہاں مقرر تھا کہا ٹھہرو، تم آگے نہیں جا سکتے تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اُس شخص کے منہ پر مارو اور اُس کے دل پر تالا لگادو کیونکہ مجھے خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ مَیں اُس کے حضور ایسے اعمال پیش نہ کروں جن سے خالصۃً خدا تعالیٰ کی رضا مطلوب نہ ہو اور اُن میں کوئی آمیزش ہو۔ اُس شخص نے یہ اعمال غیر اللہ کی خاطر کئے۔ یہ شخص فقیہوں کی مجالس میں بیٹھ کر اور فخر سے گردن اونچی کر کے تفقّہ اور اجتہاد کی باتیں کرتا ہے تا اُن کے اندر اُسے ایک بلند مرتبہ اور شان حاصل ہو۔ اس نے یہ اعمال میری رضا کی خاطر نہیں کئے، بلکہ محض لاف زنی کے لئے کئے ہیں۔ وَ ذِکْرًا عِنْدَ الْعُلَمَائِ وَصِیْتًا فِی الْمَدَائِنِ۔ اُس کی غرض یہ تھی کہ وہ دنیا میں ایک بڑے بزرگ کی حیثیت سے مشہور ہوجائے، علماء کی مجالس میں اُس کا ذکر ہو۔ وہ کام جو خالصاً خداتعالیٰ کے لئے نہ ہو اور اُس میں ریاء کی ملونی ہو، وہ خداتعالیٰ کے حضور مقبول نہیں۔ فرشتے نے کہا کہ مجھے حکم ملا ہے کہ میں ایسے اعمال کو آگے نہ گزرنے دوں۔ تم واپس جاؤ اور ان اعمال کو اُس شخص کے منہ پر دے مارو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور فرشتے ایک بندے کے اعمال لے کر آسمانوں کی طرف بلند ہوئے اور ساتوں آسمانوں کے دربان فرشتوں نے اُنہیں گزرنے دیا۔ اُنہیں ان اعمال پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ہرآسمان کا جو دربان تھا اُس نے کہا کہ اس کے اعمال ٹھیک ہیں، ظاہری لحاظ سے بالکل ٹھیک ہیں، گزرنے دیا۔ ان اعمال میں زکوٰۃ بھی تھی، روزے بھی تھے، نماز بھی تھی، حج بھی تھا، عمرہ بھی تھا، اچھے اخلاق بھی تھے، ذکرِ الٰہی بھی تھا اور جب وہ فرشتے ان اعمال کو خداتعالیٰ کے حضور میں لے جانے کے لئے روانہ ہوئے تو آسمانوں کے فرشتے اُن کے ساتھ ہو لئے اور وہ تمام دروازوں میں سے گزرتے ہوئے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ گئے۔ وہ فرشتے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا: اے ہمارے رب! تیرا یہ بندہ ہر وقت تیری عبادت میں مصروف رہتا ہے اور ہم اس کے ہر عمل کی، نیک عمل کی، اخلاص کی گواہی دیتے ہیں۔ وہ بڑی نیکیاں کرتا ہے اور اپنے تمام اوقاتِ عزیزہ کو تیری اطاعت میں خرچ کر دیتا ہے۔ یہ بڑا ہی مخلص بندہ ہے۔ اس میں کوئی عیب نہیں ہے۔ غرض انہوں نے اس شخص کی بڑی تعریف کی۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا۔ اَنْتُمُ الْحَفَظَۃُ عَلیٰ عَمَلِ عَبْدِیْ کہ تمہیں تو میں نے اعمال کی حفاظت اور اُنہیں تحریر کرنے کے لئے مقرر کیا ہے، تم صرف انسان کے، اس بندے کے، ظاہری اعمال کو دیکھتے ہو اور اُنہیں لکھ لیتے ہو۔ پھر فرمایا وَأَنَا الرَّقِیْبُ عَلیٰ قَلْبٍ کہ میں اپنے بندے کے دل کو دیکھتا ہوں۔ اس بندے نے یہ اعمال بجا لا کر میری رضا نہیں چاہی تھی بلکہ اس کی نیت اور ارادہ کچھ اور ہی تھا۔ وہ میرے علاوہ کسی اَور کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ فَعَلَیْہِ لَعْنَتِیْ۔ اس پر میری لعنت ہو۔ اس پر تمام فرشتے پکار اُٹھے۔ عَلَیْہِ لَعْنَتُکَ وَ لَعْنَتُنَا کہ اے ہمارے رب! اس پر تیری بھی لعنت ہے اور ہماری بھی لعنت ہے۔ اور اس پر ساتوں آسمانوں اور اُن میں رہنے والی ساری مخلوق نے اس پر لعنت کرنی شروع کر دی، یا اس پر لعنت کرنی شروع کر دے گی۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت یا نصیحت کو سنا تو آپ کا دل کانپ اُٹھا۔ آپ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کَیْفَ لِیْ بِالنَّجَاۃِ وَالْخَلَاصِ۔ یا رسول اللہ! اگر اعمال کا یہ حال ہے تو ہمیں کیسے نجات حاصل ہو گی؟ اور میں اپنے رب کے قہر اور غضب سے کیسے نجات پاؤں گا؟
آپ نے فرمایا۔ ’’اِقْتَدِ بِیْ‘‘ کہ تم میری سنت پر عمل کرو اور اُس پر یقین رکھو کہ خدا تعالیٰ کا ایک بندہ خواہ کتنے ہی اچھے عمل کیوں نہ کر رہا ہو، اُس میں ضرور بعض خامیاں رہ جاتی ہیں۔ اس لئے تم اپنے اعمال پر ناز نہ کرو بلکہ یہ یقین رکھو کہ ہمارا خدا اور ہمارا مولیٰ ایسا ہے کہ وہ ان خامیوں کے باوجود بھی اپنے بندوں کو معاف کر دیا کرتا ہے۔ وَحَافِظْ عَلیٰ لِسَانِکَ۔ اور دیکھو اپنی زبان کی حفاظت کرو اور اس سے کسی کو دکھ نہ پہنچاؤ۔ کوئی بری بات اُس سے نہ نکالو۔ وَلَا تُزَکِّ نَفْسَکَ عَلَیْھِمْ۔ اور اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ متقی اور پرہیزگار نہ سمجھو اور نہ اپنی پرہیزگاری کا اعلان کرو۔ وَلَا تُدْخِلْ عَمَلَ الدُّنْیَا بِعَمَلِ الْاٰخِرَۃِ اور جو عمل تم خدا تعالیٰ کی رضا اور اخروی زندگی میں فائدہ حاصل کرنے کے لئے کرتے ہو اُس میں دنیا کی آمیزش نہ کرو۔ وَلَا تُمَزِّقِ النَّاسَ فَیمَزَّقُکَ کِلَابُ النَّارِ۔ اور لوگوں میں فتنہ و فساد پیدا کرنے اور اُنہیں پھاڑنے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم ایسا کرو گے تو قیامت کے دن جہنم کے کتیّ تمہیں پھاڑ دیں گے۔ وَلَا تُرَاءِ بِعَمَلِکَ النَّاس اور اپنے عمل ریاء کے طور پر دنیا کے سامنے پیش نہ کیا کرو۔ اگر یہ کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل بھی تم پر ہیں۔ (روح البیان جلد1صفحہ78تا80 سورۃ البقرۃ زیر آیت نمبر22دارالکتب العلمیۃ بیروت 2003ء) (الترغیب والترھیب للمنذری جلد اول صفحہ54تا56باب الترھیب من الریاء وما یقولہ من خاف شیئاً منہ حدیث نمبر57دارالحدیث قاہرہ 1994ء)
پس حقیقی نیکیوں کی توفیق اور مقبول نیکیوں کی توفیق بھی اُسی وقت ملتی ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہمارے سامنے ہو۔ آپ باوجود کامیابیوں کی بشارتوں کے بڑے درد کے ساتھ اپنی اور اپنی جماعت کی کمزوریوں کو سامنے رکھتے ہوئے دعائیں کیا کرتے تھے۔ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائیں قبول بھی کیں، آئندہ کی بھی بشارتیں دے دیں۔ پھر بھی سجدوں میں تڑپ کر اور بے چینی سے دعا کیا کرتے تھے اور جب اس تڑپ کی وجہ پوچھی جاتی تھی تو فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تو غنی ہے، ایک تو اس کا خوف ہے۔ دوسرے کیوں نہ اللہ تعالیٰ کے جو فضل مجھ پر ہوئے ہیں مَیں اُس کا شکرگزار بنوں۔ اللہ تعالیٰ نے کتنے ہی انعامات سے نوازا ہے اور اُمّت کے لئے کتنے وعدے دئیے ہیں۔ اس پر میں کیوں نہ شکرگزاری کروں۔ پس یہ وہ اُسوہ ہے جو آپ نے ہمارے سامنے پیش فرمایا۔
حقوق العباد کا سوال ہے تو دنیاوی غرضوں سے پاک ہو کر بلا تخصیص ہر ایک کے آپ کام آ رہے ہیں، ہر ایک کی مالی مدد فرما رہے ہیں۔ جو سوالی بھی آیا ہے اُس سوال کرنے والے کا سوال پورا فرما رہے ہیں۔ ہر ایک آپ کے رحم میں سے حصہ لے رہا ہے۔ ہر ایک آپ کے پیار اور شفقت سے فیض پا رہا ہے۔ پس آپ نے فرمایا اس طرح اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اُس کی عبادت کرو جس طرح مَیں کرتا ہوں، اُس کے عبدِ شکور بنو جس طرح مَیں شکر گزاری کرتا ہوں۔ اس طرح عبدِ رحمن بنو جس طرح میں حق ادا کرتا ہوں۔ جس طرح میں نے یہ نمونے قائم کئے ہیں تو تم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہو گے۔ اسی طرح جس طرح میں نے حقوق العباد کی ادائیگی کی ہے، اگر تم میرے اُسوہ پر چلتے ہوئے بے غرض اور بے نفس ہو کر اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق ادا کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے والے بن جاؤ گے۔ اگر صرف اپنی نیکیوں پر یہ سمجھتے ہوئے کہ مَیں بہت نیکیاں کر رہا ہوں، اپنی عبادتوں پر ہی اکتفا کرو گے یا اُنہی پر انحصار کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔
پس سنت پر چلنے، آپ کے ُاسوہ پر عمل کرنے کے لئے ہمیں اپنے نفسوں کے جائزے لینے ہوں گے۔ خدا تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اُس کا فضل مانگنا ہو گا کہ پتہ نہیں کونسا ہمارا عمل وہ معیار حاصل بھی کر رہا ہے یا نہیں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عملوں کو اپنی رضا کے مطابق بھی بنائے اور پھر محض اور محض اپنے فضل سے اُنہیں قبول بھی کر لے۔ ہمارے عمل ایسے نہ ہوں جو دنیا کی ملونیوں کی وجہ سے ہمارے منہ پر مارے جانے والے ہوں۔ ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ ہم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی جنت کو حاصل کرنے والے ہوں اور اپنے ہر عمل کو اُس کی رضا کے مطابق ڈھال کر اِس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کا فیض پانے والے ہوں اور آنے والی زندگی میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کی جنت کے وارث ہوں۔ اللہ تعالیٰ محض اور محض اپنے فضل سے ہماری یہ دعائیں قبول فرمائے۔
اس وقت مَیں جمعہ کی نماز کے بعد چند غائب جنازے بھی پڑھاؤں گا۔ ایک تو ایک شہید کا جنازہ ہے اور دو دوسرے وفات یافتگان ہیں۔ جو ہمارے شہید ہیں، مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب ابن مکرم بشیر احمد کیانی صاحب اور نگی ٹاؤن کراچی کے، ان کی 18؍ستمبر کو شہادت ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کو اور نگی ٹاؤن میں نامعلوم افرادنے فائرنگ کر کے شہید کر دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب 18؍ستمبر 2013ء کی صبح ساڑھے سات بجے موٹر سائیکل پر ملازمت کے لئے روانہ ہوئے، گھر سے نکلے۔ ابھی کچھ دُور ہی گئے تھے کہ دیکھنے والوں کے مطابق، عینی شاہد کے مطابق ایک سپیڈ بریکر پر جب موٹر سائیکل کی رفتار کم ہوئی تو دو موٹر سائیکل سوار آپ کے قریب آئے اور دو گولیاں آپ کی بائیں پسلیوں کے قریب فائر کیں جس سے آپ موٹر سائیکل سے نیچے گر گئے اور گرنے کے بعد اُٹھنے کی کوشش کی جس پر حملہ آوروں نے سامنے کی طرف سے آپ پر فائر کئے۔ خود کو بچانے کے لئے بایاں ہاتھ انہوں نے آگے کیا جس پر حملہ آوروں نے آپ کے ہاتھ پر فائر کیا اور پھر آپ کے سینے پر تین گولیاں فائر کیں۔ جب آپ گر گئے تو آپ کے سر پر پیچھے سے بھی ایک گولی فائر کی جس کی وجہ سے آپ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر شہید ہو گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
گزشتہ ماہ 21؍اگست کو آپ کے بہنوئی محترم ظہور احمد کیانی صاحب کو بھی اس علاقہ میں شہید کیا گیا تھا۔ مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب شہید کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے والد کے دو چچا مکرم محمد یوسف کیانی صاحب اور مکرم محمد سعید کیانی صاحب کے ذریعہ ہوا۔ آپ دونوں کو 1936ء میں بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ان کے والد کے دونوں ہی چچا بڑے صاحب علم تھے، علم دوست تھے۔ انہوں نے باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد بیعت کی توفیق حاصل کی تھی۔ شہید مرحوم کے خاندان کا تعلق پریم کوٹ مظفر آباد آزاد کشمیر سے تھا۔ شہید مرحوم یکم دسمبر 1984ء کو کراچی میں پیدا ہوئے اور کراچی میں ہی انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ پھر پانچ سال قبل پاکستان ملٹری آرڈیننس میں بطور سویلین ڈرائیور ملازمت اختیار کی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر 29سال تھی۔ شادی 2009ء میں ثوبیہ صاحبہ سے ہوئی جو راجہ عبدالرحمن صاحب آف کوٹلی کشمیر کی بیٹی تھیں۔ شہید مرحوم انتہائی مخلص، صلح جُو، نرم خُو اور خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ جماعتی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ تعاون کرتے تھے۔ جب کسی ڈیوٹی کے لئے بلایا جاتا تو ہمیشہ اطاعت کا مظاہرہ کرتے۔ ان کے بھائی مکرم اعزاز احمد کیانی صاحب نے بتایا کہ شہادت سے ایک روز قبل اپنے بہنوئی مکرم ظہور احمد کیانی صاحب شہید کے ذکر پرآبدیدہ ہو گئے۔ ظہور کیانی صاحب شہید کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور بڑے بھائی اور باپ کا مقام دیا کرتے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا کہ آپ نے اُن کے گھر جا کر اُن کے بچوں کی خیریت نہ معلوم کی ہو۔ اُن کی شہادت کا ان پربڑا گہرا اثر تھا۔ شہید مرحوم کی والدہ نے بتایا کہ چار بہنوں کے بعد بہت دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ بیٹا عطا فرمایا تھا۔ سوچ سمجھ کے بات کیا کرتا تھا، میرے ساتھ انتہائی پیار اور عقیدت کا تعلق تھا، ڈیوٹی پر جاتے ہوئے ہاتھ ملا کر خدا حافظ کہہ کر جاتا تھا۔ میری دوائی کا خاص خیال رکھتا تھا۔ بہنوں کا اس طرح خیال رکھتا جیسے بڑا بھائی ہو۔ بہت نرم طبیعت تھی۔ جب بھی گھر میں کوئی چیز لاتا تو خواہش ہوتی کہ سب کو دوں۔ ان کی اہلیہ کہتی ہیں کہ شہید مرحوم بہت اچھی طبیعت کے مالک تھے۔ ہر ایک کا فرض ادا کیا۔ اچھے بیٹے، اچھے بھائی، اچھے باپ اور اچھے شوہر تھے۔ کہتی ہیں جب بھی میں کبھی پریشان ہوتی تو پھر تسلی دلاتے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتے۔ بچوں کے ساتھ انتہائی شفقت کا سلوک کرتے، ان کے بہنوئی کی جو شہادت ہوئی ہے گزشتہ ماہ، تو بار بار کہتے رہے کہ کاش میں ان کی جگہ ہوتا۔ شہید مرحوم نے والدین، پسماندگان میں والدین کے علاوہ اہلیہ محترمہ، ایک بیٹی عزیزہ درّ عدن اعجاز عمر چار سال اور ایک بیٹا برہان احمد عمر ڈیڑھ سال سوگوار چھوڑے ہیں۔ کراچی میں حالات اس لحاظ سے خاص طور پر بہت خراب ہیں۔ لگتا ہے کہ ایک ٹولہ ہے جو احمدیوں کی ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لئے خاص طور پر مقرر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی پکڑ کے بھی جلد سامان پیدا فرمائے۔ اصل میں تو مولوی اور اُن کی ہمنوائی میں حکومت کی شہ پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ظالم گروہ کی بھی جلد پکڑ کے سامان پیدا فرمائے۔ دعاؤں کی بہت زیادہ ضرورت ہے، کراچی میں خاص طور پر زیادہ حالات خراب ہیں لیکن عموماً پاکستان میں بھی حالات بہت خراب ہیں، لاہور میں بھی اسی طرح کئی جگہ کئی احمدیوں کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی، مارنے کی کوشش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ سب احمدیوں کو وہاں اپنی حفظ و امان میں رکھے۔
دوسرا جنازہ جو آج اس کے ساتھ ادا کیا جائے گا، وہ مکرم عبدالحمید مومن صاحب درویش ابن مکرم اللہ دتہ صاحب کا ہے جو قادیان کے درویش تھے۔ 11؍ستمبر 2013ء کو مختصر علالت کے بعد 97 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
1916ء میں سندھ میں پیدا ہوئے تھے۔ پھر اُس کے بعد جڑانوالہ فیصل آباد آگئے، آپ کی پرورش وہاں ہوئی، وہیں تعلیم و تربیت پائی۔ غالباً 1945 ء میں دینی تعلیم کے حصول کے لئے قادیان آ گئے تھے۔ یہیں پہلی شادی ہوئی لیکن پارٹیشن کی وجہ سے قائم نہ رہ سکی تو اس سے کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ دوسری شادی دورِ درویشی میں اڑیسہ میں مکرم سید شفیق الدین صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پوتی اور مکرم سید محي الدین صاحب مرحوم کی بڑی بیٹی امۃ اللہ فہمیدہ صاحبہ سے ہوئی۔ ان کے بطن سے آٹھ بچے پیدا ہوئے۔ پانچ بیٹے اور تین بیٹیاں۔ آپ کے پانچوں بیٹے سلسلہ کی خدمت بجا لا رہے ہیں۔ آپ نے اپنی درویشانہ زندگی نہایت سادگی اور بڑے صبر و تحمل کے ساتھ گزاری۔ دوکانداری اور مختلف کام کر کے گزارہ کرتے تھے۔ دفتر زائرین میں خدمت بجا لا تے رہے۔ غیر مسلموں کو بڑے شوق سے تبلیغ کرتے تھے۔ آپ نے دیہاتی مبلغ کی حیثیت سے بھی خدمت کی توفیق پائی۔ اسی دور میں ادیب فاضل کی ڈگری بھی حاصل کی۔ صوم و صلوٰۃ کے بڑے پابند، مخلص اور باوفا انسان تھے اور کمزوری کے باوجود بھی آخری عمر تک باجماعت نماز کھڑے ہو کر ادا کیا کرتے تھے۔ قرآنِ کریم سے بہت شغف تھا۔ باقاعدگی سے تلاوت کرنے والے تھے، مرحوم موصی بھی تھے۔
تیسرا جنازہ ہے مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب کا جو مختصر علالت کے بعد 12؍ ستمبر کو 94 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ آپ نے 1943ء میں 24سال کی عمر میں احمدیت قبول کی تھی۔ آغاز میں دہلی کے امریکی سفارتخانے میں بطور کلرک ملازمت کی، پھر 1946ء میں پہلے لاہور پھر ایک سال کے بعد کراچی منتقل ہو گئے جہاں چوہدری شاہ نواز صاحب کے پاس ادویات کی درآمد کا کام شروع کیا۔ اور پھر رہنے کی جگہ نہیں تھی ان کی تو دفتر میں سو جایا کرتے تھے۔ 1950ء میں چوہدری شاہ نواز صاحب کی مدد سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت برکت عطا فرمائی۔ دنیاوی تعلیم صرف میٹرک تھی لیکن بظاہر بڑے پڑھے لکھے لگتے تھے اور ہر کوئی یہی سمجھتا تھا کہ یہ کافی تعلیم یافتہ ہیں۔ 1950ء میں نائب امیر کراچی مقرر ہوئے۔ 1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو وقتی طور پر چوہدری عبداللہ خان صاحب کی جگہ امیر جماعت کراچی مقرر کیا۔ چوہدری صاحب سرکاری ملازم تھے اور امکان تھا کہ انہیں ملازمت سے ہٹا دیا جائے گا۔ تاہم اس کے بعد چوہدری صاحب کی علالت کے باعث آپ بطور امیر کراچی کام کرتے رہے۔ 1964ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔ جو کراچی کی تاریخ احمدیت لکھی گئی ہے اُس میں لکھا ہے کہ 1953ء کے فسادات میں حضرت مصلح موعودنے کراچی میں بھی ایک علیحدہ صدر انجمن احمدیہ قائم فرمائی تھی، اس کا ناظرِ اعلیٰ بھی آپ کو مقرر فرمایا تھا۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طویل علالت کے زمانے میں جو نگران بورڈ قائم ہوا تھا اس کے بھی آپ ممبر رہے۔ خلافت کے وفادار، صاف گو، دیانتدار، بہت دعا کرنے والے اور مالی قربانی کرنے والے انسان تھے۔ سخی دل اور مخلص انسان تھے۔ خلافت کے بعد میرے سے انہوں نے بہت تعلق رکھا اور ان کو ہمیشہ بڑا احساس تھا اور ذرا ذرا سی تکلیف کا احساس کیا کرتے تھے۔ دوستوں، عزیزوں اور ضرورتمندوں کی مالی امداد بھی کیا کرتے تھے۔ آپ کا حلقہ احباب کافی وسیع تھا۔ دوست احباب تمام دنیا میں پھیلے ہوئے تھے۔ اور تعلقات کی وسعت کی وجہ سے تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔ اللہ کے فضل سے آپ موصی تھے۔ آپ کے ایک صاحبزادے ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب لمبے عرصے سے صدر جماعت کلیو لینڈ اور نائب امیر امریکہ ہیں۔ اور جماعتی ویب سائٹ جو ہے alislam.org اُس کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمت کر رہے ہیں۔ ان کے دوسرے بیٹے شیخ فرحت اللہ صاحب نائب امیر فیصل آباد ہیں، اسی طرح پاکستان میں مرکز کے صنعت و تجارت مشاورتی بورڈ کے صدر بھی ہیں۔ ان کی ایک صاحبزادی جمیلہ رحمانی صاحبہ یہاں لجنہ میں خدمات بجا لاتی رہیں۔ ان کے میاں غلام رحمانی صاحب بھی یہاں یوکے میں بڑا عرصہ سیکرٹری وصایا رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی چھوٹی بیٹی ندرت ملک صاحبہ ہیں جو صدر لجنہ کولمبس اور صدر لجنہ ایسٹ مڈ ویسٹ ریجن امریکہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مرحومین کے درجات بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر کی توفیق عطا فرمائے، خاص طور پر اُس شہید کے والدین کو جن کا جوان بیٹا شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اُن کو صبر اور حوصلہ عطا فرمائے اور اُس کے وہ جو چھوٹے بچے ہیں خداتعالیٰ اُن کا بھی کفیل ہو، اُن کو اپنی حفاظت میں رکھے اور اپنی امان میں رکھے۔
دوسری بات یہ کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں چند ہفتوں کے لئے دورے پر جا رہا ہوں۔ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے یہ دورہ بابرکت فرمائے اور جو مقاصد ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو اپنے فضل سے پورا فرمائے۔
ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عملوں کو اپنی رضا کے مطابق بھی بنائے اور پھر محض اور محض اپنے فضل سے اُنہیں قبول بھی کر لے۔ ہمارے عمل ایسے نہ ہوں جو دنیا کی ملونیوں کی وجہ سے ہمارے منہ پر مارے جانے والے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کے حوالہ سے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اعمال کی توفیق پانے کے لئے نصائح اور اس سلسلہ میں در پیش خطرات کی نشاندہی۔
مکرم اعجاز احمد کیانی صاحب آف کراچی کی شہادت۔ مکرم عبد الحمید مومن صاحب درویش قادیان اور مکرم شیخ رحمت اللہ صاحب آف کراچی کی وفات۔ مرحومین کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب۔
فرمودہ مورخہ 20ستمبر 2013ء بمطابق 20تبوک 1392 ہجری شمسی، بمقام مسجد بیت الفتوح۔ لندن
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! جب جمعہ کے دن کے ایک حصّہ میں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرتے ہوئے بڑھا کرو اور تجارت چھوڑ دیا کرو۔ یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔